Ek Bhai aur char Behnen - Episode 5

ایک بھائی اور چار بہنیں 

قسط 5




نورین آپی مجھ سے لپٹ گئیں . اب ایک اور امتحان مجھے درپیش تھا . ان کے تو بوبز بھی ٹائیٹ تھے اور میرے اندر تباہی مچانے پہ تلے ہوئے تھے . بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ پہ قابو پایا تھا ورنہ دل تو چاہتا تھا ابھی ان بوبز پہ ٹوٹ پڑوں . مگر مجھے اپنی بہنوں کا اعتبار بحَال رکھنا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے اِِس اعتبار کو ٹوٹنے نہیں دینا تھا . ویسے بھی میں دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ ان سے قربت بس ان کی مرضی اور خوشی کے مطابق ہی ہو گی اور جس حد تک وہ چاہیں گی اس سے میں ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔

میں : اب بس کر دیں . کیوں میرے اندر کے شیطان کو جگانے پہ تل گئی ہیں . ویسے بھی آپ اتنی سیکسی ہیں کہ بس 

نورین آپی ہنستے ہوئے میرے کندھے پہ ایک مکا رسید کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہو گئیں تو میری بھی جان میں جان آئی . مہرین آپی بھی میرے ان کمنٹس پہ ہنس رہی تھیں . ظاہر ہے نورین آپی کے بوبز کو انہوں نے اکثر فیل کیا ہو گا اور وہ جانتی تھیں کہ ایسے ٹائیٹ قسم کے بوبز کسی لڑکے کے جذبات میں کیسی ہلچل مچاسکتے ہیں اتنے میں کمرے کے باہر امبرین کی آواز سنائی دی جو مجھے پکُار رہی تھی . ثمرین بھی یقینا اس کے ساتھ ہی تھی کیونکہ وہ دونوں تو ایک دوسری کا سایہ تھیں . کبھی الگ ہوتی ہی نہیں تھیں . میں نے آواز دے کے اسے بتایا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں ادھر ہی آ جاؤ .

ثمر ین : آپ تینوں یہاں ہیں . ہمیں بھی بلا لیا ہوتا . کتنی دیر سے بور ہو رہی ہیں . اور بھائی آپ تو موبائل لینے آئے تھے نا کمرے میں ؟اتنی دیر لگتی ہے موبائل اٹھا کے جیب میں ڈالنے میں ؟ 

ثمرین کی شکایت پہ میں نے مسکراتے ہوئے مہرین آپی اور نورین آپی کی طرف دیکھا تو وہ دونوں ایک بار پھِر ہنس پڑیں اِِس عجیب سی صورتحال کو اب وہ بھی انجوئے کرنے لگی تھیں۔

میں : بیٹھ جاؤ گڑیا . آج ہماری محفل یہیں جمے گی . تم میں سے کسی نے انگلش فلمیں تو نہیں دیکھی ہوں گی نا . میں آج تم چاروں کو ایک انگلش فلم کی کہانی سناتا ہوں . وہ دونوں انتہائی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے میرے پلنگ پہ مجھ سے جڑ کے بیٹھ گئیں . مہرین آپی اور نورین آپی بھی اِس بار فاصلہ رکھنے کی بجائے میرے پلنگ پہ ہی میرے سامنے بیٹھ گئیں اور پھِر میں نےایک ایڈونچر فلم کی کہانی سنانی شروع کر دی . وہ چاروں اِس کہانی میں یوں گم ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نا رہا . اسٹوری ختم کر کے ہم سب نے ایک ساتھ وال کلاک کی طرف دیکھا جس پہ دن کے 11 بج رہے تھے .

مہرین آپی : بس بھائی مجھے تو اب جانا ہے . امی آج کل مجھے كھانا پکانے میں ماہر کرنے پہ تلی ہوئی ہیں . کل کو جب باورچیخانے (کچن ) کی ذمہ داری مجھ پہ آ جائے گی تو پِھر میرے ہی ھاتھوں کے کھانے تم سب کو زہر مار کرنا پڑیں گے۔

امبرین: ارے نہیں آپی . اتنا اچھا تو آپ پکا لیتی ہیں . امی نے بتایا تھا کہ رات کو شامی کباب آپ نے ہی بنائے تھے . اتنے اچھے بنے تھے قسم سے . مجھے تو اتنے اچھے لگے تھے کہ اکٹھے 3 کھا گئی تھی . امبرین کی اِِس معصومانہ حوصلہ افزائی پہ ہم سب مسکرا دیئے . پھِر مہرین آپی اٹھ گئیں تو نورین آپی بھی ساتھ ہی چلی گئیں . امبرین اور ثمرین بھی دلچسپی محسوس کر كے ان کے ساتھ ہی چلی گئیں تو میں کمرے میں اکیلا رہ گیا . پھِر میں نے سوچا کہ کمرے میں بور ہونے کی بجائے شہر کا ایک چکر لگا لینا چاہئے . کچھ شاپنگ ہی ہو جائے . بہنوں کے لیے بھی کچھ لینے کو دل چاہ رہا تھا . سو امی سے اجِازت لے کے جیپ نکالی اور شہر کی طرف چل پڑا .شہر کی ایک مشہور بوتیک میں مجھے کچھ ریشمی ڈریسز بہت اچھے لگے تو میں نے چاروں بہنوں کے لیے خریدنے کا فیصلہ کر لیا . ان ڈریسز کی یہ خاصیت تھی کہ قمیض کی بیک سائڈ پہ 3 ڈوریاں لگی ہوئی تھیں جن سے سائز ایڈجسٹ ہو جاتا تھا یعنی اگر فٹنگ زیادہ کرنی ہو تو سمپلی پیچھے سے ڈوریاں ٹائیٹ کر لو اور فٹنگ ہوگئی

سیلز گرل سے پوچھنے پہ پتا چلا کہ یہ ڈریسز 3رنگوں ( ریڈ ، گرین اور بلو ) میںمیسر تھے اور ہر رنگ میں 4 ،  4 اِس وقت موجود تھے . میں نے بنا کچھ بھی مزید سوچے سمجھے ان سب کو خرید کے پیک کروا لیا . ریڈ کلر کے ڈریسز میں نے الگ پیک کروائے اور باقی دونوں کلرز کے ڈریسز کو اِس طرح پیک کروایا کہ ایک گرین اور ایک بلو ڈریس کو ایک پیکنگ میں رکھتے ہوئے 4  شاپنگ بیگ الگ پیک کروا لیے۔ ریڈ ڈر یسز کو میں نے کسی خاص دن کے لیے الگ رکھا تھا۔ باقی دونوں کلرز کے ڈریسز میں انہیں آج ہی دے دیتا . اسی لیے میں نے ریڈ کلر کے ڈریسز کسی کو نا دکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے الگ پیک کروایا تھا . گھر پہنچ کے میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور ریڈ ڈریسز والا شاپنگ بیگ نیچے والے خانے میں رکھ کے لوک کر دیا .جب کہ باقی چاروں شاپنگ بیگس اوپر والے خانے میں ہی رہنے دیئے. اپنے لیے جو ڈریسز میں نے لیے تھے وہ میں نے شاپنگ بیگس سے نکال کے اپنے ڈریسز میں رکھ دیئے . اِس کام سے فارغ ہو کے میں ابھی کمرے سے نکلنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ امبرین اور ثمرین کو کمرے میں آتے دیکھ کے رک گیا . وہ مجھے دوپہر کے کھانے کے لیے بلانے آئی تھیں . میں ان کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا اور امی اور ہم پانچوں بہن بھائی نے ایک ساتھ كھانا کھایا . کھانے كے بعد جب امی اٹھ گئیں تو میں نے چاروں بہنوں کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا اور ان کو لے کے اپنے کمرے میں آ  گیا . پھِر الماری کھول کے میں نے چاروں کو ان کے ڈریسز والے شاپنگ بیگس دے دیے .

میں : میری طرف سے تم چاروں کے لیے تحفہ . اپنے لیے شاپنگ کرنے گیا تھا تو لیڈیز سیکشن میں یہ ڈریسز مجھے بے حد اچھے لگے. سو میں نے تم چاروں کے لیے لے لیے

 مہرین آپی ڈریسز نکلتے ہوئے  یہ تو دونوں ہی ریشمی ہیں . خاصے مہنگے ہوں گے نا ؟

میں : تحفے کی قیمت نہیں دیکھی جاتی آپی .

امبرین : بہت شکریہ بھائی . ہمارے پاس تو ریشمی کپڑے تھے ہی نہیں  امی لے کے ہی نہیں دیتی ہیں 

ثمرین : جی بھائی . بہت اچھے ہیں . میں تو آج ہی پہنوں گی . ہیں نا امبرین ؟ 

امبرین : ہاں اور کیا . مگر امی کو پتا نہیں چلنا چاہیے . کیا پتا انہیں ہمارا ریشمی کپڑے پہننا اچھا نا لگے ..

نورین آپی : امبرین ٹھیک کہہ رہی ہے . امی کو واقعی ہمارا ریشمی کپڑے پہننا اچھا نہیں لگے گا . اسی لیے آج تک لے کر نہیں دیئے مہرین آپی : تم دونوں اپنی سالگرہ پہ پہن لینا . اگلے مہینے ہی تو آ رہی ہے تم دونوں کی سالگرہ اور پھِر لڑکیوں نے ہی تو دیکھنا ہے .امی منع نہیں کریں گی مہرین آپی کا مشورہ دونوں کو پسند آیا اور وہ اپنے ڈریسز اپنے کمرے میں رکھنے چلی گئیں . اب کمرے میں میرے علاوہ مہرین آپی اور  نورین آپی رہ گئی تھیں .

 

میں : آپی آخر وجہ کیا ہے ؟ امی آپ سب کو ریشمی کپڑے کیوں نہیں لے کر دیتی ہیں ؟ 

مہرین آپی : وہ ٹھیک ہی کرتی ہیں سنی . ہم چاروں اب جوان ہو چکی ہیں . اِس عمر میں اپنے جذبات پہ قابو رکھنا ویسے ہی بڑا مشکل ہوتا ہے . ہر وقت دل چاہتا ہے کوئی ہمیں دیکھنے اور سراہنے والا ہو ، جو ہمارے حسن کی تعریف کرے . اور اِِس طرح کے کپڑے تو ویسے بھیان جذبات میں ہلچل مچا دیتے ہیں . اِِس لیے شاید ہم دونوں تو یہ کپڑے نا پہن سکیں . ان دونوں کی تو خیر ہے . ابھی معصوم اور نا سمجھ ہیں . ابھی اِِس عذاب سے واقف نہیں ہیں جس سے ہمیں دو چار ہونا پڑتا ہے۔

میں : آپ شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں آپ کے کسی کام کا نہیں ہوں . آپ کی کسی بھی خواہش کو پوُرا کرنے کی اہلیت مجھ میں نہیں ہے . آپ کی زندگی میں کسی بھی قسم کی کمی ہو ، میں اسے پوری نہیں کر  سکتا ہے نا ؟

مہرین آپی:  میری باتوں پہجھنجھلا کر  تم ہمارے بھائی ہو سنی 

میں : دوست بھی تو بن سکتا ہوں . اور دوست سے تو اپنی ہر ضرورت کہہ دیا کرتے ہیں . بنا کسی جھجک کے . اپنا راز کھلنے کا خوف بھی نہیں ہوتا . کیا میں آپ دونوں کا دوست نہیں بن سکتا ؟ ایک بار آزما کے تو دیکھیں . آپ کی ہر خواہش پوری نا کر دوں تو میرا وجود بھلا کس کام کا ؟

نورین آپی :  کسی قدر گھبراتے ہوئے  ٹی ٹی . . ٹی ٹی . . تم . . .  کہنا کیا چاہتے ہو ؟

میں : اپنا ہر دکھ مجھے سونپ دیں ،اپنی ہر خواہش مجھ سے کہہ ڈالیں . آپ کی ہر خواہش پوری کرنا میری ذمہ دا ری . 

مہرین آپی :  غصے سے  یعنی ہم تمہارے ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں میں : آپی آپ نے صباء کی باتوں کا بھی غلط مطلب ہی لیا تھا اور اب میری باتوں کا بھی غلط مطلب ہی لے رہی ہیں . میں نے اپنی خواہشات کا نہیں آپ کی خواہشات کا کہا ہے . اور ظاہر ہے آپ کی خواہش یہ تو نہیں ہو سکتی کہ آپ میرے ہاتھوں کا کھلونا بن كے رہ جائیں . اور یہ تو میں بھی کبھی نہیں چاہوں گا . میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ میری بہنوں کے دل میں کوئی حسرت نا رہ جائے 

نورین آپی : تم سچ کہہ رہے ہو نا ؟ ہماری کسی کمزوری کا فائدہ تو نہیں اٹھاؤ گے ؟ دیکھو ہم ایسی لڑکیاں نہیں ہیں۔

مہرین آپی : ہاں . . . اگر تم واقعی سچ کہہ رہے ہو تو قسم کھا کے کہو کہ کبھی ہماری کسی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے . ہمیں اپنے نفس کی تسکین کا ذریعہ نہیں سمجھو گے۔

میں : آپ میری بہنیں ہیں آپی . کوئی طوائف نہیں ہیں کہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے آپ کو استعمال کروں گا . پھِر بھی آپکی یقین دہانی کےلیے میں قسم کھاتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے نفس کی تسکین کے لیے آپ چاروں میں سے کسی کو بھی استعمال نہیں کروں گا . ہمارے درمیان جو بھی ہو گا وہ بس آپ کی خواہش کی تکمیل ہو گی . چاھے وہ میرے لیے کتنی بھی مشکل ہو۔

نورین آپی : مکر تو نہیں جاؤ گے ؟

میں : آزما كے دیکھ لیں۔

مہرین آپی : ہچکچاتے ہوئے اگر میں کہوں کہ . . . نورین کے سامنے . . . . میرے ہونٹوں کو چوموں تو . . . 

مہرین آپی کیبات سن کے جہاں میں اندر ہی اندر ایکسایٹڈ ہو رہا تھا وہاں نورین آپی کا رنگ اڑُنے لگا تھا . ہم دونوں میں سے کسی کو بھی مہرین آپی سے اِِس بات کی امید نہیں تھی۔

میں : پہلے ان دو بیچاریوں کو اندر بلا لیں جو کب سے باہر کھڑی ہماری پرائیویٹ قسم کی باتیں ختم ہونے کا انتظار کر رہی ہیں . میری بات سن کے دونوں ایک ساتھ چلا اٹھیں " کیا 

" . . . . . . . . . . . مہرین آپی : تمھیں کیسے پتا ؟ تم نے  دیکھا ہے انہیں ؟ 

نورین آپی : آپی اگر انہوں نے کچھ سن لیا ہوا تو . . . ہماری ان کی نظروں میں کیا عزت رہ گئی ہو گی ؟ 

میں : ظاہر ہے تھوڑا بہت تو سنا ہی ہو گا . وہ دونوں صرف کپڑے رکھنے اپنے کمرے میں گئی تھیں . اِس کام میں اتنی دیر نہیں لگتی کہ اب تک واپسی نا ہو سکتی ہو . یقینا وہ باہر ہی کھڑی ہیں . شاید ہماری باتیں سن لینے کے بعد ہچکچا رہی ہیں کہ اندر جانا چاہیے یا نہیں .میری بات سن کے دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا اور پھِر صورت حال کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ كے رونے  لگیں



جاری ہے

*

Post a Comment (0)