ads

Garm Behn Bhai - Episode 2

گرم بھائی بہن


قسط 2



آنکھوں کے اشاروں سے بے معنی گفتگو چلتی جا رہی تھی اور دیوار کی دوسری طرف چدنے والی لڑکی اپنی درد اور لطف بھری آواز کو بس ایک حد تک ہی روک پا رہی تھی، دبی ہوئی نسوانی آواز نے کچھ واضح الفاظ ادا کئے جو کہ فہد اور مہرین کے کانوں میں صاف صاف پہنچے

 

"میرے منہ میں فارغ ہونا جان"

 

یہ بات سنتے ہی سیکس سٹوریز کے پرانے ریڈر مہرین اور فہد نے حیرانی اور پشیمانی سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کی مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور اپنے اپنے تخیل میں اس منظر کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگے

 

مہرین اور فہد آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو سیکس سٹوری میں پڑھے ہوئے مناظر یاد کروا رہے تھے اور دیوار کے دوسری طرف کچھ منٹس سے چل رہی پر تکلف اور پر زور چدائی اپنے عروج پہ ایک مردانہ اور ایک زنانہ آنہوں کے ساتھ جاری و ساری تھی چدائی رکی اور اف آہ آہ اب کم ہو کہ بے ہنگم سانسوں 

کے طوفان چومنے اور چاٹنے کی آوازیں مہرین اور فہد کے کانوں میں پڑ رہی تھیں

 

دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کی طرف مسکراتے چہروں سے دیکھتے جا رہے تھے اور جب دیوار کی دوسری سمت سے ڈسچارج ہونے کا پتہ چلا تو فہد نے مہرین کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے منہ کو کھول کہ ایک شرارتی انداز سے چھیڑا، گویا وہ اپنی بہن کو بتا رہا ہو کہ ہمسایہ لڑکا لڑکی کے منہ میں ڈسچارج ہو گیا ہے.

مہرین نے غصے سے فہد کی طرف دیکھ کہ ایک تھپڑ کا اشارہ کیا اور دوبارہ کان لگا کہ توجہ سے آوازوں سے ادُھر کے منظر کا اندازہ لگانے لگی

 فہد کی ایکسائٹمنٹ اپنے عروج پہ تھی اور مہرین کے جذبات بظاہر ذرا بھڑک چکے تھے, مہرین کے چہرے پہ اب ذرا کم مسکراہٹ تھی. فہد اپنی عمر کیوجہ سے جنسی طور پہ اتنا جذباتی نہیں تھا جتنی مہرین ہو چکی تھی کیونکہ دونوں کی عمروں میں فرق تھا اور مہرین لڑکی ہونے کی وجہ سے ان جذبات کے لیے فہد کی نسبت زیادہ بڑی تھی دیوار کی دوسری سمت کسنگ اور کچھ مدھم آواز میں گفتگو ہو رہی تھی اور دروازہ اسی روایتی آہستگی سے کھلا اور بند ہوگیا فہد اور مہرین اپنے اپنے بستر پہ واپس آ کہ لیٹ گئے 

فہد: مہرین باجی؟ یہ کیا تھا؟

مہرین: تمیہں نہیں پتہ کہ یہ کیا تھا؟

فہد: ہاں جی, پتہ تو ہے لیکن کون تھا یہ؟

مہرین نے لا پرواہ سے انداز میں کندھوں کو جنبش دے کہ جواب دیا مہرین: مجھے کیا پتہ کہ کون تھا, کوئی اسی گھر کا رہنے والا لگتا ہے 

فہد: مہرین باجی, ایک بات بتاؤں آپکو؟ 

مہرین فہد کی طرف متوجہ ہو کہ بولی مہرین: ہاں بتاؤ

فہد: وہ ناں میں نے پہلے بھی یہ سب سنا تھا ایک رات، ایک بار نہیں دو بار سن چکا ہوں، لیکن باجی سمجھ میں نہیں آ رہا کو یہ لڑکی لڑکا کون ہو سکتے.

 

مہرین فہد سے عمر میں تو بڑی تھی ہی اس لئے بہکے ہوئے جذبات کے باوجود 

سلجھے ہوئے انداز میں ہی فہد سے گفتگو کر رہی تھی، لیکن فہد کی باتوں میں 

ضرورت سے زیادہ بچپنے کی جھلک تھی اور مہرین بھی فہد کے بچپنے والے  رویہ سے آگاہ تھی

 

مہرین: تم نے پہلےکب سنا یہ سب ؟ اور مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟

 

فہد: مہرین باجی وہ میں ایک دن رات کو پڑھ رہا تھا تو تب سنا تھا اور اس کے ایک مہینے بعد دوسری دفع سنا میں نے..... وہ .... اب..... آپ کو کیا بتاتا میں؟فہد نے جھجھک کہ آنکھیں جھکا لیں

 

مہرین: تم اتنی رات گئے کب سے پڑھنے لگے؟ اور کیا پڑھ رہے تھے جناب؟ اور میرے سونے کے بعد کونسا ایسا علمی جوش آ گیا تھا جو رات کو کتابیں کھول کہ بیٹھ گئے ؟ بتاؤ ناں ذرا.... بولو 

فہد کو آج پہلی دفعی سیکس سٹوریز والے معاملے میں اپنی بڑی بہن کے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا باوجود اسکے، کہ وہ جانتا تھا کہ مہرین باجی بھی اس کی لائی ہوئی سیکس سٹوری پڑھتی ہیں مگر پھر بھی فہد شرمندگی سے ڈوب ڈوب مر رہا تھا

 

فہد: مہرین باجی کیا ہو گیا ہے؟ فہد نے اپنی بہن کے ہاتھ تھام کہ اپنا پرانا جذباتی وار کیا

 

مہرین: اچھا یہ بتاؤ کہ یہ لڑکی لڑکا کون ہیں؟ کوئی پتہ وغیرہ لگانے کی کوشش کی؟ مہرین کا لہجہ نرم ہو چکا تھا اور دونوں بہن بھائی برابر لیٹ کہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کہ باتیں کر رہے تھے

 

فہد: باجی کوشش تو کی تھی کہ پتہ کروں کون ہے یہ لڑکی لڑکا لیکن اب کسی کے گھر جا کہ ایسی پوچھ گچھ کیسے کروں؟

 

مہرین: فہد, میں نے بھی یہ پہلی بار نہیں سنا, آج سے آٹھ یا دس ماہ پہلے میں نے دن کے وقت تقریبا ایک ڈیڑھ بجے یہ آوازیں سنی تھی لیکن تب مجھے ان کاموں کا اتنا زیادہ نہیں پتہ تھا لیکن آج تو۔۔۔۔۔۔ حد ہو ہی ہو گئی آج تو مہرین نے بڑے ہی شرارتی انداز میں فہد کو آنکھ ماری ۔

 

فہد: باجی سچ بتاؤں تو پڑھ کہ اتنا مزہ نہیں آتا جتنا آج سن کہ آیا ہے۔

 

مہرین نے فہد کے سر پہ مدھم سا تھپڑ لگایا اور اس کی بوقوفی پہ ہنسنے لگی

 مہرین: گدھے انسان, شرم کرو اور اب وقت بہت ہو گیا ہے سو جاؤ, صبح بات کرتے ہیں

 

مہرین نے آگے بڑھ کہ فہد کا ماتھا چوما اور دونوں اس پہلی بے تکلف اور عریاں گفتگو سن کہ نیند کی وادیوں میں چلے گئے

 

صبح صبح فہد کی آنکھ کھلی تو مہرین باجی کا ننگا پیٹ فہد کی نظر میں آگیا اور وہیں سے اس کی توجہ آج پہلی بار اپنی بہن کے جسم کی بناوٹ کی طرف گئی، فہد اس قدر معصوم اور بھولا تھا کہ وہ اپنی بہن کا جسم تجسس کے

ساتھ بنا شرمندہ ہوئے دیکھ رہا تھا حالانکہ اپنی بہن کے جسم کو دیکھتے وقت عموما بھائیوں کے دلوں میں شرمندگی کا احساس پیدا ہوجاتا ہے لیکن یہ شرمندگی کا احساس تو ایک مخصوص میچورٹی کے ساتھ آتا ہے اور فہد اس وقت صرف تجسس سے اپنی بہن کے جسم کو دیکھ رہا تھا

 فہد نے دیکھا کہ اسکی بہن کا جسم دودھ کی مانند سفید ہے اور اس کی بہن کی چھاتیوں کی گولائی بہت خوبصورت ہے، فہد مہرین کے جسم کو اس توجہ سے نہیں دیکھ رہا تھا جس توجہ کا حقدار مہرین کا بے مثال، سیڈول اور ترشا ہوا جسم تھا مگر پھر بھی فہد کی نظر گول گول چھاتیوں کو چوم رہی تھی، فہد اس منظر سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا اور روشنی کیوجہ سے اب مہرین کی آنکھ کھلی تو اس کا چہرہ اپنے بھائی کو دیکھ کہ کِھل سا گیا اور مسکراتے چہرے ایک دوسرے پہ محبت نچھاور کرنے لگے، دونوں نیچے آئے اور زندگی کے معمول کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے لگے

 

غربت اور مجبوری انسان کو خواہشات دبانے پہ تو مجبور کرتی ہی لیکن اس کے ساتھ کسی ایک دن بھی انسان کو اپنی ذمہ داریوں سے فراموش نہیں ہونے دیتی فہد اور مہرین حالات کی چکی میں پستے ہوۓ اپنے امتحانات کی تیاری پہ توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے ۔ اس رات والے واقعے کو لے کہ ایک دوسرے سے مذاق چھیڑ خانی بھی کرتے رہتے لیکن امتحانات میں کامیابی کیلئے مہرین کی تہہ دل سے کوششیں فہد کو راہِ راست سے بھٹکنے نہیں دے سکتی تھی.

 

حاجی انکل کے گھر میں کونسی کھچڑی پک رہی تھی یہ سوال مہرین اور فہد کو اندر ہی اندر سے بیچین کئیے ہوۓ تھی مگر دونوں بہن بھائی اپنے امتحانات میں اس قدر مصروف ہوگئے کہ ان کے لیے یہ معاملہ فی الحال اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا

 

کچھ ہی ہفتوں میں دونوں کے امتحانات ختم ہو چکے تھے اور اب انکے پاس وافر وقت ہوتا اور وہ اس وقت کو زیادہ تر اپنی ماں کے ساتھ گزارتے وقت گزرتا گیا اور پتہ ہی نہیں چلا کہ مہرین اب بیس ( 20) سال کی ایک جوان، خوبصورت، بھرے اور سیڈول جسم والی دوشیزہ بن چکی تھی, اب وہ بی. اے کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھی. فہد اپنی زندگی کی اٹھارویں بہار دیکھ چکا تھا اور اور اب وہ اپنی ماں کی خواہش کے مطابق اپنی بہن کے نقشِ قدم پہ چلتا ہوا ایف. اے کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا

 ہر ماں کی طرح مہرین کی امی بھی اس کا کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈ رہی تھی مگر کون اس غریب خاندان سے رشتہ جوڑے. رشتے آتے ضرور مگر کسی مزدور یا ان پڑھ سے اپنی پڑھی لکھی بیٹی کو بیاہنا تو قتل کے مترادف ہونا تھا کہ اس لئے مہرین کی امی کے پاس دعاؤں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچا بھلے مہرین ایک خوبصورت لڑکی تھی مگر ایسے غربت کے حالات میں جس میں دو وقت کی روٹی، بیوہ ماں کی ادویات اور انتہائی قلیل کتابوں کاپیوں کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے, ایسے حالات میں مہرین کی چہرے کی رعنائی اور خوبصورتی دب کہ رہ گئی تھی۔


 پچھلے تین سالوں میں مہرین اور فہد کے درمیان جو کچھ ہوا اس میں وہ کسی اخلاقی حد کو پار نہ کر سکے، مگر اب ان کے درمیان ایک دوسرے کی محبت اور لگاؤ میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا، وہ دونوں بہن بھائی ہر روز اپنی ماں کو دوا وغیرہ دے کہ اوپر کمرے میں جانے کے لئے بیتاب رہتے

 

انسیسٹ ایک ایسی چیز ہے جس کے لاتعداد رنگ ہیں، عموما لوگ خونی رشتوں میں جسمانی تعلقات کے قائم ہونے کو ہی انسیسٹ سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس اس کے علاوہ بھی انسیسٹ ہوتا ہے جسے مغربی معاشرے نے "ایموشنل انسیسٹ" کا نام دیا ہے

 

بہت سارے مسائل میں گھرے دو خونی رشتے جب ایک دوسرے سے حد سے زیادہ جڑ جائیں جس سے وہ ایک دوسرے کو نفسیاتی تسکین دینا شروع کر دیں تو یہ ایموشنل انسیسٹ کہلاتا ہے اور اس طرح کے رشتوں میں جسمانی لمس اس طرح معیوب نہیں رہتا بلکہ اس طرح کا لمس اور ایک دوسرے کیلئے جسم کا بے جھجھک دکھاوا دونوں افراد کیلئے ضرورت کی مانند بن جاتا ہے. ہاں بہر حال سیکس کرنا یا بچے پیدا کرنا ایموشنل انسیسٹ سے الگ گردانا جاتا ہے

 

فہد اور مہرین بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار تھے، وہ دونوں اب پہلے سے زیادہ میچور تھے مگر اس طرح کی نازک صورتحال سے خود کو بچانے کیلئے ابھی بھی کم سن ہی تھے دونوں بہن بھائی روزانہ رات کو کمرے میں جانے کے بعد ایک دوسرے سے اپنے دل کی ہر بات کرتے اور اس ہودان نما بالکنی میں بیٹھ کہ دنیا جہان کی باتیں ایک دوسرے کو سناتے. بظاہر یہ بہت خوبصورت بات تھی مگر ان دونوں کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ محبت کسی انہونی کا پیش خیمہ تھی، لیکن محبت ہے ہی اتنی کُتی چیز، جب اس کا بیج بویا جا چکا ہوتا ہے تو کون پرواہ کرتا ہے کہ انجام کیا ہو گا بلکہ محبت کرنے والے تو ہر طوفان سے ٹکرانے کیلئے تیار رہتے ہیں.

 

حالات کے مارے مہرین اور فہد ایک رات ستاروں اور چاند کی چھت کو دیکھتے ہوے باتیں کر رہے تھے، مہرین فہد کے چوڑے سینے پہ اپنی کمر اور سر ٹکا کہ فہد کی بانہوں کی گرفت میں گھری بیٹھی تھی، رات کا ایک بج رہا تھا اور آج مہرین اور فہد پڑھائی کو چھوڑ کہ بس ایک دوسرے کے دل کی باتیں سن رہے تھے کہ کہ اچانک دیوار کے پار سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور دونوں کو آج سے تین سال پہلے والا واقعہ یاد آگیا، ویسے تو وہ دونوں اسُ واقعے کو باتوں باتوں میں تین سال سے زندہ رکھے ہوئے تھے مگر آج تاریخ اپنے آپ کو نئے رنگ میں دہرانے والی تھی اس آواز کے آتے ہی دونوں نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اپنی اپنی نشست چھوڑی اور دبے دبے پاؤں جا کہ دیوار سے کان لگا لیے دیوار کی دوسری سمت سے چومنے اور چاٹنے کی آوازیں انتہائی صاف آ رہی تھی اور دیوار کے اس طرف چہروں کے تاثرات انتہائی کومل ہو رہے تھے، ادُھر با قاعدہ چدائی شروع ہوئی تو اِدھر بھی دلوں میں جذبات نے انگڑائی بھرنی شروع کی دیوار کے پار سے آنے والی آوازیں اس قدر شہوت انگیز تھی کہ فہد اور مہرین ایک دوسرے سے نظریں ملانے سے کترا رہے تھے، فہد اور مہرین ایک دوسرے کے گھٹنے سے گھٹنا ملائے دیوار سے کان جوڑے بیٹھے ہوئے تھے اور مہرین نے فہد کی دماغی غیر حاضری کو محسوس کیا تو فورا اس کے ہاتھ کو پکڑ کہ اپنی طرف متوجہ کیا، فہد نے بھی آنکھوں آنکھوں میں ہنس کہ مناسب جواب دے کہ توجہ دوبارہ آوازوں پہ کر دی مگر مہرین بار بار فہد کو چھیڑ رہی تھی، دیوار کے اسُ پار چدائی کا کھیل ذرا رک گیا اب آوازیں تو آ رہی تھیں مگر فہد اور مہرین اندازہ نہیں لگا پا رہے تھے کہ آخر ادُھر اب کیا ہو رہا ہے

 اچانک سے مہرین کے دماغ نے کام کیا اور اس نے فہد کو اپنے ہاتھ اور منہ کہ اشارے سے سمجھایا کہ ادُھر لن منہ کو چود رہا ہے, فہد بھی اشارے سے سمجھ تو گیا مگر وہ دونوں ہی اسبات کو سمجھ کہ ذرا شرمندہ ہو گئے، کچھ دیر بعد چدائی ختم ہوگئی اور وہ دونوں پہلے ہی آج کسی بات پہ اندر سے بیتاب تھے اوپر سے اب یہ والی بیتابی کا بوجھ لے کہ واپس اسی بالکنی میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظریں ملا کہ بیٹھ گئے

 کچھ دیر خاموشی نے اپنا دبدبہ قائم رکھا مگر بیچینی، بیتابی کا سمندر ٹھاٹے مارتا ہوا دلوں کو بہکا رہا تھا

 

مہرین: فہد کون ہیں یہ؟ اتنا مزہ کرتے ہیں

 فہد: باجی پتہ نہیں کون ہیں، لیکن ایک بات تو تہہ ہے کہ یہ حاجی انکل کے فیملی ممبرز میں سے ہی کوئی ہیں۔

 

مہرین: یار ایک ہی فیملی ممبر ہوگا یا ہوگی, ایک تو لازمی باہر کا ہے، 

کچھ دیر سوچنے کے بعد مہرین خود ہی بولی مہرین: لیکن فہد حاجی انکل باہر دروازے کے سامنے چارپائی لگا کہ سوتے ہیں 

ہیں اور ہمارے گھر میں بھی ان کے گھر کی طرح چھت کی طرف کوئی راستہ نہیں جاتا تو یہ...... تو یہ؟ فہد؟ مہرین بولتے بولتے اچانک رک گئی اور اس کے 

چہرے پہ حیرانی کے تاثرات صاف چھلک رہے تھے

 فہد: مجھے بھی یہی لگتا ہے جو آپکو لگتا ہے

 مہرین اسی حیرانگی بھرے انداز میں فہد کی طرف دیکھ رہی تھی

 مہرین: تمہارا مطلب؟ وہ حاجی انکل کے بچے.....؟ مطلب؟؟؟؟ بہن بھائی؟؟؟ 

 فہد: ہو سکتا ہے مہرین باجی ورنہ آپ ہی بتائیں کہ کون آسکتا ہے ان کے گھر باہر سے؟ آپکو آوازیں جانی پہچانی نہیں لگتی؟

 مہرین ابھی اسی صدمے میں فہد کی باتوں کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہی تھی

 مہرین: مگر حاجی انکل کی بیٹیاں تو بڑی پردہ دار ہیں اور مدرسے کے علاوہ کہیں آتی جاتی بھی نہیں۔

فہد: مہرین باجی حاجی انکل کا سخت اور شدت پسند رویہ اور اتنی شدید پابندیاں ہی شاید اس کام کی ذمہ دار ہیں

 مہرین: ہاں تو کیا اب کھلا چھوڑ دیں وہ اپنی بیٹیوں کو جا کہ کسی سے مرضی..... یہ سب..... کروایں ہچکچاتے ہوے مہرین یہ سب بول گئی

 فہد: باجی ایسی بھی بات نہیں لیکن جس طرح حاجی انکل نے اپنے بچوں کو ڈر اور خوف کا شکار بنا کہ رکھا ہے اس سے وہ باہر تو کچھ کر نہیں سکے اور گھر میں ہی....... شروع ہو گئے فہد اور مہرین کھل کہ بولنا چاہ رہے تھے مگر انہیں ایک ہچکچاہٹ کا ابھی بھی سامنا تھا۔

 مہرین اور فہد کے لیے اپنے اتنے قریب اور مشترکہ طور پہ ایک انسیسٹ ریلیشن کے گواہ ہونے کی وجہ سے کچھ عجیب خیالات ستانے لگے تھے مگر وہ دونوں ہی کسی طرح کے گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہ رہے تھے یا یوں کہہ لیں کہ دونوں کو فی الحال وقت چاہئیے تھا لیکن وقت ہی تو ان کو خود اتنا پاس لا رہا تھا ورنہ ہلکی پھلکی اونچ نیچ تو ہر بہن بھائی کے درمیان ہوتی ہے، نہیں ہوتی تو وقت کی اتنی فراوانی نہیں ہوتی جتنی فہد اور مہرین کو میسر تھی


 مہرین: نہ بابا نہ, میں تو سوچ بھی نہیں سکتی ایسا

 فہد: ہاہاہاہا باجی جانے دو, میں سوچ سکتا ہوں بھلا ایسا؟

 مہرین نے بھی اس مزاح میں فہد کو شرارتی انداز میں مسکرا کہ جواب دیا

 مہرین: ہاں ہاں ہو سکتا ہے... تم ایسا سوچو تو صحیح میں تمیں گنجا کر دونگی

 فہد: لیکن مہرین باجی تین سال سے تو ہم اس کو سن رہے ہیں نجانے کب سے یہ

سب چل رہا ہے اور کون سی والی بہن ہے اور کون سا بھائی ہے

 مہرین: اب یہ تو وہ کسی دن رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں تو ہی پتہ چلے گا

 فہد: ہاۓ ایسے نہ بولیں باجی، کسی کا کیا لیتے ہیں اپنے مزے کرتے ہیں کرتے جائیں اور ویسے بھی باہر سے تو بہتر...... میرا مطلب۔ 

مہرین نے فہد کی بات سن کہ ترچھی اور طنزیہ نگاہ سے فہد کی طرف دیکھا

 مہرین: بڑے لبرل خیالات ہیں تمہارے فہد، شرم کرو تم کل کو تم ل۔ 

مہرین غصے میں بولتی بولتی چپ کر گئی اور فہد نے بڑھ کہ مہرین کو گلے لگا لیا

 فہد: نہیں باجی کل کو کیا میں کسی بھی دن ایسا نہیں سوچونگا

 مہرین نے بھی فہد کے گرد بانہیں پھیلا لیں اور دونوں ہی اندر اندر سے اپنے جذبات کو ایک دوسرے کیلئے محسوس کر رہے تھے

فہد اور مہرین اپنے اپنے بستر پہ آکہ لیٹ گئے لیکن آج رات دونوں ہی بےچینی کے شکار نیند کو تلاشتے تلاشتے بلآخر سو گئے

 وقت بیتتا جا رہا تھا، فہد کی تنخواہ اب اتنی ہو گی تھی کہ وہ گھر کے کافی سارے اخراجات اٹھانے لگ گیا تھا، حالات ذرا بہتری کی طرف جا رہے تھے مگر انکی امی کی صحت دن بدن خراب ہورہی تھی جس کی وجہ سے وہ دونوں اپنے قرب کے لمحات کو قربان کر کہ اپنی ماں کی صحت کو وقت دے رہے تھے




جاري ہے

Post a Comment

0 Comments