ads

Garm Behn Bhai - Episode 4

گرم بھائی بہن


قسط 4



فہد اور مہرین ایک دوسرے کے سامنے بے باک انداز میں ایک خوبصورت خواب سے جاگے ہی تھے مہرین بنا شرٹ کے فہد کے سامنے کھڑی اپنا بریزئیر دیکھ کہ اس کی نمی کا اندازہ لگا رہی تھی اور فہد وہیں بت بنا لیٹا ہوا اپنی بہن کے جسم کی بناوٹ کو دل ہی دل میں سراہ رہا تھا، نیم گیلا بریزئیر پہننے میں مصروف مہرین نے جلدی جلدی قمیض پہن کی فہد کی طرف پہلی بار قاعدہ نگاہ ڈال کہ منہ گھمانے کا اشارہ کیا فہد نے منہ گھمایا تو مہرین نے ٹراؤزر اتار کہ شلوار پہن کہ فہد کو محاطب کی


مہرین: بارش تو ابھی بھی نہیں رکی

 مہرین ایسے بات کر رہی تھی جیسے کچھ بھی نہیں ہوا اور فہد نے بھی یہی کیا لیکن اندر ہی اندر سے وہ دونوں شرمندہ اور گھبرائے ہوئے تھے

 اس دن فہد بارش میں ہی ڈیوٹی پر چلا گیا اور مہرین نے اسے ایک بار بھی نہیں روکا کیونکہ گزشتہ رات جس حد کو انہوں نے پار کیا تھا اس کی وجہ سے دونوں ہی پشیمان تھے۔ نہ جانے اب وہ دونوں ایک دوسرے کا سامنا کیسے کریں گے لیکن ایک بات طہ تھی کہ اب انکا رشتہ خراب ہو چکا ہے اور اگر ان کو یہ رشتہ بچانا ہے تو دونوں کو ہی کمال ضبط کا مظاہرہ کرنا پڑے گا.

 فہد جس ذہنی تناؤ میں گھر سے بھیگتا ہوا نکلا تھا تقریبا وہی حال گھر میں مہرین کا بھی تھا، وہ فہد کو چاہتے ہوئے بھی نہیں روک سکی، جب فہد دروازے سے باہر نکلا تو مہرین بس اسے دروازے سے بھیگتے ہوئے جاتا دیکھتی رہی. فہد جس دفتر میں ملازمت کرتا تھا وہاں کے سب افسر فہد کو اس خراب موسم میں دفتر پہنچنے پہ ڈانٹ رہے تھے لیکن فہد کے دماغ پہ رات والے واقعات کا اتنا گہرا اثر پڑ چکا تھا کہ وہ اب دوبارہ گھر جانا ہی نہیں چاہ رہا تھا اور اپنی بہن کا سامنا کرنے کی ہمت فہد میں بالکل بھی نہیں تھی

 

مہرین بھی سارا دن ذہنی طور پہ غیر حاضر فہد کی جلد گھر واپسی اور اس کی صحت سلامتی کی دعائیں کرتی دن کاٹ رہی تھی۔ ایک طرف فہد خود کو مہرین کا مجرم بنا کہ ہلکان ہو رہا تھا اور گھر میں مہرین خود کو اپنے بھائی کی مجرم مان کہ بیٹھی اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہ رہی تھی، حالانکہ نہ ہی فہد مجرم تھا اور نہ ہی مہرین، مجرم تو جذبات تھے جو بھڑک اٹھے لیکن محبت کرنے والوں کی ایک اپنی ہی منطق ہوا کرتی ہے، اسی لیے فہد اور مہرین دونوں کے حواس بے قابو تھے ورنہ بہکاوے کو ذمہ دار بنا کہ دلوں کوسمجھایا ہی جا سکتا تھا

 

دفترکا وقت ختم ہوا تو دفتر کےتمام لوگ جلدی گھر پہنچنے کیلئے اپنے اپنے راستے ہو لیے لیکن فہد کی دفتر سے نکلنے کی سُست روی کو دیکھ کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکا تو کوئی گھر ہے ہی نہیں، فہد جانتا تھا کہ اگر وہ گھر ذرا سی بھی دیر سے پہنچا تو اسکی امی اور مہرین باجی گھبرا جائیں گی اس لیے بھاری قدموں کے ساتھ وہ گھر کی طرف چل دیا۔ دفتر سے کچھ قدم ہی چلا تھا تو بارش کی اوسط درجے کی رم جھم نے دوبارہ سے برسنا شروع کر دیا، سارے دن کا تھکا ہارا فہد اپنی بھوک سے بے پرواہ بھیگتا ہوا گھر کی طرف بڑھتا گیا اور بیس پچیس منٹ کی پیدل مسافت طہ کر کہ جب گھر کے دروازے کے پاس پہنچا تو پریشان حال مہرین سر پہ دوپٹہ اوڑھے دروازے میں اپنے اکلوتے بھائی کی منتظر کھڑی تھی،۔فہد کو بھیگتا ہوا آتا دیکھ کہ بہن کا دل پسیج گیا اور اس کو جلدی سے اندرسے تولیے لا کہ اس کے جسم اور بالوں کو سکھانے لگی، سر تا پائوں بھیگا فہد سلام دعا کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں بول پا رہا تھا اور ان دونوں کی امی بستر پہ بیٹھی فہد کو محبت بھری ڈانٹ پلا رہی تھی کہ اتنے خراب موسم میں ظالم دفتر والوں نے اس کے بیٹے کو بلا لیا

 

فہد اور مہرین کے درمیان ایک سرد مہری کا عالم تھا، کپڑے بدل کہ فہد سکون سے بیٹھا اپنی ماں کو تسلی دینے لگا کہ کام کی نوعیت ہی ایسی ہے وغیرہ وغیرہ رات کو دونوں بچے اپنی ماں کے پاس لیٹے سونے کا بہانہ کر رہے تھے لیکن ذہنی قرب اس قدر شدید تھا کہ دونوں بہن بھائی رات دیر تک چھت کو گھورتے رہے رات کے کسی پہر مہرین بیچینی سے بھری نیند سے بیدار ہوئی تو برابر والی سمت میں اپنے بھائی کو جسم سمیٹے ہوئے کانپتا پایاںتو ہڑبڑا کہ اپنے بھائی کیطرف لپکی، ماتھے پہ ہاتھ لگایا تو فہد کا جسم کسی شعلے کی طرح تپ رہا تھا، فورا کمبل اٹھایا اور فہد کو لپیٹ دیا اور آنسووں کی قطار مہرین کے گال بگھونے لگی ساری رات فہد کے سرہانے بیٹھ کہ دعائیں کرتی کبھی فہد کے سر کو دبانے لگتی اور کبھی اسکے بازو اور کبھی ٹانگیں

 مہرین فہد کے سرہانے بیٹھی سر کو دباتے دباتے دوبارہ سو گئی اور صبح جب فہد بخار سے تپتا ہوا نیند سے بیدار ہوا تو اپنی بہن کو ترچھی سمت میں بیٹھی ہوئی دیکھا تو اٹھنے کی کوشش کرنے لگا اور فہد کی ہلکی سے جنبش سے مہرین فورا بیدار ہو گئی، فہد بخار کی شدت کیوجہ سے اٹھ بھی نہیں پا رہا تھا۔ مہرین نے فورا کھڑے ہو کہ فہد کو اپنے سہارے سے اٹھایا اور فہد کو واش روم تک چھوڑ کہ باہر کھڑی ہو گئی


 

مہرین: اندر سے کنڈی نہ لگانا فہد

 

فہد نے ہاں میں سر ہلایا اور واشروم میں داخل ہو گیا، کمزوری اور لاچارگی فہد کے چہرے سے ٹپک رہی تھی، مہرین فہد کو بار بار باہر سے آواز دے کہ طبیعت کی بحالی کا اندازہ لگا رہی تھی اور فہد کچھ دیر بعد باہر آیا تو مہرین نے اسے دوبارہ بستر پہ لا کہ لٹا دیا۔

 مہرین نے فہد کو لٹا کہ دوبارہ اس کے ماتھے کا درجہ حرارت اپنی ہتھیلی سے محسوس کیا اور جلدی جلدی ایک برتن میں پانی اور کپڑوں کے ٹکڑوں سے اس کے ماتھے پہ پٹیاں رکھنے لگی، کافی دیر جسم پہ ٹھنڈی پٹیاں کرنے سے فہد کا بخار کم ہوتا چلا گیا اور جب ان کی امی جاگی تو وہ بھی ان حالات سے گھبرا گئی

 مہرین فہد کو نزدیک ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور کچھ ٹیکے لگوا کہ کھانے کی لیے دواء لے کہ دونوں بہن بھائی گھر آگئے۔ فہد کی خدمت خاطر میں ہلکی سی کسر نہ رہ جائے اس لیے بیمار ماں اور فہد کی بہن مہرین سکون سے بیٹھ ہی نہیں پا رہی تھیں، دواء کے اثر سے رات تک فہد کافی بہتر ہو چکا تھا اور مہرین ساری رات فہد کے برابر لیٹی اس کی ایک جنبش پہ بھی ہڑبڑا کہ بیٹھ جاتی، اگلے روز فہد کی طبیعت بہتر تو تھی لیکن وہ دفتر جانے کی حالت میں نہیں تھا اس لیے سارا دن مہرین کے ہاتھوں سے خدمت کے مزے لیتا رہا اور اپنی بہن کی اس قدر وسیع اور بے لوث شفقت نے اس واقعہ کی شرمندگی اور ندامت کو کم کر دیا تھا، اب فہد مہرین سے کسی حد تک نارمل طریقے پہ بات کرنے لگا،

 

رات تک فہد بخار سے بالکل ٹھیک ہو کہ تندرست بیٹھا تھا لیکن مہرین اور اس کی امی فہد کی کو بستر سے ایک قدم بھی ہلانے نہیں دے رہی تھی، فہد اور مہرین بھلے اب پہلے کی طرح مل جل چکے تھے لیکن دلوں میں موجود بوجھ ابھی کہاں ہلکا ہو تھا۔ ابھی تو ایک مرحلہ باقی تھا اور وہ مرحلہ تھا اسُ واقعے کے بعد بہن بھائی کی پہلی تنہائی شاید وہ دونوں اندر ہی اندر اسُ تنہائی سے کترا رہے تھے لیکن مہرین جلد سے جلد اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہی تھی اسلیے اس نے فہد کی طبیعت کی بہتری کا شکر ادا کیا اور باتوں باتوں میں فہد کو کمرے میں الگ ملنے کا کہنے لگی، فہد نے بھی اپنی بہن کے انداز کو پرکھ لیا اور رات کو اپنی امی کو تسلی سے سلا کہ دونوں اوپر سٹڈی روم میں آگئے کچھ دیر خاموشی اور بے ہنگم سے جذبات گفتگو کے آغاز میں حائل تھے۔ فہد قدرے بہتر تھا مگر ابھی مکمل طور پہ تندرست نہیں تھا اسلیے وہ دیوار سے ٹیک لگائے باہر آسمان کو تکنے لگا۔

 

مہرین اپنے بھائی کے برابر آکہ بیٹھ گئی اور اسکے پاؤں دبانے لگی۔ فہد نے منع کرنے کے لیے پاوں واپس کھینچے مگر مہرین اپنی بے پناہ محبتوں سے سرشار فہد کے پاوں دبانے لگی فہد آسماں تکتا ہوا کسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک اس کے پاوں پہ ایک قطرہ گرا جس سے اس کی توجہ سوالیہ انداز میں مہرین کی طرف ہو گئی۔ مہرین پاوں دباتے دباتے اپنے آنسو چھلکا بیٹھی اور فہد نے فورا مہرین کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کہ سیدھا ہو کہ بیٹھ گیا

 

فہد: مہرین باجی, کیا ہو گیا ہے؟

 

مہرین اس سوال پہ مزید جذباتی ہو گئی اور آنسووں کی قطار لمبی ہو گئ۔

 فہد نے بڑھ کہ مہرین کے آنسو پونچھے اور مہرین کو گلے سے لگا لیا۔ مہرین اب زارو قطار رونے لگی اور فہد بڑے ہے شفیق انداز میں مہرین کو دلاسہ دے کہ چپ کروانے لگا

 

مہرین: خدا کرے میری عمر بھی تمیں لگ جائے فہد۔

 

فہد: کیا ہو گیا مہرین باجی، خوامخواہ اتنا جذباتی ہو رہی ہیں

 فہد کے سینے سے لگی مہرین فہد کا کندھا بگھو رہی تھی فہد کی بے پناہ محبت کی وارث، اسکی بڑی بہن اسکی بانہوں کے گھیرے میں اندر سے ٹوٹ چکی تھی

 مہرین: خدا تمہیں صحت اور لمبی عمر دے، چھڑ دو ایسی نوکری جو ایسی بارش میں بلا کہ تمہیں بیمار کر دے

 

فہد ہنسنے لگا اور اپنی بہن کے سر پہ ایک بوسہ دے کہ چہرے کو اپنے سامنے کر کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ دیکھنے لگا، مہرین نے نظریں چرا کہ فہد کا ہاتھ تھام لیا

 

فہد: مہرین باجی مجھے اس رات والی حرکت کیلیے معاف کر دیں

 

مہرین نے فہد کی طرف دیکھا اور اسکے چہرے پہ محبت سے ہاتھ پھیر کہ مسکرا کہ دیکھا

 مہرین: تم ٹھیک ہو جاو فہد مجھے اور کچھ نہیں چاہئے، اور تم کس بات کی معافی مانگ رہے ہو؟ جتنا تم اس بات کے ذمہ دار ہو اتنی ہی ذمہ دار میں بھی ہوں

 

فہد نے سر جھکا کہ مہرین کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور رونے لگا

 فہد: نہیں مہرین باجی میں آپکا مجرم ہوں

 فہد معافی مانگتا اس شدت سے رونے لگا کہ مہرین کیلیے سنبھالنا مشکل ہو گیا. مہرین نے بڑی مشکل سے فہد کو چپ کروایا اور اسے اپنے سینے سے لگا کہ نہ جانے کتنی دیر بیٹھی رہی، فہد اپنی بڑی بہن کے سینے سے ایسے چمٹا رو رہا تھا جیسے چند سال کا بچہ اپنی ماں کے سینے لگ کہ روتا ہے

 

کچھ دیر اس جذباتی لمحے سے مہرین کافی گھبرا گئی کیونکہ اس کو اندازہ ہوگیا تھا کہ فہد اس حرکت کیوجہ سے ضرورت سے زیادہ شرمندہ ہے اور اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فہد کو کیسے نارمل کرے

 

مہرین: فہد بس کر جاو کچھ نہیں ہوا۔ تم میرے بھائی ہو اور ہمیشہ رہو گے، اور یہ جو ہمارے درمیان ہوا اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا

 

فہدا جو کہ کافی دیر سے اپنی بہن کی گود میں سر گھساۓ بیٹھا تھا اب اپنے دل کا بوجھ ہلکا محسوس کر رہا تھا اور اب وہ بات کرنا چاہ رہا تھا

 فہد: باجی میں نہ جانے کیسے بہک گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ آپ میری بڑی بہن ہو

مہرین: ہاں تو کیا ہو گیا؟ اب میں تمہاری بہن نہیں رہی کیا؟ اب بھی تو ہم وہی  مہرین اور فہد ہی ہیں

 

فہد خاموش مہرین کے آگے سر جھکائے اپنی بہن کے ہاتھوں کو بڑی ہی عقیدت سے تھامے بیٹھا تھا مہرین نے فہد کا چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کہ ماتھے سے چوما

 مہرین: میں تمہیں ماتھے پے چوموں، گالوں پے چوموں یا گالوں کے درمیان پے چوموں تم میرے بھائی ہی رہو گے۔

فہد نے ذرا حیرانی سے مہرین کی طرف دیکھا لیکن اس بات سے اس کو ذرا سکون ملا کہ وہ ہمیشہ بہن بھائی ہی رہیں گے، اسکے بعد مہرین نے اپنی کہی بات کو عملی جامہ پہنایا اور فہد کے ماتھے کو چوما پھر دایاں گال اسکے بعد بایاں گال چوما اور ایک لمحے کا وقفہ دے کہ اپنے ہونٹ فہد کے ہونٹوں کی طرف بڑھاے، فہد نے جھجھک کہ اپنا چہرہ پرے کرنا چاہا لیکن مہرین نے اپنے ہاتھوں کی گرفت سے فہد کو پیچھے نہ ہونے دیا اور آہستگی سے فہد کے  ہونٹوں کا بوسہ لے لیا

 مہرین: لو اب کیا ہوا؟ ابھی بھی تم میرے بھائی ہو میں تمہیں جہاں سے چاہوں  چوموں کسی کو کیا تکلیف؟

 

 فہد: مہرین باجی وہ لیکن

 مہرین: لیکن ویکن کچھ نہیں ہوتا فہد میں مانتی ہوں کہ ہم ایک حد سے بھی آگے نکل گئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ساری زندگی اس صدمے میں رو رو کہ مر جائیں، زندگی بہت لمبی ہے فہد اس کو ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے برباد تو نہیں کر سکتے ہم

 

فہد: چھوٹی چیز؟ یہ کیا چھوٹی بات تھی کہ آپ میرے سامنے بنا شرٹ کہ فہد ادھوری بات کہہ کہ چپ کر گیا۔ وہ مہرین کے آگے نہ جانے کیوں بے بس تھا 

مگر مہرین کو ہی یہ سب سنبھالنا تھا۔ مہرین نے شرمندہ ہو کہ ایک لمحے کے لیے سر کو جھکا لیا لیکن اگلے ہی لمحے فہد کو جواب دیا

 

مہرین: ہاں یہ چھوٹی بات تھی فہد بڑی بات تب ہوتی اگر میں اور تم دونوں بنا کپڑوں کے اپنی اپنی حوس مٹا لیتے بڑی بات تب ہوتی اگر میں تمہارے ساتھ سیکس کر کہ اپنے مستقبل میں ہونے والے شوہر کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی 


فہد اتنے بے باک اور کھلے الفاظ سن کہ حیران ہو گیا لیکن بات کی منطق کو کسی حد تک سمجھ گیا

 

مہرین نے اپنی بات کو توقف کے ساتھ پھر شروع کیا

 مہرین: فہد میرے بھائی کیوں اتنا سوچتے ہو۔ میں تمہارے بنا ادھوری ہوں, تم ہی میری ماں ہو تم ہو میری بہن ہو تم ہی میرے باپ ہو اور تم ہی میرے بھائی ہو، فہد تم میرے دوست بھی ہو اور تم ہی میری زندگی کا سہارا ہو، میں کیسے تمہارے اس شرمندگی کے احساس کو ختم کروں

 

فہد: مہرین باجی شرمندگی سے تو ڈوب ڈوب مر رہا ہوں، کیا آپ کو شرمندگی کا احساس نہیں ہو رہا؟

 

مہرین: نہیں, مجھے کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں بھائی, شرمندہ تو میں تب ہوتی اگر کسی غیر مرد کے ساتھ یہ سب کرتی, اور اگر کسی غیر مرد سے یہ سب کرتی تو اس کے لیے تم لوگوں کو دھوکہ دے کہ گھر سے نکلتی اور اپنے حوش و حواس میں اس غیر مرد سے اپنے کپڑے... مہرین بولتے بولتے فہد سے نظریں چرا چکی تھی کیونکہ فہد سمجھ ہی نہیں رہا تھا کہ اس بات کو ایک حادثہ سمجھ کہ بھول جانا ہی بہتر ہے اور اسی بات کو سمجھانے کیلیے مہرین اتنی کھلی باتیں کر رہی تھی

 

مہرین: فہد میں شرمندہ نہیں ہوں, جو بھی ہم سے ہوا ہم اسوقت حوش میں نہیں تھے، اور بھلا تمہیں ڈر ہے کہ یہ بات کسی کو پتہ چلے گی تو بدنامی ہو گی؟ جو ہوا تھا ہوگیا بس اب نارمل ہو جاو 

 

فہد کا چہرہ مہرین کے ہاتھوں میں تھا اور مہرین التجا کے لہجے میں اپنے بھائی سے بھیک مانگ رہی تھی، فہد اتنا بھی سنگدل نہیں تھا وہ اپنی بہن کی بات کو سمجھ گیا اور نم آنکھوں سے دیکھ کہ اسے گلے سے لگا لیا کچھ دیر بانہوں میں بانہیں ڈالے ایک دوسرے کے سینے سے لگے بہن بھائی ایک دوسرے کے آنسو پونچھ کہ ہنس رہے تھے اور دونوں کے دلوں کے بوجھ اب کم ہو چکے تھے

 

فہد: مہرین باجی میں نہیں چاہتا کہ میں بہک کہ اس رشتے کو خراب کروں اسلیے ہم الگ سویا کریں گے

 

مہرین: کان کے نیچے چماٹ لگاؤں گی، میں نے کہا ناں بھول جاو سمجھو کچھ ہو ہی نہیں

 

فہد: اچھا جی جیسے آپکو ٹھیک لگے, اب ٹائم دیکھیں میں نےصبح کام پہ بھی جانا ہے.... رات کے دو سے اوپر کا وقت ہو چکا تھا

 

مہرین: ہاں ہاں سو جاو لیکن ابھی تمہاری طبیعت بہتر نہیں ہے صبح تو ایک قدم باہر نہ نکالنے دونگی تمہیں، اس سے اگلے دن جمعہ کی چھٹی ہے اب ہفتہ والے دن ہی آرام سے جانا

 

فہد نے ہلکی پھلکی چوں چراں کے بعد ہتھیار ڈال دیئے

 

 مہرین: فہد ایک بات تو بتاو؟ 

 فہد: جی باجی 

مہرین کے چہرے کی شرارتی مسکراہٹ سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ اب وہ کوئی چٹکلا چھوڑنے والی ہے اس لیے فہد بھی ذہنی طور پہ تیار ہو کہ جواب دے رہا تھا

مہرین: اب تم کسی کو اس رات کے محبت بھرے واقعات بتا کہ میری عزت مٹی میں تو نہیں ملا دو گے؟

 

فہد ہنسی کو روکتے ہوئے بولا

 فہد: ہاہاہا مہرین باجی خدا کا خوف کریں میں نے کسی کو کیا بتانا اور کیوں بتانا

 مہرین مزاح کے انداز میں فہد کو چھیڑ رہی تھی

 مہرین: خدا کے لیے فہد کسی کو نہ بتانا ورنہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی

 فہد نے بھی جوابی مزاح سے کام لیا

 فہد: ہاہاہاہا مہرین میں تو بتاوں گا، سب کو بتاوں گا

 

مہرین: فہد پلیز ایسا نہ کرنا، تم جو کہو میں کرنے کو تیار ہوں

 

فہد: جو میں کہوں وہ کرو گی؟

 

مہرین اور فہد ایک دوسرے کی طرف شرارتی انداز سے بڑھ کہ جواب دے رہے تھے، مہرین لپک کہ فہد کے قریب ہو کہ بولی

 مہرین: ہاں ہاں سب کچھ کروں گی جو جو تم بولو گے

 فہد مہرین کے بہت قریب آ کہ منہ کو مہرین کے منہ کہ پاس لا کہ بولا




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments