Ishq Aawara - Episode 2

 

قسط 2

کچھ دیر کے بعد مجھے آنٹی نے نیچے سے آواز دی

اور میں ہلکا سا سر میں نیچے کو چلا گیا۔۔۔ سامنے برآمدے میں آنٹی پلنگ پر نیم دراز لیٹیں تھیں ۔۔۔ چادر بس نام کی لی ہوئی ۔۔۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کھسک کر جگہ بنائی اور کہا ادھر آ جاو بچیا ۔۔ اور میں انکے پائنتی سائیڈپر سکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔ سامنے کرسی پر وہ ہی لڑکی بیٹھی تھی ۔۔ شانے پہ دوپٹا اٹکا ہوا جو کوشش کے باوجود انکے بھاری ابھاروں کو چھپانے میں ناکام ہو رہا تھا

وہ لڑکی آنٹی کو شاپنگ دکھا رہی تھی ۔۔ آنٹی نے مجھے مخاطب کیا یہ عمبرین ہے میری بہو تمہاری بھابھی ۔۔ اور عمبرین یہ نعیم ہے بتایا تھا نا میں نے تمہیں

بھابھی نے میری طرف دیکھا اور سمائل دی ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھایا

میں تھوڑا سا جھجھکا اور پھر ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔ افففف جیسے ہی انکا ہاتھ تھاما جیسے ننگے تار کو چھو لیا ہو پورے بدن میں جیسے کرنٹ سا دوڑا

پھر میرے اندرمیرا فطری اعتماد جاگا اور میں نے ہاتھ کھینچتے ہوئے انگلی سے ہلکا سا ہتھیلی کو مس کیا

انکے چہرے پر ایک رنگ سا گزرا

کچھ دیر بعد وہ کھانا بنانے میں مگن ہو گئیں ۔۔۔ اور خالہ مجھے اپنے گاوں کی اور میرے اماں کی کہانیاں سناتی رہیں

ایسے میں انکا جسم تھرتھراتا اور بھاری مومے اور چوتڑ ہلتے 

شام کے کھانے کےبعد ۔۔۔ میں اٹھنے لگا تھا کہ آنٹی نے کہالو تم جا رے ہو ۔۔۔ اتنی رونق لگی تھی ۔۔ آو اندر بیٹھتے باہر ہلکی ٹھنڈ ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ مجھے لیے عمبرین کے کمرے میں آ گئیں

سامنے بیڈ سجا پڑا تھا۔۔۔ کارنر پربھابھی اور انکے بندے کی فوٹو لگی پڑی تھی ۔۔ بہت ہی عام سا بندہ تھا بھابھی سرخ لہنگے میں قیامت ڈھا رہی تھیں ۔۔ دلہن فوٹوز کے ٹیبل فریم پہ سجی انکی تصویر جس میں سرخ تل ہلکی سی چھب دکھا رہا تھا

تھوڑی دیر بعد بھابھی بھی آ گئیں ۔۔ بات کرتے جب بھی میری نظر ان سے ٹکراتی وہ نگاہ پھیر لیتیں

تھوڑی دیر بعد بھابھی بولیں ۔۔۔ اماں آپ دوائی کھا لیں آپکی طبیعت نہیں ٹھیک اور انکے قریب آکر انہیں دوائی کھلانے لگیں ۔۔۔ ہلکاجھکنے سے انکا کلیویج اور دمکتے بوبز۔۔۔ 

میری نظر رک گئی ۔۔ شائد انہیں اندازہ ہو گیا تھا وہ جلدی سے سیدھی ہوئیں

اور ہلکا سا گھورا ۔۔۔ کچھ دیر بعد خالہ بولیں ارے عمبرین چائے بنا لا ۔۔ سر پھٹا جا رہا ۔۔ آنٹی نےدونوں ہاتھوں سے سر دبایا

بھابھی چائے بنانے چلی گئیں ۔۔ تو میں نے کہا شکرہے آپ چائے بولی ۔۔۔ میری بہت عادت۔۔ تب وہ ہنسی اور بولیں تو بتا دیتے نا نعیم ۔۔ تم اس گھر کو اپنا گھر سمجھو جو دل کرو۔۔ میں نے کہا واہ جی

اور تھوڑی ہمت کر کے کہا ۔۔ آپ کس چیز کی دوائی کھاتی ہیں۔۔ کہتیں بلڈ پریشر کی۔۔ میں نے کہا اوہ۔۔ اتنی کم عمری میں بلڈ پریشر شوٹ کرجاتا۔۔ میں نے مکھن لگایا۔۔۔لو بڈھی ہو گئی اب تو میں انہوں نے مایوسانہ جواب دیا

ارے نہیں کب۔۔۔ آپ تو لگتی نہیں بھابھی کی ساس۔۔ بڑی بہن لگتیں بس۔۔۔ ایسا کہنے سے وہ اچانک کھل اٹھیں ۔۔ میں نے اگلا تیر چلایا اور کہا سچی آپ بہت گریس فل ہیں سچی

افففف وہ جیسے شرما سی گئیں اور کہا چل جھوٹے

میں نے کہا سچی ۔۔ آپ تو ابھی جوان ہیں ایسا کہتے میری نظر انکے بھاری سینے پر تھی

انہیں بھی احساس سا تھا۔۔ ایک چمک انکی آنکھوں میں لہرائی جیسے شکاری کی آنکھوں میں شکار دیکھ کر

اور کہا اچھا جی۔۔۔ کیا کیا گریس ہے انہوں نے ہلکا جھک کر پوچھا

ابھی میں بتانے لگا تھا کہ بھابھی کے قدموں کی آہٹ سے وہ سیدھی ہوئیں اور ذرا الگ ہو کر بیٹھ گئیں

میرےکتابی علم نے بتایا کہ کچھ دال میں کالاہے

چائے پیتے سمے وہ عام باتیں کرتی آئیں ۔۔ پھر میں نے کہا چلیں آپ ریسٹ کریں میں بھی چلتا ہوں

تب وہ بھی اٹھیں اور کہنے لگیں۔۔ میں بھی چلتی ہوں اپنے کمرے میں ۔۔ یہ تو عمبر کا کمرہ ہے ۔۔ اور میرے ساتھ ہی چل دیں۔۔ بھابھی الماری کھولے ساری شاپنگ اندر رکھنے میں بزی ہو گئیں

باہر نکل کر میں زینوں کی طرف جانے لگا تو انکی آواز آئی

بہت بے مروت ہو بھئی۔۔ یہ بھی نہیں کہا آنٹی آپکوکمرے تک چھوڑ آوں طبیعت خراب میری۔۔ 

میں شرمندہ ہوا اور کہا چلیے نا۔۔۔ برآمدے کے اینڈ پر انکا کمرہ تھا۔۔۔ آو تمہیں اپنا کمرہ دکھاوں ۔۔وہ مجھے دعوت دیتی اندر گئیں ۔ انکے کمرے میں بھی انکی تصویر ٹنگی تھی ۔۔ کچھ سال پہلے کی ۔۔میں نے کہا واہ کیا کمال تصویر ہے

تب وہ مڑیں اور کہا یاد آیا ۔۔ اب بتاو کیا گریس نظر آئی

میں تھوڑا سا جھجکا۔۔۔اور کہا آپ مکمل گریس فل ہیں

لو یہ کیا بات انہوں نے ہلکا سا ابرو خم کیا ۔۔ شرماو نہیں

توبہ تم کتنے شائی ہو انہوں نے میرے رخسار کو چھوا افففف انکا رخسار چھونا تھا کہ مجھے جھرجھری سی آ گئی ۔۔۔انکا لمس آتشین تھا ۔۔۔ میں نے تھوک نگلا اور کہا ۔۔ تو بتا دوں ۔۔۔

مرے اندر پھر ہمت جاگی ۔۔ میرا کتابی علم مجھےالارم دے رہا تھا

آپ غصہ کر گئی تو

لو اپنی تعریف پر کون غصہ کرتا۔۔انہوں نے مجھے بڑھاوا دیا

میں نے ہمت کر کے کہا ۔۔۔ آپکا فگر بہت کمال کا ہے ہیوی فگر ۔۔ لوونگ

وہ ایک لمحے کو چپ سی ہوئیں جیسے اتنی تیزی کی انہیں امید نا ہو

امید مجھے بھی کہاں تھی۔۔بس بول دیا تو بول دیا

اگلے لمحے انکے گال گلابی ہوے سفید گولو چہرہ سرخ انار سا

اور انکی آنکھوں میں پھر وہ ہی چمک لہرائی

وہ بولیں بد تمیز

میں نے جان بوجھ کر منہ بنایا اور کہا دیکھا ڈانٹ دیا نا

ارےکب ۔۔۔ وہ میرے پاس آئیں اور کہا یہ لاڈ سے کہا

میں نے ہمت پکڑی اورکہا ۔۔۔ تو لاڈ سے ایک بات میں بھی پوچھ لوں

انہیں شائد اندازہ ہو گیا تھا کککک کیا بات ۔۔ انکی آواز لرزی

میں نے کہا۔۔۔ اس گریس فل چیز کا سائز کیا ہے

میں نے آخری حد تک ہمت جمع کر کے آر یا پار سوال پوچھ لیا

وہ چپ ۔۔۔۔مجھے لگا کچھ غلط ہو گیا۔۔میں سر جھکائے باہر نکلنے لگا دروازہ کھول کر میں دو قدم باہر نکلا تھا کہ انکی آواز آئی ۔۔۔ بدھو لڑکے

میں پیچھے دیکھا ۔۔وہ دروازے کے بلکل پاس لگی کھڑی تھیں۔۔۔ اور انہوں نے کہا ۔۔۔ اسکا سائز چالیس ہے

ساتھ ہی شرما کر دروازہ بند کر لیا

میرا دل دھڑک اٹھا ۔۔۔ اور دل میں نعرہ گونجا وہ مارا

اپنے کمرے میں آکر اسی بارے سوچتا رہا

مجھے لگنےلگا کہ آنٹی بچے باز ہے۔۔۔ اور میرے جیسا بچہ جو کافی کلین بھی ہے گھر میں بھی ہے بہترین شکار تھا

ٹراوزر میں میرا لن انگڑائیاں لینے لگا۔۔ اچانک کمرے میں کسی بیل کی آوز سنائی دی

میں نے ادھر ادھر دیکھا تو سائیڈ ٹیبل پر فون بج رہا تھا

میں کچھ دیر انتظار کیا ۔۔ میں گاوں کا بندہ ۔۔ کسی کا گھر جانےکس کا فون ہو

کچھ دیربیل کے بعد فون بند ہو گیا

میں پھر آنٹی کو سوچتے لن کو سہلانے لگا۔۔۔ متواتر ایکسرسائز کی وجہ سے میری باڈی کے ساتھ ساتھ لن بھی کافی جاندار تھا

جسکی سب سے نمایاں چیز اسکی موٹی ٹوپی تھی ۔۔ باقی سائز نارمل تھا بہت زیادہ نہیں لیکن ٹوپی کافی موٹی جیسے کسی ناگ کا پھن

انہی خیالوں میں گم تھا کہ سیڑھیوں پر سے آواز آئی نعیم 

میں چونک کر بولا جی۔۔۔ یہ بھابھی تھیں۔۔ کمبل لے لو سیڑھیوں پر آ کر وہ وہیں سے بولیں

میں ویسے ہی کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔ وہ سیڑھیوں پر دو قدم نیچے کھڑی تھیں

جاگ رہے تو انٹر کام کیوں نہیں اٹھایا ۔۔ لائٹ جلتی دیکھ کر آواز دی 

کمبل رکھنا بھول گئی تھی رات ٹھنڈ ہو جاتی نا

اوہ میں سمجھا فون ہے مجھے انٹر کام کا نہیں پتہ

میں صحن میں روشنی میں کھڑا تھا اور وہ ہلکے اندھیرے میں

مجھے لگا بات کرتے کرتے انکی نظر میرے ٹراوزر پر رکی اور وہ جیسے چونکی ہوں جلدی سے نظر گھما کر انہوں نے بلینکٹ دیا اور کہا بیل دیتی ہوں فون سن لینا

میں کمبل لیے اندر آیا تو میری نظر سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر پڑی

میرا نیم اکڑا لن اور اور اسکا پھن یعنی ٹوپہ۔۔ٹراوزر میں کافی واضح تھا

افففف اسلیے بھابھی چونکی ۔۔۔ اتنے میں بیل پھر بجی

دوسری طرف بھابھی تھیں

انہوں نے مجھے انٹرکام کا بتایا اور کہا کبھی کوئی اچانک کام ہوتو انٹرکام یوز کر لینا اسکا دوسرا سیٹ میرے کمرے میں ہی ہے

میرے اندر جیسے ڈھول سے بجے۔۔۔

میں نے شکریہ کہا

اور کہا جی ضرور

تب انہوں نے دو چار باتوں کے بعد کال کاٹ دی

اگلی صبح میری آنکھ دیر سے کھلی گیارہ ہونےوالے تھے تو جسم ایکسرسائز کے لیے ٹوٹ رہاتھا دیر سہی لیکن کچھ ورزش تو کرنی تھی نا

میں نےہال میں ہی ٹیبل پرٹانگیں جما کر ڈنٹر شروع کر دیے

ساتھ میرا ذہن آنٹی اور بھابھی کے بارے سوچ رہا تھا

وارم اپ کے بعد میں نے شرٹ اتاری اور پریکٹس کرنےلگا۔۔۔کانوں میں ہینڈ فری لگا کر تیز دھن پر ایکسرسائز

اچانک مجھے کسی نے چھوا۔۔میں چونک کر پلٹا تو ایک گداز جسم سے ٹکرایا

وہ بھابھی تھیں۔۔ کب سے آوز دے رہی آنٹی ۔۔اور تم یہاں پہلوان بن رہے۔۔۔ انہوں نے گڑ بڑا کر کہا۔۔۔ ہم بلکل ساتھ لگ تھے

میرا پسینہ پسنہ جسم اور خالص جسم کی خوشبو

وہ جیسے لال گلابی۔۔ جلدی سے آو آنٹی ناشتے پر ویٹ کر رہیں

وہ تیزی سے پلٹیں ۔۔۔سیڑھیوں کے پاس رکیں انکی نظر میرے ٹراوزر سے ٹکرائی میں انجان بنا رہا۔۔ اچھل کود سے لن بھی ایکٹوتھا

کچھ دیر بعد جب میں نچے گیا تو آنٹی سامنے بیٹھی تھیں

اففف آج تو وہ غضب ڈھا رہیں تھیں

انکی قمیض کا گلا کافی کھلا تھا ۔۔۔ موٹے بوبز ابل رہے تھے

میری آنکھیں جمیں تو انہوں نے مجھے گھور کر بھابھی کا احساس دلایا

اور اپنے پاس جگہ دی۔۔۔ بھابھی ناشتہ لینے گئیں تو میں نے کہا

کیسی طبیعت ےہےگریس فل لیڈی کی

آج تو غضب ڈھا رہیں

انہوں نے ہولے سے کہا ۔۔۔ بدھو گریس فل کےساتھ میں ساس بھی ہوں دھیان سے

اور بہت بہتر ہوں

کہیں جانے کا ارادہ ہے کیا میں نے چھیڑا



جاری ہے


*

Post a Comment (0)