گرم بھائی بہن
قسط 10
فہد کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں تھا اسلیے بس وہ ہڑبڑائے انداز میں بے معنی باتیں کرتا جا رہا تھا. مہرین سمجھ رہی تھی کہ فہد بہک رہا ہے اور وہ مہرین کے ساتھ کچھ یادگار محبت بھرے پل گزارنا چاہتا ہے اسلیے مہرین اپنے بھائی کی طرف بڑھی لیکن فہد کا صدمہ مہرین کے علم میں نہیں تھا
فہد اپنے احتلام سے بھرے ٹراؤزر کو مہرین سے چھپاتا چھپاتا, مہرین کو حیرت زدہ چھوڑ کہ وہاں سے نکل گیا اور واش روم میں جا کہ نہانے لگا
مہرین اپنے بھائی کی دست درازی سے پریشان تو قطعی نہیں تھی اور نہ کبھی یہ اسے برا لگا تھا مگر آج فہد کا مہرین پہ ہاتھ کچھ زیادہ ہی چل گیا تھا اور جب مہرین نے فہد کو اپنے قریب کرنا چاہا تو فہد وہاں سے نکل گیا
فہد دن میں مہمانوں کی آمد سے پہلے تمام انتظامات پورے کرنے میں لگ گیا اور مہرین بھی صبح والے واقعے کی حقیقت سے انجان اپنی شادی کی خوشی میں پھولے نہ سما رہی تھی
مہندی کا دن مہمانوں کی خاطر تواضع میں گزر گیا, اگلے روز بارات آئی اور مہرین اپنے بھائی اور ماں سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئی, مہرین کی رخصتی کا منظر انتہائی جذباتی تھا,بہن بھائی کا پیار اور ماں کی محبت دیکھ کہ تمام حاضرین اپنے آنسووں پہ قابو نہ رکھ سکے, مہرین بالآخر اپنے شوہر کے گھر سہاگ رات والے کمرے میں بیٹھی بس بھائی بھائی کرتی جا رہی تھی, مہرین کا شوہر نے اپنا حقِّ زوجیت ادا کیا اور مہرین اپنے شوہر کے سامنے اپنے کردار کی پاکیزگی کا ثبوت دیتے ہوئے ہوئی لڑکی سے عورت بن چکی تھی
مہرین اپنے پہلے پیار کو بھول کہ اپنے شوہر کی بانہوں میں برہنہ لیٹی اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کاش اس بستر پہ فہد ہوتا لیکن مہرین کی یہ خواہش پوری ہی نہ ہو سکی پہلے سیکس کی تکلیف اور مزے کے تمام انکشافات مہرین کے لئے اب تجربہ
بن چکے تھے, دوسری جانب رخصتی کے بعد فہد اپنی بوڑھی ماں کا آخری سہارا ساری رات اپنی بہن مہرین کیلیے روتا رہا,فہد جانتا تھا کہ گزشتہ رات جس خواب کو وہ دیکھ رہا تھا اس وقت مہرین کا شوہر اسے عملی جامہ پہنا رہا ہوگا, فہد کے آنسو صرف خوشی کے تو ہر گز نہ تھے, بلکہ وہ تو اپنی بہن کے روپ میں اپنی بہترین دوست کو الوداع کر چکا تھا
جس سے وہ روزانہ رات کو اپنے دن کی تمام پریشانیاں بھلا کہ, دل کی باتیں۔سنایا کرتا تھا, دونوں جانب بس ایک دوسرے کے خیالات ہیچل رہے تھے, مہرین فہد کے خیالوں میں تھی اور فہد مہرین کے لیے تڑپ رہا تھا, مگر دونوں بے بس ہو کہ جدا ہو چکے تھے
ولیمہ کیلیے فہد اور اسکی امی مہرین کے گھر پہنچے ,تو مہرین اپنی امی اور بھائی سے مل کہ بہت جذباتی ہو گئی, فہد اور مہرین کی ایک دوسرے کیلیے محبت کسی آنکھ سے نہ چھپ سکی اور وہاں موجود ہر بہن بھائی فہد اور مہرین کی محبت پہ رشک کر رہے تھے
مہرین فہد کو دیکھتے ہی اسکی آنکھوں سے اسکی گزشتہ رات کا احوال سمجھ گئی اور اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہیں فہد کی آنکھوں کے بوسے لے لے مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور ہمیشہ کی طرح ضبط کر گئی
رسم کے مطابق مہرین اپنے شوہر کو لے کہ اپنی امی اور بھائی کے گھر واپس آگئی, اب مہرین اپنے بھائی کے گھر میں اپنے شوہر کیساتھ مہمان بن کہ آئی تھی, فہد نے نوبیاہتا جوڑے کے لئے پر تکلف انتظامات کر رکھے تھے اور ایک رات اور ایک دن گزار کہ مہرین اپنے شوہر کے ساتھ واپس چلی گئی
مہرین کی اپنے شوہر کے ساتھ بے تکلفی فہد دیکھ کہ بہت خوش ہوا
مہرین اور اسکے شوہر کی جوڑی کمال سج رہی تھی اور وہ دونوں اب فہد کی شادی کی بات چلانا چاہ رہے تھے مگر فہد ابھی شادی کی بات پہ صاف انکار کرتا جا رہا تھا, صرف مہرین ہی فہد کے انکار کی اصل وجہ جانتی تھی
شادی کی گہما گہمی اب ختم ہو چکی تھی, فہد ایک دو روز بعد واپس ڈیوٹی پہ پہنچا اور پیچھے امی کی فکر اسے ستائے رکھتی, مگر صبح کو جا کہ شام کو واپسی فہد کی امی کیلیے پریشانی کا باعث بن رہی تھی
مہرین کی شادی کو گزرے ہوئے تین ماہ ہو چکے تھے اور اب فہد کی مشکلات اپنے عروج پہ پہنچ رہی تھی, تنخواہ کا کثیر حصہ فہد قرضوں اور کمیٹیوں کی شکل میں ادا کر دیتا اور بعد میں سارا مہینہ شدید تنگ دستی کا شکار رہتا, اب تو حالات یہ آگئے تھے کہ فہد کم کرایہ والا مکان ڈھونڈنے لگا تھا مگر اس سے کم کرایہ والا گھر کوئی ہوتا تو ملتا. فہد اب پارٹ ٹائم جاب بھی تلاش کر رہا تھا کیونکہ اسکے لیے اتنی تنخواہ میں گھر کے اخراجات اور قرضوں کو سنبھالنا ناممکن ہو رہا تھا تین ماہ میں مہرین بمشکل ایک دو دن اپنی ماں اور بھائی سے آ کہ مل سکی کیونکہ اسکا شوہر زیادہ تر شہر سے باہر رہتا اور وہ اپنے جیٹھ جیٹھانی کے رحم وکرم پہ وقت گزار رہی تھی, اسکا شوہر اسے الگ گھر کی آس دلا کہ گھر میں ہونے والی ناانصافی اور لڑائی کو وقتی طور پہ ختم کر دیتا مگر حقیقت یہ تھی کہ مہرین جیسی مدھم مزاج لڑکی کا ایسے فتنہ پسند لوگوں میں گزارا نا ممکن ہو چکا تھا
مہرین کے شوہر کو ٹریننگ کے سلسلے میں بیرون ملک جانے کا موقع ملا جہاں اسے ایک ماہ تک رہنا پڑنا تھا, مہرین کی پر زور ضد پہ اسکے شوہر نے مہرین کو اسکی امی کے گھر چھوڑنے کا وعدہ کیا اور وعدہ کو وفا کرنے کیلیے مہرین کو فلائیٹ والے دن لے کہ روانہ ہو گیا
مہرین کپڑوں سے بھرا بیگ لے کہ اپنے شوہر کے ہمراہ فہد کے گھر آگئی, مہرین کی امی نے ہمسائے کے بچے کو بلا کہ پانی وغیرہ کا انتظام کیا اور پی ٹی سی ایل کے ذریعہ فہد کو مہرین کی اچانک آمد کی خبر پہنچا دی گئی, مہرین کا شوہر بس کچھ دیر رکا اور اپنی فلائیٹ کیلیے رخصت ہو گیا
جب فہد کو دفتر میں مہرین باجی کی اچانک آمد کا پتہچلا تو وہ اپنے افسر سے جلدی گھر جانے کی اجازت لے کہ بھاگتا ہوا گھر آگیا فہد کے خراب مالی حالات کا اندازہ مہرین فہد کی آمد سے قبل ہی لگا چکی تھی کیونکہ کچن میں موجود راشن کے آدھے آدھے اور زیادہ تر خالی ڈبے گواہی دے رہے تھے کہ فہد اب پہلے کی طرح راشن پورا نہیں کر پا رہا, فہد کی امی بھی بڑی سادگی سے مہرین کو تمام معلومات دے رہی تھی جس سے مہرین کا دل ڈوب رہا تھا, اپنے بھائی کی قسم پرسی کیوجہ اپنے آپ کو سمجھنے لگی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ جس طرح فہد نے مہرین کی شادی کےانتظامات کیے تھے اس کی وجہ سے وہ مقروض ہو چکا ہے
فہد کسی دوست سے کچھ پیسے لے کہ گھر کا سامان بھی ساتھ ہی لے آیا ، فہد جب گھر میں داخل ہوا تو مہرین تیز قدموں سے صحن میں ٹہلتے ہوئےاپنے بھائی کا بیتابی سے انتظار کر رہی تھی, فہد اور مہرین ایک دوسرے کو دیکھ کہ فوراً گلے لگ گئے
جس سکون کو مہرین اپنے شوہر کیساتھ بستر میں ہر رات ڈھونڈتی تھی وہ اسے فہد کی بانہوں سے مل رہا تھا, فہد اور مہرین ایک دوسرے کے گلے لگے رو رہے تھے, مہرین اپنے بھائی کے چہرے کے بوسے لے رہی تھی, دونوں اندر آگئے اور اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کہ دکھ سکھ سانجھے کرنے لگے
فہد اور مہرین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور جب فہد کو پتہ چلا کہ مہرین باجی ایک مہینہ اب یہاں رہیں گی تو اسکو یقین نہیں آرہا تھا, فہد مہرین کی اس طرح آمد پہ خوش تو تھا مگر ایک چیز اسے اندر ہی اندر ستائے جا رہی تھی وہ بات یہ تھی کہ اس کے خراب مالی حالات میں مہرین اچانک آجانا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے, بہر حال اب تو فہد کو کچھ کرنا ہی پڑنا تھا۔
فہد اور مہرین کے درمیان ایک آنکھ مچولی چل رہی تھی, شادی کے بعد مہرین کی خوبصورتی کو چار چاند لگ چکے تھے جس کو فہد آنکھ چرا چرا کہ دیکھتا جا رہا تھا, فہد شادی کے بعد اپنے چہرے کی رونق ہی کھو چکا تھا. مہرین اپنی بھائی کی حالت دیکھ کہ اندر ہی اندر سے کُڑھ رہی تھی
رات کو کھانا کھا کہ مہرین اور فہد اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے فہد کے کمرے میں آ گئے. اس کمرے میں آج بھی سب کچھ ویسا ہی تھا ہر چیز اسی ترتیب سے پڑی تھی. مہرین کے ہاتھوں کی چوڑیوں کی کھنک, اس کے جسم پہ سرخ رنگ کا جوڑا, ہاتھوں پہ مہندی، چہرے پہ میک اپ کہ ایک ہلکی سی تہہ, اور پاؤں میں پائل کی کی آواز, یہ سب مہرین کی قاتلانہ خوبصورتی فہد کی آنکھیں چندھیا رہی تھی
فہد کے چہرے کی مانند پڑ چکی رنگت, آنکھوں کے گرد ہلکے اسکی پریشانی کا چیح چیخ کہ اعلان کر رہے تھے, مگر وہ اپنے چہرے کی بناوٹی مسکراہٹ سے یہ سب چھپانا چاہ رہا تھا .
فہد اور مہرین کچھ دیر باتیں کرتے رہے ,مہرین نے فہد کو اپنے سسرال کے قصے سنا کہ ہنسا ہنسا کہ پاگل کر دیا تھا, انکے بلند قہقہے رات کے اس پہر کمرے میں گونج رہے تھے .
فہد: باجی سونا نہیں آج؟
مہرین: ہاں ہاں سو جاتے ہیں تم لیٹو میں تمہارے سر میں تیل لگا کہ مالش کر دیتی ہوں, بالوں کا کیا حال کر لیا ہے, اتنا سا کام انسان خود بھی کر سکتا ہے, اب میں وہا سے آ کہ تو تمہارا خیال نہیں رکھ سکتی بھائی
فہد نے مہرین کا ہاتھ پکڑ کہ چوم لیا
فہد: باجی بس آپ کے بعد میرا خیال کس نے رکھنا تھا
مہرین اٹھ کہ تیل لینے چلی گئی اور فہد وہیں بیٹھا مہرین کا انتظار کرنے لگا، کچھ دیر بعد مہرین کمرے میں واپس آئی اور اب جو آئی تو یہ روپ فہد آنکھیں پھاڑ کہ دیکھنے لگ گیا, مہرین شادی کے بعد کپڑے جوتے, کھانے پینے غرض کہ ہر لحاظ سے بہتر ہو چکی تھی, اس نے نائیٹ ڈریس پہنا ہو تھا جو کہ عموماً اس طبقے کے لوگ تو نہیں پہنتے, نیلی اور سیاہ ڈبی دار, نرم کاٹن سے سلا ہوا کسی برانڈ کا نائیٹ ڈریس, ٹراؤزر اور شرٹ ,جسکے سامنے والے حصے بٹن سے بند اور کھلتے ہیں, مہرین کے جسم کو عیاں کر رہیے تھے, مہرین کی گانڈ اور چھاتیاں اپنی گولائی کی بہت اچھی شکل پیش کر رہی تھی, مہرین ایک تیل والی بوتل لیے دروازے میں کھڑی فہد کی اس حیرانی سے دیکھنے والے انداز پہ ہنس رہی تھی, مہرین فہد کو اپنا نیا روپ ایسے دکھا رہی تھی جیسے بچپن میں بچے اپنے کسی نئے جوڑے کو پہن کہ اپنے ہمجولی کو دکھا رہے ہوتے ہیں
مہرین نے جھول کہ ایک شرم والے انداز میں فہد کو مخاطب کیا, اسوقت مہرین کے چہرے پہ نہ رکنے والی مسکراہٹ تھی
مہرین: کیسی لگ رہی ہوں؟
فہد: واہ باجی, آپ کے تو بڑے ٹھاٹھ باٹھ ہیں اب تو
مہرین بڑی تیزی سے آگے بڑھ کہ شرمانے لگی
مہرین: تمہارے بہنوئی نے ہی یہ کپڑے پہن کہ سونے کی عادت بنائی ہے, انکی بھابھی بھی ایسا ہی سلیپنگ ڈریس پہن کہ سوتی ہیں, اور انسان اس میں بہت سکون سے سوتا ہے
مہرین اس ڈریس کے فوائد بتاتے بتاتے فہد کی پشت کی جانب آ کہ بیٹھ گئی اور بولتے بولتے فہد کے سر کو تیل لگا کہ مالش کرتی جا رہی تھی, فہد بھی سنتا جا رہا تھا, مہرین نے اپنے بھائی کے بالوں کو تیل لگا کہ اچھے سے مالش کی اور اس دوران مہرین فہد کے ساتھ کافی نزدیک تھی مگر ایک چیز جسکی کمی صرف فہد محسوس کر رہا تھا وہ کمی مہرین کی طرف سے ایک ان چاہا فاصلہ برقرار رکھنے کی تھی, فہد مہرین کے چھاتیاں اپنی کمر پہ لگنے کی امید کر رہا تھا مگر مہرین نے ایک بار بھی فاصلہ کم نہیں کیا جس سے فہد کے ذہن میں کچھ سوالات جنم لینے لگے, کچھ دیر بعد مہرین وہیں بستر پہ نڈھال ہو کہ گر گئی, مہرین جب لیٹی تو فہد کے دل میں ایک سوال تھا جسے وہ ڈرتے ہوئے مہرین سے پوچھ نہیں پا رہا تھا
فہد کو سارے دن میں اتنا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ مہرین کا شوہر ایک بہت محبت کرنیوالا اور بھلا انسان ہے, مہرین کی وفاداریاں بھی اب اپنے شوہر کے ساتھ ہیں, اب ایسے میں مہرین کے ساتھ ماضی والے تعلقات کی دوبارہ بحالی مہرین کو اچھی لگے گی یا بری؟ تب مہرین کسی اور کیلیے اس قدر وفادار نہیں تھی لیکن اب اگر فہد اپنی بہن کے ساتھ ایک ہی بستر میں سونے کی کوشش کرے گا تو کہیں مہرین اسے منع نہ کر دے اور ایسی صورت میں شاید فہد یہ برداشت نہ کر پاتا
دوسری جانب مہرین کی دماغی کیفیت اسطرح کے سوالوں سے بے ہنگم تھی, ایک طرف اسکی پہلی محبت اسکا سگا بھائی, جس کے لیے وہ دنیا کی ہر چیز قربان کر سکتی تھی اور دوسری طرف اپنے شوہر کی وفاداری کا بھرم بھی اسکا دل بھاری کر رہا تھا, کیسے وہ فہد کو دوبارہ وہ سب کچھ دے دیتی جس پہ کسی اور کا حق ہے
مہرین جب اسی بستر پہ لیٹی تو سیدھا لیٹنے کی وجہ سے اسکی بڑی بڑی چھاتیاں اپنی اونچائی پہ تھیں, فہد نے ایک نظر اپنی بہن کو دیکھا اور ایک بار اسکی چھاتیوں کو دیکھ کہ نظر اسلیے ہٹا لی کیونکہ جس وقت وہ مہرین کی چھاتیوں کو دیکھ رہا تھا اور مہرین اسکی نظروں کا تعاقب کر رہی تھی تو فہد کو آج پہلی بار مہرین کی نظروں میں ایک عجیب سی شرمندگی دکھائی دی, نہ ہی مہرین نے کوئی ایسا لفظ منہ سے نکالا اور نہ ہی اپنے جسم کو ڈھکنے کی کوشش کی, مگر فہد ایک سرد سی مسکراہٹ دے کہدوسری سمت چہرہ پھیر چکا تھا
مہرین اور فہد جس دوراہے پہ اتنا سفر طہ کر کہ بہت ساری حدیں پار کر چکے تھے آج وقت نے انکو دوبارہ کہیں پیچھے دھکیل دیا تھا,
شاید مہرین کا ایسا برتاو فہد کے ساتھ ایک ناراضگی کا اظہار بھی تھا, مہرین کے دل کے کسی کونے میں یہ گلہ بھی تھا کہ شادی سے پہلے اتنی بار فہد کو اپنا جسم پیش کیا اور فہد نے ہمیشہ اسے ٹھکرا دیا, اور آج فہد کیطرف سے اس طلب کی ایک نظر بھی اب مہرین کو گوارا نہیں
فہد: باجی آپ جا کہ امی کے پاس سو جائیں
مہرین: ہاں چلی جاتی ہوں
دونوں بہن بھائی موقع کی نزاکت کو سمجھ کہ ایک دوسرے کو دور رہنے کا اشارہ دے چکے مگر اندر ہی اندر دونوں دوبارہ اس محبت کو زندہ کرنا چاہتے تھے لیکن پہل کر کہ ہلکے سے بھی انکار کی صورت میں, شرمندگی کی اذیت ناقابل برداشت ثابت ہونی تھی
دونوں کے لہجوں میں اداسی تھی اور فہد نے اپنی تمام تر ہمت یکجا کر کہ لیٹی ہوئی اپنی بہن کو چومنے کی نیت سے واپس پلٹ کہ اپنا آپ مہرین کے قریب کرنے لگا تو مہرین اس کوشش سے بے خبر اٹھ کہ بیٹھ چکی تھی, یہ کچھ لمحوں کی چوک فہد کے حوصلے کو پست کر چکی تھی, مہرین فہد کو اپنے گلے سے چپکا کہ چومنے کیلیے بیتاب تھی مگر اس میں بھی وہ ہمت نہیں ہو رہی تھی نظریں جھکاۓ مہرین کمرے سے نکلنے کیلیے بستر کی دوسری سمت سے گھوم کہ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی تو مہرین نے ہمت کا مظاہرہ کیا
مہرین دوسری سمت منہ کیے ہوئے اپنے بھائی کو پیچھے سے گلے لگانے کی کوشش کی تو فہد مہرین کی اس کوشش سے انجان نیچے ہو کہ بستر درست کرنے لگا
مہرین کی ہمت بھی ٹوٹ گئی اور وہ بنا فہد کو چومے کمرے سے نکل گئی مہرین اور فہد دونوں اپنی اپنی کوششوں کو لمحوں کی چوک سے ناکام ہونے کا دکھ دل میں لیے اپنے اپنے بستر پہ جا کہ لیٹ گئے, نہ ہی مہرین جانتی تھی کہ فہد اسے چومنے کیلیے آگے بڑھا تھا اور نہ ہی فہد جانتا تھا کہ جب وہ بستر درست کرنے کیلیے بیٹھا تھا تب مہرین اسے بانہوں میں بھرنے لگی تھی
جاری ہے
0 Comments