ads

Garm Behn Bhai - Episode 1

گرم بھائی بہن


قسط 1


مہرین اپنے چھوٹے سے خستہ حال گھر کی ہوا دان نما بالکنی سے دور سڑک پار مارکیٹ پہ نظریں جمائے ہوئے کھڑی اپنے چھوٹے بھائی فہد کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی

 

شام کے سائے پھیلنے کو تھے اور اسی اثناء میں اس مارکیٹ کے خارجی راستے سے 15 سالہ فہد مہرین کو نظر آگیا اور وہ جلدی گھر کے نچلے حصے کی طرف اپنی ا می کو بتانے کیلئے بھاگی

 

مہرین: امی آ گیا فہد میں نے دیکھ لیا ہے اسے آتے ہوئے

 

ماں نے سکھ کا سانس لیا اور مہرین نے سر پہ دوپٹہ اوڑھ کہ گھر کی دہلیز پہ مورچہ ڈال لیا اور دور سے آتے بھائی کی بلائیں لینے لگی ننھا فہد بھی دور سے ہی اپنی بڑی بہن کو دیکھ کہ ہاتھ ہلاتا ہوا گھر کی جانب بڑھتا چلا آ رہا تھا اور گھر میں آتے ہی اپنی امی اور بہن کی بانہوں میں لپٹ کہ آج ملنے والی باقاعدہ پہلی تنخواہ کو جیب سے نکال کہ خوش ہو ہو کہ تھمانے لگا فہد کی امی اور باجی دونوں اس جذباتی موقعہ پہ اپنے آنسو نہ روک سکیں اور اپنے آخری سہارے کی اتنی کم عمری میں محنت سے کمائی ہوئی اجرت کو کسی خزانے سے بھی انمول مان  رہی تھں

 

 تعارف

 

یہ کہانی ایک ایسے بہن بھائی کی ہے جن کو حالات اور واقعات نے اتنی کم عمری میں ایسے ایسے رنگ دکھا دئیے کہ وہ بچپن  میں ہی بڑے ہو گئے

 

اس کہانی کے مرکزی کردار فہد جس کی عمر 15 سال ہے اور مہرین جسکی عمر 17 سال ہے, اور انکی امی جو کی 45 سالہ بیوہ عورت ہیں

 فہد اور مہرین کے والد کی وفات کو ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اب وہ اپنی زندگی کا گزر بسر والد کی پینشن پہ کرتے ہیں جو کہ اتنی قلیل ہے کہ اس خستہ حال گھر کا کرایہ دینے کے بعد بمشکل ہی گھر کا گزارہ ہو پاتا ہے اور اوپر سے بیوہ ماں کی بیماریوں کے اخراجات بھی مشکلات میں اضافہ کر رہے  تھے

 فہد لوگوں کا گھر خستہ حال تو ہے ہی اسکے ساتھ ساتھ اس قدر چھوٹا بھی ہے کہ شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جاتا ہے

 گھر کے لکڑی کے دروازے سے داخل ہوتے ہی چھوٹاسا صحن ہے جس میں ایک طرف واشروم اور سائیڈ پہ چولہے کا انتظام ہے اس سے دو قدم پہ ایک  کمرہ ہے

 سیڑھیاں چڑھ کہ ایک گیلری نما کمرہ جس کو فہد اور مہرین نے سٹڈیروم بنایا ہوا تھا جس میں کبھی کبھار وہ سو بھی جایا کرتے, اسی کمرے میں وہ بالکنی نما ہوا دان بھی ہے جس کو اکثر لوڈشیڈنگ کے وقت ائیر کنڈیشنر کے طور پہ بھی استعمال کیا جاتا

 فہد کے بالکل ساتھ حاجی عاشق صاحب کا گھر ہے جو کہ باریش اور انتہا کے مذہبی انسان ہیں , حاجی عاشق صاحب جن کو فہد اور مہرین "حاجی انکل" کہہ مخاطب کرتے ہیں, انکے واحد ہمسائے ہیں کیونکہ حاجی انکل اور فہد کی فیملی جس مکان میں رہتے ہیں وہ کسی زمانے میں کسی فیکٹری کا گودام ہوا کرتا تھا اور تو اور یہ دونوں گھر قانونی طور پہ ناجائز تجاوزات میں آتے ہیں جو کہ کسی بھی دن شہر کی انتظامیہ کے ہاتھوں منہدم کئے جا سکتے ہیں مگر فی الحال تو ان کو یہاں سکونت اختیار کئے ہوئے اتنا عرصہ ہو گیا ہے ابھی تک  تو سب اچھا چل رہا ہے

 فہد اور مہرین کا کمرہ حاجی انکل کے جس کمرے سے متصل ہے وہ حاجی انکل کے گھر کا سٹور روم ہے اور باقی تمام متصل دواروں کے برعکس اس کمرے کیب دیوار نہایت کمزور ہے جس کی وجہ سے حاجی انکل کے گھر سے آنے والی ہر آواز کو فہد اور مہرین کے کمرے سے سننے پہ ایسا لگتا ہے جیسے ساتھ بیٹھے انسان کی آواز سنی جاتی ہے

 حاجی انکل کی فیملی میں 2 بیٹیاں جو کہ مہرین سے کچھ سال بڑی ہیں اور ان سے اوپر نیچے 2 بھائی ہیں جو کہ محنت مزدوری کرنے والے لڑکے تھے. حاجی انکل کی فیملی سے کوئی گہرا میل جول تو نہیں تھا مگر ہمسائے ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے کام آنے سے کبھی گریز نہیں کیا

 مہرین اور فہد اوپر والے کمرے میں بیٹھ کہ اپنی پڑھائی کرتے ہیں اور ساتھ حاجی انکل کے گھر سے آنے والی آوازوں کو سن کہان کے گھر میں ہونے والے ہر واقعے سے با خبر رہتے, یہ ان بچوں کے لیے ایک طرح کی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن چکا تھا جس کا وہ اپنی امی سے بھی ذکر نہ  کرتے تھے

 

فہد اور مہرین محدود وسائل اور بے شمار ذہنی دباؤ کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں. فہد نہم کلاس میں ہے اور مہرین فرسٹ ائیر کی طالبہ ہے اور دونوں پرائیویٹ ہی بغیر کسی کی تعلیمی رہنمائی کے اپنے امتحانات کی بہت اچھی تیاری کر رہے ہیں

 فہد کو اس بکُسٹال پہ لگوانے والے حاجی انکل ہی ہیں اور فہد چار ماہ سے وہاں ملازمت کر کہ اپنی ماں اور بہن کا سہارا بننے کی کوشش کررہا ہے

 صبح دس بجے سے مغرب تک فہد اس بک شاپ پہ ڈیوٹی کرتا اور شام کو گھر آ کہ جتنا بآسانی کر سکتا اپنی پڑھائی پہ توجہ دیتا اور ایسے ہی واقت اپنے پیچ و خم کے ساتھ گزررتا گیا مہرین کی والدہ شروع سے ہی ایک انتہا کی سیدھی سادھی بلکہ یوں کہہ لیں کہ کند ذہن کی عورت تھیں , سادگی کی انتہا یہ تھی کہ سبزی فروش سے حسابی کتابی مباحثہ تو درکنار الٹا خود ہی سیانت دکھانے کے چکر میں زیادہ پیسے دینے پہ مان جاتیں. بھلا یہ معاشرہ ایسے لوگوں کو جینے دیتا ہے؟

 

مہرین اور فہد ہی اب اپنی ماں کی دو آنکھیں تھے اور دونوں بچے اپنی عمر سے بڑھ کہ اس گھر کو دوبارہ خوشیوں سے مالامال کرنے  میں مصروف عمل رہتے مہرین اور فہد آنے والے اچھے وقت کے انتظار میں ہر روز کوئی نہ کوئی نئ امید دل میں سجا کہ سو جاتے اور وقت تھا کہ بدل ہی نہیں رہا تھا

 

فہد جس بک شاپ پہ ملازمت کرتا تھا وہ ایک کتابوں کی مشہور مارکیٹ تھی جس میں تمام دوکانیں کتابوں اور سٹیشنری سے متعلق ہی تھیں اب فہد کو بھی باہر کی ہوا لگ رہی تھی ساتھ والی دوکان پہ پڑی سیکس سٹوریز کی کتابیں فہد کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی تھی, اور ایک دن وہ ایک سیکس سٹوریز کی کتاب چوری چھپے گھر لے ہی آیا اب ایسی ممنوع چیز گھر لے کہ آنا اور پھر اسے کسی محفوظ جگہ پہ چھپا بھی لینا ایک بہت بڑا معرکہ ثابت ہونے والا تھا مگر کسی نہ کسی طرح وہ چھوٹی سی رسالہ نما کچھ صفحات کی کتاب کو وہ اوپر سٹڈی روم کے کسی کونے میں چھپانے میں کامیاب ہو گیا اور معصومیت کا یہ عالم کہ اس کتاب کو اب پڑھے تو اپنی بہن سے آنکھ بچا کہ کیسے پڑھے اور اس کشمکش میں کافی دن گزر گئے اور فہد وہ کتاب نہ پڑھ سکا

 

بہر حال ایک رات فہد کو رات دیر گئے موقع مل ہی گیا اور رات کو اس نے اس کتاب کو ڈھونڈھ کہ پڑھا تو اس کے لئے یہ نیا تجربہ کافی خوشگوار ثابت ہوا اور اپنے لن کے تناؤ کو بہت مزے سے بنا مٹھ کے لگائے ہی سو گیا

  فہد اس بات سے انجان تھا کہ اس کی بڑی بہن مہرین اس کتاب کو اس سے پہلے ہی پڑھ چکی ہے اور وہ بھی اس لذت سے بہت محضوض ہو چکی ہے

 ایسے ہی بنا کسی کو کہے سنے فہد مہینے میں کوئی نئی کتاب لے آتا رات کو آنکھ بچا کہ پڑھتا اور حسب ضرورت مٹھ لگاتا اور کتاب چھپا کہ سو جاتا

 یہی حال دن میں مہرین کا ہوتا وہ بھی اب سیکس کو پڑھنے کے مزے لیتی اور اپنی پھدی کو انگلی سے ہی ٹھنڈا کر کہ دن گزار دیتی

 

مہرین کو تو علم تھا کہ یہ کتابیں فہد لے کہ آتا ہے مگر فہد کے وہم وگمان میں بھی یی بات نہیں تھی کہ اسکی بڑی بہن مہرین بھی اس کتاب کو پڑھ کہ مزے لیتی ہے

 ابھی تک مہرین اور فہد کا رشتہ پاکیزگی اور خلوس والا رشتہ تھا کیونکہ ان کے درمیان یہ راز ابھی تک راز ہی تھا کہ سیکس کہانیوں کی کتابیں ان دونو ں کی مشترکہ بصارت سے گزر کہ جاتی ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اب تک فہد اور مہرین کےدرمیان کوئی غیر اخلاقی گفتگو کا آغاز نہیں ہوا تھا

 مگر چوری زیادہ عرصہ نہیں چلتی. ایک دو بار مہرین سیکس سٹوری بک کو باہر رکھ کہ بھول گئی اور فہد بھی اب کتاب کو کافی دفعہ باہر ہی رکھ کہ بھول چکا مگر مہرین کی خاموشی اور کوئی رد عمل نہ دینے کی وجہ سے فہد بھی سمجھ گیا کہ مہرین باجی کو یہ سب پتہ ہے بلکہ وہ یہ بھی سمجھ گیا کی وہ بھی اس معاملے میں اس کی شریک جرم ہیں مگر ابھی تک اعلانیہ کسی نے بھی اس بات کو قبول نہیں کیا تھا آہستہ آہستہ ایک ڈیڑھ ماہ میں ہی نوبت یہاں تک آ گئی کہ اب ہر نئی آنے والی کتاب کسی کونے میں چھپانے کی بجائے باقی کتابوں کے درمیان ہی  علامتا ہی چھپائی جاتی گویا اب دونوں بہن بھائی سمجھ گئے تھے کہ یہ لذت اندوزی کرتے جاؤ مگر کسی کو بتانا نہیں اور ایک دوسرے کی تنقید بھی نہیں کرنی ان دونوں بہن بھائی کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہو چکا تھا جس سے دونوں ہی فائدہ اٹھا رہے تھے اور کسی کا کوئی نقصان نھی نہیں ہو رہا تھا

  مگر ہم سب جانتے ہیں کہ بہن اور بھائی کے درمیان ایسی پردے والی باتوں میں معاہدہ کسی بڑے طوفان کی علامت مانا جاتا ہے اسی وجہ سے بچپن سے ہی ماں باپ بچوں کی تربیت میں اس طرح کی کج احتیاطی سے پرہیز کرتے ہیں لیکن فہد اور مہرین کے معاملے میں پہلے ہی اتنے مسائل تھے کہ ایسی احتیاط کرے  تو کرے کون ان کی بیوہ اور بیمار ماں؟

 

ان کی امی تو پہلے ہی اس قدر مفلوج زندگی گزار رہی تھیں رات کو دوا کھا کہ سو جاتیں اور سارا دن بستر پہ گزار دیتیں, ان کی امی تو خود اپنے بچوں کی دیکھ بھال کی محتاج تھیں, انہوں نے کیا کرنا

 ایک رات فہد دیر گئے کتاب کو پڑھ رہا تھا اور ساتھ اپنے لن کو سہلا رہا تھا کہ حاجی انکل کے گھر کا وہ کمرہ جو کہ انکا سٹورروم تھا, اس کے لکڑی کے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی, لکڑی کے دروازے کو لگے دیسی لوہے کے قبضے کے آہستہ آہستہ کھلنے کی لمبی "چررر" کی آواز نے فہد کی توجہ کو اپنی طرف مبذول تو کیا لیکن وہ اسے اگنور کر کہ نہ جانے کس تصوراتی حور کو سیکس سٹوری کے منظر نامے میں خیالی طور پہ چود رہا تھا اس لیے اس طرف زیادہ توجہ کرنا فہد نے مناسب نہ سمجھا اور اپنے لن کو سہلاتا ہوا کہانی کے منظر  میں کھویا رہا

 مہرین ذرا فاصلے پہ گہری نیند میں ماحول کی رومانیت سے انجان سوئی پڑی تھی, شائد مہرین جان تی تھی کہ اسوقت اس کا چھوٹا بھائی سیکس سٹوری پڑھ رہا ہے لیکن خاموش معاہدوں کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ جلدی ٹوٹتے نہیں اور انکا نباہ کرنے والے بڑی ہی ایمانداری کے ساتھ  اسے نبھاتے ہیں

 حاجی انکل اور فہد کے گھر کے متصل کمرے کا دروازہ جس آہستگی سے کھلا تھا اسی آہستگی سے بند ہو گیا اور فہد اپنی حوس بستی میں کھویا اس کتاب میں ہی مگہن تھا کہ اس کمرے سے دو آوازوں کے کھس پھسانے کی آواز نے فہد کی توجہ کو کتاب سے ہٹا دیا اور فہد الجھن بھرے انداز میں ادھر ادھر دیکھ کہ حاجی انکل کے خاندان کو کوسنے لگا کہ سارا دن تو آوازیں آتی ہی ہیں, بھلا یہ کوئ وقت ہے کہ اب بھی ان کا شور ختم نہیں ہو رہا اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کھس پھس کو سننے اور سمجھنے کی کوشش شروع کر دی اور کچھ ہی دیر میں وہ آوازیں تو بند ہو گئی لیکن اب جو آوازیں پیدا ہو رہیں تھیں وہ غیر معمولی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھیں

 Ahh ahhhh ahmmm ufhmmmm ahhh 

 

فہد سیکس سے صرف عملی طور پہ ہی نا آشنا تھا باقی ان سیکس کہانیوں نے اس کی جنسی معلومات کو اس قدر بڑھا دیا تھا کہ وہ اگلے ہی لمحے سمجھ چکا تھا کہ اس وقت ساتھ والے کمرے میں کوئی پھدی لن کو اپنے اندر جکڑے ہوئے آگے پیچھے نکلنے کی آواز پیدا کر رہی ہے

 فہد کی آنکھیں حیرانی سے پھٹ رہی تھیں اور وہ اس گھر میں موجود افراد کا حساب کتاب لگانے لگا کہ یہ کونسا جوڑا ہو سکتا ہے جو رات کے اس پہر اپنی جوانی کے نشے کو پورا کر رہا ہے  

 فہد کو بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ وہ دو آوازیں جن میں سی ایک مردانہ اور ایک زنانہ تھی اور دونوں ہی جوان اور جانی پہچانی آوازیں لگ رہیں تھیں فہد اس آواز کا مزہ لیتے ہوئے یہی انداز ہ لگا رہا تھا کہ یہ آوازیں کس جوڑے کی ہو سکتی ہیں کیونکہ حاجی انکل کے ابھی کسی بیٹے یا بیٹی کی شادی نہیں ہوئی بہرحال کچھ دیر یہ چدائی کا عمل چلتا رہا اس کے بعد بے حال سانسوں کی آوازوں نے یہ واضح کر دیا کہ چدانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اس کے بعد لکڑی کا دروازہ اسی آہستگی سے کھلا اور بند ہو گیا لیکن فہد ایک نئے ہی سوال کا شکار ہو گیا تھا

 وہ سوال یہ تھا کہ حاجی انکل کے گھر میں کون آ سکتا ہے؟

 کیا وہ ان کی کسی بیٹی کا یار تھا جو رات کو ملنے آیا ہوگا یا گھر میں آئی کوئی لڑکی ہو گی حاجی انکل گرمیوں سردیوں میں صحن میں دروازے کے آگے چارپائی بچھا کہ سوتے ہیں اس لیے ان کے گھر کسی گھس بیٹھ یے کا آنا تو ناممکن ہے اور انکے گھر کوئی مہمان بھی نہیں آیا اور اگر مہمان آئے بھی ہوں تو ہمیں پتہ لگ جاتا ہے تو پھر  یہ کون ہو سکتا ہے؟

 فہد اسی کشکمش میں وہ سیکس سٹوری والی کتاب سینے پہ رکھے سو گیا صبح جب آنکھ کھلی تو دن چڑھ چکا تھا, جلدی سے ہڑبڑا کہ ادھر ادھر دیکھا تو اس ممنوع کتاب کو باقی کتابوں کے پاس پڑی ہوئی دیکھ کہ فہد سمجھ گیا کہ رات وہ جس کتاب کو پڑھتا ہوا سو گیا تھا وہ مہرین باجی نے اٹھا کہ محفوظ جگہ پہ رکھ دی ہے اور وہ خود کو رات کی لاپرواہی پہ کوسنے لگا

 مگر خاموش معاہدے کے تحت نہ ہی مہرین نے فہد کو ڈانٹنا تھا اور نہ ہی فہد نے کوئی ردعمل ظاہر کرنا تھا لیکن اس کے باوجود احتیاط کرنا تو بنتا ہی تھا اور اسی لیے فہد ذرا شرمندہ محسوس کر رہا تھا

 رات کے واقعے کو ذہن میں لیے فہد نے اپنی ملازمت پہ جانے سے پہلے ایک چکر حاجی انکل کے گھر لگایا تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ انکے گھر کونسا مہمان آیا ہے مگر حاجی انکل کے گھر میں کسی مہمان کی آمدورفت کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا اور یہ بات فہد کو مزید پریشان کر رہی تھی کہ آخر وہ گرم  آوازیں کس جوڑے کی تھی، دن گزرتے گئے مگر دوبارہ فہد نے نہ ہی وہ آوازیں سنی اور نہ ہی وہ یہ جاننے میں کامیاب ہو سکا کہ اس رات اس ہمسائے کمرے میں کس نے کس کی پیاس بجھائی,

مہرین فہد کی اس تذبذب کو محسوس تو کر رہی تھی مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں پوچھ کہ خاموش ہو جاتی کیونکہ اس کے اور فہد کے درمیان ابھی اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اس ننگی گفتگو پہ بات کرتے اس لیے فہد خاموش ہی رہا اور مہرین نے بھی بات کو  جانے دیا

 کافی عرصے بعد فہد نے دوبارہ سے رات دیر تک جاگتے ہوئے وہی چدائی کی آوازیں سنی اور ایک پرتکلف چدائی کو سننے کے بعد اسکی حیرانگی میں مزید اضافہ ہو گیا کہ آخر حاجی انکل جیسے مذہبی خاندان میں کون ہے جو اس طرح کے کام کرتا ہے مگر ہر ممکنہ تحقیق کے باوحود فہد اس بات کا سرا نہ ڈھوڈ سکا مگر اس کو ایک نہ ایک دن یہ جاننا ہی تھا اس لیے اس نے ہار تو نہیں مانی لیکن ذرا مناسب وقت کے آنے کا  انتظار کرنے لگا

 ان دو واقعات نے فہد کو کافی عرصہ بےچین بھی رکھا لیکن وقت اور حالات کے بہاؤ نے فہد کو اس بات کی حقیقت سے دور رہنے پہ مجبور کر دیا۔  

 فہد اور مہرین کے رشتے میں ابھی تک سب کچھ نارمل تھا، ان کے درمیان اگر کوئی راز تھا تو وہ بس ان سیکس سٹوریز کی بکُس والا ہی تھا اور شاید یہ کوئی اتنی گھناؤنی بات بھی نہیں تھی کیوں کی بہن بھائیوں میں اس طرح کے چھوٹے موٹے راز چلنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی

 سیکس سٹوریز پڑھنے کے شوقین بہن بھائی, یعنی فہد اور مہرین اب سیکس کے حوالے سے مکمل طور پہ آگاہ ہوچکے تھے, سیکس کے آداب, مختلف پوزز, اورل سیسکس, اینل سیکس ,حمل سے بچنے کے طریقے, غرض یہ کہ ہر ہر وہ بات جو ان کو سیکس سٹوری کے ذریعہ پتہ چلتی وہ اسے اپنی ڈکشنری میں ایڈ کرتے جا رہے تھے اور لگاتار ان سیکس سٹوریز کو پڑھنے سے جب ان کے جذبات بھڑکتے تو جسم میں ہارمونل عمل انگیزی کی وجہ سے ان کی بات چیت اور کسی حد تک جسمانی ساخت میں بھی تبدیلیاں آرہی تھیں, فہد اور مہرین کم عمری اور کسی مناسب سرپرستی کی کمی کی وجہ سے ان تبدیلیوں سے انجان بس حوس زدہ سٹوری ریڈرز بن چکے تھے دونوں بہن بھائی کا سیکس کو لے کہ علمی معیار اب قابل تعریف حد تک بڑھ چکا تھا اور کسی نہ کسی حد تک وہ اب اس لذت کو چکھنے کی خواہشات کو دل میں لیے  پھر رہے تھے

 وقت کی رفتار کہاں کم ہونے والی ہے. فہد اور مہرین کے امتحانات سر پہ آچکے تھے اور کچھ ہی دنوں بعد ہونے والے امتحانات کی تیاری زور و شور سے رات دیر تک چلتی رہتی اور دونوں بہن بھائی اپنی مدد آپ کے تحت تیاری میں کوئی بھی کثر نہیں چھوڑ رہے تھے, بہر حال فہد کو مہرین باجی کی مکمل مدد مل رہی تھی کیونکہ وہ فرسٹ ائیر کے امتحان کی تیاری کر رہی تھیں،

 ایک رات فہد اور مہرین اپنے امتحانات کی تیاری کی وجہ سے رات دیر تک پڑھ کہ اپنے اپنے بستر میں لیٹے کچھ عمومی بات کرتے کرتے سونے ہی والے تھے کہ اچانک حاجی انکل کے گھر کے اسُی کمرے کے دروازے کی کھلنے کی آواز فہد اور مہرین کے کانوں میں پڑی اور دونوں بالکل ایک ہی لمحے اپنی گردنوں کو گھما کہ اس کمرے کی طرف متوجہ ہوگئے, فہد تو پہلے سے ہی جانتا تھا کہ وہ جو دو بار پہلے اس کمرے سے ہوتا ہوا سن چکا ہے وہ شاید آج دوبارہ ہونے والا ہے مگر ایک بات جس پہ فہد ذرا اور ہڑبڑا گیا کہ مہرین بھی اب ایسے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس آواز کی طرف متوجہ تھی جس خاموشی سے فہد اس آواز کی طرف گردن ہوا میں اٹھائے چپ تھا

 دروازہ جس آہستگی سے کھلا تھا کہ اسی آہستگیسے "چررر" کی آواز کے ساتھ بند ہو گیا. فہد اور مہرین ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اشاروں میں بات کر رہے تھے، گویا ایک دوسرے کو ثبوت دے رہے ہوں کہ " میں تو نہیں جانتا/جانتی کہ آگے کیا ہونے والا ہے", مگر دونوں کے چہرے کے تاثرات سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ بات جس طرح فہد کیلئے نئی نہیں اسی طرح مہرین بھی اس چیز سے انجان نہیں ہے مگر رشتے کی نزاکت کیوجہ سے دونوں انجان بننے کی بہت اچھی اداکاری  کر رہے تھے

 

حاجی انکل کے سٹور روم سےحسب معمول ایک کھسر پھسر والی سرگوشی سنائی دے رہی تھی جس میں کبھی کبھار مسکراہٹیں اور لاڈپیار بھری چومنے کی  آوازیں آرہی تھیں.

 

فہد اور مہرین ان ہی مسکراہٹوں اور خوش گپیوں کے ساتھ خود بھی مسکرا رہے تھے اور ایک دوسرے کو مسلسل لاعلمی کا دکھاوا بھی کر رہے تھے

 جب دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو لاعلمی کا جھانسہ دے چکے تو فہد نے اٹھ کہ جا کہ دیوار کے ساتھ کان ٹکا لیا تاکہ زیادہ صاف آواز سن سکے۔

اپنا کان دیوار پہ لگائے فہد کی نظریں مہرین کی طرف ہو متوجہ تھیں اور مہرین ہاتھ کے اشارے سے اسے بار بار واپس بلا رہی تھی اور فہد جوابا مہرین کو ہاتھ کے اشارے سے پاس آ کہ سننے کا کہہ رہا تھا مگر مہرین وہیں بستر پر لیٹی اسے آنکھ نکال کہ ڈانٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر فہد کہاں باز آنیوالا تھا اور دونوں کے چہروں پہ مسکراہٹ اور شرارت کے ملے جلے تاثرات تھے

 

مہرین اور فہد کے برابر والے کمرے میں اب با قاعدہ چدائی شروع ہو چکی تھی اور اب مہرین سے بھی نہ رہا گیا اور وہ بھی ایک کان دیوار پہ لگائے اپنے بھائی کیطرف منہ کر کہ ان آوازوں کو سنتی جا رہی تھی دو جوان اور شناسا سی آوازیں دونوں کو سنائی دے  رہی تھی

 Ahhh ahh hmmm ufff ahhha ahhh ah ahh ahhhahhhh 

فہد کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اور مہرین منہ پہ ہاتھ رکھے فہد کی طرف ہنستے ہوئے سوالیہ نظروں سے  لگاتار دیکھ رہی تھی


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments