گرم بہن بھائی
قسط 23
فہد مہرین پہ وزن ڈالے اب مکمل طور پہ لن کو ڈسچارج کا مزہ دلوا چکا تھا اور مہرین فہد کے وزن کے نیچے فہد کو اپنے اندر دبا کہ اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کہ دبی ہوئی تھی، لن ابھی بھی پھدی کے اندر ہی تھا، مہرین سے نیچے اتر کہ فہد برابر آ کہ لیٹ گیا اور دونوں بہن بھائی آسمان کو تکنے لگے، مہرین کپڑوں میں کو کہ بھی ننگی تھی اور فہد کا گیلا لن تازہ چدائی کے پانی سے غسل کر کہ آزاد ہوا کا مزہ لے رہا تھا، مہرین نے کچھ دیر اپنے آپ کو نارمل کر کہ اپنے بکھرے بالوں کو چہرے سے ہٹا کہ فہد کی طرف دیکھا جو کہ آنکھیں آسمان پہ لگائے ہوا تھا۔
مہرین؛ فہد ابھی اور کچھ کرنا باقی ہے یا چلیں اندر؟
فہد نے مسکرا کہ مہرین کی طرف دیکھا۔
فہد؛ ذرا سا صبر کر لیں اور کرلیں گے
مہرین نے سر پہ ہاتھ مار کہ جواب دیا
مہرین؛ اب مزید اپنا منہ اور پاجامہ مت کھولنا ورنہ تمہیں جوتوں سے ماروں گی۔
مہرین یہ بات کہہ کہ اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے شرارتی انداز میں فہد کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ کہ کھڑی ہو گئی، فہد بھی سست روی کے ساتھ اپنے پاجامے کو اوپر کر کہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا۔
مہرین؛ انسان ذرا صبر کیساتھ کر لے مگر نہیں انکو تو ساری کسر آج ہی پوری کرنی ہے، اب اٹھ جاؤ جلدی اندر آ جاؤ
فہد ہنستے ہوئے ابھی پورا اٹھا بھی نہیں تھا کہ مہرین کمر لچکاتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی،۔لذتوں کے ان لمحات کے سحر میں ابھی بھی گھرا کوا فہد مسکراتا ہو اپنی بہن کے پیچھے چل دیا، مہرین تیز قدموں سے اندر جا کہ کچن میں چلی گئی اور فہد بستر پہ آ کہ لیٹ گیا، مہرین نے فہد اور اپنے لیے دودھ کے دو گلاس ایک ٹرے میں رکھ کہ پیش کیے، باتیں کرتے کرتے دودھ کے گلاس پی کہ مہرین اپنے بچے کو بستر پہ لے آئی اور درمیان میں لٹا کہ خود بھی لیٹ گئی، گویا وہ فہد کو رات میں مزید ہمبستری سے انکار رہی تھی، فہد مہرین کی اس حرکت پہ مسکراتا ہوا اسے بچے کو واپس گہوارے میں لٹانے کا کہنے لگا مگر مہرین فہد کے ارادوں سے باخبر مزید چدائی سے انکار رہی تھی، دونوں بہن بھائی بچے کے درمیان میں ہونے کیوجہ سے فاصلے پہ تھے، کچھ دیر پہلے پارک سے لے کہ لان تک کی چدائی سے دونوں کافی تھک چکے تھے اسلیے کچھ ہی دیر میں دونوں سو گئے، رات کے اگلے پہر مہرین اپنے بچے کے رونے کیوجہ سے جاگی تو اسکی آنکھ کھلتے ہی اسے اندازہ ہوا کہ فہد مہرین کے پیچھے بیڈ کیتھوڑی سی جگہ میں سمٹا ہوا لیٹا ہوا ہے، اپنے بچے کو چپ کرواتے کرواتے اسے اپنے بھائی کی محبت بھی بے تاب کرنے لگی، مہرین کو اس بے خوابی کی کیفیت میں اندازہ ہو گیا کہ فہد اسکے جسم سے لگے بنا بے چین ہوا تو اپنی بے چینی سے چھٹکارا پانے کیلیے اتنی قلیل جگہ میں آکہ سونا قبول کر لیا مگر اپنی بہن سے دوری نہیں برداشت کر سکا، مہرین نے اپنے بچے کو آگے کھسکا کہ اپنا آپ بھی کھسکا لیا اور پرسکون نیند میں سوئے ہوئے بھائی کیلیے جگہ کو وسیع کر دیا، مہرین نے اپنا ایک پستان اپنے بچے کے منہ میں دے کہ فہد کو اپنے ایک بازو سے اپنے قریب کر لیا، گہری نیند میں سویا ہوا فہد اپنے بہن سے چمٹ کہ گہری سانسیں لینے لگا، مہرین اس لمحے جاگتی ہوئی فہد کی محبت کو دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی اور کچھ ہی دیر میں سو گئی۔
صبح صبح مہرین نیند سے بیدار ہوئی تو مہرین کی فہد کیطرف کروٹ تھی اور فہد مہرین کے سینے اس طرح چمٹا ہوا تھا کہ مہرین کی چھاتی کا نپل فہد کے منہ میں تھا جیسے کہ وہ کافی دیر سے اسے چوستا رہا ہو، فہد اپنا بازو مہرین کے گرد لپیٹے ایک ٹانگ کو مہرین کی دونوں ٹانگوں میں پھنسا کہ لن کو مہرین کی ٹانگ میں چبھو رہا تھا، مہرین کی ایک ٹانگ فہد کے اوپر تھی مہرین کے بازو بھی فہد کے سر پہ ایسے لپٹے ہوئے تھے جیسے اس نے خود فہد کو اس جگہ پہ اس انداز میں لٹایا ہوا ہو، مہرین کی چھاتی سے نکلتا ہوا دودھ فہد کے کھلے منہ میں ٹپک ٹپک کہ باچھوں سے فہد کے گال بھگو رہا تھا، مہرین نے گہری نیند سے بیدار ہو کہ بمشکل فہد کو دیکھا تو محبت کے سحر میں مبتلا بہن نے پیار سے فہد کے سر کو چوم لیا مہرین اس لمحت فہد کو خود سے جدا نہیں کرنا چاہ رہی تھی اسلیے بس وہیں نیند کی خماری میں خاموش فہد کے جاگنے کا انتظار کرنے لگی، گہری نیند میں سویا ہوا فہد مہرین کو اسوقت بہت پیارا لگ رہا تھا، مہرین کی محبت بھری تھپکیوں سے فہد نیند سے بیدار ہوا تو نیند سے جاگتے جاگتے فہد حوش میں آنے لگا، مہرین کی چھاتیوں کو برہنہ اپنے ہونٹوں میں پا کہ فہد نے مہرین کے چہرے کو دیکھا تو جاگ چکی تھی، فہد نے مسکرا کہ اپنی بہن کے چہرے کو دیکھا تو محبت سے سرشار ہو کہ فہد نے اپنا منہ مہرین کے دو بڑے اور فربہ پستانوں کے درمیان گھسا دیا اور وہیں سے مہرین کے بوسے لینے لگا،
محبت سے مچلتی ہوئی بہن فہد کی سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے اندر دبانے لگی پستان کی اندرونی دیواروں چومتے ہوئے فہد کے منہ میں کچھ ہی لمحوں قبل نادانستہ طور پہ گرے دودھ کے قطروں ما ذائقہ آنے لگا فہد کے گالوں پہ بھی دودھ کے قطرے لگ چکے تھے۔
مہرین؛ اٹھ جاو اب
فہد نے مہرین کی نرم چھاتیوںکو چومتے ہوئے اپنا آپ مہرین سے مزید چمٹا لیا جس سے تنا ہو لن مہرین کی ٹانگ میں چبھنے لگا۔
مہرین؛ بس بس بس، اب نہیں دفتر نہیں جانا
فہد؛ چلا جاتا ہوں دفتر باجی۔
فہد مزے سے مہرین کی ٹانگ میں لن چبھوتا جا رہا تھا اور مہرین بھی فہد سے اپنا آپ دور نہیں ہٹا رہی تھی، فہد نے مہرین کی ایک چھاتی کو منہ میں لے کہ چوسنا شروع کیا تو مہرین کو ذراسا درد ہوا تو مہرین نے چیخ والے انداز میں آہ فہد کہا اور اپنے نپل کو فہد کے منہ سے کھینچ کہ نپل کو سانے لگی۔
مہرین؛ آرام سے پی لو
فہد کو اپنی اس وحشیانہ شرارت پہ ہنسی آگئی اور مہرین کے گیلے نپل کو ہاتھ سے سہلانے لگا، مہرین کو اس سہلائے جانے سے اچھا لگا اس لیے مہرین موجب اس تکلیف سے راحت ملی تو مہرین نے اپنی ایک چھاتی کو انگلیوں سے پکڑ کہ نپل کو دوبارہ سے فہد کے منہ میں دے دیا، فہد دوسرے چھاتی کے نپل کو سہلاتے ہوئے مزے سے اپنی بہن کا دودھ پینے لگا، کچھ ہی دیر میں فہد اتنا زیادہ گرم ہو گیا کہ ہونٹوں کو چوسنے کیلیے مہرین کے اوپر چڑھنے کیلیے تیار ہو گیا، مہرین مسکراہٹ اور بے بسی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ فہد کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بستر سے ہی اٹھ کھڑی ہوئی، اپنی قمیض کو درست کرتے کرتے مہرین فہد کے ٹائیٹ ہو چکے لن کو دیکھنے لگی۔
مہرین؛ توبہ ہے فہد، اب بس کرو بھرا نہیں دل؟
فہد بستر پہ سیدھا لیٹا مہرین کو دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے لن کو سہلانے لگا، فہد کی نظروں میں التجا تھی
فہد؛ باجی کہاں جا رہی ہیں؟
مہرین فہد کے تیور اچھے سے بھانپ چکی تھی اسلیے وہ دم دبا کہ کمرے سے نکل گئی، اور جاتے جاتے فہد کو نہانے دھانے کا کہہ کہ چلی گئی، فہد مہرین سے اپنی خواہش ادھوری چھوڑ جانے کیوجہ سے اپنے لن کو سہلانا چھوڑ کہ واشروم ہو لیا اور نہانے لگا، نہا دھو کہ تیار ہو کہ ناشتے کی ٹیبل پہ دونوں عمومی باتیں کرنے لگے، ناشتہ ختم کر کہ فہد دفتر چلا گیا، سارا دن گھر کے کاموں میں مصروف مہرین بہت ہی زیادہ خوش تھی، آج فہد کو رخصت کرتے وقت مہرین فہد کو جلد آنے کا کہہ رہی تھی اور فہد بھی اپنی بہن کو چوم چوم کہ جلد آنے کے وعدے کرتا چلا گیا، مہرین کو دن میں اپنے شوہر کا فون آیا تو اس نے فہد کے متوقع سسرال کی تمام تر تفصیلات بتائیں جس پہ مہرین کے شوہر نے تفصیل سے مہرین کو آئندہ الئحہ عمل کے حوالے سے مشورے دئیے، فہد کا رشتہ تقریبا پکا ہی ہو چکا تھا مگر ابھی تک کوئی رسم وغیرہ نہیں ہوئی تھی اسلیے حالات کے حساب سے ہی چلنا تھا۔
دفتر میں فہد کے چہرے پہ رونق بھی کسی کولیگ سے چھپ نہیں رہی تھی اسلیے ہر شخص فہد کو ایک ہی بات پوچھ رہا تھا کہ آج اسکے چہرے پہ اتنی رونق کس بات کی ہے، فہد اب کسی کو کیا بتاتا کہ اپنی بہن سے برسوں پرانی محبت کے رنگ اسکے چہرے کو چمکا رہے ہیں، فہد بس ہنس ہنس کہ سب کے تجزیے سن کہ ہنس کہ بات کو ٹال دیتا مگر جب جب اسے مہرین کی یاد آتی تو خوشی سے فہد کے گال لال ہونے لگتے کسی نہ کسی طرح فہد بس کام میں مصروف ہو کہ جلد از جلد گھر جا کہ اپنی بہن سے ملنے کیلیے بیتاب تھا مگر آج دفتر میں مصروفیات ایسی تھی کہ سر کھجانے کا وقت نہیں مل رہا تھا۔
مہرین سارا دن گھر میں فہد کی جلد آنے کی امید میںسجنے سنورنے لگی ایک دو بار دفتر میں فہد کو کال بھی کی مگر مصروفیت کی وجہ سے فہد تک پیغام تک نہ پہنچ سکا کہ اسکے گھر سے کسی کی کال آئی ہے، مہرین اور فہد کی بیچینی دونوں طرف ایک جیسی تھی، فہد کے انتظار میں کسی نئی نویلی دولہن کی طرح سج سنور کہ مہرین دروازے پہ نظریں جمائے بیٹھی گھڑی کی سوئیوں کو حد سے تجاوز کرتا دیکھتی جا رہی تھی مگر گیٹ پہ لگی ڈور بیل تھی کہ بجنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، دل ہی دل میں پریشان مہرین فہد کی جلد اور خیریت سے واپسی کی دعائیں کرنے لگی جب فہد متوقع وقت سے بھی لیٹ ہو گیا تو پریشان ہو کہ مہرین نے فہد کے دفتر کال ملائی مگر وہاں سے کسی نے کال نہیں سنی شاید تمام ملازمین دفتر سے نکل چکے ہونگے، مہرین اپنے گھر کے لان میں اپنا بچہ اٹھائے پریشان حال میں ادھر سے ادھر پریشانی سے ٹہل رہی تھی۔
جاری ہے
0 Comments