گرم بہن بھائی
قسط 24
فہد دفتر سے کچھ زیادہ ہی لیٹ ہو چکا تھا عموما ً وہ اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچ جایا کرتا مگر آج تو حد ہی ہو گئی اب تو اندھیرا ہو چکا تھا لیکن فہد کی کوئی خیر خبر نہیں تھی مہرین پریشانی کے عالم میں گیٹ کے پاس لان میں اپنے بچے کو لیے ٹہل رہی تھی، مہرین کے دل میں طرح طرح کے وہم گھر کر رہے تھے کہ اچانک ڈوربیل بجی مہرین لپک کہ گیٹ کو پہنچی پریشانی کے عالم میں ہڑبڑائے ہوئے انداز میں جیسے ہی گیٹ کھلا تو آگے سے حاجی عاشق کا بیٹا وسیم اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کھڑا تھا، مہرین کے چہرے پہ پریشانی کے آثار صاف نظر آرہے تھے، مہرین نے سلام کر کہ انہیں اندر بلالیا اور وسیم اور زیبا حیران انداز میں گھر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کہ دیکھتے ہوئے اندر داخل ہو گئے، مہرین گیٹ میں ہی رک کہ گلی میں نظریں دوڑانے لگی مگر فہد کہیں نظر نہ آیا، مہرین فہد کے انتظار میں گیٹ پہ ہی کچھ لمحے رکی رہی تو وسیم اور زیبا کو احساس ہو گیا کہ مہرین کسی طرح کی پریشانی کا شکار ہے، زیبا کے پوچھنے پہ بلآآخر مہرین نے انکو بتا دیا کہ فہد آج زیادہ لیٹ ہو گیا ہے، عموما ً اتنا دیر سے آتا نہیں تو زیبا مہرین کو تسلی دینے لگی مگر مہرین کے دل کو کسی صورت تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
اندر آ کہ مہرین نے انکو چائے پانی پوچھا مگر مہرین کے شدید پریشانی کو دیکھتے ہوئے وسیم نے فہد کے دفتر چکر لگانے کا فیصلہ کیا، مہرین کیلیے ہر گزرتا لمحہ قیامت سے بھی سخت ہو رہا تھا، وسیم اور زیبا مہرین کو تسلیاں دیتے جا رہے تھے کہ فہد سمجھدار ہے کسی وجہ سے لیٹ ہوا ہو گا مگر مہرین کے آنسو نکلنے پہ وہ دونوں مہرین کے فہد کے تئیں اسقدر حساس رویے پہ حیران ہی ہو گئے اور بلاآخر مہرین کے پرزور اسرار پہ وسیم بھائی زیبا اور مہرین کے ہمراہ فہد کا پتہ کرنے کیلیے گیٹ تک آ گئے، مہرین روتے روتے وسیم کو ایڈریس وغیرہ سمجھانے لگی اور گیٹ تک زیبا مہرین کو تسلیاں دیتی آئی، گیٹ پہ آ کہ وسیم نے زیبا کو مہرین کا دھیان رکھنے کا کہہ کہ قدم گھر سے باہر نکالے اور مہرین کی ہدایات کے مطابق فہد کی تلاش میں چلنا شروع کیا، ادھر گھر میں زیبا مہرین کے آنسو پونچھتے ہوئے تسلیاں دینے لگی، تقریبا ً بیس منٹ بعد ڈور بیل بجی تو رو رو کہ نڈھال مہرین گیٹ کی طرف دوڑی زیبا مہرین کے نقش قدم پہ اسکے پیچھے چل پڑی بجلی کی تیزی سے مہرین نے گیٹ کھولا تو آگے فہد کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کہ مہرین فہد کے گلے لگ گئی،
وسیم فہد کے پیچھے کھڑا یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا، زیبا نے جب یہ منظر دیکھا تو مہرین اور فہد کو اندر آنے کا کہنے لگی، مہرین نے روتے ہوئے فہد کے سینے سے لگ کی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی اور فہد مہرین کو اپنے لیٹ ہونے کی وجوہات بتاتے بتاتے سینے سے لگائے اندر لے آیا، وسیم بھائی کسی ہیرو کی طرح اپنے مشن سے کامیاب لوٹنے پہ سینہ چوڑا کر کہ اپنے ایک بچے کو گود میں لیے بیٹھ گئے، مہرین اندر آتے آتے رو رو کہ اپنا بے حال کر چکی تھی، فہد مہرین کے اس رویے پہ وسیم اور زیبا کے سامنے شرمندہ ہو رہا تھا، حالات عمومی سطح پہ آئے تو مہرین نے وسیم بھائی کا شکریہ ادا کیا اور فہد حیران ہو کہ یہ سوچنے لگا کہ وسیم بھائی تو بس راستے میں ملے تھے، انہوں نے ایسا کونسا کام کیا جس کی وجہ سے انکا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے مگر فی الحال یہ موقع ایسی کسی تصحیح کا نہیں تھا اسلیے فہد بھی مہرین کی ہاں میں ہاں ملا کہ وسیم اور زیبا کا شکریہ ادا کرنے لگا، بہن اور بھائی کی کچھ لمحات کی جدائی کے بعد کی ملاقات ایسے لگ رہی تھی جیسے کہ وہ برسوں بعد ایک دوسرے کو ملے ہوں، مہرین نے وسیم اور زیبا سے کھانے کا پوچھا تو فہد نے ان کے مروت بھرے جواب کے بعد مہرین کو کھانہ لگانے کا کہا، مہرین کچن میں کھانے کا انتظام کرنے چلی گئی تو وسیم کے حکم پہ کچھ دیر بعد زیبا بھی مہرین کا ہاتھ بٹانے کچن میں پہنچ گئی کھانا ٹیبل پہ لگنے لگا اور وسیم فہد کے ساتھ سیاست اور حالات حاضرہ پہ بات کرنے لگا،
زیبا اور مہرین نے کھانا لگا کہ دونوں کو گفتگو روک کہ کھانا کھانے کا مشورہ دیا اور اب دوخواتین کی موجودگی میں کھانے کے ساتھ گھریلو معامالت ڈسکس ہونے لگے۔
زیبا؛ مہرین فہد کی شادی کر دو، دیکھنا جلدی آیا کرے گا، یہ جتنا لاپرواہ ہے اس پہ کوئی ذمہ داری آئے گی تو خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔
مہرین اور فہد نے شادی والی بات پہ ایک دوسرے کی نظروں سے نظریں ملا کی گزشتہ دو دن کے سہاگ رات والے لمحات کو یاد کر کہ زیبا کی لاعلمی پہ ہنس دیا، فہد کو لاپرواہ کہنے پہ مہرین نے فورا ً زیبا کو ٹوک دیا۔
مہرین؛ نہیں نہیں زیبا بھابی، میرا بھائی لاپرواہ بالکل بھی نہیں ہے بلکہ جب سے میرے شوہر گئے ہیں مجھے اور ہماری مرحوم امی کو اسی نے ہی سنبھالا ہے، لاپرواہ ہوتا تو بچپن سے لے کہ اب تک کس کی سرپرستی کے بغیر ہمیں کس نے سنبھالنا تھا۔
وسیم؛ ہاں زیبا فہد لاپرواہ تو واقعی نہیں ہے، بچپن سے اسے دیکھتا آ رہا ہوں کبھی بھی لیٹ نہیں ہوا بلکہ عین وقت پہ گھر آ جاتا تھا لیکن مہرین بیٹا اسکی شادی تو کرنی ہی ہے، چلو تمہارا بھی کوئی ساتھ ہوجائے گا جو دن میں تمہیں کمپنی دے
مہرین؛ جی وسیم بھائی اسکو بڑی مشکل سے منایا ہے میں نے، رشتے دیکھے ہیں ایک دو اب میرے شوہر آئینگے تو کسی نہ کسی جگہ اسکی ہاں کر کہ دو جوڑوں میں لڑکی لے آنی ہے۔
فہد؛ باجی؟ بھول گئی میرا وعدہ؟ میں نے ایک سال کا وقت مانگا ہے، اور آپ رشتہ پکا کر کہ لڑکی لانے کی بات کر رہی ہیں اب؟
زیبا؛ کوئی حرج نہیں فہد خیر سے جوان ہو شادی کے قابل ہو شادی کرو اور بچے پیدا کرو کب تک ایسے بہن کو پریشان کرتے رہو گے؟
مہرین اور فہد نے آنکھوں آنکھوں میں زیبا کے تیور کو سمجھنے کی کوشش کی وہ دونوں یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ زیبا بھابی کی ایسی طنزیہ باتوں میں کہیں حسد تو نہیں؟ مگر وقتی طور پہ مہرین سے رہا نہ گیا اور اس نے زیبا کی بات کا جواب دیا۔
مہرین؛ زیبا بھابی جوان ہے میرا بھائی بظاہر اپنی عمر سے زیادہ دکھتا ہے ورنہ ہے تو ابھی صرف بائیس تئیس سال کا ہی شادی تو اسکی کرنی ہی۔کرنی ہے، لیکن میں اسکی شادی کسی تنگی کی وجہ سے جلد نہیں کرنا چاہ رہی، میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ اسکی بیوی آجائے گی تو اسکو بھی ازدواجی زندگی کے مزے ملیں باقی اسکی مرضی ہے جب شادی کا کہے میں کوئی حور پری کا رشتہ ڈھونڈ کہ لاونگی اپنے بھائی کیلیے۔
کھانے کھاتے ہوئے مہرین نے اپنی بات مکمل کر کی روٹی کو ایک طرف رکھ کہ فہد کے سر کو پاس کر کہ پیار سے بازو میں گھیر لیا اور پیار کرکے کھانا کھانے لگی، کچھ دیر بعد کھانا ختم ہو گیا اور مہرین اور زیبا برتن سمیٹنے لگے، وسیم سیگریٹ کی ڈبی نکال کہ فہد کو باہر لان میں لے گیا، وسیم نے سگریٹ پیتے پیتے فہد سے مالی مشکالت کی اشاراۃً بات کی فہد نے تسلی وغیرہ دے کہ وسیم کو کچھ مشورے دیے اور کچھ دیر بعد وہ وہاں سے رخصت ہو گئے، مہرین اور فہد انکو رخصت کر کہ واپس صحن نما حال میں صوفوں پہ بیٹھ گئے، فہد اور مہرین کی گفتگو کا مرکز اب وسیم اور اسکی بیوی بچے تھے، مہرین نے فہد کو بتایا کہ وسیم کی بہن جسکا وسیم کے ساتھ جسمانی تعلقات تھے وہ زیبا کے بھائی سے بیاہی گئی ہے، یعنی وسیم اور سعدیہ کا رشتہ وٹَہ سٹَہ میں ہوا تھا، وسیم کے مالی حالات اخراجات کو پورا نہیں کر پا رہے اسلیے زیبا نے دبے دبے الفاظ میں مہرین کو گھر کے کام کرنے کی درخواست بھی کی ہے جس پہ مہرین نے کوئی مناسب جواب نہیں دیا اور زیبا کو ایک دو دن بعد آنے کا کہا ہے، فہد یہ سن کہ حیران ہوگیا اور مہرین کو اپنے اور وسیم کے درمیان ہوئی باتیں بتانے لگا، باتوں باتوں کے دوران مہرین نے اپنے بچے کو دودھ پلا کہ سلا دیا اور اسے جا کہ گہوارے میں لٹا آئی فہد اور مہرین زیبا کی اپنے گھر میں ملازمت کولے کہ کسی حتمی نتیجے پہ نہیں پہنچ رہے تھے اسلیے مہرین نے فہد کو اپنے شوہر سے مشورہ کرنے تک انتظار کرنے کا کہا، فہد اور مہرین اوپن حال میںصوفوں کی ارینجمینٹ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، فہد اٹھ کہ مہرین کے قدموں میں بیٹھ کہ مہرین کی گود میں سر رکھ کہ بیٹھ گیا، مہرین فہد کے سر کو اپنی انگلیوں سے مساج دینے لگی، مہرین کی نرم اور۔ملائم رانوں پہ سر ٹکائے فہد مہرین سے باتیں کر رہا تھا، محبت کے جملوں کے تبادلے پہ کبھی مہرین فہد کے سر اور گال کا بوسہ لے لیتی اور اسی طرح فہد مہرین کی رانوں کے بوسے لینے لگ جاتا، فہد مہرین۔کی رانوں میں سر دے کہ چومتا جا رہا تھا، مہرین اپنی ٹانگوں کو دبا کہ اپنی پھدی کی بے تابی چھپا رہی تھی، فہد اپنے گھٹنوں کے۔وزن پہ ہو کہ مہرین کی ران چومتے چومتے مہرین کے پیٹ کے بوسے لینے لگا مہرین صوفے پہ اپنا آپ انڈیل کی فہد کو اپنی من مرضی کرنے دے رہی تھی فہد مہرین کی ٹانگوں کے درمیان آتا تو مہرین ٹانگوں کو دبا لیتی، فہد مہرین کی ٹانگوں میں منہ دیے اپنے ہاتھوں سے مہرین کے گھٹنے پکڑ کی ٹانگوں کو پھیلانے لگا، ہلکی سے طاقت لگانے پہ مہرین نے اپنی ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ دی فہد نے مہرین کی ٹانگوں کو پھیلا کہ مہرین کی پھدی کو کپڑے کے اوپر سے ہی چوم لیا، جیسے ہی مہرین کی پھدی سے فہد۔کے ہونٹوں کا وزن پڑا تو مہرین نے اپنی کمر کو ہلا کہ اپنا آپ بے تابی سے کھسکا کہ آہ بھری اور ٹانگوں کو مزید پھیلا دیا، فہد مہرین کی طرف رخ کرکہ ٹانگوں کو پکڑ کہ مہرین کی ٹانگوں میں منہ دے کہ رانوں اور پھدی سے چومنے لگا، مہرین اپنی کمر کا لچکا لچکا کہ آہ آہ کر رہی تھی اور جب فہد کا منہ پھدی کے قریب آتا تو وہ فہد کے سر کو پکڑ کہ دبانے لگ جاتی مہرین کی ٹانگیں اٹھتی اٹھتی فہد کے کندھوں پہ آ گئی اور گیلی پھدی فہد کے ہونٹوں کے عین پاس گئی مہرین فہد کے ہاتھ پکڑ کہ اپنے پستان سہلوانے لگی فہد نے مہرین کی قمیض کو اٹھا کہ پیٹ ننگا کر دیا پھدی کا گیلاپن اب کپڑے کے اوپر سے ہی فہد کو ذائقہ دے رہا تھا فہد نے تڑپتی ہوئی اپنی بہن کی شلوار کو کھینچ کہ پھدی کو ننگا کر دیا، اور ایک بار مہرین کی پھدی کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیے فہد کی گیلی زبان جیسے ہی پھدی سے لگی تو سانسوں کی گرمی سے پھدی مچل گئی مہرین فہد کو سر سے دبا کہ پھدی سے مزید پیار کرنے کیلیے آنہیں بھرنے لگی، فہد نے بنا وقفہ ڈالے پھدی سے چومنا شروع کیا اور اب زبان سے مہرین کی پھدی کو چاٹنا شروع کیا فہد مہرین کی پھدی کے ذائقے سے پہلی بار متعارف ہو رہا تھا اسلیے کچھ لمحے زبان کو وقفے سے ہی پھدی کے ہونٹوں پہ پھیرتا جیسے جیسے فہد کو پھدی کا ٹیسٹ پسند آنے لگا ویسے ویسے مہرین کی پھدی پہ زبان چلنے لگی اور مہرین کراہ کہ آنہیں نکالنے لگی فہد نے گیلی پھدی کے سوراح پہ اپنی زبان کو رکھ کہ اندر ڈال دیا فہد کی زبان اب ہونٹوں کے اندر باہر پھر رہی تھی مہرین فہد کے سر کو دبا دبا کہ جب فہد کو اندر کرتی تو فہد بھی پوری طاقت سے اپنا منہ پھدی کے اندر ڈال دیتا جس سے دانتوں کی ایک مخصوص چبھن اور سانسوں کی گرم ہوا سے مزہ دوبالا ہو جاتا فہد پوری ذمہ داری سے پھدی کے اندر باہر زبان سے چاٹ رہا تھا اور موقع ملنے پہ اردگرد سے چوم بھی رہا تھا مہرین کھسک کھسک کہ صوفے سے گرنے والی ہو چکی تھی مگر جتنا مہرین کھسکتی فہد اتنا ہی پھدی کے اندر منہ ڈال کی مہرین کے وزن کو سنبھلا لیتا فہد کے ہونٹ ناک اور گال اپنی بہن کی پھدی کے پانی سے لیس دار ہو چکے تھے اور بلاآخر مہرین اس پر زور چاٹنے کی وجہ سے ڈسچارج ہونے کے قریب آگئی اور اپنی ٹانگوں کو فہد کے کندھوں پہ کس کی صوفے پہ ہی ایک سمت میں اپنا آپ انڈیلنے لگی فہد کو جب اندازہ ہوا کہ۔اسکی بہن ڈسچارج ہونے والی ہے تو اس نے اپنے سر اور گردن کو اور زور سے پھدی میں دبا کہ چاٹنا شروع کر دیا، مہرین آہ آہ فہد اففف آہمم آہ آہ کرتے۔ڈسچارج ہو گئ،
فہد نے اپنا منہ پیچھے ہٹا لیا مگر اپنی بہن کی پھدی کا رس کچھ منہ میں چلا ہی گیا فہد اس نمکین سے ذائقہ سے لطف۔اندوز ہوا مگر پہلی پہلی بار ابھی پینے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی مہرین ہونٹ بھنچے آنکھیں بند کر کی صوفے پہ گر کہ اپنے ڈسچارج کا مزہ لیتے لیتے بے حال ہو گئی فہد اپنے تنے ہوئے لن کو پاجامے سے آزاد کر کہ مہرین کے اوپر آ گیا اور مہرین کا پاجامہ اتار کہ اب اپنی بہن کو چودنے کیلیے اوپر آ گیا مہرین نے فورا حوش سنبھلا کہ فہد کو رکنے کا کہا فہد لن کو ہاتھوں میں۔لیے صوفے پہ ایک گھٹنے کی وزن پہ مہرین کو اٹھتا ہوا دیکھنے لگا مہرین اٹھ کہ کمرے کی طرف گئی اور اندر سے ایک پیکٹ کو اپنے دانتوں میں لے کہ کاٹ کہ کھولنے لگی فہد نے بڑی حیرانی سے مہرین کی طرف دیکھا
فہد؛ یہ کیا ہے باجی؟
مہرین نے فہد کے گال گدگدا کہ جواب دیتے ہوئے ایک غبارے نما چیز کو اندر۔سے نکالا
مہرین؛ کونڈم
فہد؛ اچھا؟ یہ ہوتا ہے کونڈم؟
فہد ایک پاؤں زمین پہ رکھے اور ایک گھٹنے کو صوفے پہ رکھ کہ کھڑا تھا مہرین فہد کے لن کے سامنے بیٹھ کہ لن پہ کونڈم چڑھانے لگی فہد کا موٹا اور لمبا لن کونڈم کے چڑھانے کے دوران مہرین کی ہتھیلیوں سے مسلا جا رہا تھا اسلیے فہد کی مزے سے آہ آہ مہرین باجی افف ہونے لگی مہرین کسی تجربہ کار گشتی کی طرح لن پہ کونڈم چڑھانے کیلیے پورا زور لگا رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی بات کو بھی جاری کیے ہوئے تھی۔
مہرین؛ اتنا بڑا لن ہے تمہارا، آج میں بازار گئی تھی تو کونڈم لے کہ آئی تم اب احتیاط سے کرنا میں دوبارہ پریگنینٹ نہیں ہونا چاہتی لن پہ کونڈم چڑھاکہ مہرین صوفے کے ایک بازو پہ اپنا سینا چپکا کہ فہد کے سامنے الٹی ہو گئی مہرین کا سارا وزن اسکے گھٹنوں پہ تھا مہرین نے ٹانگیں ہلکی سی پھیال کہ اپنج گانڈ کو پیچھے کو نکالا ہوا تھا مزے اور سرور میں ڈوبا ہوا فہد کونڈم میں پھنسے لن کو پکڑ کہ مہرین کی گانڈ اور پھدی کے سوراخ پہ رگڑنے لگا مہرین نے فہد کے لن کو پکڑ کہ پھدی پہ رکھ کہ اپنی گانڈ کو پیچھے کو کرکہ لن اندر لینے کی کوشش کی فہد نے لن کو دبا کہ اپنی بہن کی پھدی میں دھکیلا تو مہرین کی آہ نکل گئی فہد مہرین کی گانڈ کو قابو کر کہ آہستہ آہستہ چود رہا تھا مہرین کی صوفے سے چپکی چھاتیاں فہد نے اپنے ہاتھ سے زور سے مسل دیں، مہرین کی پھدی میں چودتے ہوئے فہد آہ آہ باجی افف آہہ آہہمم آف مہرین آہ اف باجی کی آوازیں نکال رہا تھا، فہد جب طاقت سے مہرین کو چودنے لگا تو مہرین بھی۔ایسی ہی بے قراری سے کراہنے لگی فہد اپنے نیچے والے ہونٹ کو دانتوں میں دبائے مہرین کو کمر سے گرفت کر کہ اب پوری طاقت سے جھٹکے مار رہا تھا زور دار چدائی کی وجہ سے صوفہ بھی ہل ہل کہ آوازیں پیدا کر رہا تھا اور چودنے کی ٹپ ٹپ کی آواز بھی پیدا ہو رہی تھی ایسے ہی چودتے چودتے فہد اور مہرین ایک بعد ایک ڈسچارج ہو کہ اسے صوفے پہ ہانپتے ہوئے لیٹ گئے فہد مہرین کو اپنی بانہوں میں لے کے مہرین کو پیچھے سے گلے لگا کہ لیٹ گیا فہد کا لن اب ڈھیال پڑ رہا تھا اسلیے کونڈم کو مہرین نے اپنے ہاتھ سے احتیاط سے اتار کہ گرہ لگاکہ ایک طرف رکھ دیا اور اپنے بھائی کی بانہوں میں گھر کہ آرام کرنے لگی فہد پرسکون انداز سے اپنی بہن سے باتیں کرنے لگا اور اپنے ہاتھ سے مہرین کے نپل کے گرد اپنی انگلی کو بے ربط انداز میں پھیرنے لگا دونوں بہن بھائی اس قلیل سی جگہ میں ایک دوسرے سے چپک کہ لیٹے ہوئے تھے۔
فہد؛ ویسے باجی؟ آج آپ اتنا تیار کیوں تھی؟
مہرین؛ بدھو انسان تم کو اب یاد آیا؟
فہد؛ باجی مجھے لگا کہ آپ کا آج باہر جانے کا ارادہ ہو گا اسلیے تیار ہوئی ہو گی
مہرین؛ تمہارے لیے تیار ہوئی تھی پاگل
فہد؛ میرے لیے؟ کیوں؟
مہرین؛ اف ہو کس نان رومانٹک بندے سے پالا پڑ گیا ہے میرا
فہد؛ ہاں تو اور کیا باجی بھلا آپ پہلے کم خوبصورت ہیں جو آپ مزید تیار ہو کہ قیامت ڈھانے لگی۔
ایسے ہی محبت بھری باتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور کچھ دیر بعد وہ دونوں بیڈ پہ آ گئے مہرین اور فہد دونوں برہنہ حالت میں آ کہ ایک دوسرے سے گلے لگ کہ سونے کی کوشش کرنے لگے مہرین نے فہد کو بہت تنبیہ کر کہ سمجھا دیا کہ اب چدائی کونڈم کے بغیر نہیں ہو گی اسلیے اگر رات کو نہ رہا جائے تو کونڈم کا استعمال لازمی کرے، مہرین نے ایک کونڈم سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کہ فہد کو گلے لگا کہ سونے کی کوشش شروع کر دی اور کچھ دیر بعد دونوں بہن بھائی نیند کی وادیوں میں۔چلے گئے۔
جاری ہے
2 Comments
03004433510
ReplyDeleteNext episode upload Hoga? Agar yes to kab Hoga?
ReplyDelete