گرم بھائی بہن
قسط 3
فہد اور مہرین اب زیادہ تر اپنی وقت اپنی امی کو دیتے اور پڑھائی سے ان کا دھیان ہٹ چکا تھا مگر اوپر کمرے میں جانا اور وہاں ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفانہ چھیڑ چھاڑ اور گفتگو ان کی عادت بن چکی تھی جو کہ وہ اپنی امی کے سامنے کرنے سے ہچکچاتے تھے
کافی دن ایسے ہی گزرے تو ایک رات مہرین نے فہد کو نیند سے جگایا اور وہ گھبراء کہ اٹھ گیا مہرین نے فورا اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کہ اسے چپ رہنے کا کہا اور اسے اٹھا کہ اوپر کمرے میں لے آئی, فہد جو ک صبح ڈیوٹی پہ جانے کیلئے سویا ہوا تھا اپنی محبوب بہن کے اشارے پہ اوپر آ گیا اوپر آتے ہی فہد نے مہرین سے سوال کیا فہد: کیا ہوا باجی اس ٹائم اوپر کیوں لے آئیں ؟
مہرین کے چہرے پہ ذرا غصے کے تاثرات تھے اور وہ منہ بنا کہ بولی مہرین: کتنے دن ہو گئے ہیں ہم الگ الگ ہیں ایک دوسرے سے
فہد: کیا مطلب باجی؟ سارا دن کام پہ اس کے بعد گھر آکہ میں کہاں جاتا ہوں؟
در اصل مہرین ایموشنل انسیسٹ کا شکار تھی اور فہد کی ساتھ رات میں وقت گزار کہ اپنے آپ کو سکون دیتی تھی
مہرین نے فہد کے گلے میں بانہیں ڈال لیں اور وہ وہیں کھڑے کھڑے ایک دوسرے کو گلے لگائے ہوئے تھے
فہد: آ جاو یہیں سو جاتے ہیں باجی
مہرین بنا کسی بحث کے فہد لے کہ بستر میں آ گئی، نیند تو فہد کی برباد ہو ہی گئی تھی لیکن اس کو نیند کی بربادی کا کوئی نقصان نہیں پہنچا مہرین آج فہد کے ساتھ اپنا جسم لگائے اس کے سینے پہ سر رکھ کہ لیٹی ہوئی تھی، مہرین کی گول فربہ اور نرم چھاتیاں فہد کے ساتھ مکمل طور پہ چسپاں تھی، فہد نے اپنے بازو سے مہرین کو پکڑا ہوا تھا اور یہ انکی زندگی کا پہلا ایسے ساتھ سونے کا تجربہ تھا، آج سے پہلے فہد اور اسکی بہن رات کو ایسے ایک ہی بستر میں گلے لگ کہ کبھی نہیں سوئے تھے
مہرین نے فہد کے چہرے کے پاس اپنا منہ کر کہ اس کے گال کو چوما اور فہد ہنس پڑا
مہرین: کیا ہوا؟ ہنس کیوں ہنس رہے ہو؟
فہد: نہیں باجی مجھے شرم آرہی ہے، کبھی آپکے اتنا پاس نہیں سویا اور نہ ہی
ایسے آپ نے پہلے کبھی چوما ہے
مہرین: پاگل بڑی بہن ہوں تمہاری شرم والی کیا بات ہے، ادھر ہمسائے گھر میں دو بہن بھائی کیا کیا کرتے ہیں اور تم اتنے سے شرما گئے ؟
مہرین اور فہد اس بات پہ ہنسنے لگے
فہد: ہاہاہاہاہا مہرین باجی شرم کریں، توبہ کریں
تو مہرین نے دوبارہ سے فہدکو گردن سے چوم لیا اور فہد نے مہرین کی طرف کروٹ کر کہ اسے اپنے سینے میں سما لیا مہرین گھر میں قید رہنے والی لڑکی تھی جس کے لیے فہد کے علاوہ کوئی اور مرد میسر نہ تھا مگر وہنہ صرف جسمانی طلب کیوجہ سے یہ سب کر رہی تھی بلکہ نفسیاتی تسکین بھی اسے صرف فہد سے ہی ملتی تھی۔ ساری رات فہد اور مہرین ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹ کر سوئے رہے، اس حد تک ایک دوسے کے قریب ہونے کے باوجود فہد نےاور مہرین نے رشتے کے تقدس کو پامالی کی طرف بڑھنے نہیں دیا اور یہ بہت بڑی بات تھی
کافی دن گزر گئے اور اب جیسے جیسے انکی امی کی طبیعت بہتر ہوتی گئی وہ دوبارہ سے اپنی اوپر سونے والی روٹین پہ واپس آتے گئے اب فرق یہ تھا کہ دونوں اکثر رات کو ایک دوسرے کے گلے لگ کہ سوتے جس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان بے تکلفی خوشگوار حد تک بڑھ چکی تھی، فہد اور مہرین دونوں اس بات سے آگاہ تھے کہ ان کو بس اپنی اس حد سے تجاوز نہیں کرنا اور ابھی تک وہ اس حد میں رہنے میں کامیاب تھے
کچھ ماہ ایسے ہی بیت گئے، فہد اور مہرین کا قرب اب جسمانی لحاظ سے بہت دلکش ہو چکا تھا مون سون کی بارشیں کبھی دن میں برستی اور کبھی رات میں، فہد کا سارا گھر بند تھا جس کی وجہ سے مہرین تو کم از بارش میں نہانے کا شوق تو پورا نہیں کر سکتی تھی لیکن فہد نے باہر آنا جانا ہوتا تھا اسلیے اس کو اکثر یہ موقع مل جاتا۔ ایک رات فہد اور مہرین رات کو بیٹھے پڑھ رہے تھے اور اس دن بارش کا بھی مکمل موڈ تھا کہ وہ آج کھل کہ برسے، بالکنی میں محدود سی جگہ تھی اور مہرین نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اگر آج بارش برسی تو لازمی نہائے گی اور فہد اپنی بہن کو اس بھدے خیال سے منع کر رہا تھا مگر مہرین اور بارش دونوں کے ارادے آج پہاڑ کی طرح مضبوط تھے
بارش نے بھی برسنے میں شدت دکھائی اور مہرین بھی اس بالکنی میں کھڑی بھیگنے لگی، فہد کمرے میں ہی نزدیک بیٹھا اپنی بہن کے پورے ہوتے ہوئے شوق پہ ہنس کر رہا تھا
مہرین مکمل بھیگ کہ رات کی رانی لگ رہی تھی ساتھ اور اس کا سارا بھیگا بدن فہد کی نظروں کے سامنے تقریبا عریاں تھا
کچھ دیر بعد جب مہرین نے فہد کو بھی اپنے ساتھ وہاں کھینچ لیا تو فہد اور مہرین ایک ساتھ اس بارش میں بھیگنے لگے، بارش نجانے کب رکتی لیکن اب ٹھنڈی ہوا سے ان کے جسم ٹھٹھر رہے تھے اور مہرین تو فہد کے سامنے تقریبا عریاں تھی، فہد اور مہرین دونوں ہی بہک رہے تھے اور آج کا طوفان صرف موسم میں ہی نہیں آیا تھا بلکہ جذبات میں بھی آرہا تھا
ہنستے کھیلتے دونوں بہن بھائی بارش کو چھوڑ کہ کمرے میں آگئے اور آتے ہی اپنے جسموں کو خشک کرنے لگے فہد کے کپڑے تو اوپر موجود تھے لیکن مہرین یہ سوچ کہ گھبرا رہی تھی کہ اس کے کپڑے نیچے امی کے کپڑوں کے ساتھ پڑے ہیں اور اس ٹائم جا کہ کپڑے ڈونڈنے سے ایک تو امی جاگ جائے گی اور دوسرا وہ اس بچگانہ حرکت پہ ناراض بھی ہوں گی بلآخر فیصلہ یہ ہو کہ مہرین فہد کے ہی کوئی ٹراؤزر شرٹ پہن کہ سوئے گی اور اپنے کپڑوں کو پھیلا دے گی تا کہ وہ صبح تک سوکھ جائیں جن کو وہ صبح پہن کہ نیچے چلی جائے گی یہی ایک محفوظ اور مناسب طریقہ تھا. دونوں نے کپڑے تبدیل کر لیے اور جب مہرین فہد کی کھلی ٹی شرٹ میں بنا بریزئیر کے فہد کے سامنے آئی تو اس کے سردی سے اکڑے ہوں تنے ہوئے نپلز چھاتی کی گولائی کی خوبصورتی دکھا دہے تھے
مہرین بڑے ہی بے باک انداز میں اپنے کپڑوں کو نچوڑ کہ پھیلانے لگی اور شلوار، قمیض اور آخر پہ بریزئیر کو بھی سوکھنے کے لیے پھیلا دیا
فہد یہ سب منظر کو دیکھتے ہوئے بہت نروس ہو رہا تھا مہرین نروس ہو رہے اپنے بھائی کے جذبات کو سمجھ سکتی تھی، اپنے بالوں کو تولیئے سے اچھی طرح خشک کرکہ اپنے آپ کو چادر سے لپیٹ کہ بستر پہ جا لیٹی، فہد ابھی بھی فاصلے پہ بیٹھا حالات کے مطابق ڈھلنا چاہ رہا تھا
بارش ابھی بھی اسُی آب وتاب سے برس رہی تھی، بادلوں کی گرج چمک اور بالکنی سے آتی ہوئی نم اور ٹھنڈی ہوا کا ایک عجیب ہی لطف آرہا تھا
کچھ دیر بعد مہرین نے فہد کو بستر میں آنے کا کہا اور فہد اپنے بستر میں لیٹ گیا اور مہرین اس کے برابر میں آکہ لیٹ گئی مہرین کی چھاتیاں شرٹ میں ابھر کہ نپلز کی بناوٹ واضح دکھا رہی تھی اور فہد یہ سب دیکھتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس منظر کو اگنور کر رہا تھا لیکن کب تک کرتا۔ مہرین نے فہد کو گلے لگا کہ سونے کی کوشش کی اور دونوں بہن بھائی رات کے اگلے پہر نیند کی وادی میں چلے گئے بارش برستی رہی اور موسم میں خنکی بڑھتی رہی، رات کو دونوں گرم جسم جب موسم کی سردی سے ٹھنڈے پڑنے لگے تو نیند میں ہی ایک دوسرے سے چپکنے لگے
فہد کی آنکھ نہ جانے کس پہر کھلی بارش ابھی بھی پڑ رہی تھی، اور دن ہلکا ہلکا چڑھ چکا تھا مہرین اور فہد ایک دوسرے کو گلے لگاے لیٹے ہوئے تھے انکے ہونٹ ایک دوسے کے ہونٹوں کے عین پاس تھے فہد کا لن تنا ہو اپنی بہن کی ٹانگ میں گھس رہا تھا اور اس کا ننگا پہٹ شرٹ سے آزاد تھا
فہد نیند سے بیدار اپنے جذبات کو قابو نہ کر سکا اور اس نے اپنی بہن کے لبوں سے لب ملا لیے یہ اس کے لیے اس قدر نرالا احساس تھا کہ وہ اپنے ہونٹ اپنی بہن کے ہونٹوں سے جوڑ کہ لیٹا رہا
سانسوں کی گرمی کا احساس دونوں کو بیچین کرتا گیا اور کچھ لمحوں بعد ہی آدھی سوئی آدھی جاگی مہرین نےفہد کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے ہونٹ چومنے لگے اور اب جسم بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل مل کہ رگڑ کھانے لگے اب دونوں بند آنکھوں نیند سے بیدار بہکاوے کی انتہا پہ ایک دوسرے کے ہونٹ چومنے میں لگے ہوئے تھے فہد کا ہاتھ مہرین کی شرٹ سے ہوتا ہوا اس کی ایک چھاتی پہ چلا گیا فہد بڑی نرمی سے چھاتی کو مسلنے لگا
مہرین کی نرم جلد مخمل سے بھی ملائم تھی اور اس کی چھاتیاں بھرپور طریقے سے تنی ہوئی تھی، مہرین کا ایک ہاتھ فہد کے سر اور بالوں میں گھوم رہا تھا اور ایسے ہی کسنگ کرتے کرتے مہرین کہ شرٹ سے دونوں چھاتیاں آزاد فہد کی گرفت میں تھیں مہرین اس قدر بہک چکی تھی کہ وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور وہ اب فہد کے اوپر آ کہ اس کو چوم رہی تھی فہد نیچے سے مہرین کے جسم کو سہلاتا جا رہا تھا اور مہرین ایک بھی لمحے کیلئے فہد کی ہونٹ آزاد نہیں کر رہی تھی، فہد نے مہرین کی شرٹ کو اٹھایا تو مہرین نے بازو اٹھا کہ شرٹ کو اتار دیا اور ننگی چھاتیوں کو فہد کے منہ میں دینے لگی فہد نے مہرین کے نپلز کو چوما اور چوسا اور اتنا چوما کہ وہ تھوک سے گیلے ہو چکے تھے
فہد کا لن مہرین کی گانڈ میں چبھ رہا تھا اور وہ بھی اس خوب مزے سے محسوس کر رہی تھی قریب تھا کہ فہد مہرین کی ٹراؤزر نیچے سرکاتا ک اچانک نیچے سے ان کی امی کی آواز آئی مہرین جلدی سے فہد کے اوپر سے اتر کہ کمرے کے دروازے کی طرف بھاگی اور احتیاط سے نیچے نظر دوڑائی تو اس کی امی کی دوبارہ آواز بلد ہوئی
جاری ہے
0 Comments