گرم بھائی بہن
قسط 6
مہرین: آپکا مرغا مجھ سے پہلے کا اٹھ چکا ہے
مہرین کا اشارہ فہد کے نیم تناؤ والے لن کی طرف تھا, فہد کچھ لمحے تو سمجھ ہی نہ سکا کہ مہرین کا اشارہ کس طرف ہے مگر جیسے ہی اسکو سمجھ آئی تو فہد نے فورا اپنے دھڑ سے نچلے حصے کو ڈھکنے کی کوشش کی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی, مہرین اس منظر کو دیکھ چکی تھی
فہد: باجی, کیا مطلب؟
مہرین نے شرارتی انداز میں ہنس کہ جواب دیا
مہرین: کیا مطلب؟ گلی میں کوئی مرغا کُکڑو کڑوں کی آوازیں نکال رہا تھا جس سے میری آنکھ کھل گئی, تم کیا سمجھے ؟
فہد ہنستے ہنستے لاجواب ہو گیا کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ مہرین اسکے لن کی ہی بات کر رہی تھی مگر مہرین باجی نے بات کو اسطرح گھما دیاکہ اب فہد جواب دیتا بھی تو کیا دیتا
فہد: باجی آپ بھی ناں!! میں صبح صبح مرغوں کی بانگوں پہ دھیان نہیں دیتا
مہرین: مرغا تمہارے بس میں نہیں ہے فہد
فہد: باجی کونسا مرغا؟ اچھا گھما رہی ہیں بات کو, کونسے مرغے کی بات کر رہی ہیں؟
مہرین فہد کی بے بسی کا ذومعنی جملوں سے مزہ لیتی جا رہی تھی
مہرین: اٹھ جائیں جناب اب
فہد نے انگڑائی لے کہ کروٹ اسطرف کرلی جس طرف مہرین بیٹھی ہوئی تھی, اب فہد کے اور مہرین کے چہروں کے درمیان جو اب سے بڑی چیز نمایاں تھی وہ تھیں مہرین کی چھاتیاں
فہد: باجی سونے دیں ناں مہرین نے جھک کہ اپنا سارا جسم فہد پہ ڈھیر کر دیا جس سے اس کی چھاتیاں فہد کے بازو میں آگئی اور مہرین کا چہرہ فہد کے چہرے کے اتنا پاس آگیا کہ مہرین کی گرم سانسیں فہد کے گالوں پہ محسوس ہو رہی تھیں
مہرین: چلو نہا لو جا کہ کپڑے استرے کر دیے ہیں اب بس ناشتہ بنانا ہے لیکن پہلے تم نہا لو
فہد بند آنکھوں کے ساتھ کسی اور مہرین کے قرب کا لطف لے رہا تھا, مہرین نے فہد کا چہرہ اپنی طرف گھما کہ اسکے ہونٹ چوم لیے
فہد: باجی ابھی تو دانت بھی صاف نہیں کیے میں نے
مہرین نے مسکرا کہ دوبارہ سے فہد کے ہونٹ چوم لیے
مہرین: پھر کیا ہوا؟ میں تو تم سے اتنا پیار کرتی ہوں کہ مجھے اس چیز سے فرق نہیں پڑتا
فہد کا لن بے قابو طریقے سے آہستہ آہستہ ٹائیٹ ہوتا جا رہا تھا, فہد نے مہرین کو اپنے سینے پہ کر لیا اور اب مہرین اپنا سینہ فہد کے سینے کے متوازی کر کہ اس کے چہرے کہ اوپر اپنا چہرہ کیے بیٹھی تھی
مہرین: اب اٹھ جاؤ گے یا پانی لا کہ گراؤں؟
یہ کہہ کہ مہرین نے دوبارہ فہد کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا لیے اور فہد نے بھی ہونٹوں سے ہونٹ چوم لیے مہرین فہد کے ہونٹوں کو چوسنے لگی اور جواب میں فہد نے بھی ہونٹوں کو چوسنے میں دیر نہیں کی مہرین اور فہد ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے جا رہے تھے اور پھر مہرین نے اپنی زبان فہد کے منہ میں ڈال دی, فہد نے مہرین کی زبان کو چوس لیا, اور کچھ دیر بعد فہد نے بھی اپنی زبان مہرین کے منہ میں ڈال دی اور یہ کِسنگ ایک ڈیپ کِسگ بن گئی
فہد کا لن مکمل طاقت کے ساتھ تن کہ ٹراؤزر سے نکلنے کو بیتاب تھا اور مہرین فہد کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں ڈال کہ بے حال ہوتی جا رہی تھی کچھ لمحوں کی ہی صحیح مگر ایک ڈیپ کسنگ سے دونوں لطف اندوز ہوتے رہے اور اچانک دونوں رک کہ ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے
مہرین: اٹھ جاؤ پلیز اب
فہد بھی چور نظروں کے ساتھ جواب دے کہ اٹُھ کہ بیٹھ گیا اور اپنے تنے ہوئے لن کو مہرین کی نظروں سے نہ بچا سکا،
مہرین دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولتی ہوئی شرارتی مسکراہٹ دے کہ نکل گئی
مہرین: تمہارا مرغا بانگیں دے رہا ہے نہانے سے پہلے پہلے اسے ٹھنڈا کر لینا
فہد اپنی بہن کی اپنے لن کے بارے میں بات سن کہ ہنسنے لگا اور اپنے لن کو دیکھ کہ واشروم میں نہانے چلا گیا
فہد نہا دھوکہ تیار ہو کے کمرے سے باہر نکلا تو ناشتہ اسکا انتظار کر رہا تھا, مہرین ناشتہ سجائے شیطانی نظروں سے اس کی طرف مسکرا کہ دیکھ رہی تھی اور فہد مناسب ایکسپریشن بھی نہیں دے پا رہا تھا
مہرین نے شرارت سے بھرا چٹکلا چھوڑنے کا موقع آج تک جانے نہیں دیا اسلیے بیچارا فہد اب پھر مہرین کے طنز و مزاح کا شکار بننے والا تھا
مہرین: امی آج دوپہر میں کیا پکانا ہے؟
امی: اپنے بھائی سے پوچھ لو کیا کھائے گا, جو کہتا ہے پکا لو
فہد: جو مرضی پکا لینا باجی, میں نے کبھی نخرہ کیا ہے پہلے کبھی ؟
مہرین: میں تو مرغا کھاؤں گی آج
مرغے کا لفظ سن کہ فہد اچانک ہڑبڑا سا گیا
مہرین: پکا لیں آج مرغا؟ بتاؤ فہد, تمہارا مرغا.... میرا مطلب تمہارے لیے مرغا بناؤں آج؟
فہد: جو مرضی بنا لو مجھے نہیں پتہ
فہد مکمل طور پہ گھبرا چکا تھا اور مہرہن کی باتوں کا مطلب وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا,
مہرین: امی اس سے پوچھیں ناں کہ مرغا پکا لوں یا کچھ اور چیز پسند ہے اسے؟
فہد نروس انداز میں جلدی جلدی کھانا ختم کر کہ بس وہاں سے نکلنا چاہ رہا تھا اور کچھ خاص جواب نہیں دے ریا تھا
مہرین لہک لہک کہ مرغے پہ زور دے رہی تھی
مہرین: مجھے تو مرغا پسند ہے,
فہد نے بنا کوئی جواب دئیے سلام دعا کر کہ دروازے کیطرف بڑھا, مہرین فہد کو دروازے تک الوداع کرنے آئی اور دروازے میں روک کہ فہد کو مخاطب کیا
مہرین: مرغا ٹھنڈا ہوگیا؟
فہد نے الجھن بھرے انداز میں ہلکی سی مسکراہٹ دے کہ منہ بناتے ہوئے جواب دیا اور گھر سے رخصت ہو گیا
فہد: مرغا ٹھنڈا کر لیا تھا.
کیا غلط ہے اور کیا صحیح؟ کیا حرام ہے کیا حلال؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جس کا جواب ہر انسان کے حساب سے بدل جاتا ہے, کچھ لوگ نامحرم کو دیکھنا بھی حرام سمجھتے ہیں تو کچھ لوگوں کیلیے لڑکی/لڑکا کو اس کی مرضی سے چودنا یا چدوانا ایک طرح کی سوشل سروس اور اخلاقی کام ہے
کچھ اپنی ماں, بہن, بیٹی جیسے رشتے کو مقدس سمجھتے ہیں اور انکے ساتھ جنسی تعلقات کو صریحا غلط سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے معاملات میں بھی آزاد خیال ہیں کچھ لوگ اپنے خاندان کی عورتوں کو کسی غیر مرد سے تعلق بنانے پہ غیرت کے نام پہ قتل کر دیتے ہیں اور کچھ لوگ خود اپنی ماں بہن کا سودا کر لیتے ہیں
اوپر جن کچھ لوگوں کا ذکر کیا ہے یہ اصل میں کچھ نہیں ہیں, بلکہ میرے خیال میں اس طرح کے لوگوں کی بہتات ہے جو اپنے ایک نظریے پہ اچھی طرح پابند ہیں لیکن وہ لوگ جو ان تمامتر فیصلوں کے درمیان والا نظریہ رکھتے ہیں اصل میں مسلہ انکے ساتھ ہوتا ہے
فہد اور مہرین بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کو ایسے ہی دوراہے کا سامنا تھا، دونوں بہن بھائی ایک حد سے واپس پلٹے تھے, ایک ایسی حد سے جہاں سے عام طور پہ واپسی ممکن نہیں ہوتی, بہر حال اب وہ اس انتہا سے واپس پلٹ کہ دوراہے کا شکار ہو چکے تھے
فہد اور مہرین ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومنا چاہتے تھے مگر ان کو معاشرے کی عام سوچ ذہنوں کو گناہ اور معیوب احساسات دلاتی تھی.
وقت گزرتا گیا اور فہد مہرین کے ساتھ اس ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی, مہرین شرارتی اور بے دریغ مزاج کی لڑکی تھی اسلیے فہد کو بلا وجہ ذومعنی جملوں سے, اپنے تیکھے چٹکلوں سے ایسا چھیڑتی کہ فہد انگشت بدندان رہ جاتا اور مہرین ایک پٹاخے کی طرح یہ جا وہ جا ان کیلیے حاجی انکل کی بیٹی سعدیہ اور بڑے بیٹے کا جسمانی تعلق والا واقعہ اور بہن کا اپنے بھائی سے پریگنینٹ ہو جانے والی بات بہت حیران کر دیتی تھی اور تو اور اکثر یہی بات زیر بحث رہتی کہ وہ بچہ سعدیہ کے بھائی کا ہی ہے یا واقعی سعدیہ کسی اور سے بھی اپنی جنسی حوس پوری کرتی ہے
جب بھی اس موضوع پہ بات شروع ہو جاتی تو ہر بار مہرین کوئی نا کوئی نیا مؤقف اختیار کر لیتی اور فہد ان باتوں کو سنتا جاتا اور ہنستا جاتا مگر اندر ہی اندر سے فہد اور مہرین بھی اسکا مزہ لینے کو ترس رہے تھے
اصل میں وہ حاجی انکل کے بیٹی اور بیٹے کو ڈسکس نہیں کرتے تھے, وہ تو ایک دوسرے کیساتھ بات کر کہ اس دوراہے میں سے ایک راستہ چن کہ اس پہ چلنا چاہتے تھے, مگر یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا راستہ چنا جائے اتنا بھی آسان نہیں تھا
فہد اور مہرین اسی کشمکش سے گزرتے مزید ایک سال گزار چکے تھے لیکن آج بھی رات کو سوتے وقت ایک دوسرے کے لبوں کے بوسے لینے میں ایک ہلکی سی ہی صحیح مگر ہچکچاہٹ موجود تھی,
فہد کی محنت اور لگن کی وجہ سے اسکی ترقی ہو گئ اور اب وہ بی اے کی تیاری کر رہا تھا اور اس کو دوسرے دفتر میں بھیج دیا گیا جو اس کے پرانے دفتر سے ایک گھنٹہ کی مسافت پہ تھا, شروع شروع میں تو فہد روزانہ آنے جانے کی کوشش میں بڑا ذلیل ہوا بعد ازاں کمپنی نے اسے اسی دفتر کے نزدیک ملازمین کی رہائش گاہ میں ایک کمرہ دے دیا جس میں سارا ہفتہ رہتا اور وہ ہفتے بعد گھر جاتا
فہد اپنے گھر کا واحد سہارا اور کفیل تھا, ایک دو ماہ تو اس نے زیادہ پیسوں کی لالچ میں یہ سب کچھ برداشت کر لیا لیکن بعد میں اسے ہر روز یہ احساس ہونے لگا کہ جوان بہن کے آسرے ایسے بیمار ماں کو چھوڑ کہ دوسرے شہر میں رہنا بہت مشکل ہے اسلیے فہد نے اس شہر میں ایک چھوٹا, مگر موجودہ رہائش, جہاں اسکی امی اور بہن رہ رہے تھے ,اس سے بڑا گھر کرایہ پہ لینے کا فیصلہ کیا اب فہد اپنی ماں اور بہن کو اس تنگ اور بند گھر سے نکال کہ نئے شہر اور نئے گھر میں لا چکا تھا, جس گھر میں مہرین اور فہد اب رہنے آے تھے کمرے اس میں بھی دو ہی تھے لیکن دونوں کمرے نیچے ہی تھے اور گھر کافی ہوادار اور صاف ستھرا تھا, ان کے پاس اتنے بڑے گھر جتنا سامان تو نہیں تھا مگر مہرین اور فہد آہستہ آہستہ کچھ نہ کچھ پیسے بچا کہ گھر کو سجانے اور سنوارنے میں لگے رہتے اور ایک دو ماہ میں ہی گھر بہتر سے بہتر ہوتا گیا
گھر کے دو کمروں میں سے پیچھے والا کمرہ جس کے آگے ایک ہوا دار صحن تھا, ان کی امی کے لیے بہت صحت افزاء ثابت ہوا, آگے والا کمرہ فہد اور مہرین کی آرام جگاہ بن گیا, روزانہ وہ اپنی امی کی خدمت خاطر ,دوا دارو کر کہ وہ اس کمرے میں اپنی دل کی باتیں کرنے آجاتے اور سونے کیلیے اپنے بستر میں چلے جاتے مہرین کی امی اب مہرین کی شادی کیلیے بیتاب تھی اور اب تو انکے مالی حالات بھی بہتر ہو چکے تھے اسلیے ان کی امی فہد کو ہمیشہ ایک ہی بات کہتی رہتی کہ وہ اپنی بہن کیلیے رشتہ تلاش کرے لیکن فہد ابھی اتنا سمجھدار نہیں ہوا تھا کہ ایسی دیکھ پرکھ کر سکے اسلیے اپنے دفتر میں ہی ایک بڑی عمر کے قابل اعتماد افسر جن کا نام عباسی صاحب تھا سے اس موضوع پہ بات کی عباسی صاحب نے سمجھداری سے بڑے بھائی کی طرح فہد کے سر پہ دست شفقت رکھا, فہد کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں تو وہ کچھ ہی عرصے میں جان گئے تھے اسلیے ایک روز انہوں نے فہد سے اسکی امی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی, فہد نے ایک دو روز بعد امی کی اجازت سے انہیں گھر بلا لیا اور دفتر سے واپسی پہ ان کی امی سے مل کہ ایک رشتے کی اشاراہ بات کر کہ وہاں سے چلے گئے
بات اب چل ہی پڑی تھی تو کچھ ہی ملاقاتوں میں ایک رشتہ, جس کا عباسی صاحب پہلے دن ذکر کر کہ گئے تھے ان کے خاندان والوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ایک رسمی سی منگنی ہو گئے اب مہرین کی انگیجمنٹ ہو چکی تھی اور گھر میں خوشی کا سماں تھا, جس لڑکے کے ساتھ مہرین کی منگنی ہوئی تھی وہ ڈپلومہ ہولڈر تھا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ کے طور پہ کام کر رہا تھا, اس لڑکے کے والدین انتقال کر چکے تھے اور یہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تھا, اور دونوں بھائیوں کو والدین کی وراثت میں سے ایک ایک گھر ملا تھا, اور شادی کے بعد الگ گھر میں ہی اپنی بیوی کے ساتھ رہنے والا تھا
فی الحال تو شادی کیلیے لڑکے والوں نے ایک سال کا وقت مانگا تھا کیونکہ مہرین کے منگیتر کی پوسٹنگ کسی دور شہر میں تھی اور جب وہ واپس آئے گا تب ہی شادی کریں گے ,فہد اور اس کی ماں کو بھی تیاری کیلیے وقت چاہیے تھا اسلیے وہ بھی با خوشی مان گئے
اب فہد کے لاشعور میں کہیں یہ بات بھی پنپنے لگی کہ اسکی محبتوں کی اکلوتی وارث, جس کے علاوہ اس نے کسی اور لڑکی کو آنکھ بھر کہ دیکھا تک نہیں اب وہ بس ایک سال کی ہی مہمان رہ گئی ہے, یہ صدمہ تھا یا خوشی تھی, فہد یہ سمجھنے سے قاصر تھا
آج منگنی کا دن ختم ہو چکا تھا, مہرین منگنی والے دن ہلکا پھلکا میک اپ کر کہ اتنی کھلی کھلی لگ رہی تھی کہ فہد کی آنکھیں مہرین کے چہرے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی, مہرین بھی فہد کی اس طرح کی بیچین نظروں کو سمجھ رہی تھی مگر آج کے دن کی خوشی اس کے چہرے پہ چھلک رہی تھی
مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد گھر میں خوشی کا ماحول تھا, فہد اور مہرین آج تنہائی کے شدید منتظر تھے, اپنی ماں کو دوا دینے کے بعد جب تسلی کر لی کہ وہ سو گئی ہیں تو دونوں اپنے کمرے میں آگئے, آج مہرین نے دونوں بستر فہد کے کمرے میں ہی لگائے ہوئے تھے
فہد کا دل اب بجھ سا گیا تھا اور کمرے میں آتے ہی سارے دن کے تیاری میں مصروف, تھکے ماندے دونوں بہن بھائی بستر سے چپک گئے
فہد کے سینے پہ سر ٹکا کہ مہرین آنکھیں بند کر کہ اپنے آپ کو سکون دے رہی تھی مہرین نے فہد کو مخاطب کر کہ آواز دی اور ایک دو آوازیں کے بعد فہد نے ہڑبڑا کہ جی جی باجی کہہ کہ جواب دیا, نہ جانے فہد کونسے خیالوں میں کھویا ہوا تھا
مہرین: کیا ہوا ہے؟ کب سے خیالوں میں گم ہو؟
فہد: کہیں نہیں کھویا بس تھک گیا ہوں ذرا
مہرین: دبا دوں؟
فہد: نہیں باجی, آپ سے تو کم ہی تھکا ہوں
مہرین لیٹی تھی اور اٹھ کی فہد کے برابر آ کہ بیٹھ گئی اور اس کے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر کہ باتیں کرنے لگی
مہرین: فہد؟ ایک بات کہوں؟
فہد: جی باجی کہیں؟
مہرین: میں جانتی ہوں کہ تم بجھے بجھے سے کیوں ہو؟
فہد ہنستے ہوئے بول پڑا
فہد: نہیں باجی میں بالکل بجھا بجھا سا نہیں ہوں, لیکن آپ بتائیں اب کہ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے
مہرین: فہد میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں
مہرین فہد سے بات کرتی کرتی فہد کے برابر لیٹ گئی اور اسکے سینے پہ سر رکھ کہ اسکے ساتھ گلے لگ کہ باتیں کرنے لگی, مہرین فہد کے ساتھ زور سے چپکی ہوئی تھی
جاری ہے
0 Comments