Ek Bhai aur char Behnen - Episode 4

ایک بھائی اور چار بہنیں

قسط 4




جا رہی تھی جس پہ مجھے ترس آنے لگا .

میں : ارے آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں ؟ میرا موبائل نہیں مل رہا . میں نے شاید یہیں کہیں رکھا تھا . آپ ٹانگیں اٹھائیں گی تو شاید مل جائے کیونکہ میں اسی جگہ بیٹھا ہوا تھا . ویسے آپ کو اپنی ٹانگوں کے نیچے کچھ محسوس نہیں ہوا ؟ 

آپی : ہاں . . . ہاں . . . شاید کچھ ہے . . لیکن پلیز مجھے چھونا نہیں. میں دوسری طرف ہو جاتی ہوں . تم اپنا موبائل ڈھونڈ کے چل جانا 

میں : ہاں تو میں کونسا آپ کو چھو رہا ہوں . آپ کو چھونا ہوتا تو آپ سے ٹانگیں اٹھانے کو کیوں کہتا ؟ مجھے پتا ہے آپ مجھ پہ کس قسم کا شک کرتی ہیں . اسی لیے تو آپ کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور آپ سے ٹانگیں اٹھانے کو کہا تھا۔ میری بات سن کے وہ اتنی شرمندہ ہوئی کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں، پھِر بھی خود کو سنبھا لتے ہوئے وہ پلنگ کی دوسری طرف ہوئی تو میرا موبائل سامنے ہی پڑ ا نظر آ گیا جسے اٹھا کے میں نے اپنی پاکٹ میں ڈال لیا اور شکوہ بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل کے سامنے اپنے کمرے میں چلا آیا۔ فل حال ان كے لیے اتنا شوک کافی تھا

----------------------------------------


اگلی صبح ناشتے پہ مہرین آپی میرے سامنے والی کرسی پہ بیٹھی تھیں اور خاصی شرمندہ اور پہلے سے زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں . ناشتہ کرتے ہوئے ان کے ھاتھوں کی کپکپاہٹ امی اور ابو نے بھی نوٹ کی تھی اور ان کے پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ رات کو بدہضمی کی وجہ سے ایک دو بار قے کی تھی جس سے کمزوری ہو گئی ہے . امی نے فور ا ایک ملازمہ سے ہاضمے کا چورن منگوا كے تھوڑا سا آپی کی ہتھیلی پہ ڈالا جسے انہیں مجبورا كھانا پڑا۔

 میں جانتا تھا کہ انہیں کوئی بدہضمی کا مسئلہ نہیں تھا . اصل بدہضمی تو مجھ سے شرمندگی تھی اور اب میں سمجھ رہا تھا کہ ان کی اصل پریشانی بھی یہی ہے کہ مجھ سے معافی کیسے مانگیں گی۔ ناشتے كے بعَد میں جان بوجھ کے اپنا موبائل لینے کے بہانے اپنے کمرے میں چلا آیا اور دروازہ کھلا چھوڑ کے خوامخواہ اپنی الماری کھول کے کپڑے ادھر ادُھر کرنے لگا . کچھ ہی دیر بعَد میرے اندازے کی تصدیق دروازے پہ ہونے والی دستک نے کر دی . کھلے دروازے کے عین درمیان وہ سرَ جھکائے کھڑی تھیں اور آنسو ان کی گالوں پہ پھسل رہے تھے۔

میں : آپی اِِس وقت کمرے میں اور کوئی نہیں ہے . آپ بعَد میں آئیے گا جب آپ میرے ساتھ اکیلی نا ہوں 

آپی : اب اور کتنا شرمندہ کرو گے سنی . معاف کر دو نا . وہ . . .صباء نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی كہ . .

میں : کیا کہا تھا صباء نے ؟ یہ کہ میں لوفر لفنگا ہو چکا ہوں اور کسی لڑکی کی عزت مجھ سے محفوظ نہیں ہے ، اِس لیے آپ بھی مجھ سے بچ  کے رہیں ؟ یا یہ کہا تھا کہ میں ایک عادی عورت باز ہوں اور یہاں اپنی عادت آپ سے پوری کروں گا اور موقع ملتے ہی آپ کی عزت لوٹ لوں گا؟ یا یہ کہا تھا کہ میری نظر میں بہن بھائی کا رشتہ کوئی معنی نہیں رکھتا ، جب بھی آپ سے تنہائی میں ملا آپ پہ ٹوٹ پڑوں گا ؟ ایسا ہی کچھ  کہا تھا صباء نے ؟

 آپی : نن . . . . . . . ں . نہیں سنی . اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا . وہ . . . وہ تو . . . . . . . اب کیسے بتاؤں 

میں : مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے مزید کچھ جاننے میں . آپ چلی جائیں . ورنہ اگر نورین آپی نے دیکھ لیا تو آپ کو تو ابھی تک شک ہے ، انہیں یقین ہو جائے گا کہ میں ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا . 

آپی : سنی . . . خدا کے لیے اب معاف بھی کر دو . میں ڈر گئی تھی کہ کہیں صباء نے تمھیں کچھ الٹا سیدھا . . . خدا کی قسم میں ایسی نہیں ہوں . میرا دامن بے داغ ہے۔ میرا کسی کے ساتھ . . . کوئی . . . کچھ نہیں ہے . . بس میں ڈر رہی تھی کہ کہیں صباء کی بات سن کے تم مجھے ایسی ویسی لڑکی نا سمجھ لو . . . مجھے لگا تم یا تو مجھ سے نفرت کا اظہار کرو گے یا پھِر مجھ سے فائدہ اٹھانے کی . . . کوشش کرو گے . . بس اسی لیے میں تم سے کترا رہی تھی. نورین کو بتایا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ ڈر گئی . اسے تو لگتا تھا کہ تم اتنا عرصہ ایک آزاد ملک كے بے راہ رو لوگوں میں رہ کے رشتوں کا تقدس بھی بھول چکے ہو گے . کہیں میرے ساتھ ساتھ اسے بھی ایسی لڑکی سمجھ کے . . . . لیکن خدا کی قسم ہم دونوں ایسی نہیں ہیں سنی . ہم نے تو کبھی کسی کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی . بس ایک غیر محسوس سی غلطی میری آنكھوں سے ہو گئی تھی جس کا احساس مجھے صباء کے ٹوکنے پہ ہوا . یقین کرو اس کے بعَد تو میں اور نورین چھت پہ بھی نہیں گئیں .

میں : میں نے آپ سے کوئی صفائی نہیں مانگی آپی . 22 دن سے آپ کے سامنے ہوں . کچھ کہا آپ سے میں نے ؟ اب بھی میں اِِس کے سوا کچھ نہیں کہہ رہا کہ آپ اِس وقت اکیلی ہیں. کسی کے ساتھ آئیے گا یا جب میرے ساتھ کوئی اور ہو تب آئیے گا . اب جائیے اگر نورین آپی نے دیکھ لیا تو ان کا شک یقین میں بََدل جائے گا . بلکہ وہ تو یہ سمجھیں گی کہ میں نے آپ کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے . میری تو خیر ہے مگر آپ ان کی نظروں سے گر جائیں گی۔ اور میں یہ نہیں چاہتا۔

آپی : اب اور کتنا ذلیل کرو گے سنی ؟ اب کیا پاؤں پڑوں تمہارے کیسے اپنی شرمندگی کا اظہار کروں کہ تمھیں یقین آ جائے ؟ میں خود نورین سے بات کروں گی . اسے سمجھاؤں گی کہ تم ایسے نہیں ہو جیسا ہم نے سمجھا تھا . خدا كے لیے ایک بار میرا یقین کر لو۔

میں : ٹھیک ہے . میں نے آپ کو معاف کیا . میرا خدا بھی آپ کو معاف کرے . اب جائیے یہاں سے . نورین آپی آ گئیں تو آپ کی ہر صفائی دھری رہ جائے گی . میرا کریکٹر ویسے ہی بڑا مشکوک ہے .

آپی : بس دھکے دینے کی کسر رہ گئی ہے . اپنی بہن کو کسی بھائی نے اپنے کمرے سے یوں کبھی نہیں نکالا ہو گا۔

میں : مجبوری ہے . اگر آج پکڑا گیا تو کل کون مجھ پہ یقین کرے گا ابھی تو آپ کو جانا ہی ہو گا

آپی : ٹھیک ہے جا رہی ہوں . کبھی تو کمرے سے باہر نکلو گے . باہر تو کوئی شک نہیں کر ے گا . مگر یہ بات میں نے ایک بار تو ضرور صاف کرنی ہے. چاھے تم کتنا ہی ذلیل کر لو . اپنی طرف سے تمہارا ذہن ضرور صاف کرنا ہے۔

 میں : ضرور . جب آپ چاہیں .

آپی کسی حد تک مطمئن ہوتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئیں . اب تک جتنی بھی باتیں ہمارے درمیان ہوئی تھیں وہ انہوں نے دروازے کے پاس ہی کھڑی ہو کے کی تھیں . نا انہیں اندر آنے کی ہمت ہوئی تھی نا میں نے انہیں اندر آنے دیا تھا . ان کے جانے کے بعَد میں بھی اپنی الماری بند کر کے باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا تو مہرین آپی ایک بار پھِر اندر آ رہی تھیں . اور اِِس بار ان كے پیچھے نورین آپی بھی تھیں . گویا نورین آپی نے ہماری پوری یا ادھوری باتیں سن لی تھیں اور اگر انہوں نے ادھوری باتیں سنی تھیں تو یہ زیادہ خطرناک بات تھی کہ اِِس طرح ان کا شک اور بھی مضبوط ہو جاتا . اور یہ جاننے کا فوری طریقہ میرے ذہن میں موجود تھا۔

میں : ارے نورین آپی آپ ؟ تو مہرین آپی نے آپ کو بھی منا ہی لیا . میں نے منع بھی کیا تھا کہ نورین آپی کو ابھی پتا نہیں چلنا چاہئے مگر . . .  خیر . . اب تو آپ کو بھی . .. . 

نورین آپی : میرے سامنے زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے . میں نے سب کچھ سن لیا ہے . یہ جب تمہارے کمرے میں پہنچی تھیں تومیں بھی ان کے پیچھے پیچھے آ رہی تھی . پھِر تم دونوں کی باتیں سننے کے لیے جان بوجھ کے باہر کھڑی رہی تھی . اور خدا کا شکر ہے کہ سچ جلدی سامنے آ گیا . میری بھی غلط فہمی دور ہو گئی . اب مجھے بھی تم سے کوئی ڈر ، خوف ، کوئی شکایت نہیں . نورین آپی کی بات سن کے میں نے بھی دل ہی دل میں شکر کیا . دل سے جیسے ایک بوجھ سا ہٹ گیا تھا اور میں تھوڑا اور بھی ریلکس ہو گیا تھا۔

میں : ارے آپ غلط سمجھ رہی ہیں نورین آپی . مہرین آپی اور میں جان بوجھ کے ایسی باتیں کر رہے تھے کہ اگر کوئی سن لے تو ہمیں غلط نا سمجھے ورنہ یہاں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا۔

نورین آپی : ہاں ہاں جانتی ہوں . مہرین آپی دروازے کے پاس کھڑی تھیں اور تم اپنی الماری میں کچھ تلاش کرنے کا ناٹک کر رہے تھے۔ دیکھ چکی ہوں میں جو بھی چل رہا تھا یہاں . اتنی آسانی سے میری بھی غلط فہمی دور نہیں ہوئی . میں نے جھانک کے دیکھا تھا اور میرے تمام شک دور ہو گئے تھے۔

میں : آپ پتا نہیں کیا سمجھ رہی ہیں آپی . میں تو مہرین آپی کا شک دور کر کے آپ کو پٹانے کے پلان بنا رہا تھا . آپ ویسے بھی ان سے زیادہ سیکسی اور اٹریکٹوِ ہیں . میں نے سوچا تھا پہلے آپ کو اپنے جال میں پھنسا لوں . پھِر مہرین آپی خود ہی مان جائیں گی میں نے یہ بات نورین آپی کے پاس جا کے ان کے کان میں اِس طرح کہی تھی کہ قریب کھڑی مہرین آپی بھی پوری بات سن سکتی تھیں اور یقینا انہوں نے سن بھی لی تھی . تبھی تو انہوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تھا .

نورین آپی : اچھا ؟ پہلے بتانا تھا نا۔ میں آپی کے جانے کا انتظار کر لیتی اور پھِر تمہارے پاس آتی . پھِر ہم جو چاھے کر لیتے . مگر اب بھی کیا بگڑا ہے ؟ آپی کو تو ویسے بھی سب پتا چل ہی گیا ہے . تم نے میرے ساتھ جو بھی کرنا ہے ان کے سامنے بھی کر لو گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا . انہوں نے کونسا کسی کو بتانا ہے۔ بعَد میں ان کا چانس بھی تو بن رہا ہے نا۔

میں تو ویسے ہی دونوں کو تنگ کرنے کے لیے ان کی ٹانگ کھینچ رہا تھا مگر اب نورین آپی نے جوابی حملہ کیا تو مجھے سنبھل جانا پڑا . لوفر پن کی اتنی کامیاب اداکاری کر رہی تھیں کہ اگر مجھے پہلے سے سب کچھ پتا نا ہوتا تو میں یہ سب سچ سمجھ لیتا . مہرین آپی بھی پاس کھڑی مسکراتے ہوئے نورین کا جوابی حملہ انجوئے کر رہی تھیں۔

میں : بس میں نے ہار مان لی . آپ ٹانگ کھینچنے میں میری بھی استاد ہیں . آئندہ میری توبہ جو آپ سے پنگا لوں۔ 

مہرین آپی : اب جب کوئی غلط فہمی نہیں رہی تو ہم گلے مل سکتے ہیں نا ؟ سچ کتنا دل چاہتا تھا اپنے بھائی سے گلے ملنے کو مگر. . . . ہم سے تو اچھی وہ چھوٹی دونوں ہی رہیں جنہیں کسی کا ڈر خوف بھی نہیں تھا . سب کے سامنے گلے بھی لگ جاتی ہیں اور اپنی فرمائشیں بھی منوا لیتی ہیں .

مہرین آپی کے دل کی حسرت نے مجھے بھی اندر سے تڑپا کے رکھ دیا تھا مگر میں اِِس خوشگوار ماحول کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اِِس لیے جان بوجھ کے اپنے چہرے پہ گھبراہٹ طاری کر لی .

میں : ارے نہیں آپی . وہ دونوں تو معصوم ہیں . بے ساختگی میں جو بھی کرتی اور کہتی ہیں ، ان پہ بس پیار ہی آتا ہے . مگر آپ دونوں . . . . آپ دونوں پہ پیار آیا تو گڑبڑ ہو جائے گی . ویسے بھی آپ دونوں کچھ زیادہ ہی . . . کہیں میں بہک گیا تو

مہرین آپی : مجھے نہیں پتا . مجھے تم سے گلے ملنا ہے تو بس ملنا ہے 

.یہ کہتے ہوئے مہرین آپی نے آگے بڑھ کے میرے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کے یوں جکڑا جیسے سارے گزرے برسوں کی کسر نکالنا چاہتی ہوں . ان کے سیکسی بوبز میرے سینے سے دب کے میرے اندر طوفان مچا رہے تھے جنہیں میں بڑی مشکل سے اندر دبانے میں کامیاب ہوا تھا۔کچھ دیر بعَد وہ میرے گال پہ کس کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہوئی تو 





جاری ہے

*

Post a Comment (0)