حویلی
قسط نمبر 7
ان کے گھر پہنچا جیسے ہی گیٹ پر گاڑی کا ہارن دیا تو چوکیدار نے فوراً گیٹ کھول دیا میں گاڑی سیدھے اندر لے گیا۔ ان کا گھر بھی ایک بڑی حویلی پر مشتمل ہے ایک طرف لان ہے ایک طرف کمرے بنے ہوئے ہیں جن کے سامنے بڑا سا برآمدہ ہے اور باقی اپر منزل پر بھی کافی کمرے ہیں پچھلی طرف نوکروں کے کوارٹر بنے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ان کی فیملی میں ان کی بیوی مسرت، بیٹیاں نوشین، شہناز، عظمیٰ اور بیٹا علی ہے۔ چچی مسرت ایک ہاؤس وائف ہیں ان کی عمر 42سال ہے وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں گاؤں کی ہی ہیں لیکن گاؤں کی ہونے کی وجہ سے بہت ہی سلم سمارٹ ہیں لیکن جو سب سے خاص بات ان میں ہے وہ ہے ان کے ممے۔ ہماری پوری فیملی میں سب سے بڑے ممے ان کے ہیں 42تو ہونگے ہی۔ اور یہی خاص ان کی بیٹیوں میں بھی ہے ہیں وہ بھی سب سلم سمارٹ لیکن ان تینوں کے ممے بھی اپنی ماں کی طرح بڑے بڑے ہیں لیکن وہ بھی چچی کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ بڑی بیٹی نوشین اس کی عمر 22سال ہے وہ بھی اپنی امی طرح خوبصورت اور سلم سمارٹ ہیں لیکن ماں کے بعد مموں میں اس کا نمبر بھی دوسرا ہی آتا ہے۔ اس نے ابھی حال ہی میں گریجویشن مکمل کیا ہے آج کل وہ گھر میں ہوتی ہیں تھوڑی سیریس ٹائپ کی ہیں۔پھر ان کی بیٹی شہناز اس کی عمر 21سال ہے اس نے بھی گریجویشن مکمل کرلیا ہے اور وہ انوشے کے ساتھ آج ہی ہاسٹل سے واپس آئی ہے وہ بھی سلم ہیں لیکن اس کی گانڈ اور ممے اتنے ہی بڑے ہیں جو کہ اس کی کمر کو ایک کمان کی شکل دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ چلتی پھرتی آئٹم بم لگتی ہے لیکن اس کی سب سے خاص بات اس کے چہرے کی مصومیت تھی ایسا لگتا تھا کہ چھوٹی سی بچی ہے لیکن ممے اور گانڈ یکھ کر لگتا ہے کہ پوری مکمل عورت ہے۔ یہ بھی تھوڑی سریس ٹائپ ہیں۔ پھر ان کی بیٹی عظمیٰ ہے اس کی عمر 17سال ہے اب سوچ رہے ہوں گے بڑی بہنوں میں ایک سال کا فرق چھوٹی بہن میں اتنا فرق تو ان کے دو بیٹے ہوئے تھے لیکن وہ دونون زندہ نہ رہ پائے پیدا ہوتے ہوئے فوت ہوگئے تھے نوشین ابھی پڑھ رہی ہے سیکنڈ ائیر میں اس کا جسم اور عائشہ کا جسم تقریباً ایک جیسا ہے۔ لیکن اس کے ممے عائشہ کے مموں سے بڑے ہیں یہ تو باتوں کی مشین ہے اور چلبلی ہے۔ پھر بیٹا علی ہے جو کہ 14سال کا ہے۔ اس نے ابھی میٹرک پاس کیا ہے۔اگر وہ میری عمر کا ہوتا تو مقابلہ میں حصہ لیتا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ میں گاڑی سے اتر کر باہر نکلا تو پوری فیملی میں استقبال میں کھڑی تھی میں سب سے پہلے چچا سے ملا انہوں نے مجھے گلے لگایا پھر چچی سے ملا تو انہوں نے بھی گلے لگایا اور پیا ر کیا ان کے بڑے ممے میرے سینے میں دھنس گئے تھے میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا پھرعظمیٰ سے ملا وہ چچی کے بعد کھڑی تھی تو بولی آخر ہمیں ہی آپ کو اپنے گھر دعوت دے بلوانا پڑا ادھر آنا تو شاہد آپ کی شان کے خلاف ہے۔میں ہنس پڑا بولا نہیں ایسی کوئی بات نہیں آپ کو پتہ ہی ہے کہ میں یہا ں تھا ہی نہیں ٹریننگ پر گیا ہوا تھا پھر آتے ہی مقابلے شروع ہوگئے ابھی ہی فری ہوا ہوں بولی مقابلے تو پچھلے ہفتہ ختم ہو گئے تھے اور آپ سردار بھی بن گئے لیکن آپ نے ایک دفعہ بھی چکر نہیں لگایا میں بولا بس مصروف تھا اب لگاتا رہوں گا اتنے میں نوشین بولی بس بھی کرو باتونی مشین ہم سے بھی ملنےدو وہ بولی میں کوئی اتنا زیادہ بولتی ہوں میں بولا نہیں نہیں بس ایک بار شروع ہوجاؤ تو نان سٹاپ لگی رہتی ہو اس نے منہ پھلالیا سب ہنس پڑے پھر نوشین سے ملا اس نے ہاتھ ہی ملایا پھر شہناز سے ملا اس نے بھی شیک ہی کیا۔ لاسٹ میں علی تھا اس کے گلے ملا اس کا حال چال پوچھا۔ پھر سب اندر چلنے لگے تو میں گاڑی کی طرف آیا چچا بولے یہیں سے واپس جانا ہے کیا میں بولا نہیں ایک منٹ بس آیا پھر میں نے ان کی فیملی کے لیے جو گفٹ لیے تھے وہ اٹھائے اور ان کے پیچھے چل پڑا سب سے پیچھے شہناز تھی اس کی گانڈ سب سے بڑی لگ رہی تھی لیکن وہ بھی چچی کی گانڈ کا مقابلہ نہیں کرپارہی تھی لگتا ہے چچی صرف گانڈ ہی مرواتی ہے صبح شام۔ خیر سب اندر داخل ہوئے ایک ہا ل ٹائپ کمرہ تھا سب وہاں بیٹھ گئے صوفوں پر چچی کچن میں چلی گئی دیکھنے کہ کھانا تیار ہے کہ نہیں میں نے سب کے لیے گفٹ نکالے او ر دے دیے۔ سب نے تھینک کہا سب کے لیے گولڈ کی چین تھی چچی آئی اس کو بھی دے دی۔علی کے لیے نیو پلے سٹیشن لایا تھا۔ انکل کے لیے میں پسٹل لایا تھا تو علی بولا میرے لیے بھی پسٹل لانا تھا میں بولا ٹھیک ہے اگلی بار آپ کو بھی پسٹل دوں گا۔ سب کو سوٹ بھی دیے۔ چچی بولی ان سب کی کیا ضرورت تھی میں بولا تو آپ نے مجھے گفٹ دیے اس کی کیا ضرورت تھی ویسے بھی میرا بھی اتنا ہی حق ہے آپ پر جتنا آپ کا مجھ پر ہے۔ پھر میں نے شہناز کو اس کے پیپر کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا بہت اچھے ہوئے ہیں۔ خیر ویسے ہی باتین چلتی رہی پھر کھانا لگ کیا۔سب نے کھانا کھایا پھر سب بیٹھ کر گپیں مارتے رہے چچی بولی بیٹا اب تو تم سردار بن گئے ہو پڑھائی بھی پوری ہوگئی ہے شادی کب کر رہے ہو میں بولا ابھی تو کوئی ارادہ نہیں ہے۔اور نہ ہی کوئی لڑکی ہے جس سے کروں چچی بولی تم ہاں تو کرو لڑکیاں تو لائن میں لگ کر تم سے شادی کریں گی کو ن ہے جو تم سے شادی نہ کرنا چاہے گامیں بولا ابھی تو کوئی لڑکی بھی نہیں ہے جب ہوئی تو دیکھوں گا بولی کیسی لڑکی چاہیے میں بولا بالکل آپ جیسی جب میں یہ بول رہاتھاتو میری نظریں ا س وقت ان کے مموں پر چلی گئی جس کو انہوں نے دیکھ لیا تھا چچی بولی اچھا میرے جیسی کیوں تم تو سردار ہو پڑھے لکھے ہو۔ اور بہت خوبصورت ہو تم کو تو پڑھی لکھی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کرنی چاہیے میں بولا جو زیادہ پڑھ لکھ جاتی ہے وہ خاوند کی خدمت نہیں کرتی آپ جیسی ہوگی میری خدمت تو کرے گی تو چچی بولی کون سی خدمت کروانی ہے تمہارے نوکر نوکرانیاں تھوڑے ہیں کیا میں بولا نہیں جو بھی میرا کام ہوگا اس کو خود کرنا پڑے گا۔ بولی اچھا میں بولا کوئی ہے ایسی آپ کی نظر میں ہو جو آپ کی طرح خوبصورت بھی ہو اور خدمت کرنا بھی جانتی ہو۔ آپ نے تو چچا سے شادی کرلی ورنہ آپ سے کرلیتا میں تھوڑا لیٹ ہوگیا۔ تو سب ہنس پڑے چچا بولے یار کہیں میری بیوی نہ بھگا کر لے جانا میں بولا نہیں ایسا نہیں کرتا یہ تو میری پیاری چچی ہیں بس ان کے جیسی لڑکی ہونی چاہیے۔ عظمی بولی میں انکی کاپی ہوں مجھ سے شادی کرلو تو سب ہنس پڑے میں بھی ہنس پڑا میں بولا اچھا تو تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو بولی ہاں کرلو میں بولا میں نے چچی جیسی بولا ہے چچی کے الٹ باتونی مشین نہیں تو منہ پھلا لیا بولی نہیں کرنی تو نہ سہی سب ہنس پڑے۔ اسی طرح ہنسی مذاق چلتا رہا پھر اجازت چاہی اور دوبارہ جلدی آنے کا وعدہ کر کے چل پڑا اور چچی کو بولا میرے لیے پھر کوئی لڑکی ڈھونڈ رکھو جلدی اگلی باری آؤں گا تو لڑکی سے ملوں گانہ ملے تو پھر آپ کو ہی لے جاؤں گا۔ اور وہاں سے بھاگ گیا۔ پھر گاڑی اسٹارٹ کی اور چل پڑا گھر کی طرف لیکن گاڑی میں بیٹھا تو صبح والا واقعہ یاد آگیا کہ عائشہ اور نور کا سامنا کیسے کروں گا۔ پھر سوچا ان کے پاؤں میں بیٹھ جاؤ ں گا پھر وہ جو سزاد یں گیں بھگت لوں گا۔ واپس پہنچا حال میں ہی سب بیٹھے تھے اور میری واپسی کا انتظا کر رہے تھے سب کو سلام کیا اور ایک صوفے پر بیٹھ گیا تو عائشہ اور نور اٹھ کھڑی ہوئیں کہ نیند آرہی ہے روم میں جاتی ہیں امی بولی چلی جاتی ہو بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر تو وہ بولی نہیں نیند بہت زور کی آئی ہے پھر اٹھ کر چلی گئیں امی بولی صبح تو بہت خوش تھیں جب سے واپس آئیں ہیں مارکیٹ سے توپریشان ہیں۔چھوٹی ماں بولی جب میں افی کے کمرے میں گئی تھی تو یہ بھی بہت پریشان لگ رہا تھا تو امی بولی کیا بات ہوئی تھی تم لوگوں میں۔ میں بولا کچھ بھی نہیں بس اتنی بات ہوئی کہ وہ بریسلٹ سیم نہیں ملے جو نمرہ کو لے کر دیا تھا۔تومنہ پھلا لیا۔ امی بولی کوئی بات نہیں میں ان کو سمجھا دوں گی میں بو لا کوئی بات نہیں میں ان کو منا لوں گا۔ امی بولی ٹھیک ہے نمو بولی میں اپنا بریسلٹ ان کے جیسا لے لیتی ہوں یہ میں امی کو دے دیتی ہوں اس نے اتار کر امی کو دے دیا۔ میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا فریش ہوا پھر نور اور عائشہ کے کمرے کی طرف چلاگیا۔ ناک کیا تو اند ر سے آواز آئی آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ میں اندر داخل ہوا تو دونوں بیڈ پر بیٹھی تھیں رات کا سوٹ پہن چکی تھی۔ سفیدکلر کی سلیو لیس شرٹ اور کھلاسفید ہی ٹراؤزر۔ مجھے دیکھتے ہی نور نے غصے سے دیکھا کیوں آئے ہو ہمارے کمرے میں ہمارے ساتھ زبردستی کرنے آئے ہو کیا۔ میں بولا میں تم لوگوں کو مجرم ہوں صرف اتنا کہوں کا کہ میں نے اپنا خنجر نکال لیا اور سر جھکا کر ان کے سامنے بیٹھ کر خنجر ان کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا خنجر ہے یہ انصاف کا خنجر ہے۔ میں تم کا مجرم ہوں تم کو حق ہے کہ میری جان لے لو۔ جان لینے سے پہلے اتنا جان لو کے میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا جو بھی ہوا انجانے میں ہوا پر میں اپنی غلطی ہی کہوں گا تو نور نے خنجر پکڑ لیا اور میری طرف آئی اور گردن پر خنجر دیا میرے آنسو زمین پر گر رہے تھے میں رو رہا تھا۔ اتنے میں عائشہ آئی اور اس نے نور سے خنجر پکڑ لیا اور بولی کیا کرنے لگی ہو یہ میرا مجرم ہے تم کا نہیں میں نے اس کو معاف کردیا۔ اور اس نے مجھے اٹھا کر گلے لگا لیا اور خود بھی رو پڑی میں اس کے گلے لگ کر زور زور سے رو پڑا اور معافی مانگنے لگا۔ تھوڑی دیر تک عائشہ نے مجھے چپ کروایا اور مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئی اور بیڈ پر بیٹھا دیا۔ بولی بھائی میں نے معاف کردیا میں جانتی ہوں کہ آپ کی غلطی نہیں ہے میں پچپن سے آپ کو جانتی ہوں وہ ماحول کا اثر تھا کہ ایسا ہوگیا جو بھی ہونا تھا ہو گیا میں نے آپ کو معاف کردیا۔ میں نے بول شکریہ میری بہن میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا۔ نور بھی ہمارے پاس آگئی اور بیٹھ گئی میں نے اس سے پھر معافی مانگی اور عائشہ سے خنجر لے کر نور کے ہاتھ میں دیا کہ آپ کو حق ہے میری جان لے سکتی ہو میں اُف تک نہیں کروں گا۔ لیکن اس نے خنجر پھینک دیا اور میرے گلے لگ گئی کہ یہ میں کیا کرنے لگی تھی اپنے ہی بھائی کو اور سب کے سردار کو مارنے لگی تھی۔ میں بولا میں نے غلطی کی ہے تم سزا ہی دے رہی تھی اور ٹھیک ہی دے رہی تھی۔ پھر اس کو بھی چپ کروایا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی نور بولی کتنے واہ حیات لوگ ہیں اس طرح کھلے عام ایسے کام کرتے ہیں میں بولا ہاں یہ بات تو ہے ان کو زرا شرم نہیں آئی کہ سب کے سامنے وہ کام کررہے تھے۔ خیر میں بولا کہ غلطی میں نے کی ہے تو سزا تو بنتی ہے تم لوگوں نے معاف کردیا ہے لیکن اس کی سزا تو ہے کل تم کو شہر لے جاؤں گا اور گھماؤں گا۔ تو وہ دونوں خوش ہوگئی میں بولا کیا کروں اب کوئی گرل فرینڈ تو ہے نہیں تم لوگوں کو ہی گھماؤں گا تو نور بولی مجھے گرل فرینڈ بنا لو میں بولا نہ بابا نا سنا ہے گرل فر ینڈبہت خرچہ کرواتی ہیں مجھے ضرورت نہیں تو سب ہنس پڑے۔ بولی نہیں کرواتی خرچہ میں بولا مجھے گرل فرینڈ چاہیے مصوم سے تم تو مجھے ہی مارنے پے تلی تھی اور ہنس دیا بولی ماروں گی میرے بھائی ہو۔غلطی کرو گے تو سزا دوں گی نہ میں بولا دو میں نے کب روکا تھا۔ خود ہی رک گئی۔ بولی اب کوئی ایسی غلطی کرو گے تو پھر سزا دوں گی میں بولا ایسی غلطی کیا مطلب میں ایسی غلطی دوبارہ کروں گا۔ بولی نہیں میرا مطلب ہے غلطی کرو گے تو سزا دو ں گی۔ میں بولا ٹھیک ہے۔ پھر میں نے کہا کل تیار رہنا اور ان کے روم سے چلا گیا۔ اپنے رو م میں آکر فریش ہوا اور اپنے گفٹ کا انتظار کر نے لگا۔
جاری ہے
0 Comments