گرم بہن بہائی
قسط 22
فہد؛ کیا مطلب؟
مہرین؛ مطلب تم بھی سمجھتے ہو میرے ننھے منے لاڈلے بھائی جہاں آپکا مرغا سیر کر کہ آیا ہے ناں وہاں سے چومنا پڑے گا بلکہ اندر تک چومنا پڑے گا۔
فہد؛ کیا؟؟؟؟؟ مطلب؟؟؟؟؟؟ نیچے سے؟؟؟؟؟؟
مہرین؛ جی جی بالکل صحیح سمجھے ہو میری پھدی کو چاٹو گے ناں بھائی؟
مہرین بہت ہی شرارتی انداز میں فہد کے چہرے کے پاس چہرہ کیے ہوئے ہونٹ کسی بچے کی طرح بنا کہ بات کہہ رہی تھی، فہد حیران تاثرات کے ساتھ ہاں میں سر ہلا کہ جواب دے چکا تو مہرین فہد کی معصومیت پہ ہنسنے لگی اور اپنے بھائی کو بدھو کے لقب سے نواز کہ کپڑے پہننے لگی۔
فہد؛ ہاں تو کر لوں گا باجی۔
مہرین؛ چلو کپڑے پہنو، باہر جانا ہے شام کو آئسکریم کھلاو گے آج تم مجھے۔
فہد؛ جی چلتے ہیں لیکن باجی
مہرین؛ لیکن ویکن کچھ نہیں میں گھر کے کام ختم کر لوں شام کو باہر چلیں گے واپسی پہ آیسکریم کھائیں گے اور گھومیں گے اور ہاں شام تک دوبارہ تمہارا مرغا کھڑا نہ ہو، تم میں صبر نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
فہد مہرین کی اس دھمکی کو سن کہ ہنس پڑا اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ مہرین کو جواب دینے لگا
فہد؛ اچھا باجی اگر آپکو اتنا ہی برا لگتا ہے تو میں اب دوبارہ نہیں کرون گا۔
مہرین فہد کے اس اداس اور لہجے کو حقیقت سمجھ کہ گھبرا گئی اور وہیں سے کھڑے کھڑے جواب دینے گی۔
مہرین؛ میں نے یہ نہیں کہا کہ اب نہیں کرنا، میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ رات تک صبر کر لینا۔
فہد دراصل مہرین کے سامنے دوبارہ نہ چودنے کی بات کہتے ہوئے اداکاری کر رہا تھا، مہرین فہد کی اس شرارت کو نہ سمجھ سکی تو گھبرا کی رات کوتسلی سے چدوانے کی دعوت دینے لگی، فہد کی شرارت کامیاب ہو گئی اور مہرین کی بات چلتے چلتے فہد کے سنجیدہ چہرے سے ہنسی بے قابو ہو کہ قہقہے کی صورت میں نکل گئی، جب مہرین کو اندازہ ہوا کہ فہد مہرین سے مذاق کر رہا ہے تو مہرین کو اپنی بیوقوفی پہ ہنسی آنے لگی، اور وہ بڑھ کہ فہد کے کان کھینچتے ہوئے دانت بھینچ کہ فہد کو جواب دینے لگی۔
مہرین؛ ڈرامے باز انسان کتنی اچھی اداکاری کرتے ہو حکیم کی دوائی کھا کہ تم میں اداکاری کے جراثیم بھی آ چکے ہیں، اب تو رات تک تم کو صبر کرواؤں گی، اب آنا صحیح تم میرے پاس فہد مہرین کی دوبارہ چدائی کی بات پہ دانت نکلانے لگا اور اپنے کپڑے پہننے لگا، مہرین برتن سمیٹ کہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی، صفائی کر کہ اور برتن دھوکہ مہرین نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر اپنے بھائی کیساتھ باہر جانے کیلیے کپڑے بدل کہ شیشے کے سامنے بیٹھ کہ سجنے سنورنے لگی، شام ڈھل چکی تھی اور اب اندھیرا رات کی آمد کا اعلان کر رہا تھا، دونوں بہن بھائی سج سنور کہ بچے کو بچہ گاڑی میں لیٹا کہ گھر سے چل دیے شام ڈھل چکی تھی اور اندھیرا چھا رہا تھا دونوں بہن بھائی تیار ہو کہ بہت جچ رہے تھے، چہروں پہ مسکراہٹیں سجائے بچہ گاڑی کو دھکا لگاتے بازار کی طرف پیدل چلتے جا رہے تھے، قریب ہی پارک میں پہنچ گئے جہاں پہ بہت سارے لوگ اپنے ویک اینڈ منانے آئے ہوئے تھے، فیملیز، نو بیاہتا جوڑے اور کچھ لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں وہاں موجود تھے،۔چھوٹے بڑے سٹال اور ٹھیلے طرح حرح کی کھانے کی چیزیں سجائے گاہکوں کو چیزیں فراہم کر رہے تھے۔
فہد اور مہرین بھی اس ہجوم میں داخل ہوکہ دنیا کی رنگینیوں کو دیکھنے لگے، پارک میں موجود مختلف لوگوں کی۔آمدورفت کا سلسلہ چل رہا تھا، دونوں بہن بھائی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے ہر دیکھنے والے کی نظر کو اپنی طرف کھینچ لیتے پارک میں مہرین اور فہد نے زبان کے چسکے بھی خوب پورے کیے،۔گول گپے سے لیکر آیسکریم تک تقریبا ہر چیز کا مزہ لیا بہت زیادہ انجوائے کر لینےکے بعد بلاآخر فہد اپنی بہن کو لے کہ پارک کے خارجی راستے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ وہیں پہ ایک درمیانی عمر کا ایک مرد جسکے ساتھ ایک عورت اور تین بچے تھے، اس فیملی کے کپڑوں سے ہی ظاہر تھا کہ وہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس مرد کی شکل جانی پہچانی سی تھی اور جیسے ہی اس مرد کے ساتھ مہرین اور فہد کا آمنا سامنا ہوا تو سوچ میں گم فہد مہرین اور وہ انجان مرد ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگے، اس مرد کی بیوی اور بچے نظروں کے اس سوالیہ تلاش کو دیکھتے ہوئے لمحے کیلیے خاموش ہو کہ کسی حتمی جواب کا انتظار کرنے لگے،۔اچانک ہوہ مرد جسکے چہرے پہ ہلکی ہلکی بے ترتیبی داڑھی جس میں آدھے سے زیادہ سفید بال تھے، سر پہ جالی دار سفید رنگ کی میلی سی ٹوپی پرانی سی شرٹ اور پینٹ پاؤں میں قینچی چپل پہنے چہرے پہ سوالیہ سی مسکراہٹ لے کہ فہد اور مہرین کی طرف قدم بڑھانے لگا، ایک بچہ جس کا ہاتھ اس انجان مرد نے پکڑا ہوا تھا وہ ذرا شرما کہ اپنی ماں کی ٹانگوں میں چھپ کہ اپنے باپ کیساتھ قدم بڑھانے سے انکاری ہو گیا، فہد اور مہرین اپنے ذہن پہ زور ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس انجان شخص کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے، رکتے رکتے قدموں کے ساتھ جب وہ انجان مرد فہد اور مہرین کے سامنے آکہ کھڑا ہوا تو ماتھے پہ خارش کرتے ہوئے بہت ہی حیرانی سے اٹکتے ہوئے بولنے لگا۔
مرد؛ ف فف فہد؟
فہد نے حیران ہو کہ ایک نظر مہرین کی طرف دیکھا تو دوسری نظر اس مرد پہ ڈال کہ جی کہہ کہ جواب دیا، جیسے ہی فہد کے منہ سے ہاں میں جواب آیا تو وہ انجان شخص مسکراتا ہوا اپنا تعارف کروانے لگا
انجان مرد؛ کتنے بڑے ہو گئے ہو پہچانے ہی نہیں جا رہے، یہ مہرین ہے؟
فہد نے ہاں میں جواب دیا تو اس مرد نے بڑھ کہ مہرین کے سر پہ پیار کیلیے ہاتھ بڑھایا، مہرین نے ہچکچا کہ فہد کیطرف دیکھا، چونکہ وہ شخص کافی جانا پہچانا تھا اسلیے مہرین نے اپنا سر آگے کر کہ پیار لیا، اس مرد۔نے اپنی بات کو جاری رکھا، جبکہ فہد اور مہرین اسی حیرانی سے اس شخص کو پہچاننے کی لگاتار کوشش کر رہے تھے
مرد؛ پہچانے ہی نہیں جا رہے، کتنے بڑے ہو گئے، میں حاجی عاشق کا بیٹا، آپکا ہمسایہ یاد آیا جیسے ہی حاجی انکل کا نام آیا تو فورا ساری گتھیاں سلجھ گئی، مہرین اور فہد کے چہروں پہ مسکراہٹیں آ گئی اور فہد نے بڑھ کہ اس آدمی کو گلے لگا لیا۔
فہد؛ وسیم بھائی آپ تو بالکل ہی پہچانے نہیں جا رہے داڑھی اور سفید بال آپ نے تو حلیہ ہی بدل لیا کتنے سالوں بعد ملے ہیں۔
مہرین فہد اور حاجی انکل کے بیٹے کے چہروں پہ مسکراہٹیں اور باتوں کا سلسلہ بڑھنے لگا
وسیم؛ فہد میں تو دور سے تمہیں دیکھ کہ تمہاری بھابھی کو کہہ رہا تھا کہ وہ بچے دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں، مگر اتنی دیر میں تم۔لوگ نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔
اتنی بات کہہ کہ حاجی انکل کے بیٹے وسیم نے اپنی بیوی کی طرف منہ کر کہ آواز دی
وسیم؛ زیبا .........ادھر آؤ، میں کہہ رہا تھا ناں کہ یہ بچے جانے پہچانے ہی ہیں۔
وسیم کی بیوی دوپٹے سے اپنے چہرے کو ہلکا سا ڈھانپے اپنے شوہر کی آواز پہ ایک بچہ گود میں اور دو بچوںکے ہاتھ تھامے پاس آ گئی اور آتے ہی سلام کر کہ کھڑی ہو گئی، وسیم بہت گرم جوشی سے تعارف کروانے لگا، ماضی کی باتوں کو یاد کر کہ موجودہ حالات کی تفصیل سوالوں اور جوابوں کی شکل میں بتائی جانے لگی، فہد نے اپنی موجودہ نوکری اور رہائش کی تمام تفصیل بتائی اپنی والدہ کے فوت ہونے کی خبر بتائی تو وسیم ذرا جذباتی ہو گیا۔ حاجی انکل کی خیریت دریافت کرنے پہ پتہ چلا کہ وہ ابھی بھی صحتمند ہیں لیکن اب بزرگی کی وجہ سے بینائی اور سماعت پہلے جیسی نہیں رہی اسلیے گھر ہی رہتے ہیں، وسیم نے بتایا کہ وہ بھی اب اسی شہر میں رہائش پذیر ہو چکے ہیں، وہ پرانی رہائش شہر کی انتظامیہ نے منہدم کر دی جس کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ کرتے کرتے اب بلاآخر اس شہر میں ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی ہے اور اب یہیں مکان کرایہ پہ لے کہ رہتے ہیں، وسیم جب یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو مہرین کے دماغ میں اچانک سے وہی پرانی یادوں کا ایک منظر آ گیا، سعدیہ اور وسیم کے جسمانی تعلقات کے گواہ فہد اور مہرین ہی تھے مگر فہد وقتی طور پہ وہ سب بھول چکا تھا مگر مہرین کے ذہن میں یہ سب چل رہا تھا اسلیے مہرین نے وسیم سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ سعدیہ اور اس سے چھوٹی بہن دونوں کی شادی ہو گئی ہے، اب سعدیہ کے بھی دو بچے ہیں اور اس سے چھوٹی بہن ہادیہ کی فی الحال کوئی اولاد نہیں سعدیہ کے ذکر پہ فہد کو بھی وہ پرانی باتیں یاد آگئی اور جیسے ہی سعدیہ کا ذکر ہو تو فہد اور مہرین آنکھوں آنکھوں میں دیکھ کہ اپنی ہنسی کو قابو کرنے لگے، تمام رسمی اور غیررسمی تکلفات کے بعد وسیم کو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دن گھر آنے کی دعوت دینے کے بعد رخصت لے کہ فہد اور مہرین گھر کی طرف چل دیے، ان سے الگ ہوتے ہی مہرین نے فہد بات شروع کر دی
مہرین؛ یار وسیم بھائی اور سعدیہ تمہیں یاد ہے نان۔
فہد :ہانجی باجی اچھی طرح یاد ہے
مہرین؛ ہو نا ہو سعدیہ کے بچے وسیم بھائی کے ہی ہیں۔ فہد؛ ہاہاہا ہو سکتا ہے باجی، لیکن ایسا ضروری تو نہیں باتیں کرتے کرتے دونوں گھر پہنچ گئے سیر کرتے کرتے دونوں تھک چکے تھے اسلیے آتے ہی بستر پہ تشریف رکھ کہ سستانے لگے، مہرین جانتی تھی کہ فہد دوپہر سے کچھ کرنا چاہ رہا ہے مگر منع کرنے کی وجہ سے رکا ہے، فہد بھی مہرین کی آسانی کیلیے مزید سیکس کیلیے مہرین کو مکمل وقت دینا چاہ رہا تھا، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد فہد کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا اور جب کپڑے بدل کہ واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ مہرین کپڑے اتار کہ بستر میں لیٹ کی ایک چادر سے اپنے جسم کو ڈھک کہ اپنے بچے کو دودھ پال رہی تھی، فہد اس منظر کو دیکھ کہ مسکرا کہ چادر کے اندر آ گیا اور مہرین کو پیچھے سے گلے لگا کہ گردن سے چومنے لگا، مہرین دھکیل کہ شرارتی انداز میں فہد کو منع کرنے لگی۔
مہرین؛ رک جاؤ فہد اسے تو سلا لینے دو فہد اپنے ہاتھوں سے مہرین کی گانڈ کمر پیٹ اور چھاتیوں کو سہلاتا ہوا مہرین کی گردن چومتا جارہا تھا اور مہرین فہد کو منع کرتی جا رہی تھی، فہد نے مہرین کا اوپر والا سارا حصہ ننگا کر دیا اور مہرین کی دوسری سمت لیٹے بچے کے ساتھ پیار سے باتیں کرنے لگا، جب مہرین بچے کو دودھ پلا چکی تو بچے کو سلانے میں کچھ وقت صرف کرنے کے بعد اسے گہوارے میں لٹا آئی فہد نے اسی وقفے کے دوران اپنیشرٹ اور پاجامہ اتار کہ دور پھینک دیا، مہرین فہد کی اس حرکت پہ ہنس رہی تھی اور بچے کو لٹا کہ واپس بستر میں اپنے پرجوش بھائی کی طرف متوجہ ہوگئی، مہرین چادر کے اندر آ گئی، مہرین کے اندر آتے ہی فہد مہرین پہ لپکنے لگا تو مہرین نے فہد کو روک دیا۔
مہرین؛ ایک منٹ آرام سے میرے بھائی اتنی جلدی میں کیوں ہو؟
فہد کو روک کہ مہرین نے فہد کو سیدھا کیا اور اسکے پیٹ پہ بیٹھ کہ چادر کو اوپر اسطرح سے کر لیا کہ دونوں اسکے اندر چھپ گئے، مہرین نے جھک کہ فہد کے ہونٹوں کے آہستہ آہستہ بوسے لینے شروع کیے جیسے ہی فہد تیزی کرنے لگتا تو مہرین اسے پیچھے دھکیل کہ آرام سے لیٹے رہنے کا کہتی، مہرین فہد کے ہاتھوں کو کلائیوں سے پکڑ کہ بستر سے لگا کہ جھک کہ بہت ہی آہستہ آہستہ فہد کے ہونٹ چوس رہی تھی، فہد کے ہاتھ مہرین کے قبضے میں تھے اسلیے وہ مہرین کے نیچے دبا ہوا بے صبری سے مہرین کے ہونٹ چوستا جارہا تھا، مہرین فہد کے صبر کا مزہ لے رہی تھی فہد کا لن مکمل تن چکا تھا اسلیے اب وہ مہرین کی گانڈ پہ چبھ رہا تھا، مہرین فہد پہ جھک کہ ہونٹوں کو چوم رہی تھی اور ہل ہل کہ لن کو اپنی گانڈ سے سہلا رہی تھی فہد کی بے بسی کا عالم یہ ہو چکا تھا کہ جب بھی وہ بے صبری سے مہرین پہ جھپٹنے لگتا تو مہرین اس کو دبا کہ بس احکامات پہ عمل کرنے کا کہتی اور ایسے ہی فہد مہرین کے نیچے مچل مچل کہ اپنی بہن کے ہونٹ چوس رہا تھا، مہرین فہد کے سینے پہ آگئی اور فہد کے سینے کو آہستہ آہستہ چومنے لگی، مہرین کے تھوک سے سینہ گیلا ہو رہا تھا، مہرین فہد کے نپلز کو دانتوں سے کاٹتی تو فہد تکلیف سے آنہیں بھرتا مہرین فہد کی کلائیوں کو پکڑے بس چومتی جا رہی تھی، مہرین پیٹ تک آ گئی تو مہرین نے فہد کی کلائیوں کو چھوڑ کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے فہد کے جسم کو سہلانا شروع کیا، فہد جب بھی اٹھ کہ مہرین کو پیار کرنے لگتا تو مہرین فہد کو نیچے دبا کہ چومنے لگ جاتی، فہد آنہیں بھرتا ہوا لیٹا مہرین کی ہی مان رہا تھا، مہرین فہد کے پیٹ کو چومتی فہد کے لن کو چھاتیوں پہ رگڑنے لگی، مہرین اب فہد کے پیٹ کو چومتی ہوئی لن کو سہلا سہلا کہ چھاتیوں سے رگڑ رہی تھی، فہد آنکھیں بند کیے آنہیں بھر رہا تھا، مہرین کی رفتار میں ایک مخصوص خماری تھی لن کو آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے مہرین فہد کے جسم پہ کاٹتی تو کبھی زبان سے گیلا کر دیتی لن چھاتیوں سے رگڑ کہ مہرین فہد کو مزہ دیتی جا رہی تھی، مہرین اب فہد کے لن کے بالکل پاس آ کہ لن کے اردگرد زبان سے بھگونے لگی، لن کو بھگو کہ مہرین ہاتھ سے لن کو آہستہ سے سہلاتی جا رہی تھی، فہد مہرین کے سر کو دباتا تو مہرین ہاتھ کو ہٹا کہ اپنی مرضی سے لن کو زبان سے چاٹنے لگ جاتی فہد کی بے بسی اور مزہ مہرین کے کنٹرول میں تھا، مہرین فہد کے لن کو اپنے ہونٹوں سے لگا کہ چوم کہ اپنے منہ میں لے گئی لن منہ کی گہرائی میں جاتے ہی فہد کی مزے سے آہ نکل گئی اور وہ آہ مہرین باجی اہمم اف کی آوازیں نکالنے لگا، مہرین ہونٹوں کی پوری طاقت سے لن کو دبا کہ اندر لے جاتی اور باہر نکلاتی فہد مہرین کے سر کو دبا دبا کہ اس مزے کو بڑھا رہا تھا، مہرین بار بار اپنے بال ہٹا کہ لن کو اچھے سے چوس رہی تھی، فہد ٹانگوں کو اکڑاتا اور پھیلاتا جس سے مہرین کو اندازہ ہو رہا تھا کہ اسکے بھائی کا مزے سے برا حال ہو رہا ہے، مہرین نے لن کو منہ میں لے کہ پورے زور سے اپنا منہ دبایا جس سے لن حلق تک اندر چلا گیا مگر مہرین کی سانس رکنے لگے، فہد کا مزہ مہرین جتنا بڑھا سکتی تھی مہرین نے بڑھایا لن کو اچھی طرح چوسنے کے بعد مہرین کی بے بسی ہونے لگی اور مہرین نے رک کہ اپنا آپ ایک طرف گرا لیا فہد اسوقت مزے کی بلندیوں پہ تھا اسلیے فہد نے مہرین کو پکڑ کہ اپنے برابر کر لیا، فہد مہرین کے اوپر آ گیا اور مہرین کے ہونٹ چومنے لگا، فہد نے بنا وقت ضائع کیے مہرین کو چومتے چومتے لن کو پکڑ کہ پھدی پہ رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں سارا لن اپنی بہن کی پھدی میں سما دیا مہرین کی آہ نکلی تو فہد نے اگلے ہی لمحے ایک طاقتور جھٹکا مار کہ مہرین کی دوسری آہ نکلوا دی اب فہد پوری طاقت سے مہرین کو چودتا جا رہا تھا اور مہرین آنہیں بھرتی فہد سے چد رہی تھی، فہد مہرین کی ایک ٹانگ کو اپنے بازو میں پھنسا کہ اوپر اٹھا کہ چود رہا تھا، مہرین کی چھاتیاں کسی ربڑ کی طرح ہل رہی تھی فہد مہرین کو چودتے ہوئے ہونٹوں کے بوسے لیتا، فہد ڈسچارج ہونے والا تھا کہ اسکے جھٹکوں میں تیزی آنے لگی، مہرین کی پھدی سے بھی پانی نکل گیا اور اگلے ہی لمحے فہد بھی ڈسچارج ہو کہ لن کو پھدی سے نکلا کی لیٹ گیا، دونوں بہن بھائی ڈسچارج ہو کہ لیٹے سانسیں بحال کرنے لگے اور ایک دوسرے کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے اس چدائی کے بعد فہد اور مہرین نے کھانا کچھ دیر محبت بھری باتیں کی اور کھانا کھا کہ اپنے ہی گھر کے لان میں واک کرنے کیلیے چلے گئے، لان میں واک کرتے کرتے رات باتوں کا سلسلہ چلتا گیا، دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو پا کہ بہت خوش تھے اسلیے ان کے چہروں کی چمک چھپائے نہ چھپ رہی تھی، ننگے پاؤں ٹھنڈیگھاس پہ چلنے کا اپنا ہی مزہ ہے، فہد اور مہرین ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے گھاس پہ چل رہے تھے۔
فہد اور مہرین گھاس پہ ننگے پاؤں چل رہے تھے رات کے بارہ بجنے والے تھے ستاروں سے بھرا نکھرا ہوا آسمان چاند کو ماتھے پہ سجائے دو محبت کرنے والوں کو دیکھ کہ رشک کر رہا تھا، مہرین فہد کا ہاتھ تھامے گھاس پہ لان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آ جا رہی تھی، خوش گپیوں کا سلسلہ چلتا جا رہا تھا، محبت سے بھرے یہ لمحے قہقہوں اور مسکراہٹوں سے یادگار ہو رہے تھے، دونوں بہن بھائی لان میں اسطرح سے کھیل رہے تھے جیسے چھوٹی عمر کے بچے اپنے ماں باپ سے چھپ کہ بے باک ہو کہ شرارتیں کرتے ہیں، مہرین فہد کو کسی بات پہ چڑھا کہ بھاگنے لگ جاتی تو فہد اسکو پکڑنے میں لگ جاتا اور ایسے ہی فہد بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تو مہرین اسکو ُمکے مارتی پیچھا کرنے لگ جاتی، انہی شرارتوں کے دوران مہرین فہد کو پکڑنے کیلئے بھاگی تو فہد جلد ہی اسکی گرفت میں آ گیا اور وہیں گھاس پہ اسے گرا کہ مہرین اس کے اوپر سوار ہو کہ قہقہوں کیساتھ فہد کو پیار سے مار کہ سزا دینے لگی، فہد اپنی شرارت پہ قائم اسقدر زور سے ہنستا جا رہا تھا کہ اب آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا، مہرین فہد کے اوپر بیٹھی کبھی تھپڑ مارتی تو کبھی چٹکیاں کاٹنے لگ جاتی، ہنس ہنس کے بےحال ہو چکے دونوں بہن بھائی اسی گھاس پہ برابر لیٹ کہ اپنی ہنسی کو قابو کرنے لگے اور اب آسمان کو تکتے ہوئے ٹھنڈی گھاس پہ چت لیٹ کہ آسمان کو اپنی محبت دکھا کہ جالنے لگے، فہد نے مہرین کو اپنی طرف کروٹ دلوا کہ گلے لگا لیا، مہرین فہد کے ہونٹ چوم کہ فہد کے سینے میں چھپ گئی، فہد نے مہرین کو بانہوں کے گھیرے میں دبا کہ اپنی ٹانگوں کو مہرین کی ٹانگوں میں دے دیا، ابھی ابھی اتنی بچگانہ حرکتیں کرلینے کے بعد دونوں کی سانسیں سنبھل رہی تھی، فہد نے مہریں کو دوبارہ سے چومنا شروع کر دیا اور مہرین بھی فہد کے ہونٹ چوسنے لگی، کچھ دیر ایسے ہی چومتے رہنے سے فہد کا لن کھڑا ہونے لگا اور مہرین کی ٹانگوں میں ہلنے کی وجہ سے چبھنے لگا، فہد اپنی بہن کو چومتے چومتے اسکے اوپر آ کہ ہونٹ چوم رہا تھا اور فہد کا لن مہرین کی پھدی کے آس پاس رگڑ کھاتا جارہا تھا اور فہد اپنے ہاتھوں سے مہرین کی چھاتیاں دبا دبا کی پیٹ کو سہلا رہا تھا، جب مہرین کو اندازہ ہونے لگا کہ فہد اب دوبارہ سے چودنے کیلئے تیار ہے تو مہرین نے فہد کو روک دیا۔
مہرین؛ حکیم تیرا بیڑا برباد ہو، یہ کس امتحان میں ڈال دیا۔
فہد؛ حکیم کو کیوں کوس رہی ہیں باجی آپکاہی کیا دھرا ہے، میرا تو اتنا قصور ہے کہ آپکے سہمے ہوئے شوہر ہونے کی اداکاری کی۔
مہرین اپنا آپ فہد سے چھڑوانے لگی اور ہنستے ہنستے فہد کے گال کاٹنے لگی، فہد چیختا چلاتا رہا مگر مہرین کو اپنی گرفت میں لیے مہرین کے بزو کلائیوں سے پوری طاقت سے گھاس پہ لگائے ہوئے تھا۔
مہرین؛ بس کر جاو، میں انسان ہوں مشین نہیں ہوں فہد
اب مہرین کے چہرے پہ مسکراہٹ ہی تھی اور اب وہ فہد کو کاٹنا چھوڑ چکی تھی، ایک لمحے کے وقفے کے بعد دوبارہ سے فہد مہرین کی گردن کے اور سینے سے چوم کہ مہرین کو گرم کرنے لگا، مہرین کی کلائیاں ابھی فہد کی گرفت میں تھی اور مہرین فہد کی اس محبت سے بہکنے لگی
مہرین؛ آہ اہمم اف ف فف فہد، اندر آہ چلین۔
فہد بنا جواب دئیے بس چوم چوم کہ اب مہرین کی چھاتیوں کو سہلانے لگا، فہد کے ہاتھ مہرین کے پیٹ سے ہوتے ہوئے پھدی چلے گئے، فہد مہرین کی پھدی کو کپڑے کے اوپر سے ہی سہلانے لگا تو مہرین بھی بے بسی ہونے لگی اور وہ فہد کو گردن اٹھا اٹھا کہ چومنے لگی، فہد نے مہرین کی قمیض کو ہٹا کہ پیٹ سے چوما اور چھاتیوں کو باہر نکال لیا، کچھ دیر ایسے ہی پیٹ اور چھاتیوں کو تھوک سے بھگو دینے کے بعد فہد نے اپنا پاجامہ نیچے کو سرکا کہ لن باہر نکال لیا اور مہرین کے پاجامے کو بھی نیچے کر کہ لن کو پھدی سے ملا کہ ایک بار اوپر اوپر رگڑا، مہرین نے ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کہ لن کو پھدی کے اندر آنے کیلئے خوش آمدید کیا، فہد نے بنا وقت ضائع کیے لن کو پھدی کے سوراخ پہ لگا کہ ایک جھٹکے سے اندر دھکیل دیا تو مہرین کی آہ نکل گئی، ایک جھٹکے پہ دوسرا جھٹکا، ایسے ہی اب فہد مہرین کو دوبارہ سے چودنے میں مصروف ہوگیا، فہد کے جھٹکے مہرین کی آنہیں نکلوا رہے تھے، مہرین فہد کی گردن میں بانہیں ڈالے آنکھیں اور ہونٹ بھینچ کہ آہ آہ کر رہی تھی، مہرین کی بانہیں فہد کی کمر پہ اور کبھی فہد کی گانڈ پہ آ جاتی، فہد کچھ دیر جب ایسے ہی چودتا رہا تو مہرین ڈسچارج ہو گئی اور اب فہد گیلے پھدی میں تنا ہوا لن پھیر پھیر کہ تھک چکا تھا، مہرین فہد کو نیچے لٹا کہ اس کے اوپر آ گی ٹانگیں پھیلا کہ بیٹھ گئی، مہرین نے فہد کے بھیگے اور تنے ہوئے لن کو پکڑ کہ اپنی پھدی کو اوپر رکھ کہ اپنے وزن سے اندر لے لیا، فہد مہرین کے گانڈ کو پکڑ کہ مٹھیوں میں بھر بھر کی دبانے لگا، مہرین نے اب پھدی کو اوپر نیچے کر کر کہ لن کو چودنا شروع کیا تو اب فہد نیچے لیٹا اس چدائی کا مزہ لینے لگا، مہرین کا مزہ دوبارہ سے پھدی کو گرم کرنےلگا، مہرین نے اچھلتے اچھلتے فہد کے ہاتھوں کو پکڑ کہ اپنی چھاتیوں کو سہلانے کی ہدایات دی تو فہد آہ اف مہرین باجی کرتا چھاتیوں کو تکلیف دہ حد تک دبانے لگا، مہرین اپنی زلفوں کو سنبھلاتے ہوئے لن پہ اپنی پھدی کو اٹھا اٹھاکہ مار رہی تھی، فہد کا لمبا اور موٹا لن مہرین کی پھدیکی آخری حد تک گھس کہ نکلتا تو مہرین کی آنکھوں میں اس مزے کی جھلک صاف نظر آتی، فہد اب ڈسچارج ہونے والا تھا اسلیے فہد نے مہرین کو نیچے لٹا کہ تیزی سے چودنا شروع کر دیا، فہد کے طاقتور جھٹکوں سے مہرین کی پھدی دوبارہ سے ڈسچارج ہونے کے قریب تھی اسلیے مہرین کی سسکاریاں اور آنہیں فہد کی آوازوں سے ملنے لگی، فہد چودتا ہوا اپنی بہن کے ساتھ ہی ڈسچارج ہو کہ لن کو پوری طاقت سے پھدی کی آخری حد تک لگا کہ ڈسچارج ہو گیا۔
اس ڈسچارج کا مزہ دونوں بہن بھائی نے اس طرح لیا کہ انکی آنہوں کی آوازیں دیوارپار سنی جا سکتی تھی۔
جاری ہے
0 Comments