ads

Garm Behn Bhai - Episode 12


گرم بھائی بہن


قسط 12


فہد کو ایسا لگنے لگا کہ جیسے یہ وہی خواب ہی ہے جو دہرایا جا رہا ہے اسلیے اس کو ایک بے یقینی کی کیفیت نے بھی گھیر لیا مگر ہر بار جب مہرین لن کو اوپر سے نیچے ہاتھ سے سہلاتی تو آنہیں سسکاریاں بلند ہوتی جاتی مہرین نے فہد کی آنہوں کو بڑھانے کیلیے اپنی محنت کو بڑھا دیا اور تیزی سے مٹھ مارنے لگی, فہد اس خواب والی رات کو یاد کرتے ہی لن کو مہرین کے چہرے کے پاس کرنے لگا تو مہرین پیچھے کو ہو گئی


فہد نے مہرین کی طرف التجائی انداز میں دیکھ کہ مہرین کے سر کو لن کی طرف دبانا شروع کر دیا 

 مہرین کے چہرے پہ کراہتبتا رہی تھی کہ اس نے ابھی تک پریکٹیکلی لن نہیں چوسا اس لیے وہ ہچکچا رہی ہے, مگر کچھ ایک دو تکرار کے بعد مہرین نے لن کو منہ میں لے کہ چوپا شروع کر دیا

 لن چوسنے کی ایک مخصوص آواز آنے لگی اور مہرین اپنے گلاب جیسے ہونٹوں میں لن کو گرفتار کر کہ اندر باہر لےجا رہی تھی اور فہد کی آنہیں آہ مہرین باجی آہ ہمممم اف آہممم باجی

 

فہد ایک ہاتھ سے مہرین کے پستان کو بھی سہلانے لگا اور جب قریب تھا کہ فہد ڈسچارج ہونے کو تھا۔ تو مہرین نے رک کہ شرارت سے بھرا ایک جملہ ماضی کے دریچوں سے نکال کہ دہرایا

 

مہرین: بھائی منہ میں ڈسچارج ہو جانا لیکن پلیز پھدی میں نہ ہونا

 

یہ بات کہہ کہ دوبارہ سے لن کو منہ میں لے لیا اور دونوں کا قہقہہ اس لمحے کو روک گیا اور لن کا چوپا وقتی طور قہقہقہ کی نذر ہو گیا

 

فہد مزے کی بلندی پہ تھا اسلیے دوبارہ سے مہرین کو چوسنے کا کہہ کہ لیٹ گیا اور مہرین کو لن ڈسچارج کروانے کیلیے کچھ لمحے لگے اور فہد کا گاڑھا لاوا مہرین کے منہ میں پچکارنے لگا, مہرین نے لن کی پچکاریوں کو حلق میں لگنے کے بعد لن کی ٹوپی کو اپنے دونوں رخساروں سے لگا لگا کہ سارا سپرم منہ کے ارد گرد لگا لیا اور آخری ایک دو پچکاریاں ہونٹوں سے چوم کہ زبان سے چاٹ لیں, عورت کی نفسیات اذل سے ایک معمہ رہی ہیں, کوئی مائی کا لعل یہ گتھی نہ سلجھا سکا کہ اس صنف کی اصلی طلب ہے کیا؟ 

عورت جذبات کے معاملے میں گرگٹ سے بھی آگے کی چیز ہے 

 

مہرین فہد کے لن کو چوس چکی تھی, فہد اور مہرین کے درمیان فی الحال خوشگوار رشتے کی بحالی ہو چکی تھی, فہد اپنے لن کو ڈسچارج کروا کہ بہت سکون سے لیٹا اپنے حواس بحال کر رہا تھا, اور مہرین وہیں لن پہ منہ رکھ کہ اپنے گیلے چہرے کو اس چکنائی کی پھسلن پہ رگڑ رہی تھی 

 فہد: باجی؟ 

مہرین نے وہیں اپنا چہرہ ٹکا کہ بنا فہد کیطرف بنا دیکھے ہمم سے جواب دیا

 

فہد: باجی آپ نے پہلے بھی کیا ہے یہ؟ میرا مطلب اپنے شوہر کا بھی 

 

مہرین لن سے اسطرح اپنا چہرہ مس کیے ہوئی تھی جیسے کوئی مقدس چیز ہو۔ اور وہیں سے نہ میں سر ہلا کہ بنا بولے فہد کو سمجھا دیا

 

 فہد: باجی؟ اٹھ جائیں اب

 

مہرین نے اپنا گیلا چہرہ جس پہ فہد کا سارا سپرم لگا ہو تھا, وہاں سے اٹھایا اور فہد کی طرف دیکھا

 مہرین: کیا مسلہ ہے اب؟ اس پہ بھی اعتراض ہے؟ 

 مہرین کا لہجہ کافی ناخوش سا تھا, شاید وہ اندر سے خوش تھی اور اوپر سے نا خوش ہونے کا دکھاوہ کر رہی ہو 

 

فہد: اف ہو باجی, کیا ہو گیا ہے, مجھے کوئی اعتراض نہیں, بس اسے کھا نہ۔جانا 

 فہد نے ماحول کو مزاح کی طرف لیجانے کیلیے بات کی اور مہرین نے حقیقت میں فہد کے لن کو دانتوں سے کاٹ لیا, اس کاٹنے کی شدت تو اتنی نہیں تھی لیکن ایک سینٹیو پارٹ ہونے کی وجہ سے فہد کی اونچی آہ نکل گئی اور وہ اٹھ کہ بیٹھ گیا اور اپنے لن کو سہلانے لگا

 

فہد: اف ہو باجی, کیا ہو گیا ہے, کس بات کا غصہ نکال رہی ہیں مرغے پہ 

 

مہرین نے پاس پڑے کسی کپڑے سے اپنا چہرہ صاف کیا اور ننگے دھڑ کو لیے فہد کے برابر آ کہ بیٹھ گئی 

 مہرین: میرے شوہر کو اورل سیکس سے نفرت ہے 

 

فہد: کیوں؟ میرا مطلب آپ نے کیسے پوچھا؟

 

مہرین: وہ جو سیکس سٹوریز تم لاتے تھے وہ پڑھ پڑھ کہ میں تو یہی سمجھتی رہی کہ یہ لازمی ہوتا ہے لیکن جب میں نے انکے مرغے کو پکڑ کہ ابھی چومنے کی ہی کوشش کی تھی تو وہ بھڑک اٹھے ,میں تو اچھی خاصی گھبرا گئی اور تب سے لے کہ اب تک ایک عام سیکس لائف گزار رہی ہوں, وہ سیکس سٹوریز میں تو زیادہ ہی رومانس لکھا ہوتا ہے

 

فہد: باجی ایک بات پوچھوں؟

 

مہرین نے ہاں میں سر ہلا 

کہ سوال پوچھنے کی اجازت دی تو فہد بہت ایکسائیٹڈ ہو کہ بولنے لگا 

 

فہد: باجی آپ میرے ساتھ بھی سیکس کریں گی 

 

مہرین: ہاں ہاں, سیکس کی بات کرتے ہو میں تو تمہارہ بچہ بھی پیدا کرونگی

 

مہرین ابھی بھی نہ جانے۔کس غصے میں تھی اسلیے ایسا جلا کٹا جواب دیا

 

فہد: باجی میں نے کبھی سیکس نہیں کیا

 

 مہرین: بکواس

 فہد: آپکی قسم 

مہرین: تم شادی کر لو فہد

 فہد: آپ سے کر لیتا ہوں 

 

مہرین: جب میں چاہتی تھی تب تو کی نہیں تم نے 

 

فہد: باجی اگر ہم چاہتے بھی تو ہم کیا شادی کر سکتے تھے ؟ ہم تو بس چوری چھپے ہی یہ سب کر سکتے تھے اور اب بھی چوری ہی کر رہے ہیں کسی کو بتا تو 

 نہیں سکتے

 

مہرین: ہاں جیسے حاجی انکل کے بچے کرتے تھے

 

مہرین: ہاہاہا ہاں فہد, کتنا مزہ آتا کرنے میں، جب میں بھی تمہیں کہتی کہ میرے منہ میں ڈسچارج ہونا

 

فہد: کیوں باجی؟ کیا مسلہ ہے؟ اب تو ورجینٹی کا بھی مسلہ نہیں ہے

 

مہرین: تم سمجھتے نہیں ہو یار, میں اب اپنے شوہر سے یہ سب کر کہ چیٹنگ نہیں کرنا چاہتی, ایسا نہیں ہے کہ تم سے محبت نہیں کرتی, اگر تو محبت کا ثبوت مانگتے ہو تو اتار دیتی ہوں پاجامہ ابھی

 

فہد کچھ دیر خاموش رہا اور مہرین اپنے ننگے جسم کو بے باک انداز میں پھیلائے اسکے برابر میں لیٹی ہوئی تھی

 

فہد: باجی, آپ ثبوت ہی دے دو, مجھے ثبوت چاہیے

 فہد کا شرارتی انداز ہنسا دینے والا تھا اور دونوں ہنسنے لگے مہرین فہد کو پیار بھرے انداز میں مارنے لگی اور فہد مار کھاتا کھاتا مہرین پہ آ گیا اور اس کے جسم پہ گدگدی کرنے لگا جس سے مہرین کا ہنس ہنس کہ برا حال ہونے لگا اور ایک دو لمحے ایک دوسری کی کسنگ کرنے بعد مہرین واشروم چلی گئی اور فہد وہیں لیٹا مہرین کی واپسی کے بعد اسکی پھدی مارنے کیلیے پلاننگ کرنے لگ مگر کچھ دیر بعد مہرین بھاگی بھگی کمرے میں واپس آئی اور جلدی جلدی اپنے سلیپنگ ڈریس کی شرٹ کو اٹھا کہ پہننے لگی 

 

فہد مہرین کی برق رفتاری پہ حیران تھا اور مہرین جلدی جلدی میں شرٹ پہن کہ امی کہہ کہ بھاگ گئی, فہد بھی گھبرا گیا اور وہ سمجھا کہ امی آ گئیں ہیں شاید اسلیے وہ بھی کپڑے تیزی سے پہننے لگا اور وہیں بیٹھا مہرین کا انتظار کرنے لگا 

کچھ دیر بعد مہرین کی چیخنے کے جیسے فہد کو بلانے کی آواز آئی تو فہد بھی اپنی امی کے کمرے کیطرف لپکا تو انکی امی کی حالت غیر ہو چکی تھی اور وہ چارپائی سی نیچےگری پڑی تھیں, فہد اور مہرین ان کو جلدی جلدی ہسپتال لے گئے اور وہاں جا کہ پتہ چلا کہ ان کو دل کا دورہ پڑا ہے

 

ساری رات ہسپتال میں اپنی ماں کیلیے پریشان رہے اور اگلی صبح جب انکی امی کی طبیعت سنبھلی تو ان کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ مہرین رات سے ہی اسیسلیپنگ ڈریس میں ہسپتال میں اپنی ماں کے ساتھ تھی اسلیے فہد گھر گیا اور اپنی بہن کیلیے کپڑے لے کہ آیا جو مہرین نے وہیں تبدیل کیے

 

ایک ہفتہ ہسپتال میں رہنے سے فہد اور مہرین بہت پرہشان تھے اور انکے لیے اسوقت صرف اور صرف اپنی امی کی طبیعت سب سے ضروری تھی,

 

ہسپتال سے واپس آ کہ دونوں بہن بھائی اپنی ماں کے ساتھ ہی سونے لگے اور پریشانی کا عالم یہ تھا کہ وہ اس حوس والے کام سے بالکل باز رہے

 

فہد کے مالی حالات پہلے ہی خراب تھے اوپر سے امی پہ کافی خرچہ ہو گیا اور فہد کو مہرین کے سامنے تمام حالات کی تفصیل رکھنی پڑی مہرین کے پاس جتنے بھی پیسے تھے اس نے فہد کو دیدیے اور فہد نے بھی وہ پیسے باامر مجبوری رکھ لیے, مہرین آئندہ آنے والے دنوں میں بھی فہد کو پیسے دینے پہ اصرار کرنے لگی مگر فہد نے تو پہلے ہی بمشکل وہ پیسے قبول کیے تھے اس لیے مزید پیسے لینے سے صاف انکار کر دیا 

 

یہ دن جو مہرین اپنی ماں کے گھر گزارنے آئی تھی وہ ختم ہو گئے, مہرین اور۔فہد جس رات ایک دوسرے کیساتھ اپنی حوس پوری کررہے تھے اسی رات انکی ماں موت کے منہ میں جا سکتی تھی, کچھ لمحوں کی چوک ساری زندگی کا۔پچھتاوا بن سکتی تھی, انکے دلوں میں یہ وہم بیٹھ گیا تھا کہ انکے ایسا کرنے کی سزا کے طور پہ قدرت نے یہ مصیبت ان پہ نازل کی ہے, اسلیے اس رات پہ کوئی بحث کیے بنا مہریں اور فہد نے دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ یہ کام کرنے کی جرات نہیں کی 

مہرین کا شوہر واپس پاکستان آیا تو سیدھا اپنے سسرال اپنی بیوی کے پاس آیا, مہرین اپنے شوہر کے ساتھ واپس چلی گئی مگر جاتے جاتے اپنی تمام تر توجہ۔پیچھے ہی چھوڑ چکی تھی, ماں کی بیماری کی شدت, فہد کے خراب مالی حالات مہرین کو اسکے گھر میں ہر وقت بیچین رکھتے

 

مہرین کے سسرال میں حالات روز بروز کشیدہ ہوتے جارہے تھے اسلیے مہرین کے شوہر نے الگ گھر میں شفٹ ہونے کا ارادہ کیا, مہرین کے شوہر کا ایک نیم تعمیر شدہ مکان تھا جس کی تعمیر شروع کروا دی گئی اور ایک دو ماہ میں وہ گھر مکمل طور پہ تیار ہو گیا, وہ گھر کافی کھلا اور شاندار تھا, جیسے ہی وہ گھر مکمل ہوا مہرین اور اسکا شوہر اس بڑے گھر میں شفٹ ہو گئے

 

مہرین کا گھر فہد کے گھر سے آدھے گھنٹے کی مسافت پہ تھا اور سب سے اچھی بات یہ کہ اب مہرین کو اپنی ماں سے ملنا زیادہ آسان ہو گیا تھا اور اب وہ بنا روک ٹوک کہ آ جا سکتی تھی, فہد بھی اپنی ماں کو لے کیہ ہفتہ یا پندرہ دن بعد آجایا کرتا

 

فہد اور مہرین کے درمیان ہونے والے جنسی لمحات کو دونوں ہی اپنے ذہنوں سے نہیں نکال پا رہے تھے, فہد اپنی بہن سے برملا یہ کہہ چکا تھا کہ اس رات امی کی اس طرح کی حالت کے ذمہ دار وہ دونوں ہیں, اس چیز کی احساس شرمندگی تو بہر حال دونوں کو تھا اس لیے انکا رشتہ اب ایک عام بہن بھائی کے جیسا ہو چکا تھا جن میں کسی طرح کی حوس کا عنصر نہیں پایا جاتا, یہ تبدیلی بہت حادثاتی تھی, ماں کو کھو دینے کا ڈر فہد کو بدل کہ رکھ چکا تھا, اور سب سے بڑا مسلہ موقعہ کی عدم دستیابی بھی تھا, مہرین زیادہ تر اپنے شوہر کے ساتھ ہی آتی اور فہد اگر اپنی امی کو لے کہ جاتا تو وہ بھی تنہائی کے مواقع کو کم کر دیتی 

 فہد جب مہرین سے گلے ملتا تو اسکے جسم پہ ہاتھ اسطرح پھیرتا جیسے کہ۔اسے مزہ آرہا ہو اور مہرین بھی کسی نہ کسی ذومعنی لفظ کے استعمال سے باز نہ آتی, اور مہرین کے ذومعنی الفاظ فہد کو اسکی بہن کی ازدواجی زندگی کے حالات سے بھی باخبر رکھتے, مگر اب دونوں اس رات والے صدمے کو یاد کر کہ اس طرف قدم بڑھانے سے ڈرتے تھے۔

 

مہرین کی شادی کو ایک سال گزر چکا تھا مگر اولاد کی ابھی تک کوئی امید نہیں ہو رہی تھی, یہ بات اندر ہی اندر سے مہرین کو پریشان تو کر رہی تھی مگر مہرین کا شوہر اس طرح کی خرافاتی سوچ کا مالک ہر گز نہ تھا کہ اسے اس بات پہ طعنہ مارتا, مہرین کے شوہر کو کمپنی کی طرف سے بہت ہی بہترین مراعات پہ بیرون ملک کسی پراجیکٹ کے ہیڈ کے طور پہ جانے کی آفر ہوئی تو یہ مہرین۔کے دل پہ قیامت بن کہ گزری 

 

مہرین اپنے شوہر سے بے پناہ محبت کرنے لگی تھی, اتنی محبت کہ اب اس نے فہد کے بارے میں اس انداز سے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا, اور ایسے میں اسکا شوہر بیرون ملک جانے کی آفر کو انکار نہیں کر رہا تھا, مہرین کم پیسوں کےساتھ گزارا کرنے کیلیے بھی راضی تھی مگر اسکا شوہر اپنے پروفیشن کو لے کہ کسی کی نہ سننے والا تھا

 

مہرین کا شوہر ایک انتہائی پروفیشنل انسان تھا اسلیے اسکو اس فیصلے سے مہرین کا کوئی جذباتی حربہ نہیں روک سکا, ایک عورت ہونے کے ناطے مہرین کو اس بات کا کافی گہرا صدمہ بھی تھا کہ اسکا شوہر اپنے کام کو لے کہ اس قدر جذباتی ہے کہ اسکو اپنی بیوی کی بھی پرواہ نہیں, مہرین اور اسکے شوہر کی کشیدگی کی خبریں اور وجوہات فہد اور اسکی امی تک بھی پہنچی تو وہ بھی۔اسے دلاسے دے دے کہ سمجھانے لگے

لیکن مہرین کا گلہ بہر حال جائز تھا مہرین کے شوہر کے پاکستان سے جانے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا تھا کہ خدا نے انکو اولاد کی امید سے نوازا ,مہرین نے اس خبر کو اپنے شوہر کو اس امید سے سنائی کہ شائد وہ اس بات کیوجہ سے ہی رک جائے مگر مہرین کا شوہر اب اس آفر پہ دستخط کر چکا تھا اور اب اسکی اس فیصلے سے واپسی ناممکن تھی اسلیے اپنی بیوی کو خوبصورت اور پر سکون مستقبل کی امیدیں سنا کہ اپنے فیصلے پہ قائم رہا اور اپنی تیاریاں اسی طرح جاری رکھی

 

دوسری طرف فہد اور اسکی ماں اپنے خراب مالی حالات کیوجہ سے دو وقت کی روٹی بھی بمشکل پوری کر پا رہے تھے, ایسے میں مہرین کے شوہر نے ایک۔بہت ہی خوبصورت فیصلہ کیا, کہ اگر فہد اور اسکی امی انکے گھر شفٹ۔ہو جائیں تو اسکی اس ملک سے غیر حاضری میں وہ مہرین کا خیال بھی رکھ لیں گے اور دوسرا یہ کہ فہد کے اخراجات میں کرایہ کا بوجھ بھی نہیں رہے گا, مگر مہرین کے شوہر کو اس بات کا ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ فہد اور مہرین کے درمیان جس نوعیت کی جسمانی کشش ہے, اسکے اس فیصلے سے دونوں بہن بھائی ہڑبڑا جائیں گے, اور شاید اس فیصلے کو ماننے سے صاف انکار کر دیں 

 

مہرین کے شوہر نے مہرین سے لمبی اور سوالوں سے بھرپور تمہیدی بات چیت کے بعد اپنے اس آئیڈیا کے بارے میں بتایا کہ وہ فہد اور اسکی امی کو یہاں شفٹ کرنا چاہتا ہے تو مہرین ہڑبڑا گئی, اور لمبی تفصیلی بحث کے بعد مہرین نے بھی اس بات کو ایک بار اپنی امی اور فہد سے ڈسکس کرنے کا کہہ دیا 

 

مہرین جانتی تھی کہ ایک ہی گھر میں اگر وہ فہد کےساتھ رہے گی اور وہ بھی اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں, تو اتنے سالوں سے جس گناہ سے وہ بچتی آئی ہے وہ اس سے لازمی سرزد ہو جائگا ,مہرین کیسے اپنے شوہر کو یہ کہتی کہ وہ اپنے بھائی کیساتھ ایک ہی چھت تلے نہیں رہ سکتی, مگر فہد کے لیے مہرین کا اسوقت ایسا سہارا بننا بھی نا گذیر ہو چکا تھا,

 

فہد اپنی بہن کی بارہا مالی امداد کی پشکش ٹھکرا چکا تھا, مہرین نے بہت سوچ سمجھ کہ بالآخر اگلی صبح اپنی امی کے گھر جانے کا ارادہ کیا, ایک تو اس نے اپنی پریگنینسی کی خبر دینی تھی دوسرا یہ شفٹ ہونیوالا معاملہ بھی فہد کے سامنے رکھنا تھا

 

مہرین اور اسکا شوہر مٹھائیاں لے کہ اپنی ماں کے گھر پہنچے اور خوشخبری سنانے کے بعد سارا دن اور ایک رات فہد کو اس بات پہ مناتے رہی کہ وہ مہرین کے گھر میں ہی شفٹ ہو جائیں مگر فہد اس بات کو اپنی توہین تصور کر کہ ہرگز نہیں مان رہا تھا 

 

مہرین کا شوہر فہد کیلیے بہت عزت کے مقام پہ تھا اسلیے اس نے ہر طرح سے فہد کو منانے کی کوشش کی اور بالآخر مذاکرات اس ایک شرط پہ کامیاب ہوئے کہ فہد اور اسکی امی مہرین کے گھر پہ اوپر والے پورشن پہ بطور کرایہ دار ہی رہیں گے, اور وہ اپنا الگ کھانا اور بجلی گیس کا بل بھی ادا کریں گے ,

 

طویل اور مشکل بحث کے بعد مہرین اور اسکا شوہر فہد کی ہر شرط مانتے جا رہے تھے کیونکہ فہد کی اتنی سی ہاں بھی بہت مشکل سے ہوئی تھی 

 

چونکہ مہرین اب ماں بننے والی تھی اس وجہ سے اسکے شوہر کی یہ پریشانی کہ مہرین کا خیال کون رکھے گا, حل ہو گئی ,

 

فہد اسکے شوہر کے بیرون ملک جانے سے ایک ہفتہ پہلے ایک لوڈر وہیکل پہ سامان لیے ایک دن آگیا, جب سامان اس خوبصورت اور عالیشان گھر کے سامنے مزدور اتارنے لگے تو ایک نظر سامان کو دیکھیں اور ایک نظر اس گھر کو, فہد کے گھر کا سامان اتنا پرانا اور اوڈ فیشن تھا کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اس گھر کا سامان ہے

 

فہد کا سارا سامان فہد کے بہنوئی نے سٹور روم کی نظر کر دیا اور جس اوپر والے حصے میں انہیں رہنا تھا وہا پہلے ہی سارا فرنیچر موجود تھا, اسلیے برتنوں کے علاوہ ان کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں تھی

 

بہر حال فہد اور مہرین ایک ہی گھر میں مگر الگ الگ حصوں میں مقیم تھے اور وہ دن آگیا جب مہرین کےشوہر کو لمبے عرصےکیلیے پاکستان سے باہر جانا تھا. مہرین بہت دکھی تھی اس بات کو لے کہ, سامان تیار تھا اور فہد اور مہرین اسے چھوڑنے کیلیے ائرپورٹ تک جانے والے تھے,

 

سارے راستے مہرین گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ اپنے شوہر کے سینے پہ سر رکھ کہ بار بار جذباتی ہو رہی تھی اور فہد ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پہ مہرین کو طنز اور مزاح سے ہنسانے کی کوشش کرتا رہا, ائرپورٹ کافی دور تھا اور تقریباً دو گھنٹے کی مسافت طہ کر کہ ائرپورٹ آ ہی گیا, مہرین اپنے شوہر کو روکنا چاہتی تھی مگر نہ روک سکی, اسکا شور فہد اور مہرین کو الوداع کہہ کہ رخصت ہوگیا اور جاتے جاتے فہد کو مہرین کا خیال رکھنے کی انتہائی تلقین کر گیا, مہرین پہلی بار فہد کی آنکھوں کے سامنے اسکے علاوہ کسی اور کے گلے سے چمٹی رو رہی تھی, فہد نے نظریں دوسری طرف کر کہ اس منظر کو دیکھنے سے ہی انکار کر دیا, شاید اس کیلیے یہ برداشت کرنا ہی ناممکن تھا کہ اسکی محبت کسی اور کی ہو چکی ہے۔ 

شاعر شاعری کر کہ محبت کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے مگر محبت اگر کسی سانچے میں ڈھل سکتی ہوتی تو مشکل معاملات آسان نہ ہو جاتے محبت کرنے والے خود اپنے جذبات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں, یہ شاعری کے بس کا روگ ہے ہی نہیں کہ محبت پہ زبان درازی کرے

 

فہد اور مہرین اس گھر میں اپنی امی کے ساتھ رہ رہے تھے, کچھ دن تو فہد اپنی اناء کو برقرار رکھتے ہوئے اوپر ہی اپنی امی کو رکھتا مگر مہرین کے شوہر کے جانے کے بعد مہرین کی امی نے آہستہ آہستہ نیچے ڈیرے ڈال لیے اور فہد بھی اب نیچے ہی اپنی بہن والے پورشن میں کہیں نہ کہیں سو جاتا

 

مہرین اور فہد اپنی امی کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے اور جب کبھی تنہائی کے لمحات میسر آتے تو اس رات کو, جب انکی امی کو ہارٹ اٹیک آیا تھا, یاد کر کہ اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے, یہ کشمکش دونوں کا سکون برباد کر رہی تھی, وہ باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو اس رات کے واقعے کو صحیح یا غلط ہونے کا سوال تو پوچھ لیتے لیکن نہ ہی مہرین کے پاس کوئی حتمی جواب تھا اور فہد تو ایسے معاملات میں زیادہ ہی گھبرا جاتا تھا عموماً فہد مہرین کے ساتھ تنہائی میں بیھنے سے گریز کرتا لیکن مہرین کو اپنے ضبط پہ زیادہ ہی گمان تھا اسلیے وہ فہد کے ساتھ کچھ لمحے گزار لیتی, لیکن وہ دونوں کب تک اس حقیقت سے آنکھ چرا سکتے تھے کہ ان کے درمیان محبت وقتی طور پہ گرہن زدہ ہوئی ہے

 

فہد کا مہرین کی صحت کو لے کہ انتہائی حساس رویہ مہرین کا دل موہ لیا کرتا, جس دن مہرین کی طبیعت میں ہلکی سی بھی کوئی خرابی آتی, فہد بلی کیطرح اپنی بہن کے آگے پیچھے گھومنے لگ جاتا, بعض اوقات تو مہرین کو فہد کی اپنے تئیں اس فکر کو لے کہ ترس آجاتا اور وہ اپنی طبیعت کے نہ بگڑنے کی دعائیں کرتی, کیونکہ فہد مہرین کی ذرا سی بھی تکلیف نہیں برداشت کر پاتا تھا. مہرین ایک اچھی گائناکالوجسٹ سے اپنا روٹین چیک اپ کرواتی تھی اور فہد بنا ماتھے پہ شکن ڈالے بہت ہی ذمہ داری سے اپنی بہن کا چیک اپ کروانے کیلیے اسے لے کہ جاتا

 

مہرین کی ضروری میڈیسن سے لے کہ اچھی خوراک تک, فہد ایک ہلکی سی بھی لاپرواہی نہ کرتا بلکہ اگر مہرین کوئی لاپرواہی کرنا بھی چاہتی تو فہد مہرین کو مختلف طریقوں سے منا کہ لاپرواہی سے روک لیتا۔ کبھی غصہ کرتا کبھی منت سماجت کر کہ اور کبھی جذباتی کر کہ فہد مہرین کی صحت کا خیال رکھتا

 

فہد لگاتار دو ماہ مہرین کی ایسے ہی خدمت کر رہا تھا اور اسکی یہ سب کوششیں کسی لالچ میں ہر گز نہ تھی, وہ تو اپنی بہن کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکہ یہ سب کر رہا تھا. اور مہرین فہد کے اس رویے سے اس قدر خوش تھی کہ اسکو اپنے بھائی پہ بہت پیار آتا اور اسکا دل خوشی سے پھولے نہ سماتا

 

مہرین کے گھر اس دور کے حساب تمام جدید چیزیں میسر تھی, ٹی وی, ویسیآر, پی ٹی سی ایل کا کنکش, مہرین کا شوہر ہفتے یا پندرہ دن بعد مخصوص وقت پہ کال کرتا اور اس دوران مہرین اپنے شوہر کو بس فہد کے قصیدے ہی سناتی کہ فہد ایسے کرتا ہے, ویسے کرتا ہے میرا ایسے خیال رکھتا ہے

 

فہد اور مہرین کے درمیان اس رات والی شرمندگی اور تناؤ اب آہستہ آہستہ کم ہونے لگی تھی, اب برف پگھلنے لگی تھی, اب مہرین فہد کو اپنے ہمدرد کے روپ میں دیکھ رہی تھی, مہرین اور فہد اب کھلے الفاظ میں اسکے پریگنینسی کو ڈسکس کر لیتے تھے, اور ظاہر ہے یہ سب تو انکے لیے مجبوری بھی تھی کیونکہ مہرین اور کس سے یہ سب باتیں شئیر کرتی 

 

مہرین کے حمل کا تیسرا ماہ چل رہا تھا اب اسکے پیٹ میں پلنے والا بچہ اسکے پیٹ کو ذرا سا پھلا رہا تھا, مہرین فہد کو ہر ہر بات اور مسلہ بے جھجھک بتا دیتی اور فہد ہر بات کو سن کہ حفظ ماتقدم کے طور پہ وہ ہر حربہ اپنا لیتا جس سے مہرین اور اسکے بچے کی صحت بہتر رہے

 

ایک دوسرے کیلیے اسقدر جاں نثاری اور حساس رویے کے باوجود دونوں خصوصاً فہد ابھی بھی ایک دوسرے سے ایک حد تک فاصلہ برقرار رکھے ہوئے تھے, مہرین اب اپنے بھائی کو پیار کرنے کیلیے قریب ہوتی تو فہد اپنے سابقہ بیوقوفانہ رویے پہ قائم وہاں سے بہانہ کر کہ رفو چکر ہو جاتا. مہرین حمل جیسے نازک مرحلے گزر رہی تھی اسلیے موڈسوینگ جیسے مسائل ایسے تھے جن کا فہد کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا

 

ایک رات مہرین کو اتنی شدید متلی ہوئی کہ وہ رات کو فہد کو جگانے پہ مجبور ہوگئی اور فہد بھی پریشانی میں اٹھ گیا, کچھ دیسی ٹوٹکے, ہلکی پھلکی میڈیسن اور گھر کے لان میں واک کروا کہ فہد مہرین کی طبیعت بحال کرنے میں کامیاب ہو گیا. مہرین کہ ساتھ اپنی نیند برباد کرنے کے بعد فہد مہرین کو اسکے کمرے میں سلانے کیلیے لے آیا. مہرین بڑی مشکل سے اتنا سنبھل پائی تھی اور بستر پہ آنکھوں کو ایک بازو سے ڈھکے لیٹ گئی, فہد اپنی بہن کو لٹا کہ جانے لگا تو مہرین نے اسی بے سدھ سی حالت میں دوسرے ہاتھ کو بستر پہ اس طرح مارا جیسے وہ فہد کو وہیں لیٹنے کا کہہ رہی ہو



جاری ہے



Post a Comment

0 Comments