گرم بھائی بہن
قسط 7
مہرین: فہد تم اداس اس لیے ہو کیونکہ آج میں کسی اور کے نام سے منسوب ہو گئی ہوں, تم نے جتنی محبت مجھ سے کی ہے اب تم سے میرا کسی اور کا ہونا دیکھا نہیں جا رہا
فہد یہ باتیں سن کہ ذرا سا جذباتی ہو گیا اور بول پڑا
فہد: باجی آپ سے پیار سے تو نہیں مکرونگا لیکن ایک دن تو آپ نے اپنے گھر جانا ہی ہے,
فہد نے مہرین کو پیار سے اپنے اندر دبا لیا اور اسکے سر کو چوم لیا
مہرین: میں جانتی ہوں کہ تمہاری میرے لیے محبت بہن بھائی کے رشتے سے بڑھ کہ کچھ اور ہی ہے
فہد: باجی میں آپ پہ قربان ہو جاوں, آپ میری بہن ہیں تو محبت تو ہو گی ہی آپ سے
مہرین: فہد میرا بس چلے تو تمہارے علاوہ کسی سے اپنا آپ نہ جوڑوں
یہ بات کہتے ہوئے مہرین کی آواز میں رونے والے اتار چڑھاؤ تھے, فہد نے اپنی بہن کے چہرے کو اپنی طرف گھما کہ اس کی نم آنکھوں سے چوم لیا
فہد: باجی پلیز آج رونا نہیں آج تو اتنا خوشی کا دن ہے
مہرین نے بھی فہد کے ماتھے کو چوما اور اپنے آنسو صاف کر کہ اپنے بھائی کی خوشی کیلیے مسکرا دی
فہد: باجی اب سوئیں؟ رات بہت ہو گئی ہے
مہرین: ہاں میں نے کب منع کیا ہے سو جاو
فہد: باجی آپ میرے بستر پہ ہیں, اچھا چلیں آپ ادھر ہی سو جائیں میں دوسرے بستر پہ چلا جاتا ہوں
یہ بات کہہ کہ فہد اپنا آپ مہرین سے چھڑوانے کیلیے اٹھنے لگا تو مہرین نے بنا آنکھیں کھولے فہد کو پوری طاقت سے وہیں لیٹا رہنے پہ مجبور کر دیا اور فہد وہیں پہ مہرین کی بانہوں کے شکنجے میں گرا مسکراتے ہوئے اپنی ہار تسلیم کر کہ آنکھیں بند کرنے لگا
فہد: باجی یار آپ کو مجھ پہ ترس کیوں نہیں آتا؟
مہرین فہد کے سینے پہ زبردستی قبضہ جمائے بند آنکھوں کے ساتھ لیٹی جواب
دینے لگی
مہرین: جتنا تم مجھے ترساتے ہو ناں مجھ سے بڑے ظالم تم ہو
فہد: میں نے کون سا ظلم کر دیا اب باجی؟
مہرین: سو جاو اب, ظلم کا حساب میں بھی لے لونگی ابھی سو جاو
فہد مہرین کی فربہ چھاتی کے ساتھ لگنے سے بہت مزہ بھی اٹھا رہا تھا اور ساتھ اسے رات میں اکٹھے سوتے ہوئے بہکنے کا بھی ڈر تھا مگر مہرین کی ضد کے آگے بے بس حالات کے سہارے سونے کی کوشش کرتا رہا
مہرین اپنے بھائی کے سینے پہ چڑھ کہ سو رہی تھی اور فہد جیسے تیسے بالآخر سو گیا, رات کو جب فہد کی آنکھ کھلی تو مہرین اسکے برابر میں سیدھی لیٹی ہوئی تھی, مہرین کے بازو تکیے کی طرف سیدھے اوپر تھے اور اسکی چھاتی کی گولائی ابھر کہ فہد کو نیند سے بیدار کر چکی تھی, مہرین کا چِت پیٹ اور گلے میں سے نظر آنیوالی شہوت انگیز کلیویج فہد اگنور نہیں کر پا رہا تھا
اپنے آپ کو کوستے ہوئے فہد کچھ سال پہلے والے اس واقعے کے لطف کو دہرانے لگا جب اس کی بہن نے اس کے سامنے اپنا جسم ننگا کر کہ اس سے چسوا لیا تھا اس رات کا ایک ایک منظر فہد کی آنکھوں میں گھومنے لگا اور اپنے لن کے تناؤ کو محسوس کرتے ہوئے فہد لمحہ با لمحہ بہکتا ہی چلا جا رہا تھا
فہد کا دل اسے گواہی دے دے کہ مائل کر رہا تھا کہ اگر مہرین باجی جاگ گئی۔تو ہو ہر گز ناراض نہیں ہونگی لیکن فہد رات کے اس پہر جس میں طرح اس
دوراہے کا شکار تھا اسوقت اس کا ہاتھ اپنی بہن کی چھاتی کی طرف بڑھ بڑھ کی پلٹ رہا تھا
دل و دماغ کی جنگ جاری تھی اور مہرین کی خوبصورت اس جنگ میں فہد کو ہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تھی اور فہد کا ہاتھ قمیض کےگلے کے
اوپر والے حصے میں سے ہوتا ہوا مہرین کی ایک چھاتی کو بریزئیر کے اوپر سے ہی پکڑنے میں کامیاب ہو گیا آہستہ آہستہ ہی صحیح مگر اب مہرین کی چھاتی فہد کے ہاتھ میں اپنی وہی پرانی لذت دے رہی تھی
فہد نے مہرین کی دونوں چھاتیوں کو ایک ایک کر کہ آہستہ مسلا اور کچھ دیر کی اس لذت کے بعد ہاتھ واپس نکال کہ دوسری طرف منہ کر کہ سو گیا اگلی صبح فہد اٹھتے ہی مہرین کے چہرے سے رات والے واقعے کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا لیکن مہرین کی طرف سو کوئی ایسا ایکسپریشن نہیں آیا جس سے فہد کو اپنی رات والی گھناؤنی حرکت کے کھلنے کا شائبہ ہوا ہو اس لیے سکون کا سانس لے کی فہد اپنے کام پہ چلا گیا
دن گزرتے گئے اور فہد اپنے اس رات والی حرکت پہ شرمندہ تھا مگر شکر اس بات پہ ادا کر رہا تھا کی مہرین باجی اس بات سے انجان سوئی رہی ورنہ اور بھی شرم والی بات تھی۔
محبت در اصل جسم کو پا لینا نہیں ہوتی, نہ ہی محبت کسی سے شادی کر لینے کو کہتے ہیں, محبت حاصل اور لا حاصل سے بھی بالا تر ہوتی. محبت میں نہ ہی عمر کی کوئی قید ہے اور نہ ہی رشتے کی محبت نہ ہی اظہار کی محتاج ہے اور نہ تکرار کی. محبت تو بس محبت ہے.
فہد اور مہرین ایک دوسرے کے ساتھ جسمانی تعلقات بھی بنا چکے تھے لیکن اسکے باوجود ایک دوسرے کے احساس سے کبھی غافل نہیں ہوئے. مہرین کسی اور کی ہونے جا رہی تھی اور فہد بڑے ہی حوصلہ کے ساتھ مہرین کو کسی اور کی ہونے دے رہا تھا
یہ محبت کا بڑا ہی عجیب امتحان تھا جس کو فہد اور مہرین نے پہاڑ حوصلے کیساتھ برداشت کرنا تھا. فہد اور اسکی بہن مہرین کیلیے ایک دوسرے کیساتھ سیکس کر کہ اپنی تسکین پا لینے سے کون روک سکتا تھا؟
مگر یہ محبت کے وہ تقاضے تھے جن پہ دونوں فی الحال تو ڈٹے ہوئے تھے, لیکن کس دن وہ بے قابو ہو کہ ہر حد پار کر لیں گے یہ تو فہد اور مہرین بھی نہیں جانتے تھے
مہرین فہد کو اپنا جسم پیش کر چکی تھی مگر فہد نے مہرین کے جسم کی بجائے اس کے پیار کو ترجیح دے کہ اپنی محبت کو مہرین کی نظروں میں سرخرو کر دیا تھا, مہرین نے بھی فہد کی خوشی خریدنے کیلئے اپنے جسم کا بے دریغ سودا کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ سوچا, وہ دونوں اپنی قسمت کا فیصلہ وقت کے ہاتھ میں سونپ چکے تھے, اب حالات اور وقت کو فیصلہ کرنا تھا کہ انکی محبت کا کیا انجام کرنا ہے
جوں جوں شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے فہد اور مہرین کے درمیان ایک نئی تناب بندھتی جا رہی تھی, ہر روز کبھی فہد بہکتا تو کبھی مہرین بہک جاتی، مہرین نہ چاہتے ہوئے بھی فہد کو اپنا جسم دکھا کہ اپنی طرف کھینچتی اور کبھی فہد مہرین کے جسم کو چھو کہ گزر جاتا, کبھی سارے دن کا تھکا ہارا فہد, ساری رات مہرین کی بانہوں میں گزار دیتا تو کبھی گیلے بالوں کے ساتھ مہرین فہد کے لبوں کو چوستی, یہ سلسلے چلتے جا رہے تھے اور مہرین فہد ایک دوسرے کے دل و دماغ پہ چھائے رہتے۔
بھائی ہونے کے ناطے فہد کی یہ دلی خواہش تھی کہ مہرین کی شادی میں کوئی کمی نہ رہ جائے اسلیے فہد نے اپنی زندگی کے مشکل ترین فیصلے لینے شروع کر دئیے. فہد نے اپنی کمپنی سے قرضہ لے لیا جسکا آنے والے وقت میں فہد کو یہ نقصان ہو سکتا تھا کہ وہ بہتر نوکری کیلیے کمپنی نہیں چھوڑ سکے گا, اسکے علاوہ اپنے اردگرد تمام کولیگز سے کچھ نہ کچھ پیسے ادھار کے طور پہ لے لیے, ایک دو کمیٹیاں بھی فہد نے ڈالی ہوئی تھی جن کا بوجھ بھی فہد کو آنے والے وقت میں اٹھانا پڑنا تھا. غزض یہ کی فہد کا بال بال قرضے میں ڈوبتا چلا گیا اور شادی سے پہلے تک فہد نے اپنی بہن کے جہیز سے لے کہ کپڑوں جوتوں تک, اپنی استطاعت سے بڑھ کہ اچھی چیزیں خرید لیں, مہرین اور اسکی ماں فہد کی ان شاہ خرچیوں پہ حیران تو تھی مگر فہد ان سے حقیقت چھپا کہ بس اپنی بہن کی خوشیاں خریدنا چاہتا تھا
مہرین کے سسرال والے مالی طور پہ فہد کی فیملی سے بہت بہتر تھے مگر فہد کی فیملی کیطرح انکے بھی محدود سے رشتہ دار تھے اور بارات اور ولیمہ میں چالیس پچاس لوگوں کی آمد متوقع تھی اسلییے یہ شادی ایک اوسط درجے سے بھی کم افراد کی شمولیت کیساتھ ہونے جا رہی تھی
مہرین کے منگیتر کا الگ گھر کا سن رکھا تھا مگر شادی سے پہلے ہی یہ بات سننے میں آنے لگی کہ مہرین شادی کے بعد اپنے سسرال کے آبائی گھر میں ہی جائیگی جہاں مہرین کے جیٹھ جیٹھانی اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں, لیکن یہ کوئی ایسا بڑا مسلہ نہیں تھا جس پہ کوئی محاذ کھڑا کیا جا تا
شادی میں ایک دن رہ گیا تھا اور مہرین اپنے بھائی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتی تھی اگلے روز مہندی کی رسم میں امی ابو کے کچھ رشتہ داروں کی آمد متوقع تھی اسلیے آج کی رات فہد مہرین کیساتھ یادگار لمحات, یا پھر یوں کہہ لیں کہ اس محبت کے آخری لمحات گزارنا چاہتی تھی، دونوں کے لہجے شکستہ تھے مگر چہروں پہ جھوٹی مسکراہٹیں سجائے اپنا اپنا درد اندر ہی اندر چھپا رہے تھے
مہرین کے ہاتھوں پہ مہندی کے ڈیزائن سے سجاوٹ ہوئی تھی, وہ ہاف سلیو شرٹ پہنے فہد کو اپنی مہندی دکھانے کمرے میں آگئی, سارا کمرہ سامان سے لدا پڑا تھا اور بمشکل ہی مناسب جگہ مہرین کے حصے میں آئی, فہد سامان کی ترتیب میں مصروف اپنی بہن کے حُسن کو تکتا ہی رہ گیا
مہرین: فہد دیکھو مہندی کیسی لگ رہی ہے میرے ہاتھوں پہ
فہد: لا جواب شاندار لگ رہی ہے باجی
مہرین: میں نے کل کو تمہیں بہت نچوانا ہے اسلیے آج جلدی جلدی کام ختم کر لو
فہد: جی جی جیسے آپکا حکم
مہرین: بھائی ویسے جتنا سامان تم نے میرے لئے بنا دیا ہے اتنا تو شاید ابو بھی نہ بنا پاتے ,
مہرین یہ بات کہہ کہ فہد کے گلے لگ گئی, گویا وہ فہد کا شکریہ ادا کر رہی ہو
فہد: اچھا اچھا چلو اب آرام کر لو آپ, کل کا دن چہرے پہ تھکاوٹ کے آثار نظر نہ آئیں
مہرین: کیا کہا؟ آج تو تمہیں نہیں سونے دینا میں نے
فہد: کیوں باجی
مہرین: آج ہم نے ساری رات اکٹھے گزارنی ہے, فہد شادی کے بعد پتہ نہیں یہ وقت ملے یا نہ مل ے
فہد: باجی مل جائے گا وقت آپ جا کہ آرام کریں
مہرین: نہیں, ہر گز نہیں, آج رات بس میری مرضی چلے گی، کان کھول کہ سن لو
فہد: اچھا چلیں ٹھیک ہے آجائیں بیٹھ جائیں جہاں جگہ ملتی ہے
مہرین: فہد صاحب میں امی کو کھانا اور دواء کھلا کہ اور انکو سلا کہ آئی، میرے آنے تک اس کمرے میں کسی جگہ بستر لگا ہونا چاہیے
فہد نے تمام کمرے کو نظر دوڑا کہ دیکھا اور بے بسی کے عالم میں جواب دیا فہد: مہرین باجی اس کمرے میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تو سونے کی جگہ کیسے بناوں؟ دماغ ٹھیک ہے آپکا؟
مہرین: مجھے نہیں پتہ میرے آنے تک یہ سب تمہارے ذمہ ہی, میں بس آئی مہرین یہ سب احکامات سنا کہ کمرے سے نکل گئی اور فہد اب وہاں کوئی جگہ بنانے کا سوچنے لگا مگر کمرہ جہیز کے سامان سے اسطرح لیس تھا کہ وہاں جگہ بنانے میں اسے بہت محنت کرنی پڑنی تھی, بہر حال فہد نے کوشش جاری رکھی اور جتنا کر سکا کر کہ نڈھال ہو کہ بستر بچھاکہ وہیں سستانے لگا
مہرین اپنے فرائض انجام دے کہ کچھ دیر بعد کمرے میں داخل ہوئی تو فہد نظر نہ آیا، واشروم کیطرف نظر دوڑائی تو وہ بھی خالی تھا، مہرین نے واپس کمرے میں آکہ فہد کہی کہ آواز دی جسکے جواب میں فہد سامان کے درمیان سے اپنی گردن بلند کر کہ لبیک سے مہرین کو جواب دینے لگا
مہرین فہد کی نشاندہی کے بعد جب سامان کو پھلانگ پھلانگ کی مختلف ڈبوں اور سٹیل کی پیٹیوں کے درمیان پہنچی تو مورچہ نما ایک جگی میں فہد لیٹا ہوا مسکرا کہ ہاتھ ہلانے لگا, مہرین سر پہ ہاتھ مار کہ ہنس کہ بول پڑی
مہرین: یہاں؟ اور کوئی جگہ نہیں ملی ؟
فہد: آپ بنا لو جگہ کوئی, باجی یہ کیا بچپنا ہے بھلا؟ ادھر سو جاتے ہیں کم از کم کھلے بستر میں تو سوئیں گے سامان میں گھری تنگ اور مورچہ نما جگہ اتنی چھپی ہوئی تھی کہ اگر کوئی ان کو ڈھونڈنے آتا تو یقینا نہ ڈھونڈ پاتا, اور جگہ اتنی قلیل تھی کہ وہاں ایک بندہ تو سو سکتا تھا لیکن دو لوگوں کیلئے وہ جگہ ناکافی تھی
مہرین نے پاس پڑے سامان کے سہارے آہستہ آہستہ اس مورچے میں قدم رکھے اور بحفاظت وہاں اتر کہ فہد سے باتیں شروع کر دیں
مہرین: ہاں کچھ دیر یہاں رکتے ہیں اگر نیند آگئی تو چلے جائیں گے
فہد: اگر نیند آ گئی؟ اگر کا مطلب؟ نیند تو آ رہی ہو گی آپکو, چلو چلیں دوسرے کمرے میں چلتے ہیں
مہرین نے فہد کا ہاتھ پکڑ کہ اسے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور فہد بھی مجبوری میں اپنی بہن کی خواہشات ادھوری نہیں رہنے دینا چاہتا تھا
اس کمرے میں پہلے ہی روشنی مدھم تھی اور اس مورچے میں دونوں بہن بھائی پاس پڑے سامان سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے
مہرین: فہد یار آج کے بعد یہ وقت واپس نہیں آئے گا, کل کے بعد ہم جدا ہو جائیں گے
فہد: مہرین باجی ایک نہ ایک دن تو ہمیں شادیاں کرنی ہی ہوتی ہیں, یہی قانون ہے اور یہ سب ہونا ہی ہونا ہے
مہرین اٹھ کی فہد کی گود میں سر رکھ کہ لیٹ گئی، فہد اپنی بہن کے بال سنوارنے لگا، سامان سے لیکر شادی کے انتظامات تک ساری باتیں جب ہو گئیں تو مہرین نے جھجھک کہ فہد سے باتیں کرنی شروع کی
مہرین: فہد تم سے ایک بات کرنی ہے
فہد: جی باجی کریں بات
مہرین: تمہیں پتہ ہے نہ کہ امی کتنی سیدھی ہیں
فہد: ہاہاہا جی باجی، بہت زیادہ ہی سیدھی ہے ہماری ماں تو حد سے زیادہ سیدھی ہیں۔
مہرین: تمہیں پتہ ہے کی جب لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں تو مائیں کتنی باتیں سمجھاتی ہے اپنی بیٹیوں کو مگر امی کو تو جیسے پتہ ہی نہیں کچھ پتہ نہیں ہمیں بھی کیسے پیدا کر لیا
فہد: ہاہاہا باجی کیا ہو گیا ہے آج؟ کیا کہہ دیا امی نے؟
مہرین: کچھ بھی نہیں کیا، یہی تو مسلہ ہے کہ کچھ بھی نہیں کہا ابھی تک
فہد: باجی آپ کیا سننا چاہتی ہیں امی بیچاری سے؟
مہرین: شادی ہے میری یار کل مہمان آ جائیں گے
فہد: باجی کھل کہ بتاو کہ کیا مسلہ ہے, بات کو گھماؤ
تمہرین: سہاگ رات کا لفظ سنا ہے؟
فہد: باجی؟
فہد کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی, جیسے وہ سمجھ گیا ہو کہ کیا بات ہونیوالی ہے
مہرین: بتاو مجھے اب
فہد: میں کیا بتاؤں یار؟ آپکو بھی آج یاد آنا تھا ؟ انسان ذرا وقت دے تو کسی سے مدد لی جا سکتی ہے اب میں کیا سمجھاوں آپکو ؟
مہرین: میں بہت نروس ہوں یار
فہد: ویسے باجی آپ کو پتہ تو سارا ہی ہے, کونسی ایسی چیز ہی جس کا آپکو نہیں پتہ
مہرین: بکواس بند کرو تم مجھے کیسے پتہ ہو گا یار
فہد: باجی وہ سیکس سٹوریز کافی بار میں نے آپکے ہاتھ میں دیکھی ہیں
مہرین: ہاں تو لاتا کون تھا؟ اب پڑی ہوتی تھی تو میں نے پڑھ لی
فہد: باجی اب مسلہ کیا ہے اس پہ بات کر لیں؟ وہ بچپن تھا بس اندازہ نہیں تھا اسلیے لے آتا تھا
مہرین: فہد میں نے پڑھا تھا کی بلیڈنگ بھی ہوتی ہے
فہد: باجی یار میں آپکی سہیلی نہیں ہوں جو ایسی کھلی باتیں آپ مجھ سے کر رہی ہیں
مہرین: ہاں تو اب نہیں ہے کوئی سہیلی میری تو کیا کروں اب؟ میں کس سے کروں بات؟ تم کو کیا مسلہ ہے تم تو ایسے شرما رہے ہو جیسے تم سے میری کوئی چیز چھپی ہوئی ہے, سہاگ رات میری ہے تم کیوں گھبرا رہے ہو؟
فہد بہت نروس ہو رہا تھا اور پریشان مہرین بھی تھی مگر دونوں کے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا
فہد: باجی میری بات سنیں آپکا ہونے والا شوہر بھی تو آپکے ساتھ ہی ہو گا اگر کوئی مسلہ ہو گا تو وہ سنبھال لے گا
مہرین: مجھے تو بلڈ کا سوچ سوچ کہ ہی گھبراہٹ ہو رہی ہے
جاری ہے
0 Comments