ایک بھائی اور چار بہنیں
قسط 3
نظروں سے نا دیکھتے ہوئے سیکس کی نظروں سے تو نہیں دیکھ رہا . جبکہ ثمرین اور امبرین ان باتوں سے انجان اپنی معصومانہ بے ساختگی سے مجھ سے جڑی بیٹھی تھیں . انہیں یہ پرواہ ہی نا تھی کہ وہ دونوں بھی اب جوان ہو گئی ہیں اور اپنے جوان بھائی سے لگی بیٹھی ہیں . میں ان کے لیے شاید ابھی تک بھائی ہی تھا ، ابھی انہیں شاید کسی جوان لڑکے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی . اور یہ ان كے لیے بہت اچھی بات تھی کہ ابھی تک وہ اپنی فطری خواہشات کی تڑپ اور نفس کی طلب سے بچی ہوئی تھیں .اپنی چھوٹی بہنوں کی معصومیت کے ذکر سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ بڑی دونوں بہنوں کی نگاہوں میں غلاظت یا گندگی آ چکی تھی یا وہ سیکس کی آگ میں تڑپ رہی تھیں یا مجھے سیکس کی بھوکی نظروں سے دیکھ رہی تھیں، نہیں ایسا ہرگز ہرگز نہیں تھا . مشرق کی وہ بیٹیاں ابھی تک مشرقی ہی تھیں اور اپنی شرم و حیا کو انہوں نے ابھی تک رخصت نہیں ہونے دیا تھا . انہوں نے مجھے اب تک کسی اور نظر سے ہرگز نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے ہر اندازِ سے گھبراہٹ جھلک رہی تھی کہ کہیں میں تو انہیں اِِس نظر سے نہیں دیکھ رہا . اور مجھے ان کا یہ گریز ، یہ گھبراہٹ اچھی لگ رہی تھی . اپنی بہنوں کی شرافت پاکیزگی نے مجھے متاثر کیا تھا . نفسانی خواہشات تو ان کی بھی ہوں گی مگر انہوں نے ابھی تک اپنے نفس کو بے لگام نہیں ہونے دیا تھا . اور اور مجھے یہی کوشش کرنی تھی کہ نفس ان پہ اتنا حاوی نا ہو جائے کہ وہ اپنی شرم و حیا رخصت کر بیٹھیں۔
اگر فطری تقاضے انہیں کچھ زیادہ ہی بے قابو کر دیتے تو مجھے ان کا رخ اپنی طرف موڑنا تھا . ورنہ تب تک انہیں صرف ایک بھائی، ایک ہم عمر دوست کی رفاقت مہیا کرنی تھی . ان کے پرابلمز شیئر کرنے تھے ، ان پرابلمز کا سلوشن نکلنا تھا اور ان کی گھبراہٹ دور کرتے ہوئے انہیں مجھ پہ اعتبار کرنے پہ مجبور کرنا تھا۔ اور اعتبار کبھی ایک دن میں قائم نہیں ہوتا . اِس کے لیے طویل کوشش اور عمل کرنا پڑتا ہے . اور مجھے اِس کا آغاز آج سے ہی کرنا تھا
ہماری باتوں کی محفل اسی حال کمرے میں رات ہونے تک جاری رہی . پھِر امی اباّ نے ہم سب کو سونے کا حکم دے کے اٹھا دیا تو میں بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا . مگر اب مجھے اپنا کمرہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ کونسا ہے . حویلی میں ویسے ہی بہت سے کمرے تھے اور اتنے برسوں بعَد آنے کی وجہ سے میں الجھ سا گیا تھا کس کمرے کا رخ کروں
اتنے میں قریب سے مہرین آپی گزریں تو مجھے دیکھ کے رک گئیں اور پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو . کمرے میں کیوں نہیں جاتے ؟
میں نے بتایا کہ میں کمرہ بھول گیا ہوں تو کچھ دیر تو مجھے شک بھری نظروں سے دیکھتی رہیں پھِر مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کے آگے بڑھ گئیں . ایک ہی رو میں آمنے سامنے بنے ہوئے 8 کمروں میں سے میرا کمرہ سب سے آخر میں دائیں طرف تھا . مہرین آپی نے کمرے کی طرف اشارہ کیا تو میں ان کا گریز محسوس کرتے ہوئے تھینکس کہہ کے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا .
دروازہ کھولتے ہوئے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ سامنے والے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں . اگلے ہی لمحے ان کے کمرے کا لوک لگنے کی آواز آئی تو مجھے شرمندگی سی ہونے لگی . وہ مجھ سے اتنا گھبرا گئی تھیں کہ اپنے کمرے کا دروازہ بھی کھلا نہیں چھوڑا تھا کہ کہیں میں دروازہ کھلا دیکھ کے کوئی بری حرکت نا کر گزروں . یہ بے اعتباری کی انتہا تھی . اور میں نے ان کا اعتبار بحَال کرناتھا اِس لیے چپ چاپ اپنے کمرےمیں داخل ہو گیا اور اپنے پلنگ پہ لیٹ گیا کافی دیر تک کافی دیر تک نیند نہیں آئی اور میں صباء کے ساتھ گزرا وقت یاد کرتا رہا . ہمارا کئی برسوں کا ساتھ تھا جس کا ہر لمحہ ایک خوشگوار یاد بن کے ہمیشہ کے لیے میرے تصور کی اسکرین پہ نقش ہو چکا تھا . انہی خوشگوار یادوں کو تصور میں لیے نا جانے ۔کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا
اگلی صبح امبرین اور ثمرین کے جھنجھوڑنے پہ ہی میری آنکھ کھلی . 8 بج چکے تھے اور آدھے گھنٹے میں ناشتہ لگنے والا تھا . اور باتتو مجھے شروع سے ہی یاد تھی اور کل رات کو امی نے بھی بتایا تھا کہ صبح کا ناشتہ 8:30 پہ سب اکٹھے کرتے ہیں . میں نے فٹافٹ اٹھ کے باتھ روم کا رخ کیا اور نہا دھو کے کپڑے تبدیل کر کے باہر نکل آیا . امبرین اور ثمرین وہیں بیٹھی میری منتظر تھیں . ان کے ساتھ میں کھانے کے کمرے میں پہنچا تو امی اباّ کے علاوہ بڑی دونوں بہنیں بھی آ چکی تھیں۔
كھانا لگ چکا تھا اور شاید ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا .ناشتے کے بعَد اباّ جان زمینوں پہ نکل گئے اور امی نے صحن میں ارد گرد کے گھروں سے آنے والی خواتیں کی محفل جمالی امبرین اور ثمرین کے اصرار پہ میں ان کے ساتھ ان کے کمرے کی طرف چل پڑا تو دونوں بڑی بہنیں بھی پیچھے پیچھے چلی آئیں . شاید انہیں مجھ پہ شک تھا کہ میں کوئی نا کوئی غلط حرکت ضرور کروں گا۔ ان کے ساتھ نہیں تو چھوٹی بہنوں کے ساتھ ہی سہی . مگر میرے دل میں کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اِس لیے میں نے ان کی پرواہ ہی نہیں کی اور امبرین اور ثمرین کے ساتھ ان کے کمرے میں پہنچ گیا۔ یہاں دو پلنگ اور ایک بڑے صوفے کے علاوہ کارپیٹ پہ 6 کاوچ بھی پڑے ہوئے تھے . میں ان ہی میں سے ایک پہ بیٹھ گیا اور وہ دونوں بھی میرے دائیں بائیں کاوچ پہ بیٹھ گئیں . مہرین آپی اور نورین آپی نے صوفے پہ نشست جمالی اور میری نگرانی کا فرض پورا کرنے لگیں . میں نے اپنی اور صباء کی بچپن کی شرارتوں کے واقعات سنانے شروع کر دیے اور امبرین اور ثمرین دلچسپی سے سننے لگیں . بار بار ان کی ہنسی کسی پھُلجھڑی کی طرح چھوٹ جاتی تھی اور کمرے میں جیسے زندگی سی دوڑ جاتی تھی
مہرین آپی اور نورین آپی بھی کافی دیر سنجیدہ رہنے كے بعَد آخر کار ان باتوں پہ ہنسنے لگیں تو مجھے بھی اطمینان سا ہوا . ان کی خوامخواہ کی سنجیدگی اور گھبراہٹ مجھے بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی . اور اب جبکہ وہ دونوں بھی دلچسپی لے رہی تھیں اور میری اور صباء کی شرارتوں کو سن کے ہنس رہی تھیں تو مجھے بھی اب سنانے میں مزہ آنے لگا تھا
کافی دیر تک میں اپنے پرانے قصے سناتا رہا اور پھِر بول بول کر میرا گلا خشک ہونے لگا تو امبرین میرے لیے پانی لینے چلی گئی اور ثمرین ڈرائی فروٹس لینے امی کی طرف کمرے میں اب میر ے علاوہ بس دونوں بڑی بہنیں ہی تھیں جو میرے ساتھ اکیلی رہ جانے پہ ایک بار پھِر گھبرانے لگی تھیں . آخر میں نے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا
میں : آپ دونوں تو مجھ سے یوں گھبرا رہی ہیں جیسے میں کھا جاؤں گا آپ کو یقین کریں میں آدم خور نہیں ہوں
مہرین آپی : ننن . . . نہیں تو . میں تو نہیں گھبرا رہی تم سے کیوں نورین تمھیں ڈر لگ رہا ہے ؟
نورین آپی : نہیں تو . . . بھلا . . مم. . . مجھے کیوں ڈر لگے گا .بھائی سے کیسا ڈر .
میں : یہ بات آپ دونوں قسم کھا کے کہہ سکتی ہیں کہ مجھ سے آپ دونوں کو کسی بات کا ڈر نہیں ؟ میری اِس بات پہ دونوں کے سرَ جھک گئے اور دونوں میں سے کوئی بھی میری بات کا جواب نہیں دے سکی .
میں : میں جانتا ہوں آپ دونوں کو مجھ سے کس بات کا ڈر ہے . آپ دونوں کو مجھ پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں ہے . آپ دونوں میرے قریب بیٹھنے سے بھی کتراتی ہیں . مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کے خود کو پہلے سے بھی زیادہ اپنی چادر میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں . کمرے میں میرے ساتھ تنہا رہ جانے پہ آپ دونوں کی جان نکل رہی ہے . اتنی واضح علامت دیکھ کے تو کوئی بیوقوف بھی سمجھ جائے گا كہ آپ دونوں کو مجھ سے کیا خوف ہے۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ؟
میرے اتنے سہی اندازے پہ دونوں پہلے سے بھی زیادہ گھبرا گئیں اور بے اختیار ہی دونوں کے سرَ ہاں میں ہل گئے . بعَد میں دونوں کو ہی اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا تو نا میں سرَ ہلانے لگیں . اور ان دونوں کی اِِس معصومانہ حرکت پہ بہت ضبط کے باوجود بھی میری ہنسی چھوٹ گئی . اتنے میں امبرین اور ثمرین ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں تو مجھے ہنستے دیکھ کے وہ بھی مسکرانے لگیں . پانی کا جگ اور گلاس امبرین نے مجھے پکڑا دیا . ثمرین ڈرائی فروٹ دو پلیٹس میں لائی تھی جن میں سے ایک اس نے مہرین آپی کو پکڑا دی اور دوسری ہم تینوں کے درمیان رکھ دی . میں پانی پی کے فارغ ہوا تو امبرین مجھ سے میرے ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگی
میں : کچھ نہیں گڑیا . مہرین آپی نے ہاتھی اور چیونٹی والا لطیفہ اتنی سنجیدگی سے سنایا کہ لطیفے کیمٹی پلید ہوتی دیکھ کے میری ہنسی چھوٹ گئی . ویسے تمھیں بھی اِنھوں نے کبھی کوئی لطیفہ سنایا ہے ؟
امبرین : نہیں بھائی . کبھی نہیں سنایا . آپسَ میں ایک دوسری کو سنایا ہو تو اور بات ہے . ہمیں تو کبھی نہیں سنایا
میں : تو پِھر آج رات مہرین آپی ہم چاروں کو لطیفے سنائیں گی اور وہ بھی اپنے کمرے میں ہے نا آپی ؟
میرے فیصلہ کن اندازِ پہ مہرین آپی جو پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھیں فور ا ہاں کر بیٹھیں تو نورین آپی نے بھی خوامخواہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری سمجھا جس پہ ایک بار پھِر مجھے ہنسی آنے لگی جسے میں نے بڑی مشکلوں سے ضبط کیا اور امبرین اور ثمرین سے باتیں کرنے لگا وہ سارا دن ہم پانچوں بہن بھائی نے اکٹھے ہی گزارا . بیچ میں دوپہر کے کھانے اور پھِر رات کے کھانے پہ بھی سب اکٹھے ہی رہے
اور پھِر رات کو سب مہرین آپی کے کمرے میں ان کے پلنگ پہ جا بیٹھے اور ان سے لطیفوں کی فرمائش ہونے لگی میں نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا موبائل نکال كے اپنے گھٹنے کے پاس اِِس طرح رکھ لیا کہ اگر ہمارے جانے کے بعَد مہرین آپی لیٹنے کی کوشش کرتی تو وہ ان کی پنڈلیوں کے نیچے آ جاتا . یہ میں نے کسی گندی سوچ کے تحت نہیں کیا تھا بلکہ مہرین آپی کو ایک شوک دینا ضروری سمجھتے ہوئے ایسا کیا تھا . مجھے یقین تھا کہ اگر میرا پلان کامیاب ہوا تو انہیں تھوڑا بہت جھٹکا تو ضرور لگے گا
مہرین آپی نے ہم سب کے مجبور کرنے پہ پتا نہیں کس کس سے سنے ہوئے دس بڑے لطیفے بڑی مشکلوں سے سنائے اور پھِر نیند آنے کا بہانہ کرنے لگیں تو ہم سب ان کے پلنگ سے اٹھ کھڑے ہوئے . میں تو اپنے منصوبے کے مطابق رک کے ادھر ادُھر کچھ ڈھونڈنے کی ایکٹنگ کرنے لگا جبکہ اتنی دیر میں نورین آپی اور چھوٹی دونوں کمرے سے جا چکی تھیں . مہرین آپی نے ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹتے ہوئے مجھے شک بھری نظروں سے دی کھا مگر میں نظر اندازِ کرتا ہوا اپنی تلاش میں لگا رہا . پلنگ کے نیچے اور چاروں طرف کارپیٹ پہ تلاش کر کے میں بظاہر اپنی تلاش سے مایوس سا ہوگیا تو مہرین آپی کی ٹانگوں کی طرف دیکھنے لگا۔
میری اِس حرکت پہ مہرین آپی نے فور ا اپنی چادر ٹانگوں پہ پھیلا کے گویا خود کو میری بری نظر سے بچانے کی کوشش کی جو ظاہر ہے ان کی خام خیالی ہی تھی " آپی ذرا ٹانگیں تو اٹھائیں . "میں نے ان کی ٹانگوں کی طرف اوپر نیچے نظریں دوڑاتے ہوئے بہت دھیمی آواز میں اور ایسے اندازِ میں کہا جیسے کوئی بہ تہی پرائیویٹ قسم کی بات کرنی ہو اور میری اِس حرکت پہ نورین آپی کی وہ حالت ہوئی کے چہرہ ہی سفید پڑ گیا .
" نن . . . نا . . . نہی ں . . . . . سنی . . . . . . .. . . . خدا کے لیے . . . ننن . . نہیں . . . . میرے ساتھ کچھ . . . خدا کے لیے نہیں سنی " ڈر اور گھبراہٹ میں ان کی حالت غیر ہوئی
جاری ہے
0 Comments