ads

Garm Behn Bhai - Episode 5



گرم بھائی بہن


قسط 5




 

فہد: مہرین باجی میں کسی کو نہیں بتاتا بس اب مجھے سو لینے دو بیمار دعا دے گا فہد کے اس مزاحیہ فقرے نے ماحول کو قہقہوں سے بھر دیا اور دونوں بہن بھائی قہقہوں کو قابو میں کرتے ہوئے نیچے اپنے اپنے بستر پہ جا کہ سو گئ.

فہد اور اسکی بہن مہرین کے درمیان جس تلخ واقعہ کو لے کہ شرمندگی کا احساس دونوں کو پریشان کر رہا تھا وہ معاملہ تو حل ہو چکا تھا, دونوں بہن بھائی ہنستے مسکراتے واپس اپنی ماں کے کمرے میں آکہ سو چکے تھے, اگلا دن فہد کی بیماری کیوجہ سے چھٹی تھی اور اس آگے جمعہ کی چھٹی کیوجہ سے فہد دو دنوں کے لیے اب گھر میں ہی رہنے والا تھا اسلیے مہرین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا

 

چھٹی کے دو دن مہرین اور فہد نے بہت ہی اچھے سے گزارے, مہرین کا تو حال یہ تھا کہ جیسے اسکی بچھڑی ہوئی سہیلی اسے برسوں بعد ملی ہو, فہد بھی ذہنی تناؤ سے آزاد اپنی بہن پہ فدا ہو رہا تھا

 وہ دو دن فہد اور مہرین نے کافی وقت ساتھ گزارا لیکن دونوں کے درمیان پہلے کی طرح کوئی جسمانی لذتوں والے معالے نہیں ہوئے, فہد اپنی بہن کے جسم کو ننگا دیکھ چکا تھا اور اپنی بہن کے جسم کی خوبصورتی اسکے دماغ پہ نقش ہو چکی تھی, فہد نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بہن کے جسم کو آنکھوں آنکھوں میں ٹوہ رہا تھا کیونکہ مہرین کو جس عریاں حالت میں وہ دیکھ چکا تھا اب مہرین فہد کے سامنے لباس میں ہو کہ بھی بے لباس تھی, مہرین کے نِپلز, چھاتی اور پیٹ کا ذائقہ ابھی بھی فہد کی زبان پہ تھا. مہرین اپنے بھائی کی نظروں کے اس تعاقب سے قطعی طور پہ انجان نہیں تھی, بلکہ ایک عورت ہونے کے ناطے وہ فہد کی اس مجبور حالت کو سمجھ بھی رہی تھی اور یہی عورت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے کہ وہ مرد کی مجبوریوں کو سمجھ لیتی ہے, ہاں یہ بات الگ ہے کہ وہ اسُ مجبوری کا تعین کرنے کے بعد فایدہ اٹھاتی ہے یا نہیں

 

فہد کی چھٹی اپنے اختتام کو پہنچی اور وہ ہفتہ کی صبح اپنی ملازمت پہ جانے کیلیے تیار ہو چکا تھا, پینٹ شرٹ میں ملبوس فہد بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور مہرین نے سُرمہ دانی سے انگلی لگا کہ ایک کالا ٹیکہ لگا کہ فہد کو نظر بد سے بچنے کی دعا دی خوشگوار ماحول میں بہن اور ماں سے دعائیں لے کہ رخصت ہونے ہی والا تھا کہ مہرین نے اسے اوپر والے کمرے میں پڑے اسکے کچھ کاغذات بھولنے کا بتایا اور فہد بھی جلدی جلدی اوپر کمرے میں کاغذات ڈھونڈنے کیلیے لپکا, فہد کے پیچھے ہی مہرین بھی تیز قدموں سے اسکی مدد کو آن پہنچی اور سرسری سی نظر دوڑانے کے بعد فہد نے حیرانی سے اپنی بہن کیطرف دیکھا

 

فہد: کوئی کاغذات نہیں بھولا باجی, آپ بھی ناں, ڈرا دیا مجھے

 

مہرین: بدھو انسان تین دن اتنی خدمت کی ہے تمہاری, اب مجھے انعام چاہیے

 

مہرین دونوں ہاتھ پیچھے باندھے فہد کے سامنے مسکراتی جا رہی تھی, اور فہد کو نکلنے کی جلدی تھی اسلیے اس نے مہرین کو سائیڈ پہ کر کہ دروازے کیطرف بڑھتے ہوئے جواب دیا

 فہد: باجی تنخواہ آ لینے دو جو انعام چاہیے دونگا

 

مہریم نے فہد کا راستہ روک کہ دوبارہ سے اسے بڑھنے سو روک دیا

 مہرین: مجھے تو ابھی چاہیے, ایسے کیسے جانے دوں تمہیں ؟

 

 فہد نے تلملا کہ جواب دیا

 فہد: باجی خدا کا واسطہ جانے دو, دفتر سے دو دن سے غیر حاضر ہوں آج دیر سے گیا تو نکال باہر کریں گے آپکے بھائی کو

 

مہرین نے ایک قدم بڑھا کہ اپنا اور فہد کا فاصلہ کم کیا

 مہرین: مجھے ابھی انعام چاہیے

 

فہد: جلدی بتائیں کیا کروں اب؟ ڈانس کر کہ دکھاوں؟ لگتا ہےآپ مجھے آج نوکری سے نکلوا کہ دم لیں گی

 

مہرین نے اپنی ایڑھیوں کو اٹھا کہ فہد کے کاندھوں پہ پاتھ ڈال کہ ایک ایک کر کہ فہد کے گال چومے, فہد ذرا سا پیچھے گردن سرکا کہ فورا بول پڑا

 فہد: ہو گیا باجی؟ اب جاؤں؟ مہرین نے بنا جواب دئیے فہد کے ہونٹوں کو چوم لیا اور شرارتی مسکراہٹ سے پیچھے ہٹ کہ ہاتھ کہ اشارے سے اسے دروازہ سے گزرنے کا کہا

 

فہد کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ تو تھی لیکن وہ اتنا زیادہ خوش نہیں تھا مہرین اس مسکراتے چہرے کے ساتھ دروازے کا راستہ چھوڑ کہ کھڑی فہد کی حیرانی پہ ہنس رہی تھی, فہد نے بھی رخصت لی اور گھر سے چلا گیا

 

دفتر میں فہد کا دن اچھا گزرا لیکن مہرین کی صبح والی حرکت سے وہ زیادہ خوش نہیں تھا اور اندر ہی اندر یہ سوچنے لگا کہ یہ غلط ہے یا صحیح, فہد کسی دوست سے مشورہ بھی نہیں کر سکتا تھا اسلیے اس نے گھر واپس آکہ مہرین باجی سے ہی بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن فہد مہرین کی طرح بہادر نہیں تھا جو ایسی بیچینی کو خود زیرِ بحث لے آتا, گھر آکہ نہ ہی وہ مہرین سے لبوں سے چومنے والی بات پہ بات کر سکا اور نہ ہی مہرین باجی کو منع کر سکا

 

کچھ ہی دن بعد مہرین فہد کی اس کیفیت کو سمجھ گئی اور ایک تنہا رات میں خود ہی فہد کو اسکے اس ہچکچاہٹ کے بارے میں پوچھ لیا

 مہرین: فہد؟ کسی بات کی پریشانی ہے؟

 

فہد: نہیں باجی. ایسی تو کوئی بات نہیں

 

مہرین: تمہاری بڑی بہن ہوں میں, امی ابو سے زیادہ میں نے تمہیں پالا ہے, مجھ سے کیا چھپا سکتے ہو تم؟

 

 فہد: باجی؟ وہ ناں, میں

 مہرین اٹھ کہ فہد کے برابر آ کہ بیٹھ گئی, فہد لیٹا ہی اپنی بات کو ادھورا چھوڑ دیا, وہ چہرے سے ہی جھنجھلاہٹ کا شکار لگ رہا تھا

 

مہرین: ہاں ہاں بولو یار, کیوں لڑکیوں کی طرح شرماتے ہو میرے سامنے، بتاؤ کیا مسلہ ہے؟

 

فہد: باجی آپ مجھے یہاں سے نہ چوما کریں

 فہد نے اپنے ہونٹوں کیطرف اشارہ کرکہ بات کی اور شرما کہ سر جھکا لیا

 

مہرین: ہاہاہاہا, کیوں؟ کیوں نہ چوموں؟ تمہارے ہونٹ ہیں ہی اتنے پیارے

 

فہد: باجی یہاں سے گرل فرینڈ بواۓ فرینڈ چومتے ہیں ایک دوسرے کو لیکن ہم تو بہن بھائی ہیں

 

مہرین فہد کی معصومانہ باتوں اور اسکے انداز پہ مسکراتے ہوئے جواب دینے لگی

 مہرین: اچھا جی؟ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ؟ اگر ایسی بات ہے تو آج سے میں تمہاری گرل فرینڈ اور تم میرے بوائے فرینڈ, اب تو کوئی مسلہ نہیں؟

 یہ بات کہہ کہ مہرین نے اپنی ہونٹوں کو چومنے کے انداز میں فہد کہ اوپر جھک کہ چومنے کیلیے آگے بڑھنے لگی اور فہد جھنجھلا کہ, اس سے پہلے کہ مہرین اس کو چوم کہ اس کی مفکرانہ بات کو خاک میں ملاتی, اٹھ کہ بیٹھ گیا

 

مہرین: کیا ہوا اب؟ اب تو ہم گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ہیں

 

فہد: مہرین باجی آپ میری بات کو سمجھنے کی بجائے میرا مذاق ہی اڑانے لگ جاتی ہیں

 

مہرین: مذاق نہ اڑاوں تو اور کیا کروں؟ میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ میں تمہیں گالوں پے چوموں یا ہونٹوں پے, تم میرے بھائی ہی رہو گے

 

فہد: باجی اس رات یہیں سے کام شروع ہوا تھا اور اگر امی آواز نہ دیتیں تو شاید

فہد اتنی بات کہہ کہ سر نظریں چرا کہ چپ ہو گیا اور مہرین اس بات پہ جیسے طیش میں آگئی

 

مہرین: ہاں اور اگر امی آواز نہ دیتی تو ہم حاجی انکل کے بیٹے اور بیٹی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کر رہے ہوتے, یہی کہنا چاہ رہے ہو نا؟ 

 مہرین ذرا غصے میں آچکی تھی اور فہد یہ دیکھ کہ گھبرا گیا اور فورا اپنی بہن کے ہاتھوں کو تھام کہ اداس چہرے کے ساتھ اپنی بہن کو دیکھنے لگا

 

مہرین: فہد میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ اس رات والے واقعے کو بھول جاو اور رہی بات چومنے کی تو آج کے بعد چومنا تو دور تمہیں ہاتھ تک نہیں لگاوں گی

 

مہرین نے منہ دوسری طرف گھما کہ نظریں جھکالیں, فہد بھی گھبرا گیا کہ شاید اس نے کوئی غلط بات کہہ دی ہی اور فورا مہرین کو کندھوں سے پکڑ کہ واپس اپنی طرف گھما لیا

 فہد: اچھا سوری باجی, میرا یہ مطلب نہیں تھا, آیندہ نہیں کہتا, میں شرما جاتا ہوں اسلیے ایسا کہہ ہو گیا, آپ جیسا چاہیں گی میں ویسا کروں گا پلیز ناراض تو نہ ہو اب مجھ سے

 

مہرین ویسے ہی منہ بناے نظریں فرش پہ گاڑھے بیٹھی اپنا آپ فہد سے چھڑوانے لگی اور فہد کا دل اب بیٹھتا جا ریا تھا اور وہ باجی باجی کرتا معافیاں مانگے جا رہا تھا, کچھ دیر بعد مہرین کو بھی ترس آگیا اور اس نے فہد کی طرف اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ کہ اس کی طرف دیکھا

 

مہرین: فہد اس رات والی بات کو دہرا کہ مجھے شرمندہ نہ کیا کرو

 

فہد: باجی نہیں کرتا اب آپ ناراض ہونا چھوڑیے پلیز 

مہرین: اچھا نہیں ہوتی نازاض, چلو اب سوتے ہیں

 

فہد نے آخری حربے کے طور پہ اپنا آپ مہرین کے آگے سرینڈر کر دیا اور رکتے رکتے اگلی بات کی 

فہد: ایک بار چومیں گی نہیں مجھے آپ ؟

 

مہرین بنا نظریں ملائے فہد سے باتیں کر رہی تھی اور فہد بھی سمجھ چکا تھا کہ اب مہرین باجی کے تیور بہت خوشی والے نہیں اسلیے مہرین نے اسی سرد لہجے میں جواب دیا جسکی فہد کو امید تھی

 

مہرین: نہیں, مجھے شرمیلے بوائے فرینڈ کی کوئی ضرورت نہیں

 

فہد نے اس بات کے جواب میں فوا آگے بڑھ کہ پھرتیلے طریقے سے مہرین 

کے ہونٹوں کو چوم کہ پیچھے ہٹ گیا اور مسکرانے لگا, مہرین بھی اس معصوم سی چُمَی پہ ہنس پڑی اور دونوں واپس اپنے اپنے بستر پہ آ کہ دن کے خوشگوار اختتام کے ساتھ سو گئے

 

دن گزرتے گئے, مہرین اور فہد کے درمیان ایک دوسرے کے ہونٹوں سے بوسہ لینا دینا ایک عام سی عادت بن گیا, مگر کبھی بھی گہرا بوس و کنار یعنی ڈیپ کِسنگ نہیں ہوئی تھی, انکا ایک دوسرے کے ہونٹوں سے کبھی کبھار چومنا ایسے ہی ہوتا جیسے گالوں سے کسی کو چوما جاتا ہے لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب فہد اور مہرین ایک دوسرے کے ہونٹوں سے بوسے لیتے تو اس کا ایک عجب ہی لطف ہوتا جس میں بہن بھائی والے جذبات کسی حد تک مجروح ضرور ہوتے تھے

 

فہد اور مہرین وقت کے ساتھ ساتھ مزید میچور ہو رہے تھے اور اب ان کے درمیان پہلے سے زیادہ انڈرسٹینڈنگ بن چکی تھی ,اب انکا ایک دوسرے کو گلے لگانا اور چومنا انکے لیے معمول بن گیا تھا کہ کافی دفعہ اپنی ماں کے سامنے ہی ہونٹوں سے چومنے کی عادت سے مجبور, چومتے چومتے رہ جاتے اور بعد میں تنہائی میں اس بات پہ ہنس ہنس کہ ایک دوسرے کو اس بات پہ چھیڑتے

 

فہد کی تعلیم ایف. اے ہوچکی تھی اور مہرین کا بی .اے بھی کامیابی سے پورا ہو چکا تھا, فہد کو دفتر میں ہی ایک مناسب عہدے پہ فایز کر دیا گیا جس سے اس کی تنخواہ میں مزید اضافہ ہو گیا

 

غربت کے عادی فہد, مہرین اور انکی بیمار ماں کیلیے یہ بہت سنہری وقت آگیا تھا کیونکہ اب فہد اتنے پیسے کمانے لگ گیا تھا کہ اپنے مرحوم والد کی پینشن اور اسکی تنخواہ ملا کہ مہینے کے اختتام پہ کچھ نہ کچھ اضافی رقم بچ جاتی جس کو ان کی امی مہرین کی شادی کیلیے جمع کرنے لگی, اب گھر میں عیدین کے موقع پہ نئے کپڑے بھی آتے اور مہینے میں ایک دو بار باہر سے کھانا منگوا کہ محدود سی عیاشی بھی ہو جاتی, یہ سب فہد کی لگن اور محنت کا ہی نتیحہ تھا

 حاجی انکل کے گھر میں انجان اور نامعلوم جوڑا موقع ملنے پہ اپنی حوس پوری کرنے, فہد اور مہرین کے متصل کمرے میں آ کہ چدائی کرنے آ جاتا جس کو اب مہرین دن میں اکثر ہی آنہیں بھرتے سنتی تھی اور رات کو فہد کو ساری بات از راہِ مزاح بتا دیتی

 

فہد بھی چسکے لے لے کہ مہرین سے ساری بات سنتا اور اب مہرین اور فہد کچھ کچھ ننگے الفاظ اور ذومعنی الفاظ بے جھجھک استعمال کرنے لگے تھے, بہن بھائی کے درمیان گفتگو میں ایسی بے تکلفی مناسب تو دونوں کو ہی نہ لگتی لیکن جب کوئی سمجھانے یا ٹوکنے والا ہی کوئی نہ ہو تو معاملات قسمت کے ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں

 

تاورں بھری سرد رات تھی ,فہد اور مہرین بالترتیب بیس اور بائیس سال کہ ہو چکے تھے, دونوں مکمل جوان اور ماضی کے حساب سے زیادہ میچور ہو چکے تھے .ہمسائے کمرے میں ہونے والی انجان چدائی زیادہ تر مہرین ہی دن میں سن پاتی لیکن آج اتنے سالوں بعد دوبارہ سے فہد اور مہرین کو وہ سب ساتھ سننے کا موقع ملنے والا تھا,

 دروازے کی کنڈی کے کھلنے کی آواز مہرین اور فہد کے چہروں پہ شیطانی مسکراہٹ لے آئی, "چررر" کی آواز سے دروازہ کھلا اور بند ہو گیا, فہد اور مہرین اپنا اپنا گرم بستر چھوڑ کہ دیوار پہ کان لگا کہ وہ سب چدائی سننے لگے ہمیشہ کی طرح چومنے اور چاٹنے کی آواز آئی اور کچھ دیر بعد باقاعدہ باتوں کی اور ایک لڑکی کے رونے کی سسکیاں آنے لگی, وہ باتیں سن کہ مہرین اور فہد پتھر  کے ہو کہ رہ گئے وہ باتیں دل دہلا دینے والی تھی, جس راز کی تلاش میں فہد اور مہرین ہمیشہ سے تھے کہ آخر وہ لڑکا لڑکی کون ہیں, آج ان کو اس بات کا جواب ملنے لگا مگر اس کے ساتھ بہت ساری اور باتیں بھی کھلنے لگی.

 

 

اپنی بہن پہ دست درازی کا ملال تو بہر حال فہد کو ستا رہا تھا مگر اسکے ساتھ ساتھ مہرین باجی کے موجودہ چھاتی کا سائز فہد کو بہت پسند آرہا تھا, کیونکہ پچھلی دفعہ جب اس نے اپنی بہن کے پستان چوسے تھے ,اس سائز سے اب کا سائز بہت بڑھ چکا تھا

 فہد کو اس بات پہ پورا یقین تھا کہ اگر وہ منگنی والی رات اپنی بہن کے پستان بھرپور طریقے سے بھی دباتا, جس سے مہرین جاگ جاتی, تو مہرین اس پہ ایک فیصد بھی ناراضگی کا ظہار نہیں کرنے والی تھی مگر اب تو وقت گزر چکا تھا اور فہد کا ضمیر اس کو ملامت کر رہا تھا کہ یہ غلط ہے

 

فہد اس غلط فہمی میں مطمئن تھا کہ مہرین باجی اسکی اس رات والی دست درازی سے انجان ہیں مگر ایسا نہیں تھا, مہرین وہ سب جانتی تھی اور وہ صرف اسلیے خاموش تھی کیونکہ فہد کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے, یہ مہرین کی دریا دلی تھی کہ اس نے فہد کے جذبات کا اس قدر سمجھداری سے خیال رکھا ,ورنہ اگر وہ اس بات پہ فہد کو سمجھانا یا منع کرنا چاہتی تو عورت کے پاس قدرت کی عطا کردہ ,ایکسپریشنز اور جذبات کی ایسی طاقت ہے جس کے بلبوتے وہ مشکل ترین بات کو بھی پلکوں کی ایک جنبش سے محسوس کروا دے

مہرین کی خاموشی فہد کے لیے واقعی فائدہ مند ثابت ہوئی منگنی کو چلتے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے, مہرین کے سسرال والے, جن میں صرف ایک بھائی, بھابھی اور انکے دو چھوٹے بچے شامل تھے, کسی نہ کسی بہانے سے مہینے میں دو ایک چکر لگا جاتے تھے

 

مہرین کا منگیتر ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں تھا اسلیے وہ پاکستان کے مختلف حصوں میں اپنی کمپنی کے پراجیکٹس کی دیکھ ریکھ میں گھومتا پھرتا رہتا, اچھی تنخواہ کمانے والا کماؤ منگیتر ہر بار نت نئے کپڑے جوتے ضرور بھجواتا, مہرین کے چہرے کی لالیاں اسوقت دیدنی ہوتیں جب اس کے سسرال سے کوئی نہ کوئی نیا تحفہ موصول ہوتا

 فہد اور مہرین کے درمیان جسمانی کشش کا تناؤ ابھی بھی اسی نوعیت پہ قائم تھا, اس کشش میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا لیکن اب مہرین کی زندگی میں ایک نیا موضوع آ چکا تھا, اور وہ موضوع مہرین کا منگیتر تھا. جب بھی مہرین فہد کے قریب آتی اور فہد اسے اپنی بانہوں میں گھیر لیتا تو مہرین کے منہ سے جانے انجانے اپنے منگیتر کی کوئی بات نکل جاتی تو فہد اپنے جذبات کو قابو کر کہ جلن کے جذبات کو حد درجہ دبانے کی کوشش کرتا, فہد کوشش تو ضرور کرتا مگر مہرین بھی اس جلن کو بھانپ گئی تھی

 

ایک روز فہد اپنی ڈیوٹی سے تھکا ہارا گھر پہنچا, آج اسے دفتر میں کام کا بہت دباو تھا جسکی وجہ سے اسکا موڈ بھی خراب تھا ,گھر دیر سے آنے کی وجہ سے مہرین نے محبت بھرےجذبات میں بڑے مان سے فہد کو ڈانٹ دیا. فہد, جو کہ پہلے ہی مہرین کی منگنی کے بعد والے بدلاو سے دل برداشتہ تھا, مہرین پہ برس پڑا. اسوقت تو مہرین نے بھی ضبط کا اچھے سے مظاہرہ کیا لیکن مہرین آج کافی صدمے میں تھی کیونکہ ایسا انکی زندگی میں شاید ہی ایک دو بار ہوا تھا کہ فہد نے مہرین کے آگے زبان درازی کی ہو. مہرین نے ٹھنڈے دماغ سے معاملے کو سمجھ کہ فہد کو رات کمرے میں الگ پوچھنے کا فیصلہ کیا, لیکن ستم در ستم یہ کہ جب مہرین اپنی امی کی طبیعت وغیرہ کا اندازہ لگا کہ فہد سے بات کرنے اسکے کمرے میں آئی تو فہد گہری نیند سو چکا تھا

 

اسوقت مہرین کے دل میں یہ گمان بھی پیدا ہونے لگا کہ فہد اسکی منگنی کیوجہ سے ذرا عجیب برتاؤ کر رہا ہے مگر وہ اپنے بھائی کے بارے میں حتی الامکان بدگمانی سے بچنا چاہتی تھی اسلیے وہ اس نیند کو تھکاوٹ سمجھ کہ ہی وہاں سے چل دی, مہرین کا یہ گمان کرنا کہ فہد آجکی تلخ کلامی کی بحث سے بچنے کیلیے سویا ہے کسی حد تک بجا بھا تھا

 

صبح مہرین نے اپنے بھائی کو جگانے کیلیے اسکے کمرے کا رخ کیا کیونکہ وہ فہد کی اس بد مزاجی کیوجہ جاننا چاہتی تھی. مہرین نے سوئے ہوئے فہد کے گال چوم کہ مدھم آوازوں سے جگایا, آنکھ کھلتے ہی مہرین کا پرنور چہرہ کی زیارت کر کہ فہد نے بھی جوابی مسکراہٹ سے صبح بخیر کہا

 

فہد بستر پہ لیٹا ہی ہوا تھا اور مہرین تر وتازہ چہرے کے ساتھ اسکے برابر بیٹھی اسکے چہرے کو ہاتھوں سے سنوارنے لگی

 

مہرین: میری جان اب اٹھ جاؤ, دفتر سے دیر ہو گئی تو مجھے الزام مت دینا

 

فہد نے آنکھیں ملتے ملتے جمائی لی اور بمشکل آنکھوں کو کھول کہ مہرین باجی کو دیکھا, مہرین بنا دوپٹے فہد کے سامنے اپنی چھاتیوں کا پھی لاؤ اس پہ انُڈیل رہی تھی, فہد کے دماغ میں سے فی الحال تمام رنجشیں بھولی ہوئی تھی اسلیے وہ مہرین کے ہاتھ کو پکڑ کہ ہاتھ کا بوسہ لینے لگا

 

فہد: نہیں ہوتی دیر باجی ,جسکی بہن آپکی طرح صبح صبح مرغے کی اذان سے پہلے پہلے جاگ جاتی ہو وہ بھلا کیسے دیر سے پہنچ سکتا ہے

 

مہرین فہد کے بالوں کو چھیڑکہ آنکھ مارتے ہوئے بول پڑی



جاری ہے



Post a Comment

0 Comments