ایک بھائی اور چار بہنیں
قسط 2
تو میں وہاں سے ہلا ہی نہیں . پھِر صباء نے آنكھوں ہی آنكھوں میں پوچھا کہ کیا ہوا تو مجھے ہوش آیا اور میں نے مزید پشُ کیا اور آدھا لن اندر چلا گیا .
اب آگے پھُدی ٹائیٹ محسوس ہو رہی تھ ی اور لن پھنس پھنس کے اندر جا رہا تھا . مگر میں نے پشُ کرنا جاری رکھا اور آخر کار پورا لن اندر پہنچ گیا .
صباء : تمہارا لن میرے شوہر کے لن سے بڑا بھی ہے اور موٹا بھی مجھے پہلی بار اتنا مزہ آیا ہے اندر لینے میں۔
میں : اور میں تو پہلی بار کر رہا ہوں. میرے مزے کی تو انتہا ہی نہیں ہے
صباء : پلیز اب جلدی ڈسچارج نا ھونا . روحیل ( اس کا شوہر ) تو 10 منٹ میں ہی فارغ ہو کے سو جاتا ہے، میں سلگتی رہ جاتی ہو
میں : میں بھی پوری رات تم سے پیار کرنا چاہتا ہوں میری جان فکر مت کرو . میں تمھیں پورا مزہ دوں گا . کتنے انتظار کے بعَد تو یہ رات آئی ہے . اسے میں ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دوں گا
صباء : اوہ سنی . آئی لو یو جان . اب مجھے مزہ دو پلیز . آگے پیچھے ہو کے زور زور سے جھٹکے لگاؤ . میں تمہارے پیار کے لیے ترس رہی ہوں، مجھے جی بھر کے پیار کرو .
میں نے اس کے کہنے كے مطابق آگے پیچھے ھونا اور جھٹکے لگانا شروع کر دیا اور مجھے اور بھی مزہ آنے لگا . تقریب ا آدھا گھنٹہ ہم نے اِِس پوزیشن میں سیکس کیا اور پھِر میں نے لن باہر نکال لیا . میں نہیں چاہتا تھا کہ ابھی میں کلائ یمیکس تک پہنچوں . اِِس لیے کچھ دیر اس کے ساتھ لیٹ کے کسسنگ کرتا رہا . وہ بھی شاید سمجھ گئی تھی کہ میں اِس رات کو بھرپور طریقے سے انجوئےکرنا چاہتا ہوں . ہم دونوں 5 منٹ تک کس کرتے رہے پھِر میں نے اس کے بوبز سک کرنے شروع کر دیئے . ایک طرف کا بوب سک کرتا اور دوسری طرف کے بوب کو ہاتھ سے پریس کرتا . اِس طرح آدھا گھنٹہ اور گزر گیا . پھِر میں نے اسے دوسری طرف کروٹ لینے کو کہا اور اس کی اوپر والی ٹانگ کو ذرا سا آگے کو سرکایا تو پھُدی کا راسته بن گیا . میں نے لن پھِر پھُدی میں ڈالا اور اندر باہر کرنے لگا . تقریب ا آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعَد ایک بار پھِر میں نے لن باہر نکال لیا . اس طرح میں نے اس رات تقریب ا 6 ، 7 بار کیا . ہر بارکلائیمیکس پر پہنچنے سے پہلے ہی لن باہر نکال لیتا اور 5 منٹ کسسنگ کرنے اور اس کے بعَد اس کے بوبز سک کرنے کے بعَد دوسری پوزیشن میں اس کے ساتھ سیکس کرنے لگتا . اِِس طرح ہم نے مختلف پوزیشنز میں بھرپور سیکس کیا اور فل انجوئے کیا .
پھِر ہم دونوں ہی کیونکہ تھک چکے تھے اِِس لیے ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اِس بار رکنا نہیں ہے . میں نے بیڈ پہ خود لیٹ کر اسے اپنے لن پہ بیٹھنے کو کہا اور وہ دونوں ٹانگیں میرے ارد گرد پھیلا کر اپنی پھُدی میں میرا لن ڈالتے ہوئے میرے اوپر بیٹھ گئی اور اوپر نیچے ہوتے ہوئے میرا لن اندر باہر کرنے لگی . میں بھی نیچے سے جھٹکے مار رہا تھا اور بھرپور انجوئے کر رہا تھا
اِِس پوزیشن میں کافی دیر سیکس کرنے كے بعَد میں نے وال کلاک پہ ٹائم دیکھا تو مزید 45 منٹ گزر چکے تھے . ہم دونوں نے ہی اپنے پی سی مسلز ٹائیٹ کیے ہوئے تھے اور اپنے کلائیمیکس کو فل انجوئے کر رہے تھے .
صباء میرے لن پہ زور زور سے اُچھل رہی تھی اور ساتھ ہی اس کے بوبز بھی اچھل رہے تھے اور بڑا سیکسی نظارہ پیش کر رہے تھے . میں بھی نیچے سے جوش سے بھرپور دھکے لگا رہا تھا . آخر ہم دونوں کی برداشت کی حد ایک ساتھ ختم ہو گئی . ادُھر صباء کا جسم اکڑنے لگا اور ادھر میرے اندر جیسے لاوا ابل پڑنے اور تباہی مچانے کو مچلنے لگا . ہم دونوں کی آنکھیں ملیں اور پھِر دونوں ہی ایک ساتھ ڈسچارج ہو گئے .
میرے لن پہ لکویڈ گر رہا تھا اور میرا بھی کم زور َدَا ر جھٹکوں سے نکل رہا تھا . صباء میرے اوپر لیٹ گئی تھی . ہم دونوں تقریبا 30 سیکنڈ تک ڈسچارج ہوتے رہے . اور پھِر میرا لن اس کی پھُدی سے نکلا تو وہ نڈھال سی ہو کے میرے ساتھ لیٹ گئی . میں نے ہاتھ بڑھا کے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور ہم دونوں عجیب سے نشے میںسرشار نا جانے کتنی دیر ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور پھِر پتہ نہیں کب ہم دونوں کو ہی نیند آ گئی .صبح پانچ بجے صباء نے مجھے جھنجھوڑ كے جگایا . وہ نہا چکی تھی اور اس کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں . میں نے اٹھ کے اسے گلے سے لگا لیا اور ایک بھرپور کس کی
.میں؛ تھینکس صباء ، یہ رات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی
صباء : مجھے بھی تم نے مجھے وہ مزہ دیا ہے جو شاید مجھے زندگی میں پھِر کبھی نا مل سکے
میں : کیوں ؟ کیا پھِر کبھی نہیں آؤ گی اپنے اباّ كے گھر ؟
صباء : آؤں گی . مگر پھِر شاید تم یہاں نہیں ہو گے . تایا اباّ (میرے اباّ ) میری خاندان سے باہر شادی پہ بہت ناراض ہوئے ہیں . اب تمہاری اسٹیڈز بھی کمپلیٹ ہو چکی ہیں . گریجوایشن کر چکے ہو . شاید کچھ دن میں ہی تمہارا بلاوا آ جائے اور تمھیں واپس پاکستان جانا پڑے . اِس لیے شاید یہ ہمارا پہلا اور آخری سیکس تھا
میں : تم آج ہی چلی جاؤ گی اپنے گھر ؟
صباء : ہاں مجھے آج ہی جانا ہو گا . مگر تمھیں میری ایک بات ماننی ہو گی، پلیز وعدہ کرو
میں : ہاں کہو . زندگی کی اِِس سب سے یادگار رات کے بدلے میں اپنی زندگی کا ہر پل تمہارے نام کر سکتا ہوں
صباء : مجھے یقین ہے جانو . اور یہ بھی یقین ہے کہ اگر یہ رات ہمارے درمیان نا آئی ہوتی تب بھی تم مجھ سے اتنا پیار کرتے ہو کہ میری ہر بات مان لیتے . یہ رات تو ہماری عمر بھر کی محبت کی یادگار تھی جسے ہم دونوں کبھی بھول نہیں پائیں گے . مگر پھِر بھی مجھے تم سے وعدہ لینا ہے . وعدہ لیے بغیر مجھے یقین نہیں آئے گا کہ تم میری وہ بات مانو گے یا نہیں .
میں : کہو نا میری جان . میں وعدہ کرتا ہوں . جو مانگو گی بنا سوچے سمجھے تمہاری نظر کر دوں گا
صباء : سنی میری جان . تمہاری بہنوں کو تمہاری ضرورت ہے . وہ چاروں جوان ہو چکی ہیں . ان کی بھی وہی ضرورتیں ہیں جو ہر نوجوان لڑکا لڑکی کی ہوتی ہیں . اور ان پہ ظلم یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی شادی کا کو ئی امکان نہیں۔ مایوسی کی انتہا پہ پہنچ کے وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہیں . بلکہ مہرین کو تو میں نے محلےکے ایک لڑکے کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے پا کے ٹوکا بھی تھا . اسے امید اور یقین بھی دلا یا تھا کہ ان چاروں بہنوں کی ہر ضرورت ان کا بھائی یعنی تم پوری کرو گے . یقین کرو سنی وہ میری بات سن كے پہلے تو گھبرا گئی تھی پھِر میرے یقین دلانے پہ اتنی خوش ہوئی کہ مجھ سے لپٹ کے رونے لگی . میں نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تمہارے سوا کسی کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں آنے دے گی اور باقی 3 بہنوں کو بھی ادھر ادُھر نہیں بھٹکنے دے گی بلکہ تمہاری امانت سمجھ كے سب کو سنبھال كے رکھے گی . اب میرے وعدے کی لاج تم نے رکھنی ہے سنی . ورنہ عمر بھر کی بدنامی تمہارے خاندان کی قسمت بن جائے گی
صباء کی بات پہ غور کرنے پہ واقعی
میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے .4 جوان لڑکیاں جنہیں اپنی شادی سے مایوسی ہو چکی ہو اور بے راہ روی کا رستہ ان کے سامنے کھلا ہوا ہو۔ ایک ذرا سا موقع ملنے پہ بھی وہ اپنی عزت کسی سے بھی لٹوانے کو تیار ہو جائیں گی . اور جس مرد سے وہ صحبت کریں گی اس سے بات دوسروں کو بھی پتا چلے گی اور پھِر پورے گاؤں میں شہرت پھیل جائے گی . پورے گاؤں میں ہمارا خاندان رنڈیوں کا خاندان مشھور ہو جائے گا . نہیں . یہ نہیں ھونا چاہئے مجھے خود ہی ان کی پیاس بجھانی ہو گی . انہیں ادھر ادُھر بھٹکنے سے بچانا ہوگا . اِِس لیے نہیں کہ صباء نے ان سے وعدہ کیا ہے ، بلکہ اِس لیے کہ وہ میری بہنیں ہیں اور ان کی عزت میری بھی عزت ہے . دل میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے میں نے صباء کو پھِر گلے لگا لیا
میں : تھینکس صبا ء . تم نے بہت اچھا کیا جو آپی سے وعدہ لے لیا اور اُنہیں میری طرف سے یقین دلا دیا کہ میں ان کے ساتھ . . . . میں اپنی بہنوں کو کہیں بھٹکنے نہیں دوںگا . سب کی پیاس بجھاؤں گا .ان کے دل کی ہر حسرت نکال دوں گا . اتنا پیار دوں گا انہیں کہ کبھی کسی اور کی طرف دیکھنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیں گی
صباء : میں جانتی تھی میری جان . تم یہ سب جاننے کے بعَد انہیں نظر اندازِ کرنے کا سوچو گے بھی نہیں . اسی لیے تو میں نے تمہاری طرف سے انہیں یقین دلایا تھا . اب میں تو آج جا رہی ہوں . 3 ، 4 دن میں تمہاری بھی ٹکٹ آجائے گی پاکستان کی اور فون تو شاید آج ہی آ جائے . اِس لیے مجھے تو آج ہی الوداع کہہ دو . ہو سکتا ہے پھِر کبھی ہماری ملاقات ہی نا ہو
ہم دونوں کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعَد کس بھی کرتے رہے . پھِر باہر ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تو میں اسے الودائی نظروں سے دیکھتے ہوئے اس سے الگ ہوا اور اس کے کمرے سے نکل آیا . اپنے کمرے میں جا کے میں نے ٹھنڈے پانی سے باتھ لیا او ر پھِر باہر نکل آیا . چچا اور چچی بھی اٹھ چکے تھے .ہم سب کا فی دیر باتیں کرتے رہے
پِھر صباء بھی کمرے سے نکل آئی . سب نے اکٹھے ناشتہ کیا اور ناشتےکے بعَد صباء کا شوہر اسے لینے آ گیا تو ہم نے اسے الوداع کہہ دیا
یہ شاید ہماری آخری ملاقات تھی اسی شام مجھے پاکستان سے اباّ جان کا فون آ گیا اور انہوں نے مجھے فور ا واپس آنے کا حکم دیا . میری ٹکٹ بھی وہ فیکس کر چکے تھے جو مجھے کچھ دیر میں ملنے والی تھی . میں نے چچا جان کو بتایا تو وہ بھی ادُاس ہو گئے 3 4 دن ان کے ساتھ گزار کے میں نے بل آخر انہیں الوداع کہا اور پاکستان کے لیے فلائٹ لے لی جس کی ٹکٹ مجھے اباّ جان نے بھیجی تھی . اب مجھے اپنی بہنوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانا تھا .
اپنے گھر آ كے اپنی بہنوں کو اتنے سالوں بعَد دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا . چاروں ایک سے بڑھ کے ایک حسِین تھیں . بڑی دونوں تو بھرپور جوان ہو چکی تھیں . جبکہ چھوٹی دونوں جو جڑواں تھیں ، وہ ابھی کم عمر اور معصوم لگتی تھیں . اور واقعی وہ دونوں بہت معصوم تھیں . مجھے دیکھتے ہی مجھ سے لپٹ گئیں اور تب تک نہیں چھوڑا جب تک امی نے ڈانٹ کے مجھے چھوڑنے کو نہیں کہا . ان کی اِس محبت کو میں چاہ کے بھی کوئی غلط معنی نہیں پہنا سکا کہ یہ تو ان کی مجھ سے محبت کا بے ساختہ اظہار تھا اور ان کی اِِس حرکت میں بھی ان کی معصومیت جھلکتی تھی . اِِس کے بار عکس بڑی دونوں بہنیں کچھ جھجکی سی اور مجھ سے دور ہی رہیں . دور سے ہی سلام دعا اور حال احوال پوچھا اور پھِر سب بڑے حال کمرے میں بیٹھے تب بھی وہ دونوں دور ہی بیٹھیں . جبکہ چھوٹی دونوں یہاں بھی مجھ سے جڑی بیٹھی مجھ سے لندن کے حالات پوچھ سن رہی تھیں . مجھے چھوٹی دونوں بہنوں کی معصومیت کے ساتھ ساتھ بڑی دونوں بہنوں کی جھجک اور گریز پہ بھی پیار آنے لگا اور میں نے تہیہ کر لیا کہ ان چاروں پہ خود سیکس مسلط کرنے کی بجائے صرف ان کی ضرورت پوری کروں گا . ان کی خواہشات جو حسرتیں بن چکی ہوں گی ، انہیں پوری کرنے کی کوشش کروں گا . چاھے مجھے اِس كے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے
صباء نے مہرین آپی کے دل میں میرے متعلق جو بات ڈال دی تھی اس کا اثر میں ان کے علاوہ نورین آپی پہ بھی دیکھ رہا تھا . وہ دونوں میری طرف دیکھتے ہوئے بھی گھبرا رہی تھیں کہ کہیں میں انہیں بھائی کی
جاری ہے