ads

Haweli - Last Episode

حویلی

قسط نمبر 12



فارغ ہونے کے بعد جب منی دماغ سے اتری تو سونی کی طرف نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ سونی کے ساتھ بہت زیادتی کردی ہے اپنے فارغ ہونے کی چکر میں اس کی بینڈ بجادی پھر فوراً فریج کی طرف بڑھا اور جو س کا گلاس بنایا پتہ نہیں کیوں فارغ ہونے کے بعد بھی مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی پیاسا ہوں شاہد نور اور عائشہ کی کس کا اثر تھا کہ کچھ بھی اور اچھا نہ لگ رہا تھا کل سے صرف نور ہی دماغ پر چھائی ہوئی تھی۔ اور کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا میں نے سونی کو اٹھایا اور اس کو جوس پلایا اور اس کو سور ی بولا کہ اور تھوڑا مسکا لگایا کہ سونی تم اتنی اچھی ہو تم نے اتنا مزادیا کہ میں مزے سے پاگل ہوگیا تھا مجھے معاف کردو جب یہ بولا تو سونی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی بولی کوئی بات نہیں آپ مجھ سے خوش ہوگئے یہی کافی ہے میں بولا تم نے بہت مزادیااب کیا بتاتا کہ میرے دماغ میں صرف منی چڑھی تھی وہی اتارنی تھی۔ایک بات تھی جتنی بے دردی سے میں نے سونی سے کیا تھا اس کی ہمت تھی کہ اتنی کمزور ہونے باوجود برداشت کرگئی بولی آپ نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا اتنی بار میں فارغ ہوئی کہ جسم میں جان ہی نہ بچی ہے۔ میں بولا مجھے بھی تم کی تنگ پھدی نے بہت مزا دیا تو شرما گئی بولی صاحب آپ کے لیے تو کوئی بھی پھدی تنگ ہی ہوگی جتنا آپکا موٹا اور لمباہے۔ پھر وہ کپڑے ٹھیک پہن کر جانے لگی تو میں نے والٹ سے 5ہزارروپے نکالے اور اس کو دیے کہ یہ جو تم نے مجھے خوش کیا ہے ا س کا انعام ہے ساتھ ہی بولا یہ مت سمجھنا کہ میں نے تم کی قیمت ادا کی ہے یہ میری طرف سے انعام ہے بس بولی صاحب شکریہ میں جاتے ہوئے بولا چھوٹی ماں کو بھی مت بتانا کہ میں نے پیسے دیے ہیں یہ تم کے انعام کے ہیں میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے بولا اگر تم کی ضرورت پڑی تو آؤگی اس کے چہرے پر سمائل آگئی بولی صاحب جب آپ چاہیے مجھے بلا لیجیے گا۔ اور چلی گئی وقت دیکھا تو 3بج رہے تھے میں دو گھنٹے سویا اور جم چلا گیا واپس آکر پھر سوگیا کیوں کہ کئی دن سے میری نیند پوری نہ ہو رہی تھی۔ پھر 11بجے تو مجھے چھوٹی ماں اٹھانے آئی تھی کہ آج تو تم نے آفس جانا تھا میں بولا کئی دن سے نیند پوری نہیں ہوسکی بولی ہاں یہ تو ہے تم رات کوکسی کی بینڈ بجاتے ہو دن میں گھر والوں کے ساتھ مصروف رہتے ہو میں بولا کیا کروں سب ہی مجھ سے ناراض تھیں کہ میں ان کو وقت نہیں دیتا پہلے میں ٹریننگ میں مصروف رہتا تھا تو وقت نہیں دے پاتا اب تو میں ہر روز وقت دیتا ہوں میری کونسا گرل فرینڈ ہے جس کے ساتھ میں نے گھومنا ہے یا وقت بیتانا ہے بولی ہاں گرل فرینڈ نہیں ہے تو کیا ہوا مزا توپو را لے رہے ہو میں بولا چھوٹی ماں یہ تو جسٹ آپ کے اور بابا جانی کے گفٹ تھے میر گرل فرینڈز تو نہیں تھیں بولی یہ تو مزے کرنے کے لیے تھے گرل فرینڈ چاہیے تو بولا میں بولا چھوٹی ماں گرل فرینڈ نہیں چاہیے ویسے بھی میری گرل فرینڈ کا ان چڑیلوں کو پتہ چل گیا تو میری جان کھا ماریں گی بولی یہ بات تو ہے تو چھوٹی ماں بولی شادی کروا دوں میں بولا شادی تو ابھی نہیں کرنی شادی 25سال کی عمر میں کروں گا۔ ابھی یہ تین سال تھوڑی آزادانہ زندگی گزاروں گا پچپن سے آج تک مجھ پر صرف پابندیاں لگائی گئیں ہیں حالانکہ لڑکیوں پر پابند ی لگائی جاتی ہے لیکن یہاں اس گھر میں الٹ ہوا پچپن میں میں تنہا تھا کوئی دوست نہ بنا سکا کیوں کہ وقت ہی نہ دیا گیا باہر نہ جاسکتا تھا کیونکہ ٹریننگ نہ چھوڑ سکتا تھا اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتا تھا میں نے کبھی کسی لڑکی سے دوستی نہیں کی کبھی کہیں گھومنے نا جاسکا لائف میری تھی لیکن اس پر میری مرضی نہ تھی اس بات پر تھوڑا اداس ہوگیا تو چھوٹی ماں بولی تو اب تم کی اپنی مرضی ہے تم پر کوئی بھی پابندی نہ لگا سکے گا جیسے مرضی جیو اور ان گزرے سالوں کا ازالہ کرومیں بولا بچپن سے اب تک ایک ہی طرح کی لائف گزاری ہے جس وجہ سے اب اس لائف کی عادت ہوگئی ہے آپ ہی بتاؤ دو ہفتہ ہوچکے ہیں مجھے سردار بنے ہوئے میں نے کیا کیا سوائے اسی لائف کے جیسے شروع سے چھوٹی ماں بولی اس لیے ہی تو تم کی دوست بنی ہوں تم نے بچپن سے ہی پابندیاں جھیلیں ہیں اب ان کا ازالہ ہوسکے اس لیے تو تم کوایسے گفٹ دیے کون ماں اور باپ اپنے بیٹے کو ایسے گفٹ دیتے ہیں میں بولا اب زمانہ بہت آگے جا چکا ہے پتہ نہیں کیاکیا ہوتا ہے یہ تو کچھ بھی نہیں بولی بس اب دل چھوٹا مت کرو اب اپنی مرضی کرو جو دل میں آئے کرو میں تم کے ساتھ ہوں کھل کر انجوائے کرو اب کون تم کو روک سکتا ہے۔ چھوٹی ماں بولی آج کل تم نمرہ کی بجائے نور اور عائشہ کے ساتھ زیادہ نظر آتے ہو میں بولا بس انہیں یہی تو گلہ ہے کہ نمرہ کو زیادہ ٹائم دیتا تھا حالانکہ اب تو اس کو بھی ٹائم کہاں دیتا ہوں بولی اچھا چھوڑو یہ بتاؤ سونی نے مزا دیا میں بولا ہاں اچھی تھی بولی لگتا ہے دل نہیں لگی میں بولا اایسی بات نہیں لیکن بس وہ ناز اور کومل کے معیار کی نہیں تھی وہ بولی جانتی تھی لیکن تم کو کل چاہیے تھی اس وقت ناز بھی نہیں تھی اور کومل بھی نہیں آسکتی اس لیے وہ ہی موجود تھی میں بولا وہ بھی اچھی تھی اس نے میری طلب پوری کردی بولی فکر نہ کرو تم کے لیے ایک سے ایک لڑکیوں کی لائن لگا دوں گی میں بولا نہیں ایسے کیا اچھا لگتا ہے کہ وقت کا سردار ان نوکرانیوں سے اپنی دل بہلاتا رہے بولی ہاں یہ تو ہے لیکن یہ تو تم کو وقتی تسکین دیتی ہیں باقی تم اب خود تیار ہو اور ہوشیا ر بھی ہو اور مقابلے میں تو کوئی تم کو ہرا نہیں سکتا ہے۔بس ایک بات یاد رکھنا کہ تم سردار ہو یہ بات یاد رکھنا سردار کے دوست بننے کے خواہاں تو ہر کوئی ہے لیکن اس کے دشمنوں میں بھی کمی نہیں ہے بس کوئی ایسا قدم نہ ہو کے لوگ تم پر انگلیاں اٹھائیں میں بولا مجھے پتہ ہے میں خیال رکھوں گا۔ بولی چلو فریش ہو جاؤ اور ناشتہ کرلو پھر آفس کا چکر لگا آؤ پھر آج تم کی دعوت بھی ہے تم کے سب سے بڑے مخالف شیر خان کی طرف سے۔ اکیلے جاؤ گے میں بولا ہاں شیر اکیلا ہی جاتا ہے بولی یہ ہوئی نا بات۔وہ واپس جانے لگی تو میری نظر ان کی گانڈپر پڑی جو کہ نائٹی میں مٹک رہی تھی دروازے کے پاس پہنچی مڑی تو میری نظر کو اپنی گانڈ پر پا کر بولی منع کیا تھا نہ یہ مال خان جی کا ہے میں بولا آپ دوست ہو تو بس نظر چلی جاتی ہے ورنہ آپ جانتی تو ہو مجھے بولی ہاں جانتی ہوں لیکن اب تم آزاد ہو پہلے تم پر پابندیاں تھیں۔ پھر باہر چلی گئی ان کو کیا بتا تا کہ اب میری دونوں بڑی بہنیں میرے پیچھے پڑ چکی ہیں۔ خیر ناشتہ کیا اور تیار ہو کر آفس چلاگیا۔ وہاں سب مجھے جانتے تھے تو جو ہیڈ آفس کا منیجر تھا اس نے دیکھتے ہی میر ا کمرہ کھلوا دیا جو کہ ابو نے میرے لیے تیار کروایا تھا لیکن میں وہاں گھومتا رہا اور ان کی کار گردگی چیک کرتا رہا پھر کمرے میں گیا تو کمرہ کو اچھے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ایک طرف صوفے اور میز رکھا گیا تھا جہاں گیسٹ کی سٹنگ کا ارینج کیا گیا تھا سا تھ اٹیچ باتھ تھا پیچھے کی طرف ایک کمرہ ریسٹ کے لیے بنا ہوا تھا وہاں بیڈ تھا بڑی سے سکرین ledلگی ہوئی تھی ایک فریج تھا جس میں کھانے پینے کا سامان رکھا تھا جس میں فاسٹ فوڈ اور کولڈ ڈرنگ جوس وغیرہ تھے میں ابھی اپنے آفس کا معائنہ کر کے بیٹھا ہی تھا کہ ایک لڑکی تقریبا24/25سال کی اندر داخل ہوئی اس نے ہلکا براؤن ڈریس پہن رکھا تھا ج کہ اس کی بادی سے چپکا ہوا تھا نیچے اس نے لمبی ہیل والی جوتی پہنی بولی مے آئی کم ان میں بولا یس بولی میرا نام طاہرہ میں سرکی پرسنل سیکرٹری ہوں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ آفس آئیں گے میں آ پ کو گائڈ کردو میں بولا شور بیٹھے ممے اس کے بڑے تھے وہاں سے قمیض بہت ہی تنگ تھی جس سے اس کے ممے ابل کے باہر آنے کو تیا رتھے لیکن آفس کا پہلا دن تھا تو کام پر دھیان دینے لگا وہ میرے پاس ہی بیٹھ گئی اس کے جسم کی بھینی بھینی خوشبو مجھے ہوش سے بے گانا کررہی تھی لیکن اب میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ مجھے خود پر کنٹرول رکھنا چاہیے۔ ہر لڑکی کو دیکھ کر لار نہیں ٹپکانی چاہیے۔ خیر اس نے کام سمجھانا شروع کردیا میں نے پورا دھیان کام پر رکھا تو اتنے میں ایک لڑکی نے ناک کیا میں نے یس بولا تو وہ اند رآگئی بولی سوری سر مجھے دیر ہوگئی میں فیکٹری گئی ہوئی تھیں میں بولا تم ہو کون بولی سر میرا نام مریم ہے میں آپ کی پرسنل سیکرٹری ہوں میں بولا میں نے کب آپ کو کام پر رکھا تو بولی سر مجھے بڑے سر نے ہائیر کیا تھا میں بولا ٹھیک ہے بیٹھ جائیں۔ پھر میں نے کام میں دھیان لگا دیا ایک گھنٹہ تک میں کسی حد تک کافی کام سمجھ گیا تھا۔ میں طاہرہ کو ٹھیک ہے آج کے لیے اتنا کافی ہے بولی شور سر پھر بولی سوری سر آج آپ کا پہلا دن ہے آفس میں آتے ہی کام میں لگ گئے کوئی چائے کافی نہیں پی میں بولا کوئی بات نہیں میں ابھی ناشتہ کرکے چلا تھا۔ بولی شور لیکن آپ کا فرسٹ ڈے ہے بس آتے ہی کام کی طرف لگ پڑے ہیں دھیان ہی نہ رہا میں بولا کوئی بات نہیں ۔ میں کام کی نیت سے ہی آفس آیا ہوں نہ کے کھانے پینے۔اب آپ جاسکتی ہیں تو مریم بولی میں نے کافی اور سنیک کا بول دیا ہے آتا ہی ہوگا پھر طاہرہ باہر چلی گئی تو میں نے نظر اٹھا کر مریم کی طرف دیکھا اس عمر 23/24سال لگ رہی تھی رنگ اس کا کھلتا گلاب سا تھا اس نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور ڈوپٹہ لیا ہوا تھا جبکہ طاہرہ نے بھی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی لیکن ڈوپٹہ گلے میں تھا اور اس کا ڈریس بھی بہت فٹنگ والا تھا۔ ایک بات جو تھی اس کے چہرے پر مصومیت تھی جیسے ابھی باہر نکلی ہو پہلے کبھی باہر نہ نکلی ہو۔ میں نے بولا تو مس مریم آپ نے کیا کیا ہوا ہے اور کام کے بارے میں آپ کا کیا نالج ہے تو بولی سر میں نے میتھ اور اکنامکس میں ماسٹر کیا ہوا ہے اور میں ایک ویک سے کام کررہی ہوں اور کام پوری طرح سے سمجھ لیا ہے میں بولی اچھی بات ہے اتنے میں ناک ہی میں بولا یس تو ایک آدمی اند ر آیا جس کے ہاتھ میں چائے اور سنیک تھے۔اس نے سائیڈ پر رکھے میز پر رکھ دیے میں نے مریم کو بھی وہیں بلا لیا اور کافی پینے کے دوران اس کے بارے میں معلومات لیتا رہا کہ کام کہ سلسلے میں اس کی کیا معلومات ہیں خیر میں نکلنے ہی والا تھا کہ دروازہ ناک ہوا کومل اند ر داخل ہوگئی وہ بھی اسی آفس میں منیجر کوارڈینٹر کی پوسٹ پر کام کرتی تھی بولی ویلکم ٹوآٖفس سر۔ میں بولا کومل کیسی ہو مجھے تو علم ہوا تھا کہ آپ سٹی سے باہر ہیں بولی رات کو ہی واپس آگئی تھی بولا بیٹھو میں مریم کو بولاآپ جاؤ میں کچھ دیر مس کومل کے ساتھ بیٹھوں گا۔ اس نے برا سا منہ بنایا حالانکہ جاتے ہوئے بنایا لیکن سامنے مرر میں میں نے دیکھ لیا تھا۔ کو مل کے ساتھ اس رات کے بعد یہ میری پہلی ملاقات ہوئی تھی اس وقت اس نے ٹائٹ جینز اور لانگ شرٹ پہن رکھی تھی اور اس کے لانگ ہیر کھلے ہی تھے بولی کیسا لگا آپ کو آفس یہ میں نے ہی تیار کروایا ہے اپنی ڈائریکشن میں سرنے یہ کام میرے ذمہ لگایا تھا میں بولا بہت اچھا لگا مجھے بولی میری محنت وصول ہوگئی۔ میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں بولا یا ر کیا کررہی ہو یہ آفس ہے کوئی آجائے گا بولی یہ یہاں کے نیو ڈائریکٹر ہو بنا اجازت کے کون آسکتا ہے اور میں نے ساتھ والا کمرہ آپ کے آرام کے لیے ہی بنوایا ہے۔ آج آپ پہلی بارآفس آئے ہو آپ کو منہ تو میٹھا ہونا چاہیے نا میں بولا ابھی نہیں ابھی مجھے جانا ہے کل میں جلدی آؤں گا تو کوئی پروگرام بنائیں گے بولی رات تو آپ کو میرضی ضرورت تھی میں بولا وہ رات کی بات تھی لیکن ابھی مجھے کہیں جانا ہے۔ بولی ٹھیک ہے پھر اس کو پکڑا اور منہ اپنے منہ سے لگا لیا اور کسنگ شروع کردی تھوڑی دیر کسنگ کرنے کے بعد میں بولا منہ تو میٹھا ہو گیا اب باقی کا لنچ کل کریں گے۔ میں پھر وہاں سے نکل آیا کیونکہ ناشتہ کرکے نکلا تھا تو اس وقت 12بج رہے تھے اب شام کے 5بج رہے تھے تو بھوک لگ رہی تھی بس کافی ہی پی تھی سوچا کچھ ہلکا پھلکا کھا لو کیونکہ رات کی دعوت تو شیر خان کی طرف تھی پھر ایک ریسٹورینٹ پہنچا اور ایک برگر کھایا ابھی میں دروازے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ ایک آدمی مجھ سے پر چھپٹ پڑا لیکن میں نے اس کو گھما کر دیوار پر دے مارا اتنے میں پسٹل سے گولی چلی جو کہ مجھے چھوتی ہوئی گزر گئی میں نے فورا چھلانگ لگائی ساتھ بنے پلر کے پیچھے جو کہ دیوار کے ساتھ تھا میں نے فوراً پسٹل نکال جو کہ میری پنڈلی کے ساتھ لگی بیلٹ میں بندھی تھی سامنے ایک آدمی تھا جومجھ پر چھپٹا تھااس نے کولی چلائی جو کہ پلر پر لگی میں نے فوراً ہی واپس گولی چلائی جو کہ اس کے ماتھے کے بیچو ں بیچ لگی اب صرف ایک آدمی تھا جس کے پاس ایم ایم کلاشنکوف تھی اس نے بریسٹ مارا جو کہ پورا پلر پر خالی کیا جسیے ہی اسنے سائیڈ والے پلر کی آڑ لے کر میگزین بدلا تو میں نے ڈائی مار کر فائر کیا جو کہ سیدھا اس کے دل پر لگا۔ میں باہر آگیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ یہ کون تھے جو مجھے مارنے آئے تھے لیکن وہ دونوں تو ختم ہوچکے تھے اتنے میں پولیس آگئی شاہد منیجر نے پولیس کا کال کردی تھی پولیس آگئی انہوں نے دونوں لاشیں اپنے قبضے میں لیں میرا بیان لیا میں نے پہلے ہی ایس پی صاحب کو کال کرکے بتا دیا تھا کہ مجھ پر حملہ ہوا اس لیے ایس پی صاحب خود آگئے تھے انہوں نے مجھے پوچھا کہ آپ بغیرپروٹوکول کے کیوں ہیں میں بولا میں آفس آیا تھا اور سوچھا کہ ابھی مجھے اتنا کون جانتا ہے یا کوئی میرا دشمن نہیں ہے ہنس پڑے اور بولے کہ آپ جس دن سردار بنے اس دن سے آپ کے دشمن پیدا ہوگئے ہیں خیر اس کی جان بین کر کے میں آپ کو اطلاع دے دوں گا۔ میں وہاں سے نکلا اور گھر آیاسب حال میں بیٹھے تھے میں نے سب کو سلام کیا نور اور عائشہ بھی بیٹھیں تھیں مجھے دیکھتے ان کی آنکھوں میں چمک آگئی میرے چہرے پر بھی سمائل تھی۔ میں نے واقع کے بارے میں نہ بتایا کہ پریشان نہ ہوں سب نے آفس کے پہلے دن کے بارے میں پوچھا میں نے سب اچھا بتایا۔ پھر اپنے روم میں آگیا اور تیار ہونے لگ پڑا میں ریڈی ہو کر نکلے لگا تھا کہ دروازے پر ناک ہوئی میں نے بولا آجاؤ تو نور اور عائشہ دروازے پرکھڑی تھیں مجھے دیکھتے ہی بولی آج تو تم کئی یوں پر بجلی گراؤ گے بہت پیارے لگ رہے ہو میں نے تھینکس بولا تو بولی ایسے کام نہیں چلے گا اب ہم آپ کی گرل فرینڈ ز ہیں میں بولا میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا بولی بٹ ہم تو مانتی ہیں نہ میں بولا ٹھیک ہے جناب بولی جناب کون جان بولو نہ میں بولا لگتا ہے تم لوگ خود بھی مرو گی اور مجھے بھی مرواؤ گی بولی نہیں مرنے دیتی میں بولا اچھا جانے د و کافی لیٹ ہوگیا تو نور بولی چلے جاؤ لیکن قیمت لگے گی میں بولا کیابولی وہی جو رات کو دی تھی صرف ایک کس میں بولا مجھے دعوت میں جانا ہے یار تو بولی جاؤ لیکن بنا کس تو نہیں جانے دیا جائے گا مرتا کیا نہ کرتا لیکن جب کس کا انہوں نے بولا تو دل تو میرا بھی تھا کیونکہ اس کسنگ میں جو مزا آیا تھا وہ پھدی مارنے پر بھی نہیں آیا میں نے نور کو پکڑا اور کسنگ شروع کی نور نے شروع سے ہی میرا ریسپانس دینا شروع کردیا آج اس کی کسنگ میں زیادہ جنون تھا وہ کبھی میرے اوپر کے ہونٹ چوستی کبھی نیچے میں بھی اس کا بھرپور ساتھ دے رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ہواؤں میں ہوں پھر وہ مجھ سے الگ ہوئی۔ پھر عائشہ آگے آئی اسکو بھی پکڑا اور سیدھا اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے نور سے زیادہ عائشہ جنونی کس کرتی تھی اس نے تو میرے ہونٹ کو کباڑا کردینا تھا بڑی مشکل سے روکا دونوں ایسے دیکھ رہی تھیں مجھے جیسے قربانی سے پہلے بکر ا قصائی کو دیکھتا ہے میں وہاں سے بھا گا کیونکہ کچھ دیر اور رہتا تو مجھ سے کنٹرول ختم ہوجاتا اور کچھ اور ہی ہوجانا تھا۔ خیر نمو سے بات بھی نہ ہوئی جب سے اس سے گرل فرینڈ والی بات ہوئی تب سے وہ مجھ سے دور دور رہتی تھی۔ آج واپسی پر اس کی کلاس لوں گا۔ خیر نکلا اب گارڈز کی تین گاڑیاں بھی تھیں کیونکہ میں ایک سردار کے طور پر دعوت میں جارہا تھا تو پورا پروٹوکول ساتھ تھا ڈرائیور گاڑی چلارہا تھا۔ ان کا گاؤں ہمارے گاؤں سے 60کلو میٹر دور تھا لیکن پراڈو کو کیا دیر تھی ہم 30منٹ میں وہاں پہنچ گئے ان کی حویلی بھی ہماری حویلی کی طرح بڑی تھی لیکن ہماری حویلی زرا پرانی طرز تعمیر تھی لیکن ان کی حویلی جدید طرز پر تیارکی ہوئی تھی جو کہ بعد میں پتہ چلا یچھلے سال ہی تعمیر کی گئی ہے۔گارڈز کی گاڑیاں باہر ہی ایک طرف رک گئیں میر ی گاڑی حویلی کے اندر جا کر رکی۔ میں اترا تو ہوائی فائرنگ ہونے لگ پڑی یہ بھی استقبال کا ایک طریقہ تھا۔ کہ مہمان کو گولیوں کی چھاؤں میں اندر لے جایا جاتا۔ اندر سامنے ایک ہال بنا ہوا تھا جہا ں مہمان خانہ تھا تو کئی لوگ تھے جن میں شیر خان بھی تھا جو سب سے آگے کھڑا تھا اس نے مجھے گلے لگایا میں بھی اس سے بھرپور گلے ملا مقابلے کے بعد آج ملاقات ہورہی تھی۔ سب نے مجھے مبارک باد دی۔ پھر ایک طرف بیٹھایا گیا۔ پھرمجھے شیر خان اندر لے گیا جہاں اس کے گھر والے کھڑے تھے اس کے گھروالوں میں اس کا ماں باپ اور ایک بہن تھی جس کا نام فیضا تھا اور وہ ڈاکٹر تھی اس نے اپنا ہسپتال بنایا ہوا تھا۔میں نے پہلے شیر خان کے باپ کو سلام کیا پھر جھک کر اس کی ماں سے ملا پھر فیضا کو سلام کیا۔ فیضا کا قد 5فٹ 5انچ تھا کھلتا گلابی رنگ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح ہونٹ تھے اس کے جسم کا تناسب کیا بتاؤں اس کے ممے 36کے ہونگے اور پیٹ بالکل ساتھ چپکا ہوا تھا باہر کو نکلی ہو گانڈ اس پر اس نے جینز اور لانگ شرٹ پہنی تھی پہلی بار کسی کو دیکھ کر دل ڈھڑک اٹھا تھا۔ فیضا بولی تو و ہ آپ ہیں جو کہ میرے شیر بھائی کو ہرا کر سردار بنے میں بولا کہ آپ کا بھائی واقع ہی شیر ہے بس اس دن مقدر تھا کہ میں جیت گیا ورنہ آپ کے بھائی نے مجھے ہرادیا تھا۔ فیضا بولی جو بھی ہے ہرا تودیا نہ میں کچھ نہ بولا پھر سب کھانے کی میز پر بیٹھے فیضا ہر چیز اٹھا اٹھا کر مجھے پاس کر رہی تھی انٹی بولی یہ ایسی ہی ہے جب تک آپ کو ہرچیز چکھا نہیں دے گی اس کو سکون نہیں آئے گا۔ میں بھی ہر چیز جو فیضا مجھے پاس کرتی تھوڑی سی چکھ لیتا میری نظر بار بار فیضا کے معصوم چہرے پر بھٹک رہی تھی۔دل تھا کہ کھنچا جارہا تھا تب ہی شیر خان بولا سنا ہے آپ پر آج حملہ ہوا ہے میں بولا تھے کوئی کم ظرف دشمن جو پیٹھ پیچھے وار کرنا چاہتے تھے لیکن میرا نام بھی آفتا ب خان ہے آئے تھے پاؤں پر گئے ہیں کندھوں پر تو فیضا بولی بھائی کیسے ہوا آپ نے بتایا نہیں میں بولا ہاں میں نے بھی کسی سے ذکر نہیں کیا تو بولا کہ ہمارے بھی لوگ ہیں ہمیں بھی خبر مل جاتی ہے جس نے بھی کیا ہے جلد ہی سامنے آجائے گا۔ میں شیر خان سے بولا کیا تم مجھ سے دوستی کرنا پسند کرو گے شیر خان بولا میں بھی تم سے یہی چاہتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے مخالف نہ بنے بلکہ دوست بنے میں نے کھانہ چھوڑ دیا ور اٹھ کھڑا ہو امیں بولا میں تم سے دوستی کا ہاتھ بڑہاتا ہوں جب تک جسم میں ایک بھی سانس ہے میں تم کا دوست رہوں گا۔اس نے بھی کہا میں بھی پھر دونوں گلے ملے۔ کیونکہ شیر خان اگر دوست بن جاتا تو ایسا دوست قسمت سے ہی ملتا ہے۔ اسی طرح باتوں باتوں میں خانہ کھایا اور دوستی کی ایک نئی شروعات کرکے واپس جانے لگا تو فیضا بولی اب تو شیر خان سے دوستی ہوگئی ہم سے بھی کرلو میں بول جی میں خوش قسمت سمجھوں کا آپ کا دوست بن کر اس نے ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا تو اس کا ہاتھ اتنا نرم تھا کہ کیابتاؤں وہ بولی آج سے ہم دوست ہیں میں بولا شکریہ بولی لگتا ہے دوستی کے اداب نہیں پتہ دوستی میں نہ شکریہ ہوتا ہے نہ معافی مانگی جاتی ہے دوست سے۔ میں بولا یاد رہے گا۔ پھر سب سے رخصت لے کر باہر نکلا گاڑی میں بیٹھا واپس چل پڑے ابھی گھر سے تقریبابیس میل دور تھے کے اچانک دھماکا ہوا۔



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments