گرم بھائی بہن
قسط 13
فہد اس اشارے کو سمجھ کی مہرین کے برابر اس بستر پہ بے چین انداز میں بیٹھ گیا جیسے ابھی مہرین اس پہ حملہ کرے گی اور ہو وہاں سے بھاگ اٹھے گا, مہرین نے ایک دو لمحے بعد فہد کو دیکھ کہ بے قرار لہجے میں لیٹنے کا کہا
مہرین: لیٹ جاؤ اب
فہد: نہیں باجی میں باہر امی کو دیکھ لوں ذرا
مہرین: کیا ہوا امی کو؟ انکو بھی بچہ ہونیوالا ہے
مہرین کی آواز سے پتہ چل رہا تھا کہ اس کا جسم لاغر ہو چکا ہے, فہد اس بات پہ ہنس پڑا
فہد: ہاجی, امی کے بھی بچہ ہونیوالا ہے اور جڑوا بچے ہونگے, ایک مہرین اور ایک فہد
مہرین نے بنا ہنسے اس مذاق کو خاک میں ملا دیا اور فہد وہیں پہ مہرین اور اسکے شوہر کے بستر پہ آج پہلی دفعہ سو گیا, مہرین تو حمل کیوجہ سے اس حالت میں تھی اور اب وہ ان خیالوں سے بے پرواہ تھی جن کا فہد ابھی بھی شکار تھا, وہ رات گزر گئی. فہد اور مہرین کے درمیان جھجھک اب کافی کم ہو چکی تھی اسلیے انکے درمیان بے تکلفیاں دوبارہ بڑھنے لگیں۔
فہد اور مہرین کے درمیان اب ماضی کی تلخ یادوں کی جگہ کم ہونے لگی اور اب وہ نئے اور خوشگوار لمحوں کو جینے لگے تھے.
مہرین کا حمل اب پانچویں ماہ تک آچکا تھا اور فہد کی اسقدر بے لوث توجہ کیوجہ سے مہرین کی صحت بہت بہتر تھی, مہرین کا شوہر بھی دوسرے ملک میں بیٹھا اپنی بیوی کی صحت کی خیر خبر لیتا تو مہرین اسے فہد کی کیئر کا بتاتی تو وہ بھی سکون میں آجاتا
فہد جن شرائط پہ مہرین کے گھر شفٹ ہونے پہ مانا تھا اب وہ شرائط مہرین نے ایک ایک کر کہ ختم کر دیں اور فہد کے مالی حالات اخراجات کے کم ہونے کیوجہ سے بہتر ہونے لگے
قدرت کے فیصلے بہت انوکھے ہیں, مہرین کی امی کی طبیعت اچانک بگڑی اور دو تین دن ہسپتال میں رہ کہ وہ اپنے بچوں کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گئی, فہد نے اس مشکل وقت میں نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ اپنی بہن کو بھی سنبھالا, انکی امی کی اچانک موت کا صدمہ مہرین کے حمل پہ اثر انداز نہ ہو اسلیے فہد نے بہت ہمت اور حوصلے سے کام لیا
مہرین اور فہد اب اکیلے تنہا حالات کے ہاتھوں مجبور اپنی ماں کی موت کے غم کو برداشت کر چکے تھے ,مہرین کی طبیعت بھی اس وجہ سے اکثر بگڑ جاتی, فہد جو اپنے گھر کا سب سے اہم سرمایہ کھو چکا تھا اب اپنی بہن اور اسکے ہونیوالے بچے کو کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا اسلیے مہرین کی بہت فکر کرنے لگا. مہرین اس دوران ہسپتال میں بھی ایڈمٹ ہوئی کیونکہ صدمہ اور دکھ مہرین پہ اسقدر اثر انداز ہوا تھا کہ وہ بار بار حمل کے مسائل کا شکار ہو جاتی اور فہد کو اسے ہسپتال لے جانا پڑتا
فہد کی امی کے انتقال کو دوماہ کو چکے تھے, دکھ تو بہر حال بہت بڑا تھا مگر وہ دونوں اب صدمے والی کیفیت سے باہر آ کہ نارمل زندگی گزارنے لگے تھے, مرنے والوں کیساتھ مرا نہیں جاتا تھا یہی اس دنیا کا اصول ہے, اس دنیا سے کتنے لوگ گئے اور کتنے آئے لیکن اس نظام کو کسی جانا یا آنا متاثر نہیں کرسکا. یہی حقیقت مہرین اور فہد نے بمشکل قبول کی اور بالآخر انکے چہروں پہ اب دوبارہ مسکراہٹیں کبھی کبھی نظر آنے لگی
مہرین اور فہد اب ایک ہی بستر میں سونے کے عادی ہو چکے تھے, مہرین کو اب اٹھنے بیٹھنے میں غرضی کہ ہر کام میں اپنے پیٹ میں بچے کیوجہ سے تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا اسلیے حمل کا ہر گزرتا دن مہرین کیلیے فہد کی اہمیت بڑھاتا جا رہا تھا, مہرین اس تکلیف کیوجہ سے اب بہت ساری چیزوں سے بے نیاز ہو چکی تھی. مہرین فہد کے برابر لیٹی اپنے جسم کی نیم عریانیت کی پرواہ نہ کرتی فہد کے دل میں اپنی بہن کے جسم کو لے کہ حوس والا نظریہ ختم ہو چکا تھا اسلیے وہ بھی اس طرح کے حالات سے شرم محسوس نہ کرتا
یہ بے تکلفی تھی یا مجبوری, لیکن اب مہرین فہد کے سامنے بنا بریزئیر پہنے اپنے پستان چھلکاتی پھرتی اور دوپٹہ وغیرہ کی کوئی پرواہ نہ کرتی, فہد بھی اپنی بہن کی مجبوری کو سمجھتا ہوا کسی طرح کی پابندی نہیں لگانا چاہتا تھا کیونکہ مہرین یہ سب چیزیں اپنی آسانی کے حساب سے کر رہی تھی
مہرین کا بچہ جب اسکے پیٹ میں ہلتا تو وہ دونوں اس بچے کی حرکتوں پہ بہت خوش ہوتے اور مہرین فہد کو اس بچے کا ہلنا جلنا دکھاتی. فہد اپنی بہن کے پیٹ کو چوم بھی لیتا اور مہرین اپنے بھائی کی محبت پہ آبدیدہ ہو جاتی
ایک رات مہرین فہد کے برابر لیٹی اپنے اس سلیپنگ ڈریس میں ملبوس جو کہ بہت ڈھیلا تھا, فہد سے باتیں کر رہی تھی تو اسنے اپنے پیٹ میں بچے کی حرکات کو محسوس کر کہ فہد کو دکھایا
مہرین: یہ دیکھو تمہارا بھانجا آرام نہیں کرنے دیتا مجھے
فہد خوش ہو کہ مہرین کہ پیٹ کے پاس اپنا چہرہ کر کہ بیٹھ گیا اور بچے سے خیالی باتیں کرنے لگا
فہد: بھانجے, میری باجی کو تنگ نہ کرو نہیں تو میں آپکو مرغا بنا دونگا
فہد اور مہرین اس بات پہ کھلکھلا کہ ہنس پڑے اور ماضی کی تلخ اور بہکا دینے والی یادیں دوبارہ سے تازہ ہونے لگیں
مہرین: مرغا نہ بنانا اسے فہد
فہد نے مہرین کا پیٹ چوم لیا اور وہیں اپنا چہرہ ٹکا کہ بچے کی موومنٹ کا احساس لینے لگا
مہرین نے فہد کے سر کو ہٹا کہ ایک ہاتھ سے اپنے سلیپنگ ڈریس کے ایک ایک کر ک نیچے والے سارے بٹن کھول دیے,
مہرین نے شرٹ کے اوپر والا صرف ایک بٹن نہیں کھولا جسکی وجہ سے اسکا سارا پیٹ ننگا ہو گیا فہد مسکراتا ہوا یہ سب منظر دیکھ رہا تھا, مہرین کی شرٹ کا سب سے اوپر والا بٹن جو کہ پہلے ہی مہرین کی کلیویج کو عیاں کر رہا تھا پہلے ہی کھلا تھا, اس سے نیچے والا بٹن مہرین کی بڑی اور فربہ چھاتیاں بمشکل ہی چھپا رہا تھا, اسکے علاوہ مہرین کا سارا جسم ننگا ہو گیا
مہرین: لو کر لو بات اپنے بھانجے سے, فیس ٹو فیس
فہد نے مہرین کے پیٹ پہ ہاتھ پھیر کی مہرین کا گورا پیٹ چوم لیا اور اسکے پیٹ سے اپنی ایک رخسار لگا کہ اپنی بانہوں میں بھر لیا, مہرین اپنے بھائی کی محبت سے سرشار جسمانی حوس سے بالا تر ہو کہ اسے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی
فہد: باجی؟
مہرین: بولو باجی کی جان
فہد: آپکا بیٹا ہوا تو ابو کے نام پہ نام رکھنا اور بیٹی ہوئی تو امی والا نام رکھنا
مہرین اپنے امی ابو کا ذکر اسطرح سن کہ جذباتی ہو گئی اور اپنے آنسو نہ روک سکی, فہد بھی اپنے والدین کو یاد کر کہ رو پڑا اور مہرین اسکے برابر آ کہ اسکو گلے لگا کہ رونے لگی, یہ انتہائی جذباتی لمحات تھے
مہرین فہد کے سینے میں اپنا آپ سمیٹ کہ رو رہی تھی اور اس کا نیم ننگا جسم بے ڈھنگے انداز سے ننگا تھا, فہد اپنی بہن کو بانہوں کو گھیرے میں لے کہ چپ کروانے لگا
فہد: باجی آپکا بچہ کیا سوچے گا کہ کتنے روندو قسم کے بہن بھائی ہیں
مہرین روتے روتے ہنس پڑی اور فہد کا ہاتھ اپنے پیٹ پہ رکھ کہ اپنے بچے کیطرف منہ کر کہ بولی
مہرین: بیٹا آپکے ماموں نے مجھ سے بہت مار کھائی یے, آپ ان جیسے نہ بننا نہیں تو ان کے ساتھ آپکو بھی مرغا بنایا کرونگی
نم آنکھوں سے ہنستے دونوں بہن بھائی بہت خوش قسمت محسوس کر رہے تھے. فہد مہرین کے پیٹ سے ہاتھ کمر پہ لے جا چکا تھا اور وہ ہاتھ شرٹ کی اندرونی سرحدوں میں مہرین کے جسم کو سہلاتا جا رہا تھا اور مہرین کے ماتھے سو بوسہ لے کہ فہد نے مہرین کو دوبارہ بانہوں میں بھر لیا
فہد: باجی آپکا بچہ پیدا تو ہو لے پہلے ہی اسے نصیحتیں شروع کر دیں, ہر بچہ میری طرح آپکا تابعدار نہیں ہو سکتا بھلے ہی وہ آپ کی کوکھ سے جنم لے فہد ہی آپکا اصل بچہ ہے
مہرین کو فہد کا یہ جملہ دل پہ لگا اور اسکا ماتھا اور گال چوم کہ بولنے لگی .
مہرین: کاش کہ تم سچ میں میرے بچے ہوتے, لیکن کیا ہوا کہ تم میری نہیں بلکہ امی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہو, تم پہ سب سے زیادہ حق میرا ہی تو ہے
فہد: باجی آئی لو یو
مہرین: لو یو ٹو فہد
مہرین اور فہد ایک دوسرے کے گلے لگ کہ اپنی اپنی محبت کا اظہار پہلی بار تو نہیں کر رہے تھے, یہ اظہار وہ ہزار بار کر چکے تھے ,فہد مہرین کی کمر پہ اپنا بازو ٹکا کہ اپنی بہن کے سینے پہ سر لگا کہ لیٹا ہو تھا۔ مہرین کی شرٹ کا صرف ایک بٹن مہرین کی چھاتیاں چھپانے پہ معمور تھا, اس معصوم بٹن پہ مہرین کی چھاتیاں چھپانےکی اتنی بڑی ذمہ داری اسکو کمزور کر رہی تھی، شرٹ کے دونوں پہلو ایک دوسرے کو اس طرح ایک دوسرے سے دور کھینچ رہے تھے کہ جیسے انکی اس بٹن سے کوئی پرانی دشمنی ہو, مہرین کی چھاتیاں پوری طاقت لگا کہ اس بٹن کو ناکام بنانا چاہ رہی تھی اور وہ اکیلا بٹن اپنی مجپوری پہ روتا ہوا اپنی آخری حد تک مہرین کی چھاتیاں چھپانے کی کوشش کررہا تھا.
فہد کے گال مہرین کے سینے پہ لگے ہوئے تھے اور اسکی سانسوں کی گرمی مہرین کے سینے کو ٹھنڈک جیسا سکون فراہم کر رہی تھی, فہد کی آنکھوں کے سامنے مہرین کے نیم عریاں پستان کسی بھی وقت بے باک ہو سکتے تھے فہد نے مہرین کے سینے پہ اپنے ہونٹ لگا کہ ہلکا سا بوسا لیا تو مہرین نے اپنے بھائی کے سر پہ جوابی بوسہ دے کہ فہد سے اگلے بوسے کی خواہش ظاہر کی, فہد کی گرم سانسوں کے ساتھ اپنی بہن کو چھاتیوں کے اتنا پاس سے بار بار بوسے لینا اچھا لگ رہا تھا اور اس نے گردن کو فہد کے پاس کرکہ گردن چومنے کا موقع دیا
فہد میرین کی گردن اور سینے سے بوسے لیتا جا رہا تھا اور مہرین فہد کے سر کو بس سہلا کہ اپنے اندر سماتی جا رہی تھی, فہد مہرین کی چھاتیاں اوپر والے حصے سے چوم لیتا اور اب اسکی زبان بھی گردن اور چھاتیوں کے اوپری حصے کا ذائقہ چکھ رہی تھی
فہد کے لیے مہرین کی چھاتیاں کوئی نئی چیز نہیں تھی, وہ تو کم عمری سے ان کا ذائقہ چکھتا آرہا ہے. فہد اور مہرین بے قابو ہوتے ہوتے اب ذرا زیادہ ہل ہل کہ اس لمحے کا مزہ لے رہے تھے اور ایسا کرنے سے اس بٹن کی ہمت نے بھی جواب دے دیا, اور اس بٹن کے کھلنے کی وجہ سے مہرین کی چھاتیاں فہد کے سامنے مکمل عریاں ہو کہ اپنے حسن کی دوہائی دینے لگیں۔
اس بٹن کے ٹوٹنے نے انکے اس خواب کو بھی توڑ دیا جس سے وہ نجانے کب سے پورا کرنا چاہ رہے تھے, فہد اور مہرین بوکھلا کہ رک گئے اورفہد اٹھ کہ برابر بیٹھ گیا اور نظریں دوسری طرف کر کہ اسے اپنے بٹن بند کرنے کا موقع دیا, مہرین نے جلدی جلدی بٹن بند کیے. دونوں کے چہروں پہ نہ چھپ سکنے والی مسکراہٹ تھی۔
فہد: میں آپکی دواء لے کہ آتا ہوں, دوا کا ٹائم ہو گیا ہے
مہرین نے کوئی جواب نہ دیا بس اپنے کپڑوں کو درست کر کہ بالوں کو چہرے سے ہٹانے لگی, فہد دوا لے کہ آیا تو مہرین نے دوا کھا لی, مہرین نے جلدی جلدی میں اپنی شرٹ کے بٹن غلط ترتیب میں بند کر لیے. پہلا بٹن دبا دوسرے والی جگہ پہ اور دوسرا بٹن تیسری جگہ پہ ایسے ہی وہ سب بٹن بے ترتیبی سے بند فہد کو نظر آئے تو وہ مہرین کو ہنس ہنس کہ چھیڑنے لگا. مہرین کو جب اندازہ ہو تو وہ فہد کو ڈانٹنے لگی اور اپنی لاپرواہی پہ ہنسنے لگی
فہد: باجی آپکے بٹن؟
مہرہن: بدتمیز تم اور تمہارے بھانجے کے لاڈ کے چکر میں ہوا ہے یہ سب
فہد: باجی اب ٹھیک کر لو
مہرین دوا کھا چکی تھی اسلیے اسکی طبیعت میں ذرا نا خوشگواری ہو رہی تھی اسلیے وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ ایک بازو کے سہارے آہ کر کہ پیچھے کو لیٹنے کیلیے کمر سیدھی کرنے لگی تو فہد نے جلدی جلدی اپنی بانہوں کے سہارے مہرین کو لیٹنے میں مدد کی. مہرین نے لاپرواہی سے اشارہ کر کہ بٹن درست کرنے کا کہا
فہد: کیا باجی
مہرین: کر دو ٹھیک بٹن, ساری رات ایسے ہی رہوں کیا؟
فہد ذرا جھجھک کہ ہاتھ بڑھا رہا تھا تو مہرین اپنی طبیعت کی وجہ سے الجھ کہ بول پڑی
مہرین: کیوں شرما رہے ہو؟ پہلی بار تو نہیں دیکھنے لگے
فہد نے جلدی جلدی ہاتھ بڑھا کہ مہرین کے بٹن ٹھیک کرتے کرتے مہرین کی چھاتیوں کی دوبارہ زیارت کی مگر پوری ذمہ داری سے کام کو انجام دے کہ مہرین کی آؤ بھگت میں لگ گیا
وہ رات بھی گزر گئی اور اگلی صبح کسی قسم کی کوئی شرمندگی یا بیچینی کا احساس دونوں کو ہی نہیں تھا, وہ ایسے ایک دوسرے کے ساتھ نارمل ہو چکے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
فہد اور مہرین ہمیشہ کی طرح بچے کے ساتھ پیٹ میں باتیں کرتے, فہد اپنی بہن کے ننگے پیٹ کو چوم لیتا اور مہرین بھی اپنے بھائی کو یہ سب کرنے پہ پیار سے دیکھتی
مہرین کی طبیعت سنبھلتی بگڑتی رہتی مگر کبھی بھی فہد کی طرف سے لاپرواہی نہیں ہوئی, مہرین آدھی رات اسے جگا لے یا دن میں دفتر سے فون کر کہ واپس بلوا لے, فہد دوڑا چلا آتا ,فہد چھٹی بھی کر لیتا مگر مہرین اور اسکے ہونیوالے بچے کی صحت پہ ہر گز سمجھوتہ نہ کرتا,
مہرین کا شوہر کال پہ بات کرتا تو اپنی واپسی کی کوئی حتمی تاریخ نہ دیتا, یہ بات مہرین کو بہت صدمہ پہنچاتی مگر فہد اپنی بہن کو کسی نہ کسی طرح اپنے بہنوئی کی جھوٹی وکالت کرکہ سنبھال ہی لیتا, مگر اندر ہی اندر فہد کو بھی اپنے بہنوئی کی اس لاپرواہی کا دکھ ہوتا مگر وہ اسکا اظہار مہرین سے نہ کرتا, اس وقت تو دراصل مہرین کے شوہر کو ہی یہاں ہونا چاہیے تھا لیکن اسکے لیے اسکا کام اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ وہ نہیں آ پا رہا تھا, جہاں مہرین کو یہ دکھ تھا کہ اسکے ہونیوالے بچے کا باپ اسکے پاس نہیں ہے وہیں مہرین کو بہت اچھی طرح یہ اندازہ بھی تھا کہ اگر وہ یہاں ہوتا بھی تو مہرین کی ایسے دیکھ بھال نہ کر پاتا جیسے فہد کر رہا ہے
مہرین اور فہد ہر روز بچے کی پیدائش کیلیے پرجوش ہوتے جا رہے تھے, مہرین اپنے بھائی کیساتھ اب بازار جا کہ آنے والے ننھے مہمان کی خریداری کرتی, بازار میں جا کہ فہد اپنی بہن کے سارے ناز نخرے اٹھاتا اور خریداری میں ہر اس چیز کا خیال رکھتا جس کی آنیوالے دنوں میں ضرورت پڑ سکتی ہے
مہرین ایک ایسی دوکان میں داخل ہوئی جہاں پہ صرف نومولود بچوں اور حاملہ خواتین کی اشیاء فروخت کی جاتی تھی, دوکان کافی اچھی تھی. مہرین اپنے بھائی کیساتھ اس دوکان میں داخل ہوئی تو اندر جا کہ پتہ چلا کہ اسکے اندر ہی اندر کئی سیکشنز ہیں جہاں سامان کی اتنی ورائٹی تھی کہ بچوں کی پیدا ہونے سے لے کہ چلنے تک کی تمام اشیاء موجود تھی, عورتوں کیلیے حمل کے پہلے دن سے لے کی ڈیلیوری تک کپڑے, ایکسرسائز کی مشینیں اور نہ جانے کیا کیا موجود تھا, فہد اور مہرین اس دوکان کے مختلف سیکشنز میں پھر رہے تھے اور وہاں پہ آئے ہوئے لوگاں کو دیکھ کہ ایسا لگ ریا تھا کہ جیسے سارے کا سارا علاقہ پریگنینٹ ہے اور وہ اپنے ہونیوالے بچوں کی خریداری کرنے آئے ہیں عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ اور کچھ عورتیں کسی دوسری عورت کیساتھ خریداری میں مگھن تھیں ,دوکان میں داخل ہوتے ہی ایک سیلز سٹاف جو کہ فی میل تھی, مہرین اور فہد کو میاں بیوی سمجھ کہ استقبال کرنے لگی
مہرین اور فہد نے وہاں سے ساری شاپنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ہر سیکشن پہ جا کہ ایک ایک چیز کی اہمیت کے حساب سے ٹرالی میں رکھتے گئے. ابھی تک انہوں نے بچے کے لیے کپڑے, چھوٹے چھوٹے کمبل, رومال ایسی چیزیں ہی خریدیں تھی, خریداری کے دوران فہد ذرا اگلی سمت کو ہو گیا اور مہرین کسی اور چیز کو خریدنے کیلے دیکھ رہی تھی, وہیں پہ ایک اور حاملہ عورت مہرین کےبرابر آ کہ خریداری کرتے کرتے مہرین سے ہمکلام ہو گئی, اس عورت نے خریداری کی نسبت سے بات شروع کر کہ تعارف کروایا
اور باتوں باتوں میں دور کھڑے ایک مرد کیطرف اشارہ کر کہ بتایا کہ وہ اپنے شوہر کیساتھ آئی ہے۔ اس عورت نے جب مہرین سے دریافت کیا کہ کیا اس کا شوہر بھی ساتھ آیا ہے تو مہرین نے فوراً ہاں میں جواب دے کہ فہد کی طرف انگلی سے اشارہ کر کہ بتا دیا کہ وہ مہرین کا شوہر ہے. فہد جو دور سے مہرین کو چھوٹی چھوٹی چیزیں دکھا کہ مسکرا رہا تھا, اس گفتگو سے انجان, فہد مہرین کے اشارے پہ مسکرا دیا, فہد کو ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ مہرین بلاوجہ کی جلن میں فہد کا تعارف اپنے شوہر کے طور پہ کروا چکی ہے, مہرین ایسا بھونڈا فعل کر کہ خود بھی الجھن کا شکار تھی,
اس عورت سے تعارف اور بات چیت خریداری کے دوران بڑھتی ہو جا رہی تھی اور مہرین کو یہ ڈر اندر ہی اندر سے ستا رہا تھا کہ کہیں فہد بچوں کی طرح باجی باجی کرتا نہ آجائے جس سے مہرین کو بے انتہا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اسلیے مہرین اس عورت سے ایکسکیوزمی کہہ کہ فہد کے پاس گئی, فہد کے بولنے سے پہلے ہی اسکے کان میں سارا ماجرا مختصراً سنا کہ التجایہ انداز میں دیکھنے لگی, فہد حیران انداز میں مہرین کی طرف اسکی اس حرکت پہ دیکھ کہ بولنے لگا
فہد: باج۔۔۔
ابھی فہد نے باجی پورا بھی نہیں بولا تھا کہ مہرین نے بات کاٹ دی
مہرین: باجی باجی بند کرو فی الحال مہرین ہی کہو, پلیز یار اب میں شرمندہ نہیں ہونا چاہتی
اتنی دیر میں وہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ چلتے چلتے فہد اور مہرین کے پاس آگئی, سلام دعا کے بعد اس عورت نے اپنے شوہر کو فہد اور مہرین کا میاں بیوی کے طور پہ تعارف کروایا, فہد الجھن بھرے انداز میں بول بھی نہیں پا رہا تھا لیکن مہرین فہد کے بازر سے چپکے ایک اچھی بیوی ہونے کی لاجواب اداکاری کر رہی تھی,کچھ دیر وہیں کھڑے اپنی اپنی پریگنینسی پہ بات چیت کر کہ وہ نامعلوم جوڑا وہاں سے خریداری مکمل کر کہ چلا گیا اور انکے دور جاتے ہی فہد نے پریشان انداز میں مہرین کو دور کیا اور مہرین بہت خوش ہو کہ اس واقعہ پہ ہنستے ہوئے فہد کو دیکھ رہی تھی .
فہد: باجی کیا ضرورت تھی بھلا ایسا جھوٹ بولنے کی؟
مہرین: باجی باجی کہنا بند کرو وہ جوڑا فی الحال یہیں اس دوکان میں موجود ہے
مہرین دور کیش کاؤنٹر پہ کھڑی اس عورت کو دیکھ کہ مسکرا کہ ہاتھ سے الوداع کہہ رہی تھی
فہد: باجی اگر انہیں ذرا سا بھی شک ہو جاتا کہ ہم میاں بیوی نہیں بلکہ بہن بھائی ہیں تو کتنی شرم آتی
مہرین: کیسے پتہ چلتا؟ میں پریگنینٹ ہوں, تم میرے ساتھ ہو, تو اب ہر کوئی یہیا سمجھے گا ناں کہ میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں, اب شکل پہ بہن بھائی تو نہیں لکھا ہوتا
فہد: شرم کریں مہرین باجی ,ذرا سی بھی شرم نہیں بچی آپ میں تو
مہرین: تمہاری ساری شرم یہیں نہ نکال دوں؟
فہد: باجی چلیں جلدی لیں جو لینا ہے پھر گھر چلیں
مہرین: فہد ابھی بہت خریداری باقی ہے, تم مجھے ایسے دباو میں نہ لاو, اور یہ باجی باجی کرنا بند کرو, یہاں میں تمہاری بیوی ہوں, آئی سمجھ ؟
فہد: باجی پلیز یار
مہرین: اب اگر ایک بار بھی اور باجی کہا ناں تو یہیں پہ رونا ڈال لونگی, پلیز تنگ نہ کرو
اتنے میں وہی استقبال والی سیلز سٹاف بہت ہی مؤدبانہ انداز میں مہرین اور فہد کے پاس آ کہ کسی مدد یا رہنمائی کا پوچھنے لگی
مہرین: جی میرے شوہر کو پانی پلادیں کافی غصے میں ہیں مجھ پہ اس بات پہ فہد نے واقعی مہرین کی طرف کھا جانے والے انداز میں دیکھا
مہرین: بس کریں فہد, یہی صلہ ہے میرے پیار کا؟ آپکی نشانی میرے پیٹ میں ہے, کم از کم اسکا ہی خیال کر کہ مجھ پہ کم غصہ کریں
جاری ہے
0 Comments