ads

Garm Behn Bhai - Episode 15

گرم بھائی بہن 


قسط 15


فہد اس بات پہ سکون میں آ گیا اور مہرین کو گلے لگا کہ لیٹ گیا، فہد مہرین کے جسم میں اپنا چہرہ چھپا کہ کسی بچے کی طرح لیٹا ہوا تھا، اسکو جیسے سب سے زیادہ سکون ایسے ہی مہرین کے جسم میں اپنا منہ دے لینے سے مل رہا ہو۔

مہرین فہد کے اس بچگانہ انداز پہ مسکراتے ہوئے اس کے سر پہ ہاتھ رکھے اپنی تکلیف کو نظر انداز کر کہ لیٹی ہوئی تھی، نہ جانے فہد کی آنکھ کب لگ گئی اور وہ ایسے ہو مہرین کے جسم میں اپنا منہ دیے سو گیا۔ مہرین بھی فہد کی ساتھ سو گئی اور یہ رات ایک بہن بھائی کی محبت کے گواہ کے طور پہ جاگتی رہی 


کہتے ہیں کہ محبت رنگ، نسل، عمر، شہرت، مرتبہ، کچھ بھی نہیں دیکھتی، لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ محبت رشتہ بھی نہیں دیکھتی۔ محبت کرنیوالوں کو ایک دوسرے سے دور کر دینی والی یہ دنیا اپنے رسم و رواج کے حساب سے چلنا چاہتی ہے لیکن محبت کرنیوالے ان رسموں رواجوں کو کہاں خاطر میں لاتے ہیں؟ وہ تو بس محبت کر بیٹھتے ہیں اسکے بعد دنیا ٹکراتی ہے تو ٹکرا جائے ان کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی

 

فہد مہرین کی بغل میں منہدیے سویا پڑا تھا اور مہرین بھی اس کو آج کافی عرصے بعد ایسے سکون سے سوتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ مہرین کی دیکھ بھال میں لگا فہد نہ جانے کب سے اس نیند کو ترس رہا تھا جو اسے آج میسر ہوئی تھی۔ اسلیے ساری رات مہرین اپنی تکلیف کو نظرانداز کیے وہیں پہ فہد کو سلانے میں لگی رہی۔ مہرین کی نیند بھی اب اس پہ حاوی ہو چکی تھی اسلیے وہ بھی بالآخر سو گئی 

 

صبح کے وقت مرغ کی ککڑوں کڑوں کی آواز گلی میں سے کہیں دور سے آرہی تھی۔ دن کی روشنی پھیلتی جا رہی تھی۔ رات منہ چھپا کہ نہ جانے کہاں چلی گئی مہرین کی آنکھ کھلی تو فہد اسکی بغل میں منہ دے کہ کہ لیٹا ہوا تھا۔

مہرین کے جسم کا اگلا سارا حصہ ننگا تھا، کروٹ کے بدلنے کی وجہ سے شرٹ مہرین کے اپنے ہی وزن سے جسم کی نیچے اکٹھی ہو کہ دب چکی تھی۔۔ مہرین نے ہل کہ شرٹ نکالنے کی کوشش کی مگر اسے جلد ہی اندازہ کو گیا کہ ساری رات زیادہ نہ ہل پانے کی وجہ سے اس کا جسم اب فہد کی مدد کے بغیر نہیں ہل سکے گا۔ اسکا جسم تھکاوٹ کیوجہ سے درد کر رکا تھا, ذرا سا ہلنے پہ مہرین کی آہ نکل جاتی

 

فہد بہت گہری سانسیں لیتا ہوا سو رہا تھا، مہرین کو فہد پہ پیار کب نہیں آیا جو اب نہ آتا مگر اپنے جسم کی لاچاری سے مجبور وہ تو اپنا جسم بھی نہیں ڈھک پا رہی تھی۔ ایسی حالت مین فہد کو بڑھ کہ چومنا تو دور کی بات وہ بس اپنے ہاتھ سے فہد کو پیار کرتی جارہی تھی. مہرین کی ایک ٹانگ فہد کے لن سے ٹچ ہورہی تھی اور مہرین نے فہد کے تنے ہوئے لن کو اپنی ٹانگ کے ایک حصے سے لگتے ہوئے محسوس کیا تو دل ہی دل ہنسنے لگی اور کچھ دیر بعد اپنی ٹنگ کو فہد کے لن سے زور سے لگا دیا۔ نیند میں فہد اس بات سے انجان سویا پڑا تھا مہرین اس طرح ہی لیٹی لیٹی کچھ دیر بعد دوبارہ نیم غنودگی کی حالت میں چلی گئی اور اسکی آنکھ فہد کے اسکے گال پہ بوسے سے کھلی۔ مہرین نے اپنے بھائی کے چہرے کو مسکرا کہ دیکھا اور ہاتھ بڑھا کہ اسے اپنے چہرے کے پاس کیا اور اسکے گال چوم لیے فہد کا بازو مہرین کی چھاتیوں پہ تھا اور اس کا چہرہ مہرین کے چہرے کے پاس ابھی بوسے دے رہا تھا

 

فہد نے مہرین کی بڑی اور فربہ چھاتیوں کے احاطے کو دیکھا اور ہاتھ سے پیٹ کو سہلا کہ مہرین کے ہونیوالے بچے کو گڈ مارننگ کہہ کہ چوم لیا مہرین نے فہد کو اپنے سینے سے لگایا تو بالکل ننگی چھاتیاں فہد کے گالوں سے لگنے لگی 

 

 مہرین: ظالم بس کرو

 

فہد سمجھ گیا کہ مہرین باجی کو کوئی اور ہی مزہ آ رہا ہے اسلیے فہد ہنس کہ اٹھ گیا، جلدی جلدی مہرین کے وزن سے شرٹ کو کھینچ کی شرٹ کہ بٹن بند کرنے لگا اور دوبارہ سے ویسے ہی چھاتی پہ منہ رکھ کہ لیٹ گیا 

 

مہرین: آج مرغا صبح صبح پھر سے ککڑوں کر رہا تھا 

 

فہد اٹھ کہ ہنسنے لگا اور مہرین کی ہنسی بھی قابل دید تھی فہد نے اپنے تنے ہوئے لن کو ایک نظر دیکھ کہ اسے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی

 

فہد: باجی میں جوان ہوں۔ یہ تو ہر روز کا کام ہے۔ صبح صبح نہ جانے کیا ہو جاتا ہے اسے

 

مہرین: اسے خون چاہیے خون

 

فہد: ہاہاہا باجی، یہ کوئی ڈریکولا کا بچہ ہے جو اسے خون چا ہیے

 

دونوں ہنسنے لگے

 

مہرین: ایک بار اسکے منہ خون لگ گیا ناں تو پھر رک کہ دکھانا 

 

فہد: باجی فی الحال تو اسے خون کیلیے بہت ترسنا پڑے گا۔ شادی تک تو کچھ نہیں ہو سکتا

 

مہرین: شادی تک اسکا کوئی اور بندوبست کروا دوں؟

 

فہد: مہرین باجی آپ فی الحال اپنے بچے کی فکر کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہماری سب باتیں سن کہ اپنے باپ کو شکایت لگا دے

مہرین: نہیں لگاتا شکایت تم اب تیار ہو جاؤ دفتر سے لیٹ نہ ہو جانا 

 

مہرین اور فہد ایسے ہی گپ شپ لگاتے رہے اور فہد اپنے دفتر جانے کیلیے تیار ہونے لگا۔ مہرین نے فہد کیلیے ناشتہ تیار کیا. ناشتے کے دوران مہرین نے فہد سے رات اس کے نپلز سے خارج ہونے والے مادے کا دوبارہ ذکر کیا تو فہد نے آج ڈاکٹر سے چیک اپ کے دوران اس معاملے کو پوچھنے کا فیصلہ کیا، چیک کروانے کے بعد مہرین اور اسکے بچے کی صحت کا بھی پتہ چل گیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا کوئی مسلہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے مہرین کو بتایا کہ اسکی نارمل ڈیلیوری ہی ہو گی نپلز سے خارج ہونیوالا مادہ ایک فطری عمل کا نتیجہ تھا۔ اس میں بھی کوئی پریشانی والی بات نہیں تھی

 

جیسے جیسے ڈیلیوری کے دن نزدیک آ رہے تھے مہرین ذہنی دباو کا شکار ہوتی جا رہی تھی مگر فہد کا سہارا اسے کسی قدم ڈگمگانے نہیں دے رہا تھا۔ زچگی کی تکلیف کا خوف مہرین کو فہد سے مزید جوڑ رہا تھا۔ فہد ہی تو اس وقت مہرین کا حوصلہ بنا ہوا تھا اگر وہ نہ ہوتا تو نہ جانے مہرین کب کی حمل کی تکالیف سے ہی آدھی رہ چکی ہوتی مہرین کی طبیعت کبھی کبھی بہت خراب ہو جاتی اور فہد کو دفتر سے واپس اپنی بہن کو دیکھنے آنا پڑتا۔ فہد کو مہرین کا بہت ہی زیادہ خیال رکھنا پڑتا، مہرین نفسیاتی طور پہ بھی متوازن نہیں تھی اسلیے مختلف طرح کے وہم اسے پریشان کرتے۔

مہرین کے اعصاب اگر اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے تھے تو اسکی واحد وجہ فہد کی محبت ہی تھی، ورنہ جیسے مہرین کو اسکے شوہر نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا۔ ایسے میں کسی عورت کیلیے اپنے آپ کو سنبھال لینا ناممکن ہونے کے مترادف ہے

 

ڈاکٹر کا یہ کہنا تھا مہرین اور اسکا بچہ فی الحال توصحتمند نظر آرہے ہیں مگر کسی قسم کی لاپرواہی یا ذہنی دباؤ مہرین کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ فہد ڈاکٹر کی اس بات کو مہرین سے بھی زیادہ دل پہ لے گیا وہ مہرین پہ مختلف طرح کی پابندیاں لگا چکا تھا۔ جیسے کسی بھی سخت کام کو مہرین ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی مہرین کو واش روم کو اندر سے لاک کرنے تک کی اجازت نہیں تھی حتی کہ فہد یہاں تک محتاط ہو گیا کہ مہرین نے اگر نہانا بھی ہے تو وہ فہد کی غیر موجودگی میں یہ رسک بھی نہ لے, فہد اپنی بہن کے قدموں تلے ہاتھ دینے تک جاتا اور مہرین بھی اپنے بھائی کی ہر بات کو سر آنکھوں پہ رکھ کہ مانتی جا رہی تھی۔ 

 

ایک روز فہد اپنے دفتر سے چھٹی لے کہ گھر ہی تھا کیونکہ مہرین کی طبیعت ذرا ناساز محسوس ہو رہی تھی, مہرین کو کافی دنوں سے اپنا آپ بدبو دار اور گندا لگ رہا تھا۔ اسلیے آج فہد کی موجودگی میں وہ نیم گرم پانی سے واش روم میں نہا رہی تھی۔ دروازہ اندر سے لاک نہ کرنے کی وجہ سے ایک انچ جتنا کھلا ہوا تھا اور مہرین اندر بیٹھی اپنے جسم کو دھونے لگی فہد اٹیچ باتھ والے بیڈروم میں بیٹھا کسی کتاب کو پڑھ رہا تھا مگر اسکی ساری توجہ مہرین کی طرف تھی۔ حالانکہ مہرین فہد کی غیرموجودگی میں بھی اس رسک پہ ہوتی جتنا اسوقت نہاتے وقت واشروم میں تھی لیکن فہد کے دل کو نہ جانے کون سے وہم نے آ لیا تھا کہ وہ مہرین سے اپنی توجہ ایک لحظہ بھی منحرف نہیں کر پا رہا تھا۔ مہرین کو وہ ایسے نہاتے ہوئے تو نہیں دیکھنا چاہ رہا تھا اسی لیے فہد بار بار مہرین کو آواز دے کہ کسی نہ کسی بات کے بہانے بلا بلا کہ اسکی خیریت دریافت کرتا جا رہا تھا 

 

مہرین اند پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی کرسی نما چیز پہ نہا کہ جب اٹھنے لگی تو اس سے اٹھنا محال ہو گیا۔ کچھ کوششوں کے بعد مہرین کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اتنی نچلی سطح پہ بیٹھ تو گئی ہے مگر اسے یہاں سے اٹھنے کیلیے فہد کے سہارے کی ضرورت ہے۔

مہرین کو عجیب سے گھبراہٹ نے گھیرنا شروع کر دیا اور کچھ ہی لمحوں میں اس قدر گھبرا گئی کہ اس نے فہد کو آواز دے کہ مدد کے لیے بلا لیا فہد مہرین کی آواز سے گھبراہٹ کو سن کہ فوراً واش روم کی طرف لپکا اور واشروم کے اندر کا منظر دیکھ کہ اسکے تو رنگ اڑ گئے

 

مہرین گیلا بدن لیے اس نچلی سطح والی کرسی پہ بیٹھی ہوئی دیوار سے ٹیک لگا کہ اپنا آپ سنبھال رہی تھی۔ مہرین بمشکل اپنی گردن کو ہلا کہ فہد کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی، مہرین اس وقت مکمل طور پہ برہنہ اور گیلی فہد کے سامنے بے سدھ ہو۔رہی تھی۔ فہد بجلی کی تیزی سے مہرین کی طرف لپکا اور جلدی جلدی مہرین کو پیچھے سے ہو کہ اپنے سینے پہ ٹکا لیا اور گھبرائے انداز میں مہرین باجی مہرین باجی کرنےلگا۔ مہرین نے اپنا سارا وزن فہد پہ ڈال کہ سکون کا سانس لیا اور ذرا جسم کو سکون آنے پہ اپنی بانہیں فہد کے گلے میں ڈال دیں مہرین نے فہد کو اپنی حالت کے بہتر ہونے کا بتا کہ اسے باہر لے کہ جانے کا کہا اور فہد نے مہرین کو اپنی مضبوط اور طاقتور بانہوں سے بنا کسی ہچکولے کے اٹھا کہ بستر پہ لٹا دیا۔ فہد نے مہرین کو لٹا کہ تولیے سے اس کا جسم ڈھک دیا مگر اس سے پہلے والے دورانیے میں فہد اپنی بہن کی پھدی تک سارا جسم دیکھ کہ کسی اور ہی دنیا میں جا چکا تھا

 

مہرین کا سارا جسم دودھ سے بھی سفید تھا اور اسکی صاف پھدی گیلے ہونے کی وجہ سے چمک رہی تھی، مہرین کے سارے جسم پہ پانی کے قطرے ایسے لگ رہے تھے جیسے صبح صادق کے وقت کسی پھول پہ شبنم کے قطرے ہوتے ہیں, مہرین واشروم میں اٹھنے کی کوشش کے دوران اس زور آزمائی کیوجہ سے نڈھال ہو گئی تھی اس لیے ابھی تک وہ فہد کو زیادہ جواب دیے بنا بس اپنا آپ ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہی تھی

 

جیسے ہی فہد کو اندازہ ہو گیا کہ اب اسکی بہن کی طبیعت بہتر ہو رہی تو فہد نے جس تولیے سے مہرین کے جسم کو ڈھکا تھا اسی تولیے کی مدد سے مہرین کا جسم خشک کرنے لگا چہرہ، چھاتیاں، ٹانگیں اور ہاتھ پاؤں تک فہد نے خشک کر دیے اس خشک کرنے کے عمل کے دوران مہرین کا جسم کبھی کہیں سے ڈھک جاتا تو کبھ کہیں سے ننگا ہو جاتا۔ جب فہد مہرین کی چھاتیاں خشک کر رہا تھا تو ان کی نرمی کا مزہ فہد کو بہکا رہا تھا لیکن فہد یہ بات جانتا تھا کہ بہکنے کے لیے یہ مناسب وقت نہیں اسلیے جذبات کو قابو کر کہ بہن کے جسم کو خشک کرتا گیا 

 

مہرین نے فہد کو مسکرا کہ دیکھا اور آج پہلی بار اپنی پھدی کی زیارت کروا کہ مہرین کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا، مہرین نے طبیعت کے مکمل بحال ہونے پہ فہد سے تولیہ پکڑ کہ تولیے کو ٹانگو کے درمیان اور کچھ حصہ چھاتیوں پہ ڈال کہ پہلے سے بھی ظالم منظر فہد کو پیش کر دیا۔ مہرین نے فہد کو شکریہ کہا مگر فہد بس اسکی طبیعت کے علاوہ کسی اور چیز پہ بات نہیں کر رہا تھا۔ مہرین کے ساتھ ایسے لگنے جڑنے سے کپڑے تو فہد بھی بھگو بیٹھا تھا، مہرین فہد کی طرف کروٹ لے کہ وہیں پہ نڈھال ہو کہ لیٹی آنکھیں بند کر چکی تھی اور فہد مہرین کے جسم کا سائیڈ پوز دیکھ کہ اپنے دل کی دھڑکن کو بے قابو ہوتا محسوس کر رہا تھا۔ مہرین نے فہد کے ہاتھ کو پکڑ کہ ایسے پرسکون تھی جیسے اسکے بھائی کے ہاتھ میں جادو ہے جو اسکو ابھی ٹھیک کر دے گا 

 

مہرین فہد کے سامنے اپنی گانڈ کی گولائی کو تولیے کی مدد سے چھپا کہ لیٹی ہوئی تھی، مہرین کی چھاتیاں پیٹ میں بچہ ہونے کی وجہ سے پیٹ سے مل رہی تھیں۔ مہرین کی ٹانگوں کو فہد بس تکتا ہی جا رہا تھا۔ مہرین کے جسم کی بناوٹ شراب کی بوتل جیسی تھی اس شراب کا نشہ فہد اپنی آنکھوں پہ چڑھتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ فہد بہکنا نہیں چاہتا تھا اسلیے اس نے وہاں سے اٹھنے کا ارادہ کیا اور جیسے ہی اٹھنے لگا تو مہرین کے ہاتھوں کی گرفت نے اس روک لیا، فہد اپنے جذبات مہرین پہ کھولنا نہیں چاہ رہا تھا اسلیے اس نے مہرین کے ہاتھوں کی گرفت کو ہلکے سے زور سے چھڑوا لیا اور اپنی نظروں کو کوستا ہوا وہاں سے اٹھ کہ دوسرے کمرے کا رخ کر لیا۔ مگر اس خوبصورت جسم کو اپنی یاد داشت سے کیسے نکالتا جو کہ ہمیشہ کیلئے اسکے ذہن میں نقش ہو چکے تھے

 

فہد اپنی سوئی ہوئی برہنہ بہن کے کمرے کو کچھ وقفے کے بعد دیکھ لیتا اور مہرین کو سوتا دیکھ کہ وہاں سے چلا جاتا۔ کافی وقفے بعد جب فہد واپس آیا تو مہرین بستر پہ بیٹھی اپنا ایک ٹراؤزر ٹانگوں پہ چڑھا رہی تھی اور جب فہد نے جاگتی ہوئی مہرین کو کپڑے زیب تن کرتے دیکھا تو جھجھک کہ واپسی کیلیے پلٹنے لگا تو فوراً مہرین نے اسے آواز دے کہ واپس بلا لیا

 

مہرین: آ جاو فہد کہاں جا رہے ہو

 

 فہد نظریں چرا کہ اندر آ گیا 

 

فہد: کہیں نہیں یہیں بس چت تک جا رہا تھا

 

مہرین اسوقت پاجامہ اپنی ٹانگوں پہ چڑھا چکی تھی اور اپنا ننگا دھڑ لیے شرٹ کو فہد کی طرف پھینک دیا۔فہد نے شرٹ کو پکڑ کہ مرین کی طرف دیکھا تو مہرین بازو اوپر کر کہ ایسے بیٹھی تھی جیسے ایک چھوٹا سا بچہ عید پہ اپنے کسی بڑے سے کپڑے پہنائے جانے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ فہد نے شرٹ کو الٹ پلٹ کہ سیدھا کیا اور مہرین کے برابر آ کہ بیٹھ گیا

 

فہد: باجی آپکو جتنا منع کروں اتنا ہی آپ نے لاپرواہی کرنی ہوتی ہے 

 

مہرین: اونہوں فہد اب نہانے پہ بھی پابندی لگا دو میرے

 

فہد مہرین ک سامنے بیٹھا ایک ایک کر کہ بازو شعٹ میں ڈال چکا تھا

 

فہد: نہانے پہ پابندی نہیں ہے باجی، اندر آپ سے نہیں اٹھا جا رہ تھا تو زور آزمائی کی کیا ضرورت تھی؟ 

 

مہرین قمیض کے گلے میں سے سر نکال کہ فہد کے سامنے شرمندہ منہ بنا کہ چپ تھی۔ اور فہد نے قمیض کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کہ نیچے تک کرتے کرتے چھاتیوں اور پیٹ کو ڈھک دیا اور مہرین کے جسم پہ قمیض کو آگے پیچھے سے ایڈجسٹ کرکہ مہرین کے سامنے محتسبِّ اعلیٰ بن کی بیٹھ گیا 

 

فہد: آپ کو اپنی فکر نہیں ہے۔ کم سے کم اس کی فکر ہی کر لیں

 فہد نے مہرین کے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ یہ بات کی 

 

مہرین: اچھا اب ہو گئی غلطی، آئندہ احتیاط کرونگی

 

فہد: اب طبیعت ٹھیک ہے ناں؟

 

مہرین: ہاں بالکل ٹھیک ہوں اب تو

 

فہد: شکر ہے۔ ورنہ اسوقت آپ کے چہرے کی رنگت دیکھ کہ میرا دل گھبرا رہا تھا

 

مہرین: صرف رنگت دیکھ کہ یا؟ 

 

فہد: باجی شرم کریں، آج آپکی اس حرکت کیوجہ سے میرا بہت دماغ خراب ہے

 

مہرین: سب کچھ دیکھ کہ کسی کا بھی دماغ خراب کو سکتا ہے

 

مہرین شرارتی انداز ہنس ینس کہ فہد سے ذومعنی باتیں کر رہی تھی اور فہد بات کو بس صحت کے حوالے سے ہی کرنا چاہ رہا تھا لیکن مہرین کہاں باز آنیوالی تھی

 

فہد: سب کچھ بھی مجبوری میں دیکھنا پڑا۔ آپ سے اسوقت کیا کہتا؟ باجی پہلے کپڑے پہنو پھر اندر آونگا؟ آپ تو اسوقت دیوار کے سہارے بیٹھی اٹھنے کے بھی قابل نہیں تھی

 

مہرین: تم صرف میرے بھائی نہیں ہو بلکہ میری سہیلی بھی ہو۔ میزے ڈاکٹر بھی اور کبھی کبھی میری ساس ہی بن جاتے ہو۔ کتنا ڈنٹتے ہو مجھے.

 مہرین نے فہد کو گالوں سے چوما اور پھر ہونٹوں سے چوم کہ جواب دیا

 

مہرین: مگر جذبات میں کوئی فرق نہیں۔ تم میرے لیے سب کچھ ہو فہد

 

فہد نے مہرین کو بانہوں میں بھر کہ سر سے چوم لیا

 

فہد: اور باجی آپ میرے لیے سب کچھ ہیں۔ بس آپ اپنا خیال یہ سوچ کہ رکھا کریں کہ میرا آپکا علاوہ کوئی نہیں ہے 

 ماحول بہت جذباتی ہو گیا اور مہرین کو فہد کی اس بات سے واقعی اپنی غلطی کا احساس ہوا. دن گزرتے گئے اور فہد مہرین سے بے لباس حالت میں بھی نہیں شرماتا تھا۔ یہ انکی مجبوری تھی یا ایک دوسرے کیلیے محبت مگر انکے درمیان قرب کسی اور ہی منزل پہ جا پہنچا تھا



جاری ہے

 



Post a Comment

1 Comments