گرم بھائی بہن
قسط 17
اپنی بہن کا دودھ پیتے ہوئے وہ اسکی دوسری چھاتی کو دبا لیتا تو کبھی ہاتھ پھیر کہ مہرین کی نرم و ملائم جلد کے لمس کا احساس لیتا، مہرین کی چھاتیاں اتنی بڑی اور فربہ تھی کہ فہد کے ہونٹوں سے کھینبچے جانے کے باوجود اپنے تناؤ پہ قائم تھی، فہد کا لن ٹائٹ ہونے لگا، مہرین جو کہ اپنے بھائی کے برابر نیم کروٹ والے انداز میں ٹیڑھی ہو کہ لیٹی ہوئی تھی اپنے بھائی کے لن کو اپنی ایک ران پہ چھبتا ہوا محسوس کرنے لگی، مہرین نے کسی قسم کا کوئی رد عمل نہ دیا مگر فہد کے لیے یہ باعث شرمندگی ہو سکتا تھا اسلیے فہد نے چھاتی کو چوستے ہوئے اپنی کمر کو پیچھے کھسکا کہ لن کا اور مہرین کی ران کا فاصلہ بڑھا دیا۔
مہرین فہد کے بالوں میں محبت سے ہاتھ پھیر رہی تھی، مہرین نے فہد کو سر پہ بوسہ دے کے چیونٹی کی رفتار سے اپنی ٹانگ کو حرکت دی اور اپنی ران کو فہد کے لن سے دوبارہ متمسک کر دیا، فہد نے چھاتی سے ہونٹ ہٹا کہ مہرین کی طرف دیکھا تو مہرین نے انتہائی شفیق
انداز میں ہنس کہ فہد کو دیکھا,ل، نہ جانے یہ کونسی
زبان تھی جس میں مہرین نے ایک ہی نظر میں بنا کچھ کہے فہد کو یہ سمجھا دیا کی اسکی محبت فہد کے جذبات کو سمجھ سکتی ہے، اس لمحے بے لفظ گفتگو کو بس ایک لمحہ لگا اور فہد نے اپنی کمر کو دوبارہ سے کھسکا کہ لن کو مہرین کی ران میں مکمل طور پہ چبھو دیا۔
فہد نے مہرین کی چھاتیوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کہ دبایا اور کمر کو آہستہ آہستہ ہلا کہ مہرین کی ران پہ لن رگڑنا شروع کیا، مہرین کے چہرے پہ اس وقت بہت تسلی اور سکون کے تاثرات تھے، جیسے وہ اپنے بھائی کو سکون دے کہ اپنے آپ کو سکون دے رہی ہو۔
مہرین بچے کی پیدائش سے لیکر اب تک ابھی سیکس کے لیے ویسے تیار نہیں تھی، اسکے جسم میں ہارموز کی تبدیلیوں کی وجہ سے شاید ابھی سیکس کی عمومی طلب نہیں ابھار رہی تھی مگر اسکے باوجود اسکو اپنے ہونٹ بھینچ کہ اس لطف کا احساس بھی ہو رہا تھا جو کسی بھی عورت کو اس وقت ہو سکتا تھا۔ فہد اپنا منہ کبھی مہرین کی بغل میں دے دیتا تو کبھی مہرین کی چھاتیوں کو چومنے لگتا، کبھ مہرین کی گردن تک جا کہ بوسے لیتا تو کبھی مہرین کے پیٹ کو چومتا مگر کمر ہلا ہلا کہ مہرہن کی ساری ران فہد کے لن سے رگڑ کھاتی جا رہی تھی۔ فہد کی رفتار آہستہ آہستہ سے بڑھتی اور کم ہوتی،
مہرین بھی اپنی ٹانگ کو دبا کہ فہد کے مزے کو بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تھی، مہرین کی ایک ران کو چودتے چودتے فہد کو دیر ہو چکی تھی اسلیے اب اسکا لن پانی چھوڑ نے کے عین قریب تھا۔ فہد نے لن
کو مکمل طاقت سے مہرین کی ران کو اپنی ٹانگوں میں
کس لیا اور مہرین کے بازوں سے کس کے اپنے ساتھ لگا لیا۔ مہرین نے بھی اپنے بھائی کو ڈسچارج کا اچھا مزہ دینے کیلیے ران کو ہلانا شروع کیا اور فہد کے لن نے پانی چھوڑ دیا۔
اسکے منہ سے آہ مہرین باجی۔۔۔ اف،،، آہ بے ہنگم اور بے ترتیب سانسوں کے ساتھ نکلنے لگا۔ مہرین نے اپنے بھائی کو اس حالت میں کمر پہ سہلانا شروع کیا جیسے وہ اپنے بھائی کو یہ احساس دلا رہی تھی کہ وہ اسکے ساتھ ہے۔ مہرین کا فہد کی کمر پہ محبت بھرا ہاتھ کا پھیرا جانا فہد کو سکون دے رہا تھا۔ فہد مہرین کی بغل میں منہ دیے ڈسچارج ہونے کا مزہ لے رہا تھا اور مکمل ڈسچارج ہونے کے بعد وہیں پہ پرسکون ہو کہ آنکھوں کو بند کیے لیٹا رہا۔
مہرین فہد کو پیار بھری تھپکیاں دے کہ وہیں پہ سلانے لگی، اور فہد بھی وہیں پہ لیٹا لیٹا سو گیا
فہد ڈسچارج ہو کہ مہرین کی بغل میں منہ دے کہ
سویا ہوا ایسا لگا رہا تھا جیسے بچہ ماں کا دودھ پیتا پیتا اپنی طلب پوری ہونے پہ وہیں اسکی گود میں سو جاتا ہے، مہرین بھی ایسے ہی تسلی سے لیٹی اپنے بھائی کو پیار سے سلا رہی تھی جیسے ایک ماں اپنے بچے کو سلاتی ہے، یہ بہت خوبصورت منظر تھا جو کہ ساری رات فہد کو اچھی نیند میں بیہوشی کا مزہ دے رہا تھا۔
اگلی صبح فہد کی آنکھ کھلی تو مہرین اس سے پہلے ہی جاگ چکی تھی اور کچن میں مصروف تھی، فہد نے اٹھ کہ رات والے منظر کو یاد کیا تو اپنے ٹراؤزر پہ نظر ڈالی، اسکا ٹراؤزر اسکے بھرپور اور گاڑھے سپرم کی وجہ سے سخت تھا، فہد کی آنکھیں رات کی پرسکون نیند کی گواہی دے رہی تھی، مہرین کمرے میں آئی تو آتے ہی فہد کو دیکھ کہ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے لگی
مہرین: اٹھ گیا میرا بچہ؟ جلدی جلدی نہا لو، کپڑے استری کر دیے ہیں، ناشتہ بنانے جا رہی ہوں، جلدی کر لو۔
فہد انگڑائیاں لیتا لیتا بستر پہ ہی لوٹ پوٹ ہو کہ گرنے لگا
فہد: جی باجی، اٹھ جاتا ہوں
فہد تیار ہو کہ دفتر چلا گیا اور مہرین نے فہد کے رشتے کیلیے فون گھمانے شروع کر دیے، اب یہ ہر روز کا معمول بن گیا تھا کہ مہرین رشتے کی تلاش میںلوگوں سے رابطے کرتی، رشتے کروانے والوں کو گھر بلاتی اور سارے دن کی اپنی ملاقاتوں کی تفصیل فہد کو بتاتی، فہد اور مہرین بہر حال بچے تھے اسلیے انکی باتوں میں وہ پختگی نہیں تھی جو بزرگوں کی باتوں میں ہوا کرتی ہے اسلیے اکثر رشتوں کی آفر کو بنا دیکھے ہی ٹھکرا دیا جاتا، انکے ذہن میں کچھ اپنے ہی معیار تھے، ایک یہ کہ خاندان بڑا ہونا چاہئے، مالی حالات کے حساب سے نہیں بلکہ آبادی کے حساب سے، یہ ایک عجیب بات تھی مگر جیسے انکا ماضی رشتہ داروں کی کمی اور اسکے بعد بہن بھائیوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ایک طرح سے متاثر ہوا تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ مہرین کے سسرال کی طرح فہد کا سسرال بھی دو تین افراد پہ مشتمل ہو، دوسرا یہ کہ لڑکی کم از کم ایف اے یا میٹرک تو لازمی ہو کیونکہ فہد نے بی اے کیا ہوا تھا اور اس دور میں اتنے پڑھے لکھے لڑکے ناپید تھے، ایسی ہی ایک دومزید معصوم سی ڈیمانڈز کو مدنظر رکھتے ہوئے رشتے کی تلاش زور و شور سے جاری تھی۔
وقت گزرتا گیا اور ایک فیملی، جو کہ انکے شہر کسی شادی میں آئی ہوئی تھی، مہرین رشتے کی تلاش کا ایک پورا نیٹ ورک بنا چکی تھی اسلیے کسی جاننے والوں کے حوالےسے مہرین کو اس فیملی کی قلیل دورانیے کی آمد کا پتہ چلا، اس رشتے کے حوالے سے ملی معلومات مہرین کو بہت پسند آئیں، اسلیے مہرین نے بنا کسی وقت ضائع کئے انکو اپنے گھر چائے پہ مدعو کر لیا، اس فیملی کو بھی بنیادی معلومات دے کہ مہرین کے گھر لے آیا گیا، مہرین فہد کو پہلے ہی دفتر اطلاع کر چکی تھی اسلیے فہد بھی وقت رہتے دفتر سے گھر پہنچ گیا، مہمان چائے پی رہے تھے جب متوقع دولہے نے گھر کی بیل بجائی، مہرین جلدی جلدی اپنے بھائی کو گیٹ سے اندر لائی اور کچھ دیر میں اسے صاف کپڑے پہنا کہ مہمانوں کے سامنے لے آئی، فہد کسی لڑکی کی طرح شرماتا جا رہا تھا اور مہرین خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی، مہرین نے فہد کی آمد سے قبل جو معلومات لیں اسکے مطابق تو یہ رشتہ ان تمام تقاضوں پہ پورا اتر رہا تھا جو مہرین اور فہد نے سوچا ہوا تھا،
آنے والی فیملی کو بھی فہد پسند آیا اسلیے وہ ان کو اپنے گھر دعوت دے کہ چلے گئے، جاتے جاتے اپنا نمبر اور گھر کا پتہ مہرین کو لکھوا گئے، یہ ایک طرح سے رشتے کو حتمی سمت میں لیجانے کی دعوت تھی اور لڑکی کو آکہ دیکھ کی پسند کرنے کی دعوت بھی تھی، مہرین نے قبل از وقت ہی انکو تنبیہ کر دی کی چونکہ مہرین اتنی دور اکیلی نہیں آ سکتی اسلیے فہد اور مہرین دونوں ہی آئیںگے اس فیملی کو بھی اس بات پہ کوئی خاص اعتراض نہیں تھا اسلیے انہوں نے انکی اگلی آمد کو ایک غیر رسمی ملاقات کی حد تک رکھنے کا کہا اور وہاں سے بہت پر امید ہو کہ رخصت ہو گئے۔
فہد کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے مگر اسکا دل یہ سب قبول کرنے سے قاصر تھا اسلیے وہ بس مہرین کی خوشی کو دیکھ کی دل کو تسلی دے رہا تھا، مہرین بھی ایسا رشتہ مل جانے پہ خوش تھی، مہرین کا شوہر ایک سلجھا اور سمجھدار انسان تھا اسلیے اگلے فون پہ بات ہونے پہ اس سے کیے گئے تمام تر مشوروں اور نصیحتوں کی روشنی میں مہرین کو ہدایات مل گئی کہ کیسے کیسے چیزوں کو انجام دینا ہے اور کون کون سی باریکیوں کو مد نظر رکھنا ہے، مہرین اس فیملی سے لینڈ لائین کے ذریعے باقاعدہ رابطے میں رہی اور دو تین ہفتے بعد، مہرین کے شوہر کی اجازت اور مشورے سے مہرین
اور فہد اپنے شہر سے فہد کے متوقعہ سسرال کی طرف جانے کیلیے تیار ہو گئے، یہ دو تین ہفتے فہد اور مہرین اس فیملی اور مہرین کی متوقعہ منگیتر کے بارے میں بہت ساری باتیں جان چکے تھے اور اب ایک سسپینس کو دل میں لیے لڑکی کے حسن و جمال کی جلوے دیکھنے کی امید دل میں لیے جانے کیلیے تیاریاں کر رہے تھے۔
مہرین اور فہد کو دوسرے شہر براستہ ٹرین جانا تھا اسلیے انکا پلان کچھ یوں مرتب ہو کہ وہ علی الصبح
ٹرین کے ذریعے اپنے شہر سے روانہ ہو کہ اڑھائی گھنٹے کے سفر کو طہ کرکہ دس ساڑھے دس دوسرے شہر جا پہنچیں گے، وہاں سے ہونیوالے رشتہ داروں کے گھر سے کوئی بھی فرد ان کو ریسیو کر کہ گھر تک لے آئے گا، اور ایسے ہی وہ شام ڈھلنے سے پہلے وہاں سے واپس نکل پڑیں گے تا کہ بحفاظت اور بروقت اپنے گھر پہنچ جائیں، مہرین نے اپنی زندگی میں بہت کم ہی سفر کیا تھا اور اوپر سے اسکا ہمسفر اسکا ہر دلعزیز چھوٹا بھائی ہو گا تو مہرین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. آنیوالی صبح انکو سفر کرنا تھا اسلیے رات کو ہی سامان پیک کر کہ مہرین اپنے بھائی کے برابر آ کہ لیٹ گئی، فہد مہرین سے صبح کو ساتھ لے کہ جانے والے سامان کی تمام تر تفصیلات پوچھ رہا تھا اور مہرین اسے اسکی منگیتر کے نام سے بار بار چھیڑ رہی تھی، فہد کے دل میں نئے جذبات جنم لے رہے تھے اسلیے وہ بھی شرما شرما کہ اپنی بہن کے منہ سے اپنی ہونیوالی منگیتر کا نام سن کہ گلابی مسکراہٹ دے رہا تھا۔
مہرین: کیوں دولہے راجا،، کل تو اپنی خوابوں کی رانی کو دیکھنے جا رہے ہو، کیسا لگ رہا ہے
فہد: باجی صبح جا کہ دیکھیں گے کہ خوابوں کی رانی کا جو نقشہ آپ نے سنایا ہے وہ ویسی ہے بھی یا نہیں۔
مہرین: ہاں ہاں اسکو دیکھ کہ تم مجھے بھول جاؤ گے۔
فہد: باجی؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ آپکے مقابلے میں نہ کوئی ہے اور نہ ہو گی۔
مہرین: ہاں ہاں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، بیوی کے پیچھے لگ کہ بڑے بڑے اپنی ماں بہن کو بھول جاتے ہیں۔
فہد: باجی میں کوئی دعویٰ تو نہیں کرونگا کیونکہ اس بات کا فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ میں بدلتا ہوں یا نہیں، اور رہی بات میرے بدلنے کی تو آپ کی قسم ابھی یہ سب پلاننگ کو ختم کر دو میں گلہ بھی نہیں کرونگا، یہ سب تو آپکی خوشی کیلیے کر رہا ہوں اور اب آپ ہی مجھے بدلنے کا الزام تو نہ دو۔
مہرین: نہیں فہد ایسی بات نہیں، مجھے اندازہ ہے کہ تم میرے ہی ہو ہمیشہ یہ تو معاشرے کی پابندیاں ہیں ورنہ آج شاید۔۔۔
مہرین ایک ادھوری بات کو چھوڑ کہ خاموش ہو چکی تھی اور اس کا چہرہ اتنی گرم جوشی سے تیاریوں کے باوجود ان باتوں کو کرنے سے اترا اترا سا لگ رہا تھا، فہد مہرین کے دل کے نامکمل ارمانوں کی چیخوں کو صاف صاف سن اور سمجھ رہا تھا مگر وہ بھی مہرین کی طرح بے بس اور لاچار اپنے اندر بھی ادھورے ارمان لیے اپنی بہن کو گلے سے لگا کہ خاموش تھا۔
فہد: باجی؟ اگر معاشرے کی پابندیاں نہ ہوتی تو؟
مہرین: پتہ نہیں فہد، کیا ہوتا کیا نہ ہوتا
فہد: بتائیں باجی
مہرین: کیا بتاؤں فہد ؟
فہد اپنی اکلوتی بہن اور اکلوتی محبت کے منہ سے اس شاید کو سننا چاہ رہا تھا جس کا جواب وہ جانتا تھا اسلیے فہد نے مہرین کے لبوں کو چوم کہ اپنا سوال دہرایا، مہرین نے فہد کی آنکھوں میں دیکھ کی جواب دیا۔
مہرین: اگر معاشرے کی پابندیاں نہ ہوتی تو شاید میں تمہارے بچے کی ماں ہوتی۔
فہد نے اس بات کو سن کہ مہرین کو گلے سے لگا لیا،
دونوں اس بات کو سوچ کہ اندر ہی اندر بیتاب ہو کہ اپنے نصیبوں کو کوس رہے تھے کہ کاش یہ معاشرے کی پابندیاں نہ ہوتی تو آج وہ ایک دوسرے کے ساتھ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اپنا لیتے، فہد اور مہرین پچھلی ایک دہائی سے ایک دوسرے کی جسمانی کشش کے شدت سے پیاسے تھے، مگر اس پیاس کو وہ اپنے جذبات کی مدد سے پورا کر رہے تھے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ سب کچھ کر سکتے تھے مگر وقت کی فراوانی اور حالات کی مکمل حمایت کے باوجود وہ اس انتہائی حد کے بس آس پاس ہی بھٹکتے رہے، وہ کبھی اس حد کو پار ہی نہیں کر سکے جس کیلیے وہ دونوں پچھلے طویل عرصے سے خواہشمند تھے۔
فہد: باجی؟
مہرین: جی باجی کی جان؟
فہد: میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔
مہرین: فہد تم مجھے حاصل تو نہیں کر سکتے لیکن کیا یہ اچھی بات نہیں کہ تمہیں مجھ سے کوئی جدا بھی تو نہیں کر سکتا، شادی کی رات میرے بھی ایسے ہی جذبات تھے جو اسوقت تمہیں محسوس ہو رہے ہو، لیکن مجھے آج اس بات پہ زیادہ خوشی ہے کہ تم آج بھی میرے ساتھ ہو، کیا یہ خوشی کم ہے میرے لیے؟
فہد: باجی میں نے آپکے علاوہ کسی اور کو اپنا نہیں مانا تو اس لڑکی کو کیسے مان لوں؟
مہرین: میں نے بھی تمہارے علاوہ کسی اور کو اپنے اوپر اتنا حق نہیں دیا تھا جتنا تمہیں دیا لیکن فہد میں وہی مہرین ہوں جس نے آج کسی اور کا بچہ پیدا کیا، نہ کہ تمہارا
فہد: باجی ضروری ہے کہ جس تکلیف سے آپ گزری ہو میں بھی اس تکلیف سے گزروں؟ آپ میں کسی اور کا ہونے کا دکھ برداشت کرنے کی ہمت تھی لیکن ہو سکتا ہے میں یہ برداشت نہ کر سکوں۔
مہرین اور فہد ایک دوسرے کو نہ ہی پا سکتے تھے اور
نہ ہی کھو سکتے تھے، وہ ایک دوسرے کو خوش دیکھنا چاہتے تھے لیکن انکا ہمیشہ کیلیے ایک ہونے کا سپنا کبھی پورا نہیں ہو سکتا تھا، عجیب تذبذب میں رات کاٹ کہ صبح دونوں بہن بھائی ٹرین کے ذریعے دوسرے شہر کیلیے روانہ ہو گئے جہاں ایک خاندان انکی آمد کا انتظار کر رہا تھا۔
مہرین فہد کے سنہرے اور خوشیوں سے بھرے مستقبل کیلیے بہت خوش بھی تھی اور اندر ہی اندر اسے یہ دکھ بھی ہو رہا تھا کہ اس سفر سے واپسی پہ فہد کسی اور کے نام سے منسوب ہو جائے گا اور ایک نہ ایک دن فہد ہمیشہ ہمیشہ کیلیے کسی اور کا ہو جائے گا، فہد کے دل میں بھی ایسے ہی اوہام تھے. دونوں بھائی بہن تیار ہو کہ بہت خوبصورت لگ رہے تھے، خاص کر مہرین کے چہرے پہ تو جس کی نظر پڑ جاتی وہ بس دیکھتا ہی رہ جاتا، بچہ گاڑی میں کچھ ماہ کا خوبصورت اور شرارتی آنکھوں والا بچہ تمام مسافروں کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا، فہد کے بازو میں ضرورت کی چیزوں کا ایک چھوٹا سا بیگ تھا اور دوسرے ہاتھ میں مہرین کا ہاتھ ہر دیکھنے والا یہی سمجھتا کہ یہ دونوں میاں بیوی اپنے
نومولود کے ساتھ کسی سفر پہ جا رہے ہیں، مہرین فہد
کو ایسے انداز سے مخاطب کر رہی تھی کہ جس سے دیکھنے والے کو یقین ہو جاتا کہ فہد مہرین کا شوہر ہی ہے، فہد مہرین کے اس رویے کا عادی تھا اسلیے آج اس نے بھی بنا شرمائے مہرین کے ساتھ ایسے برتاؤ کرنا شروع کر دیا جیسے وہ واقعی فہد کی محبوب بیوی
ہے۔ ہر دیکھنے والے کی نظر اس جوان اور خوبصورت جوڑے کو قابل رشک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی، ان کا آپس میں پیار اور محبت قابل دید تھا. سفر ختم ہوا اور ٹرین سے اتر کہ دونوں سفر کی خوشگوار باتوں پہ ہنسنے لگے
مہرین: چلو اب باجی باجی کہنا، اب ہم میاں بیوی بن کہ تمہارے سسرال نہیں جا سکتے
فہد: باجی یہ میاں بیوی والی ایکٹکنگ آپ کی وجہ سے ہی کرنی پڑتی ہے، اتنا عجیب لگتا ہے جب آپکو نام لے کہ تم تم کرنا پڑتا ہے، اور مجبور تو میں ہوتا ہوں جو ایسے نازک مرحلے پہ آپکو غلطی سے بھی باجی کہہ دوں تو کتنا برا لگے
مہرین: ہاں وہی تو ان کے گھر پہنچنے سے پہلے دوبارہ زبان پہ آپ آپ اور باجی باجی چڑھا لو
فہد: کمال کرتی ہو مہرین بیگم
دونوں ایسی باتیں کرتے ہنستے جا رہے تھے کہ اچانک دور سے ایک نوجوان انکے پاس آکہ مخاطب ہوا
نوجوان: فہد بھائی؟ مہرین باجی؟ آپ ہی ہیں ناں؟
لڑکا ہچکچا کہ پوچھ رہا تھا اور فہد نے بڑھ کہ ہاں میں سر ہلا کہ مصافحہ کیا، سلام دعا اور سفر کی خیر خیریت بتاتے بتاے وہ لوگ تانگہ گھوڑا پہ سوار ہو کہ کچھ ہی دیر میں اپنی منزل پہ جا پہنچے، وہاں جا کہ انکو گھر کے اندر لے جایا گیا۔
فہد کے متوقع سسرال کا گھر کافی بڑا تھا، حویلی نما گھر جس کے مختلف حصوں میں ایک ہی خاندان کے لوگ رہائش پذیر تھے، ایک بڑا سا صحن جس کے ہر سمت میں راہداریاں تھی، دو منزلہ گھر جسکی تعمیر پرانے انداز میں مگر کافی مضبوط لگ رہی تھی، گھر کے صحن میں دو تین ضعیف العمر بزرگ دنیا جہاں سے بے خبر ہو کہ
حقہ پھونک رہے تھے، چھوٹے اور درمیانی عمر کے بچے بھاگتے شور کرتے ایک راہ داری سے دوسری راہ داری میں آ جارہے تھے، فہد کی ہونی والی ساس اور سسر خاندان کے کچھ اور بڑے لوگ ان کو گھر کے ایک حصے میں لے آئے، وہاں انکو ایک کمرے میں بٹھا کہ ان کی خاطر مدارت کی جانے لگی، وہ دونوں تنہا طبیعت کے بہن بھائی اس طرح کے ماحول سے بہت متاثر ہو رہے تھے اور خاطر تواضع کا مزہ لے رہے تھے، فہد کی آنکھیں کسی کو تلاش کر رہی تھی مگر مجال ہے کہ اس کمرے کے اردگرد کسی نسوانی آواز کو بھی سن پایا ہو، فہد مہرین سے آنکھوں کے اشاروں سے پوچھ رہا تھا کہ لڑکی کب آئے گی مگر مہرین ان لوگوں سے بات کرتی کرتی فہد کی اس حرکت کو اگنور کر رہی تھی، مہرین بھانپ چکی تھی کہ یہ لوگ پردہ دار ہیں اسلیے فہد لڑکی کو۔دیکھنا تو درکنار آواز بھی نہیں سن پائے گا، اور ایسا ہی ہوا، وہاں موجود خواتین نے کچھ دیر بعد مہرین کو مخاطب کیا
ساس: آؤ بیٹا آپکو گھر کے باقی لوگوں سے ملوا لائیں۔
یہ بات سن کہ مہرین اپنے بچے کو لے کہ اٹھ کھڑی ہوئی، ابھی مہرین نے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا تھا کہ فہد بھی مہرین کے ساتھ چلنے کیلیے کھڑا ہو گیا، فہد اسوقت مہرین سمیت ہر نظر کا مرکز بن چکا تھا، ان تین چار عورتوں اور مردوں نے فہد کو نروس ہوتا ہوا دیکھا تو وہ لبوں میں مسکرانے لگے، ان مردوں میں سے ایک مرد نے فہد کو مخاطب کیا
آدمی: فہد بیٹا آپ تو ہمارے پاس ہی بیٹھ جاؤ، اپنی جاب کے بارے میں بتاؤ ہمیں، کونسا ادارہ ہے جہاں آپ جاب کرتے ہو؟
مہرین فہد کی حالت پہ ہنستی ہوئی ان عورتوں سے گھل مل کہ باتیں کرتی اس کمرے سے نکل گئی، اور فہد ان لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے میں لگ گیا،۔کافی دیر ایسے ہی ان سے گپ شپ کرتے فہد ان سے گھلنے ملنے کی کوشش کرنے لگا مگر سوالوں کی بوچھاڑ سے فہد بہت نروس ہو گیا۔
دوپہر کے وقت پر تکلف ضیافت کیلیے فہد کو مہرین کے پاس لے جایا گیا، راستے میں کچھ چھوٹی عمر کی بچیوں نے فہد کو سلام کیا، فہد نظریں جھکائے ایک لڑکے کی رہنمائی میں راہداریوں سے ہوتا ہوا گزر رہا تھا، بالآخر فہد ایک کمرے میں پہنچا جہاں مہرین کچھ عورتوں سے باتوں میں مگھن ہنس ہنس کہ اپنی خوبصورتی کا جادو چلا رہی تھی، زمین پہ دستر خوان کے گرد سب لوگ جمع تھے اور فہد مہرین کے برابر آ کہ بیٹھ گیا، فہد کے دل میں ہزاروں سوالات تھے، مہرین کے کان کے پاس ہو کہ فہد نے انتہائی دھیمی آواز سے بات کی
فہد: چلو باجی اب، کیا یار بور ہو گیا ہوں، یہ بڈھے لوگوں نے تو سوال کر کر کہ میرا سارا انٹرویو کر لیا، اتنا لمبا انٹرویو تو ملازمت کیلیے نہیں دیا جتنا انہوں نے میرا کر لیا۔
مہرین: بیٹا جی لڑکی دینی ہے انہوں نے، ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
فہد: باجی لڑکی تو دکھا دیں کم از کم
مہرین نے ہنستے ہنستے فہد کو آنکھیں نکال کہ جواب دیا
مہرین: بہت خوبصورت ہے آپکی ہونیوالی بیوی، پڑھی لکھی ہے سگھڑ ہے، اور سب سے بڑھ کہ بہت معصوم ہے، تمہاری لاٹری لگ گئی ہے فہد میاں
فہد: بس کرو باجی، اب ایسی بھی تعریفیں نہ کرو، یہ بتائیں کہ اسکو ملوائیں گے مجھ سے یا نہیں؟
مہرین: سوچنا بھی نہ کہ تمہیں اس سے ملوائیں گے ہاں میں نے تمہاری ہونیوالی ساس سے سفارش تو کی ہے کہ اگر دور سے تمہیں دکھا دیں، وہ بھی ابھی مانی نہیں ہیں، یہ لوگ اکٹھے رہتے ہیں اسلیے ایسی باریکیوں کا بہت خیال رکھتے ہیں، کل کلاں کو کوئی طعنہ نہ مار دے، سمجھا کرو
انہی باتوں کے دوران کھانا لگ گیا اور کھانے سے فارغ ہو کہ چائے کا دور شروع ہو گیا، اس گھر کی لسًی سے لے کی کھانا اور چائے، ہر چیز کی لذت بے مثال تھی، چائے تک آتے آتے مہرین تو سب کے نام اور رشتے جان چکی تھی اور ان سے ایسے پیش آ رہی تھی جیسے برسوں سے انکو جانتی ہو، مہرین اسقدر ان میں گھل مل چکی
تھی جیسے وہ انکے گھر کا ہی کوئی فرد ہو، چھوٹی بچیاں مہرین کے بچے کو بار بار آ کہ ایسے لے جارہی تھیں جیسے کوئی نایاب کھلونا مل گیا ہو، ہر زبان پہ بس مہرین کا نام تھا، فہد ایک بھولی بھٹکی گائے کی طرح بس باتوں پہ مسکرا مسکرا کہ شامل ہونے کی کوشش کر رہا تھا.
رخصت لینے کا وقت قریب آرہا تھا اسلیے مہرین فہد کے سسر اور ساس کے درمیان بیٹھی مدھم آواز میں باتیں کررہی تھی، یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ انکو کسی بات پہ آمادہ کر رہی ہو اور بات کو اختتامی سلسلے میں لا کہ فہد کی ساس نے مہرین کو کان میں کچھ کہہ کہ وہاں سے تیز قدموں سے نکل گئی، مہرین فہد کے پاس آ کہ بیٹھ گئی اور واپسی کیلیے کہنے لگی، فہد اپنی ہونیوالی منگیتر کی جھلک کیلیے ناامید اب بس وہاں سے نکلنا چاہ رہا تھا.
جب وہاں سے نکلنے کیلیے گھر کے ننھے خارجی راستے کیلیے بڑھ رہے تھے تو مہرین نے فہد کے کان میں کچھ کہا
مہرین: اوپر کھڑکی میں دیکھو
فہد نے مہرین کی بات پہ حیران ہو کہ چلتے چلتے کھڑکی پہ نظر ڈالی تو وہاں گلابی رنگ کے لباس میں ملبوس ایک لڑکی، جس کے نین نقش تیکھے اور رنگ مہرین سے بھی زیادہ چمکدار، سر پہ دوپٹہ اوڑھے نظریں جھکا کہ کھڑی تھی، جیسے فہد کی آنکھوں سے آنکھیں ملی وہ دانتوں میں دوپٹہ دبائے کھڑکی کی آڑ میں چھپ گئی اور چلتے چلتے وہ کھڑکی بند ہو گئی، دونوں بہن بھائی اس خاندان کے بچوں بڑوں اور بزرگوں کے گھیرے میں دروازے تک پہنچے تو گھر کا ہر فرد مہرین کی رخصت پہ افسردہ تھا۔ مہرین سب لوگوں سے گلے مل مل کہ دوبارہ واپس آنے کے وعدے کر رہی تھی، فہد کسی اجنبی کی طرح سب سے واجبی سا مل رہا تھا۔ سوائے فہد کی ساس اور سسر کے فہد کیلیے کسی کے دل میں گرم جوشی ایسے نہیں تھی جیسے مہرین کیلیے تھی، دہلیز پہ ایک لمبی الوداعی تقریب کے بعد وہی لڑکا جو انکو اسٹیشن سے لینے آیا تھا۔ انکو تانگے میں سوار کر کہ دوبارہ اسٹیشن کی طرف چل دیا اور ٹرین میں سوار کروا کہ وہ بھی وہاں سے واپس ہو لیا۔ اسٹیشن پہ پہنچ کی فہد نے واپسی کی ٹکٹیں لیں اور راستے کیلیے کچھ پانی وغیرہ کا بندو بست کر کہ آ کہ ٹرین میں سوار ہو گیا۔ ٹرین کے چلنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی، شام ڈھلنے والی تھی اور وہ ٹرین کے ڈبے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
مہرین: ہاں تو میرے لاڈلے؟ بتاؤ؟ کیسی لگی لڑکی؟
فہد: باجی
فہد نے ابھی اپنے منہ سے باجی کا لفظ ادا کیا ہی تھا کہ مہرین نے اسے ٹوک دیا اور لہکتے انداز میں بات کہی
مہرین: باجی باجی گھر جا کہ کرنا۔ فی الحال ہم آپکی بیوی بننا چاہتے ہیں
فہد نے ہنس کہ اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارا اور آتی جاتی
عوام کو ایک نظر دیکھ کہ مہرین کو دیکھا
فہد: مہرین بیگم، تمہاری سوتن مجھے پسند آئی
مہرین قہقہہ مار کہ ہنسنے لگی
مہرین: پیاری ہے، شکر کرو کہ اسکی امی نے اپنے شوہر کو منا لیا، ورنہ اتنا لمبا سفر ضائع جاتا
فہد: بیگم، آپکی سوتن کرتی کیا ہے
مہرین: ویسے ہے تو وہ میری سوتن ہی تمہارے پیار کی اکلوتی مالکن تھی میں، اب آ جائے گی وہ تو نہ جانے تمہارا پیار مجھے مل سکے گا یا نہیں
فہد: مہرین تم آج حکم کرو تو یہ سب یہیں پہ ختم کر دوں گا، تمہاری ملکیت پہ کسی دوسری کو نہیں آنے دونگا
مہرین نے فہد کے بازو سے اپنا آپ ایسے چپکا لیا جیسے وہ گلے مل رہی ہو
مہرین: فہد حقیقت یہی ہے کہ ہماری محبت ادھوری رہ جائے گی، میں کسی اور کی ہو گئی، تم کسی اور کے ہو جاؤ گے, یہ ہونا ہی تھا اور ہو کہ رہے گا۔
جاری ہے
0 Comments