Ghar ka dhood - Episode 2

 گھر کا دودھ 

قسط 2



ان گندی باتوں کا اثر یہ ہوا کہ دس منٹ میں میرا فر کھڑا ہو گیا اور منجو کی چوت میں اندر گھس گیا. میں نے فر اسے چودنا شروع کر دیا پر اب آہستہ آہستہ اور پیار سے مزے لے لے کر. منجو بھی مزے لے لے کر چدواتی رہی پر درمیان میں اچانک اس نے پلٹکر مجھے نیچے پٹک دیا اور میرے اوپر آ گی. اوپر سے اس نے مجھے چودنا چالو رکھا.

"اب چپ چاپ پڑے رہو بابوجی. آج باقی چدائی مجھ چھوڑ دو." اس کا یہ حکم مان کر میں چپ چاپ لیٹ گیا. وہ اٹھ کر میرے پیٹ پر بیٹھ گئی. میرا لںڈ اب بھی اس کی چوت میں اندر تک گھسا ہوا تھا. وہ آرام سے گھٹنے موڑ کر بیٹھ گئی اور اوپر نیچے ہو کر مجھے چودنے لگی. اوپر نیچے ہوتے وقت اس کے ممے اچھل رہے تھے. ان کے درمیان اس کا سیاہ ميو والا سيدا سادہ مگلسوتر بھی ادھر ادھر ڈول رہا تھا. میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چھاتی پکڑ لیے اور دبانے لگا. اس کی گیلی چوت بڑی آسانی سے میرے لںڈ پر فسل رہی تھی. اس مخملی میان نے میرے لںڈ کو ایسا سخت کر دیا جیسے لوہے کا ڈنڈا ہو.

منجو من لگا کر مزہ لے لے کر مجھے ہؤلے ہؤلے چود رہی تھی. چوت سے پانی کی دھار بہہ رہی تھی جس سے میرا پیٹ گیلا ہو گیا تھا. میں نے اپنا پورا زور لگا کر اپنے آپ کو جھڑنے سے روکا اور کمر اوپر نیچے کرکے نیچے ہی منجو کی بر میں لںڈ پیلتا رہا. وہ فر مجھے بولی "بابوجی بولو نا، میں کیسی لگتی ہوں آپ کو"

میں نے اس کی تعریف کے پل باندھ دیے. اور جھوٹے نہیں سچ، منجو بائی اب مجھے اپسرا جیسی لگ رہی تھی "بائی تم یعنی بادشاہ اںدر کے دربار کی اپسرا ہو، ان سے بھی اچھی ہو، ایسا طور میں نے آج تک نہیں دیکھا، کیا ممے ہیں تیرے منجو، ایکدم کشمیری سیب جیسے، لگتا ہے کھا جاؤں، اور یہ بر، میرے لںڈ کو مار ڈالےگي آج بائی تیری یہ چوت. اور یہ تیرا بدن کیا حسین ہے، لگتا ہے بڑے جتن سے رکھا ہے اپنے اس سونے سے جوبن کو، ایسا لگتا ہے جیسے نوجوان چھوكري ہو، لگتا نہیں کہ شادی شدہ عورت ہو "

منجو بائی میری تعریف سن سن کر اور مست ہوتی جاتی اور مجھے چودتي جاتی. میرے ہاتھ اس نے اپنی چوچيو پر رکھ لیے تھے اور دبا رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ ٹھیک سے مسلو. میں نے اس کی چونچیاں کس کے مسلنا شروع کر دیا. آخر آخر میں تو وہ ایسے بهكي کہ زور زور سے اچھلنے لگی. میرا لںڈ قریب قریب مکمل اسکی بر کے باہر نکلتا اور پھر سپ سے جڑ تک اندر گھس جاتا. آخر منجو بائی ایک ہلکی سےسسکی کے ساتھ جھڑ ہی گئی.

اس وقت اس کی آنکھوں میں جھلک آئے سکون کو دیکھ کر مجھے سنسنی ہو آیا. آخر میرے لںڈ نے پہلی بار کسی عورت کو اتنا سکھ دیا تھا. جھڑ کر بھی وہ زیادہ دیر رکی نہیں، پانچ ایک منٹ مجھے کس کس کے چومتی رہی اور پھر سیدھی ہو کر شروع ہو گئی "پڑے رہو بابوجی، ابھی تھوڑے چھوڑوگي تجھے، گھنٹہ بھر چودوگي، بہت دن بعد لںڈ ملا ہے اور وہ بھی ایسا شاہی لؤڑا. کتنا جھوٹ بولتے ہو پر میٹھا بولتے ہو، ارے میں کہاں کی جوان ہوں، میری تو اتنی بڑی جوان بیٹی ہے، میں تجھ پسند آ گئی یہ تو حصہ ہیں میرے. اور دیکھو میں کہوں تب تک جھڑنا نہیں، نہیں تو میں آپ کی ملازمت چھوڑ دوں گی، فر اکیلے میں مٹھٹھ مارا کرنا "

اس میٹھی دھمکی کے بعد میری کیا مجال تھی جھڑنے کی. گھنٹے بھر تو نہیں، پر بیس ایک منٹ منجو بائی نے مجھے خوب چودا، اپنی ساری ہوس پوری کر لی. چودنے میں وہ بڑی استاد نکلی، مجھے برابر میٹھی چھری سے حلال کرتی رہی، اگر میں جھڑنے کے قریب آتا تو رک جاتی. مجھے اور مست کرنے کو وہ بیچ بیچ میں خود ہی اپنی چونچیاں مسلنے لگتی. کہتی "چوسوگے بابوجی؟ کشمیری سیب کھاتے؟" اور خود ہی جھک کر اپنی چوچي کھینچ کر نپل چوسنے لگتی. میں اٹھ کر اس کی چوچي منہ میں لینے کی کوشش کرتا تو ہنس کر مجھے واپس پلنگ پر دھکیل دیتی. ترسا رہی تھی مجھے!

دو بار جھڑنے کے بعد وہ مجھ پر ترس کھا کر رکی. اب میں ہوس سے تڑپ رہا تھا. مجھ سانس بھی نہیں لی جا رہی تھی.

"چلو پیچھے كھسككر براہ راست ہو کر بیٹھ جاؤ بابوجی، آپ بڑے اچھے سےيا ہو، میری بات مانتے ہو، اب ثواب دوں گی" میں سرکا اور پیچھے سرہانے سے ٹک کر بیٹھ گیا. اب وہ میری طرف منہ کرکے میری گود میں بیٹھی تھی. میرا اچھلتا لںڈ اب بھی اس کی چوت میں قید تھا. وہ اوپر ہونے کی وجہ اس کے سینے میرے منہ کے سامنے تھی. پاس سے اس کے سیب سے ممے دیکھ کر مزہ آ گیا. كسمس کے دانوں جیسے چھوٹے نپل تھے اس کے اور تن کر کھڑے تھے. منجو میرے لاڑ کرتے ہوئے بولے "منہ کھولو بابوجی، اپنی منجو اماں کا دودھ پیو. دودھ ہے تو نہیں میری چوچي میں، جھوٹ موٹ کا ہی پیو، مجھے مزہ آتا ہے"

میرے منہ میں ایک دانہ دے کر اس نے میرے سر کو اپنی چھاتی پر بھیںچ لیا اور مجھے زور زور سے چودنے لگی. اس کی نصف چوچي میرے منہ میں سما گئی تھی. اسے چوستے ہوئے میں نے بھی نیچے سے اچك اچك کر چودنا شروع کر دیا، بہت دیر کا میں اس چھری کی دھار پر تھا، جلد ہی جھڑ گیا.

پڑا پڑا منجو کی چوچي چوستا ہوا میں اس مست انزال کا لتف لینے لگا. میرے پورے جھڑنے تک منجو رکی اور محبت سے میرے ماتھے کو چومتی رہی. آخر جب میں سبھلا تو منجو نے میرے لںڈ کو اپنی چوت سے نکالا اور اٹھ بیٹھی. ایک تولیے سے اس نے میرا لںڈ اؤر اپنی بر پوچھی. فر مجھے پیار بھرا ایک چما دے کر جانے کے لیے اٹھنے لگی. اس کی آنکھوں میں اسیم محبت اور ترپت کی روح تھی. میں اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا. "اب کہاں جاتی ہو منجو بائی، یہیں سو میرے پاس، ابھی تو رات باقی ہے"

وہ ہاتھ چھڑا کر بولی "نہیں بابو جی، میں کوئی آپ کی لگاي تھوڑے ہی ہوں، کوئی دیکھ لے گا تو آفت ہو جائے گی. کچھ دن دےكھوگي. اگر کسی کو پتہ نہیں چلا تو آپ کے ساتھ رات بھر سویا کروں گی"

مجھے پکا یقین تھا کہ اس کالونی میں جہاں دن میں بھی کوئی نہیں ہوتا تھا، رات کو کوئی دیکھنے والا کہاں ہوگا! اور اس کا گھر بھی تو بھی میرے بنگلے سے لگا ہوا تھا. پر وہ تھوڑی گھبرا رہی تھی اس لئے ابھی میں نے اسے جانےدیا

دوسرے دن سے میرا كامجيون ایسے نكھر گیا جیسے خود خدا کامدیو کی مجھ پر مہربانی ہو. منجو صبح صبح چائے بنا کر میرے بیڈروم میں لاتی اور مجھے جگاتی. جب تک میں چائے پیتا، وہ میرا لںڈ چوس لیتی. میرا لںڈ صبح تن کر کھڑا رہتا تھا اور جھڑ کر مجھے بہت اچھا لگتا تھا. فر نہا دھو کر ناشتہ کرکے میں آفس کو چلا جاتا.

دوپہر کو جب میں گھر آتا تو منجو ایکدم تیار رہتی تھی. اسے بیڈروم میں لے جا کر میں نے فٹافٹ دس منٹ میں چود ڈالتا. کپڑے اتارنے کا وقت نہیں رہتا تھا، صرف آپ کی زپ سے لںڈ نکالتا اور اس کی ساڑی اوپر کرکے پیل دیتا. کبھی کبھی اسے کھڑے کھڑے چود دیتا، دیوار سے سٹا کر، پلنگ پر بھی نہیں لٹاتا. وہ بھی ایسی گرم رہتی تھی کہ فوری طور جھڑ جاتی تھی. اس جلدی کی چدائی کا لطف ہی کچھ اور تھا. اب مجھے پتہ چلا کہ 'كوكي' کس چیز کا نام ہے. چدنے کے بعد وہ مجھے خود اپنے ہاتھوں سے محبت سے کھانا کھلاتی، ایک بچے کی طرح. میں فر آفس کو نکل جاتا.

شام کو ہم ذرا احتیاط برتتے تھے. مجھے کلب جانا پڑتا تھا. کوئی ملنے بھی اکثر گھر آ جاتا تھا. اس لئے شام کو منجو بس کچن میں ہی رہتی یا باہر چلی جاتی. پر رات کو دس بجے میں اسے لے کر لیٹ جاتا، ایسی زبردست چدائی ہوتی کہ دن کی ساری کسر پوری ہو جاتی. سونے کو تو رات کے باڑہ بج جاتے. اب وہ میرے ساتھ ہی سوتی تھی. ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور رات کو ماحول اتنا ویران ہوتا تھا کہ کسی کو کچھ پتہ چلنے کا سوال ہی نہیں تھا. ویک اینڈ میں جمعہ اور سنیچر کی رات تو میں اسے رات بھر چودتا، تین چار بج جاتے سونے کو.

میں نے اس کی تنكھا بھی بڑھا دی تھی. اب میں اسے ہزار روپے تنكھا دیتا تھا. پہلے وہ نہیں مان رہی تھی. ذرا ناراض ہو کر بولی "یہ میں نے پیسے کو تھوڑے کرتی ہوں بابوجی، آپ مجھے اچھے لگتے ہو اس لئے کرتی ہوں. رنڈی تھوڑے ہوں، تیری سجني ہوں" پر میں نے زبردستی کی تو مان گئی. اس کے بعد وہ بہت خوش رہتی تھی. مجھے لگتا ہے کہ اس کی وہ خوشی پیسے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے تھی کہ اسے چودنے کو میرے جیسا نوجوان مل گیا تھا، قریب قریب اس کے بیٹے کی عمر کا.

منجو کو میں کئی اسنو میں چودتا تھا پر اس کی پسند کا آسن تھا مجھے کرسی میں بٹھاکر میرے اوپر بیٹھ کر اپنی چوچي مجھ چسواتے ہوئے مجھے چودنا. مجھے کرسی میں بٹھاکر وہ میرا لںڈ اپنی چوت میں لے کر میری طرف منہ کرکے میری گود میں بیٹھ جاتی. فر میرے گلے میں باہیں ڈال کر مجھے اپنی چھاتی سے چپٹاكر چودتي. اس کی چوچي میں اس پوزیشن میں آرام سے چوس سکتا تھا اور وہ بھی مجھے اوپر سے دل چاہے جتنی دیر چود سکتی تھی کیونکہ میرا جھڑنا اس کے ہاتھ میں تھا. اس کڑے نپل منہ میں لے کر میں مدہوش ہو جاتا. اس کے چھاتی اور نپل بہت سےسٹو تھے انہیں چسوانے میں اسے بڑا لطف آتا تھا.

ہفتہ اتوار کو بہت مجا آتا تھا. میری چھٹی ہونے سے میں گھر میں ہی رہتا تھا اس لئے موقع دیکھ کر کبھی بھی اس سے چپٹ جاتا تھا اور خوب چومتا اور اسکے ممے دباتا. جب وہ کچن میں کھانا بناتی تھی تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر میں نے اس سے چپٹ کر اسکے ممے دباتا ہوا اس کی گردن اور کندھے چومتا.

اسے اس سے گدگدی ہوتی تھی اور وہ خوب ہنستی اور مجھے دور کرنے کی جھوٹی کوشش کرتی "ہٹو بابوجی، کیا لپر لپر کر رہے ہو کتوں جیسے، مجھے اپنا کام کرنے دو" پھر میں نے اس کے منہ کو اپنے منہ سے بند کر دیتا. میرا لںڈ اسکے ساڑی کے اوپر سے ہی چوتڑوں کے بیچ کی کھائی میں سما جاتا اور اسے اسکی گاںڈ پر رگڑ رگڑ کر میں خوب مزا لیتا. کبھی موقع ملتا تو دن میں ہی بیڈروم میں لے جا کر فٹافٹ چود ڈالتا تھا.

آہستہ آہستہ میرے دماغ میں اس کے ان مست چوتڑوں کو چودنے کا خیال آنے لگا. اس کے چوتڑ تھے تو چھوٹے پر ایک دم گول اور سخت تھے. چودتے وقت میں کئی بار انہیں پکڑ کر دباتا تھا. اس پر وہ کچھ نہیں کہتی تھی پر ایک آدھ بار جب میں نے اس کی گاںڈ میں انگلی کرنے کی کوشش کی تو بچك گئی. اسے وہ اچھا نہیں لگتا تھا.

کب اسکی گاںڈ مارنے کو ملتی ہے اس خیال سے میں پاگل سا ہو گیا تھا. وہ چدیل عورت بھی شاید جانتی تھی کہ میں کس طرح اس کی گاںڈ کو للچاكر دیکھتا ہوں. اس لئے میرے سامنے جان بوجھ کر وہ مٹك مٹك کر چوتڑ ہلا کر چلتی تھی. جب اس کی لہراتی گاںڈ دیکھتا تو لگتا تھا کہ ابھی پٹككر اس چھنال کے چوتڑوں کے درمیان اپنا لؤڑا گاڑ دوں.

ایک دن میں نے ہمت کرکے اس سے کہہ ہی ڈالا "منجو بائی، تمہارا بدن یعنی محل ہے محل، تاج محل کہہ لو. اس گھر میں آ کر لںڈ کو وہ سکون ملتا ہے کہ کیا کہوں"

"فر لںڈ کو ہمیشہ اس گھر میں ہی رکھا کرو بابوجی، نکالا ہی مت کرو" وو مجھے چوم کر بولی.

"پر یہ محل کے سب کمرے کہاں دکھائے تم نے منجو بائی؟ میں نے تو سامنے والا کمرہ دیکھا ہے، آگے والے دروازے سے اندر آ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے. پر اپنے گھر کے پیچھے والے کمرے کی بھی سیر کراؤ نا منجو بائی"

"کیا غنڈہ گردی کی بات کر رہے ہو بابوجی" منجو منہ بنا کر بولی "میں سمجھی نہیں، ذرا وضاحت نہ کیا کہہ رہے ہو"

اس کے چوتڑ دبا کر میں بولا "یہ جو پیچھے والا گول مٹول کمرہ ہے نا، اس میں تو ذرا گھسنے دے نا منجو، اپنے محل کے پچھلے دروازے سے"

وہ آنکھ دکھا کر بولی "و بابوجی، بڑے شیطان ہو، براہ راست کیوں نہیں کہتے کہ میری گاںڈ مارنا چاہتے ہو. بولو، یہی بات ہے نا؟" میں نے جب تھوڑا سكچا کر حامی بھری تو تنككر بولی "میں کیوں اپنی گاںڈ مرواو، میرا کیا فائدہ اس میں؟ اور درد ہوگا وہ الگ!"

میں نے منت کی پر وہ مکر گئی. میں سوچنے لگا کہ کس طرح اسے راضی کروں.

دو دن بعد میں نے ہچکچاتے ہوئے اس کی تنكھا دونی کر دینے کی بات کی. وو بولی "کاہے کو بڑھا رہے ہو تنكھا؟ میں نے کہا تم کو؟"

"نہیں منجو پر اس دن تم بول رہی تھی کہ گاںڈ مروا کر میرا کیا فائدہ ہوگا تو میں نے سوچا ..."

پتہ چلا کہ وہ پیسے کے فائدے کے بارے میں نہیں کہہ رہی تھی. میری بات پر بے حد ناراض ہو گئی. مجھ سے دور ہو کر چڑ کر بولی "مجھے رنڈی سمجھا ہے کیا بابوجی؟ کہ پیسے دے کر گاںڈ مار لوگے؟"

اس کے بعد اس نے مجھے بدن کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیا. میں پاس لینا چاہتا یا چما لینے کو جاتا تو چھوٹ کر الگ ہو جاتی. مجھ بولنا بھی بند کر دیا. اسے سمجھانے بجھانے میں مجھے پورے دو دن لگ گئے. بالکل روٹھي ہوئی گرل فرینڈ جیسے اس منانا پڑا تب اس کا غصہ اترا.

مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیسے اسے مناو گاںڈ مارنے دینے کو. اس کے وہ گول مٹول چوتڑ مجھے پاگل کر دیتے تھے. آٹھ دس دن تو میں چپ رہا پر ایک بار جب وہ مجھے اوپر سے چود رہی تھی تب اس کی کمر پکڑ کر میں نے بہت منت کی. مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ چودنا بند کرکے حصہ تو نہیں جائے گی پر اس دن اس کا موڈ اچھا تھا. اچھل اچھل کر مجھ کو چودتي ہوئی بولی "تمہارا اتنا دماغ ہے تو دیکھتی ہوں بابوجی، کوئی راستہ نکلتا ہے کیا. پر بڑے اپنے آپ کو میرا سےيا کہتے ہو! مجھے کتنا پیار کرتے ہو یہ تو دکھائیں. میری یہ رسیلی چوت کتنی اچھی لگتی ہے تمہیں یہ ثابت کرو. مجھے خوش کرو میرے راجا بابو تو میں شاید مارنے دوں گی اپنی گاںڈ تجھے. اصل میں بابو میری گاںڈ کا چھید چھوٹا ہے، دكھتا ہے، آج تک میں نے اپنے اس نالائق آدمی کو بھی نہیں مارنے دی، ویسے میرے سےيا کے لیے میں کچھ بھی کر لوں گی، پر میرا سچا سےيا بن کر تو دکھائیں "

"اب کیسے تیرا سےيا اور بنوں منجو، تیری غلام تو ہو گیا ہوں، تیرے اشارے پر ناچتا ہوں، اور کیا کروں، تو بتا نا"

"وہ میں نہیں بولوگي، بول کر کروگے تو کیا فائدہ. خود ہی ثابت کرو کہ میری پہ پاگل ہو"

میں نے بہت پوچھا پر اس نے یہ نہیں بتایا کہ میں کس طرح اس کو خوش کروں. میں چودتا تو تھا اسے دل بھر کے، جیسا وہ کہتی ویسا چودتا تھا. پر وو اور کچھ ظاہر نہیں کرتی تھی کہ اس کے دل میں کیا ہے.

ایک رات میں نے منجو کو گود میں بٹھاکر اسے چومتے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کے ممے مسل رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اس کی گھنی جھانٹوں میں انگلی ڈال کر اس کی بر سہلا رہا تھا. ایسا میں اکثر کرتا تھا، بڑا مزہ آتا تھا، منجو کے میٹھے میٹھے چممے، اس کا کڑک بدن میری باںہوں میں اور انگلی اس کی گھوبگھرالی گھنے بالوں سے بھری بر میں.

اس دن میں اسکی چوت میں اںگلی ڈال کر اسے مشت زنی کرا رہا تھا. میں نے اسے آرام دہ پوچھا تھا کہ جب میرا لںڈ نہیں تھا تو کس طرح اپنی چداسي دور کرتی تھی تو ہنس کر بولی "یہ ہاتھ کس کیلئے ہے بابوجی؟ گاؤں کی چھوري سے پوچھتے ہو کہ اکیلے میں کیا کرتی ہے؟ تم کیا کرتے ہو لںڈ کے ساتھ جب چوت نہیں ہوتی؟ "

"یعنی تم بھی مٹھٹھ مارتی ہو منجو؟ میرے کو کرکے دکھاو نا. پلیز منجو بائی"

"اب تمہارا لںڈ ہے میری کھجلی دور کرنے کو تو میں کیوں مٹھٹھ ماروں"

مےے جب بار بار کہا تو آخر وہ مان گئی. میری گود میں بیٹھے بیٹھے ہی اپنی انگلی سے اپنی مٹھٹھ مار کر دکھائی.

سامنے کے آئینہ میں مجھے صاف دکھ رہا تھا، منجو انگوٹھے اور ایک انگلی سے اپنی جھاٹے بازو میں کرکے بیچ کی انگلی بڑے پیار سے اپنی بر کی لکیر میں چلا کر اپنا کلٹورس رگڑ رہی تھی اور درمیان درمیان میں وہ اس انگلی کو اندر گھسےڑكر اندر باہر کرنے لگتی تھی. اس کا مشت زنی دیکھ کر میں نے ایسا گرم ہوا کہ تبھی اسے چود ڈالنا چاہتا تھا.

پر وو بولی "اب مٹھٹھ مارنے پہ آئے ہو نا؟ تو تم بھی میری مٹھٹھ مارو." اس نے ضد ہی پکڑ لی. میں نے اپنی انگلی اس کی بر میں ڈال دی. وہ مجھے سکھانے لگی کہ کیسے عورت کی چوت کو انگلی سے چودا جاتا ہے.

پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ بر کیا چیز ہے، وہ مخملی نلی چھو کر کیسی لگتی ہے اور کلٹورس کیسا کڑا مكے کے دانے جیسا لگتا ہے. منجو کا تو خاص کر ایکدم کھڑا ہیرے جیسا تھا. اسپر انگلی رگڑتا تو وہ ایسے بچكتي کہ مجھے مجا آ جاتا. فر اسنے مجھے دو انگلی سے مٹھٹھ مارنا سکھایا، کس طرح دو انگلیاں چوت میں ڈالنا چاہیے کہ كلٹ ان کے درمیان پکڑ میں ہو اور کس طرح انگلیاں چوت میں اندر باہر کرتے ہوئے ساتھ میں كلٹ کو بھی مسلسل ان میں دباتے ہیں. میں جلد سیکھ گیا اور فر منجو بائی کی ٹھیک سے مٹھٹھ مار دی.

جب وہ جھڑ گئی تو میں نے انگلیاں باہر نکالی. ان پر سفید چپچپا رس لگا تھا. میں نے حوالہ ہی ان کو ناک کے پاس لے جا کر سوںگھا. بہت سودھي مسالیدار بو آ رہی تھی. میری یہ حرکت دیکھ کر وہ اترا کر بولی "اصلی گھی ہے میرے بادشاہ، كھوبا ہے كھوبا!" اس کی چمکتی آنکھوں میں ایک عجیب کامکتا تھی. مجھے دیکھتے دیکھتے اس نے ایک بار اپنے ہونٹوں پر اپنی زبان بھی پھرا دی. میں اس کے ہونٹ چومنے لگا.

اچانک میرے ذہن میں بجلی سی گونج گئی کہ اس کے دل میں کیا ہے. اتنے دنوں کی چدائی میں وہ بیچاری روز میرا لںڈ چوستی تھی، میرا ویرے پیتی تھی پر میں نے ایک دن بھی اس کی چوت کو منہ نہیں لگایا تھا. ویسے اس کی رستي لال چوت دیکھ کر کئی بار میرے دل میں یہ بات آئی تھی پر من نہیں مانتا تھا. تھوڑی گھن لگتی تھی کہ اس نوکرانی کی چوت ٹھیک سے صاف کی ہوئی ہوگی کہ نہیں. ویسے وہ بیچاری دن میں دو بار نهاتي تھی پر پھر بھی میں نے کبھی اس کی چوت میں منہ نہیں ڈالا تھا.

آج اس کی اس رستي بر کو دیکھ کر میرا دل ہوا کہ اس کی بر چوس کر دیکھوں. بو اتنی شدید تھی تو ذائقہ کیسا ہوگا!

میرا لںڈ تن کر کھڑا تھا. میں نے منجو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالي اور اپنا منہ کھول کر دونوں انگلیاں منہ میں لے کر چوسنے لگا. میری ساری ہچک دور ہو گئی. بہت مست کھارا سا ذائقہ تھا. منجو میری گود میں بالکل خاموش بیٹھی میری طرف دیکھ رہی تھی. اس کی سانس اب تیز چل رہی تھی. ایک انکہی ہوس اس کی آنکھوں میں امنڈ آئی تھی. مجھے انگلیاں چاٹتے دیکھ کر بولی "کیسا ہے كھوبا بابوجی؟"

میں انگلیاں زبان سے صاف کرکے بولا "منجو بائی، ایکدم دیسی گھی ہے، تو سچ کہتی تھی. تیری بر میں تو لگتا ہے ھجانا ہے شہد کا. چلو چٹواو، ٹاںگیں کھولو اور لیٹ جاؤ. میں بھی تو چاٹ کر دیکھوں کہ کتنا رس نکلتا ہے تیری چوت میں سے "

یہ سن کر وہ کچھ دیر ایسے بیٹھی رہی جیسے میری بات پر اسے یقین نہ ہو رہا ہو. میں نے فر بر میں انگلی ڈالی اور انگلی پر لے کر رس چاٹنے لگا. تین چار بار ایسا کرنے پر جب اس نے سمجھ لیا کہ میں پورے دل سے یہ بات کہہ رہا ه تو بغیر کچھ کہے میری گود سے وہ اٹھ کر باہر چلی گئی. مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا ہوا. دو منٹ بعد واپس آئی تو ہاتھ میں ناریل کے تیل کی شیشی لے کر.

میں نے پوچھا "ارے یہ کیوں لے آئی ہو منجو رانی، چودنے میں تو اس کی ضرورت نہیں پڑتی، تیری چوت تو ویسے ہی گیلی رہتی ہے ہردم" تو شیشی سرہانے رکھ کر بولی "تم ہی تو پیچھے پڑے تھے میرے سےيا کہ گاںڈ مروا لے منجو. تو آج مار لینا. پس تیل لے آئی ہوں، بغیر تیل کے آپ کا یہ مسٹڈا اندر نہیں جائے گی، میری گاںڈ بلکل كاري ہے بابوجی، فٹ گی، ذرا رحم کرکے مارنا "

میرا سوچنا صحیح تھا، منجو بائی اب تک اپنی چوت مجھ چسوانے کا خواب دیکھ رہی تھی اور جیسے ہی اسے یقین ہوا، اس نے گاںڈ مروانے کی تیاری کر لی. اس کی کوری گاںڈ مارنے کے خیال سے میرا لںڈ اچھلنے لگا. پر میں اب سچ میں پہلے اس کی چوت چوسنا چاہتا تھا.

"گاںڈ تو آج تیری مار ہی لوں گا میری رانی پر پہلے ذرا یہ دیسی خالص گھی تو اور چٹوا. سالا صرف چکھ کر ہی لںڈ ایسا اچھل رہا ہے، ذرا چار پانچ چمچ پی کے بھی تو دیکھوں."

"تو یہیں چاٹ لو نا بستر پر" ٹاںگیں کھول کر لےٹتي ہوئی منجو بولی.

"ارے نہیں، یہاں بیٹھ. چوت پوری شیل، تب تو منہ مار پاؤں گا ٹھیک سے" میں نے اسے کرسی پر بٹھایا اور اس کی ٹاںگیں اٹھا کر کرسی کے ہاتھوں میں فسا دیں. اب اس کی ٹاںگیں پوری فےلي ہوئی تھیں اور بر دم کھلی ہوئی تھی. میں نے اس کے سامنے نیچے زمین پر بیٹھ گیا اور اس کی سانولی رانوں کو چومنے لگا.

منجو اب مستی میں پاگل سے ہو گئی تھی. اس نے خود ہی اپنی انگلی سے اپنی جھاٹے بازو میں کیں اور دوسرے ہاتھ کی انگلی سے چوت کے پپوٹے کھول کر لال لال گیلے چھید مجھے دکھایا. "چوس لو میری بابوجی جنت کے اس دروازے کو، چاٹ لو میرا مال میرے بادشاہ، ماں قسم، بہت مسالیدار رج ہے میری، آپ چاٹوگے تو فر اور کچھ نہیں بھايےگا، میں تو کب سے خواب دیکھ رہی ہوں اپنے سےيا کو اپنا یہ امرت چكھانے کا، پر آپ نے موقع ہی نہیں دیا، میں جانتی تھی کہ تم کو اچھا لگے گا، اب تو روز اتنی امرت پلاوگي کہ تمہیں اس کی لت پڑ جائے گی "

میں جیبھ نکال کر اسکی چوت پر آہستہ آہستہ فرانے لگا. اس چپچپے پانی کا ذائقہ کچھ ایسا منشیات تھا کہ میں کتے جیسی پوری جیبھ نکال کر اس کی بر کو اوپر سے نیچے تک چاٹنے لگا. اس گھوبگھرالی بال میری جیب میں لگ رہے تھے. چوت کے اوپر کے کونے میں ذرا سا سرخ سرخ کڑا ہیرے جیسا اس کا كلٹ تھا. اسپر سے میری جیب جاتی تو وہ كلكنے لگتی.

اس کا رس ٹھیک سے پینے کے لیے میں نے اپنے منہ میں اس کی چوت بھر لی اور عام جیسا چوسنے لگا. چمچ چمچ رس میرے منہ میں آنے لگا. "ہاے بابوجی، کتنا مست چوستے ہو میری چوت، آج میں سب پا گئی میرے بادشاہ، کب سے میں نے منت مانگی تھی کہ آپ کو میرے بر کا مال پلاو، میں جانتی تھی کہ آپ کو پسند کرو گے" كراهتے ہوئے وہ بولی. اب وہ اپنی کمر ہلا ہلا کر آگے پیچھے ہوتے ہوئی میرے منہ سے اپنے آپ کو چدوانے کی کوشش کر رہی تھی. وہ دو منٹ میں جھڑ گئی اور اس کی بر میرے منہ میں چپچپا پانی پھےكنے لگی. میں گھونٹ گھونٹ وہ گھی نگلنے لگا.

"بائی، سچ میں تیری چوت کا پانی بڑا جايكےدار ہے، ایک دم شہد ہے، فالتو میں نے اتنے دن گوايے، روز منہ لگاتا تو کتنا گھی میرے پیٹ میں جاتا" میں نے جیب سے چٹخارے لیتے ہوئے کہا.

"تو کیا ہوا بابوجی، اب سے روز پیا کرو، اب تو میں صبح شام، دن رات آپ پیٹ بھر کر اپنا شہد چٹواوگي." منجو میرے سر کو اپنی چوت پر دبا کر بولی.

میں چوت چاٹتا ہی رہا. اسے تین بار اور جھڑايا. وہ بھی مستی میں میرے سر کو کس کر اپنی بر پر دبایے میرے منہ پر دھکے لگاتی رہی. جھڑ جھڑ کر وہ تھک گئی پر میں نہیں رکا. وو پوری لست ہوکر کرسی میں پیچھے لڑھک گئی تھی. اب جب بھی میری زبان اس کے كلٹ پر جاتی، تو اس کا بدن کانپ اٹھتا. اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا.

"چھوڑو اب بابوجی، مار ڈالوگے کیا؟ میری بر دکھنے لگی، تم نے تو اسے نچوڑ ڈالا، اب كرپا کرو مجھ، چھوڑ دو مجھے، پاؤں پڑتی ہوں تمہارے" وہ میرے سر کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی.

"ابھی تو صرف چہٹا اور چوسا ہے رانی، زبان سے کہاں چودا ہے. اب ذرا زبان سے بھی کروا لو" کہہ کر میں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے سر سے الگ کئے اور اس کی چوت میں زبان گھسیڑ دی. چوت میں جیبھ اندر باہر کرتا ہوا اس کے كلٹ کو میں اب جیبھ سے رےتي کی طرح گھس رہا تھا. اس کے تڑپنے میں مجھے بڑا مزا آ رہا تھا. وہ اب سسک سسک کر ادھر ادھر ہاتھ پاؤں فیںک کر تڑپ رہی تھی. جب آخر وو رونے لگی تب میں نے اسے چھوڑا. اٹھ کر اسے کھینچ کر اٹھاتا ہوا بولا "چلو بائی، تیرا شہد لگتا ہے ختم ہو گیا. اب گاںڈ مرانے کو تیار ہو جاؤ. کیسے مراوگي، کھڑے کھڑے یا لیٹ کر؟"

وہ بیچاری کچھ نہیں بولی. جھڑ جھڑ کر اتنی تھک گئی تھی کہ اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا. اس کی حالت دیکھ کر میں نے اسے باںہوں میں اٹھایا اور اس کے لست جسم کو پٹ پلنگ پر پٹک کر اسپر چڑھ بیٹھا.

میں نے جلدی جلدی اپنا لںڈ تیل سے چیکنا کیا اور فر اسکی گاںڈ میں تیل لگانے لگا. ایکدم سکرا اور چھوٹا سوراخ تھا، وہ سچ بول رہی تھی کہ اب تک گاںڈ میں کبھی کسی نے لںڈ نہیں ڈالا تھا. میں نے پہلے ایک اور پھر دو اںگلی ڈال دیں. وہ درد سے سسک کر اٹھی. "آہستہ بابوجی، دكھتا ہے نا، رحم کرو تھوڑی آپ کی اس نوکرانی پر، ہؤلے ہؤلے انگلی کرو"

میں طیش میں تھا. سیدھا اسکی گاںڈ کا چھید دو انگلیوں سے کھول کر بوتل لگائی اور چار پانچ چمچ تیل اندر بھر دیا. فر دو انگلی اندر باہر کرنے لگا "چپ رہو بائی، چوت چسوا کر لطف لیا نا تو نے؟ اب جب میں لںڈ سے گاںڈ فاڑوگا تو دیکھنا کتنا مجا آتا ہے. تیری چوت کے گھی نے میرے لںڈ کو مست کیا ہے، اب اس کی مستی تیری گاںڈ ہی اترے گی 

منجو كراهتے ہوئے بولی. "بابوجی، گاںڈ مار لو، میں نے تو خود آپ کو یہ چڑھاوے میں دے دی ہے، آپ نے مجھے اتنا سکھ دیا میری چوت چوس کر، یہ اب آپ کی ہے، جیسے چاہو مزہ کر لو، صرف ذرا آہستہ مارو میرے بادشاہ، فاڑ دو گے تو تمہیں ہی کل سے مجا نہیں آئے گا "

اب تک میں بھی مکمل فنفنا گیا تھا. اٹھ کر میں منجو کی کمر کے دونوں جانب گھٹنے ٹیک کر بیٹھا اور گدا پر سپاڑا جمع کر اندر پیل دیا. اس سكرے چھید میں جانے میں تکلیف ہو رہی تھی اس لئے میں نے ہاتھوں سے پکڑ کر اس کے چوتڑ فے لايے اور فر کس کر سپاڑا اندر ڈال دیا. پكك سے وہ اندر گیا اور منجو دبی آواز میں "ائی ماں، مر گئی رے" چیخ کر تھرتھرانے لگی. پر بیچاری ایسا نہیں بولی کہ بابوجی گاںڈ نہیں مراوگي. مجھے روکنے کی بھی اس نے کوئی کوشش نہیں کی.

میں رک گیا. ایسا لگ رہا تھا جیسے سپاڑے کو کسی نے کس کے مٹھی میں پکڑا ہو. تھوڑی دیر بعد میں نے فر پیلنا شروع کیا. انچ انچ کرکے لںڈ منجو بائی کی گاںڈ میں دھستا گیا. جب بہت دكھتا تو بیچاری سسک کر ہلکے سے چیخ دیتی اور میں رک جاتا.

آخر جب جڑ تک لںڈ اندر گیا تو میں نے اس کے ہپ پکڑ لیے اؤر لںڈ دھیرے دھیرے اندر باہر کرنے لگا. اسکی گاںڈ کا چھلا میرے لںڈ کی جڑ کو کس کر پکڑ تھا، جیسے كسينے انگوٹی پہنا دی ہو. اس کے ہپ پکڑ کر میں نے اسکی گاںڈ مارنا شروع کر دی. پہلے آہستہ آہستہ ماری. گاںڈ میں اتنا تیل تھا کہ لںڈ مست فچ فچ کرتا ہوا سٹك رہا تھا. وہ اب مسلسل کراہ رہی تھی. جب اس کا سسكنا تھوڑا کم ہوا تو میں نے اس کے بدن کو باہوں میں بھینچ لیا اور اسپر لیٹ کر اسکے ممے پکڑ کر دباتے ہوئے کس کے اسکی گاںڈ مارنے لگا.

میں نے اس رات بغیر کسی رحم کے منجو کی گاںڈ ماری، ایسے ماری جیسے رنڈی کو پیسے دے کر رات بھر کو خریدا ہو اور پھر اسے کوٹ کر پیسہ وصول کر رہا هوو. میں اتنا اتیجیت تھا کہ اگر وہ روکنے کی کوشش کرتی تو اس کا منہ بند کر کے زبردستی اس کی مار دیتی. اس کی چوچیاں بھی مے بے رحمی سے مسل رہا تھا، جیسے عام کا رس نکالنے کو پلپلا کرتے ہیں. پر وہ بیچاری سب شریک رہی تھی. آخر میں تو میں نے ایسے دھکے لگائے کہ وہ درد سے بلبلانے لگی. میں جھڑ کر اس کے بدن پر لست سو گیا. کیا مزہ آیا تھا. ایسا لگتا تھا کہ ابھی ابھی کسی پر زیادتی کیا ہو.



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)