ads

Garm Behn Bhai - Episode 11


گرم بھائی بہن


قسط 11


مہرین اور فہد دونوں اپنی اپنی کوششوں کو لمحوں کی چوک سے ناکام ہونے کا دکھ دل میں لیے اپنے اپنے بستر پہ جا کہ لیٹ گئے, نہ ہی مہرین جانتی تھی کہ فہد اسے چومنے کیلیے آگے بڑھا تھااور نہ ہی فہد جانتا تھا کہ جب وہ بستر درست کرنے کیلیے بیٹھا تھا تب مہرین اسے بانہوں میں بھرنے لگی تھی

 

ساری رات پریشانی اور بیچینی نے نہ ہی فہد کو سونے دیا اور نہ ہی مہرین کو, اپنی محبت کی دنیا کی بربادی کا ذمہ دار وہ کا کو ٹھہراتے, وہ تو بس حالات کو کوس رہے تھے جن کی وجہ سے آج وہ اتنا دور ہو گئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے بھی کتراء رہے ہیں

 

صبح ہوئی تو مہرین کی آنکھ کھلی, سورج کافی اوپر آچکا تھا اور اسکی امی اسکے برابر اپنے بستر پہ بیٹھی ہوئی تھی, گھڑی کو دیکھا تو صبح کے گیارہ بج رہے تھے, مہرین بہت تسلی سے مکمل نیند سوئی تھی، شادی کے بعد زیادہ تر راتیں جاگ کہ گزارنے والی نئی نویلی دولہنیں جب اپنے مائیکے جاتی ہیں تو ان تمام رنگین راتوں کی نیند کی کمی وہیں آ کہ پوری کرتی ہیں, یہی حال مہرین کا تھا, شادی سے پہلے اپنے بھائی سے بھی پہلے جاگ جاتی تھی اور اب دن کا کونسا پہر آگیا ہے اور سکی نیند ہی پوری نہیں ہوئی, امی سے دریافت کرنے پہ پتہ چلا کہ فہد تو حسبِّ معمول اپنے وقت پہ دفتر کیلیے نکل چکا ہے

 

مہرین سارا دن امی گھر کی صفائی ستھرائی میں لگی رہی اور شام ڈھلتے اپنے بھائی کی راہ تکنے لگی, فہد جسکو پہلے ہی مالی مشکلات نے گھیرا ہو تھا اب ایک نئی پریشانی کا شکار ہو چکا تھا, مالی مشکلات کا حل ہو سکتا ہے لیکن اپنی محبت کے چھینے جانے کا صدمہ آج تک کس سے برداشت ہوا ہے؟

 

شام کو فہد گھر آیا تو مہرین کے حسن کے جلوے اسے اور بھی پریشان کر رہے تھے, فہد کو اس چیز کا زیادہ شدت سے احساس ہونے لگا کہ کاش اگر اس نے اسوقت اپنی بہن کی طرف سے اسکے جسم کی پیشکش کو قبول کر لیا ہوتا تو اس دن سے لیکر آج تک مہرین پہ فہد کا حق برقرار رہتا, فہد کو اپنے ماضی کی اس بیوقوفانہ سوچ پہ افسوس ہو رہا تھا جب مہرین اسکے لیے تڑپ رہی تھی اور فہد اپنی بہن کو تڑپا رہا تھا, لیکن فہد کا مہرین کی طرف سے یہ محدود سا رویہ پھر بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا 


ایک ہفتہ اس سوالیہ سے ماحول سے تنگ آکر مہرین بہت دل برداشتہ ہو گئی اور اسنے ایک رات فہد سے باتوں باتوں میں وہ سارے گلے کر دیے جن کو وہ دل میں دبائے بیٹھی تھی۔ مہرین کو فہد کے گھر آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور اس پورے ہفتے میں فہد اور مہرین کے درمیان ماضی کی باتوں کو لے کہ رنجشیں بڑھ چکی تھی, مہرین اور دونوں دل برداشتہ تھے لیکن مہرین آج فہد کے جانے کے بعد سے لیکر فہد سے بات حتمی بات کر کہ معاملے کو انجام تک لے کہ آنا چاہتی تھی اسلیے سارا دن بہت سارے غورو حوض, دل ہی دل میں فہد سے فرضی مکالمے کرنے کے بعد شام کو فہد کی واپسی کا اس شدت سے انتظار کر رہی تھی کہ اسکے چہرے گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار ٹپک رہے تھے,

 

شام ڈھلے فہد گھر میں داخل ہوا تو صحن میں مہرین کی چہل قدمی کو نظر انداز کر کہ علامتی سا سلام کیا اور سیدھا واش روم میں گھس گیا, مہرین کا پارہ کچھ ایک سینٹی گریڈ مزید بڑھ گیا, فہد اور مہرین کی اشاروں اشاروں میں آج رات کی نشست تہ پا چکی تھی اور امی کو سلا دینے کے بعد قریب المرگ محبت کے دونوں فریقین اپنے پرانے کمرے کے اندر آمنے سامنے تشریف فرما ہو چکے تھے, دونوں کے دلوں مین گلوں کے انبار زبان درازی کے ذریعے نکلنے والے تھے۔ مہرین بہت ہی حتمی انداز میں فہد کی فوکس لیس ویژن اور دل برداشتہ انداز سے گردن کے ڈھیلے پن کو دیکھ رہی تھی

 

مہرین: فہد صاحب, کدھر گم ہیں؟ میں ایک ہفتے سے آپ کے گھر آئی ہوئی ہوں مگر آپ کے تو تیور ہی نہیں مل رہے

 

فہد: اچھا؟ تو آپ آگئیں باجی؟

 

مہرین: کیا مطلب ہے تمہارا فہد ؟

 

فہد: کچھ مطلب نہیں میرا.... مہرین............... باجی

 

مہرین: ہاں ہاں نام لو میرا تم اب, چھوٹی ہوں ناں تم سے, تم باپ ہو میرے، لہجہ دیکھو ذرا جناب کا ماحول کی تلخی بڑھتی ہی جا رہی تھی, فہد اور مہرین اپنی گفتگو میں کسی صورت نرمی نہیں لا رہے تھے

 

فہد: نہیں باجی, میں چھوٹا نہیں, بلکہ بہت چھوٹا ہوں آپکے سامنے, دیکھ رہا ہوں آپکا بدلا ہوا رویہ ,

 فہد بہت ہی سخت انداز میں مہرین کی طرف منہ کر کہ بات کر رہا تھا اور بات کو وقفہ دے کہ اپنا چہرہ مہرین کے پاس کر کہ اسی شدت سے دعبارہ بولنے لگا

 

فہد: یہ رویہ آج کا نہیں بدلا مہرین.............باجی, یہ تو منگنی کی رات سے بدلاؤ آ رہا تھا

 فہد بار بار مہرین باجی کو اکٹھا کہنے کی بجائے مہرین اور باجی میں وقفہ بڑھا کہ بات کر رہا تھا

 

مہرین نے فہد کو گریبان سے پکڑ کہ دانت بھینچ کہ جھنجھوڑ ا

 مہرین: فہد کیا بکواس کر رہے ہو؟ میں بدلی ہو؟ کس نے بدلنے پہ مجبور کیا مجھے ؟ہاں؟بولو؟

 مہرین کی آواز میں غصہ اور شدت دونوں تھے, اسکی آواز میں چیخنے کی  جھلک تھی

 

مہرین: میں تمہارے آگے پیچھے پھر رہی تھی فہد ,جب تم کو میرے ادب و احترام کی آڑ میں, میرا تم کو چومنا, میرا تمہارے ساتھ سونا اور صاف صاف ریلیشن بنانے کی باتیں کرنا, سب کچھ غلط لگتا تھا

 

فہد آنکھیں جھکائے مہرین کے ہاتھوں اپنا گریبان ہلایا جانا برداشت کر رہا تھا اور مہرین کی یہ صاف بات فہد کو لاجواب کر چکی تھی, مہرین کی آنکھوں میں یہ باتیں کہتے ہوئے عجیب سا جلال تھا اور اسکی آواز میں ایک دہلا دینے والی گرج تھی 

 

 فہد: مہرین باجی...... میں 

 فہد نے ابھی اتنا لفظ ہی منہ سے نکالا تھا کہ مہرین نے اس جلالی گرج میں اسے ٹوک دیا

 

مہرین: مہرین باجی نہیں........ فہد صرف مہرین کہو مجھے, نہیں ہو تمہاری بہن میں, نام لو میرا فہد کافی زیادہ زیر ہو چکا تھا

 فہد: میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کی نظر میں میری اب وہ پہلے والی  اہمیت نہیں رہی باجی

 

مہرین نے فہد کے پکڑے ہوئے گریبان کو ایک جھٹکا مار کہ چھوڑ دیا اور فہد کی بات کو سن کہ ٹیبل پہ کہنیاں ٹکائے سر کو ہتھیلیوں پہ ٹکا کہ افسردہ چہرے کو سوگوار انداز میں لے کہ بیٹھ گئی 

 

مہرین: اہمیت؟ فہد تم کو بھی اہمیت کا گلہ ہے؟ شاباش فہد, 

 کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد مہرین دوبارہ بول پڑی

 مہرین: فہد یاد ہے وہ بارش کی رات؟ میں آج بھی وہی مہرین ہوں, یاد ہے جب تمہارے لبوں کو چوم کہ دفتر کیلیے رخصت کیا تھا؟ میں آج بھی وہی مہرین ہوں, تم نے ایک رات میری سینے میں ہاتھ ڈالے تھے ,میں سونے کا بہانہ کرتی رہی, میں آج بھی وہ بہانہ کر سکتی ہوں, تم نے مہندی کی رات میرے ساتھ اتنا پیار دکھایا اور میں نے کچھ انکار نہیں کیا, فہد میں خود تمہارے پاس آتی رہی اور تم مجھے پیچھے دھکیلتے رہے

 

فہد: مہرین باجی میں پیچھے نہ دھکیلتا تو آپ اپنے شوہر کو سہاگ رات کس منہ سے اپنے کردار کی گواہی دیتی؟ 

 

مہرین: کونسا تمغہ مل گیا مجھے اس رات اپنی پاکیزگی کی گواہی دے کہ فہد؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میرا شوہر دودھ کا دھلا ہے؟ تمہیں لگتا ہے کہ وہ میرے جیسے ورجن لڑکی کی امید لگائے بیٹھا تھا ؟ 

فہد: باجی اسکی امیدیں تو بعد میں پتہ چلی آپکو

 

مہرین: سنو فہد!!! میرا شوہر مجھے صاف الفاظ میں اپنے ماضی کی رنگین یادوں کا بتا چکا ہے, اور اسکو ہر گز کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا اگر میں کسی کے ساتھ پہلے ہی رنگ رلیاں منا چکی ہوتی

 

فہد کا چہرہ حیرانی سے مہرین کی طرف ترچھا ہو گیا

 

فہد: باجی میں کس طرح آپکے ساتھ

 

مہرین: جس طرح حاجی انکل کا بیٹا اپنی بہن کے ساتھ کرتا تھا

  

 فہد: باجی نہیں ہمت تھی تب

 

مہرین: اب مجھ میں نہیں ہے

فہد: اب کیا ہو گیا ہے؟ 

مہرین: اب میرے شوہر نے میرے ساتھ اور میں نے اپنے شوہر کے ساتھ وفاداری کے عہدو پیمان کر لیے ہیں 

 مہرین نے یہ بات انتہائی اداس انداز میں کہی

 

 فہد: ٹھیک ہے باجی

 

مہرین: اب کہاں گئی وہ شادی سے پہلے میرے ساتھ کچھ بھی کرنے سے شرمانے والی فیلنگ؟

 

فہد: باجی میں اب بھی کچھ ویسا نہیں چاہتا آپ سے

مہرین: فہد؟

 فہد مہرین کے لہجے میں بدلاو کی وجہ سے مہرین کی طرف متوجہ ہو گیا 

 

مہرین: فہد سوچ سمجھ کہ بولنا, تم اب بھی ویسا کچھ نہیں چاہتے؟

 

فہد ایک تذبذب کا شکار ہو کہ خاموش ہو گیا کیونکہ وہ اب سب کچھ چاہتا تھا

 

مہرین نے فہد کا ہاتھ پکڑ کہ اپنی ایک چھاتی پہ رکھ لیا, فہد دوسری سمت منہ کیے ہوئے مہرین کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ چلنے دے رہا تھا اور کچھ دیر بعد مہرین نے فہد کا ہاتھ چھوڑ دیا مگر فہد کا ہاتھ مہرین کی ایک چھاتی پہ انگلیاں گاڑے ہوئے تھا,

 

مہرین نے اپنی کرسی کو سرکا کہ فہد کی کرسی کے عین پاس کر کہ فہد کے چہرے کو اپنی طرف گھما لیا اور فہد کسی لڑکی کی طرح نظریں جھکا کہ گردن مہرین کی طرف کر چکا تھا 

مہرین: فہد؟ اگر تم نے اب کوئی ڈرامہ کیا تو ہمیشہ کیلیے چلی جاؤنگی, اسے میری آخری آفر سمجھنا

کہ فہد سمجھ گیا مہرین کا لہجہ جتنا سخت ہے اتنا ہی اسکا ارادہ پختہ ہے

 

مہرین نے فہد کو گھما کہ اپنے ہونٹ فہد کے ہونٹوں سے ملا لیے اور آہستہ آہستہ فہد کے ہونٹوں کو چومنا شروع کیا فہد کا ہاتھ جو مہرین کی چھاتی سے مس ہی تھا, اس میں حرکت آنے لگی, فہد کا سر بھی اب مہرین کے لبوں کو چومتے چومتے ہلنے لگا 

 


مہرین کی زبان فہد کے منہ میں اور فہد کی زبان مہرین کے منہ میں غوطہ زن ہو کہ واپس ہو رہی تھی, فہد کا ہاتھ مہرین کی چھاتیاں اب اچھی طرح سیلا رہے تھے اور فہد کا ضبط مہرین کی نسبت زیادہ جواب دے چکا تھا اور اسکے دونوں ہاتھ مہرین کو گرفت میں لیتے, کبھی چھاتیاں سہلاتے اور کبھی کمر سے اسے پکڑ کہ اپنے اندر دبا لیتے مہرین مکمل طور پہ فہد کے قبضے میں اب بے بس ہو کہ بس ساتھ دے رہی تھی اور فہد قوی انداز میں اپنا آپ مہرین پہ چڑھاتا ہی جا رہی تھا

 

فہد کی اس قدر جارحانہ انداز میں محبت مہرین کو بہکاتی جا رہی تھی اور ایک لمحہ کیلیے مہرین فہد کو روکنا چاہ رہی تھی مگر فہد لا پرواہ انداز میں چومتا ہی جا رہا تھا۔ مہرین ایک لمحے کا وقفہ لینے میں کامیاب ہو گئی اور فہد کی طرف بنا مسکرائے دیکھ کہ بولی 

 مہرین: صبر کر لو میں ساری رات ادھر ہی ہوں, شادی کے بعد ہی تمہیں تحمل سے یہ سب کرنا آیگا, ایسے تو تم مجھے کھا جاؤ گے

 مہرین یہ بولتی بولتی فہد سے اپنا آپ آزاد کرا کہ کمرے سے باہر نکل گئی اور دس منٹ بعد جب واپس آئی تو اس نے وہی نائیٹ ڈریس پہنا ہوا تھا۔ مہرین اپنا چہرہ پانی سے دھو کہ آئی تھی گیلے چہرے کو تولیے سے صاف کر تی ہوئی بستر پہ آ کہ بیٹھ گئی۔ 

مہرین حالات کو ایک حتمیسمت کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو چکی تھی مگر اس موڑ کی قیمت اسے اب زیادہ لگ رہی تھی, شادی سے پہلے وہ اپنا آپ صرف اور صرف فہد کی ملکیت تصور کرتی تھی اور فہد اس ملکیت کو ہمیشہ ٹھکراتا ہی آ رہا تھا, مگر اب اس کی شادی ہو چکی تھی اور وقت کیساتھ مہرین کی۔وفاداری اب اپنے شوہر سے بھی منسلک ہو چکی تھی, فہد کے ساتھ مہرین کی ہمدردیاں ضرور تھیں لیکن وفاداریاں اپنے شوہر کے ساتھ ہی تھی. شوہر کی وفادار بیوی اپنی پہلی محبت کے سامنے آج دوبارہ سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرنے کیلے حاضر تھی, مہرین کے دل میں اب فہد کیلیے وہ پہلے والی طلب نہیں تھی اور یہ طلب کا ختم ہونا یا کم ہونا ایک فطری عمل تھا۔

 

مہرین بستر پہ اپنے نائیٹ ڈریس پہنے لیٹنے کے انداز میں بازو اوپر کو کر کہ سر پہ رکھ کہ بیٹھ گئی جسسے اسکی شرٹ کی قید سے پیٹ کا کچھ حصہ عریاں ہو کہ دودھ جیسا سفید جسم دکھا رہا تھا, بازوؤں کو اوپر اٹانے سے چھاتیاں ابھر کہ بے قابو ہو رہیں تھی اور مہرین مسکرا کی فہد کی طرف دیکھ رہی تھی

 

فہد دور کرسی پہ بیٹھا ماضی میں مہرین کی پیشکش ٹھکرانے کا افسوس کر رہا تھا اور اب دوبارہ سے اس موقعے کا مکمل فایدہ اٹھانے کیلیے پر عظم تھا

 

مہرین کے کہے بغیر فہد بستر کے پاوں والی سمت میں آ کہ مہرین کے صاف شفاف قدموں کے پاس آگیا اور اپنا آپ مہرین کےقدموں پہ جھکا کہ مہرین کے ابھی ابھی دھلے نیم گیلے قدموں کو چوم لیا

 

مہرین کے چہرے پہ فہد کی اس حرکت پہ ہنسی آ گئی اور اس نے فہد کو آگے بڑھ کی کھینچ کہ اپنے اوپر لیٹا کہ سینے سے لگا لیا 

 

مہرین: فہد تم میرے قدموں میں نہیں میرے دل میں اچھے لگتے ہو

 

فہد مہرین کے اوپر لیٹا کسی بچے کیطرح سکون محسوس کر رہا تھا فہد کے رخسار مہرین کی چھاتیوں سے جڑے ہوئے تھے اس نے اپنے چہرے کو وہیں سے مہرین کی چھاتیوں میں گاڑھ دیا اور اوپر سے ہی چومنے لگا ,مہرین فہد کے سر پہ ہاتھ رکھے اسے مزے لیتے رہنے دے رہی تھی, فہد وہیں سے مکمل طور پہ مہرین کے اوپر چڑھ گیا اور مہرین کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کہ ہونٹوں کو چومنے لگا, مہرین فہد کے نیچے اس کے ہونٹوں کو چوم رہی تھی اور فہد کا بے حال انداز اس کو پرانی یادوں میں کھینچتا ہی جا رہا تھا

 

فہد کا لن تن چکا تھا اور مہرین لن کی اس طرح کی چبھن کی اب عادی تھی, فہد جب چومتا چومتا پیٹ تک آتا تو واپسی پہ پیٹ کو ننگا کر جاتا مہرین مکمل طور پہ بہک چکی تھی اور اب شادی شدہ ہونے کیوجہ سے مہرین کی پھدی میں سینسر تیزی سے اسے بھگونے لگے تھے,

 

فہد نے بنا اجازت مہرین کو گرم جوشی سے چومتے ہوئے سلیپنگ سوٹ کی شرٹ کے بٹنز کو کھولنا شروع کیا اور ایک منٹ کے اندر اندر سارے بٹن کھل کہ چھاتی کو عریاں کر چکے تھے, اور فہد کے سامنے ناف سمیت سارا پیٹ چومنے چاٹنے اور کاٹنے کیلیے حاضر خدمت تھا

 

مہرین فہد کو دبا دبا کہ جسم کا مزہ چکھا رہی تھی, اور یہ ذائقہ فہد کیلیے ہر گز نیا نہ تھا بس فرق صرف اتنا تھا کہ اتنے سالوں میں مہرین کی جسمانی پیچ و خم کئی گنا دلکش کو چکی تھی، 

مہرین کی بے بسی کی انتہا ہو چکی تھی اور اب اس کی ٹانگوں کے درمیان سوراخ کسی طاقتور لن کی ایک سرسائز کروانا چاہ رہا تھا۔

 

مہرین فہد کے لن کی لمبائی سے ہر گز انجان نہ تھی, اور اپنے شوہر کے لن سے۔سہاگ رات پہ ہی ایک تقابلی منظر کشی کر چکی تھی, مہرین کا محتاط اندازہ یہ تھا کہ ہو نہ ہو فہد کا لن اسکے شوہر کے لن سے بڑا ہی ہے اور اسکا یہ اندازہ اب درست یا غلط ثابت ہونا تھا۔ مہرین ننگے بدن کے ساتھ فہد کو چومتے ہوئے نیچے کر کہ خود اوپر آ گئی اور جلد جلدی اپنے آپ کو شرٹ کی قید سے مکمل آزاد کروانے کے بعد ٹانگیں پھیلا کہ فہد کے پیٹ پہ پورے وزن کہ ساتھ بیٹھ۔گئی۔۔۔۔ بیٹھ کہ مہرین نے ایک شیطانی مسکراہٹ دے کہ دونوں ہاتھوں کی مدد سے اپنے لمبے اور گھنے بالوں کو سمیٹنے کیلیے بازوؤں کو اٹھا کہ اپنی چھاتیوں جھٹکے سے ہلا کہ ہنسنے لگی۔ فہد مکمل طور پہ صبر ختم کر چکا تھا اور اٹھ کہ چومنے لگا تو مہرین کے ہنس کہ اسے رکنے کا کہا 

 مہرین: صبر کر لو بال سمیٹ لوں ذرا

 

فہد بے صبری سے چھاتیاں نوچنے لگا, تجربے اور عمر میں زیادہ ہونے کی وجہ سے مہرین کو فہد کی اس بے صبری پہ پیار آیا اور وہ جلدی جلدی بالوں کو سمیٹ کہ فہد کی شرٹ کو سمیٹ کہ اوپر اٹھا کہ فہد کے سینے کو چومنے لگی اور دانتوں سے اس کے نپلز کو کاٹنے لگی

 

فہد کا سارا سینا ننگا تھا اور ناف سے کافی نیچے تک جسم بظر آ رہا تھا۔ مہرین نے سخت لن کو اپنے وزن میں لے کہ مسلنا روکا اور اتر کہ فہد کا لن ٹراؤزر سے باہر نکال لیا, اور لن کو پکڑ کہ اس کے ساتھ ایک پیار بھرا کھیل شروع کر دیا اور ایک دو بار لن کا بوسہ بھی لے لیا

 

فہد بے بس حالت میں اپنے لن کو پکڑ کہ مسلنے لگتا تو شرارتی مہرین فہد کے ہاتھوں کو جھٹک دیتی, گویا وہ فہد کو یہ جتلانا چاہ رہی ہو کہ اسوقت یہ لن اسکے استعمال میں ہے لٰہٰذا مہرین کو اسکی مرضی کرنے دی جائے ۔

فہد آنہیں بھرتا مہرین سے لطف اندوز لمحات کا متلاشی تھا, اور یقیناً مہرین فہد کے مزے کو دوبالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی

 

مہرین نے لن کو آہستہ آہستہ سہلانا شروع کیا تو فہد کی بے بسی سے آنہیں بلند ہو رہی تھی۔ فہد کے ذہن میں مہندی والی رات کا خواب گھومنے لگا۔

 

فہد کو ایسا لگنے لگا کہ جیسے یہ وہی خواب ہی ہے جو دہرایا جا رہا ہے 



جاری ہے



Post a Comment

0 Comments