عشق آوارہ
قسط 1
میرا نام نعیم ہے ۔۔۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا
میرے والد صاحب ریلوے میں جاب کرتےتھے۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گرایجوایشن کے لیے مجھے لاہور جانا تھا
اکلوتا ہونے کی وجہ سے میرے گھر والے مجھے ہاسٹل میں بھیجنے کے سخت خلاف تھے۔۔ بقول اماں کے ہوسٹل کے کھانے کھا کر میری صحت کا ستیاناس ہو جاناتھا
میری صحت ماشا ء اللہ کافی بہتر تھی ۔۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت چسکا تھا۔۔ کالج کی لائبریری سے لیکر آنلائن ریڈنگ تک۔۔ میں نے ہر طرح کی بکس پڑھ رکھی تھیں ۔۔ انٹر کے پیپرز کے بعد مجھے کہیں سے سیکسی رسالہ مل گیا
اس عمر میں ایسی چیزیں کسے نہیں پسند ہوتیں۔۔ لیکن میں ہر چیز کو علم کی حد تک پڑھتا تھا اور اس وقت تک کسی منفی سرگرمی میں نہیں تھا
میرے بس دو ہی شوق تھے ۔۔۔ ایکسرسائز اور بکس ریڈنگ
بکس نے میرے علم میں بہتری لائی اور ایکسرسائز نے میرے سٹیمنا میں
ابھی لاہور کہاں رہائش رکھنی ہے اس پر بحث ہو رہی تھی کہ ایکدن میری اماں کے میکے گاوں سے انکی سہیلی کسی کام سے ہمارے گاوں آئی ۔۔ جب اسے پتہ چلا تو اس نے بتایا کہ اسکی کزن شازیہ کا لاہور میں ڈبل سٹوری گھر ہے جہاں وہ اپنے میاں بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہے
اسکا میاں اور بیٹا دونؤں ٹرک ڈرائیور ہیں آور لاہورسے کراچی کوئٹہ پشاور تک لمبے پھیرے لگاتے ہیں اور ہفتوں گھر نہیں آتے ۔۔ اور وہ اکیلی خواتین اکیلے رہنے سے بھی پریشان ہیں کہ زمانہ خراب ہے اور کرایہ داروں سے بھی ڈرتی ہیں کہ جانے کون کیسا ہو۔۔۔انہوں نے اماں کو تسلی دی کہ گھبراو نہیں وہ شازیہ آنٹی سے بات کریں گی اور پھر انہیں بتائیں گی ۔۔۔ میری آزادی کی ساری خواہشیں دم توڑنے کو تھیں لیکن کیا کرتا ۔۔
چند دن بعد اماں کی سہیلی کا فون آیا کہ سب بندوبست ہو گیا ہے انکی کزن جو اماں کو بھی جانتی تھی بہت خوش ہوئیں کہ گھر کا بچہ مل گیا آسرا رہے گا
اور یوں ایک دن میں اپنے ابا کےساتھ لاہور روانہ ہو گیا میرے ساتھ ماں کی بہت سی دعائیں اوربہت سی پنجیریاں بھی ہمراہ ھیں
ابا مجھے لاہور چھوڑنے آئے ۔۔۔ شاہدرہ میں انکا گھر تھا ۔۔۔ ہم صبح گیارہ بجے پہنچے ۔۔۔ آنٹی شازیہ نے بہت خوشی سے ہمارا استقبال کیا۔۔ اور مجھے ساتھ لگا کر بولیں بہت چنگا ہویا تم یہاں آ گئے ۔۔۔ وہ جانے کیا سوچ کر مجھے ساتھ لگا رہیں تھیں مجھے اپنا پتہ ہے کہ مجھے عجیب سا احساس ہواجیسے کچھ انہونی سی
دوپہر کے کھانے کے بعد ابا واپس چل دیے ۔۔۔ تب تک آنٹی شازیہ سے ہی باتیں ہوتی رہیں ۔۔ انکی بہو کسی سہیلی کی شادی کی شاپنگ کے لیے اسکے ساتھ گئیں تھیں
ابا کے جانے کےبعد آنٹی نے کہا آو تمہیں تمہارا کمرہ دکھاوں ۔۔ دو منزلہ گھر تھا جسکی اوپر والی منزل پر دو کمرے ایک ہال اور کچن باتھ تھا۔۔۔ میں نے شکر کیا کہ پرائیویسی ہے ۔۔۔ میں نے کہا میں اوپر والی منزل پر رہائش رکھوں گا۔۔۔
انہوں نے کہا جیسے تمہاری مرضی ۔۔ بے شک اوپر سو جانا لیکن رہنا نیچے بھی ہم اکیلے رہ رہ بور ہوتیں ابتک
میں نے نوٹ کیا کہ ابا کے سامنے بڑی چادرمیں آنٹی شازیہ اب گھریلو دوپٹہ میں اتنی بڑی نہیں لگتی تھیں جتنا میں نے سوچا سمجھا تھا
تھوڑی سی موٹو ۔۔ چالییس سال کے آس پاس ای لگتی تھیں
انکی سب سے اہم چیز انکا بھاری سینہ تھا جو اتھل پتھل کرتا رہتا تھا
شام کے وقت میں اوپر اپنا سامان سیٹ کر رہا تھا ۔۔۔ ہال کو ایکسرسائز کےسامان سے سجایا۔۔ ایک کمرےکو سٹڈی روم اور اپنے نےاچھے برے ناولوں کو سجایا اور چھپایا
جب باہر دروازے پرکسی جے بیل دی
گھر کا اکلوتا مرد ہونے کی وجہ سے میرا فرض بنتا تھا کہ دیکھوں باہر کون ہے
میں نے منڈیرسے نیچے جھانکا
افففف جیسے ہی میں نے نیچے دیکھا ۔۔ کوئی لڑکی جھکی دروازے کے پاس سامان رکھ رہی تھی۔۔۔ دوسری لڑکی ٹیکسی میں بیٹھی اسکے دروازہ کھلنے اور اندر جانے کے لیے انتظار کر رہی تھی
لڑکی کے جھکنے سے ۔۔ اوپر سے بلکل اسکی کلیویج واضح تھی ۔۔۔ اور کلیویج کے ایک طرف لال رنگ کا تل ۔۔۔ دال چنےکے برابر تل۔۔۔
میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ہی آنٹی کی بہو ہیں
اففففف اسکا تل۔۔۔ میری جوانی کو دھڑکا گیا
جاری ہے