ads

Garm Behn Bhai - Episode 18

گرم بھائی بہن 

قسط 18


 

فہد اداس نظروں سے مہرین کے سر کو چوم کہ کھڑکی 

سے باہر دیکھنے لگا، دونوں کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے بیٹھے اپنی تقدیر کو کوس رہے تھے کہ ان کے سامنے ایک مرد اور عورت آ کہ بیٹھ گئے، انکی عمریں پچاس برس کے قریب قریب ہونگی، جیسے ہی وہ بیٹھنے کیلیے سامنے آئے تو مہرین اور فہد ایک دوسرے سے الگ ہو کہ اپنا آپ ٹھیک کرنے لگے،

مہرین نے بے ساختہ انداز میں ان کو سلام کیا اور کچھ توقف سے فہد نے بھی سلام کیا تو جواب میں وہ مرد عورت نے مسکرا کہ سلام کا جواب دیا، اور وہاں پہ بیٹھ کہ حالات کا جائزہ لینے لگے

 

ٹرین چل پڑی اور وہ انکل جن کے بالوں اور چھوٹی چھوٹی داڑھی خزاب سے رنگی ہوئی تھی، کرتا اور تہمد زیب تن کیے کندھے پہ سفید رنگ کا کپڑا ڈالے بیٹھے مہرین اور فہد کی طرف مسکرا کہ دیکھ رہے تھے، انکے ساتھ عورت جو کہ یقیناً انکی بیوی ہو گی بہت سادہ مگر خوش مزاج عورت لگ رہی تھی، وہ دونوں ہی آپس میں بات کر رہے تھے اور بار بار فہد اور مہرین کو دیکھ کہ مسکرانے لگ جاتے، اس عورت سے رہا نہ گیا اور اس نے مہرین کو مخاطب کر ہی لیا۔

 

 عورت: پہلا بچہ ہے؟ 

 

 مہرین: جی

 

عورت: نظر نہ لگے، اپنا دودھ پلاتی ہو؟ 

 

 مہرین: جی

 

عورت: نارمل ڈیلیوری سے ہوا؟

 

 مہرین: جی جی

 

اس عورت کے سوالوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا، مہرین نے فہد کو حسبِّ معمول اپنا شوہر ہی بتایا، وہ عورت اور مرد اپنی بیٹی کے گھر سے واپس آ رہے تھے جس نے اپنے پہلے بچے کو جنم دیا تھا، وہ بزرگ جو اس عورت کا شوہر تھا پیشے سے حکیم تھا، ایک گھنٹے بعد آنیوالے سٹاپ پہ انکا سفر ختم ہوجانا تھا، حکیم اور اس کی بیوی کو مہرین اور فہد سے باتیں کرنا اچھا لگ رہا تھا

اور ویسے بھی وہ بھلے لوگ لگ رہے تھے اسلیے مہرین اور فہد سے باتیں چلتی ہی جا رہی تھی، بزرگ جو کہ اپنی حکمت کے حوالے سے واقعات سنانے میں لگے ہوئے تھے، باتوں باتوں میں مہرین اور فہد سے ازدواجی زندگی کے حوالے سے مسائل کے حل ڈھکے چھپے انداز میں بیان کر رہے تھے، مہرین اور فہد انکی باتوں سے محضوض ہو رہے تھے، حکیم صاحب کی بیوی انکو بات بات پہ ٹوکتی اور انکی محبت بھری نوک جھونک اس گفتگو کو مزید لطف اندوز بنا رہی تھی۔ حکیم صاحب بہت کھلی طبیعت کے آدمی لگ رہے تھے اسلیے جب بھی کوئی کھلی بات کرتے تو انکہ بیوی انکو ٹوک کہ منع کرتی تو آگے سے بے دھڑک ہو کہ جواب دیتے کہ کیا ہو گیا ہے۔ شادی شدہ ہیں یہ بچے تھوڑی ہیں۔ ہم نہیں انکی رہنمائی کریں گے تو کون کرے گا، حکیم صاحب اور انکی بیوی کا بات کرنے میں ایسی اپنائیت تھی جیسے والدین کی اپنے بچوں کیلیے ہوتی ہے، مہرین اور فہد اس شفقت کو ایک عرصے سے ترس رہے تھے اسلیے حکیم صاحب اور انکی بیوی سے نہ چاہتے ہوئے بھی بات کرتے جا رہے تھے۔ مہرین اور فہد جان بوجھ کر ایسی بچگانہ بات کہہ دیتے جس پہ حکیم صاحب اور ان کی بیوی انکو سمجھانے لگ جاتے اور پھر دونوں بہن بھائی بہت مزے سے انکی ڈانٹ کو سن کہ خوش ہوتے، حکیم صاحب کچھ زیادہ ہی جوشیلے انداز میں خطابت کرنے لگ جاتے جس سے انکہ بیوی انکو ٹوکتی اور نتیجتاً حکیم صاحب اور انکی بیوی آپس میں بحث کرنے لگتے، یہ منظر فہد اور مہرین کو اپنی امی اور ابو کی یاد تازہ کروا رہا تھا کہ کیسے انکی مرحوم والدہ اپنے شوہر کے ساتھ نوک جھونک کیا کرتی سفر کٹتا جا رہا تھا اور اب حکیم صاحب کی بیوی مہرین کے برابر بیٹھ کہ بہت قریب ہو کہ باتیں کر رہی تھی اور فہد حکیم صاحب کے ساتھ بیٹھا ان سے انکے تجربات اور واقعات سن رہا تھا۔ اور ٹرین ایک سٹاپ کیلیے رکی ٹرین کے رکتے ہی سواریوں کے اترنے چڑھنے کا عمل شروع ہو گیا۔ حکیم صاحب نے اگلے سٹاپ پہ اترنا تھا اسلیے وہ رفع حاجت کیلیے چلے گئے مہرین اور حکیم صاحب کی بیوی ابھی بھی سر جوڑے باتوں میں مگھن تھیں، جیسے ہی حکیم صاحب رفع حاجت سے ہو کہ واپس آئے تو انکی بیوی انکو ذرا فاصلے پہ لے گئی اور بہت تفصیل سے کوئی بات بتانے لگی، فہد ہنستا ہوا اٹھ کہ مہرین کے پاس آ کہ بیٹھ گیا۔

 

فہد: یار کیا کمال کے لوگ ہیں۔ مزہ آ گیا پتہ ہی نہیں چلا وقت کا۔ حکیم صاحب کے واقعات کی تو کیا بات ہے۔ ہیں بڑے جی دار آدمی

 

مہرین: ہاں اور اپنی بیوی سے دیکھو کتنا پیار کرتے ہیں

 

فہد: ہاں ہاں، بہت پیار کرتے ہیں، اسی لیے تو اتنا لڑتے ہیں آپس میں، لیکن اسوقت کونسی ایسی بات یاد آگئی انکو جو دور جا کہ کر رہے ہیں

 

مہرین: کر رہے ہونگے کوئی بات، آ گئی ہو گی کوئی بات یاد اور ہاں فہد تمہاری شادی ہونیوالی ہے اگر کوئی کمزوری وغیرہ کا مسلہ ہے تو ابھی حکیم صاحب سے کر لو

 

فہد: نہیں مجھے کوئی کمزوری نہیں,ل آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ کمزوری نہیں ہے

 

مہرین اور فہد ادھر خوش گپیوں میں مگھن تھے اور سامنے کچھ فاصلے پہ حکیم صاحب اور انکی بیوی کسی خاص مدعے پہ چرچا کر رہے تھے، ان کی باتوں کے دوران اکثر اشارہ مہرین یا فہد کی طرف ہوتا لیکن اب کیا بات ہو رہی تھی یہ سمجھ سے باہر تھا۔ اس بات کو جاننے کا تجسس فہد کے اندر زیادہ تھا بہ نسبت مہرین، مہرین بس اتنا کہہ دیتی کہ ہو گی انکی کوئی ضروری بات تو فہد کا تجسس ویسے ہی برقرار رہتا. ٹرین کے چلنے کا وقت ہو گیا اور ایک مختصر وقفے کے بعد ٹرین دوبارہ چل پڑی، حکیم صاحب اور ان کی بیوی واپس اپنی نشستوں پہ آ کہ براجمان ہو گئے، اور شفقت بھرے انداز میں دوبارہ باتیں کرنے لگے، باتوں کا سلسلہ دوبارہ سے اپنے عرج پہ آ گیا اور اب حکیم صاحب کا سٹاپ آنیوالا تھا، حکیم صاحب کی بیوی نے آنکھوں سے کوئی اشارہ کر کہ حکیم صاحب کو کوئی بات یاد کروائی، تو حکیم صاحب نے چلتی بات کو بے ربط انداز میں نامکمل چھوڑ  دیا اور فہد کو مخاطب کیا

 

حیکم: ہاں تو نوجوان، ادھر آؤ ذرا بات سنو

 

فہد حیران انداز میں حکیم صاحب کی طرف دیکھنے لگا اور حکیم صاحب نے فہد کو ہاتھ سے پکڑ کہ اپنے ساتھ کچھ فاصلے پہ لے جا کہ بٹھا لیا، حکیم صاحب کی بیوی اٹھ کہ مہرین کے برابر آ کہ بیٹھ گئی اور وہ دونوں باتوں میں لگ گئی، فہد حکیم صاحب کے سامنے سوالیہ انداز میں بیٹھا ہوا کبھی مہرین کی طرف نظر لے جاتا تو کبھی حکیم صاحب کی طرف متوجہ ہو جاتا

 

حکیم: ہاں تو نوجوان؟ کسی قسم کی بد ہضمی؟ معدے میں جلن؟ نیند تو صحیح آتی ہے؟

 

حکیم صاحب نے سوال کر کہ فہد کی ہتھیلیوں کو جانچنا شروع کر دیا، فہد حیرانی سے مہرین کی 

طرف دیکھنے لگا جو اسی سمت دیکھ کہ مسکرا کہ حکیم صاحب کی بیوی کی تقریر کو سن رہی تھی 

 

حکیم: فہد بیٹا،، ادھر کیا دیکھ رہے ہو، شرماؤ نہیں جو مسلہ ہے کھل کہ بتاو

 

فہد: کیسا مسلہ؟حکیم صاحب؟

 

فہد اٹک کہ بولتا ہوا بات کو سمجھنے سے قاصر تھا حکیم: اچھا بتاو بد ہضمی معدے میں جلن، نیند کیسی آتی ہے، پیشاب میں جلن تو نہیں ہوتی

 

فہد: نہیں حکیم صاحب ایسا تو کوئی مسلہ نہیں، میں 

 بالکل ٹھیک ہوں

 

حکیم: اچھا تو شادی سے پہلے کبھی....... مشت زنی کا شوق تو نہیں رہا؟ 

 

 فہد بوکھلا گیا

 فہد: جی وہ میں..... شادی؟..... نہیں حکیم صاحب

 

حکیم: شرماؤ مت اب اپنے معالج سے ہی باتیں چھپاو گے تو کیا خاک مسلہ حل ہوگا 

 فہد: کیسا مسلہ؟

 

حکیم: فہد بیٹا، تمہاری چچی کو دیکھو ذرا غور سے دیکھو کتنی ہشاش بشاش ہیں، پتہ ہے کیوں؟

 

حکیم صاحب کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ تھی اور 

وہ دونوں مہرین اور حکیم کی بیوی کی طرف متوجہ ہو 

کہ بات کر رہے تھے، فہد حکیم صاحب کے مقصد سے بے خبر انکی بات کو سن رہا تھا

 فہد: کیوں ؟

حکیم صاحب نے فہد کے نزدیک  

 

حکیم: صبح چھٹی ہے ناں؟ 

 

 فہد: جی حکیم صاحب

 

حکیم صاحب نے دوبارہ سے انگلیوں پہ گنتی گنی اور۔حتمی انداز میں ہنس کہ کہا

حکیم: فہد بیٹا؟ دعائیں دو گے اپنے حکیم چچا کو

 

حکیم صاحب یہ بات کہہ کہ مہرین سے پانی کی بوتل لے کہ آئے اور فہد کی طرف ہنس کہ دیکھنے لگے، اسکے ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو سیدھا کر کہ اس پیکٹ کو کھول کہ کے تین باریک باریک چاول جتنے دانے رکھ دیے، فہد مکمل طور پہ حیران اور پریشان حکیم صاحب پہ برہم تھا۔ مگر انکے شفیق اور بے لوث محبت کیوجہ سے بس ضبط کیے بیٹھا تھا

 

حکیم: زبان پہ رکھ لو اور پانی سے اندر نگل لو

 

فہد اس عجیب چیز کو دیکھ کہ منہ بنا کہ ان دانوں کو

کراہت سے دیکھ رہا تھا اور حکیم صاحب ایک طرح سے 

اسے زبردستی کھلانے تک جا رہے تھے، بالآخر مجبور ہو کہ فہد نے اس چیز کو حکیم صاحب کی ہدایات کے مطابق نگل لیا، اور جیسے ہی فہد نے اس دوا کو نگلا حکیم صاحب کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں، حکیم صاحب فہد کو تھپکی دے کی شاباش دینے لگے اور ہنستے ہنستے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اپنے سٹاپ کے تعین کے لیے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگے

 

حکیم : لو فہد بیٹا، ابھی کچھ لمحوں میں ہمارا سٹاپ آ جائے گا۔ میں اپنا پتہ وغیرہ دے دیتا ہوں، رابطے میں رہنا

 

حکیم صاحب اور فہد واپس اپنی خریدی ہوئی نشستوں پہ آ کہ بیٹھ گئے، حکیم صاحب کی بیوی ابھی بھی 

مہرین کے برابر بیٹھی ہوئی تھی حکیم صاحب آتے ہی مہرین سے مخاطب ہو گئے

حکیم: بیٹا مہرین تم دونوں کو کسی کی نظر نہ لگے، 

بہت جچتے ہو ایک دوسرے کے ساتھ، میں نے فہد کو 

اپنا پتہ دے دیا ہے بیٹا اگر موقع ملے تو ہمارے گھر ضرور آنا اپنے شوہر کو لے کہ 

 

حکیم صاحب نے ایک پڑیا اپنی بیوی کو تھما کہ آنکھ سے اشارہ کیا اور حکیم کی بیوی نے ہاں میں سر ہلا کہ وہ پڑیا مہرین کو تھما دی مہرین نے بھی فہد کی طرح حیرانی سے دیکھا اتنے میں سٹاپ آ گیا اور توجہ دوسری طرف ہٹ گئی، حکیم صاحب اور انکی بیوی اپنے سامان کو اپنی دسترس میں کرنے لگے اور جلدی جلدی اختتامی کلمات کا تبادلہ کرنے لگے، سامان کو اکٹھا کرتے کرتے ٹرین جامد ہو گئی اور حکیم صاحب نے مہرین کے سر پہ پیار دیا اور دعائیں دیں، فہد کو گلے سے لگا کہ سامان کو باہر تک لیجانے میں مدد کی درخواست کی تو فہد نے بنا وقفے کے سامان کو اٹھا لیا حکیم صاحب الوداعی کلمات کہہ کہ فہد کے ہمراہ باہر کی طرف چل دیے، حکیم صاحب کی بیوی کچھ لمحے مہرین کے پاس رکی اور اسکے بعد اس نے بھی رخصت لے کہ الوداع کیا فہد انکے سامان کو باہر تک چھوڑ کہ واپس مہرین کے پاس آ گیا اور حکیم صاحب اور انکی بیوی باہر کھڑے کھڑکی سے انکو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ٹرین کو اسٹیشن سے نکلتا ہوا دیکھ رہے تھے، مہرین اور فہد بھی ان کو چلتی ٹرین سے دیکھتے جا رہے تھے اور کچھ ہی لمحوں میں سارا منظر انکی نظروں سے اوجھل ہو گیا فہد حکیم صاحب کے ہاتھ میں سے لکھے ہوئے ایڈریس کو پڑھنے لگا اور مہرین اپنے ماں باپ کو یاد کر کہ نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔

 

مہرین اور فہد کی زندگی بھی اس ٹرین کے سفر جیسی تھی جیسے ہر مسافر دوسرے مسافر سے ملتا ہے، اور کسی نہ کسی موڑ پہ ان کو ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑتا ہے، ایسے ہی مہرین اور فہد ایک دوسرے کے سہارے زندگی کا لمبا سفر ساتھ طہ کر چکے تھے مگر وہ دونوں جانتے تھے کہ ایک نہ ایک دن انکو جدا ہونا ہی ہے، حکیم صاحب اپنی بیوی کو لے کہ اس سفر کو یادوگار بنا کہ اپنے سٹاپ پہ اتر چکے تھے، مہرین اور فہد ٹرین کے ڈبے میں باقی مسافروں کے ساتھ خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے، انکی زندگی میں کتنی کمیاں تھیں لیکن اسکے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ نے ان کمیوں کی بھرپائی کرنے میں لگے رہے. ٹرین کا باقی سفر مہرین اور فہد نے خاموشی سے گزارا انکے پاس کوئی بات ہی نہیں تھی کرنے کو، مہرین فہد کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھی فہد کی آنیویوالی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی جس میں فہد کے ساتھ مہرین کی بجائے کوئی اور لڑکی ہو گی، مہرین ایک بار اپنے بچے کو دیکھتی تو اسکو اپنا آپ بیوفا لگتا، اسے اپنی محبت جھوٹی لگتی، زمانے کی روایات کو نبھاتے نبھاتے وہ تھک چکی تھی،

مہرین نے فہد کا ہاتھ ایک لمحے کیلیے بھی نہ چھوڑا مگر وہ جانتی تھی کہ یہ ہاتھ ایک نہ ایک دن اسے چھوڑنا پڑے گا خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے اور اسی زبان میں دونوں ایک دوسرے کو سوال جواب کرتے اس سفر کے کبھی ختم نہ ہونے کی خواہش دل میں لیے بس جارہے تھے وقت کس کیلیے رکتا ہے؟ کسی کیلیے بھی نہیں، یہ سفر ختم ہوا، ٹرین رک گئی مگر مہرین کے آنکھوں کے آنسو نہ رک سکے اپنے آنسوؤں کو فہد سے چھپاتے چھپاتے مہرین نے سامان کو اٹھایا اور وہ گھر کی طرف چل دیے گھر تک وہ دونوں خاموش رہے۔ گھر کا گیٹ داخل ہوتے ہی مہرین نے فہد کو گلے لگا لیا اور دھاڑیں مار مار کہ رونے لگی، فہد کو اندازہ تھا کہ مہرین کو فہد کا نام کسی اور سے منسوبہ ہونے کا رنج ہے، وہ مہرین کو چپ کرواتا کرواتا اندر لے آیا آج مہرین کو فہد کی تکلیف کا اندازہ ہو رہا تھا۔

جو اس نے مہرین کی منگنی سے لے کہ آج تک برداشت کیا تھا فہد تو بہت حوصلے سے وہ سب برداشت کر گیا مگر مہرین کے اعصاب اس درد کو برداشت کرنے سے قاصر تھی۔ ہر تکلیف میں مہرین کا ہمدرد فہد ہی تو ہوتا ہے فہد نے مہرین کو ہنسانے کی کامیاب کوششوں کے بعد مہرین کو نارمل کر دیا اور مہرین اسکے بیہودہ اور بھدے چٹکلوں پہ رونا چھوڑ کہ ہنس ہنس کہ لوٹ پاٹ ہو رہی تھی 

 

ماحول کو خوشگوار کر کہ فہد نے کھانے کا انتظام کرنا تھا اسلیے مہرین کو اسکے بچے کے ساتھ کمرے میں آرام کرنے کیلیے چھوڑ کہ باہر سے کھانا لینے کیلئے چلا گیا فہد پیدل جا رہا تھا اور قریب مارکیٹ تک جاتے جاتے اسکو اپنی طبیعت بوجھل محسوس ہورہی تھی سفر کی تھکاوٹ سمجھ کہ فہد طبعیت کی بیچینی کو نظرانداز کر رہا تھا۔ گھر واپسی تک فہد کو اپنے جسم میں عجیب سی حرارت محسوس ہو رہی تھی جس کو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ فہد جیسے تیسے گھر پہنچا اور مہرین کی نوکری کو اپنے لیے باعثِّ مسرت سمجھ کہ اپنی خوابوں کی ملکہ کیلیے دسترخوان بچھانے لگا، مہرین فہد کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ کہ خوش ہو رہی تھی۔ فہد نے ایک دو نوالے لگا کہ مہرین کو اپنی طبیعت کی ناسازی کے بارے میں بتایا تو مہرین جو کہ اب خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہی تھی۔

فہد کو حکیم صاحب سے رابطہ کرنے کا کہہ کہ چھیڑنے لگی، فہد پہلے ہی حکیم صاحب کی پراسرار ٹوٹکوں کو سن سن کہ عاجز آ چکا تھا۔ مہرین سے حکیم صاحب کی باتوں پہ ناراضی کا اظہار کرنے لگا 

 

مہرین: اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو حکیم صاحب کے پاس چلیں؟

 

فہد: خدا نہ کرے کہ دوبارہ حکیم صاحب سے سامنا ہو

مہرین: کیوں؟ اپنے علاقے کے سب سے مشہور حکیم ہیں، لوگ دور دور سے اپنا علاج کروانے آتے ہیں ان سے

 

فہد: بقول حکیم صاحب اور ان کی بیوی کے 

 

فہد نے منہ بنا کہ طنزیہ انداز میں جواب دیا اور سنجیدہ انداز میں بات کرنے لگا مہرین شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بات سن رہی تھی اور کھانا کھانے میں مصروف تھی اور جب فہد کوئی جلی کٹی بات کہتا تو مہرین کے قہقہے ہی نکل جاتے

 

فہد: بقول حکیم صاحب کے تو انکا سارا گاؤں نا مردوں کا ہے، خود کو حکیم کم اور خدا زیادہ سمجھتے ہیں، فلاں شخص آیا اسکے اولاد نہیں تھی تو میں نے دوا دے کے علاج کیا تو اولاد ہو گئی، اور ایسا ایک واقعہ نہیں ستر واقعات ایسے ہیں، آگے سن لو فلاں شخص آیا اسکی بیوی اس سے خوش نہیں تھی میں نے دوا دی تو اسکی بیوی کے چہرے پہ لالیاں آگئی یہ کیا لاجک ہوئی بھلا ؟ دوا شوہر کھائے اور لالیاں بیوی کے چہرے پہ؟ جیسے ہمیں ٹرین میں واقعات سنائے ہیں ایسے ہی اپنے گاہک بڑھا کہ اپنا کاروبار چلاتے ہیں

 

مہرین: اب ایسے بھی نا انصاف نہ بنو فہد کچھ تو اثر ہو گا انکی دوا میں کاش کہ تمہیں حکیم صاحب دوا دیں اور لالیاں میرے چہرے پہ آئیں

 

فہد: مہرین باجی جو دوا کھائے گا لالیاں تو اسکے چہرے پہ آنی چاہئیں، وہ بھی اگر واقعی دوا میں کوئی اثر ہو تو مجھے تو انکی لاجکس ہی سمجھ نہیں آئیں اور آپ اپنے بھائی کو چھوڑ کہ حکیم صاحب کی وکالت کیوں کر رہی ہیں؟ 

 

مہرین: میں کوئی وکالت نہیں کر رہی اور جہاں تک 

بات ہے دوا شوہر کھائے اور لالیاں بیوی کے چہرے پہ آئیں اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات گہرے اور بھرپور ہونگے تو بیوی خوش ہو گی جس سے اسکے چہرے سے راتوں کی رنگینیوں کا اندازہ ہو جائے گا۔ یہ منطق ہے فہد صاحب آئی سمجھ؟ یا اور تفصیل سے سمجھاؤں؟ تم ابھی کنوارے کو نہ اسلیے ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے

 

فہد: جی جی سمجھ گیا مہرین باجی بہت اچھے سے سمجھ آئی آپ کو حکیم صاحب کی منطق کی اور آپکے چہرے سے پہلے ہی نظر نہیں ہٹتی اور کتنی لالیاں چاہتی ہیں چہرے پہ؟ 

 

مہرین: نہیں نہیں وہ والی لالیاں جن کی حکیم صاحب بات کر رہے تھے

فہد: حکیم صاحب کی وکیلِّ صفائی آپ کو کسی کی نظر نہ لگے کافی ہیں اتنی لالیاں رنگین مزاج تو آپ بھی پوری ہیں اندر سے

 

فہد نے مہرین کے گالوں کو گدگدا کہ پیار کیا اور مہرین نے لہک کہ آگے سے جواب دیا

مہرین: ہاں میں تمہاری طرح کنواری نہیں ہوں ناں مزے لیے ہیں پورے میں تو حیران ہوں کی ابھی تک تم کنوارے ہی ہو۔ اتنا تندرست خوبصورت نوجوان آج کے اس قدر کھلے ماحول میں رہ کہ بھی کنوارہ ہی ہے۔ قہر ہے یہ تو

فہد شرما کہ لال پیلا ہونے لگا

 

 مہرین: فہد؟ ایک بات بتاوں؟

 

فہد نے مہرین کی طرف ہنس کہ دیکھا اور ہاں میں 

 سر ہلایا

 

مہرین: حکیم صاحب تمہیں پتہ ہے کیوں سائیڈ پہ لے 

 کہ گئے تھے؟ 

 

فہد: جی ہاں اپنی حکمت جھاڑنے لے کہ گئے تھے مجھے معدے سے لے کہ پیشاب پاخانے تک ساری تفصیل پوچھ کہ اپنی ازدواجی زندگی کے کارنامے بتانے لگے

مہرین: ہاں ہاں وہ تو بتانے ہی تھے انہوں نے کیوں کہ...... میں نے انکو....... میرا مطلب انکی بیوی کو....... میں تو مذاق کر رہی تھی وہ تو پکے ہی ہو گئے اس بات پہ 

 

فہد: کیا مطلب؟ کیا انکی بیوی کو؟

 

مہرین: وہ ایسے ہی مذاق میں میں نے کہہ دیا کہ میرا 

 شوہر...... وہ

 

فہد تجسس سے مہرین سے پوری بات بولنے پہ اسرار کر رہا تھا اور مہرین نے اٹکتے ہوئے پوری شرارت بتا ہی ڈالی 

 

مہرین: حکیم صاحب کی بیوی مجھ سے بھی زیادہ رنگین مزاج ہیں۔ انہوں نے میری ازدواجی زندگی کے بارے میں پوچھا تو میں نے مذاق میں انکو کہہ دیا کہ میرا شوہر میری جسمانی ضرورت پوری نہیں کر پاتا اور وہ تو اس بات پہ اور کریدنے لگیں، بس پھر جو جھوٹ سچ بولا گیا میں نے بولتی گئی اور

 

فہد: کیا اور؟ اور کیا مطلب؟ آپ ان کے سامنے مجھے۔نامرد ثابت کر آئی؟ 

 

مہرین: نہیں نہیں بدھو نامرد کہہ دیتی تو وہ یہ نہ پوچھتی کہ اگر تمہارا شوھر نامرد ہے تو بچہ کس کا ہے؟ میں نے تو ان کو بس مردانہ کمزوری کا کہا تھا۔ اب مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کو فوراً ہی بتا کہ نیا محاذ کھڑا کر دیں گی میرے لیے

 

فہد: واہ باجی اپنا شوہر بھی بنایا تو نامرد شوہر بنا دیا مہرین: نہیں نہیں نامرد نہیں, مردانہ کمزوری والا شوہر

 

فہد: ہاں ہاں ایک ہی بات ہے، حکیم صاحب کے سوالات کی اب سمجھ آ رہی ہے مجھے

 

مہرین: اچھا کوئی بات نہیں ہو گیا اب تو نہ ہی تم میرے شوہر ہو اور مردانہ کمزوری تو یقیناً تمہارا مسلہ نہیں ہے بس شرمیلے کچھ زیادہ ہی پائے گئے ہو شرمیلے پن کی بھی کوئی دوا ہوتی ہے؟ 

 

مہرین شروع سے ہی شرارتی تھی اسلیے فہد کو مہرین کی شرارتوں کا پتہ تھا اور وہ اس بیہودہ شرارت پہ ہنس رہے تھے مہرین نے پاس پڑے اپنے پرس سے حکیم صاحب کی بیوی کے ذریعے سے ملی دوا نکال کہ فہد کو دکھائی 

 

مہرین: ویسے اگر کبھی میرے پیارے بھائی کو مردانہ کمزوری ہو بھی تو حکیم صاحب نے اپنی بیوی کے توسط سے مجھے یہ محبت کی پڑیا دی ہے اور اسکا طریقہ استعمال بھی بتایا ہے بقول ان کے یہ محبت کی پڑیا جادو اثر رکھتی ہے بے جان سے بے جان مرغے میں بھی اتنی جان ڈال سکتی ہے کہ ککڑوں کڑوں کی آوازیں سارا محلہ سنے گا 

 

فہد: کس کی آوازیں؟ مرغے کی یا مرغی کی؟


جاری ہے

 


Post a Comment

2 Comments

  1. Bahut Zabardast character hay mehreen ka

    ReplyDelete
  2. Next update please agr story slow krni ha to updates jaldi Diya kro

    ReplyDelete