Ghar ka dhood - Episode 3

گھر كا دودھ

آخری قسط 



جب لںڈ اسکی گاںڈ سے نکال کر اسے اضطراری تو بیچاری کی آنکھوں میں درد سے آنسو آ گئے تھے، بہت دکھا تھا اسے پر وہ بولی کچھ نہیں کیونکہ اسينے خود مجھے اسکی گاںڈ مارنے کی اجازت دی تھی. اس کا چما لے کر میں نے باجو میں ہوا تو وہ اٹھ کر باتھ چلی گی. اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا، پاؤں فتراكر لگڑاكر چل رہی تھی. جب واپس آئی تو میں نے اسے باںہوں میں لے لیا. مجھ لپٹتے ہوئے بولی "بابوجی، آپ نے تو سچ میں میری پوری مار لی. آپ کو کیسا لگا؟ اتنے دن پڑے تھے پیچھے کہ بائی، مروا لو"

میں نے اس چوم کر کہا "منجو بائی، تیری کوری کوری گاںڈ تو لاجواب ہے، آج تک کیسے بچ گئی؟ وہ بھی تیرے جیسی چدیل عورت کی گاںڈ! لگتا ہے میرے ہی نصیب میں تھی. ایسی مست ٹائیٹ تھی جیسے كسينے گھوسے میں لںڈ پکڑ لیا ہو "

مجھسے لپٹ کر منجو بولی "میں نے بچا کے رکھی بابو آپ کے لیے. مجھے معلوم تھا آپ آؤ گے. اب آپ کبھی بھی مارو، میں منع نہیں کروں گی. میری چوت میں منہ لگا کر آپ نے تو مجھے اپنا غلام بنا لیا. بس ایسے ہی میری چوت چوسا کرو میرے راجا بابو، فر چاہے جتنی بار مارو میری گاںڈ. آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ کو اپنی بر کا پانی پلاكر مجھے کتنا سکون ملتا ہے. پر بہت دكھتا ہے بابو! آپ کا لنڈ ہے کہ موسل اور آپ نے آج گاںڈ کی دھجیاں اڑا دیں، بہت بےدردي سے ماری میری گاںڈ! پر تم کو سو خون معاف ہیں میرے بادشاہ، آخر میرے سےيا ہو "

"چلو تو ایک بار اور مروا لو" میں نے کہا.

"اب نہیں بابو جی، آج معاف کرو، میں مر جاوںگی، گاںڈ بہت خود گئی ہے" منجو منت کرتے ہوئے بولی.

"چوت بھی چوسوگا" میں نے کہا.

"وہ بھی مت چوسو بابوجی. آپ نے تو اس کو کھا ڈالا آج"

"فر کیا کروں؟ یہ لںڈ دیکھ" میں نے اپنا فر سے تنناتا لؤڑا اس کے ہاتھ میں دے کر پوچھا.

"تو چود لو نا بابوجی، کتنا بھی چودو"

میں نے اسے ذہن بھرکے چودا، ایک بار سونے کے پہلے اور فر علی الصبح اور فر ہی اس کو جانے دیا.

اس کے بعد میں نے اسکی گاںڈ ہفتے میں دو بار مارنے لگا، اس سے زیادہ نہیں، بیچاری کو بہت دكھتا تھا. میں بھی مار مار کر اس کی کوری ٹائیٹ گاںڈ ڈھیلی نہیں کرنا چاہتا تھا. اس کا درد کم کرنے کو گاںڈ میں لںڈ کو شامل کرنے کے بعد میں نے اسے گود میں بٹھا لیتا اور اس کی بر کو انگلی سے چودکر اسے مزہ دیتا، دو تین بار اسے جھڑاكر فر اسکی مار دیتی. گاںڈ مارنے کے بعد خوب اسکی بر چوستا، اسے مجا دینے کو اور اس کا درد کم کرنے کو. گاںڈ چیکنا کرنے کو میں نے مكھكھن کا استعمال کرنا شروع کر دیا تھا، وہ بھی فرذ میں رکھا ٹھنڈا مكھكھن. اس سے اسے کافی راحت ملتی تھی.

ویسے اس کی چوت کے پانی کا کاچسکا مجھے ایسا لگا، کہ جب موقع ملے، میں اسکی چوت چوسنے لگا. ایک دو بار تو جب وہ کھانا بنا رہی تھی، یا میز پر بیٹھ کر سبزی کاٹ رہی تھی، میں نے اس کی ساڑی اٹھا کر اسکی بر چوس لی. اس کو ہر طرح سے چودنے اور چوسنے کی مجھے اب ایسی عادت لگ گئی تھی کہ میں اکثر سوچتا تھا کہ منجو نہیں ہوتی تو میں کیا کرتا.

یہی سب سوچتے میں پڑا تھا. منجو نے اپنے مموں پر ہوئے جكھمو پر کریم لگاتے ہوئے مجھے فر الاهنا دیا "کیوں چباتے ہو میری چوچي بابوجی ایسے بے رحمی سے. گزشتہ دو تین دن سے زیادہ ہی کاٹنے لگے ہو مجھے"

میں نے اس کی بر کو سہلاتے ہوئے کہا "بائی، اب تم مجھے اتنی اچھی لگتی ہو کہ تیرے بدن کا سارا رس میں پینا چاہتا ہوں. تیری چوت کا امرت تو بس تین چار چمچ نکلتا ہے، میرا پیٹ نہیں بھرتا. تیری چونچیاں اتنی خوبصورت ہیں ، لگتا ہے ان میں دودھ ہوتا تو پیٹ بھر پی لیتا. اب دودھ نہیں نکلتا تو جوش میں کاٹنے کا من ہوتا ہے "

وہ ہنستے ہوئے بولی "اب اس عمر میں کہاں مجھے دودھ چھوٹےگا بابوجی. دودھ چھوٹتا ہے نوجوان چھوکریوں کو جو ابھی ابھی ماں بنی ہیں."

فر وہ اٹھ کر کپڑے پہننے لگی. کچھ سوچ رہی تھی. اچانک مجھ سے پوچھ بیٹھی "بابوجی، آپ کو سچ میں عورت کا دودھ پینا ہے یا ایسے ہی مفت بتيا رہے ہو"

میں نے اسے یقین دلایا کہ اگر اس کے جیسے رسیلی متوالي عورت ہو تو ضرور اس کا دودھ پینے میں مجھے مجا آیگا.

"کوئی انتظام کرتی ہوں بابوجی. پر مجھے خوش رکھا کرو. اور میری چوچیوں کو دانت سے کاٹنا بند کر دو. میری بر کو مست رکھو گے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا تجھ کو دودھ پلانے کا" اس نے حکم دیا.

اسے خوش رکھنے کو اب میں نے روز اس کی بر پوجا شروع کر دی. جب موقع ملتا، اس کی چوت چاٹنے میں لگ جاتا. میں نے ایک وی سی آر بھی خرید لیا اور اسے کچھ بلیو فلم دکھائیں. کیسٹ لگا کر میں نے اسے سوفے پر بٹھا دیتا اور خود اس کی ساڑی اوپر کر کے اس کی بر چوسنے میں لگ جاتا. ایک گھنٹے کی کیسٹ ختم ہوتے ہوتے وہ مستی سے پاگل ہونے کو آ جاتی. میرا سر پکڑ کر اپنی چوت پر دبا کر میرے سر کو رانوں میں پکڑ کر وہ فلم دیکھتے ہوئے ایسی جھڑتي کہ ایک آدھ گھنٹے کسی کام کی نہیں رہتی.

رات کو کبھی کبھی میں اسے اپنے منہ پر بٹھا لیتا. اچھل اچھل کر وہ ایسے میرے منہ اور زبان کو چودتي کہ جیسے گھوڑے کی سواری کر رہی ہو. کبھی میں اس سے سكسٹي نائن کر لیتا اور اس کی بر چوس کر اپنے لںڈ کی رگڑ اسے کھلاتا.

ایک رات میں نے اس بہت میٹھا ستایا، بر چسوانے کی اس کی ساری خواہش مکمل کر دی. دو پکچر دکھائی، دو گھنٹے اس کی چوت چوسی. وہ جھڑ جھڑ کر نہال ہو گئی. پر فر اسے چھوڑنے کے بجائے اسے پکڑ کر بستر پر لے گیا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے. وہ گھبرا گئی، چايد سوچ رہی ہوگی کہ مشكے باندھ کر اسکی گاںڈ ماروںگا پر میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں کر رہا ہوں. فر اسکی چوت سے منہ لگا کر چوسنے لگا. ایک دو بار اور جھڑ کر بیچاری پست ہو گئی. اب اس کی نچوڑي ہوئی بر پر میری جیب لاتے ہی اس کے جسم میں بجلی سی دوڑ جاتی. اس كلٹ کو میں جیبھ سے رگڑتا تو وہ تڑپنے لگتی، اسے اب یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا.

میں نے اسے نہیں چھوڑا. مسلسل چوستا رہا. وہ روتے ہوئے منتیں کرنے لگی. پر میں نے اپنا منہ اس کی بر سے نہیں ہٹایا. آخر دو گھنٹے بعد اچانک اس کا جسم ڈھیلا ہو گیا اور وہ بے ہوش ہو گئی. میں نے فر بھی نہیں چھوڑا. آج مجھ بھی بھوت سا سوار تھا، میں اس کی بر کی بوند بوند نچوڑ لینا چاہتا تھا. من بھر کر چوسنے کے بعد میں نے اسی بے ہوشی میں اس کی بر میں لںڈ ڈالا اور هچك هچك کر دو تین بار چود ڈالا. وہ بےهسوه پڑی رہی، صرف جب چودتا تو بیہوشی میں ہی 'ا' 'ا' کرنے لگتی. دوسری صبح وہ اٹھ بھی نہیں پائی، بستر میں ہی پڑی رہی. میں نے اسے آرام کرنے دیا، گھر کا کام بھی نہیں کرنے دیا.

شام تک وہ سنبھلی. اس کی حالت دیکھ کر مجھے لگا کہ شاید جيادتي ہو گی، اب بچك نہ جائے. وہ دن بھر چپ چپ تھی. مجھے لگا کہ شاید رات کو بھی نہ آئے پر رات کو میری باںہوں میں خود آ کر سما گئی. کچھ بول نہیں رہی تھی. میں نے منایا کہ بائی، برا مان گیی کیا تو بولی "تم نے تو مجھے نہال کر دیا بابوجی، کہیں کا نہیں چھوڑا، میری حالت خراب کر دی. پر اتنا سکھ دیا کل رات تم نے مجھے، میں نے جنم میں نہیں پایا. میں نے مان گیی بابوجی آپ میرے بدن کے کتنے پیاسے ہو. "

"بس تم خوش ہو بائی تو میں بھی خوش ہوں، میرا یہ پٹھٹھا بھی خوش ہے"

"اب اور خوش کر دوں گی آپ کو، بس ذرا سا انتظار کرو" منجو بولی.

اگلے ہفتہ کو وہ صبح ہی غائب ہو گئی. میرے لیے صبح صبح کھانا بنا کر گئی تھی. جاتے جاتے بولی کہ شام کو آئے گی. میں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو پر کچھ بولی نہیں، صرف مسکرا دی. دوپہر کی نیند کے بعد میں جب اٹھا تو منجو واپس آ گئی تھی. کمرے میں صفائی کا کام کر رہی تھی. مجھے جگا دیکھ کر چائے بنا لائی. میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پاس کھیںچا اؤر جور سے چوم لیا. "کیوں منجو بائی، آج صبح سے چمچ بھر شہد بھی نہیں ملا. کہاں غائب ہو گئی تھی؟"

وہ مجھ چھوٹ کر مجھے آنکھ مارتے ہوئے دھیرے سے بولی. "آپ ہی کے کام سے گئی تھی بابوجی. ذرا دیکھو، کیا مال لائی ہوں تمہارے لئے!"

میں نے دیکھا تو دروازے میں ایک جوان لڑکی کھڑی تھی. تھوڑی شرما ضرور رہی تھی پر ٹك لگا کر میری اور منجو کے درمیان کی چوما چاٹی دیکھ رہی تھی. میں نے سکپکا کر منجو کو چھوڑا اور اس سے پوچھا کہ یہ کون ہے. ویسے منجو اور اس لڑکی کی صورت اتنی ملتی تھی کہ میں سمجھ گیا تھا. منجو بولی "گھبراو مت بابوجی، یہ گیتا ہے، میری بیٹی. بیس سال کی ہے، دو سال پہلے شادی کی ہے اس کی. اب ایک بچہ بھی ہے"

میں گیتا کو بڑے انٹریسٹ سے گھور رہا تھا. گیتا منجو جیسی ہی سانولی تھی پر اس سے زیادہ خوبصورت تھی. شاید اس کی جوانی کی وجہ سے ایسی لگ رہی تھی. منجو سے تھوڑی ناٹي تھی اور اس کا بدن بھی منجو سے زیادہ بھرا مکمل تھا. ایکدم مانسل اور گول مٹول، شاید ماں بننے کی وجہ سے ہو گا.

اس لڑکی کا کوئی عضو ایکدم دل میں برتا تھا تو وہ تھا اس کی بڑی چھاتی. اس کا اچل ڈھلا ہوا تھا؛ شاید اس نے جان بوجھ کر بھی گرایا ہو. اس کی چولی اتنی تنگ تھی کہ چھاتیاں اس میں سے باہر آنے کو کر رہی تھیں. چولی کے پتلے کپڑے میں سے اس کے ناریل جیسے ممے اور ان سرے پر بیر جیسے نپلو کا سائز دکھ رہا تھا. نپلو پر اس چولی تھوڑی گیلی بھی تھی.

میرا لںڈ کھڑا ہونے لگا. مجھے تھوڑا عجیب لگا پر میں کیا کرتا، اس چھوكري کی مست جوانی تھی ہی ایسی. منجو آگے بولی. "اسے میں نے سب بتا دیا ہے بابوجی، اس لئے آرام سے رہو، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے، اسے معلوم ہے کہ آپ اس کی اماں کے یار ہو. آپ کے بارے میں بتایا تو خوش ہو گئی میری بیٹی، بولی کہ چلو اماں، تیری پیاس بجھانے والا بھی آخر کوئی ملا تیرے کو "

گیتا تو دیکھ کر میرا اب تک تننا کر مکمل کھڑا ہو گیا تھا. منجو ہنسنے لگی "میری بٹیا بھا گیی بابوجی آپ کو. کہو تو اسے بھی ایک دو مهنے کیلئے یہیں رکھ لوں. آپ کی خدمت کرے گی. ہاں اس کی تنكھا الگ ہوگی"

اس متوالي چھوكري کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھا. "بالکل رکھ لو بائی، اور تنكھا کی فکر مت کرو"

"اصل بات تو آپ سمجھے ہی نہیں بابو جی، گیتا گزشتہ سال ہی ماں بنی ہے. بہت دودھ آتا ہے اس کو، بڑی تکلیف بھی ہوتی ہے بیچاری کو. بچہ ایک سال کو ہو گیا، اب دودھ نہیں پیتا، پر اس کا دودھ بند نہیں ہوتا . چوچي سوج کر دکھنے لگتی ہے، دبا دبا کر دودھ نکالتا پڑتا ہے. جب آپ میرا دودھ پینے کی بات بولے تو مجھے خیال آیا، کیوں نہ گیتا کو گاؤں سے بلا لاوں، اس کی بھی تکلیف دور ہو جائے گی اور آپ کے من کی بات بھی ہو جائے گی؟ بولو، جمتا ہے بابوجی؟ "

میں نے گیتا کی چوچي گھورتے ہوئے کہا "پر اس کا مرد اور بچہ؟"

"اس کی فکر آپ مت کرو، اس کا آدمی کام سے چھ مهنے کو شہر گیا ہے، اس لئے میں نے اسے شادی سے پہلے بلا لیا. اس کی ساس اپنے پوتے کے بغیر نہیں رہ سکتی، بہت لگاؤ ہے، اس لئے اسے وہیں چھوڑ دیا ہے، یہ اکیلی ہے ادھر "

یعنی میری لائن ایکدم کلیئر تھی. میں گیتا کا جوبن دیکھنے لگا. لگتا تھا کہ پکڑ کر کھا جاؤں، چڑھ کر مسل ڈالو اس متوالے طور کو. گیتا بھی مست ہو گئی تھی، میرے کھڑے لںڈ کو دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے کھڑے کھڑے اپنی جاںگھیں رگڑ رہی تھی.

صرف دودھ پینے کی بات ہوئی ہے بابوجی، یہ سمجھ لو. "منجو نے مجھے الاهنا دیا اور فر آنکھ مار دی. بڑی بدمعاش تھی، مجھے اور تنگ کرنے کو اکسا رہی تھی. پھر گیتا کو میٹھی فٹكار لگائی" اور سن ری چھنال لڑکی . میری اجازت کے بغیر اس کے لنڈ کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، یہ صرف تیری اماں کے حق کا ہے "

"اماں، یہ کیا؟ میرے کو بھی مجا کرنے دے نا کتنا متوالا لؤڑا ہے، تو بتا رہی تھی تو بھروسہ نہیں تھا میرا پر یہ تو اور خوبصورت نکلا" گیتا مچل کر بولی. اس کی نظریں میرے لںڈ پر گڑي ہوئی تھیں. بڑی چالو چیز تھی، ذرا بھی نہیں شرما رہی تھی، بلکہ چدانے کو مری جا رہی تھی.

"بدمعاش کہیں کی، تو بہتر ہوگی نہیں، میں نے کہا نا کہ ابھی بابوجی صرف میرے ہیں. اب چولی نکال اور فٹافٹ بابوجی کو دودھ پلا." منجو نے اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے کہا. فر مجھے بولی "اب گاؤں کی چھوري ہے بابوجی، گرم گرم ہے، اس کی بات کا برا نہیں ماننا"

منجو اب میرے لںڈ کو پجامے کے باہر نکال کر محبت سے مٹھيا رہی تھی. فر اسنے جھک کر اسے چومنا شروع کر دیا. ادھر گیتا نے اپنا بلاز نکال دیا. اس کی پپیتے جیسے موٹی موٹی سانولی چوچیاں اب ننگی تھیں. وہ ایکدم فولي فولي تھیں جیسے اندر کچھ بھرا ہو. وزن سے وہ لٹک رہی تھے.

ایک چھاتی کو ہاتھ میں اٹھا کر سہارا دیتے ہوئے گیتا بولی "اماں دیکھ نا، کیسے بھر گئے ہیں ممے میرے، آج صبح سے خالی نہیں ہوئے، بہت دكھتے ہیں"

"ارے تو ٹائم کیوں برباد کر رہی ہے. آ بیٹھ بابوجی کے پاس اور جلد پلا ان کو. بھوکے ہوں گے بیچارے" منجو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور پلنگ پر میرے پاس بٹھا دیا. مجھے بولی "بابوجی، میں روز اس کا دودھ اس کی چونچیاں دبا دبا کر نکال دیتی ہوں کہ اس کی تکلیف کم ہو. آج نہیں نکالا، سوچا، آپ جو ہو، راہ تک رہے ہو کہ عورت کا دودھ پینے ملے. میری بچی سے زیادہ دودھ والی آپ کو کہاں ملے گی! "

میں سرہانے سے ٹک کر بیٹھا تھا. گیتا میرے پاس سرکی، اس کی کالی آنکھوں میں مستی جھلک رہی تھی. اسکے ممے میرے سامنے تھے. نپلو کے گرد تشتری جیسے بڑے بھوری ارولا تھے. پاس سے وہ موٹے موٹے لٹکے چھاتی اور رسیلے لگ رہے تھے. اب مجھ سے نہیں رہا گیا اور جھک کر میں نے ایک سیاہ بیر منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا.

میٹھا كنكنا دودھ میرے مںہ میں بھر گیا. میری اس حالت میں مجھے وہ امرت جیسا لگ رہا تھا. میں نے دونوں ہاتھوں میں اس کی چوچي پکڑی اور چوسنے لگا جیسے کہ بڑے ناریل کا پانی پی رہا هوو. لگتا تھا میں فر چھوٹا ہو گیا ہوں. آنکھیں بند کرکے میں دودھ پلانے کرنے لگا. عورت کا دودھ، وہ بھی ایسی بلا کی خوبصورت اور سیکسی گاؤں کی چھوري کا! میں سیدھا جنت پہنچ گیا.

ادھر منجو نے میرا لںڈ منہ میں لے لیا. اپنی کمر اچھال کر میں اس کا منہ چودنے کی کوشش کرنے لگا. وہ ماہا استاد تھی، بغیر مجھے جھڑايے پیار سے میرا لںڈ چوستی رہی. اب تک گیتا بھی گرما گئی تھی. میرا سر اس نے کس کر اپنی چھاتی پر بھیںچ لیا جس میں چھوٹ نہ پاو اور اس کا نپل منہ سے نہ نكالو. اسے کیا معلوم تھا کہ اس کی اس متوالي چوچي کو چھوڑ دوں ایسا مورکھ میں نہیں تھا. اس کا ممما دبا دبا کر اسے دهتے ہوئے میں دودھ پینے لگا.

اب وہ پیار سے میرے بال چوم رہی تھی. سکھ کی سسکاریاں بھرتی ہوئی بولی "اماں، بابوجی کی کیا جوانی ہے، دیکھ کیا مست چوس رہے ہیں میری چوچي، ایکدم بھوکے بچے جیسے پی رہے ہیں. اور ان کا یہ لںڈ تو دیکھ اماں، کتنی زور سے کھڑا ہے. اماں، مجھے بھی چوسنے دے نا! "

منجو نے میرا لںڈ منہ سے نکال کر کہا "میں نے کہا نا کہ اس کی بات مت کر، مجھے بابوجی سے بھی پوچھنا پڑے گا، کیا ایسے ہی چڑھ جائے گی ان پر؟ کچھ تو شرم کر. آج نہیں، کل دیکھیں گے، وہ بھی اگر بابوجی ہاں کہیں تو! پتہ نہیں تیرا دودھ انہیں پسند آیا ہے کہ نہیں "ویسے گیتا کے دودھ کے بارے میں میں کیا سوچتا ہوں، اس کا پتہ اسے میرے اچھلتے لںڈ ہی لگ گیا ہو گا.

آخر گیتا کا چھاتی خالی ہو گیا. اسے دبا دبا کر میں نے مکمل دودھ نچوڑ لیا. فر بھی اس کے اس موٹے بیر سے نپل کو منہ سے نکالنے کا من نہیں ہو رہا تھا. پر میں نے دیکھا کہ اس کے دوسرے نپل سے اب دودھ ٹپکنے لگا تھا. شاید زیادہ بھر گیا تھا. میں نے اسے منہ میں لیا اور اس کی دوسری چوچي ده کر پینے لگا. گیتا خوشی سے چہک اٹھی. "اماں، یہ تو دوسرا ممما بھی خالی کر رہے ہیں. مجھے لگا تھا کہ ایک سے ان کے دماغ بھر جائے گا."

"تو پینے دے نا پگلی، انہیں بھوک لگی ہوگی. اچھا بھی لگا ہوگا تیرا دودھ اب بكبك مت کر، مجھے بابوجی کا لؤڑا چوسنے دے ٹھیک سے، صرف ھٹی کریم فےكنے ہی والا ہے اب" کہہ کر منجو فر شروع ہو گئی

جب دوسری چوچي بھی میں نے خالی کر دی تب منجو نے میرا لںڈ جڑ تک نگل کر اپنے گلے میں لے لیا اور ایسے چوسا کہ میں جھڑ گیا. مجھے دودھ پلوا کر اس بلی نے میری ملائی نکال لی تھی. میں لست ہوکر پیچھے لڑھک گیا پر گیتا اب بھی میرا سر اپنی چھاتی پر بھینچ کر اپنی چوچي میرے منہ میں ٹھوستي ہوئی ویسے ہی بیٹھی تھی.

منجو نے اٹھ کر اس کو کھینچ کر الگ کیا. "نہےں چھوڑ نا، کیا رات بھر بےٹھےگي ایسے؟"

گیتا میری طرف دیکھ کر بولی "بابوجی، پسند آیا دودھ؟" وہ ذرا ٹیںشن میں تھی کہ میں کیا کہتا ہوں.

میں نے کھینچ کر اس کا گال چوم لیا. "بالکل امرت تھا گیتا رانی، روز پلاوگي نا؟"

وہ تھوڑی شرما گئی پر مجھے آنکھ مار کر ہنسنے لگی. میں نے منجو سے پوچھا "کتنا دودھ نکلتا ہے اس کے تھنو سے روز بائی؟ آج تو میرا ہی پیٹ بھر گیا، اس کا بچہ کیسے پیتا تھا اتنا دودھ"

منجو بولی "ابھی زیادہ تھا بابوجی، کل سے بیچاری کی چوچي خالی نہیں کی تھی نا. نہیں تو قریب اس کا آدھا نکلتا ہے ایک بار میں. ویسے ہر چار گھنٹے میں پلا سکتی ہے یہ." میں نے حساب لگایا. میں نے کم سے کم پاو ڈیڑھ پاو دودھ ضرور پیا تھا. اگر دن میں چار بار یہ آدھا پاو دودھ بھی دے تو آدھا پونا لٹر دودھ ہوتا تھا دن کا.

دن میں دو تین پاو دینے والی اس مست دو پاؤں کی گائے کو دیکھ کر میں بہک گیا. شاید چد کر سیر بھر بھی دینے لگے! منجو کو پوچھا "بولو بائی، کتنی تنكھا لے گی تیری بیٹی؟"

وہ گیتا کی طرف دیکھ کر بولی "پانچ سو روپے دے دینا بابوجی. آپ ہزار ویسے ہی دیتے ہو، آپ سے زیادہ نہیں لوں گی."

میں نے کہا کہ ہزار روپے دوں گا گیتا کو. گیتا تنك کر بولی "پر کاہے کو بابوجی، پانچ سو ہی بہت ہے، اور میں بھی تو آپ کے اس لاکھ روپے کے لںڈ سے چدواوگي روز. ہزار زیادہ ہے، میں کوئی کمانے تھوڑے ہی آئی ہوں آپ کے پاس."

میں نے گیتا کی چوچي محبت سے دبا کر کہا "میری رانی، زیادہ نہیں دے رہا ہوں، پاچسو تمہارے کام کے، اور پانچ سو دودھ کے. اب کم سے کم میرے لیے تو باہر سے دودھ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے. ویسے تمہارا یہ دودھ تو ہزاروں روپے میں بھی سستی ہے "گیتا شرما گئی پر منجو ہنسنے لگی" بالکل ٹھیک ہے بابوجی. بیس روپے لٹر دودھ ملتا ہے، اس حساب سے مهنے بھر میں بیس پچیس لٹر دودھ تو مل ہی جائے گا آپ کو. چل گیتا، اب بابوجی کو آرام کرنے دے "

گیتا نے ایک دو بار اور ضد کی پر منجو اسے زبردستی ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر باہر لےگيي. فر دونوں ملكت کھانا بنانے میں لگ گئیں.

اس رات منجو نے مجھے اپنی بیٹی نہیں چودنے دی. بس اس رات کو ایک بار اور گیتا کا دودھ مجھے پلایا. دودھ پلاتے پلاتے گیتا بار بار چدانے کی ضد کر رہی تھی پر منجو اڑي رہی. "گیتا بیٹی، آج رات اور صبر کر لے. کل ہفتہ ہے، بابوجی کی چھٹی ہے. کل صبح دودھ پلانے آئے گی نا تو، اس کے بعد کر لینا مزہ"

"اور اماں تو؟ تو بھی چل نا!" گیتا بولی.

"تو جا اور سو جا، میں دو گھنٹے میں آتی ہوں" منجو بولی.

"خود مست چدايےگي اور جوان بیٹی کو پیاسی رکھے گی. کیسی اماں ہے تو!" گیتا چڑھ کر بولی. "اور ادھر میں اکیلی کیا کروں؟"

"جا مٹھٹھ مار لے، کچھ بھی کر، میرا دماغ مت چاٹ" منجو نے ڈانٹ کر کہا. آخر گیتا بھنبھناتے ہوئے چلی گئی. اس کے جانے کے بعد منجو بولی "بڑی چدیل ہے بابوجی، آج تو میں نے ٹال دیا پر نکلی سے دیکھنا، آپ یہ نہیں چھوڑے گی"

"آخر تمہاری بیٹی ہے منجو بائی. اب تم ساڑی نکالو اور یہاں آو" میں نے کہا.

گیتا کے جانے کے بعد میں نے منجو کو ایسا چودا کہ وہ ایک دم خوش ہو گئی. "آج تو بابوجی، بہت مست چود رہے ہو هچك هچك کر لگتا ہے میری بیٹی بہت پسند آئی ہے، اسی کی یاد آ رہی ہے، ہے نا؟" کمر اچكاتے ہوئے وہ بولی.

"جو بھی سمجھ لو منجو بائی پر آج تمہاری بر بھی ایکدم گیلی ہے، بڑا مجا آ رہا ہے چودنے میں"

منجو نے بس ایک بار چدوايا اور فر چلی گی. میں نے روکا تو بولی "اب آرام بھی کر لو بابوجی، کل سے آپ ڈبل کام کرنا ہے"

صبح جب منجو چائے لے کر آئی تو ساتھ میں گیتا بھی تھی. دونوں صبح صبح نہا کر آئی تھیں، بال اب بھی گیلے تھے. منجو تو مادرجات ننگی تھی جیسی اس کی عادت تھی، گیتا نے بھی بس ایک گیلی ساڑی اوڑھ رکھی تھی جس سے اس کا جوبن جھلک رہا تھا.

"یے کیا، صبح صبح پوجا ووجا کرنے نکلی ہو کیا دونوں؟" میں نے مذاق کیا.

گیتا بولی "ہاں بابوجی، آج آپ کے لنڈ کی عبادت کروں گی، دیکھو فول بھی لائی ہوں" سچ میں وہ ایک جھاپا میں فول اور عبادت کا سامان لیے تھی. بڑے پیار سے اس نے میرے لںڈ پر تھوڑا ٹیکہ لگایا اور اسے ایک موگرے کی چھوٹی مالا پہنا دی. اوپر سے میرے لںڈ پر کچھ فول ڈالے اور پھر اسے پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لے کر اسپر ان ملائم فولو کو رگڑنے لگی. دباتے دباتے جھک کر اچانک اس نے میرے لںڈ کو چوم لیا.

میں نے کچھ کہتا اس کے پہلے منجو ہنستی ہوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی. میرا زور کا بوسہ لے کر اپنی چوچي میری چھاتی پر رگڑتے ہوئے بولی. "ارے یہ تو باوري ہے، کل سے آپ کے گورے متوالے لںڈ کو دیکھ کر پاگل ہو گئی ہے. بابوجی، جلدی سے چائے پیو. مجھے بھی آپ سے عبادت کروانی ہے اپنی چوت کی. آپ میری بر کی عبادت کرو، گیتا بیٹی آپ کے لنڈ کی عبادت کرے گی اپنے منہ سے. "

میرا کس کر کھڑا تھا. میں چائے کی چسكي لینے گیا تو دیکھا بغیر دودھ کی چائے تھی. منجو کو بولا کہ دودھ نہیں ہے تو وہ بدمعاش عورت دکھاوے کے لیے جھوٹ موٹ اپنا ماتھا ٹھوک کر بولی "ہائے، میں بھول ہی گئی، میں نے دودھ والے بھیا کو کل ہی بتا دیا کہ اب دودھ کی ضرورت نہیں ہے ہمارے بابوجی کو. اب کیا کریں، چائے کے بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں. ویسے فکر کی بات نہیں ہے بابوجی، اب تو گھر کا دودھ ہے، یہ دو پیروں والی دو تھنو کی خوبصورت گایا ہے نا یہاں! اے گیتا، ادھر آ جلدی "

گیتا سے میرا لںڈ چھوڑا نہیں جا رہا تھا. بڑی مشکل سے اٹھی. پر جب منجو نے کہا "چل اب تک ویسے ہی ساڑی لپیٹے بیٹھی ہے، چل نںگی ہو اور اپنا دودھ دے جلدی، بابوجی کی چائے کو" تو تپاک سے اٹھ کر اپنی ساڑھی چھوڑ کر وہ میرے پاس آ گئی. اس دیسی جوبن کو میں دیکھتا رہ گیا. اس کا بدن ایکدم مانسل اور گول مٹول تھا، چوچیاں تو بڑی تھیں ہی، چوتڑ بھی اچھے خاصے بڑے اور چوڑے تھے. حمل میں چڑھا گوشت اب تک اس کے جسم پر تھا. جاںگھیں یہ موٹی موٹی اور روٹی جیسی فولي بر، مکمل طور بالوں سے بھری ہوئی. میں تو جھڑنے کو آ گیا.

"جلدی دودھ ڈال چائے میں" منجو نے اسے کھینچ کر کہا. گیتا نے اپنی چوچي پکڑ کر چائے کے کپ کے اوپر لائی اور دبانے اس میں سے دودھ نكالمے لگی. دودھ کی تیز پتلی دھار چائے میں گرنے لگی. چائے سفید ہونے تک وہ اپنی چوچي دهتي رہی. فر جاکر میری کمر کے پاس بیٹھ گئی اؤر میرے لںڈ کو چاٹنے لگی.

میں نے کسی طرح چائے ختم کی. ذائقہ الگ تھا پر میری اس حالت میں دم مست لگ رہا تھا. میری سر گھومنے لگا. ایک جوان لڑکی کے دودھ کی چائے پی رہا ہوں اور وہی لڑکی میرا لںڈ چوس رہی ہے اور اس کی ماں اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کب میری چائے ختم ہو اور کب وہ اپنی چوت مجھ چسوايے

میں نے چائے ختم کرکے منجو کو باںہوں میں کھینچا اور اس کے ممے مسلتے ہوئے اس کا منہ چوسنے لگا. میری حالت دیکھ کر منجو نے کچھ دیر مجھے چومنے دیا اور فر مجھے لٹاكر میرے چہرے پر چڑھ بیٹھی اور اپنی چوت میرے مںہ میں دے دی. "بابوجی، اب نكھرا نہ کرو، ایسے نہیں چھوڑوگي آپ، بر کا رس ضرور پلاوگي، چلو زبان نکالو، آج اسيكو چودوگي" ادھر گیتا اب میرے پورے لںڈ کو نگل کر گنے جیسا چوس رہی تھی.

ادھر منجو نے مجھے اپنی چوت کا رس پلایا اور ادھر اس کی بیٹی نے میرے لںڈ کی رگڑ نکال لی. گیتا کے منہ میں میں ایسا جھڑا کہ لگتا تھا بیہوش ہو جاؤنگا. گیتا نے میرا پورا ویرے نگلا اور فر بیم آکر ماں کے پاس بیٹھ گئی.

منجو اب بھی مجھ چڑھی میرے ہونٹوں پر اپنی بر رگڑ رہی تھی. "کیوں بیٹی. ملا پرساد، ہو گئی تیرے من کی؟"

"اماں، ایک دم ملائی نکلتی ہے بابوجی کے لںڈ سے، کیا گاڑھی ہے، تار تار ٹوٹتے ہیں. تو تین مهنے سے کھا رہی ہے تبھی تیری ایسی مست طبیعت ہو گئی ہے اماں، اب اس کے بعد آدھی میں لوں گی ہاں!" گیتا منجو سے لپٹ کر بولی.

ایک بار اور میرے منہ میں جھڑ کر حل سے سی سی کرتی منجو اٹھی. "چل گیتا، اب بابوجی کو دودھ پلا دے. فر آگے کا کام کریں گے" گیتا میرے اوپر جھکی اور مجھے لٹايے لٹايے ہی اپنا دودھ پلانے لگی. رات کے آرام کے بعد فر اسکے ممے بھر گئے تھے اور انہیں خالی کرنے میں مجھے دس منٹ لگ گئے. تب تک منجو بائی کی جادو زبان نے اپنی کمال دکھایا اؤر میرے لںڈ کو فر تننا دیا.

گیتا کے دودھ میں ایسا جادو تھا کہ میرا ایسا کھڑا ہوا جیسے جھڑا  ہی نہ ہو. ادھر گیتا مجھ سے لپٹ کر سهسا بولی "بابوجی، آپ کو بابوجی کہنا اچھا نہیں لگتا، آپ بھیا کہوں؟ آپ صرف میرے سے تین چار سال تو بڑے ہو"

منجو میری طرف دیکھ رہی تھی. میں نے گیتا کا گہرا بوسہ لے کر کہا "بالکل کہو گیتا رانی. اور میں تجھے گیتا بہن یا بہنا کہوں گا. پر یہ تو بتا تیری اممما کو کیا کہوں؟ اس حساب سے تو اسے اماں کہنا چاہیے"

منجو میرا لںڈ منہ سے نکال کر میرے پاس آ کر بیٹھ گئی. اس کی آنکھوں میں گہری ہوس تھی. "ہاں، مجھے اماں کہو بابوجی، مجھے بہت اچھا لگے گا. آپ ہو بھی تو میرے بیٹے جیسی عمر کے، اور میں آپ کو بیٹا كهوگي. سمجھوگي میرا بیٹا مجھے چود رہا ہے. آپ کچھ بھی کہو بابوجی، بیٹے یا بھائی سے چدانے میں جو مزہ ہے وہ کہیں نہیں "

مجھے بھی مزا آ رہا تھا. تصور کر رہا تھا کہ واقعی منجو میری ماں ہے اور گیتا بہن. ان نںگی چدےلو کے بارے میں یہ سوچ کر لںڈ اچھلنے لگا. "اماں تو آؤ، اب کون چدےگا پہلے، میری بہنا یا اماں؟"

"اماں، اب میں چودو بھیا کو؟" اس لڑکی نے ادیر ہوکر پوچھا.

منجو اب طیش میں تھی "بڑی آئی چودنے والی، اپنی اماں کو تو چدنے دے پہلے اپنے اس خوبصورت بیٹے سے تب تک تو ایسا کر، ان کو اپنی بر چٹا دے، وہ بھی تو دیکھیں کہ میری بیٹی کی بر کا کیا ذائقہ ہے. تب تک میں تیرے لئے ان کا سوٹا گرم کرتی ہوں "مجھے آنکھ مار کر منجو بائی ہنسنے لگی. اب وہ پوری مستی میں آ گئی تھی.

گیتا فٹافٹ میرے منہ پر چڑھ گئی. "او نالائق، بیٹھنا مت اب بھیا کے منہ پر. ذرا پہلے انہیں ٹھیک سے فلسفہ کرا اپنی جوان گلابی چوت کے" گیتا گھٹنوں پر ٹک گئی، اس کی چوت میرے چہرے کے تین چار انچ اوپر تھی. اسکی بر منجو بائی سے زیادہ گداج اور مانسل تھی. جھاٹے بھی گھنی تھیں. چوت کے گلابی پپوٹے سنتری کی فاك جیسے موٹے تھے اور سرخ سوراخ کھلا ہوا تھا جس میں سے گھی جیسا چپچپا پانی بہہ رہا تھا.

میں نے گیتا کی کمر پکڑ کر نیچے کھیںچا اور اس مٹھائی کو چاٹنے لگا. ادھر منجو نے میرا لںڈ اپنی بر میں لیا اور مجھ چڑھ کر مجھے ہؤلے ہؤلے مزے لے کر چودنے لگی. اپنی بیٹی کو دودھ پلانا دیکھ کر وہ بہت اتیجیت ہو گئی تھی، اس کی چوت اتنی گیلی تھی کہ آرام سے میرا لںڈ اس میں فسل رہا تھا.

گيتا كے چوتڑ پکڑ کر میں نے اس کی تپتی بر میں منہ چھپا دیا اور جو حصہ منہ میں آئے وہ عام جیسا چوسا لگا. اس کا انار کی شدید دانا میں نے ہلکے سے دانتوں میں لیا اور اسپر زبان رگڑنے لگا. دو منٹ میں وہ چھوكري سکھ سے سسکتی ہوئی جھڑ گئی. میرے منہ میں رس ٹپکنے لگا. "نہےں اماں، بھیا کتنا اچھا کرتے ہیں. میں تو گھنٹے بھر بر چسواوگي اذ"

میں نے ایک عجیب مستی میں ڈوبا اس جوان چھوكري کی چوت چوس رہا تھا، وہ اوپر نیچے ہوتی ہوئی میرے سر کو پکڑ کر میرا منہ چود رہی تھی اور اس کی وہ ادھیڑ اماں مجھ چڑھ کر میرے لںڈ کو چود رہی تھی. ایسا لگ رہا تھا جیسے میں لینا ہوں اور یہ دونوں آگے پیچھے بیٹھ کر مجھ پر سواری کر رہی ہیں. میں سوچنے لگا کہ اگر یہ جنت نہیں تو اور کیا ہے.

گیتا ہلکے ہلکے سيتكاريا بھرتے منجو سے بولی "اماں، چوچیاں کیسی ہلکی ہو گئی ہیں، بھیا نے پوری خالی کر دیں چوس چوس کر. تو دیکھ نا، اب ذرا تن بھی گئی ہیں نہیں تو کیسے لٹک رہی تھیں."

میری ناک اور منہ گیتا کی بر میں قید تھے پر آنکھیں باہر ہونے سے اس کا جسم دکھ رہا تھا. میں نے دیکھا کہ منجو نے پیچھے سے اپنی بیٹی کے چھاتی پکڑ لیے تھے اور پیار سے انہیں سہلا رہی تھی.

"سچي بیٹی، ایک دم ملائم ہو گئے ہیں. چل میں مالش کر دیتی ہوں، تجھے سکون مل جائے گا." منجو بولی. مجھے نظر آتے ہاتھ اب گیتا کے سینوں کو دبانے اور مسلنے لگے. فر مجھے چممے کی آواز آئی. شاید ماں نے لاڑ سے اپنی بیٹی کو چوم لیا تھا. میرے من میں اچانک خیال آیا کہ یہ ماں بیٹی کا سادہ محبت ہے یا کچھ گڑبڑ ہے؟

دس منٹ بعد ان دونوں نے جگہ بدل لی. میں اب بھی تننايا ہوا تھا اور جھڑا نہیں تھی. مجوباي ایک بار جھڑ چکی تھی اور اپنی چوت کا رس مجھے پلانا چاہتی تھی. گیتا دو تین بار جھڑی ضرور تھی پر چدنے کے لیے مری جا رہی تھی.

منجو تو براہ راست میرے منہ پر چڑھ کر مجھے بر چسوانے لگی. گیتا نے پہلے میرے لںڈ کا چما لیا، زبان سے چہٹا اور کچھ دیر چوسا. فر لںڈ کو اپنی بر میں گھسےڑكر میرے پیٹ پر بیٹھ گئی اور چودنے لگی. میرے من میں آیا کہ میرے لںڈ کو چوستے وقت اپنی ماں کی بر کے پانی کا ذائقہ بھی اسے آیا ہوگا.

گیتا کی چوت منجو سے زیادہ ڈھیلی تھی. شاید ماں بننے کے بعد اب مکمل طور پر ٹائیٹ نہیں ہوئی تھی. پر تھی ویسی ہی مخملی اور ملائم. منجو نے اسے ہدایت دی "ذرا من لگا کر مزے لے کر چود بیٹی نہیں تو بھیا جھڑ جائیں گے. اب مزا کر لے مکمل"

گیتا نے اپنی ماں کی بات مانی پر صرف کچھ منٹ. فر وہ ایسی گرم ہوئی کہ اچھل اچھل کر مجھے پورے زور سے چودنے لگی. اس نے مجھے ایسے چودا کہ پانچ منٹ میں خود تو جھڑی ہی، مجھے بھی جھڑا دیا. منجو ابھی اور مستی کرنا چاہتی تھی اس لئے چڑھ گئی. میرے منہ پر سے اترتے ہوئے بولی "نہےں او مورکھ لڑکی، ہو گیا کام تمام؟ میں کہہ رہی تھی صبر کر اور مزہ کر، میں تو گھنٹوں چودتي ہوں بابوجی کو. اب اتر نیچے نالائق"

منجو نے پہلے میرا لںڈ چاٹ کر صاف کیا. فر انگلی سے گیتا کی بر سے بہہ رہے ویرے کو صاف کرکے انگلی چاٹنے لگی "یہ تو پرشاد ہے بیٹی، ایک بوند بھی نہیں کھونا اس کا. تو ذرا ٹاںگیں کھول، ٹھیک سے صاف کر دیتی ہوں" اس نے انگلی سے بار بار گیتا کی بر پوچھي اور چاٹی. فر جھک کر گیتا کی ران پر چلے میرے ویرے کو چاٹ کر صاف کر دیا. میرے من میں فر آیا کہ یہ کیا چل رہا ہے ماں بیٹی میں.

دوپہر کا کھانا ہونے کے بعد گیتا نے فر مجھے دودھ پلایا اور چدائی کا ایک اور دور ہوا. شام کو اٹھ کر میں نے کلب چلا گیا. رات کو واپس آیا تو کھانے کے بعد فر ایک بعد گیتا کا دودھ پیا اور پھر ماں بیٹی کو پلنگ پر اجو بازو سلاكر باری باری چودا. گیتا کے دودھ کی اب مجھے عادت ہونے لگے تھی.

دوسرے دن اتوار تھا. میں نے تھوڑا سا مختلف پروگرام بنایا. صبح گیتا کا دودھ پیا اور پھر دونوں ماں بیٹی کی چوت چوس کر انہیں خوش کیا. بس میرے لںڈ کو ہاتھ نہیں لگانے دیا. میں دوپہر تک اس کے اور تن کر کھڑا کرنا چاہتا تھا.

منجو بائی میرے دل کی بات سمجھ گئی، کیونکہ یہ ہر اتوار کو ہوتا تھا. اپنے چوتڑوں کو سهلاتي ہوئی اپنی بیٹی سے بولی "گیتا بٹیا، آج دوپہر کو میری حالت خراب ہونے والی ہے" گیتا نے پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا. میں بھی ہنستا رہا پر خاموش رہا. منجو کی آنکھوں میں دوپہر کو ہونے والے درد کی فکر دکھ رہی تھی.

دوپہر کو ہم ننگے ہو کر میرے بیڈروم میں جمع ہوئے. میرا کس کر کھڑا تھا. گیتا للچا کر میرے سامنے بیٹھ کر اسے چوسنے کی کوشش کرنے لگی تو میں نے روک دیا. "رک بہنا، تجھے بعد میں خوش کروں گا، پہلے تیری اس چدیل ماں کی گاںڈ ماروںگا. ہفتہ ہو گیا، اب نہیں رہا جاتا. چل اماں، تیار ہو جا"

منجو خاموشی بستر پر اودھي لیٹ گی "اب دكھےگا رے مجھے، دیکھ کس طرح کھڑا ہے بابوجی کا لںڈ موسل جیسا"

گیتا سمجھ گئی کہ اس کی ماں صبح سے کیوں گھبرا رہی تھی. بڑے جوش سے میری طرف مڑ کر بولی "بھیا، میری مار لو، مجھے مجا آیگا. بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ گاںڈ مروانے کا مجا ملے. انگلی ڈال کر اور موم بتی گھسیڑ کر کئی بار دیکھا پر سکون نہیں ملا. آپ سے اچھا لںڈ کہاں ملے گا مروانے کو؟ "

میں تیار تھا، اندھے کو کیا چاہیئے دو آنکھیں! نئی کوری گاںڈ میں گھسنے کا تصور ہی میرا لںڈ اور اچھلنے لگا تھا.

منجو جان چھوٹنے سے خوش تھی "ارے میری بٹیا تو نے میری بچا لی آج. چل مكھكھن سے مست ہموار کر دیتی ہوں تیری گاںڈ، دكھےگا نہیں"

گیتا کو اودھا لٹا کر اس نے اس کے مقعد میں اور میرے لںڈ کو مكھكھن سے خوب چپڑ دیا. میں گیتا پر چڑھا تو منجو نے اپنی بیٹی کے چوتڑ اپنے ہاتھ سے فےلايے. اس کے بھورے گلابی چھید پر میں نے سپاڑا رکھا اور پیلنے لگا. سپاڑا سوج کر بڑا ہو گیا تھا پھر بھی مكھكھن کی وجہ فچچ سے ایک بار میں اندر گھس گیا. گیتا کو جم کر دکھا ہوگا کیونکہ اس کا جسم اینٹھ گیا اور وہ کانپنے لگی. پر چھوكري ہمت والی تھی، منہ سے اف تک نہیں نکلی.

اسے کچھ کرنے کا موقع دینے کے لیے میں ایک منٹ رکا اور پھر لںڈ اندر شامل کرنے لگا. اس بار میں نے کس کے ایک دھکے میں لنڈ سٹٹ سے اس کے چوتڑوں کے درمیان مکمل گاڑ دیا. اب وہ بیچاری درد سے چیخ پڑی. سسكتے ہوئے بولی "ماں، مر گئی میں، بھیا نے گاںڈ فاڑ دی. دیکھ نہ اماں، خون تو نہیں نکلا!"

منجو اسے چڑھاتے ہوئے بولی "آ گئی رستے پر ایک جھٹکے میں؟ باتیں تو پٹر پٹر کرتی تھی کہ گاںڈ مراوگي. پر رو مت، کچھ نہیں ہوا ہے، تیری گاںڈ صحیح سلامت ہے، صرف پوری کھل گیی ہے چوت جیسی. بیٹا، تو نے بھی کتنی بے رحمی سے ڈال دیا اندر، آہستہ آہستہ پیلنا تھا میری بچی کے چوتڑوں کے درمیان جیسے میری گاںڈ میں پےلا تھا. "

"ارے اماں، یہ مری جا رہی تھی نا گاںڈ مرانے کو! تو سوچا کہ دکھا ہی دوں اصلی مزہ ویسے گیتا بہنا کی گاںڈ بہت موٹی اور گداج ہے، ڈنلوپلو کی گدی جیسی، اسے تکلیف نہیں ہوگی زیادہ" میں نے گیتا کے چوتڑ دباتے ہوئے کہا. میرا لںڈ اب لوہے کی سولی جیسا اس کے چوتڑوں کی گهرايي میں اتر گیا تھا.

گیتا کی گاںڈ بہت گداج اور ملائم تھی. منجو جتنی ٹائیٹ نہیں تھی پر بہت گرم تھی، بھٹی جیسی. مے اس پر لیٹ گیا اور اس کے ممے پکڑ لیے. اس کے موٹے چوتڑ سپنج کی گدی جیسے لگ رہے تھے. اس کی چونچیاں دباتے ہوئے میں دھیرے دھیرے اسکی گاںڈ مارنے لگا.

شروع میں ہر دھکے پر اس کے منہ سےسسکی نکل جاتی، بیچاری کو بہت درد ہو رہا ہو گا. پر سالی پکی چدیل تھی. پانچ منٹ میں اسے مجا آنے لگا. فر تو وہ خود ہی اپنی کمر ہلا کر مروانے کی کوشش کرنے لگی. "بھےياجي، مارو نا! اور جم کر مارو، بہت مجا آ رہا ہے! ہیلو اماں، بہت اچھا لگ رہا ہے، تیرے کو کیوں مزہ نہیں آتا؟ بھیا، مارو میری گاںڈ هچك هچك کر، پٹک پٹک کر چودو میری گاںڈ کو، ماں قسم میں مر جاوںگی "

میں نے کس کر گیتا کی ماری، مکمل مزہ لیا. میں بہت دیر اس کے چوتڑ چودنا چاہتا تھا اس لئے منجو کو سامنے بٹھا کر اس کی بر چوسنے لگا، نہیں تو بیچاری اپنی بیٹی کی گاںڈ چدتی دیکھ کر خود اپنی چوت میں اںگلی کر رہی تھی.

من بھر کر میں نے گیتا کی گاںڈ چودي اور فر جھڑا. بچا دن بہت مزے میں گیا. چھٹي ہونے کی وجہ دن بھر چدائی چلی. گیتا کے دودھ کا میں ایسا دیوانہ ہو گیا تھا کہ چار گھنٹے بھی نہیں ركتا تھا. ہر گھنٹے اس کی چونچیاں چوس لیتا جتنا بھی دودھ ملتا پی جاتا. رات کو میں نے منجو سے کہا کہ گیتا کو گائے جیسا ده کر گلاس میں دودھ نکالے. میری بہت خواہش تھی اسے دیکھنے کی.

منجو نے گیتا کے بازو میں بیٹھ کر اس کے ہاتھ میں گلاس تھمایا. گیتا نے اسے اپنی چوچی کی نوک پر پکڑ کر رکھا اور منجو نے اپنی بیٹی کے ممی دبا دبا کر دودھ نکالا. گیتا کے نپل سے ایسی دھار چھوٹ رہی تھی کہ جیسے سچ میں گائے ہو. مکمل دودھ نکالنے میں نصف گھنٹہ لگ گیا. درمیان میں میں گیتا کا چما لیتا اور کبھی اس کے سامنے بیٹھ کر اسکی بر چوس لیتا.

دهنے کا یہ پروگرام دیکھ کر مجھے اتنا مزا آیا کہ میرا کس کر کھڑا ہو گیا. گلاس سے دودھ پی کر میں نے فر ایک بار گیتا کی گاںڈ ماری. منجو بہت خوش تھی کہ گیتا کے آنے سے اسکی گاںڈ کی جان تو چھوٹیں.

ہفتہ بھر بڑی مستی میں گیا. اس کے بعد مجھے ٹور پر جانا پڑا. دونوں ماں بیٹی بہت مایوس ہوئیں. انہیں بھی میرے لںڈ کا ایسا کاچسکا لگا تھا کہ مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں. میں نے سمجھایا کہ آکر چدائی کریں گے، میرے لںڈ کو بھی آرام کی ضرورت تھی. گیتا کو میں نے سخت ہدایت دی کہ میری گےرهاجري میں اپنا دودھ نکال کر فرج میں رکھ دے، میں آ کر پيوگا.

میں نے دو دن بعد شام کو واپس آنے والا تھا. پر کام جلد ختم ہو جانے سے دوپہر کو ہی آ گیا. سوچا اب آفس نہ جا کر سیدھا گھر چل کر آرام کیا جائے. لےچ کی سے دروازہ کھولا. مجھے لگا تھا کہ ابھی وہ دونوں گھر میں نہیں ہوں گی، میری گےرهاجري میں گاؤں چلی گئی ہوں گی. پر جب گھر کے اندر آیا تو میرے بیڈروم سے ہنسنے کی آواز آئی. میں دبے پاؤں بیڈروم کے دروازے تک گیا اور اسے ذرا سا کھول کر اندر دیکھنے لگا. جو دیکھا اس سے میرا لںڈ فوری طور تننا گیا.

اس دن چودتے وقت ماں بیٹی کے چممے اور منجو نے جس طرح گیتا کے ممے سہلا دیے تھے، اسے دیکھ کر میرے دل میں جو شک اٹھا تھا وہ سچ تھا. ماں بیٹی کے درمیان بڑی متوالي محبت لیلا چل رہی تھی. منجو بائی بستر پر سرہانے سے ٹک کر بیٹھی تھی. گیتا اس کی گود میں تھی. منجو اس بار بار بوسہ لے رہی تھی. منجو کا ایک ہاتھ گیتا کی چوچيو کو دبا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ گیتا کی چوت سے لگا تھا. اپنی دو انگلیوں سے وہ گیتا کی بر کھود رہی تھی. گیتا اپنا ماں کے گلے میں باہیں ڈالے اس کے چممو کا جواب دے رہی تھی. بیچ بیچ میں ماں بیٹی زبان لڑاتي اور ایک دوسرے کی زبان چوسنے لگتے.

میں اندر جانا چاہتا تھا پر اپنے لںڈ کو مٹھياتا ہوا وہیں کھڑا رہا. سوچا ذرا دیکھیں تو آگے یہ چدیل ماں بیٹی کیا کرتی ہیں.

گیتا بولی "اماں، بہت اچھا لگ رہا ہے. تو کتنی مست کرتی ہے میری بر کو. پر چونچیاں پھر ٹپک رہی ہیں، برتن لے آ نا باورچی خانے سے اور نکال دے میرا دودھ. بہت بھاری بھاری لگ رہا ہے."

منجو گیتا کو چوم کر بولی "کوئی ضرورت نہیں بٹیا، دو دن میں ہی سیر بھر دودھ جمع ہو گیا ہے بابوجی کے لئے، ان کو بہت ہے، اس سے زیادہ وہ کیا پيےگے؟"

گیتا مچل کر بولی "پر میں کیا کروں اماں؟ بہت دکھ رہی ہیں چوچیاں"

منجو نے جھک کر اس کے ممے کو محبت سے چومتے ہوئے کہا "تو میں کاہے کو ہوں میری رانی؟ میں خالی کر دیتی ہوں دو منٹ میں!"

گیتا مجوباي سے لپٹ کر خوشی سے چہک پڑی "سچ اماں؟ بڑی چھپی رستم نکلی تو؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ تجھے میرے دودھ کی آس ہو گی!"

منجو بائی گیتا کو نیچے لٹاتے ہوئے بولی "مجھے تو بہت دن کی آس ہے بیٹی، صرف تیرے دودھ کی ہی نہیں، تیرے بدن کی بھی آس ہے. جب سے بابوجی سے چدائی شروع ہوئی ہے، میرے دل میں آگ سی لگ گئی ہے. میں تو ان کے سامنے ہی پی لیتی پر کیا پتا وہ ناراض نہ ہو جائیں اس لئے چپ رہی. ان کا حصہ کا دودھ پینے میں ہچک ہوتی تھی. اب آ، تیری چھاتی ہلکی کردوں فر تیری بر ہلکی کروں گی "

گیتا کے بگل میں لیٹ کر منجو نے اپنی بیٹی کی چوچي منہ میں لے لی اور آنکھیں بند کر کے پینے لگی. اس کے چہرے پر ایک عجیب ترپت جھلک رہی تھی. گیتا نے اپنی ماں کا سر سینے سے لگا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی. منجو کے بالوں میں پیار سے انگلیاں چلاتی ہوئی بولی "پتہ ہے اماں، سب ماں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، میں پہلی بیٹی ہوں جو ماں کو دودھ پلا رہی ہے"

منجو نے دس منٹ میں دونوں چونچیاں خالی کر دی. اب تک وہ دونوں ایسی گرم ہو گئی تھیں کہ لپٹ کر ایک دوسرے پر چڑھ کر چومتے ہوئے کشتی کھیلنے لگیں. فر منجو الٹی گیتا پر لیٹ گئی اور اس کی ٹاںگیں فےلاكر اسکی بر میں منہ ڈال دیا. گیتا نے بھی اپنی ماں کی رانوں کے درمیان آپ کی چہرہ چھپا لیا. چوسنے چاٹنے اور سسکیوں کی آواز کمرے میں سنائی دی لگی.

ماں بیٹی کی یہ رت دیکھ کر میرا صبر ٹوٹ گیا. ننگا ہوکر میں کمرے میں گھسا اور پلنگ پر چڑھ بیٹھا.

مجھے دیکھ کر دونوں سکپکا گئیں اور الگ ہونے لگیں. میں نے انہیں روکا اور اپنا کام کرتے رہنے کو کہا. میرے کھڑے لںڈ کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی کہ میں ناراض نہیں ہوں بلکہ ان کی اس رت میں شامل ہونا چاہتا ہوں. ایک دوسرے کی چوت وہ چھوڑنا نہیں چهتي تھیں. گیتا نے اپنی گاںڈ کی طرف اشارہ کیا. منجو نے اپنے منہ سے گیتا کی گاںڈ چوس کر اسے گیلا کیا اور فر میرے لںڈ کو بھی چوس دیا. منجو کو نیچے پٹككر گیتا اوپر چڑھ گئی اور منجو نے اس کے چوتڑ پکڑ کر مجھے اشارہ کیا.

آج مكھكھن نہ ہونے سے گیتا کو زیادہ دکھا پر وہ ماں کی بر چوسنے میں اتنی مست تھی کہ بس ایک دو بار کراہ کر رہ گئی. میں نے منجو کا تھوک سوکھنے کے پہلے لںڈ مکمل گیتا کی گاںڈ میں اتار دیا اور پھر ان پر چڑھ کر گیتا کی گاںڈ مارنے لگا.

خشک گاںڈ مارنے میں بہت مزا آیا کیونکہ لںڈ کو اسکی گاںڈ کس کر پکڑی تھی. گیتا میرے ہر دھکے پر سی سی کر اٹھتی پر ماں کی بر چوسنا اس نے نہیں بند کیا. منجو بھی نیچے سے اپنی بیٹی کی چوت چوس رہی تھی اور میرے چوتڑوں کو ہاتھ سے دبا کر مجھے اکسا رہی تھی کہ اور زور سے مارو. گیتا کی خوشبودار وےي میں بندھی چوٹیوں میں منہ چھپا کر میں کس کے اس کی مار رہا تھا. نیچے ہی منجو کی بر دکھ رہی تھی جس میں گیتا منہ چلا رہی تھی. میں بھی مؤکا دیکھ کر بیچ بیچ میں ذائقہ لے لیتا.

جھڑنے کے بعد میں نے ان دونوں کی خوب چٹکی لی "ارے اماں، یہ تو غضب ہو گیا. ماں بیٹی کی آپس میں ایسی چدائی کس کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے؟ اب تو تم لوگوں کو میری ضرورت نہیں ہے، جب چاہو جٹ سکتی ہو"

دونوں تھوڑی شرماي پر منجو بولی "بیٹا، تمہارے لںڈ کے بغیر تو ہم جی نہیں سکتے. تم نے چود چود کر ہمیں ایسا گرم کر دیا ہے کہ اب تم نہ ہو تو ہم ماں بیٹی کو اپنی چوت کی کھجلی بجھانے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے . پر مجا بہت آتا ہے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کر کے "

میں نے اسے فرذ میں سے گیتا کا دودھ لانے کو کہا. وہ ایک بڑا برتن لے آئی. ایک لٹر سے زیادہ دودھ ہوگا. میں نے نصف پی لیا، فر پیٹ بھر گیا. میرے کہنے پر منجو بائی نے باقی کو پی ڈالا.

میں نے پوچھا کہ دو دن میں اتنا کیسے دودھ جمع ہو گیا تو بولی "بابوجی، تم سے چدوا چدوا کر گیتا ایسی کھل گئی ہے کہ اب ڈبل دودھ بنتا ہے اس کے سینے میں. فر آپ اور میں بار بار اس کی چونچیاں دباتے ہیں اس سے بھی دودھ اور زیادہ بنتا ہے. میں سوچ رہی تھی کہ اتنے دودھ کا کیا کریں؟ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں بھی پی لیا کروں گی. مجھے بہت میٹھا لگا اپنی بٹیا کا دودھ. اب یہ ددھار گائے اپن دونوں کے قابل دودھ دے گی، اور زیادہ ہوگا تو فروخت کر دیں گے، آپ جیسے چودو خریدار بہت مل جائیں گے "اور ہنسنے لگی.

اور اس کے بعد حقیقت میں ہمیں گھر کا دودھ ملنے لگا. اتنا دودھ گیتا دیتی ہے کہ میں اور منجو پیٹ بھر پینا اور چائے میں بھی ڈالتے ہیں. ہماری چدائی میں بھی ماں بیٹی کے باہمی پیار سے ایک مٹھاس آ گئی ہے. اب میں کتنا بھی تھکا هوو، میرا لںڈ کھڑا کرنے کو اتنا ہی کافی ہے کہ ماں بیٹی کی آپس کی چدائی دیکھ لوں. وہ اب میری فرمائش پر آپس میں طرح طرح کے كامكرم کرکے دکھاتی ہیں.




--- ختم ---

*

Post a Comment (0)