گرم بھائی بہن
قسط 16
ڈاکٹر سے دی گئی تاریخوں کے مطابق اب مہرین اپنے بچے کو پیدا کرنیوالی تھی، ڈیلیوری کے متوقع ایام میں
ایک رات مہرین کو حمل کی تکلیف شروع کو گئی اور وہ سمجھ گئے کہ اب بچہ پیدا ہونیوالا ہے۔ ہسپتال لے جانے پہ مہرین کو درد سے کراہتے ہوئے لیبر روم میں لے جایا گیا۔ فہد مہرین کی فکر میں باہر اپنی بہن کی خیریت کی دعائیں اور منتیں مانگ رہا تھا۔
مہرین اسکی کل کائنات زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنا بچہ پیدا کر رہی تھی، فہد اپنے جذبات کو بے قابو حالت میں اکیلا ہی قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا. فہد بیچینی کا شکار لیبر روم کے ارد گرد تیزی سے چکر
کاٹ رہا تھا کہ اچانک لیبر روم کے دروازے سے ایک نرس مسکراتی ہوئی باہر آ کہ فہد سے مخاطب ہوئی
نرس: پیشنٹ مہرین کے ساتھ آپ ہیں
فہد نے گھبرائے ہوئے انداز میں رو دینے والا منہ بنا کہ جی کہا
نرس: مبارک ہو آپکا بیٹا ہوا ہے
فہد: مہرین کیسی ہے
نرس: آپکی بیوی بالکل ٹھیک ہے اور بچہ بھی صحتمند ہے، کچھ دیر میں آپ سے ملوا دینگے
فہد کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں شکر کے کلمات تھے۔ فہد کیلیے یہ جذبات انتہائی نئے تھے۔ وہ سمجھ
نہیں پا رہا تھا کہ آخر یہ کیسا احساس ہے جو اس کو اندر اے اتنی خوشی دے رہا ہے کہ اسکے آنسو بہتے ہی جا رہے ہیں، وہیں کرسی پہ بیٹھے خود ہی رو کہ خود ہی اپنے آنسو پونچھنے لگا
کچھ دیر بعد کمبل میں لپٹا ایک چھوٹا ننھا سا بچہ نرس باہر لے کی آئی، فہد کا جسم ایک نئی حرارت محسوس کرتے ہوئے اسبچے کو دیکھ کہ روتے روتے ہنسنے لگا، اس بچے کو چوم کہ اس نے اپنی بہن کا دریافت کیا تو نرس نے کچھ دیر رکنے کا کہہ کہ بچہ واپس لے لیا
تقریباً ایک گھنٹے بعد نرس نے فہد کو بلایا
نرس: آجائیں اپنی بیوی سے مل لیں
فہد لرزت قدموں سے مہرین کو دیکھنے کیلیے اس کمرے کی طرف بڑھنے لگا، قرب سے بھرے ان لمحات کے بعد فہد اپنی بہن کو دوبارہ دیکھنے کیلیے بیتاب تھا، ہر قدم فہد کیلیے ہزار میل کے برابر ہو چکا تھا، نرس کے پیچھے پیچھےچلتے فہد ایک کمرے میں پہنچا جہاں مہرین اپنے بچے کو سینے پہ لٹائے اندر آتے فہد کا مسکرا کہ دیکھ رہی تھی، فہد مہرین کے چہرے پہ نئے پن کو دیکھ سکتا تھا، مہرین چہرے پہ ایک عجب سا نور تھا جس سے فہد کی آنکھیں چندھیا رہیں تھی، مہرین کے چہرے پہ نظریں گاڑھے فہد اسکے پاس آ کہ رو دیا، مہرین نے ہاتھ بڑھا کہ فہد کو پاس کیا اور فہد نے مہرین کا ماتھا اور گال چومے
فہد: باجی مبارک ہو
مہرین: تمہیں بھی، پاس کھڑی نرس نے جب اندازہ لگایا کہ یہ بہن بھائی ہیں تو اس نے اس بات کو بتا کہ ماحول کو ہنسی میں بدل دیا۔
مہرین اور فہد نئے آنے والے مہمان کو لے کہ گھر آ گئے، مہرین نے ایک صحتمند بچے کو نارمل ڈیلیوری سے پیدا کیا تھااس وجہ سے اسکی ریکوری قدرے تیزی سے ہو رہی تھی، مگر اسکے باوجود مہرین کے جسم پہ ڈیلیوری کی درد کے آثار اسقدر شدید تھے کہ اس سے فہد کے سہارے کے بنا اٹھنا بیٹھنا بھی محال تھا، بہر حال یہ سب فطری عمل تھا۔
مہرین کے شوہر کو بھی ڈیلیوری کے متوقعہ ایام کی خبر تھی اسلیے بچے کی پیدائش کے دوسرے دن جب مہرین اپنے بچے کے ساتھ گھر آچکی تھی مہرین کے شوہر کا ٹیلی فون آ گیا، بچے کی خوشخبری ملنے پہ فون کی دونوں جانب آبدیدہ میاں بیوی بہت خوش تھے، مہرین کے شوہر نے جلد آنے کے وعدے کے ساتھ فون بند کر دیا
مہرین اپنے بچے کو اپنا دودھ پلا رہی تھی اسلیے اب فہد کے سامنے اپنی بہن کا جسم لمحہ لمحہ عریاں ہوتا، نہ ہی فہد کو اس بات پہ کوئی عجیب احساس تھا اور نہ ہی مہرین اپنے بھائی سے پردہ کرنا چاہ رہی تھی. ڈیلیوری کے بعد کوئی بھی عورت سیکس کیطرف راغب نہیں ہوتی، یہ ایک امر ہے، مہرین کو فہد سے فی الحال کوئی جنسی طلب ہرگز نہیں تھی، فہد کو بھی اپنی بہن سے ایسی کوئی خواہش نہیں ہو رہی تھی وہ تو بس اپنی بہن کی خاطر میں کوئی کمی نہیں آنےںدینا چاہتا تھا، بھانجے کے آنے کی خوشی بھی تھی، فہد ہی اپنی بہن کی نرس کے طور پہ کام کر رہا تھا۔
پہلے دن سے لے کہ فہد مہرین کو دودھ پلاتا دیکھتا
آرہا تھا
مہرین اب ڈیلیوری کی کے بعد اپنے کام کاج کرنے لگ چکی تھی، فہد نے بھی دفتر جانا شروع کر دیا تھا، وہ دفتر سے واپس آتے ہی اپنے بھانجے کو اٹھا کہ پیار کرنے لگ جاتا، مہرین بھی اسے آتے ہی بچہ پکڑا کہ کسی نہ کسی نامکمل کام کو پورا کرتی جو بچے کیوجہ سے ادھورا رہ چکا ہوتا، زندگی بہت ہی خوبصورت انداز سے چلتی جا رہی تھی اور بچہ ایک ماہ کا ہو چکا تھا، ایک رات مہرین اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور فہد مہرین کے برابر بیٹھا اپنے بھانجے کے گالوں کو مہرین کی ایک چھاتی کو منہ میں لیے چوستے دیکھ رہا تھا، مہرین اور فہد بچے کی تیزی سے بڑھتی شرارتوں پہ ہنس رہے تھے۔ فہد کو بچے سے بہت زیادہ لگاؤ ہو چکا تھا تو اس نے پیار سے دودھ پیتے بچے کے گال چوم لیے جیسے ہی بچے کے گالوں کو چوما گیا تو بچہ جو اب کسی حد تک سیر ہو چکا تھا اپنی ماں کی چھاتی کے نپل کو منہ سے نکال کہ فہد کی طرف دیکھ کہ مسکرانے لگا آواز گوںگوں کی ایک بچگانہ سی آواز پیدا کرنے لگا، مہرین کے نپل سے دودھ کے قطرے نکلتے جا رہے تھے اور فہد اس بچے کے گال چوم کہ وہیں اس کی طرف دیکھ کہ باتیں کرنے رہا تھا۔
مہرین ان دونوں کو ایک دوسرے سے لاڈ کرتے دیکھ رہی تھی، مہرین کے نپلز سے نکلتے دودھ کےںقطرے فہد کی نظروں سے اجھل نہ تھے، فہد جو ایک طویل عرصہ سے مہرین کے جسم کا شیدا تھا،
اسکے نپل کو دیکھ رہا تھا، فہد نے مہرین کے نپل کیطرف دیکھ کہ مہرین کو دیکھ کہ دودھ چکھنے کی اجازت مانگی
فہد: باجی؟ دودھ پی کہ دیکھ لوں؟
مہرین ہنستے ہنستے بچے کے منہ میں دوبارہ نپل ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دینے لگی مگر بچہ فہد کیطرف اس اسقدر متوجہ تھا کہ وہ اب دودھ کو منہ میں لے ہی نہیں رہا تھا
مہرین: شرم کرو، میرا بچہ بھوکا رہ جائے گا
مہرین نے جب دیکھا کہ بچہ سیر ہو چکا ہے اور اب مزید دودھ نہیں پیئے گا تو اس نے اپنی چھاتی کو پکڑ کہ فہد کے منہ کے پاس کر دیا، فہد نے مہرین کی چھاتی کو منہ میں لے کہ اسطرح چوسا کہ اس کے منہ میں دودھ کہ ایک دھار پہنچ گئی، مہرین کی چھاتی کو پہلی بار اسقدر طاقت سے چوسا گیا تو اسکی آہ نکل گئی، اس نے فہد کے سر میں انگلیوں سے تھپڑ لگا دیا اور آرام سے چوسنے کا کہا، فہد نے ذرا آرام سے چوسنا شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں دودھ ختم ہو گیا جس کا اندازہ فہد سے پہلے مہرین کو ہو گیا، فہد نے ہنستے ہوئے منہ کو ہٹا لیا
مہرین: اب دو دو بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتی میں، یہ بچہ تو ابھی چھوٹا ہے لیکن تم کس چکر میں ہو لڑکے؟
فہد ہنستے ہوئے اپنی بہن کے سامنے بیٹھا ہو تھا تو مہرین نے اسکے چہرے پہ لگے دودھ کے کچھ قطروں کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا
فہد: پھیکا پھیکا ہے، مگر مزے کا ہے
مہرین: ہاں ہاں شہد ڈال کہ منہ میں لیا کرو اسے
مہرین نے اپنے نپل کو ہاتھ سے پکڑ کہ جواب دیا، تو فہد نے بڑھ کہ مہرین کے ننگی چھاتی کو چوم لیا
مہرین: بس بس بس اب دودھ ختم ہو گیا ہے، اب بس کرو
فہد: اس میں ہو گا ابھی فہد نے مہرین کی دوسری چھاتی پہ ہاتھ رکھ کہ جواب دیا
مہرین: اف ہو، بس کر جاؤ کیوں بچے کا حق مار رہے ہو؟
فہد بہت پر امید انداز سے مہرین کی طرف دیکھ رہا تھا اور مہرین کو فہد کی اس حرکت پہ ہنسی کے علاوہ کچھ نہیں آ رہا تھا اسلیے اس نے دوسری چھاتی کو بھی باہر نکال کہ فہد کے سامنے پیش کر دیا۔
مہرین کا بچہ جو اب سیر ہو چکا تھا وہ بہن بھائی کی اس محبت کے درمیان بار بار زیرِّوزن آ رہا تھا اسلیے مہرین نے بچے کو سائیڈ پہ لٹا کہ خود کو بیڈ کہ وزن
کے ساتھ ٹکا لیا اور ہنستے ہنستے فہد کو ڈانٹنے کا انداز میں دودھ پلانے کیلیے تیار ہو گئی، فہد اپنی بہن کا دودھ پینے کیلیے اسکے برابر آ گیا اور اسکی دوسری چھاتی کو منہ میں لے کہ چوسنے لگا، فہد کا دوسرا ہاتھ مہرین کی دوسری چھاتی پہ تھا اور وہ اس کے ساتھ جیسے کھیل رہا تھا، مہرین لیٹ کہ اب اپنے بھائی کو دودھ پلا رہی تھی اور چھت کو دیکھتے ہوئے انتہائی پرسکون انداز میں اس سے بات کر رہی تھی
مہرین: فہد جیسے تم نے میرا خیال رکھا ہے ویسے شائد میرا شوہر بھی نہ رکھ پاتا، مجھے پتہ بھی نہیں چلا اور دیکھو میرا بچہ اس دنیا میں آ گیا، تمہارا سہارا میرے لیے بہت بڑا سہارا ہے فہد، اگر تم نہ ہوتے تو شاید میں یہ بچہ پیدا کرتے کرتے مر جاتی
جیسے ہی مہرین نے یہ الفاظ اپنے منہ سے نکالے تو فہد نپل کو منہ سے نکال کہ مہرین کی طرف دیکھنے لگا اور بات کو کاٹ کہ بولنے لگا
فہد: باجی نہ بولیں ایسا، یہ کیا بات کہہ رہی ہیں؟ اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا؟ امی کے بعد آپکے ہی سہارے میں زندہ ہوں، اور میں نے جو بھی آپکے لیے کیا وہ سب میرا فرض تھا. آپ بس یہ دیکھ لیں کہ آپ کے بنا میں بھی کچھ نہیں
مہرین نے فہد کو اپنے ننگے سینے سے لگا لیا اور فہد مہرین کے گرد بانہیں پھیلا کہ جذبات کو قابو کرنے لگا
مہرین: میری جان ہو میرا سارا سرمایہ ہو تم، بس میں تو یہ سوچتی ہوں کہ جب تمہاری شادی ہو جائے گی تو میں اکیلی رہ جاونگی۔
فہد اس بات پہ جیسے تلملا گیا اور گردن اٹھا کہ مہرین کو جواب دے کہ دوبارہ چھاتیوں میں منہ دے کہ لیٹ گیا
فہد: باجی میں نے نہیں کرنی ابھی شادی آپ بار بار یہ بات نہ کیا کریں، فی الحال اس بات کو نہ چھیڑیں
مہرین: کب تک ایسے میرے سینے سے چپکے رہو گے، بچے نہ بنو اور اب شادی کیلیے اپنے آپ کو تیار کرو، ہمیشہ تو تمہیں اپنے ساتھ ایسے نہیں رکھ سکتی
فہد: باجی پلیز، میں فی الحال ایسا کچھ نہیں سوچنا چاہتا، جیسا بھی چل رہا ہے چلنے دو
مہرین کی چھاتیاں فہد کے ہونٹوں سے مس تھی اور فہد بار بار چوم چوم کہ مہرین کی بات سنتا جاتا اور جواب دیتا جا رہا تھا، مہرین کی جس چھاتی کو فہد نے چوستے چوستے چھوڑ دیا تھا اس سے دودھ کے قطرے ٹپکے تو فہد نے دوبارہ سے اسے منہ میں لے کہ چوسنا ںشروع کر دیا، مہرین کو فہد کے اس سنجیدہ موضوع پہ بچگانہ رویہ پہ غصہ آ رہا تھا
مہرین: مہرے بچے ہی بنے رہنا ساری زندگی، پتہ نہیں کب بڑے ہو گے تم؟ اتنا غیر سنجیدہ بھی نہیں ہونا چاہیے انسان کو جتنا تم ہو رہے ہو
فہد بنا جواب دئیے مہرین کا دودھ پیتا جا رہا تھا اور بس مسکرتا جا رہا تھا، فہد مہرین کی دوسری چھاتی کو مسل رہا تھا، جب فہد نے اس چھاتی کو بھی خالی کر دیا تو اٹھ کہ مہرین کے برابر آ گیا اور ہنس کہ مہرین کو جواب دیا
فہد: باہر تو آپ بڑے شوق سے مجھے اپنے شوہر کے طور پہ پیش کرتی ہیں، آپ سمجھیں کہ میری شادی آپ سے ہو گئی ہے
مہرین فہد کے لیے حقیقت میں شادی کو لے کہ پریشان تھی اور فہد کے اس بچگانہ رویے کو لے کہ دلبرداشتہ ہو گئی، اپنی چھاتیوں کو قمیض کے اندر کر کہ مہرین نے پریشان انداز میں فہد کو سمجھانا شروع کیا۔
مہرین: فہد بچے نہ بنو، میں اور تم پیار محبت میں جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب چاردیواری کے اندر تک ہو سکتا ہے، اور رہی بات شادی کی تو ایک نہ ایک دن تو تمہیں شادی کرنی ہیپڑے گی، میں ہمیشہ تمہیں اپنے اتنا قریب نہیں رکھ سکتی۔
فہد: باجی آپکو کیا لگتا ہے کہ میں شادی کی بات سے اسلیے کتراتا ہوں کہ میں آپ کے اتنا قریب ہوں؟
مہرین: نہیں فہد، میں جانتی ہوں
فہد: باجی فی الحال میں شادی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ جب مناسب وقت ہو گا آپ سے کہہ دونگا
فہد اور مہرین کے درمیان فہد کی شادی کو لے کہ بحث ہر روز ایک ناراض جملے کے ساتھ ختم ہوجاتی، فہد مہرین کو روز روز یہ سمجھا کہ تنگ آ چکا تھا کہ ابھی اسکے مالی حالات ٹھیک نہیں، مہرین بھی آئے دن اس بات کو چھیڑتی جس سے فہد اور اسکے درمیان ایک کشیدگی کی صورتحال بن چکی تھی، ایک بہن ہونے کے ناطے مہرین کی یہ فکرمندی بالکل جائز تھی اسلیے وہ فہد کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کرنے کیلیے کوششیں کر رہی تھی، فہد کو مہرین کا ایک بات ہی پہ اسقدر اسرار سمجھ نہیں آ رہا تھا، بعض اوقات وہ یہ بھی سوچنے لگ جاتا کہ شاید اسکی بہن کو اسکا اتنا قریب ہونا اب پسند نہیں اسلیے وہ اب مہرین سے خود کو فاصلے پہ رکھنے لگا، مگر ایسی بات ہرگز نہ تھی، مہرین حقیقت میں فہد کے لیے مخلص تھی، اور جہاں اخلاص ہوتا ہے وہاں دوسرے انسان کا حتمی فایدہ دیکھا جاتا ہے نہ کہ اپنا وقتی فائدہ، مہرین کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ فہد کو اپنا غلام بنائے رکھتی، اور فہد بھی بخوشی یہ غلامی کرتا کرتا وقت گزار دیتا لیکن نہ ہی مہرین کے دل میں فہد کیلیے کوئی میل تھی اور نہ ہی فہد کے دل میں اس خدمت گزاری کے بدلے کسی بھی قسم کے فائدے کا لالچ تھا۔ وہ دونوں تو ایک دوسرے کیلیے بڑھ چڑھ کہ قربانیاں دینے کو تیار تھے
بچہ اب دو ماہ کا ہو چکا تھا، مہرین فہد کو شادی پہ آمادہ کرنے پہ اس طور تلی ہو تھی کہ وہ فہد کی ناراضگی مول لینے کو بھی تیار تھی، فہد بھی آئے روز اس بات کا جواب دے دے کہ تنگ آ چکا تھا، اب وہ گھر آکہ بس بچے سے کھیلتا اور مہرین سے بس پوری پوری بات کر کہ معاملے کو خرابی کیطرف جانے سے روک رہا تھا، مہرین کو اندازہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو اس بات پہ کسی نہ کسی دن راضی کر لے گی لیکن فی الحال فہد مہرین فہد کے کسی حربے سے زیر نہیں ہو رہا تھا بلکہ الٹا وہ مہرین سے ہی دوری بنا کہ اس بات سے بچ رہا تھا، مہرین جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی تو جیسے مائیں بچوں سے لاڈ پیار میں باتیں کرتی ہیں،
مہرین بھی اپنے بچے سے باتیں کرتی کرتی فہد کی شادی کی باتیں کرنے لگ جاتی، فہد جواباً کچھ نہ کہتا بس خاموش ہو کہ مہرین کی باتیں برداشت کرتا، مہرین فہد کو اپنے سے ناراض بھی نہیں دیکھ پاتی تو کبھی کبھار خود ہی اسے رات کو گلے سے لگا لیتی اور سوتے ہوئے چوم لیتی، مگر فہد کی طرف سے اس بات پہ کوئی نرمی نہیں آرہی تھی اور فہد بھی اپنی ضد پہ قائم تھا
مہرین اور فہد کا رشتہ ایک ایسا انمول سا رشتہ بن چکا تھا جس کے لیے دونوں نے ہی بہت قربانیاں دیں تھی، وہ ایک طویل عرصے سے حد درجہ قرب میں رہ رہے تھے، اسکے باوجود وہ ایک دوسرے کیساتھ انتہائی عمل نہیں کر سکے اور ایک دوسرے سے سیکس نہ کرنے کے باوجود محبت میں ایک رتی بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ انکی محبت ہر روز بڑھتی ہی گئی
ایسے ہی دو ماہ سرد مہری میں گزارنے کے بعد فہد مہرین کے آگے بے بس ہو گیا اور بالآخر اس نے مہرین کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے، مہرین اپنے ساڑھے چار ماہ کے بچے کو سلا کہ فہد کے پاس آ چکی تھی، فہد کو ماتھے سو چوم کہ مہرین نے مسکرا کہ دیکھا
مہرین: کیوں خفا خفا رہتے ہو فہد؟ کتنا عرصہ رہ لو گے دور؟
فہد: نہیں باجی خفا تو نہیں ہوں، آپ کو کیوں ایسے لگا
مہرین: کیوں لگا؟ فہد میں بچی نہیں ہوں، تم میری اولاد تو نہیں ہو لیکن اولاد سے کم بھی نہیں ہو، تم مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتے
فہد: اولاد ہی ہوں آپکی، آپکا دودھ پیا ہے میں
مہرین اس بات پہ ہنس پڑی اور بڑھ کہ لیٹے ہوئے فہد کو اپنے قریب کر کہ پیٹ سے لگا کہ بانہوں سے کس لیا
مہرین: اولاد ہونے کا دعوی ہی ہے یا کوئی ثبوت بھی دو گے؟
فہد اپنی بہن کو بہت عقیدت سے پکڑ کہ اتنی لمبی سرد مہری کو ختم کرنا چاہتا تھا
فہد: باجی جان بھی مانگو تو دے دونگا
مہرین: نہیں جان نہیں چاہیے، بس میری بات مان لو اور شادی کیلیے ہاں کہہ دو
فہد: باجی شادی کیلیے ہاں کہہ دونگا لیکن بس ایک شرط پہ
مہرین کے چہرے پہ خوشی کی لہر ہی دوڑ گئی، اور تیزی سے فہد کا ماتھا چوم کہ شرط پوچھی
فہد: شادی میں ایک سال بعد ہی کرونگا، اگر کہیں بات پکی کرنی ہے تو کر دو
مہرین فہد کے اوپر لیٹ گئی اور خوشی سے فہد کے ماتھے اور گال چومنے لگی، ایک سال بعد ہی صحیح فہد شادی کیلیے مانا تو، یہ بات مہرین کا مان رکھنے کیلیے فہد نے بہت مشکل سے کہہ ڈالی، مگر مہرین کی خوشی کو دیکھتے ہوئے فہد بھی بہت خوش تھا
مہرین فہد کا شکریہ بھی ادا کرتی جا رہی تھی اور اپنے
ارمانوں کی ایک لمبی فہرست فہد کو سنا رہی تھی کی اسکی شادی پہ مہرین یہ کرے گی وہ کرے گی ایسے ناچے گی وغیرہ وغیرہ کافی دیر فہد سے ان خوش گپیوں کے بعد مہرین نے فہد کے ہونٹوں کو چوم لیا، فہد بھی اپنی بہن کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔
مہرین فہد کے اوپر جھک کہ اسکے زبان میں اپنی زبان ڈال کہ اپنے بھائی سے چسوا رہی تھی اور وہ دونوں بے قابو ہی کہ ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے جا رہے تھے، فہد کے ہاتھ مہرین کی چھاتیوں کو دبا رہے تھے، فہد اپنے ہاتھوں سے مہرین کی کمر کو بھی سہلاتا جا رہا تھا اور اور اس کِّسنگ کے دوران اچانک مہرین کا بچہ رو پڑا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ کہ بچے کی طرف دیکھنے لگے
مہرین: ایک بچے کو سنبھالتی ہوں تو دوسرا تنگ کرنے لگ جاتا ہے، اب اس کی بھی سن لوں
مہرین کے چہرے پہ مسرت اور خوشی کے تاثرات دیکھنے کے قابل تھے مگر دوسری جانب فہد مہرین سے جس طرح چوما چاٹی کر کہ اپنا لن تنا ہوا محسوس کر رہا تھا وہ فہد کیلیے تکلیف دہ تھا، فہد اندر ہی اندر یہ سوچنے لگا کہ جتنا مزہ اسے اپنی بہن کے ساتھ آتا ہے کیا اسے کسی دوسری عورت سے بھی یہ مزہ مل پائے گا یا وہ شادی کے بعد بھی اپنی بہن کے جسم سے کھیلنے کا موقع ڈھونڈتا رہے گا،
مہرین نے اپنے بچے کو پکڑ کہ اپنی ایک چھاتی اس کے منہ میں ڈال دیا اور خوشی میں ہنس ہنس کہ اپنے بھائی سے اسکی شادی کے بارے میں باتیں کرنے لگی مگر فہد ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا اور مہرین کی باتوں کا ہلکا پھلکا جواب دیتا رہا
مہرین کا بچہ دودھ پیتے پیتے دوبارہ سو گیا اور مہرین اپنے بھائی کو مخاطب کر کہ بولی
مہرین: ایک اولاد تو سو گئی، دوسری اولاد کا کیا ارادہ ہے
فہد: ہانجی سونا ہے اب باجی، ٹائم کافی ہو گیا ہے مہرین: دودھ پلاؤں؟
فہد دماغی طور پہ غیر حاضر تھا اسلیے وہ مہرین کا اشارہ نہ سمجھ سکا، اور ایک سنجیدہ انداز میں جواب
دیا
فہد: باجی اس ٹائم دل نہیں کر رہا، سوتے ہیں
مہرین: اچھا؟ پکا؟ کر لوں قمیض کے اندر؟
فہد کو جب اندازہ کو کہ اسکی بہن اپنی چھاتیوں کے دودھ پلانا چاہ رہی ہے تو اسکے چہرے پہ ہنسہ آگئی اور اس نے ہنس کہ جواب دیا
فہد: آپکی اولاد ہوں، اس دودھ پہ میرا حق بھی اتنا ہی ہے جتنا اس بچے کا ہے
مہرین ہنستے ہوئے کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی، اپنی دانتوں کا عیاں کرتی ہوئی مسکراہٹ دے کہ فہد کے برابر آ کہ لیٹ گئی اور اپنی دونوں چھاتیوں کو باہر نکال کہ لیٹ کہ فہد کی طرف کرٹ کر لی، فہد نے مہرین کے ہونٹوں کو چوم کہ مہرین کی چھاتیاں اپنے ہاتھوں کی گرفت سے مسل کہ ایک ایک کر کہ نپلز کو چوسا اور پھر ایک نپل کو چوسنے لگا اور اپنی بہن کے دودھ کو پینے لگا
فہد کا لن ٹائیٹ ہو چکا تھا، اور وہ اپنی بہن سے چپک کہ اس کی چھاتیاں چوس رہا تھا، مہرین کو بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کے بھائی کا لن تن چکا ہے
اس لیے اس نے اپنی ٹانگ فہد کے لن سے رگڑنی شروع کر دی، فہد بھی لن کو اپنی بہن کی ٹانگ میں گھسا گھسا کہ رگڑنے لگا اور چھاتیوں کو زور زور سے چوسنے لگا، مہرین اپنی نرم ٹانگ کو بڑی مہارت سے لن کو دبا رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں فہد مہرین کو بانہوں میں بھر کہ اپنے اندر سمونے لگا اور اسکا لن کچھ محنت کے بعد وہیں فارغ ہو گیا۔
مہرین کو جب اندازہ ہو گیا کہ اسکے بھائی کا اسکی ٹانگ کی نرمی سے فارغ ہو رہا ہے تو اس نے پیار سے اپنے بھائی کا ماتھا چوما اور اسے اپنے سینے سے لگا کہ وہیں سلانے لگی، فہد بہت پرسکون انداز میں اہنی بہن کے ساتھ چپک کہ سو گیا۔
جاری ہے
4 Comments
Story thek ja rhi ha bs sex na jaldi krwana isy or lamba krty Jana asy he romance ko bhra do reader ko Maza ayee ga is sy or story ki speed b bhraa do
ReplyDeleteNest episode
DeleteLooking for incest partner
ReplyDeleteCome and join me waiting for you on insta
Yours___822
Check your insta
Delete