گرم بہن بھائی
قسط 21
فہد اور مہرین پر تکلف چدائی کا مزہ لے کہ سو چکے تھے، مہرین اپنے بچے کو بھی سنبھلا رہی تھی اور اپنے بھائی کو بھی مزہ دے رہی تھی، ساری رات فہد کروٹ بدلتا بیچین نیند میں بڑبڑا رہا تھا۔
مہرین فہد کے بڑبڑانے کیوجہ سے جاگ جاتی اور اپنے بھائی کو کبھی تھپکا کہ اور کبھی سینے سے لگا کہ سلانے لگ جاتی، فہد اسی بیچینی میں جاگ گیا، جب اسکی آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہو چکا تھا، سورج کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی پھیل چکیتھی، جب فہد کی نظر مہرین پہ پڑی تو وہ اپنے بچے کو ساتھ لٹائے گہری نیند سو رہی تھی، مہرین بھی فہد کی طرح برہنہ ہی تھی، فہد کا گلا خشک تھا، ساری رات خالی پیٹ اپنی بہن کو چودنے کیوجہ سے اب پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے، فہد کا سر بھاری محسوس ہو رہا تھا، اسی ملی جلی بیچینی کی صورتحال میں فہد اٹھ کہ لڑکھڑاتے قدموں سے کچن میں چال گیا، فہد کی دماغی حالت جسمانی ناتوانی کیوجہ سے بہت بہتر نہیں تھی، فہد برہنہ حالت میں ہی کچن میں پانی پی کہ چولہے کے نزدیک شیلف پہ ہاتھ کے سہارے اپنے سر کو پکڑے کھڑا تھا، اِّدھر اُدھر نظر دوڑانے پہ چائے کا سامان ڈھونڈتا ہوئے فہد کے ہاتھ سے برتن گر گئے جن کے شور کیوجہ سے کمرے میں سوئی ہوئی مہرین جاگ گئی،
مہرین نے آنکھ کھلتے ہی برتنوں کے گرنے سے پیدا ہونیوالے شور کی آواز کا تعاقب کیا تو اسکو اندازہ ہو گیا کہ بستر سے غائب اسکا چھوٹا بھائی کچن میں اودھم مچارہا ہے، مہرین فورا اٹھ کہ کچن کی طرف بڑھی تو وہاں فہد کو برتنوں میں گھرا ہوا پایا تو کچن کے دروازے سے ہی بولتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی اور فہد کوہٹا کہ برتن سمیٹنے لگی
مہرین؛ اف ہو فہد مجھے جگا لیتے بچے ہی رہو گے تم
فہد اپنی ننگی بہن کو سامان سنبھالتے ہوئے اپنی امداد کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا، فہد اور مہرین برہنہ ہی اس سارے کام میں لگے ہوئے تھے، جب مہرین برتن سمیٹ چکی تو اسکی نظر فہد پہ پڑی جو وہیں شیلف پہ ننگا بیٹھا ہوا میں اپنی ٹانگیں ہلاتا ہوا مہرین کو سوجی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا
مہرین؛ طبیعت بہتر ہے اب؟
فہد نے مسکرا کہ ہاں میں جواب دیا
مہریں؛ آنکھیں کیوں سوجی ہوئی ہیں؟
فہد نے وہیں پہ بیٹھے ہوئے گردن ہلا کہ اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، مہرین برتنوں کو دھوتی جا رہی تھی اور فہد سے باتیں کرتی جا رہی تھی، فہد زیادہ بول بھی نہیں تھا اور نہ ہی مہرین کے جسم پہ ٹکٹکی باندھ کہ دیکھ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے، مہرین کو اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ فہد کن خیالوں میں گم ہے اس لیے فی الحال وہ فہد کو دماغی کوفت سے دور رکھنے کیلئے بس رسمی گفتگو ہی کر رہی تھی، فہد بس اشاروں سے جواب دیتا ہوا بات کر رہا تھا اور بہت ضرورت پڑنے پہ ہاں ہوں جی سے کام چلا لیتا، مہرین بیچ بیچ میں گردن گھما کہ فہد کو دیکھ کہ بات کر لیتی مگر فہد بکھرے بالوں کے ساتھ فرش پہ نظریں گاڑھے ہوا میں ٹانگیں ہلاتا جا رہا تھا
مہریں؛ چائے پیوگے؟
فہد :جی بنا لیں، پہلے ایک گلاس پانی پال دیں
مہرین اپنے بھائی کی آواز پہ لبیک کہہ کہ پانی کا گلاس لیے اسکے سامنے آ گئی، گلاس مہرین کے ہاتھ سے فہد کے ہاتھ میں آنے تک آنکھوں سے آنکھیں ملی اور محبت بھری مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، فہد نے ایک ہی سانس میں پانی ختم کر کہ گلاس واپس کیا، پانی کو اتنی تیزی سے پینے کیوجہ سے کچھ قطرے جو فہد کے ہونٹوں سے چھلک چکے تھے، مہرین نے فہد کو کندھوں سے کھینچ کہ ذرا نیچے کیا اور کسی حد تک اپنے پاؤں کے پنجوں کے آسرے اپنا آپ اونچا کر کہ فہد کے گالوں سے ٹپکتے قطروں کو اپنی زبان سے چاٹ لیا، مہرین ایسا کرنے کے بعد فہد کو مسکرا کہ دیکھتی ہوئی فہد کے بکھرے بالوں کو اپنی انگلیوں سے مزید بکھیر کہ لچکتی ہوئی چائے بنانے کیلیے چولہے کی طرف بڑھ گئی، مہرین چولہے کو ماچس کی تیلی سے جال چکی تھی، فہد مہرین کی اس چھوٹی سی محبت بھری شرارت پہ ہنستا ہوا مہرین کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا ہی جا رہا تھا، مہرین چائے کے برتن چولہے پہ رکھتے ہوئے فہد کا اس انداز سے دیکھنے پہ مزید لہک لہک کہ کام کر رہی تھی، مہرین کا رخ دوسری طرف تھا اور فہد کی نظر مہرین کی خوبصورت گانڈ پہ تھی، مہرین جب جب کسی کام کیلیے قدم اٹھا کہ ادھر سے اُدھر ہوتی تو اسکی گانڈ چھلک جاتی مہرین جب اپنے بھائی کو کسی بات پہ مڑ کہ دیکھتی تو اسکی چھلکتی چھاتیاں تنے ہوئے سرخی مائل نپلز سمیت ہلنے لگ جاتی، مہرین کے کے کھلے بال ساری کمر کو ڈھانپے ہوئے تھے، مہرین کی خوبصورت آنکھیں ابھی ابھی جگنے کیوجہ سے ایک عجیب سی خماری میں تھی، مہرین کے خوبصورت ہونٹ بنا کسی لپ اسٹک کے گالبی ہو رہے تھے، مہرین کے خوبصورت ہاتھ چائے بنانے کیلیے مصروف تھے.
فہد دور بیٹھا مہرین کیخوبصورتی کو بس دیکھتا ہی جا رہا تھا مہرین چائے کیلیے قہوہ پکا چکی تھی اور اب اس میں دودھ ڈالنے کیلیے دودھ کے برتن کو اٹھانے کے لیے جو کہ فہد کے قریب پڑا تھا فہد کے قریب آ گئی فہد نے اس خوبصورت حور کو دیکھ کہ اسکا ہاتھ پکڑ کہ کھینچ لیا اور اپنے پاس کر کہ ابھی چومنے ہی لگا تھا کہ مہرین نے مسکراتے ہوئے اپنا آپ اپنے بھائی سے چھڑوا لیا اور بہت ہی شرارتی انداز میں جواب دیا
مہرین؛ پہلے چائے نہ پی لیں؟
فہد ہنس کہ مہرین کو چھوڑ چکا تھا مہرین ابھی چولہے کے قریب نہیں پہنچی تھی کہ فہد چھالنگ لگا کہ شیلف سے اتر کہ اپنے قدموں پہ چلتا ہوا مہرین کے پیچھے سے آ کہ اپنا آپ مہرین سے چپکا کہ اپنی بانہوں کو مہرین کے گرد لپیٹ لیا فہد اپنے چہرے کو مہرین کی گردن پہ ٹکائے کھڑا تھا مہرین کو اپنے بھائی کی اس والہانہ محبت پہ بہت پیار آیا اور وہ وقتی طور پہ برتنوں کو چھوڑ کہ فہد کے ہاتھوں کو پکڑ کہ فہد کے ساتھ اپنا آپ چپکا کہ کھڑی ہو گئی فہد کے بازو مہرین کی چھاتیوں کو دابا رہے تھے قہوہ پکتا جا رہا تھا اور اب اس میں دودھ ڈالنا ناگزیر ہو چکا تھا مہرین نے اپنا آپ کسی حد تک فہد سے آزاد کروا کہ دودھ کی ایک مقدار پکتے ہوئے قہوے میں ڈالی اور اسی دوران مہرین کو اپنے بھائی کا لن اپنی گانڈ پہ لگتا ہوا سخت محسوس ہوا فہد لن کو اپنی بہن کی گانڈ کی لائین میں رگڑ رہا تھا مہرین نے دودھ ڈال لینے کے بعد چائے کے پکنے تک کے وقفے کے لیے اپنا آپ فہد سے واپس اسی نوعیت سے چپکا لیا اور گردن گھما کہ فہد کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ مال لیے فہد اور مہرین اسی پوز میں ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے جا رہے تھے اور چولہے پہ پک رہی چائے اپنا درجہ حرارت بڑھارہی تھی فہد نے مہرین کو اپنی طرف گھمایا تو مہرین دانت نکالتی ہوئی فہد کی طرف گھوم کہ اسکی بانہوں میں آگئی فہد اپنی بہن کو جھک کہ گردن سے گالوں سے اور سینے سے چومتا جا رہا تھا۔
مہرین موقع ملنے پہ واپس چائے کی طرف دیکھ کہ اس رومانس کی مدت کا اندازہ لگانے لگ جاتی فہد اور مہرین دوبارہ بہک رہے تھے اس لیےںدونوں فی الحال یہی چاہ رہے تھے کہ کاش اس چائے کا ابلنا تاخیر کا شکار ہو جائے چائے میں ہلکا ہلکا ابال آتا جا رہا تھا اور ادھر فہد اور مہرین کے جذبات میں گرمی بڑھتی جا رہی تھی، فہد کا لن مکمل طور پہ تن چکا تھا اور مہرین کی پھدی کے حالات بھی اچھے نہیں تھے، مہرین اپنا آپ فہد سے چٹوا اور چسوا رہی تھی اور ساتھ ساتھ چائے کی طرف غصے سے دیکھ رہی تھی، گویا وہ چائے کو غصے سے دیکھ کہ یہ کہنا چاہ رہی کو کہ
"رک جاؤ ابھی اسوقت اُبل کہ ہماری محبت میں خلل نہ ڈالنا کیا تم دیکھ نہیں رہی کہ میں اپنے محبوب کی بانہوں میں مچل رہی ہوں؟"
مہرین کو بس ایک نظر دیکھ رہی تھی اسکے علاوہ وہ فہد کے ساتھ مکمل طور پہ تعاون کر رہی تھی فہد مہرین کو اور مہرین فہد کو بڑھ چڑھ کہ چومتی جا رہی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کو چومتے چاٹتے شیلف کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جا چکے تھے اور اب فہد مہرین کو اس شیلف پہ ٹیڑھا کر کہ چوم رہا تھا لن اپنے پورے جوبن پہ آ کہ مہرین کے جسم میں چبھ رہا تھا مہرین کی پھدی تر ہو رہی تھی اسلیے وہ اب لن کو اپنی پھدی میں لینے کیلیے لن کو پکڑ کہ سہلا رہی تھی اور فہد کو مزید بہکا رہی تھی فہد نے اپنی بہن کو چومتے چومتے اسکی ایک ٹانگ کو پکڑ کہ اٹھایا اور اس ٹانگ کو شیلف پہ رکھ دیا اس پرزور حرکت کیوجہ سے مہرین کی پھدی ہونٹ پھیلائے فہد کا لن اپنے اندر لینے کیلیے مکمل تیار ہوچکی تھی، ٹانگ کو اتنا اوپر کر لینے کیوجہ سے مہرین کو تکلیف تو ہوئی لیکن لن کی طلب اتنی شدید تھی کہ اس تکلیف کو برداشت کرنا آسان ہو چکا تھا، دوسری جانب چائے اب پک کہ سسن سسن کی آواز پیدا کر رہی تھی جس سے دونوں بہن بھائی کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اب چائے ابلنے والی ہے مگر دونوں اس بات کو نظر انداز کر کہ ایک دوسرے میں مگھن تھے، فہد نے اپنے لن کو اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کہ پھدی پہ پھیرا جس سے مہرین کی آہ نکل گئی، فہد مہرین کی ایک چھاتی کو زور سے مسلتا ہوا اپنے لن کو پھدی پہ رگڑتا جا رہا تھا اور مہرین آنکھیں بند کیے مزے سے آنہیں بھر رہی تھی، مہرین کا ایک ہاتھ شیلف پہ ٹکا ہوا تھا اور ایک ہاتھ سے فہد کو کندھے سے پکڑ کہ اپنا آپ سنبھال رہی تھی، فہد کا ایک ہاتھ مہرین کی کمر پہ تھا اور دوسرے ہاتھ سے لن کو پھدی سے رگڑ رہا تھا، فہد نے لن کو پھدی کے سوراخ پہ رکھ کہ اپنی کمر کو ہلا کہ زور لگایا جس سے لن پھدی میں دھنستا ہی چلا گیا اور مہرین اس تکلیف اور مزے کی حالت سے کراہنے لگی، فہد نے لن کو گہرائی تک لے جا کہ باہر نکالا تو مہرین کی اور آہ نکل گئی وہ بند آنکھوں سے فہد کو زور سے پکڑے ہوئے مزہ لے رہی تھی فہد مہرین کو چودتا جا رہا تھا اور اب جھٹکوں کی شدت سے مہرین کی چھاتیاں چھلک چھلک کہ ہل رہی تھی چولہے پہ پڑی چائے زور زور سے شن شن کی آوازیں پیدا کر رہی تھی مگر مہرین اور فہد چائے کی آواز سے بے پرواہ کو کہ آنہوں اور سسکاریوں کی آوازیں پیدا کر رہے تھے، مہرین کراہ کراہ کہ
"آہ فہد ,افف آہممم آہ آہ آہ اُوئی آہ" کر رہی تھی اور فہد بھی ایسی ہی آوازیں نکالتا ہوا اپنی بہن کا نام لیتا جا رہا تھا "آہ مہرین اف اف آہ باجی آہامم آہمم مہرین باجی" فہد کے جھٹکے تیز سے تیز ہوکہ مہرین کو ڈسچارج کرنے والے تھے، اب مہرین دونوں ہاتھوں کو فہد کے کندھوں کے گرد لپیٹ کی آنکھوں اور ہونٹوں کو بھینچ کہ اپنے بھائی سے چد رہی تھی مہرین کی پھدی اس چدائی کی تاب نہلا سکی اور بلاآخر مہرین فہد فہد کرتے ڈسچارج ہوگئ چولہے پہ پڑی چائے اب ابل ابل کہ ششن ششن کا شور پیدا کر رہی تھی مگر پرسان حال اسوقت اسکا کوئی نہیں تھا، فہد نے مہرین چودتے چوتے شیلف پہ الٹا کر لیا، اب مہرین اپنی چھاتیاں شیلف پہ چپکائے اپنے بھائی کا لن پیچھے سے اپنی پھدی میں ڈلوا چکی تھی، فہد اپنے گھٹنوں کو خم کر کہ لن کو پھدی میں ڈال کہ طاقتور جھٹکے مارتا جا رہا تھا، فہد کے طاقتور جھٹکوں سے پیدا ہونے والی ٹپ ٹپ کی آواز کچن میں گونج رہی تھی فہد مہرین کو چودتے چودتے ڈسچارج ہو گیا اور شیلف پہ چھاتیاں چپکائے ہوئی اپنی بہن پہ وزن ڈال کہ ہانپنے لگا چائے اب ابل کہ برتن سے باہر گر چکی تھی اور اتنی زیادہ ابل چکی تھی کہ جلتا چولہا چائے کی وجہ سے بجھ چکا تھا، فہد مہرین کے اوپر ہانپتے ہوئے اسکے چہرے بال ہٹا کہ گال چومنے لگا اور مہرین بھی مسکرا کی فہد کو پیارنسے سہلانے لگی، فہد مہرین سے اتر کہ شیلف پہبیٹھ گیا اور مہرین کو اپنے اوپر کر کہ آرام دینے لگا مہرین فہد پہ اپنا آپ انڈیل کہ سانسیں بہال کرنے لگی، دونوں کے چہرے پہ عجیب سا تشکر تھا، وہ اتنا پرسکون محسوس کر رہے تھے اور یہ احساس دونوں کیلئے نیا تھا، مہرین نے سر اٹھا کہ فہد کی طرفندیکھا
مہرین؛ موت کا سوداگر ہے حکیم، محبت کی پڑیا میں واقعی اثر ہے
فہد مہرین کی اس بات پہ ہنسنے لگا
فہد؛ باجی سر چکرا دیا میرا, ایسی حالت پہلے کبھی نہیں ہوئی، مجھے ذرا بھی انداہ ہوتا کہ حکیم صاحب کی دواء میں اتنا اثر ہے تو کبھی بھی نہ کھاتا
مہرین؛ چلو اچھا ہی ہوا، حکیم کا احسان ساری زندگی یاد رکھوں گی
فہد؛ یہ احسان حکیم صاحب کا ہے یا میرا؟
مہرین؛ حکیم صاحبکا
فہد؛ وہ کیسے، ساری رات سے زور میرا لگ رہا ہوں اور احسان حکیم صاحب کا؟
مہرین؛ بچا کہ رکھو ابھی اپنا زور، ابھی سارا دن باقی ہے ساری رات باقی ہے، دیکھتے ہیں کتنا زور ہے اور
فہد؛ باجی چائے پلا دیں اب، پھر جو کہو گی کرون گا
مہرین؛ پکا؟ جو کہوں گی کرو گے؟ مکر تو نہیں جاؤ گے؟
فہد؛ آپکی قسم نہیں مکرتا فی الحال ایک کپ چائے مل جائے تو سکون ہوگا
مہرین؛ چلو جاؤ جا کہ اپنے بھانجے کو دیکھو میں ابھی چائے بناکہ آئی یہ والی چائے تو برباد کر دی اب نئی بنا کی لاتی ہوں۔
فہد اپنی بہن کو چوم کہ کچن سے چلا گیا اور مہرین دوبارہ نئی چائے بنانے میں لگ گئی۔
فہد کمرے میں لیٹا اپنے بھانجے سے کھیلنے لگا اور مہرین چائے کے دو کپ لے کہ کمرے میں مسکراتی ہوئی داخل ہو گئی، فہد کیلیے چائے کیساتھ ہلکی پھلکی غذا کا انتظام بھی مہرین کر کہ آئی تھی، دونوں بہن بھائی نے مزیدار چائے کا مزہ لیا اور ساتھ ساتھ محبت بھری باتیں کرتے کرتے چائے ختم کی، مہرین چائے کے برتن واپس رکھنے گئی تو واپسی پہ فہد کو سویا ہوا پایا فہد اوندھے منہ تکیے کے نیچے سر دیے ٹانگیں پھیلائے گہری سانسیں لیتا ہوا خوابوں کی دنیا میں جا چکا تھا، مہرین کو اپنے بھائی کی نیند میں کسی قسم کا خلل نہیں چاہیے تھا اسلیے اپنے بچے کو لے کہ دوسرے کمرے میں چلی امور گئی اور نہا دھو کہ خانہ داری میں مصروف ہوگئی، مہرین کے چہرے پہ آج ایسی چمک تھی کہ وہ بار بار شیشے میں اپنا آپ دیکھ کہ خود ہی شرما جاتی، اپنی محبت کو حاصل کرنے کا احساس مہرین کی باچھیں پھیلا رہا تھا، کچھ گھنٹوں کی نیند لینے کے بعد فہد بھی بیدار ہو گیا اور کمرے میں بستر پہ ہی مہرین باجی مہرین باجی کی آوازیں دے کہ اپنی بہن کو بلانے لگا، مہرین بھاگی فہد کے کمرے میں لپکی تو فہد۔نے ناشتے کی فرمائش کردی، مہرین نے اپنے بھائی کیلیے پرتکلف ناشتے کیلیے کچن کا رخ کیا اور فہد نہا دھو کہ پاجامہ اورٹی شرٹ پہنے ناشتے کا انتظار کرنے لگا، ناشتے کرنے کے بعد فہد کے جسم میں حرارت آ گئی اور وہ اپنی بہن کا شکریہ ادا کرنے لگا، مہرین گذشتہ رات سے فہد کی طبیعت کیلیے ذرا پریشان تھی اسلیے بار بار فہد سے طبعیت کا پوچھ رہی تھی, اپنی بہن پہ جان دینے والا بھائی ہر بار مہرین کو پریشان نہ ہونے کی تلقین کر رہا تھا اور مزاح بھری حرکتیں کر کر کہ مہرین کو ہنسا رہا تھا، کمرے میں بلند ہوتے قہقہے ایک الگ ہی دنیا کا احساس دلا رہے تھے، ایک ایسی دنیا جہاں بے لوث محبت کے علاوہ کسی اور جذبے کیلیے جگہ نہیں تھی، اس دنیا کا شہزادہ فہد تھا اور مہرین شہزادی، ایک ایسی شہزادی جو برسوں سے کسی سحر کیوجہ سے سوئی پڑی تھی اور آج شہزادے کی لمس کی وجہ سے اس سحر سے آزاد ہوکہ دنیا کی رنگینی کا مزا لے رہی تھی، گپ شپ چلتی۔جا رہی تھی، اس گپ شپ کا مرکز کبھی فہد بن جاتا تو کبھی مہرین، کبھی رات کے گزرے ہوئے لمحوں پہ مہرین فہد کو چھیڑ کہ شرمانے پہ مجبور کر دیتی تو کبھی فہد مہرین کو رنگین مزاج عورت کا لقب دے کہ چڑانے لگ جاتا، دوپہر کا وقت ہو گیا اور مہرین فہد کیساتھ مل کہ دوپہر کے کھانے کا سامان کرنے لگی، فہد صبح ناشتے کے بعد سے لے کہ دوپہرتک دو تین بار اپنی بہن کا۔دودھ پی پی چکا تھا، دودھ پینے کے دوران اسکا لن تن جاتا تو مہرین اسے سیکس سے کسی نہ کسی طرح ہیلے بہانے کر کہ روکتی رہی، مہرین کے جسم کی۔برداشت بچہ پیدا کرنے کے بعد اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی، اب وہ ایک بچے کو دودھ بھی پلا رہی تھی جس وجہ سے وہ فہد کو مکمل طور پہ سکون دینے سے فی الحال قاصر تھی مگر سیکس کرنے کیلیے انکاری ہر گز نہ تھی, مہرین کو تو پہلے والی جنسی عادتوں پہ واپس آنے کیلیے کچھ وقت درکار تھا، دوپہر کا کھانا بنانے تک فہد مہرین کے آگے پیچھے پھرتا رہا، کبھی مہرین کے پستان چوستا اور کبھی مہرین کے ہونٹ اور گردن مہرین کام میں مصروف فہد سے بھی کچن کے کام کروانے لگی، فہد کا لن تن جاتا تو کبھی واپس ڈھیلا پڑجاتا، دوپہر کے کھانے تک فہد چدائی کیلیے ترستا مہرین کی ایک طرح سے منتیں کر چکا تھا مگر مہرین فہد کو صبر سے کام لینے کا کہہ کہ ٹال رہی تھی، دوپہر کا کھانا کھا لینے کے بعد اب مہرین کے پاس سوائے اپنے بھائی سے چدنے کے اور کوئی چارہ نہ بچا اسلیے اب مہرین کے پاس بہانوں کی فہرست تقریبا ختم ہو چکی تھی, سیر ہو کہ کھانا کھانے کے بعد فہد زمین پہ بچھے دستر خوان پہ ہی مہرین کے پاس آ کہ اسکی گردن پہ بوسے لینے لگا، مہرین نے فہد کو برتن اٹھانے کیلیے روکا مگر اب فہد کا صبر جواب دے چکا تھا، فہد بنا رکے مہرین پہ چڑھ چڑھ کہ چومتا جا رہا تھا، مہرین بے بس ہو کہ وہیں دستر خوان پہ ہی الٹی ٹیڑھی ہو کہ فہد کو بار بار روکنے پہ نہ رکنے کے باوجود اپنی ہار تسلیم کر ک ہدانت بھینچ کی مسکرا رہی تھی، فہد مہرین کے جسم کو کپڑوں کے اوپر سے ہی چوم چاٹ رہا تھا اور مہرین وہیں پہ فہد کے نیچے ٹیڑھی ہو کہ فہد کے ساتھ رومانس کر رہی تھی، فہد اور مہرین کی ٹانگوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے کچھ برتن گرے بھی لیکن فہد نہ ہی خود برتنوں کی طرف متوجہ تھا اور مہرین کو بھی اس طرف جانے نہیں دینا چاہتا تھا، فہد مہرین پہ چڑھ کہ اب مہرین کی زبان کو چوس رہا تھا اور مہرین بھی سانسیں پھال کہ فہد کے ہونٹ چوس رہی تھی، فہد کے ہاتھوں میں بجلی کی تیزی آچکی تھی اسلیے بنا وقت ضائع کئے فہد نے مہرین کی قمیض کو اتارنے کیلیے اٹھا دیا، مہرین دستر خوان پہ گرء پڑی اپنی قمیض اور شلوار کو بالترتیب اتار کہ فہد کے کپڑے اتارنے لگی، فہد کا اکڑا ہوا لن لوہے کیطرح سخت ہو چکا تھا، فہد نے مہرین کو چومتے چومتے اپنا لن مہرین کی پھدی پہ ٹکا دیا اور مہرین جو کہ کچھ دیر پہلے تک فہد کو منع کر رہی تھی اب اپنی کمر کو اٹھا کہ لن اندر ڈلوانے کیلیے آسانی بنا رہی تھی، مہرین اپنی کہنیوں کے سہارے اپنے دھڑ کو اونچا کیے ہوئے ٹانگیں پھیلائے فہد کا لن اپنی پھدی میں ڈلوا چکی تھی، فہد نے مہرین کی کمر کو مضبوط گرفت سے پکڑا ہوا تھا اور اب چدائی کو اگلے مرحلے میں لے کہ جانے کیلیے کمر کو ہلا ہلا کہ جھٹکے مارنے لگا، فہد کے جھٹکے پوری طاقت کیساتھ پھدی کو چود رہے تھے اور مہرین کی چھلکتی چھاتیاں جھٹکوں کی شدت کی گواہ کے طور پہ دھمال ڈال رہی تھی، پاس پڑے برتن ٹانگوں کی وجہ سے الٹ پلٹ چکے تھے، فہد اپنی بہن کو چودتا جا رہا تھا اور آنہوں سے مہرین فہد کو جوش دلا رہی تھی، چدائی چلتی جا رہی تھی اور مہرین اپنی پھدی کا پانی نکال کہ ڈسچارج ہو چکی تھی، مہرین آنکھیں اور ہونٹ بھینچ کی ڈسچارج ہوتے ہوئے آہ فہد اف آہ ہمم آہ بھائی کر کہ زمین پہ اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ کہ گر چکی تھی مگر فہد تیز تیز جھٹکوں سے مہرین کو بس چودتا ہی جا رہا تھا، مہرین اور فہد نے کچھ لمحوں کا وقفہ ڈال کہ اپنی جگہ کو تبدیل کیا اب مہرین بیڈ پہ جا کہ گھوڑی بن گئی فہد مہرین کے پیچھے سے آ کہ دوبارہ پھدی میں چودنے لگا، فہد نے مہرین کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا اور چودتے چودتے فہد مہرین کی لٹکتی چھاتیوں کو دبانے لگ جاتا تو کبھی مہرین کی گردن کو ہاتھ سے پکڑ کہ اتنا زور سے کھینچ لیتا کہ مہرین کی سانسیں بند ہونے لگ جاتی، فہد زور سے مہرین کو چودتا جا رہا تھا اور مہرین دوبارہ سے ڈسچارج ہونے کیلیے مچل مچل کی فہد کے ہاتھ اپنی چھاتیوں پہ رکھواتی تو کبھی فہد کے ہاتھ کو کھینچ کہ اسکی انگلیاں چوسنے لگ جاتی، فہد اب ڈسچارج ہونے والا تھا اور مہرین بھی ڈسچارج ہونیوالی تھی، دونوں بہن بھائی ایک ساتھ ڈسچارج ہوگئے اور ہانپتے ہوئے وہیں بستر پہ گر گئے، فہد مہرین کو پیچھے سے گلے لگائے اپنا آپ مہرین سے چپکا کہ لیٹا ہوا تھا مہرین محبت سے اپنے بھائی کے ہاتھ چوم رہی تھی، سانسیں بحال ہونے پہ مہرین فہد کے اوپر آ کہ لیٹ گئی اور اپنا ماتھا اور ناک فہد کے ماتھے اورناک پہ لگا کہ ہونٹوں کے بوسے لینے لگی
مہرین؛ کتنیخوش قسمت ہوں میں، فہد کاش یہ وقت یہیں رک جائے اور ہمیں جدا کرنیوالا کوئی نہ ہو.
فہد؛ باجی کیا ہو گیا ہے، آج تو آپ شاعروں کی زبان بول رہی ہیں، ہمیں کس نے جدا کرنا، میں آپ کے پاس ہی ہوں اور بس آپکا ہی ہوں، کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ.
مہرین؛ ہاں تم ہمیشہ میرے ہو اور میںصرف تمہاری، اتنی خوشی مجھے آج تک نہیں ملی جتنی تمہارے ساتھ ملی ہے، بس ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ خوشیاں کوئی چھین نہ لے.
فہد؛ کوئی نہیں چھینتا مجھے آپ سے اور آپ کو مجھ سے، اور باقی رہی بات خوشیوں کی تو اگر آپکو ایسے خوشی ملتی ہے تو ابھی دوبارہ سے خوش کردوں؟
فہد مہرین کو دوبارہ سے چودنے کا کہہ رہا تھا اور مہرین ہنستے ہوئے فہد کے گالوں پہ دانتوں سے کاٹ کہ نشان ڈالنے لگی، فہد درد سے کراہ کراہ کہ مہرین سے اپنا آپ کٹوا رہا تھا قہقہوں اور چیخوں کی آوازیں بلند ہونے لگی، جب مہرین فہد کو کاٹ کاٹ کہ تسلی کر چکی تو دوبارہ سے گفتگو اور بوسوں کا سلسلہ چل پڑا، دونوں آدھی بات کہہ کہ ایک دوسرے کہ ہونٹ چومتے اور بات پوریکرتے
فہد؛ باجی بہت ظالم ہو آپ قسم سے، ذرا ترس نہیں آتا مجھ پہ؟
مہرین؛ تمہیں مجھ پہ ترس آیا ایک بار بھی؟ جانوروں کی طرح کل رات سے مجھ پہ چڑھے ہوئے ہو، حکیم کی دوا کھائی ہے تو اب حکیم سے ہی کسی ایسی لڑکی کا بندوبست کرواو جو بنا رکے تمہارے لیے ٹانگیں پھیلا کہ بیٹھی رہے
فہد؛ آپکو ہی شوق تھا چہرے پہ لالیاں چڑھانے کا دیکھیں تو ذرا کتنا لال ہو رہا ہے آپکا چہرہ
مہرین؛ صرف چہرہ ہی لال نہیں ہوا سارا جسم لال ہو گیا ہے، خاص طورپہ .....وہاں سے
فہد؛ کہاں سے؟ بتاو بتاو؟ خاص طور پہ کہاں سے ہوا ہے؟
مہرین فہد پہ بوسوں اور مکوں کی برسات کرتے ہوئے شرما رہی تھی اور فہد بار بار یہی سوال دہراتا جا رہا تھا کہ خاص طور پہ کہاں سے لال ہوا ہے تو مہرین شرماتے بول کہ فہد کے سینے میں چھپ گئی
فہد؛ بولو بھی باجی
مہرین؛ پھدی سے.
فہد مہرین کی اس بات پہ کھل کھلا کہ ہنسنے لگا، اور مہرین کے گرد اپنی بانہوں کو گھیر کی بات کرنے لگا
فہ؛ اچھا؟ تو آپکی پھدی بھی لال ہو گئی ہے، یہ تو میں نے دیکھا ہی نہیں دکھاؤ تو ذرا.
مہرین بہت زیادہ شرما کہ فہد کو اس ننگی گفتگو سے منع کرنے لگی لیکن دراصل مہرین کو بھی ان الفاظ کے دہرائے جانے پہ مزہ آرہا تھا، کچھ دیر شرمانے کی بعد مہرین نے گردن اٹھا کہ فہد کے ہونٹوں سے چوما اور فہد کی بات کا جواب دیا
مہرین؛ ہاں ہاں میری پھدی آپکے لن کی وجہ سے لال ہو گئی ہے، اب خوش؟ میں نہیں چڑھنے والی، اگر میں نے ننگی باتیں شروع کر دیں تو تم نے شرما جانا ہے.
فہد؛ اوہو ہو ہو، نہیں باجی مجھے معاف کر دیں میں نے غلط جگہ ہاتھ دے لیا ہے، بات کو بدلیں۔
مہرین جوکہ اب خوشگوار اور پر اعتماد طریقے سے فہد کو جواب دے چکی تھی، فہد کا نیا امتحان لینے لگی
مہرین؛ ابھی تو غلط جگہ ہاتھ دیا ہے، آگے آگے تو وہاں پہ زبان بھی دینی پڑے گی
فہد بوکھلا کہ ہنستے ہوئے مہرین کو دیکھنے لگا۔
جاری ہے
0 Comments