ads

Garm Behn Bhai - Episode 21

گرم بہن بھائی 


قسط 21




فہد اور مہرین پر تکلف‬‫ چدائی کا مزہ لے کہ سو‬‫ چکے تھے، مہرین اپنے‬‫ بچے کو بھی سنبھلا رہی‬‫ تھی اور اپنے بھائی کو بھی‬‫ مزہ دے رہی تھی، ساری‬ ‫رات فہد کروٹ بدلتا بیچین‬‫ نیند میں بڑبڑا رہا تھا۔

مہرین فہد کے بڑبڑانے‬‫ کیوجہ سے جاگ جاتی اور‬‫ اپنے بھائی کو کبھی‬‫ تھپکا کہ اور کبھی سینے‬‫ سے لگا کہ سلانے لگ‬‫ جاتی، فہد اسی بیچینی میں‬‫ جاگ گیا، جب اسکی آنکھ‬‫ کھلی تو سورج طلوع ہو‬‫ چکا تھا، سورج کی ٹھنڈی‬ ‫ٹھنڈی روشنی پھیل چکی‬‫تھی، جب فہد کی نظر مہرین‬‫ پہ پڑی تو وہ اپنے بچے کو‬‫ ساتھ لٹائے گہری نیند سو‬‫ رہی تھی، مہرین بھی فہد کی‬‫ طرح برہنہ ہی تھی، فہد کا‬‫ گلا خشک تھا، ساری رات‬‫ خالی پیٹ اپنی بہن کو‬‫ چودنے کیوجہ سے اب پیٹ‬‫ میں چوہے دوڑ رہے تھے، فہد کا سر بھاری محسوس‬ ‫ہو رہا تھا، اسی ملی جلی‬‫ بیچینی کی صورتحال میں‬‫ فہد اٹھ کہ لڑکھڑاتے قدموں‬‫ سے کچن میں چال گیا، فہد‬‫ کی دماغی حالت جسمانی‬‫ ناتوانی کیوجہ سے بہت بہتر‬‫ نہیں تھی، فہد برہنہ حالت‬‫ میں ہی کچن میں پانی پی کہ‬‫ چولہے کے نزدیک شیلف پہ‬‫ ہاتھ کے سہارے اپنے سر‬‫ کو پکڑے کھڑا تھا، اِّدھر‬ ‫اُدھر نظر دوڑانے پہ چائے‬‫ کا سامان ڈھونڈتا ہوئے فہد‬‫ کے ہاتھ سے برتن گر گئے‬‫ جن کے شور کیوجہ سے‬‫ کمرے میں سوئی ہوئی‬‫ مہرین جاگ گئی،

مہرین نے‬‫ آنکھ کھلتے ہی برتنوں کے‬‫ گرنے سے پیدا ہونیوالے‬‫ شور کی آواز کا تعاقب کیا‬‫ تو اسکو اندازہ ہو گیا کہ‬‫ بستر سے غائب اسکا چھوٹا‬ ‫بھائی کچن میں اودھم مچا‬‫رہا ہے، مہرین فورا اٹھ کہ‬‫ کچن کی طرف بڑھی تو وہاں‬‫ فہد کو برتنوں میں گھرا ہوا‬‫ پایا تو کچن کے دروازے‬‫ سے ہی بولتی ہوئی کچن‬‫ میں داخل ہوئی اور فہد کو‬‫ہٹا کہ برتن سمیٹنے‬‫ لگی

مہرین؛ اف ہو فہد مجھے جگا لیتے بچے ہی‬‫ رہو گے تم 


فہد اپنی ننگی‬ ‫بہن کو سامان سنبھالتے‬‫ ہوئے اپنی امداد کرتے‬‫ ہوئے دیکھ رہا تھا، فہد اور‬‫ مہرین برہنہ ہی اس سارے‬‫ کام میں لگے ہوئے تھے، جب مہرین برتن سمیٹ چکی‬‫ تو اسکی نظر فہد پہ پڑی‬‫ جو وہیں شیلف پہ ننگا بیٹھا‬‫ ہوا میں اپنی ٹانگیں ہلاتا ہو‬‫ا مہرین کو سوجی ہوئی‬‫ آنکھوں سے دیکھ رہا‬ ‫تھا

مہرین؛ طبیعت بہتر ہے‬‫ اب؟

فہد نے مسکرا کہ ہاں‬‫ میں جواب دیا

مہریں؛ آنکھیں‬‫ کیوں سوجی ہوئی ہیں؟

فہد‬‫ نے وہیں پہ بیٹھے ہوئے‬‫ گردن ہلا کہ اپنی لاعلمی کا‬‫ اظہار کیا، مہرین برتنوں کو‬‫ دھوتی جا رہی تھی اور فہد‬‫ سے باتیں کرتی جا رہی‬‫ تھی، فہد زیادہ بول بھی نہیں‬‫ تھا اور نہ ہی مہرین کے‬ ‫جسم پہ ٹکٹکی باندھ کہ‬‫ دیکھ رہا تھا ایسا لگ رہا‬‫ تھا کہ جیسے وہ کسی گہری‬‫ سوچ میں ڈوبا ہوا ہے، مہرین کو اچھی طرح سے‬‫ اندازہ تھا کہ فہد کن خیالوں‬‫ میں گم ہے اس لیے فی‬ الحال وہ فہد کو دماغی‬‫ کوفت سے دور رکھنے‬‫ کیلئے بس رسمی گفتگو ہی‬‫ کر رہی تھی، فہد بس‬ ‫اشاروں سے جواب دیتا ہوا‬‫ بات کر رہا تھا اور بہت‬‫ ضرورت پڑنے پہ ہاں ہوں‬‫ جی سے کام چلا لیتا، مہرین‬‫ بیچ بیچ میں گردن گھما کہ‬‫ فہد کو دیکھ کہ بات کر لیتی‬‫ مگر فہد بکھرے بالوں کے‬‫ ساتھ فرش پہ نظریں گاڑھے‬‫ ہوا میں ٹانگیں ہلاتا جا رہا‬‫ تھا 


مہریں؛ چائے پیو‬‫گے؟ 

فہد‪ :‬جی بنا لیں، پہلے‬ ‫ایک گلاس پانی پال دیں

مہرین‬‫ اپنے بھائی کی آواز پہ لبیک‬‫ کہہ کہ پانی کا گلاس لیے‬‫ اسکے سامنے آ گئی، گلاس‬‫ مہرین کے ہاتھ سے فہد کے‬‫ ہاتھ میں آنے تک آنکھوں‬‫ سے آنکھیں ملی اور محبت‬‫ بھری مسکراہٹوں کا تبادلہ‬‫ ہوا، فہد نے ایک ہی سانس‬‫ میں پانی ختم کر کہ گلاس‬‫ واپس کیا، پانی کو اتنی‬ ‫تیزی سے پینے کیوجہ سے‬‫ کچھ قطرے جو فہد کے‬‫ ہونٹوں سے چھلک چکے‬‫ تھے، مہرین نے فہد کو‬‫ کندھوں سے کھینچ کہ ذرا‬‫ نیچے کیا اور کسی حد تک‬‫ اپنے پاؤں کے پنجوں کے‬‫ آسرے اپنا آپ اونچا کر کہ‬‫ فہد کے گالوں سے ٹپکتے‬‫ قطروں کو اپنی زبان سے‬‫ چاٹ لیا، مہرین ایسا کرنے‬ ‫کے بعد فہد کو مسکرا کہ‬‫ دیکھتی ہوئی فہد کے‬‫ بکھرے بالوں کو اپنی‬‫ انگلیوں سے مزید بکھیر کہ‬‫ لچکتی ہوئی چائے بنانے‬‫ کیلیے چولہے کی طرف بڑھ‬‫ گئی، مہرین چولہے کو‬‫ ماچس کی تیلی سے جال‬‫ چکی تھی، فہد مہرین کی‬‫ اس چھوٹی سی محبت بھری‬‫ شرارت پہ ہنستا ہوا مہرین‬ ‫کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا‬‫ ہی جا رہا تھا، مہرین چائے‬‫ کے برتن چولہے پہ رکھتے‬‫ ہوئے فہد کا اس انداز سے‬‫ دیکھنے پہ مزید لہک لہک‬‫ کہ کام کر رہی تھی، مہرین‬‫ کا رخ دوسری طرف تھا اور‬‫ فہد کی نظر مہرین کی‬‫ خوبصورت گانڈ پہ تھی، مہرین جب جب کسی کام‬‫ کیلیے قدم اٹھا کہ ادھر سے‬ ‫اُدھر ہوتی تو اسکی گانڈ‬‫ چھلک جاتی مہرین جب‬‫ اپنے بھائی کو کسی بات پہ‬‫ مڑ کہ دیکھتی تو اسکی‬‫ چھلکتی چھاتیاں تنے ہوئے‬‫ سرخی مائل نپلز سمیت ہلنے‬‫ لگ جاتی، مہرین کے کے‬‫ کھلے بال ساری کمر کو‬‫ ڈھانپے ہوئے تھے، مہرین‬‫ کی خوبصورت آنکھیں ابھی‬‫ ابھی جگنے کیوجہ سے‬ ‫ایک عجیب سی خماری میں‬‫ تھی، مہرین کے خوبصورت‬‫ ہونٹ بنا کسی لپ اسٹک کے‬‫ گالبی ہو رہے تھے، مہرین‬‫ کے خوبصورت ہاتھ چائے‬‫ بنانے کیلیے مصروف تھے.

فہد دور بیٹھا مہرین کی‬‫خوبصورتی کو بس دیکھتا‬‫ ہی جا رہا تھا مہرین چائے‬‫ کیلیے قہوہ پکا چکی تھی‬‫ اور اب اس میں دودھ ڈالنے‬ ‫کیلیے دودھ کے برتن کو‬‫ اٹھانے کے لیے جو کہ فہد‬‫ کے قریب پڑا تھا فہد کے‬‫ قریب آ گئی فہد نے اس‬‫ خوبصورت حور کو دیکھ کہ‬‫ اسکا ہاتھ پکڑ کہ کھینچ لیا‬‫ اور اپنے پاس کر کہ ابھی‬‫ چومنے ہی لگا تھا کہ مہرین‬‫ نے مسکراتے ہوئے اپنا آپ‬‫ اپنے بھائی سے چھڑوا لیا‬‫ اور بہت ہی شرارتی انداز‬ ‫میں جواب دیا 


مہرین؛ پہلے‬‫ چائے نہ پی لیں؟

فہد ہنس کہ‬‫ مہرین کو چھوڑ چکا تھا مہرین ابھی چولہے کے‬‫ قریب نہیں پہنچی تھی کہ فہد‬‫ چھالنگ لگا کہ شیلف سے‬‫ اتر کہ اپنے قدموں پہ چلتا‬‫ ہوا مہرین کے پیچھے سے‬‫ آ کہ اپنا آپ مہرین سے‬‫ چپکا کہ اپنی بانہوں کو‬‫ مہرین کے گرد لپیٹ لیا فہد‬ ‫اپنے چہرے کو مہرین کی‬‫ گردن پہ ٹکائے کھڑا تھا مہرین کو اپنے بھائی کی‬‫ اس والہانہ محبت پہ بہت‬‫ پیار آیا اور وہ وقتی طور پہ‬‫ برتنوں کو چھوڑ کہ فہد کے‬‫ ہاتھوں کو پکڑ کہ فہد کے‬‫ ساتھ اپنا آپ چپکا کہ کھڑی‬‫ ہو گئی فہد کے بازو مہرین‬‫ کی چھاتیوں کو دابا رہے‬‫ تھے قہوہ پکتا جا رہا تھا‬ ‫اور اب اس میں دودھ ڈالنا نا‬‫گزیر ہو چکا تھا مہرین نے‬‫ اپنا آپ کسی حد تک فہد‬‫ سے آزاد کروا کہ دودھ کی‬‫ ایک مقدار پکتے ہوئے‬‫ قہوے میں ڈالی اور اسی‬‫ دوران مہرین کو اپنے بھائی‬‫ کا لن اپنی گانڈ پہ لگتا ہوا‬‫ سخت محسوس ہوا فہد لن‬‫ کو اپنی بہن کی گانڈ کی‬‫ لائین میں رگڑ رہا تھا مہرین نے دودھ ڈال لینے‬‫ کے بعد چائے کے پکنے‬‫ تک کے وقفے کے لیے اپنا‬‫ آپ فہد سے واپس اسی‬‫ نوعیت سے چپکا لیا اور‬‫ گردن گھما کہ فہد کے‬‫ ہونٹوں سے اپنے ہونٹ مال‬‫ لیے فہد اور مہرین اسی‬‫ پوز میں ایک دوسرے کے‬‫ ہونٹ چوستے جا رہے تھے‬‫ اور چولہے پہ پک رہی‬ ‫چائے اپنا درجہ حرارت بڑھا‬‫رہی تھی فہد نے مہرین کو‬‫ اپنی طرف گھمایا تو مہرین‬‫ دانت نکالتی ہوئی فہد کی‬‫ طرف گھوم کہ اسکی بانہوں‬‫ میں آگئی فہد اپنی بہن کو‬‫ جھک کہ گردن سے گالوں‬‫ سے اور سینے سے چومتا‬‫ جا رہا تھا۔

مہرین موقع‬‫ ملنے پہ واپس چائے کی‬‫ طرف دیکھ کہ اس رومانس‬ ‫کی مدت کا اندازہ لگانے لگ‬‫ جاتی فہد اور مہرین دوبارہ‬‫ بہک رہے تھے اس لیے‬‫ںدونوں فی الحال یہی چاہ‬‫ رہے تھے کہ کاش اس‬‫ چائے کا ابلنا تاخیر کا شکار‬‫ ہو جائے چائے میں ہلکا‬‫ ہلکا ابال آتا جا رہا تھا اور‬‫ ادھر فہد اور مہرین کے‬‫ جذبات میں گرمی بڑھتی جا‬‫ رہی تھی، فہد کا لن مکمل‬ ‫طور پہ تن چکا تھا اور‬‫ مہرین کی پھدی کے حالات‬‫ بھی اچھے نہیں تھے، مہرین اپنا آپ فہد سے چٹوا‬‫ اور چسوا رہی تھی اور‬‫ ساتھ ساتھ چائے کی طرف‬‫ غصے سے دیکھ رہی تھی، گویا وہ چائے کو غصے‬‫ سے دیکھ کہ یہ کہنا چاہ‬‫ رہی کو کہ 

"رک جاؤ ابھی اسوقت اُبل کہ ہماری محبت‬ ‫میں خلل نہ ڈالنا کیا تم‬‫ دیکھ نہیں رہی کہ میں اپنے‬‫ محبوب کی بانہوں میں مچل‬‫ رہی ہوں؟" 


مہرین کو بس‬‫ ایک نظر دیکھ رہی تھی‬‫ اسکے علاوہ وہ فہد کے‬‫ ساتھ مکمل طور پہ تعاون‬‫ کر رہی تھی فہد مہرین کو‬‫ اور مہرین فہد کو بڑھ چڑھ‬‫ کہ چومتی جا رہی تھی وہ‬‫ دونوں ایک دوسرے کو‬ ‫چومتے چاٹتے شیلف کے‬‫ ایک کونے سے دوسرے‬‫ کونے تک جا چکے تھے‬‫ اور اب فہد مہرین کو اس‬‫ شیلف پہ ٹیڑھا کر کہ چوم‬‫ رہا تھا لن اپنے پورے‬‫ جوبن پہ آ کہ مہرین کے‬‫ جسم میں چبھ رہا تھا مہرین کی پھدی تر ہو رہی‬‫ تھی اسلیے وہ اب لن کو‬‫ اپنی پھدی میں لینے کیلیے‬ ‫لن کو پکڑ کہ سہلا رہی تھی‬‫ اور فہد کو مزید بہکا رہی‬‫ تھی فہد نے اپنی بہن کو‬‫ چومتے چومتے اسکی ایک‬‫ ٹانگ کو پکڑ کہ اٹھایا اور‬‫ اس ٹانگ کو شیلف پہ رکھ‬‫ دیا اس پرزور حرکت کیوجہ‬‫ سے مہرین کی پھدی ہونٹ‬‫ پھیلائے فہد کا لن اپنے اندر‬‫ لینے کیلیے مکمل تیار ہو‬‫چکی تھی، ٹانگ کو اتنا اوپر ‫کر لینے کیوجہ سے مہرین‬‫ کو تکلیف تو ہوئی لیکن لن‬‫ کی طلب اتنی شدید تھی کہ‬‫ اس تکلیف کو برداشت کرنا‬‫ آسان ہو چکا تھا، دوسری‬‫ جانب چائے اب پک کہ‬‫ سسن سسن کی آواز پیدا کر‬‫ رہی تھی جس سے دونوں‬‫ بہن بھائی کو اندازہ ہو چکا‬‫ تھا کہ اب چائے ابلنے والی ہے مگر دونوں اس‬ ‫بات کو نظر انداز کر کہ ایک‬‫ دوسرے میں مگھن تھے، فہد نے اپنے لن کو اپنے‬‫ ایک ہاتھ سے پکڑ کہ پھدی‬‫ پہ پھیرا جس سے مہرین‬‫ کی آہ نکل گئی، فہد مہرین‬‫ کی ایک چھاتی کو زور سے‬‫ مسلتا ہوا اپنے لن کو پھدی‬‫ پہ رگڑتا جا رہا تھا اور‬‫ مہرین آنکھیں بند کیے مزے‬‫ سے آنہیں بھر رہی تھی، مہرین کا ایک ہاتھ شیلف پہ‬‫ ٹکا ہوا تھا اور ایک ہاتھ‬‫ سے فہد کو کندھے سے‬‫ پکڑ کہ اپنا آپ سنبھال رہی‬‫ تھی، فہد کا ایک ہاتھ مہرین‬‫ کی کمر پہ تھا اور دوسرے‬‫ ہاتھ سے لن کو پھدی سے‬‫ رگڑ رہا تھا، فہد نے لن کو‬‫ پھدی کے سوراخ پہ رکھ کہ‬‫ اپنی کمر کو ہلا کہ زور لگایا‬‫ جس سے لن پھدی میں‬ ‫دھنستا ہی چلا گیا اور‬‫ مہرین اس تکلیف اور مزے‬‫ کی حالت سے کراہنے لگی، فہد نے لن کو گہرائی تک‬‫ لے جا کہ باہر نکالا تو‬‫ مہرین کی اور آہ نکل گئی وہ بند آنکھوں سے فہد کو‬‫ زور سے پکڑے ہوئے مزہ‬‫ لے رہی تھی فہد مہرین کو‬‫ چودتا جا رہا تھا اور اب‬‫ جھٹکوں کی شدت سے‬ ‫مہرین کی چھاتیاں چھلک‬‫ چھلک کہ ہل رہی تھی چولہے پہ پڑی چائے زور‬‫ زور سے شن شن کی‬‫ آوازیں پیدا کر رہی تھی مگر‬‫ مہرین اور فہد چائے کی آواز‬‫ سے بے پرواہ کو کہ آنہوں‬‫ اور سسکاریوں کی آوازیں‬‫ پیدا کر رہے تھے، مہرین‬‫ کراہ کراہ کہ 

"آہ فہد‪ ,‬افف ‬‬‫آہممم آہ آہ آہ اُوئی آہ" کر‬ ‫رہی تھی اور فہد بھی ایسی‬‫ ہی آوازیں نکالتا ہوا اپنی‬‫ بہن کا نام لیتا جا رہا تھا "آہ‬‫ مہرین اف اف آہ باجی آہ‬‫امم آہمم مہرین باجی" فہد‬‫ کے جھٹکے تیز سے تیز ہو‬‫کہ مہرین کو ڈسچارج کرنے‬‫ والے تھے، اب مہرین‬‫ دونوں ہاتھوں کو فہد کے‬‫ کندھوں کے گرد لپیٹ کی‬‫ آنکھوں اور ہونٹوں کو‬ ‫بھینچ کہ اپنے بھائی سے‬‫ چد رہی تھی مہرین کی‬‫ پھدی اس چدائی کی تاب نہ‬‫لا سکی اور بلاآخر مہرین‬‫ فہد فہد کرتے ڈسچارج ہو‬‫گئ چولہے پہ پڑی چائے‬‫ اب ابل ابل کہ ششن ششن کا‬‫ شور پیدا کر رہی تھی مگر‬‫ پرسان حال اسوقت‬ اسکا‬‫ کوئی نہیں تھا، فہد نے‬‫ مہرین چودتے چوتے شیلف‬ ‫پہ الٹا کر لیا، اب مہرین اپنی‬‫ چھاتیاں شیلف پہ چپکائے‬‫ اپنے بھائی کا لن پیچھے‬‫ سے اپنی پھدی میں ڈلوا‬‫ چکی تھی، فہد اپنے گھٹنوں‬‫ کو خم کر کہ لن کو پھدی‬‫ میں ڈال کہ طاقتور جھٹکے‬‫ مارتا جا رہا تھا، فہد کے‬‫ طاقتور جھٹکوں سے پیدا‬‫ ہونے والی ٹپ ٹپ کی آواز‬‫ کچن میں گونج رہی تھی فہد مہرین کو چودتے‬‫ چودتے ڈسچارج ہو گیا اور‬‫ شیلف پہ چھاتیاں چپکائے‬‫ ہوئی اپنی بہن پہ وزن ڈال کہ ہانپنے لگا چائے اب ابل‬‫ کہ برتن سے باہر گر چکی‬‫ تھی اور اتنی زیادہ ابل چکی‬‫ تھی کہ جلتا چولہا چائے کی‬‫ وجہ سے بجھ چکا تھا، فہد‬‫ مہرین کے اوپر ہانپتے‬‫ ہوئے اسکے چہرے بال ہٹا‬ ‫کہ گال چومنے لگا اور مہرین‬‫ بھی مسکرا کی فہد کو پیار‬‫نسے سہلانے لگی، فہد‬‫ مہرین سے اتر کہ شیلف پہ‬‫بیٹھ گیا اور مہرین کو اپنے‬‫ اوپر کر کہ آرام دینے لگا مہرین فہد پہ اپنا آپ انڈیل‬‫ کہ سانسیں بہال کرنے لگی، دونوں کے چہرے پہ عجیب‬‫ سا تشکر تھا، وہ اتنا‬‫ پرسکون محسوس کر رہے‬ ‫تھے اور یہ احساس دونوں‬‫ کیلئے نیا تھا، مہرین نے‬‫ سر اٹھا کہ فہد کی طرف‬‫ندیکھا

مہرین؛ موت کا‬‫ سوداگر ہے حکیم، محبت کی‬‫ پڑیا میں واقعی اثر ہے 

فہد ‬‫مہرین کی اس بات پہ‬‫ ہنسنے لگا

فہد؛ باجی سر‬‫ چکرا دیا میرا, ایسی حالت‬‫ پہلے کبھی نہیں ہوئی، مجھے ذرا بھی انداہ ہوتا کہ‬ ‫حکیم صاحب کی دواء میں‬‫ اتنا اثر ہے تو کبھی بھی نہ‬‫ کھاتا

 

مہرین؛ چلو اچھا ہی ‬‫ہوا، حکیم کا احسان ساری‬‫ زندگی یاد رکھوں گی 

فہد؛ یہ‬‫ احسان حکیم صاحب کا ہے‬‫ یا میرا؟

مہرین؛ حکیم صاحب‬‫کا

فہد؛ وہ کیسے، ساری رات‬‫ سے زور میرا لگ رہا ہوں اور احسان حکیم صاحب‬‫ کا؟

مہرین؛ بچا کہ رکھو ابھی‬ ‫اپنا زور، ابھی سارا دن باقی‬‫ ہے ساری رات باقی ہے، دیکھتے ہیں کتنا زور ہے‬‫ اور 


فہد؛ باجی چائے پلا دیں ‬‫اب، پھر جو کہو گی‬‫ کرون گا 


مہرین؛ پکا؟ جو‬‫ کہوں گی کرو گے؟ مکر تو‬‫ نہیں جاؤ گے؟


فہد؛ آپکی‬‫ قسم نہیں مکرتا فی الحال‬‫ ایک کپ چائے مل جائے تو‬‫ سکون ہوگا 

مہرین؛ چلو جاؤ‬ ‫جا کہ اپنے بھانجے کو‬‫ دیکھو میں ابھی چائے بنا‬‫کہ آئی یہ والی چائے تو‬‫ برباد کر دی اب نئی بنا کی‬‫ لاتی ہوں۔

فہد اپنی بہن کو چوم‬‫ کہ کچن سے چلا گیا اور‬‫ مہرین دوبارہ نئی چائے‬‫ بنانے میں لگ گئی۔ 

فہد کمرے میں لیٹا اپنے‬‫ بھانجے سے کھیلنے لگا‬‫ اور مہرین چائے کے دو کپ‬ ‫لے کہ کمرے میں مسکراتی‬‫ ہوئی داخل ہو گئی، فہد‬‫ کیلیے چائے کیساتھ ہلکی‬‫ پھلکی غذا کا انتظام بھی‬‫ مہرین کر کہ آئی تھی، دونوں بہن بھائی نے مزیدار‬‫ چائے کا مزہ لیا اور ساتھ‬‫ ساتھ محبت بھری باتیں‬‫ کرتے کرتے چائے ختم کی، مہرین چائے کے برتن‬‫ واپس رکھنے گئی تو واپسی‬ ‫پہ فہد کو سویا ہوا پایا فہد‬‫ اوندھے منہ تکیے کے‬‫ نیچے سر دیے ٹانگیں‬‫ پھیلائے گہری سانسیں لیتا‬‫ ہوا خوابوں کی دنیا میں جا‬‫ چکا تھا، مہرین کو اپنے‬‫ بھائی کی نیند میں کسی قسم‬‫ کا خلل نہیں چاہیے تھا‬‫ اسلیے اپنے بچے کو لے کہ‬‫ دوسرے کمرے میں چلی‬‫ امور‬ ‫گئی اور نہا دھو کہ‬ ‫خانہ داری میں مصروف ہو‬‫گئی، مہرین کے چہرے پہ‬‫ آج ایسی چمک تھی کہ وہ‬‫ بار بار شیشے میں اپنا آپ‬‫ دیکھ کہ خود ہی شرما‬‫ جاتی، اپنی محبت کو حاصل‬‫ کرنے کا احساس مہرین کی‬‫ باچھیں پھیلا رہا تھا، کچھ‬‫ گھنٹوں کی نیند لینے کے‬‫ بعد فہد بھی بیدار ہو گیا اور‬‫ کمرے میں بستر پہ ہی‬ ‫مہرین باجی مہرین باجی کی‬‫ آوازیں دے کہ اپنی بہن کو‬‫ بلانے لگا، مہرین بھاگی فہد‬‫ کے کمرے میں لپکی تو فہد‬‫۔نے ناشتے کی فرمائش کر‬‫دی، مہرین نے اپنے بھائی‬‫ کیلیے پرتکلف ناشتے‬‫ کیلیے کچن کا رخ کیا اور‬‫ فہد نہا دھو کہ پاجامہ اور‬‫ٹی شرٹ پہنے ناشتے کا‬‫ انتظار کرنے لگا، ناشتے‬ ‫کرنے کے بعد فہد کے جسم‬‫ میں حرارت آ گئی اور وہ‬‫ اپنی بہن کا شکریہ ادا کرنے‬‫ لگا، مہرین گذشتہ رات سے‬‫ فہد کی طبیعت کیلیے ذرا‬‫ پریشان تھی اسلیے بار بار‬‫ فہد سے طبعیت کا پوچھ‬‫ رہی تھی, اپنی بہن پہ جان‬‫ دینے والا بھائی ہر بار‬‫ مہرین کو پریشان نہ ہونے‬‫ کی تلقین کر رہا تھا اور مزاح‬ ‫بھری حرکتیں کر کر کہ‬‫ مہرین کو ہنسا رہا تھا، کمرے میں بلند ہوتے قہقہے‬‫ ایک الگ ہی دنیا کا احساس‬‫ دلا رہے تھے، ایک ایسی‬‫ دنیا جہاں بے لوث محبت‬‫ کے علاوہ کسی اور جذبے‬‫ کیلیے جگہ نہیں تھی، اس‬‫ دنیا کا شہزادہ فہد تھا اور‬‫ مہرین شہزادی، ایک ایسی‬‫ شہزادی جو برسوں سے‬ ‫کسی سحر کیوجہ سے‬‫ سوئی پڑی تھی اور آج‬‫ شہزادے کی لمس کی وجہ‬‫ سے اس سحر سے آزاد ہو‬‫کہ دنیا کی رنگینی کا مزا‬‫ لے رہی تھی، گپ شپ چلتی‬‫۔جا رہی تھی، اس گپ شپ کا‬‫ مرکز کبھی فہد بن جاتا تو‬‫ کبھی مہرین، کبھی رات کے‬‫ گزرے ہوئے لمحوں پہ‬‫ مہرین فہد کو چھیڑ کہ‬ ‫شرمانے پہ مجبور کر دیتی‬‫ تو کبھی فہد مہرین کو‬‫ رنگین مزاج عورت کا لقب‬‫ دے کہ چڑانے لگ جاتا، دوپہر کا وقت ہو گیا اور‬‫ مہرین فہد کیساتھ مل کہ‬‫ دوپہر کے کھانے کا سامان‬‫ کرنے لگی، فہد صبح ناشتے‬‫ کے بعد سے لے کہ دوپہر‬‫تک دو تین بار اپنی بہن کا‬‫۔دودھ پی پی چکا تھا، دودھ‬ ‫پینے کے دوران اسکا لن تن‬‫ جاتا تو مہرین اسے سیکس‬‫ سے کسی نہ کسی طرح‬‫ ہیلے بہانے کر کہ روکتی‬‫ رہی، مہرین کے جسم کی‬‫۔برداشت بچہ پیدا کرنے کے‬‫ بعد اب پہلے جیسی نہیں‬‫ رہی تھی، اب وہ ایک بچے‬‫ کو دودھ بھی پلا رہی تھی‬‫ جس وجہ سے وہ فہد کو‬‫ مکمل طور پہ سکون دینے‬ ‫سے فی الحال قاصر تھی‬‫ مگر سیکس کرنے کیلیے‬‫ انکاری ہر گز نہ تھی, مہرین کو تو پہلے والی‬‫ جنسی عادتوں پہ واپس آنے‬‫ کیلیے کچھ وقت درکار تھا، دوپہر کا کھانا بنانے تک فہد‬‫ مہرین کے آگے پیچھے‬‫ پھرتا رہا، کبھی مہرین کے‬‫ پستان چوستا اور کبھی‬‫ مہرین کے ہونٹ اور گردن مہرین کام میں مصروف فہد‬‫ سے بھی کچن کے کام‬‫ کروانے لگی، فہد کا لن تن‬‫ جاتا تو کبھی واپس ڈھیلا پڑ‬‫جاتا، دوپہر کے کھانے تک‬‫ فہد چدائی کیلیے ترستا‬‫ مہرین کی ایک طرح سے‬‫ منتیں کر چکا تھا مگر‬‫ مہرین فہد کو صبر سے کام‬‫ لینے کا کہہ کہ ٹال رہی‬‫ تھی، دوپہر کا کھانا کھا‬ ‫لینے کے بعد اب مہرین کے‬‫ پاس سوائے اپنے بھائی‬‫ سے چدنے کے اور کوئی‬‫ چارہ نہ بچا اسلیے اب‬‫ مہرین کے پاس بہانوں کی‬‫ فہرست تقریبا ختم ہو چکی‬‫ تھی, سیر ہو کہ کھانا‬‫ کھانے کے بعد فہد زمین پہ‬‫ بچھے دستر خوان پہ ہی‬‫ مہرین کے پاس آ کہ اسکی‬‫ گردن پہ بوسے لینے لگا، مہرین نے فہد کو برتن‬‫ اٹھانے کیلیے روکا مگر اب‬‫ فہد کا صبر جواب دے چکا‬‫ تھا، فہد بنا رکے مہرین پہ‬‫ چڑھ چڑھ کہ چومتا جا رہا‬‫ تھا، مہرین بے بس ہو کہ‬‫ وہیں دستر خوان پہ ہی الٹی‬‫ ٹیڑھی ہو کہ فہد کو بار بار‬‫ روکنے پہ نہ رکنے کے‬‫ باوجود اپنی ہار تسلیم کر ک ہ‬‫دانت بھینچ کی مسکرا رہی‬ ‫تھی، فہد مہرین کے جسم کو‬‫ کپڑوں کے اوپر سے ہی‬‫ چوم چاٹ رہا تھا اور مہرین‬‫ وہیں پہ فہد کے نیچے‬‫ ٹیڑھی ہو کہ فہد کے ساتھ‬‫ رومانس کر رہی تھی، فہد‬‫ اور مہرین کی ٹانگوں کے‬‫ پھیلاؤ کی وجہ سے کچھ‬‫ برتن گرے بھی لیکن فہد نہ‬‫ ہی خود برتنوں کی طرف‬‫ متوجہ تھا اور مہرین کو‬ ‫بھی اس طرف جانے نہیں‬‫ دینا چاہتا تھا، فہد مہرین پہ‬‫ چڑھ کہ اب مہرین کی زبان‬‫ کو چوس رہا تھا اور مہرین‬‫ بھی سانسیں پھال کہ فہد کے‬‫ ہونٹ چوس رہی تھی، فہد‬‫ کے ہاتھوں میں بجلی کی‬‫ تیزی آچکی تھی اسلیے بنا‬‫ وقت ضائع کئے فہد نے‬‫ مہرین کی قمیض کو اتارنے‬‫ کیلیے اٹھا دیا، مہرین دستر‬ ‫خوان پہ گرء پڑی اپنی‬‫ قمیض اور شلوار کو‬‫ بالترتیب اتار کہ فہد کے‬‫ کپڑے اتارنے لگی، فہد کا‬‫ اکڑا ہوا لن لوہے کیطرح‬‫ سخت ہو چکا تھا، فہد نے‬‫ مہرین کو چومتے چومتے‬‫ اپنا لن مہرین کی پھدی پہ‬‫ ٹکا دیا اور مہرین جو کہ‬‫ کچھ دیر پہلے تک فہد کو‬‫ منع کر رہی تھی اب اپنی‬ ‫کمر کو اٹھا کہ لن اندر‬‫ ڈلوانے کیلیے آسانی بنا رہی‬‫ تھی، مہرین اپنی کہنیوں کے‬‫ سہارے اپنے دھڑ کو اونچا‬‫ کیے ہوئے ٹانگیں پھیلائے‬‫ فہد کا لن اپنی پھدی میں‬‫ ڈلوا چکی تھی، فہد نے‬‫ مہرین کی کمر کو مضبوط‬‫ گرفت سے پکڑا ہوا تھا اور‬‫ اب چدائی کو اگلے مرحلے‬‫ میں لے کہ جانے کیلیے‬ ‫کمر کو ہلا ہلا کہ جھٹکے‬‫ مارنے لگا، فہد کے جھٹکے‬‫ پوری طاقت کیساتھ پھدی کو‬‫ چود رہے تھے اور مہرین‬‫ کی چھلکتی چھاتیاں‬‫ جھٹکوں کی شدت کی گواہ‬‫ کے طور پہ دھمال ڈال رہی‬‫ تھی، پاس پڑے برتن‬‫ ٹانگوں کی وجہ سے الٹ‬‫ پلٹ چکے تھے، فہد اپنی‬‫ بہن کو چودتا جا رہا تھا اور‬ ‫آنہوں سے مہرین فہد کو‬‫ جوش دلا رہی تھی، چدائی‬‫ چلتی جا رہی تھی اور مہرین‬‫ اپنی پھدی کا پانی نکال کہ‬‫ ڈسچارج ہو چکی تھی، مہرین آنکھیں اور ہونٹ‬‫ بھینچ کی ڈسچارج ہوتے‬‫ ہوئے آہ فہد اف آہ ہمم آہ‬‫ بھائی کر کہ زمین پہ اپنا آپ‬‫ ڈھیلا چھوڑ کہ گر چکی تھی‬‫ مگر فہد تیز تیز جھٹکوں‬ ‫سے مہرین کو بس چودتا‬‫ ہی جا رہا تھا، مہرین اور‬‫ فہد نے کچھ لمحوں کا وقفہ‬‫ ڈال کہ اپنی جگہ کو تبدیل‬‫ کیا اب مہرین بیڈ پہ جا کہ‬‫ گھوڑی بن گئی فہد مہرین‬‫ کے پیچھے سے آ کہ دوبارہ‬‫ پھدی میں چودنے لگا، فہد‬‫ نے مہرین کی کمر کو‬‫ دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہو‬‫ا تھا اور چودتے چودتے فہد‬ ‫مہرین کی لٹکتی چھاتیوں‬‫ کو دبانے لگ جاتا تو کبھی‬‫ مہرین کی گردن کو ہاتھ‬‫ سے پکڑ کہ اتنا زور سے‬‫ کھینچ لیتا کہ مہرین کی‬‫ سانسیں بند ہونے لگ جاتی، فہد زور سے مہرین کو‬‫ چودتا جا رہا تھا اور مہرین‬‫ دوبارہ سے ڈسچارج ہونے‬‫ کیلیے مچل مچل کی فہد کے‬‫ ہاتھ اپنی چھاتیوں پہ‬ ‫رکھواتی تو کبھی فہد کے‬‫ ہاتھ کو کھینچ کہ اسکی‬‫ انگلیاں چوسنے لگ جاتی، فہد اب ڈسچارج ہونے والا تھا اور مہرین بھی ڈسچارج‬‫ ہونیوالی تھی، دونوں بہن‬‫ بھائی ایک ساتھ ڈسچارج ہو‬‫گئے اور ہانپتے ہوئے وہیں‬‫ بستر پہ گر گئے، فہد مہرین‬‫ کو پیچھے سے گلے لگائے‬‫ اپنا آپ مہرین سے چپکا کہ‬ ‫لیٹا ہوا تھا مہرین محبت‬‫ سے اپنے بھائی کے ہاتھ‬‫ چوم رہی تھی، سانسیں بحال‬‫ ہونے پہ مہرین فہد کے اوپر‬‫ آ کہ لیٹ گئی اور اپنا ماتھا‬‫ اور ناک فہد کے ماتھے اور‬‫ناک پہ لگا کہ ہونٹوں کے‬‫ بوسے لینے لگی 

مہرین؛ کتنی‬‫خوش قسمت ہوں میں، فہد‬‫ کاش یہ وقت یہیں رک جائے‬‫ اور ہمیں جدا کرنیوالا کوئی‬ ‫نہ ہو. 


فہد؛ باجی کیا ہو گیا ‬‫ہے، آج تو آپ شاعروں کی‬‫ زبان بول رہی ہیں، ہمیں‬‫ کس نے جدا کرنا، میں آپ‬‫ کے پاس ہی ہوں اور بس‬‫ آپکا ہی ہوں، کیسی باتیں کر‬‫ رہی ہیں آپ. 


مہرین؛ ہاں تم ‬‫ہمیشہ میرے ہو اور میں‬‫صرف تمہاری، اتنی خوشی‬‫ مجھے آج تک نہیں ملی‬‫ جتنی تمہارے ساتھ ملی ہے، بس ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ‬‫ خوشیاں کوئی چھین نہ‬‫ لے. 

فہد؛ کوئی نہیں چھینتا‬‫ مجھے آپ سے اور آپ کو‬‫ مجھ سے، اور باقی رہی بات‬‫ خوشیوں کی تو اگر آپکو‬‫ ایسے خوشی ملتی ہے تو‬‫ ابھی دوبارہ سے خوش کر‬‫دوں؟

فہد مہرین کو دوبارہ‬‫ سے چودنے کا کہہ رہا تھا‬‫ اور مہرین ہنستے ہوئے فہد‬ ‫کے گالوں پہ دانتوں سے‬‫ کاٹ کہ نشان ڈالنے لگی، فہد درد سے کراہ کراہ کہ‬‫ مہرین سے اپنا آپ کٹوا رہا‬‫ تھا قہقہوں اور چیخوں کی‬‫ آوازیں بلند ہونے لگی، جب‬‫ مہرین فہد کو کاٹ کاٹ کہ‬‫ تسلی کر چکی تو دوبارہ‬‫ سے گفتگو اور بوسوں کا‬‫ سلسلہ چل پڑا، دونوں آدھی‬‫ بات کہہ کہ ایک دوسرے کہ‬ ‫ہونٹ چومتے اور بات پوری‬‫کرتے

فہد؛ باجی بہت ظالم ہو ‬‫آپ قسم سے، ذرا ترس نہیں‬‫ آتا مجھ پہ؟

مہرین؛ تمہیں‬‫ مجھ پہ ترس آیا ایک بار‬‫ بھی؟ جانوروں کی طرح کل‬‫ رات سے مجھ پہ چڑھے‬‫ ہوئے ہو، حکیم کی دوا‬‫ کھائی ہے تو اب حکیم سے‬‫ ہی کسی ایسی لڑکی کا بندو‬‫بست کرواو جو بنا رکے‬ ‫تمہارے لیے ٹانگیں پھیلا کہ‬‫ بیٹھی رہے

فہد؛ آپکو ہی ‬‫شوق تھا چہرے پہ لالیاں‬‫ چڑھانے کا دیکھیں تو ذرا‬‫ کتنا لال ہو رہا ہے آپکا‬‫ چہرہ 

مہرین؛ صرف چہرہ ہی ‬‫لال نہیں ہوا سارا جسم لال‬‫ ہو گیا ہے، خاص طور‬‫پہ‪ .....‬وہاں سے

فہد؛ کہاں‬‫ سے؟ بتاو بتاو؟ خاص طور‬‫ پہ کہاں سے ہوا ہے؟

مہرین‬ ‫فہد پہ بوسوں اور مکوں کی‬‫ برسات کرتے ہوئے شرما‬‫ رہی تھی اور فہد بار بار یہی‬‫ سوال دہراتا جا رہا تھا کہ‬‫ خاص طور پہ کہاں سے لال‬‫ ہوا ہے تو مہرین شرماتے‬‫ بول کہ فہد کے سینے میں‬‫ چھپ گئی 

فہد؛ بولو بھی ‬‫باجی 

مہرین؛ پھدی سے.

 فہد‬‫ مہرین کی اس بات پہ‬‫ کھل کھلا کہ ہنسنے لگا، اور‬ ‫مہرین کے گرد اپنی بانہوں‬‫ کو گھیر کی بات کرنے‬‫ لگا 


فہ؛ اچھا؟ تو آپکی پھدی‬‫ بھی لال ہو گئی ہے، یہ تو‬‫ میں نے دیکھا ہی نہیں دکھاؤ تو ذرا.

مہرین بہت‬‫ زیادہ شرما کہ فہد کو اس‬‫ ننگی گفتگو سے منع کرنے‬‫ لگی لیکن دراصل مہرین کو‬‫ بھی ان الفاظ کے دہرائے‬‫ جانے پہ مزہ آرہا تھا، کچھ‬ ‫دیر شرمانے کی بعد مہرین‬‫ نے گردن اٹھا کہ فہد کے‬‫ ہونٹوں سے چوما اور فہد‬‫ کی بات کا جواب دیا 

مہرین؛ ‬‬‫ہاں ہاں میری پھدی آپکے‬‫ لن کی وجہ سے لال ہو گئی‬‫ ہے، اب خوش؟ میں نہیں‬‫ چڑھنے والی، اگر میں نے‬‫ ننگی باتیں شروع کر دیں تو‬‫ تم نے شرما جانا ہے.


فہد؛ ‬‬‫اوہو ہو ہو، نہیں باجی مجھے معاف کر دیں میں‬‫ نے غلط جگہ ہاتھ دے لیا‬‫ ہے، بات کو بدلیں۔

مہرین جو‬‫کہ اب خوشگوار اور پر‬‫ اعتماد طریقے سے فہد کو‬‫ جواب دے   چکی تھی، فہد کا‬‫ نیا امتحان لینے لگی

مہرین؛ ‪‬‬‫ابھی تو غلط جگہ ہاتھ دیا‬‫ ہے، آگے آگے تو وہاں پہ‬‫ زبان بھی دینی پڑے گی 

فہد‬‫ بوکھلا کہ ہنستے ہوئے‬ ‫مہرین کو دیکھنے لگا۔



جاری ہے




Post a Comment

0 Comments