حویلی
قسط نمبر 6
میں تھوڑی دیر کے لیے سو گیا پھر اٹھ کر فریش ہوا اور نیچے آگیا وہاں نور اور عائشہ بیٹھی ہوئیں تھیں مجھے دیکھتے ہی بولی بھائی آپ تو ہر وقت نمرہ کے ساتھ ہی رہتے ہو میں بولا اب تو اتنا عرصہ ہوگیا اس کے ساتھ وقت نہیں گزارہ بس مقابلے کی تیاری کرتا رہا اب سب کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ بولی آپ نے نمرہ کو بریسلٹ دیا ہمیں بھی چاہیے۔ میں بولا جب بولو لے جاؤ گا۔ اتنے میں امی آگئی وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئی میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا بولی کبھی اپنے ماں کو بھی وقت دیا کرو میں بلا امی سارا وقت آپ کا ہی تو ہے پھر میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا تو میرا پاؤں عائشہ پٹ کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا نہ تو عائشہ نے نوٹس لیا نہ میں نے لیکن اس کا جسم گرم تھا اور پٹ اتنا نرم تھا کہ کیا بتاؤں پاؤں اندر دھنس رہا تھا عائشہ تھوری سی فربہ جسم کی مالک ہے مطلب نہ اتناجسم بھاری نہ پتلا درمیانہ جسم اور درمیانہ قد تھا ہم بہن بھائیوں کے قد میں سے سے کم قد اس کا ہی تھالیکن ایک با ت تو پتہ چل گئی تھی عائشہ کا جسم بہت نرم ہے۔ امی میرے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں ان کا سینہ میرے منہ کے اوپر تھا لیکن اس وقت مجھے کوئی شہوت نہ تھی۔ بلکہ مجھے ان کی گود میں سکون مل رہا تھا امی بولی اب تم کی دعوتیں شروع ہوں گے کئی خاندان تم کو سرادر بننے کی وجہ سے دعوت پر بلائیں گے تاکہ ان سے جان پہچان ہو سکے سب سے پہلی دعوت تم کے چچا کی طرف سے ہے کل شام ان کے گھر تم کی دعوت ہے۔ میں بولا ٹھیک ہے امی چلا جاؤں گا۔اسی طرح ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر ابو بھی آگئے وہ فیکٹری میں گئے ہوئے تھے ہماری ایک فیکٹر ی میں مشینوں کے پرزے بنتے تھے اور ایک فیکٹر ی میں فیکٹری میں پلاسٹک کا سامان تیار ہوتا تھا۔اور ایک ہماری کنسٹریکشن کمپنی تھی اور کئی پلازے تھے جن کے لیے ابو نے ایک مین ہیڈ آفس بنایا ہوا تھا باقی سب میں منیجر تھے جو کہ پورے کام کو کنٹرول کرتے تھے پھر ہیڈ آفس آکر ابو کو ساری ڈیٹیل اور حساب وغیرہ چیک کرواتے تھے ابو بھی اکثر فیکٹر ی اور کمپنی میں پلازہ چکر لگاتے اور چیک کرتے رہتے وہاں کا سارا نظام الگ تھا اور یہاں کا سارانظام الگ تھا۔ میں بھی اب سوچ رہا تھا آفس جانا شروع کردوں اور ساتھ ساتھ کام سمجھتا رہوں اور ابو کا ہاتھ بٹاؤں پہلے تو مقابلے کی تیاری میں رہا اب میں بھی آفس جانا چاہتا تھا۔ میں نے یہی بات ابو سے بولی تو ابو بولے بیٹا تم کا اپنا تو آفس ہے جب چاہو آجاؤ لیکن بچپن سے تیاری کررہے ہو مقابلے کی اور پندرہ ماہ پہاڑوں میں رہے ہو اب تم سردار ہو تو کچھ عرصہ اس کا پھل کھاؤ پھر آفس بھی آجانا میں بولا جی ابو ٹھیک ہے لیکن میں چاہتا ہوں اب آفس جانا شروع کردوں باقی یہ سب تو چلتا ہی رہے گا میں کون سا ہر وقت آفس میں رہوں گا۔ بولے ٹھیک ہے جیسے مرضی کرویار پھرکھانہ لگ گیا اور پھر سب نے کھانا کھایا اور اپنے اپنے روم میں چلے گئے۔میں اپنے روم میں جانے کی بجائے عائشہ اور نور کے روم میں چلا گیا حالانکہ بہت کمرے تھے حویلی میں لیکن وہ دونوں اپنا روم شیئر کرتی تھیں۔ میں نے ناک کیا تو نو ر آپی کی آواز آئی آجاؤ میں اندر چلاگیا مجھے دیکھ کر نور بولی واہ واہ آج دن کدھر سے چڑھا ہے جناب سردار آفتا ب خان ہمارے کمرے میں آئے ہیں میں ہنس دیا کہ اگر برا لگا تو واپس چلا جاتا ہوں تو عائشہ بولی ہماری تو ہمیشہ سے خواہش تھی کہ تم ہمارے بھی اتنے ہی بھائی بنو لیکن تم تو اس نموکے ساتھ چپکے رہتے ہو جیسے وہ ہی تمہاری بہن ہو میں نے بولا اب آپ کا سارا گلا دور کردوں گاروزانہ حاضری دیا کروں گا بولی پتا ہے دن کے بعد پھر بھول جاؤ گے میں بولا پکا وعدہ اب آپ کے پاس روزانہ آیا کروں گا عائشہ بولی دیکھتے ہیں پھر نور بولی نمو کو بریسلٹ لے کردیا ہے ہمیں کب لے کر دو گے میں بولا صبح چلتے ہیں آپ کو بھی لے کر دوں گا صبح تیار رہنا عائشہ بولی کوئی ضرورت نہیں مانگ کر لینے کی خود سے تو دیا نہیں میں بولا اس کے ساتھ گیا تھا اس کو پسند آگیا تو لے دیا او ر کوئی بات نہیں آپ کو صبح لے دوں گا۔عائشہ بولی ٹھیک ہے پھر صبح ہم تیار رہیں میں بولا جی پھر عائشہ بولی کہ خالی بریسلٹ ہی دلواؤگے میں بولا جو تم کا دل کرے لے لینا نور بولی یہ ہوئی نہ بات صبح تم کی جیب تو خالی میں بولا سب تم کا ہی تو ہے۔اسی طرح نوک جھوک چلتی رہی آخر کاران کا موڈ بہت اچھا ہوگیا پھر میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا اور سوگیا پہلے سوچا ناز کو بلوا لوں پھر سوچا آج ریسٹ کرتا ہوں پھر سوگیا۔ صبح روٹین کے مطابق جم گیا وغیرہ سے فارغ ہو کر گھر واپس آیا اور کمرے میں چلاگیا اتنے میں نمو بلانے آئی کے ناشتہ کرلو میں بولا آتا ہوں فریش ہو کر پھر نمو بولی رات نور اور عائشہ کے کمرے کے کیا کرنے گئے تھے میں بولا کیا نہیں جاسکتا نمو بولی جاسکتے ہولیکن کبھی گئے نہیں ہو میں بولا یہی تو ان کا گلہ تھا کہ میں ان کے پاس جاتا نہیں ہر وقت تم سے چپکا رہتا ہوں تو نمو بولی مجھ سے کب چپکے رہتے ہو آج کل تو پتہ نہیں کدھر گم رہتے ہو میں بولابکواس نہ کرو ابھی کل ہی تو تم کو لے کر شہر گیا تھا اور اتنا ہنگامہ ہوا بولی پتہ پتہ ہے بس کرو میں بولا اچھا یار اب سب کو ٹائم دیا کروں گا پھر ہم نیچے آگئے تو سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے ہم نے ناشتہ کیا ابو کسی کام سے چلے گئے ابھی تک ابو نے ہی میرا زیادہ کام سنھبالہ ہوا تھا کوئی بڑا کام ہوتا جس پر میرے فیصلہ یا دستخط کی ضرورت ہوتی تو لے لیتے لیکن جمعہ والا دن جو پنچایت ہوتی اس کی سربراہی مجھے ہی کرنی تھی۔خیر ناشتے کے بعد میں چھوٹی ماں کے کمرے میں چلا گیا تو چھوٹی ماں تیار کررہی تھی کہیں جانے کی میں بولا کہا جارہی ہو تو وہ بولی کہ آج انوشے کو لینے ہوسٹل جارہی ہوں اس کی پڑھائی مکمل ہوگئی ہے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ میری بہن جو چھوٹی ماں سے تھی وہ ہاسٹل میں تھی اس کے پیپر ہورہے تھے فائنل اس وجہ سے وہ جشن کے موقع پر نہ آسکی اب اس کے پیپر ختم ہوگئے تو وہ آرہی تھی۔میں بولا میں چلوں بولی خان جی ساتھ جارہے ہیں تم نے آنا ہے تو تم بھی آجاؤ میں بولا جب ابو جارہے ہیں بولی کیوں میں بولا ویسے ہی بولی ٹھیک ہے۔ ویسے بھی مجھے آج نور اور عائشہ کے ساتھ بازار جانا ہے۔ انہوں سرکھایا ہوا ہے نہ گیا تو وہ بہت ناراض ہوگیں چھوٹی ماں بولی اچھی بات ہے تم ہران کو ٹائم ہی نہیں دیتے جب بھی وقت ملتا ہے اپنی نمو کے پاس گھس جاتے ہو میں بولا بس جڑوا ں ہیں اور بچپن سے ایک ساتھ ہی رہے پڑھے اور بڑے ہوئے وہ مجھے سمجھتی ہے میں اس کو اس لیے زیادہ وقت اس کے ساتھ ہی گزارتا ہوں چھوٹی ماں بولی کسی اور کے ساتھ وقت گزارو گے تو اس کو سمجھو گے میں بولا اب میں نے نور اور عائشہ سے وعدہ کرلیا ہے روزانہ ان کو ٹائم دوں گا بلکہ سب کو برابر ٹائم دوں گا پہلے تو ویسے بس ٹریننگ میں ہی ٹائم گزرتا رہا ہے۔ چھوٹی ماں بو لی ٹھیک ہے۔ میں بولا آپ کے گفٹ کا انتظار ہے بولی لگتا ہے ناز سے دل بھر گیا ہے جو گفٹ کے انتظار میں ہو میں بولا نہیں ایسی بات نہیں لیکن جب سے آپ نے بولا ہے تو تجسس ہے اس لیے بس اور کوئی بات نہیں تو چھوٹی ماں بولی مجھ سے اب کیسی شرم لگتا ہے ناز نے ٹھیک طرح سے شرم نہیں اتار ی میں بولا اترجائے گی جلد وقت تو لگتا ہے نابولی ٹھیک ہے جلد ہی پیش کرتی ہوں میں بولا کیا بولی جس کا تم کو بے صبر ی سے انتظار ہے اور ہنس دی۔ میں باہر آیا تو نور اور عائشہ کھڑی تھیں اور میری طرف دیکھ رہی تھیں میں بولا چلو تیار ہو جاؤ پھر چلتے ہیں تو وہ دونوں خوش ہوگئیں عائشہ جو کہ باتونی تھی بولی ہمیں تو لگتا تھا کہ صبح ہوتے ہی رات کا وعدہ بھول گئے ہوگے میں بولا ایسانہیں ہوگا جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کروں گا۔ پھر وہ دونوں جلدی جلدی کمرے میں چلی گئیں کے کہیں شاہد میں مقر نہ جاؤ ں میں بھی اپنے کمرے میں آگیا اور تیار ہونے لگ پڑا۔ میں نے ایک بلیک جینز اور سکائی بلیو شرٹ پہنی گاؤں میں زیادہ تر میں شلوار قمیض ہی پہنتا تھا لیکن شہر جاتے ہوئے پینٹ شرٹ یا اس قسم کا لباس پہنتا تھا۔اتنے میں نمو میرے کمرے میں آئی اور بولی جارہے ہو آج تو بڑا سج دھج کر جارہے ہو کسی گرل فرینڈ کو تو ٹائم نہیں دیا میں تھوڑا سے سیڈ سا منہ بنا کر بولا میری ایسی قسمت کہا 22سال کا ہوگیا ہوں سردار بن گیا ہوں لیکن ایک بھی گرل فرینڈ نہیں نہ ہی کوئی دوست ہے۔ تمہیں بھی اچھی طرح پتہ ہے۔ تو میرے پاس آئی اور بولی کیا میں تم کی دوست نہیں ہو میں بولا ہو لیکن میری گرل فرینڈ تو نہیں ہے نا جس کے ساتھ میں گھومو پھرو اور انجوائے کروں۔ تو میرے ساتھ گھوم لیا کرو میں دوست ہوں اور گرل بھی ہوں تو تم کی گرل فرینڈ بھی ہوئی نا میں بولا یا ر تم فرینڈ ہو لیکن گرل فرینڈ تو نہیں بن سکتی نا جیسے گرل فرینڈ ہوتی ہے ایسا تو نہیں کرسکتی یہ بات اس کی آنکھوں میں دیکھ کر رہا تھا اس نے کچھ دیر آنکھوں میں دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔ پھر وہ بنا کچھ بولے چلی گئی۔
🦋
میں نیچے آیا اور نور اور عائشہ کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر گزری تو دونوں نیچے آئیں دونوں نے ایک جیسے کپڑے پہنے تھے ہلکے پیلے کلر کے اور اس پرسفید پھول تھے لان کے سوٹ تھے اور پر سفید ڈوپٹہ تھا۔ میں نے باہر گاڑی نکالی تو گارڈ بھی گاڑی نکالنے لگے میں نے ان کو روک دیا بولا جب میں پرسنل کام سے جارہا ہوں تو ساتھ نہیں آنا اگر کسی دورے پر یا کسی اور کام پر جاؤں تو ساتھ آنا وہ سمجھ گئے۔وہ باہر آئیں تو گاڑی کو دیکھ کر بولیں نہیں بائیک پر چلتے ہیں میں بولا تین لوگ ہیں بائیک پر کیسے جائیں گے بولی ہمیں تو بائیک پر جانا ہے میں بولا ٹھیک ہے پھر بائیک نکالی تو پہلے عائشہ بیٹھی پھر نور بیٹھ گئی بائیک پر تین لوگ بیٹھے تھے تو اس لیے عائشہ مجھ سے چپک گئی اس کے نرم نرم ممے مجھے اپنی پیٹھ پر محسوس ہورہے تھے میرے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگ پڑی میں نے سارا دھیان سٹرک پر لگایا اور اپنے آپ کو کنٹرول کرلیا۔ لیکن عائشہ شاہد مجھے کنٹرول کرنے نہیں دے رہی تھی اس کے نرم ممے میری کمر پر لگ رہے تھے اور جس سے میں گرم ہورہا تھا اور ساتھ ہی اس نے دونوں ہاتھ میرے پیٹ سے گزار کر مجھے پکڑ لیا تھا ایک جگہ کھڈا لگا تو وہ پوری میرے ساتھ چپک گئی اور واپس نہ ہوئی۔ خیر جیسے تیسے کر کے ہم شہر پہنچے پھر شاپنگ مال میں گئے وہاں انہوں نے اپنے لیے بریسلٹ لیے پھر کپڑے بھی خریدے میں نے انوشے کے لیے بھی بریسلٹ لے لیا آج وہ بھی واپس آرہی تھی پھر آج چچا کی طرف بھی دعوت تھی توان کے لیے کچھ گفٹ لیے اور پھر وہاں سے نکلے تو ایک ہوٹل سے کھانا کھایا ہم بہت انجوائے کررہے تھے پھر نور نے ضد کی کے ہم نے فلم دیکھنی ہے میں بولا نہیں اچھا نہیں لگتا اس کیساتھ عائشہ بھی بولنے لگ پڑی مجبوراً مجھے ماننی پڑی بولا کون سی فلم دیکھنی ہے اس وقت ہالی ووڈ کی ایک ہارر فلم لگی تھی رونگ ٹرن بولی یہ دیکھنی ہے میں بولا خوفناک ہے ڈر جاؤ گی بولیں یہی دیکھنی ہے میں بولا ٹھیک ہے کیونکہ میں بھی کبھی سنیما نہیں آیا مجھے بھی تجسس تھا پہلی بار فلم دیکھنے کا سنیما دیکھنے کا۔ٹکٹ خریدے اورکچھ سنیک خریدے پھر اندر داخل ہوگئے ابھی فلم سٹارٹ نہیں ہوئی تھی اس لیے اتنا اندھیرا نہیں تھا وہاں کئی کپل بیٹھے تھے ہم بھی ایک جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے ایک طرف نور بیٹھ گئی ایک طرف عائشہ ان کے درمیان میں میں بیٹھ گیا لیکن اتنا زیادہ رش نہ تھا فلم شروع ہوئی تو فل اندھیرا ہوگیا فلم بہت ہی خوفناک تھی شروع ہوتے ہی ایک ڈراؤنا سین آیا تو دونوں نے مجھے پکڑ لیا اور انکھیں بند کرلیں میں نے بولا کیا ہوا دیکھو فلم اب بڑا شوق تھا ہارر فلم دیکھنے کا دونوں چپ رہی پھرفلم دیکھنے لگ پڑی لیکن مجھے نہ چھوڑا۔اور ہارر فلم ہو ہالی ووڈ کی اور اس میں بولڈ سین نا ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک بہت ہی بولڈ سین آیا میں ترچھی نظر سے ان کی طرف دیکھا تو دونوں بہت غور سے دیکھ رہی تھیں جیسے ہی مجھ پر نظر پڑی نظر جھکا لیں۔ ہمارے آگئے ایک لائن چھوڑ کر ایک کپل بیٹھا تھا وہ اپنے کام میں لگ گیا دونوں کسنگ کررہے تھے اور ٹھیک ہمارے سامنے تھے دونوں دنیا سے بے خبر لگے پڑے تھے اور ایک کپل سائیڈ میں تھا وہ بھی سٹارٹ کرچکے تھے۔ لائیو شو دیکھ کر میرا تو دماغ خراب ہونا شروع ہوگیا اور میرا لن کھڑا ہونا شروع ہوگیا اب لڑکی نیچے منہ جھکا چکی تھی اورلڑکا اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا مطلب لڑکی لڑکے کا لن چوس رہی تھی جب میں نے ترچھی نظر سے نور او ر عائشہ کو دیکھا تو وہ دونوں بھی ان کو ہی دیکھ رہی تھیں۔میری حالت خراب تھی میرے پینٹ میں تمبو بن چکا تھا اگر انڈر ویئر نہ ڈالا ہوتا تو بالکل صاف نظر آتا۔ اب لڑکی لڑکے کے آگے اگلی سیٹ پر جھک چکی تھی اور لڑکا چدائی شروع کرچکا تھا۔ میں پسینہ پسینہ ہورہا تھا حالانکہ حال ایئر کنڈیشن تھاان دونوں کی طرف نظرڈالی تو ان کی حالت بھی کچھ ایسی تھی۔ لڑکی کی سسکیوں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی حالانکہ فلم کا شور بھی تھا اب فلم پر دھیان کہاں تھا اب تو ان کی طرف ہی سارا دھیان تھا اب میرا بس نہیں چل رہا تھا دل کررہا تھا کہ بس لڑکے کو ہٹا کر میں چڑھ جاؤں لڑکی پر۔ سچوئیشن ایسی تھی کہ دوسگی بہنیں ساتھ تھیں اور سامنے لائیو شو چل رہا تھا کیابتاؤں کیا حالت ہو رہی تھی۔مجھے پتہ نہیں چلا میرا ہاتھ کب عائشہ کی طرف رینگ گیا اور اس کی ٹانگ پر رکھ دیا اور پھیرنا شروع کردیا میرا سارا دھیان اس لائیوشو کی طرف تھا اور میں ہاتھ عائشہ کی ٹانگوں پر پھیر رہا تھا اور میرا ہاتھ عائشہ کی پھدی پر شلوار کے اوپر سے ہی لگا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں نے کسی گرم گیلی بھٹی پر ہاتھ رکھ دیا ہوامجھے جھٹکا لگا کہ میرا ہاتھ کہاں ہے میں نے جب عائشہ کی طرف دیکھا تو اس کی نظریں مجھ پر تھیں اور میرا ہاتھ اس کی پھدی والی جگہ پر شلوار کے اوپر تھا میں نے فوراً ہاتھ اٹھالیا دوسری طر ف دیکھا تو نور بھی مجھے ہی دیکھ رہی تھی میرا سر جھک گیا اور آنکھوں سے آنسو آنے لگ پڑے زندگی میں کبھی نہیں رویا تھا لیکن جو کام آج ہوا تھا اس نے رولادیا میں ایسا تو نہیں تھا اب مجھے لائیو شو کا کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ میں سرجھکائے بیٹھا تھا۔ میرا لن بیٹھ چکا تھا ایسے کے جیسے ساتھ ہو ہی نہیں زندگی میں پہلی بار ایسی غلطی ہوئی تھی کہ اپنی سگی بہن کی اس جگہ پر ہاتھ رکھ بیٹھا تھا اور دوسرے بہن نے دیکھ لیا تھا میری نظریں اٹھ ہی نہیں پارہی تھی مجھے ہوش نہیں تھا کب فلم کا ہاف ٹائم ہوا اور لائٹس آن ہوئیں۔ ہم تینوں خاموشی سے باہر آئے تو نور بولی بس اب چلتے ہیں اور فلم نہیں دیکھنی اس کی آواز میں غصہ تھا میں نے بولا ٹھیک ہے لیکن ایک بار بھی عائشہ کی طرف یا نور کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ جلدی سے بائیک نکالی اور بیٹھ گیا۔ میرے پیچھے اس بار نور بیٹھی تھی پھر عائشہ بیٹھی ہمارے پاس کافی شاپر تھے کچھ میں نے آگے ٹانگ لیے تھے اور کچھ ان دونوں نے پکڑ لیے تھے۔ میں نے جیسے تیسے بائیک چلاکر جلدی سے گھر پہنچایا۔ اس بار بائیک بہت تیز چلائی جب بھی بریک لگتی تو نور مجھ سے چپک جاتی۔اس نے ممے مجھے اپنی کمر پر محسوس ہوتے لیکن اس بار سیدھا گھر جاکر بریک لگائی اور سیدھا اپنے کمرے میں آگیا تھوڑی دیر گزری تو دروازے پر ناک ہوئی میں نے بولا آجاؤ تو انوشے آگئی میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور وہ بھاگتی ہوئی میرے گلے لگ گئی اس نے مجھے مبارک باد دی۔ میں نے اس کے پیپروں کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے کہا کے بہت اچھے ہوگئے ہیں پھر وہ چلی گئی میں نیچے نہیں جارہا تھا کیونکہ مجھ سے عائشہ سے نظر نہیں ملائی جاتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد چھوٹی ماں آئی میں نے ان کا حال پوچھا پھر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور مجھ سے سفر کی باتیں کرنے لگی لیکن میں گم سم تھا انہوں نے بھی محسوس کرلیا اور بولی کیا بات ہے صبح تو بہت چہک رہے تھے میں نے بولا کچھ نہیں سفرسے آیاہوں انہوں نے شاپنگ کروا کروا کر تھکا دیا بولی بات کچھ اور ہے تم نہیں بتانا چاہتے تو مت بتاؤ اب میں کیابتاتا کہ چھوٹی بہن کی پھدی پر ہاتھ مارتا رہا ہوں میں نے بولا کچھ نہیں تھوڑی دیر ریسٹ کروں گا تو فریش ہوجاؤں گا بولی ٹھیک ہے لگتا ہے میرے گفٹ کا زیادہ ہی شدت سے انتظار ہے جو تم کو کچھ بھی اور اچھا نہیں لگ رہا میں بولا ایسا کچھ نہیں بس تھکاوٹ ہے بولی اچھا آج رات تم کی تھکاوٹ اتار دے گی میں بولا کو ن بولی سرپرائس ہے۔ میں بولا ٹھیک ہے جی جاتے ہوئے بولی تھوڑا آرام سے ابھی چھوٹی عمر کی ہے۔ چھوٹی عمر کاسن کر میرے نیچے ہل چل ہونے لگ پڑی اور میں یہ بھی بھول گیا تھا کہ ابھی کیا کرکے آرہا ہوں۔ پھر نمو آئی کمرے میں بولی ہوگئی تم لوگوں کی شاپنگ میں بولا ہوگئی ہے اس کے لیے بھی ایک سوٹ لایا تھا اس کو دے دیا تو وہ میرے گلے لگ گئی اور شکریہ بولا لیکن آج اس میں وہ گرم جوشی نہیں تھی جو ہوتی تھی جب میں اس لیے کچھ لاتا تھا شاہد صبح والی بات کی وجہ سے۔ پھر وہ چلی گئی۔ شام تک میں روم میں ہی رہا کیونکہ عائشہ اور نور کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی لیکن جو کام ہوا ہے اس کے لیے معافی تو مانگنی ہے پھر چاہے وہ معاف کریں یا نہ لیکن ابھی مجھے دعوت پر جانا تھا اس لیے جلدی سے تیار ہوا اور چچا کے گاؤں کی طرف چل دیا ان کی طرف دعوت تھیں ان کا گاؤں ساتھ ہی ہے۔
جاری ہے
0 Comments