گرم بھائی بہن
قسط 14
مہرین یہ سب شرارت میں کر رہی تھی اور فہد کو اس بات پہ شرمندگی کے ساتھ غصہ بھی آ رہا تھا۔ پاس کھڑی سیلز سٹاف نے حقوق نسواں کی خلاف ورزی ہوتے دیکھی تو فہد کو ایک ظالم اور جابر شوہر تصور کر کہ تیور بدل کہ فہد کو سمجھانے کیلیے الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ مہرین بیچ میں دوبارہ سے ٹپک کہ سیلز سٹاف کی بات کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا
مہرین: آپ غصہ نہ کریں فہد آج سے جیسا آپ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا، آئیں آنیوالے بے بی کی شاپنگ کریں
فہد غصے میں لال پیلا ایک پنگ پانگ بال کی طرح ان عورتوں کی باتیں سن کہ مہرین کی گرفت میں بازو دئیے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ سیلز سٹاف کو شکریہ ادا کر کہ مہرین مسکراتی آگے جا چکی تھی
فہد: باجی بہت ذلیل کر رہیں ہیں آپ آج مجھے
مہرین: فہد اگر ایک بار اور مجھے باجی کہا نا تو
فہد: او کے اوکے مہرین بیگم یہاں سے خریداری کر کہ گھر چلو تو آج خبر لیتا ہوں
مہرین فہد کے اس مجبوری کے عالم میں ہتھیار ڈالنے پہ ہنس دی۔
مہرین: جو حکم میرے سرتاج
فہد نے مہرین کے بازو پہ ایک چٹکی سزا کے طور پہ کاٹ کہ مہرین کی چئخ نکلوا دی اور خود ہی وہاں سے مسل کہ درد کو کم بھی کرنے لگا
کافی سارا سامان خریدا جا چکا تھا اور فہد اب مہرین کو نام لے کہ ہی مخاطب کر رہا تھا، مہرین بھی اس بات پہ خوش ہو ہو کہ بیوی بننے کی اداکاری کر رہی تھی
اچانک مہرین نے ایک سیکشن پہ ٹرالی کو روک کہ ویاں پڑی چیزوں کا معائنہ شروع کر دیا اور فہد اب اس طویل خریداری سے تنگ آ کہ مہرین کو وہاں سے نکلنے کا بار بار کہہ رہا تھا, مہرین نے ایک شرٹ نما کپڑا فہد کو دکھایا ,فہد نے اسے دیکھ کہ مہرین سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو مہرین نے اس بتایا
مہرین: جب بچے کو دودھ پلانا ہو تو رات کو یہ پہن کہ سویا جا سکتا ہے, اس سے بار بار قمیض اٹھانے کی کوفت نہیں ہوتی، بس اس حصے کو ذرا سا ہٹایا اور ایک دودھ باہر اور جب دوسری سائیڈ سے پلانا تو دوسرا نکالا جا سکتا ہے
فہد نے اس پیکنگ کو بغور دیکھ کہ ٹرالی میں رکھ لیا اور وہ اس وعدے کیساتھ مہرین کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو کہ ایک دو دن بعد مہرین کو دوبارہ یہاں شاپنگ کیلیے لائے گا. مہرین اور فہد دوکان سے کافی اچھی رقم کی شاپنگ کر کہ گھر آ گئے۔
مہرین جب بھی فہد کے ساتھ کہیں باہر جاتی تو وہ فہد کو اکثر اپنے شوہر کے طور پہ متعارف کروا دیا کرتی تھی، فہد اس بات پہ کافی شرما جاتا مگر اسکے شرمانے سے مہرین کا حوصلہ مزید بلند ہو جاتا۔ مہرین کے اس رویے کے پیچھے شاید اپنے شوہر کی کمی کا احساس تھا جو کہ فہد کے ساتھ موجود ہونے سے اور بھی بڑھ جاتا. فہد مہرین کی اس طرح کی شرارتوں کا عادی ہو گیا تھا اسلیے اب وہ بھی ایسے کسی تعارف پہ پورا شوہر ہونے کی اداکاری کر کہ مہرین کو بیگم کہہ کہ مخاطب کرتا، مہرین کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا
مہرین اب فہد کی شادی کے پیچھے پڑ چکی تھی اور وہ ہر روز فہد کو کسی نہ کسی بات پہ شادی کرنے کا کہتی مگر فہد ہر بار اس بات سے چڑ جاتا، فہد کے پاس شادی نہ کرنے کا ایک بہت مناسب بہانہ جو ہر بار مہرین کو سننا پڑتا کہ ابھی میرے پاس اپنا گھر نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ میرے مالی حالات بہتر ہونے میں کچھ سال لگ جائیں گے
مہرین پریگنیبسی کی وجہ سے اپنی صفائی ستھرائی سے بھی قاصر ہو جاتی مگر فہد اس معاملے میں بھی مہرین کی خدمت کرنے میں نہ شرماتا، ایک روز فہد مہرین کے پاؤں کے ناخن تراش رہا تھا اور مہرین خوشگوار موڈ میں بستر پہ لیٹی اپنے بھائی کو شادی کے موضوع پہ سمجھا رہی تھی، مہرین کے خوبصورت پرگوشت اور سفید پاوں فہد کو بہت دلکش لگ رہے تھے اور اپنا منہ پاس کر کہ ایسے پاوں کے ناخن تراش رہا تھا جیسے وہ ان کو ابھی چوم ہی لیگا
مہرین: فہد, کب تک ایسے میری غلامی کرتے رہو گے؟
فہد: باجی جب تک زندہ ہوں تب تک
مہرین: فہد دیکھو تم شادی کر لو گے تو جیسے میری دیکھ بھال کر رہے ہو ایسے ہی اپنی بیوی کی بھی کرنا اور اگر تمہاری شادی ہو جائے گی تو تمہاری بیوی کا ساتھ میرے لیے مددگار ثابت ہو گا
فہد: باجی میں نے آپکو بتایا ہے کہ ابھی مجھ پہ بہت قرضے ہیں، ان سے آزاد ہو جاؤں۔ پھر اپنا گھر لے کہ فوراً شادی ہی کرون گا
مہرین: واہ واہ فہد، ایسے تو بوڑھے ہو کہ شادی کرو گے اور جب تک تمہاری دولہن تمہاری بہو لگے گی
فہد: باجی کر لون گا شادی آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہیں، ابھی میری عمر ہی کیا ہے 22 سال کا ہوں صرف ابھی تو بہت کچھ کرنا ہے, آپ تو بچے کو ابھی سے ذمہ داریوں میں ڈالنا چاہتی ہیں
مہرین: ہاں ہاں ہاں ۔۔۔ بچہ؟ بچے کا اصلی روپ میں نے دیکھا ہوا ہے
مہرین کے لہجے میں شرارت تھی اور فہد بھی اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ مہرین کا اشارہ کس طرف ہے۔ وہ ہنستے ہوئے مہرین کے پاؤں کے ناخن تراشتا جا رہا تھا
فہد: ہاں تو کیا باجی بچہ ہی تو ہوں
مہرین: بچے کا اتنا بڑا ہے
فہد آنکھیں پھاڑ کہ مہرین کی طرف دانت نکالتا دیکھنے لگا
فہد: باجی؟ بس کریں
مہرین بھی ہنسی نہ روک سکتے ہوئے بول پڑی
مہرین: ہاں تو اور کیا۔ اب قابل تعریف چیز کی قدر کرنی چاہیئے
فہد: باجی قسم سے آپ بہت ہی
مہرین: بیغیرت انسان، کیا بہت ہی؟
فہد: وہی جو آپ نے مجھے کہا
دونوں کے چہرے اس بے شرم گفتگو کی وجہ سے دانت ننگے کر دینے والی ہنسی تھی، مہرین نے ایک ٹانگ محتاط انداز میں فہد کو ماری
مہرین: ہاں بڑا ہے تمہارا جاؤ کر لو جو کرنا ہے، میں تو کہوں گی
فہد: اچھا بس کریں باجی
مہرین: اچھا ایک بات بتاو مجھے سچ سچ
فہد: جی باجی
مہرین: کسی کے ساتھ سیکس کیا ہے کبھی؟
فہد اور مہرین لگاتار مسکراتے جاتے بات کر رہے تھے۔ اس بات پہ فہد شرما گیا اور مہرین نے بہت ہی اطمینان کے ساتھ اپنا سوال دوہرایا
فہد: نہیں باجی۔۔۔ آپکو پتہ ہی ہے سب کچھ
مہرین: ہائے افسوس!!!! کیا یہ قربِّ قیامت کی نشابی نہیں کہ اتنا صحتمند جوان کسی لڑکی کی نظر میں ابھی تک کیوں نہیں آیا؟
فہد اس بات پہ بس ہنتا جا رہا تھا
مہرین: اچھا یہ بتاؤ کہ ہاتھ کا استعمال کرتے ہو؟
فہد: باجی یار بس کریں میں اٹھ کہ چلا جاؤں گا
مہرین: جاکہ تو دکھاو۔ ٹانگیں نہ توڑ دوں تمہاری؟ بتاو ناں شرما کیوں رہے ہو یار میں نے تم سے کچھ چھپایا ہے
مہرین نے یہ بات اپنے پیٹ اور چھاتیوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی جیسے کہ وہ فہد کو اپنی پرانی رومانس سے لمحات کو یاد کروا رہی ہو۔ مگر مہرین یہ سب کسی شرارت کے مقصد سے کر رہی تھی نہ کہ بہکانے کے مقصد سے فہد مہرین کی اس حرکت پہ بہت نروس ہو رہا تھا اور مہرین نے دوسرے انداز میں سوال دہرایا
مہرین: یار بتاو بھی۔ تم ہاتھ سے مرغا ٹھنڈا کر لیتے ہو
فہد: باجی بچپن میں کیا تھا لیکن اسکے بعد زندگی میں ایسے ایسے حالات دیکھ لیے اور اسطرح کے کاموں پہ زیادہ دھیان ہی نہیں دے سکا
مہرین: جب تمہاری شادی ہو گی تو میں بہت ناچون گی، بہت ارمان ہین اور تم ہو کہ مان ہی نہیں رہے
فہد: باجی مان جاوں گا لیکن آپ اپنے اس بچے کو تو پیدا کر لیں پہلے اسکے بعد دیکھ لیں گے
مہرین: تمہاری شادی کی تیاریاں کرنے میں کتنا مزا آئے گا۔ تمہاری دولہن کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کہ سہاگ رات پہ تمہارے سامنے بٹھاونگی
فہد: اور پھر وہاں سے چلی بھی جاونگی, یہ بھی کہیں نا ساتھ
مہرین: ہاں تو میں نے کونسا سارا کچھ دیکھنا ہے وہ تو تم مجھے بعد میں بتا دینا ساری باتیں مہرین یہ بات کہتے ہوئے بچگانہ انداز میں فہد کی طرف کروٹ کر کہ لیٹ گئی اور اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا
فہد: ہاں جی بتا دونگا اچھی طرح بتاونگا آپکو ایک بار شادی تو ہو لینے دیں
مہرین: تم اس کے ہونٹ چومنا۔ اسکو پیار کرنا اسکو اپنی بانہوں میں بھرنا اف کتنی خوش قسمت ہو گی ہو جو تمہارے ساتھ رات بھر پیار کرے گی
فہد کو یہ باتین کہتے کہتے مہرین اسکے چہرے پہ ہاتھ اور انگلیوں سے ہونٹوں کو پیار سے مس کر رہی تھی اور فہد اپنی بہن کی باتوں کو سن کہ بس مسکرا کہ اسکے ہاتھ چوم رہا تھا
مہرین: پتہ ہے ناں کہ سہاگ رات پہ کیا کیا کرتے ہیں؟
فہد: ہاں جی باجی سب پتہ ہے باقی جب شادی کے دن قریب آ جائیں گے تو آپ سے ایک کلاس لے لوں گا
مہرین: کلاس تو تمہیں دے دوں گی لیکن اسکے بدلے میں مجھے کیا ملے گا
فہد: ایک بھتیجا یا بھتیجی، یا ہو سکتا ہے دونوں ایک ساتھ
دونوں اس بات پہ کھلکھلا کہ ہنس پڑے اور مہرین نے فہد کے ہونٹ چوم لیے فہد نے بھی مہرین کے ہونٹ چوم لیے مہرین فہد کے چہرے کو ہونٹوں سمیت ہر جگہ سے چومتی جا رہی تھی اور فہد اپنی بہن کے جذبات کو دیکھ کہ آنکھیں بند کیے اس کے نرم ہونٹوں کا اپنے چہرے پہ گیلے پن کا مزہ لے رہا تھا
مہرین: شوہر ہو تو تمہارے جیسا
فہد: بیوی ہو تو آپ جیسی دونوں ہنستے ہنستے ایک دوسرے کو چومنے لگے اچانک فہد نے محسوس کیا کہ مہرین باجی کی چھاتیوں کا اوپری حصہ سے گیلا پن کا احساس ہو رہا ہے تو اس نے فورا مہرین کو اسکے بارے میں پوچھا مہرین بھی اس گیلے پن سے انجان ہاتھ لگا کہ اس خارج ہو رہے مادے کو انگلیوں کی پوروں سے محسوس کرتے ہوئے فہد کی طرف حیرانی سے اپنی لاعلمی کا اعلان کر دیا
مہرین: یہ کیا ہے؟
فہد نے اس بات پہ جھجھک کہ ہاتھ بڑھا کہ پیچھے کر لیا وہ بھی اس گیلے پن کو انگلیوں سے محسوس کرنے لگا تھا، فہد کے رک جانے پہ مہرین نے اسے کہا
مہرین: دیکھو تو, یہ کیوں ہے اور ابھی سے دودھ؟ کیا یہ دودھ ہے فہد؟
فہد بھی حیرانی سے مہرین کی صحت کیلیے فکر مند اپنی انگلیوں سے اس گیلے پن کو چھو کہ دیکھنے لگا
مہرین: دھیان سے دیکھو تو فہد
مہرین نے یہ بات کہہ اپنی شرٹ کے بٹن کھول کہ اپنی چھاتیوں کو باہر نکال لیا اور انگلیوں سے اس گیلے مادہ کو دیکھنے لگی مہرین کی گوری گوری اور فربہ چھاتیاں فہد کے سامنے نپلز سے گیلی ایک مادہ کے خارج ہونے سے گیلی تھی, فہد نے انگلی سے مہرین کے نپل کے مادہ کو اپنی انگلی پہ لگا کہ سونگھا
مہرین: یہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے بھی دودھ آ جاتا ہے؟
فہد: پتہ نہیں باجی
مہرین نے اپنی ایک چھاتی کو دیکھتے ہوئے نپل کے پاس سے دبایا تو تھوڑا سا اور مادہ نکلا اور دوبارہ دبانے پہ مزید مادہ خارج نہ ہو سکا۔ فہد نے چھاتی کے آس پاس معائنہ کرتے ہوئے بغور سب کچھ دیکھا اور کسی قسم کی کوئی غیر معمولی بات کے نہ ہونے پہ چھاتیوں کو پکڑ کہ ہلکا سا دبایا اور سوالیہ نظروں سے مہرین کو دیکھا
فہد: تکلیف تو نہیں ہوئی؟
مہرین: نہیں۔۔ لیکن مزہ بہت آیا دوبارہ کرنا ذرا
مہرین بات کہتے کہتے اس مزاح پہ ہنسی نہ روک سکی اور کھلکھلا کہ ہنس پڑی فہد شرمندہ سا ہو گیا اور چھاتیوں کو اپنی اس طفل طبی والی گرفت سے آزاد کر کہ دوسری طرف منہ کر کے سیدھا ہو کہ لیٹ گیا۔ مہرین بس ہنستی ہی جا رہی تھی اور اس کے اس طرح ہنسے سے اسکی چھاتیاں کسی ربڑ کی گیندوں کی طرح چھلک رہی تھی
مہرین: اچھا اچھا سوری ,مذاق کر رہی تھی, کیا ہے یہ گیلا گیلا مادہ؟
فہد مہرین کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا اور بس سیدھا لیٹا اپنی بہن کی ننگی چھاتیوں سے بے نیاز ہو کہ بس شرمندہ اور خاموش تھا
مہرین جو کہ اب اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتے کرتے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ آہ اؤُئی بھی کر رہی تھی, فہد کو اپنی طرف کھینچتی جا رہی تھی مگر فہد اسکی طرف مڑ ہی نہیں رہا تھا
مہرین: اچھا کیا ہو گیا اب؟ میں کس سے پوچھوں یہ سب فہد؟ تمہارے علاوہ کون ہے میرا؟
مہرین کے لہجے میں اب سنجیدگی آ چکی تھی۔ فہد نے بھی سنجیدہ چہرے سے مہرین کے چہرے کو دیکھا، مہرین کی ننگی چھاتیاں ابھی بھی ویسے ہی تھی ایک لمحے کے وقفے کے بعد مہرین دوبارہ بولی
مہرین: بتاو فہد۔ نہ امی ہیں جو اس موقع پہ مجھے یہ سب بتاتی۔ نہ میری ساس ہے جس سے یہ پوچھ لیتی۔ اور میرا شوہر؟ اسکی تو بات ہی چھوڑ دو میرے ساتھ مزے کر کہ اس بچےکو میرے پیٹ میں چھوڑ کہ اب نجانےکس کے ساتھ منہ کالا کر رہا ہوگا۔
فہد اس تلخ بات پہ مہرین کی طرف کروٹ لے کہ لیٹ گیا, اور مہرین کی چھاتیوں کو شرٹ کے پہلو سے ڈھکنے لگا۔ مہرین کی چھاتیاں علامتی طور پہ صرف نپلز والے حصوں سے ڈھکنے کے بعد بھی ننگی چھاتیاں فہد کی آنکھوں کے سامنے تھی، مگر فہد ان ننگی چھاتیوں کو ٹکٹکی باندھ کہ نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ وہ تو اپنی بہن کے چہرے کیطرف متوجہ ہو چکا تھا
مہرین: بچوں کی طرح برتاو کیوں کرنے لگ جاتے ہو تم؟ کیا ہوا گر ذرا مذاق کر لیا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ امی نے جو دو بچے پیدا کیے ہیں ناں ان کی روحیں بدل گئی ہیں۔ لڑکی والی روح غلطی سے تم میں آ گئی اور لڑکے والی مجھ میں آ گئی
فہد نے نظریں شرمندگی سے جھکائیں تو مہرین کی چھاتیاں اسکی نظروں میں آگئی تو دوبارہ وہاں سے نظر کو مہرین کی گردن پہ لے آیا، اس میں مہرین سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی
مہرین: تم تو ایسے شرما رہے ہو جیسے پہلی بار میری چھاتیاں دیکھی ہیں۔ بچپن سے لے کہ آج تک جتنا تم ان سے کھیلے ہو ناں اتنا تو میرا شوہر بھی ان کو چھو نہیں پایا
فہد ابھی بھی چپ تھا اور مہرین اسکی خاموشی سے تلملا رہی تھی
فہد: باجی, وہ آپ میری بہن ہیں اسلیے شرم آ جاتی ہے
مہرین کی ہنسی دوبارہ بلند ہوتے ہوتے رہ گئی
مہرین: اچھا چلو کوئی بات نہیں نہ شرمایا کرو۔ کسی کو پتہ تھوڑی ہے کہ تم میرے اتنے پاس ہو، نہ شرمایا کرو, میرے ساتھ کیسی شرم؟
جاری ہے
0 Comments