ads

Haweli - Episode 11

حویلی

قسط نمبر 11



اتنے میں کسی نے میرے کاندے پر ہاتھ رکھا میں نے مڑ کر دیکھا تو چونک گیاپیچھے ثمرہ کھڑی تھی بولی آپ یہاں آئے ہیں میں نے بولا تم لوگ میرا پیچھا کررہے تھے بولی نہیں ہم نے اتنی محنت کی تو بھوک لگ رہی تھی پارک کے قریب یہی بیسٹ ریسٹورینٹ ہے تو یہاں کھانے کو آگئے میں نے ایک بار پھر پوچھا کیا وہ سچ میں تم کے بھائی تھے بولی ہاں کتنی بار بتاؤں میں بولا مجھے یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ وہ بولی کہ کوئی بہن اپنے بھائیوں سے چدوائے اس نے جملہ مکمل کیا میں بولاہاں یہی بات ہے بولی کس دنیا میں رہتے ہو اس ماڈرن ازم کے زمانے میں اب پتہ نہیں کیا کچھ ہوتا ہے یہ تو کچھ بھی نہیں اب توباقاعدہ ایسی پارٹیز ہوتی ہیں جہاں پر صرف لوگ اپنی ماؤں بہنوں کو لاتے ہیں اور خود بھی چدائی کرتے ہیں اور اورماؤں بہنوں کو چدواتے ہیں میں بولا تم بھی ایسی پارٹی میں جاتی ہو بولی ہاں ہم تینو ں بہن بھائی ممبر ز ہیں جب بھی ایسی پارٹیز ہوتیں ہیں ہم کو انوئیٹ کیا جاتا ہے اب ایسی پارٹیز میں ہر کوئی تو نہیں جاسکتا کچھ رولز ہوتے ہیں اگر تم چاہوں تو تم کو ممبر کارڈ لے دوں تم تو وہاں سب سے زیادہ پاپولر ہوجاؤ گے میں بولا میرے پاس پارٹنر نہیں ہے بولی کہ میں اپنی مرضی سے ایک پارٹنر لا سکتی ہوں لیکن میں بولا تم کا بھائی تو نہیں ہوں نہ وہ بولی وہ تم مجھے پر چھوڑ دو میں بولا پھر اس بارے میں بتاؤں گا بولی ٹھیک ہے میں بولا تم کے پاس میرا نمبر ہے نا وہ بولی ہاں ہے۔ میں بولا ٹھیک ہے رابطہ کرنا بولی ٹھیک ہے جانے لگی تو بولی آج بہت مزا دیا ہے یا ر تم نے میرا دل کررہا ہے کہ تم کو ابھی ساتھ لے جاؤں اور جی بھر کے دن رات چدواؤں میں بولا ٹائم نکال کوئی پروگرام بنائیں گے بولی ٹھیک ہے وہ جانے لگی اور جاتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا جیسے ہی وہ مڑی نور اور عائشہ سامنے کھڑی تھیں اور مجھے ہی دیکھ رہی تھیں مجھے یاد آیا میں یہاں کیسے بیٹھا تھا اور لیڈیز شاپ میں کیا ہوا تھا۔ وہ دونوں خون خوار نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں نور آگے آئی بولی میں تم کے لیے ناکافی ہوں جو اس کو پھر بلالیا تھا کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ میری نظریں زمین میں گڑی ہوئی تھیں میں بولا ایسی بات نہیں ہے وہ بس یہاں کھانا کھانے آئی تھی تو میں ادھر بیٹھا تھا خود ہی میرے پاس آگئی بولی ہاں آنا ہی تھا ابھی شاہد اس کی کوئی کثر باقی رہ گئی تھی نور تو مجھ سے ایسے بات کر رہی تھی کہ جیسے یہ سب نارمل ہو میری تو ہوا ٹائیٹ ہوئے جارہی تھی میں بولا بس کرو پلیز بولی اب کیوں شر م آرہی ہے وہاں تو بڑے مزے سے لگے ہوئے تھے اور وہ کمینی پکڑی گئی دونوں بھائیوں سے چدوا کر بھی سکون نہیں آیا اور پھر تم سے بھی مزے لے لیے۔ اتنا ہونے کے بعد شاہد اس کو سکون نہیں آیا اور تم کے پیچھے پیچھے آگئی میری تو بولتی بند ہوگئی پھر بولی تم سردار ہو تو ہمارے چھوٹے بھائی ہو ہم تم کے بھی کان بھی پکڑ سکتی ہیں۔ میں نے وہیں ہاتھ جوڑ دیے بس کردو ورنہ میں یہیں اپنی جان دے دوں گا تو نور فوراً آگے بڑھی میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا بولی جان بھی تم کی اپنی نہیں ہے آج گھر چلو وہ میں خود لے لوں گی۔ اتنے میں انوشے اور نمو بھی آگئی تھیں تو نور خاموش ہوئی مجھے حیرانگی ہورہی تھی کہ نورتو خاموش طبیعت ہے بس ذرا غ

[/size]4613”ہ کرتی ہے لیکن وہ اتنی بے باک کیسے ہو سکتی ہے۔غلطی تو مجھ سے بھی ہوئی تھی اس کی گانڈ میں دھکے لگاتا رہا لیکن اس وقت خود مجھے ہوش کہا ں تھا۔ خیر اس کے بعد باری تھی گول گپوں کی وہاں سے سب نکلے اس بار نور میرے ساتھ بیٹھی تھی آگے فرنٹ سیٹ پر۔ مجھے ہر بات پر نور جھٹکے پر جھٹکا دیے جارہی تھی میں نے سارا دھیان ڈرائیونگ پر رکھا میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح جلد از جلد ان سب کو گھر پہنچا کر کہیں بھاگ جاؤں لیکن کہا جاسکتا تھا ابھی تو سردار بنا تھا کل دعوت تھی میرے سب سے بڑے مخالف شیر خان کی طرف۔ ایک جگہ ان کو گول گپے کھلائے میں تو گاڑی میں ہی بیٹھا رہا سب نے اتنا اسرار کیا لیکن میری تو پھٹ رہی تھی نور اور عائشہ کے سامنے خاص کر نور کے سامنے اس نے تو مجھے گھما کر رکھ دیا تھا وہ سب باہر گول گپے کھارہے تھے کہ میرے نمبر پر بیل بجی میں نے دیکھا تو نورین کا مسیج تھا لکھا تھا اب نے انتظار کا بولا تھا سب خیر ہے آپ نے مسیج نہیں کیا دوستی کر کے بھول گئے ہو میں بولا بس ٹائم ہی نہیں ملا واپسی پر پھر ایک کام سے ارجنٹ جانا پڑ ا تو مسیج نہ کرسکا ابھی بزی ہوں فری کر میسج کروں گا۔ بولی ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی۔ اتنے میں چاروں واپس آرہی تھیں۔ ان کے بیٹھتے ہی گاڑی آگے بڑھا دی۔ پھر سیدھا حویلی جا کر ہی بریک ماری۔ میری حالت تو ایسی ہوئی پڑی تھی کہ بس پھونک مارو میں اڑ جاؤ زندگی میں کبھی اتنا نہیں ڈرا تھا جتنا نور نے ڈرا دیا تھا۔ شام ہوچکی کھانہ تو سب کھا آئے تھے اور گول گپے بھی کھائے تھے۔ اس لیے سب اپنے اپنے بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور چھوٹی ماں اور امی کے لیے جو بھی لیا تھا وہ نور اور عائشہ نے لیاتھا تو ان کے بیگ بھی ان کو دے دیے گئے جیسے جیسے رات ہورہی تھی ویسے ویسے میرے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی تھی پتہ نہیں نور کیا کرنے والی تھی اس نے کہا تھا آج رات تم کی جان اپنے ہاتھوں سے نکالوں گی۔ مجھے جان جانے کا کوئی ڈر نہیں تھا مجھے پچپن سے اتنا بے خوف بنا دیا گیا تھا کہ اب کوئی بھی ڈر کم سے کم میرے نزدیک نہیں آسکتا تھا لیکن یہاں بات اور تھی اور وہ تھی بدنامی کی اگر کوئی ایسی بات باہر نکل جاتی تو مجھے اسی میدان میں سنسار کردیا جاتا جہا ں مجھے دستار دی گئی تھی۔ میں رات کا کھانا بھی نہ کھایا کیوں کہ میری بھوک اڑچکی تھی۔ خیر ناز میرے کمرے میں آئی اور بولی کہ نور صاحبہ بلارہی ہیں۔ اس کے یہ الفاظ مجھے ایسے لگ رہے تھے کہ ابھی مجھے سنسار کیے جانے کے لیے بلایاجارہا ہے۔ خیر جانا تو تھا ہی میں نے ناز کو بولا ٹھیک ہے فریش ہو کر آتا ہوں۔ میں ڈرتے ڈرتے انکے کمرے کے باہر پہنچا اور آہستہ سے دروازہ ناک کیا تو اندر سے آواز آئی آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ میں بھاری قدموں سے چلتے ہوئے اندر داخل ہوا۔اور جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنی سزا کا انتظار کرنے لگا۔ ایک نظر اٹھا کر دیکھا تو نور اور عائشہ دونو ں ہی بیڈ پرنائٹ ڈریس پہن کر بیٹھی تھی۔میں نے بات شروع کرنے ک لیے بولا کہ مجرم حاضر ہے سزا پانے کو اور سر جھکا لیا۔ نور بولی سزا تو تم کی یہ ہے کہ تم کو جان سے مار دیا جائے لیکن کیا کریں تم کو ماردیا تو ہمارا کیا ہوگا میں بولا میں تو مجرم ہوسزا کے لیے تیار ہوں میرا دل بہت ڈھڑک رہا تھا کہ ابھی باہر آجائے تو وہ دونوں بولی ہم ایک شرط پر معاف کرسکتیں ہیں ہماری ہر بات تم کو ماننا پڑے گی جو ہم بولیں گیں تم کو کرنا پڑا گا میں بولا ٹھیک ہے میں وہ ہی کروں گا جو تم بولو گی وہ چلو ہمیں کس کرو میں بولا اچھا ٹھیک ہے کرتا ہے میں چونکہ غائب دماغی سے بیٹھا ہوا تھا جب کس کے لفظ پر غور کیا تو اچھل پڑا میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نور اور عائشہ کو دیکھنے لگ پڑا بار بار میرے دماغ میں کس کس چل رہا تھا۔میں بولا میں کیسے کس کرسکتا ہوں تم کو یہ بات کرتے ہوئے شرم نہیں آئی تھی تو بولی جب میرے پیچھے گھسے لگا رہے تھے تب تم کو شرم نہیں آئی تھی میں یہ بات سن کر ایسا ہوگیا کہ کاٹو تو خون نہ نکلے عائشہ بولی کب اس نے گھسے مارے تم کو بولی جب ہم وہ بہن بھائیوں کو لائیو شو دیکھ رہے تھے اس وقت کی بات ہے یہ جناب اپناوہ میرے پیچھے لگا کر لگے پڑے تھے میرے منہ سے اچانک نکلا تم بھی تو وہی کھڑی رہی تھی مجھے روکا کیوں نہیں ایک بات تو ڈر گی پھر بولی کہ میں کیا بولی کہ وہ پچھے سے نکال لو تم کوخود شرم آنی چاہیے تھی۔ میں بولا تم کیوں نہیں سمجھ رہی ہم بھائی بہن ہیں بولی وہ بھی تو بھائی بہن تھے میں بولاہوگے کیا ہربھائی بہن ایسا ہوتا ہے۔ بولی بھائی ہم نے بہت سوچا ہے ہم نے آج تک کسی لڑکے کو قریب بھی نہیں آنے دیا صرف اس بات سے کہ کہیں ہماری بدنامی نہ ہوجائے ہماری کئی دوستیں ہیں جو کہ گھومتی ہیں لائف انجوائے کرتی ہیں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتی میں بولا اگر تم کو یہ سب چاہیے تو میں تم لوگوں کی شادی کروا دیتا ہوں وہ بولی بھائی شادی کے بعد کیا ہوتا ہے آپ کو بھی پتہ ہے لڑکی صرف اپنے شوہر کی غلام بن کے رہ جاتی ہے اور اس کی خود کی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بہن بھائی کتنے خوش تھے نہ ان کو کوئی ڈر نہ خوف کتنے آزادانہ طریقے سے اپنی لائف کی خوشیاں حاصل کررہے تھے۔ بولی کیا ہم کچھ عرصہ اپنی لائف کی خوشیاں نہیں دیکھ سکتے یا ہم گائے بھینس ہیں کہ ہماری شادی کر کے ہمیں دوسروں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اور جس کو ہم نے کبھی دیکھا بھی نہیں ہوتا وہ پہلی ہی رات ہمارے کپڑے اتار دیتا ہے۔ پلیز بھائی ہمیں ہمارے حصے کی خوشیاں دے دو بھلے ہماری جان لے لو کچھ عرصہ جب تک ہماری شادی نہیں ہوجاتی تب تک ہمارے بوائے فرینڈ بن جاؤ بس۔ میں بولا کیا تم دونوں یہ کرنا چاہتی ہو تو عائشہ بولی تم کو پتہ ہے ہمارا ہر کام ساتھ ہوتا ہے ہم نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے میں بولا اتنا بڑا فیصلہ میں ابھی نہیں کرسکتا مجھے کچھ وقت چاہیے وہ بولیں ٹھیک ہے ایک ہفتہ دیا آپ کو۔ بولی لیکن ابھی ایک کس تو کرو میں بولا ٹھیک ہے صرف کس ہو سکتا ہے۔ تو پہلے کون کرے گا۔ نور بولی میں بڑی ہوں پہلے میں کروں گی تو میں بولا ٹھیک ہے نور آگے آئی میں نے بائیں پھیلا دیں وہ میرے گلے لگ گئی اس کا سینہ زور سے ڈھڑک رہا تھا اور جیسے ہی وہ میرے سینے سے لگی میرا سینہ بھی زورسے ڈھڑکنا شروع ہوگیا۔نو ر سلم سمارٹ تھی لیکن اس کے ممے بڑے تھے اور گانڈ تھوڑی سے باہر کو نکلی ہوئی تھی اس وقت نائٹ ڈریس میں بھی قیامت لگ رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے ہونٹ آگے بڑھائے اور میں نے اس کو ہونٹو کو اپنے ہونٹوں پر کس لیا اور کسنگ شروع کردی پہلے تو اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی پھر اس نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کردیا کیا بتاؤں اایسا لگ رہا تھا کہ جنت میں آگیا ہوں نور کے ہونٹ اتنے میٹھے اور شہد جیسے لگ رہے تھے پھر نور کی کسنگ میں شدت آگئی اس نے پورے زور مجھے جکڑا ہوا تھا اور میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی نیچے میرا لن تھا کہ سلامی دے رہا تھا اور نور کے پیٹ پر لگ رہا تھا جو اس کو بھی محسوس ہورہا تھا۔ جب اس کی سانس پھول گئی تو اس نے ہونٹ الگ کیے اور سانس لینے لگ گئی اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیرے رہے تھے۔ میں نے بولا کیسا رہا پہلا کس بولی مت پوچھو دل کررہا تھا وقت یہیں رک جائے اور کس چلتا رہے تو عائشہ بولی واہ تم لگی رہو کدھر جاتی اب میری باری تھی تو ہم سب کی ہنسی چھوٹ گئی پھر عائشہ آگئے آئی میں نے اس کو گلے لگایا عائشہ فربہ تھی لیکن موٹی نہیں تھی پھر اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیے اور کس کرنا شروع کردی نور کی طرح پہلے پہل ا س کو سمجھ نہ آیا لیکن پھر اس نے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کردیاپھر اس کے جنون میں شدت آگئی میرالن تھا کہ پھٹنے والا ہو اپڑا تھا عائشہ نے میرے ہونٹوں پر کاٹنا شرو ع کردیا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ میرے ہونٹوں کو کھا جائے۔ میں نے اس کو روکا تو اس کی آنکھوں میں عجیب سا نشاء تھا اور خماری تھی ان دونوں کی نظریں میرے تمبو بنے لن پر تھیں میں بولا میں نے تم کی خواہش پوری کردی ہے اب تو مجھے معافی مل سکتی ہے بولی اب تو تم کی سزا شروع ہوئی ہے بس ایک بار تم فیصلہ کر لو پھر دیکھو کیا ہوتا۔ میں بولا زیادہ من اڑو بولی اُڑیں گی کیوں ہم تو تمہیں تل کے کھا جائیں گی میں بولا عائشہ تو آج ہی کھانے لگی تھی میں ہنس دیا پھر میں جانے لگا کہ رات بہت ہوگئی ہے سو جاؤ تو نور بولی گڈنائٹ کس نہیں کرو گے بوائے فرینڈ تو گڈنائٹ کس بھی کرتے ہیں میں بولا بڑا پتہ ہے کہ کیا کیا کرتے ہیں بوائے فرینڈ بولی پتہ ہے نہ ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں پھر ان کو ایک ایک کس کی چھوٹی سے اور گڈنائٹ بول کر باہر اگیا۔سیدھا چھوٹی ماں کے کمرے میں گیا ناک کیا ابو تو تھے نہیں تو چھوٹی ماں بولی آجاؤ میں اندر گیا اندر جانے سے پہلے لن کو لاسٹک والی جگہ پر پھنسا کر گیا تھا چھوٹی ماں اس وقت نائٹ ڈریس میں تھی انہوں نے ایک فل نائٹی پہنی تھی لیکن اس میں ان کی برا صاف محسوس ہورہی تھی میں نے چھوٹی ماں کو بولا کہ کومل آج آسکتی ہے کیا بولی کیا ضرورت پڑ گئی میں بولا مجھے کیا ضرورت پڑنی ہے اس سے آپ کو پتہ ہی ہے بولی لگتا ہے آج زیادہ ہی تنگ ہوئے پڑے ہو جو سیدھے ہی پوچھنے آگئے میں بولا بس پارک گئے تھا وہاں میں نے ایک کپل کو سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو بس حالت پتلی تھی بولی کومل تو نہیں آسکتی وہ کسی شادی پر دوسرے شہر گئی ہے میں بولا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں بولی جاؤ روم میں کچھ کرتی ہوں میں جانے لگا تو لن جو کہ ایڈجسٹ کیا تھا وہ باہر نکل آیا اور تمبو بن گیا جس پر چھوٹی ماں کی نظر پڑ گئی ان کی نظریں میرے لن پر ہی ٹھہر گئی میں جلدی سے وہاں سے پلٹا اور روم میں چلاگیا۔ کچھ دیر گزری تو ناک ہوئی میں بولا آجاؤ تو سونی اندر آگئی سونی ہمارے گاؤں کی تھی شادی شدہ تھی لیکن شوہر نے طلاق دے دی تھی تو وہ ماں باپ کے گھر آگئی اس کی ماں حویلی میں کام کرتی تھی اس نے سونی کو بھی حویلی میں کام پر لگوا دیا۔ سونی کی عمر28/29سال تھی بالکل پتلی سی ممے 34ہونگے اور گانڈ بھی پتلی سی تھی بالکل چھوئی موئی ٹائپ لڑکی تھی رنگ بھی تھوڑا سانوالہ تھا لیکن اس وقت یہ بھی کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی مجھے اپنی پیاس بجھانی تھی اور چھوٹی ماں نے سونی کو بھیج دیا تھا میں نے بولا کیا بات ہے سونی بولی جی چھوٹی بی بی نے بھیجا ہے آپ کی خدمت کے لیے میں بولا کر لو گی میری خدمت بولی صاحب ایک بار موقع تو دو میں بولا تو اتنی دور کیوں کھڑی ہو وہ آگے آگئی میں نے اس کو پکڑ لیا اور گلے لگا لیا وہ کھیلی کھیلائی لڑکی تھی ہو گئی شرو ع میں نے اس کو کسنگ شروع کی تھوڑی دیر کسنگ کر کے پیچھے ہٹ گیا پتہ نہیں کیوں جب سے عائشہ اور نور سے کسنگ کی تھی اس کسنگ میں مجھے کوئی مزا نہیں آرہا تھا پھر اس کو بولا کپڑے اتار کر آجاؤ خود بھی اتار دیے کیوں کہ مجھے اس وقت چدائی کرنی تھی باقی تو پھر کبھی کرلیتا جب سونی کی نظر میرے لن پر پڑی تو اس کی آنکھیں باہر آنے والی ہوگئی میں نے سونی کو بیڈپر کھینچ لیا اور اس کے مموں پر ٹوٹ پر سونی کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگ پڑی کچھ دیر بعد سونی کو نیچے لٹیایا میں جلد سے جلد لن اندر کرنا چاہتا تھا کیوں کہ نور اور عائشہ نے کسنگ کر کے میرے تن بدن میں آگ لگا دی تھی میں نے لن پر تھوک لگایا اس کی پھدی بھی گیلی تھی اور اس پر بال تھے لیکن اس وقت کچھ نظر نہیں آرہا تھا بس چدائی چاہیے تھی لن اس کی پھدی پر رکھا اور دھکا مارا میرا آدھا لن اندر چلاگیا دوسرا دھکا ماراتو میرا پورا لن اند رچلا گیا سونی نے چیخنا شروع کردیا بولی صاحب جی مار ڈالا آپ نے آرام سے کریں صاحب جی پر صاحب جی ہوش میں ہوتے تو آرام سے کرتے بس اس کی ٹانکیں اٹھا کر کاندھوں پر رکھ لیں اور دے دھنا دھن دھکے لگانے شروع کردیا کچھ دیر چیخنے کے بعد سونی کی آوزوں میں بدلاؤ آیا اور سسکنے لگ پڑی پھر وہ فارغ ہوگئی اور چیخنا شروع کردیا لیکن میں نے اس کو نہیں چھوڑا اور لگارہا کبھی فریا د کرتی چھوڑ دیں کبھی اس کو مزا آنے لگ پڑتا لیکن مجھے بس جنون سوارہوچکا تھا نور اور عائشہ سے کس کر کے۔ پھر وہ چیختی روکتی فارغ ہوتی گئی کنتی یاد نہیں وہ کتنی بار فارغ ہوئی اور کتنا وقت لگا لیکن میں اب فارغ ہونے کے قریب تھا میں پسینہ میں بھیگ چکا تھا پھر میں فارغ ہونے لگا تو لن اس کی پھدی سے نکال دیااور اس کے اوپر فارغ ہوگیا اور سانس لینے لگ پڑا۔



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments