عشق آوارہ
قسط 17
کچھ دن زندگی کا حاصل ہوتے ہیں ایسا ہی وہ بھی دن تھا۔۔جنوری کی سات تاریخ ۔۔ اتوار کا دن۔۔ رات کا کھانا کھا کر ہم تینوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے ۔۔
جنوری کی رات ۔۔ گو ابھی آٹھ بجے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جانے آدھی رات گزر چکی ہو۔۔ صبح کی تیاری کے متعلقہ چھوٹے موٹے کام نپٹا کر میں نے کپڑے بدلے نیند کا نشان دور دور تک نا تھا۔۔۔میں باہر کھلی چھت پر کھلے آسمان تلے چارپائی چارپائی بچھا کر لیٹ گیا۔۔ اس ایج میں سردی گرمی کی کسے پرواہ ہوتی۔۔اوپر آسمان پر چودھویں کا چاند جگمگا رہا تھا۔ ۔۔ میں زندگی کے بدلتے رنگوں پرغور کر رہا تھا ۔۔ مجھے ابھی لاہور آئے مہینہ بھر ہونے والا تھا۔۔اور میں بہت سے رنگ دیکھ چکا۔۔ جسمانی تعلقات سے آگاہی ۔۔۔ کالج کا ماحول ۔۔۔ بیلا جیسی لڑکی سے دوستی ۔۔ کومل جیسی شوخی کے ساتھ ڈیٹ ۔۔۔اور ان سب سے بڑھ کر عمبرین کا وجود۔۔۔ جیسے ہی عمبرین کا خیال آیا
میرے اندر جلترنگ سی بج اٹھی میں کچھ دیر سوچا اور پھر اندر کمرے میں جا کر انٹرکام سے سنگل بیل دی۔کچھ سینکنڈز کے بعد انٹرکام بجنے لگا۔۔کال ریسیو کی تو عمبرین پوچھنے لگی جی جناب حکم ۔۔ میں نے کہاحکم کیسا بس سوچا دوست کا احوال لے لوں۔۔ کیا ہو رہا تھا۔۔ کہتیں کیا ہونا ہے بس کیبنٹ کھولا ہوا تھا سوچا تھوڑی سیٹنگ کر لوں اتنا بکھیڑا تھا۔۔میں نے انہیں ستانے والے انداز میں کہا آپ کی کیبنٹ کا کیا بکھیڑا نائلہ کی شادی ہے علاوہ کبھی آپکو تیار دیکھا تو نہیں۔۔ وہ بولیں بس مجھے عادت ہے سادہ رہنے کی کوئی فنکشن ہو تو ہو۔۔۔میں نے ہمت کر کے کہا پتہ ہے پوری شادی پہ وویمن آف دی میرج کون تھی ۔۔۔وہ بولیں نائلہ ۔۔ میں نے ہنستےہوئے کہا نالائق وہ تو دلہن تھی نا۔۔ اسکے علاوہ پورے فنکشن میں کون گریس فل تھی ۔۔ کون سب سے جدا سب سے حسین لگ رہی تھی ۔۔ وہ تجسس سے بولیں کون۔۔ میں نے کہا آپ غصہ کر جانا۔۔ وہ اصرار کر کے بولی اب یہ غلط بات ہے میرا تجسس جگا کر اب بات چھپا رہےہو۔۔ میں نے کہا اچھا نا بتاتا۔۔آپ یہ بتاو آپکو چاند کیسا لگتا ۔۔ وہ بولیں چاند کسے نہیں اچھا لگتا ۔۔ میں چاند بہت دیکھا کرتی تھی۔۔ تم بات مت گھماو ساتھ ہی وہ میری سازش سمجھ گئیں۔۔ میں نے کہا میں بات گھما نہیں رہا آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ آج پورے چاند کی رات ہے ۔۔ آئیں چودھویں کے چاند کے نیچے میں آپکو بتاتا ہوں کون تھی سب سے حسین ۔۔۔ وہ بگڑ کر بولیں جی نہیں۔ تم ابھی بتاو گےاور میں چھت پر بلکل نہیں آوں گی۔۔میں نےاسی طرز پر جواب دیا کہ واہ دوستی کا دعوی بھی اعتماد بھی نہیں ۔۔ وہ بات کاٹ کر بولیں بات اعتماد کی نہیں ۔۔ بات روایات کی مناسب نہیں لگتا نا۔میں نے ضد لگا کر کہا بس۔۔ آپ کو جاننا ہے تو آپ آ کر چاند کے نیچے ہی سنیں گی ۔۔میرا وعدہ ہے میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپکا اور انٹرکام رکھ دیا۔۔ میرا دل جیسے کسی دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔۔ بڑا عجیب سی بات تھی ۔۔ آنٹی اور کومل کے ساتھ ہر حد سے گزرنے کے دوران میں بلکل بھی کنفیوز نہیں ہوا نا میرا دل ایسے دھڑکا ۔۔ جیسے اب حال تھا۔۔ یہ انکا رعب تھا انکی کشش تھی ان سے دوستی تھی یا لگن ۔۔ جیسے وقت تھم گیا ہو جیسے کوئی سب کشتیاں جلا کر بیٹھا ہو ۔۔ میں باہر کھلے صحن میں پہلے والی چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔۔ کچھ دیر گزری مجھے ایسے لگا کسی نے سیڑھیوں والے دروازے کو آہستگی سے کھولا ہے ۔۔۔میرا دل پھر سے پھڑکنے لگا انگ انگ منتظر نظریں سیڑھیوں پر جمی ہوئیں اور پھر جیسے اندھیرے سے روشنی کی پہلی کرن۔۔ جیسے صدیوں کے پیاسے کے لبوں پر پہلا قطرہ آب۔۔ جیسے کھوئے ہوئے کو منزل کا اشارہ ملے ۔۔۔ انکا ہیولہ آہستہ آہستہ سے اندھیرے سے نکل کر چاندنی میں نکل آیا۔۔ انہوں نے چپل اتار کر ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی اور چہرے پہ ہلکا سا غصہ ۔۔ میں تڑپ کر اٹھا اور انکے پاس گیا ۔۔ اور کہا پاگل ہو گئی ہو اتنی سردی میں ننگے پاوں۔ وہ شکوے سے بولیں پاگل تو تم ہو گئے ہو بھلا ایسے کرتے ہیں ۔۔ میں نے بے ساختگی سے انکے ہاتھوں سے چپل لی اور ان کے پاوں کے پاس رکھ کر کہا پلیز پہن لیں نا۔۔ وہ اسی لہجے میں بولیں۔۔۔ میں اب نیچے جا کر اکھٹے ہی پہنوں گی بتاو جلدی سے ۔۔ میں نے کہا بتاتا ہوں جوتے پہنیں ۔۔ وہ چاند دیکھیں تو۔۔ میں نے ضد سے جوتے پہنوا کر انہیں کہا انہوں نے ایک نظر اٹھا کر چاند کو دیکھا اور کہا اب بتاو نا۔۔۔ میں انکے سامنے زمین پر گھٹنا لگا کر اپنےسینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ اس کھلے چاند کے نیچے ۔۔میں اس چاند کی گواہی میں یہ سچ کہہ رہا ہوں کہ میں رکا انہوں نے ابرو اچکاکر پوچھا آگے ؟؟
میں نے اسی طرح حلفیہ انداز میں ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور چہرے کو جھکا کر۔۔۔ دوسرے ہاتھ سے انکی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ وہ حسین ترین لڑکی اس وقت بلکل میرے سامنے ہے ۔۔ کسی ملکہ کی طرح شان سے کھڑی اور ہم یہ اظہار کر رہے کہ آپ جیسا کوئی نہیں نا شادی میں نا لہور شہر نا کہیں اور۔۔۔ کچھ دیر جیسے ہر طرف سکوت چھا گیا۔۔ الفاظ زبان سے نکل چکے تھے اب اثر باقی تھا۔۔کچھ دیر بعد میں نے سر اٹھایا وہ بلکل سامنے چپ کھڑی تھیں ۔۔ میں نے کہا برا لگا ۔۔وہ بولیں نہیں ۔۔ میں نے کہا تو ۔ کہتیں بس ویسے ای۔۔ میں نے کہا یہ ویسے ہی کیا ہوتا ہے میں نے کچھ غلط نہیں کہا اور نا ہی یہ بدتمیزی کے زمرے میں وہ بولیں اچھا ٹھیک ہے اور جانے کو مڑیں۔۔ میں فورا اٹھا اور انہیں آواز دی رکیں عمبرین۔۔وہ ٹھٹھکیں میں آہستہ سے چلتا ہوا انکے پیچھے آیا۔۔اور کہا ہر شخص کا اپنا معیار حسن ہوتا ہے ۔۔ میری نظر سے آپ جیسا کوئی نہیں ۔۔ وہ تھوڑا سا ایزی ہو کر بولیں اچھا جی ۔۔ ڈائیلاگ۔۔ میں تڑپ اٹھا اور کہا پلیز مجھے شوخا کہتیں ہیں اب خود بے وقت شوخی نا ماریں ۔آپ کے اندر جو گریس جو رعب جو سادگی سیرت صورت سب یکجا ہے ۔۔ آپ انمول ہیں ۔۔وہ ہلکا اداسی سے مسکرائیں اور کہا میں انمول کہاں ہوں۔۔میرےخاوند نے پورے دو ہزار حق مہرسے میرا بول لگایاہے ۔۔ میں نے کہا وہ بول نہیں ہے نا ہی آپ باندی ۔۔ آپ آزاد عورت ہیں پورے حق گھر اور ذمہ داری کے ساتھ انکی بیوی۔۔ خود کو ارزاں نا کریں پلیز۔۔ میرے الفاظ جیسے بھیگ سے گئے ۔۔ وہ بولیں ارزاں نہیں کر رہی ۔۔ تم نہیں جانتے۔۔ تمہیں نہیں پتہ ۔۔اور آگے کو بڑھنے لگیں میں چپ شاک میں انکے الفاظ انکے اندر چھپے کسی الاو کا پتہ دے رہے تھے۔۔ سیڑھیوں کے پاس جا کر وہ رکیں تھوڑا پلٹ کر آنکھوں میں ہلکی سی چمک تھی شائد کوئی آنسو۔۔ شائد چھبن شائد پلک ٹوٹی ۔۔ وہ بولیں کبھی کبھی کچھ اظہار کچھ تعریفیں کچھ انداز دیرسے ہوتے ہیں ۔۔ تم نے منیر نیازی کی وہ نظم پڑھی ۔۔ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے یہاں سب اتنا جلدی ہوا کہ اب سب دیر ہے یا اندھیر ہے۔۔ لیکن وہ بولتے رکیں ۔۔۔مجھے تمہارا ایسا کہنا اچھا لگا انکے لب مسکرائے ایسا لگ جسے حبس آلود کمرے میں کوئی ذرا بھر کو کھڑکی کھلے اور تازہ جھونکا ہوا کا۔۔ اور ساتھ ہی چپل اتار بھاگتی نیچے کو اتر گئیں۔۔میں جیسے ایک عجیب سے حال میں ۔۔ انکی باتیں انکی حساسیت انکے اندر کا دکھ ۔۔اور جاتے جاتے اک امید کا دیا سا۔۔میں کافی دیر کھلی چھت پر چارپائی پہ لیٹا رہا۔۔ اندر جیسے دھواں سا۔۔ انکی آنکھوں کی وہ چمک ۔۔۔مجھے بنا جانے انکےدکھ نے بہت دیر جگائے رکھا ۔۔ جانےرات کا کونسا پہر تھا جب میری آنکھ کھلی میں ویسے ہی باہر چارپائی پر بنا بستر کے پڑا تھا۔ میں اٹھا اور جا کر اندر لیٹ گیا۔۔صبح جب میری آنکھ کھلی جسم میں ہلکا سا درد اور ہلکا بخار اور آنکھوں میں جلن۔۔ سوموار تھا ۔۔ جانا بھی ضروری تھا۔۔ دل عجیب بجھا بجھا سا تھا۔۔میں بے دلی سے تیار ہوا اور نیچے چلا گیا۔۔ آنٹی ابھی کمرے میں ہی تھیں۔۔وہ آرام سے دس بجے اٹھتیں تھیں۔۔ اسوقت ناشتہ چائے عمبرین ہی مجھے دیا کرتی تھی۔۔میں نیچے آیا تو وہ کچن میں کھڑی چائے پی رہیں تھیں۔۔ انکی آنکھیں بھی سرخ شائد روئی آنکھیں یا نا سوئیں آنکھیں ۔۔ ایک خاموشی سی حائل تھی دونوں کے درمیان۔۔ ظاہری طور پر میں نے صرف انکی تعرف کی تھی لیکن وہ بے شک تئیس کی تھیں لیکن شادی شدہ اور سیانی لڑکی تھیں۔۔وہ اس ایک اظہار سے اس راستے کی منزل تک پہنچ چکیں تھیں۔انہوں نے ناشتہ ٹیبل پر رکھا۔۔ میں خاموشی سے آگے بڑھا اور خالی چائے کا کپ اٹھا کر پینے لگا۔۔۔وہ کچھ نا بولیں۔۔دو چار گھونٹ بھر کر میں چپ باہر نکل کر کالج کو چلا گیا
سارے راستے مرا موڈ خراب رہا۔۔کالج میں بھی میں سنجیدہ سنجیدہ چپ چپ ۔۔ تین پیریڈز کے بعد چوتھا پیریڈ خالی تھا۔میرا سر شدید درد اور جسم ٹوٹنے کو تھا۔۔ رات جو باہر لیٹ کر لاپرواہی کی اس نے اثر تو کرنا تھا۔۔ میں چپ کالج گراونڈ میں گھاس پر بیٹھا ہوا تھا۔۔وقفے وقفے پر طلبا کی ٹولیاں بیٹھی ہوئی تھیں لیکن آج مجھے کچھ بھا نہیں رہا تھا۔۔ میں نے بیگ کو سر کے نیچے رکھا اور دیہاتی انداز میں بنا کسی نخرے کے گھاس پر لیٹ گیا۔۔ سردی میں دھوپ سب کو ہی بھاتی ہے اور اگر سردی کا بخار ہو تو زیادہ ہی بھاتی ہے ۔۔ میں گم صم پڑا تھا کہ کسی نے میرے کان میں گھاس کا تنا پھیرا۔۔ میں جو پہلے ہی ڈپریسڈ تھا غصے سے اٹھا اور کچھ الٹا سیدھا بولنے ہی لگا تھا کہ چپ ہو گیا سامنے بیلا تھی۔۔ کہتی کیا بات ہے جناب کدھر گم صبح سے چپ چپ خیر تو ہے نا۔۔ میں نے کہا ہاں بس ویسے ہی تھوڑی طبیعت خراب۔۔
وہ بے تکلفی سے میرا بازو پکڑ کر بولیں حد ہے یار ۔۔۔ اتنی لاپرواہی تمہیں تو کافی بخار ۔۔دوائی لی ۔۔ میں نے مٹکے جیسا سر ہلایا ۔۔ وہ چڑ کر بولی مجھے امید تھی اٹھو ۔۔میں شائد نا اٹھتا لیکن بیلا چیونگم ک طرزح بس چپک ہی گئی۔۔۔اور مجھے اٹھا کر کالج کینٹین لے گئی کینٹین والے کے پاس سے پیناڈول لی اور مجھ سے پوچھا کچھ کھایا ۔۔ میں چپ تب وہ بولیں بس بس لگ گیا پتہ اور میرے نا نا کرنے کے باوجود بیلا نے مجھے سینڈ وچ کھلا کر پیناڈول کی دو گولیاں اور چائے کا کپ دیکر ہی سانس لیا۔۔ عجیب سی تھی وہ ۔۔ کبھی کبھی مجھے اس سے چڑ ہوجاتی تھی لیکن آج اسکا یوں توجہ کرنا مجھے بھلا لگا۔وہ واقعی اچھی فیلو اچھی دوست تھی۔۔۔چائے کے بعد ہم دوبارہ لان میں آ کر بیٹھ گئے۔۔ اگلی کلاس لگ چکی تھی لیکن میرا دل ابھی دھوپ میں لیٹنے کو ای تھا۔۔ ہم دونوں وہیں بیٹھے رہے مجھے پتہ تھا بیلا ایسے نہیں جائے گی اسلیے بولا ہی نہیں۔۔ ادھر ادھر اور طلبا جنکے پیریڈز فری تھے یا کچھ دیر بعد تھے اپنی اپنی مصروفیات میں گم تھے۔۔ میں آنکھیں موند کر گھاس پر لیٹ گیا بیلا میرے سے کچھ فاصلے پر ۔۔۔میرا دماغ فکر خیال سب عمبرین کی طرف تھا۔۔میری بار بار کی بےخیالی سے بیلا چڑ اٹھی اور غصے سے بولی اب اگر تم دماغی گم ہوئے تو میں ٹھنڈا پانی پھینک دینا۔۔بڑی مشکل سے اسے بہلایا۔۔ وہ بتانے لگی کہ اسکےماما بابا بہت متاثر تھے تمہاری سادگی سے ۔۔ ماما کہتیں کہ لڑکا لگتا بہت معصوم ہے اب وہ کیا جانیں میری معصومیت کا پردہ چاک ہو چکا تھا۔باتوں ہی باتوں میں اس نے مجھے سے پوچھا کہ میرا ٹریک ریکارڈ کیا ہے۔۔ میں ناسمجھی میں اسکی طرف دیکھ کر بولا وہ کیا ہوتا ہے۔ وہ بولی ٹریک ریکارڈ مطلب تم دوڑ اور سوئمنگ میں حصہ لے رہے ہو۔۔ تمہاری سپیڈ تمہارا سٹیمنا ۔۔۔ سانس پر قابو۔۔پانی کے نیچے سانس روکنا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ میں نے سادگی سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا۔۔ وہ جھلا کر بولیں تو تم کیا سمجھے یہاں کالج میں بھاگو گے تم ۔۔ یا مغلپورہ والی نہر میں کودو گے۔۔۔ غنہ جی اس نے زبان نکال کر کہا۔۔ تمہیں چھانگا مانگا ٹریک پر ریس مقابلہ میں حصہ لینا ہے اور پنجاب کیمپس کے انڈر سوئمنگ پول میں تیراکی کرنی ہے۔۔ میں جو پہلے ہی ادھ موا تھا میرے اور ہاتھ پاوں پھول گئے۔۔ اور مجھے کیڈٹ کالج کے بیڈمنٹن کورٹ میں اپنے جوہر دکھانے ۔۔ میں نے تپ کر کہا مجھے تھوڑی پتہ ان باتوں کا ۔۔ ہم حصہ ہی نہیں لیتے۔۔ میں نے جیسے فوری حل نکالا۔۔۔اسے تو جیسے کسی نے ہنٹر دے مارا ہو۔۔ وہ خالص کھلاڑی تھی۔۔ مقابلے سے نکل جانا اسکے لیے گویا گالی سے کم نا تھا ۔۔ لڑنا اور جیتنےتک لڑنا اسکا اصول تھا۔۔ یہ وہ خودمجھے بتا چکی تھی کہ وہ نا ہار ماننے کی حد تک مقابلہ کرتی ہے۔۔ وہ شاک سے بولی ۔۔۔کیا بخار سر تو نہیں چڑھ گیا۔۔ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں ۔۔۔ لسٹ فائنل ہو چکی ۔۔ میڈم رفعت اس معاملےمیں بہت سخت۔۔ دوسرا وہ مان بھی جائیں مجھے منظور نہیں۔۔ بس ۔۔لیکن مجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔ وہ بولی مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔ میں نے کہا یقین کرو بیلا مجھے کچھ نہیں پتہ ۔۔ ہاں میری سپیڈ اچھی ہے لیکن چپل اتار کر ۔۔ جوتوں میں تو میں آجتک نہیں بھاگا ۔۔ ہاں سانس میرا مضبوط۔۔ پانی کی تہہ میں ڈبکی لگانے میں سارے گاوں سے آگے تھا میں۔۔ اسکی آنکھیں چمکیں اور بولی مطلب صلاحیت ہے بس اسے تیار کرنا ہے۔۔ کم ود می اس نے اٹھتے ہوے کہا۔۔ میں نے کہا بیلا رکو یار میری طبیعت نہیں ٹھیک ۔۔ وہ بے ساختگی سے بولی بکواس نا کر کونسا تمہیں پیریڈز آئے ہوئے اور فورا ہی بول کے تھوڑا کھسیا گئی اور کہتی چلتا ہے یار۔۔ ایسی ہی تھی وہ ۔۔ بے جھجک بول جانے والی ۔۔مجھے لیکر وہ ایڈمن آفس آ گئی۔۔ تعلقات بنانے کا تو اسے فن آتا تھا اور اب تو میڈم رفعت سے ٹانکا بھی نکل آیا تھا وہ ایسے طریقے سے کام نکالتی کہ حیرانگی ہوتی اوراگرجو کوئی پھیلنے لگے تو ایسی رکھائی سے مٹی پلید کرتی کہ الامان۔۔ لیکن جانے کونسی چیز تھی کہ ہماری بن گئی ۔۔ اور بقول میرے خود ہم نون اور غنہ کی جوڑی بن گئے۔۔
میڈم کو ساری سچوئیشن بتائی۔۔ پہلے تو وہ سخت ناراض ہوئیں ۔۔ انکے بقول مجھے میدان میں اترنے سے پہلے تیارہونا چاہیے تھا اور ادھر ہے کہ ہمیں پتہ ہی کچھ نہیں۔۔ان دونوں کے درمیان ایک منطقی بحث چھڑ چکی تھی کچھ باتوں کی سمجھ آتی کچھ سپورٹس کے الفاظ سر کے اوپر سے گزر جاتے اور میں انہیں چپ دیکھے جا رہا تھا۔۔ کچھ دس منٹ کے بعد دونوں کسی ایک نکتے پر متفق ہوئیں۔۔ طے پایا تھا کہ چونکہ بیلا ہی اس بات کی حامی کہ مجھے لازمی حصہ لینا چاہیے تو وہی مجھے تیار کرے اسکے لیے سب سے پہلے ضروری تھا کہ کل میں کالج کے بعد اسکے گھر جاوں ۔۔ شام تک وہاں رننگ مشین پر رننگ کا ٹسٹ دوں ۔۔اور اسکے بعد رننگ کروں۔۔ تھوڑا وارم اپ ہوں۔۔۔میں کیا بولتا اور کون سنتا۔۔۔بیلا نے سب کچھ فائنل کر لیا اور میں مجبورا چپ ۔۔
میں جب گھر پہنچا تو واپسی پر پھر رکشے اور ویگنوں پر ہوا کھاتے میری طبیعت تھوڑی بگڑ گئی۔۔ پینا ڈول سے اتنا ہی اثر ہو سکتا تھا۔ گھر پہنچا تو آنٹی برآمدے میں چاول صاف کر رہیں تھیں ۔۔ میں انکے پاس گیا ۔۔سلام دعا کی۔۔انہوں نے میرے چہرے سے اندازہ لگایا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔ وہ ہاتھ بڑھا کر ماتھے کو چھو کر بولیں ارے تمہیں تو اتنا بخار ہے۔۔۔میں نےکہا بس بے احتیاطی ہو گئی۔۔ یہ بات کر رہے تھے کہ آنٹی کے موبائل کی بیل ہوئی۔۔ آنٹی نے کال ریسیو کیا حال احوال کے بعد جی اچھا کب اوہو سہی ہے چلو خیر جیسے الفاظ وقفے وقفے سے بولتی رہیں ۔۔کال سننے کے بعدوہ سرگوشی سے بولیں۔۔۔ تمہارا بخار تو اتار دیتی لیکن افسوس ابھی تمہارے انکل کا فون آیا ہے۔۔۔ وہ ایک ضروری کام سے واپس آرہے ہیں۔۔ اڈے کا کچھ مسلہ ہے۔۔ دلاور پشاور ہے ۔۔ یہ اسے وہاں سامان اور گاڑیوں کے پاس چھوڑ کر آ رہے ہیں۔۔ اسلیے مجبوری ہے۔۔ میں پھیکی سی ہنسی ہنسا اور کہا تو جناب آپ ان سے انجوائے کر لینا ۔۔ مجھے سخت تھکن ہو رہی میں ویسے بھی اس پوزیشن میں نہیں۔۔ وہ لاڈ سے بولیں ۔۔ ان سے انجوائے بہت کیا اب تمہاری باری ہے۔۔ خیر تم جاو جا کر ریسٹ کر لو۔۔ میں بھی اب کچھ اور پکانے کا سوچوں وہ چاول نہیں کھاتے ۔۔ بھابھی کدھر ہیں میں نے سرسری پوچھا۔۔ وہ بولیں ارے کہاں جانا ہے وہ موئی نائلہ ۔۔ شادی کے بعد بھی جان نا چھوٹی ۔۔بس آتی ہوگی یہ بازار تک گئیں۔۔۔میں اوپر جا کر رضائی اوڑھ کر جب لیٹا تو دوبارہ سے عمبرین کا خیال سامنے آنے لگا۔۔ بخار میں باہر سے آنے کے بعد رضائی کا پرسکون ماحول۔۔ میں جانے کب سویا علم نہیں۔۔میری آنکھ انٹرکام کی بیل سے کھلی میں نے ادھ سوئے لہجے سے کہا ہیلو کون۔۔ آگے سے عمبرین ہی تھی۔۔ کہتی کھانا کھا لو۔۔ میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ۔۔ اور بخار بھی ہے میں نہیں کھانا۔۔ انہوں نے کہا کھانا نا کھانا لیکن کم از کم انکل کو سلام کر جاو ۔۔اور انٹرکام رکھ دیا۔۔ تب مجھے یاد آیا انکل نے آنا تھا۔۔میں اسی حلیہ میں اوپر گرم چادر لی اور شیشے کے سامنے آ کر ایک نظر خود پر ڈالی ۔۔ اففف میری آنکھیں سرخ اور چہرہ پھنک رہا تھا جانے یہ سردی کا اثر تھا یا عمبرین کی سرد مہری کا مجھ میں عجیب سی کیفیت تھی بخار اکتاہٹ ۔۔ بہرطور جانا مجبوری تھی میں ہمت کر کے نیچے گیا ۔۔بھابھی کچن میں ہی تھیں حسب معمول۔۔ انکل سے ملا ۔۔ جیسا پہلے بتایا تھا وہ بہت ہی ہنس مکھ سے بندے تھے۔۔اور آنٹی کے بتائے علم کے مطابق وہ کافی رنگین بھی تھے۔۔ آنٹی انکے سامنے بلکل میرے ساتھ سیریس خالہ بنی رہیں۔۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ بھابھی کھانے کا سامان لیے ادھر ہی آ گئیں۔ جب انکی نظر میرے چہرے اور میرے حال پر پڑی تو ایک تکلیف دہ رنگ انکے چہرے پر گزرا۔۔ پھر فورا وہ نارمل ہوئیں ۔۔ کھانے کے دوران انکل آنٹی سے باتیں ہوتی رہیں۔۔ کھانے کے بعد انکل نے فوری چائے کا مطالبہ کیا۔۔ آخر کو ڈرائیور تھے لانگ روٹ کے ۔۔ فوری چائے انکے لیے واجب تھی۔۔ چائے کے بعد میں طبیعت کا بہانہ کر کے اٹھ آیا۔۔۔ انکل کی رنگین مزاجی کا علم تھا مجھے ۔۔ وہ بھی س مروتا ہی روکے۔۔ میں جاتا تو وہ کمرے میں جاتے نا۔۔ میں اوپر آ کر بستر میں لیٹ گیا۔۔۔ لیٹے لیٹے سو سوچیں۔۔ عمبرین کے خیال نے مجھے مار ڈالا تھا۔۔ انکی ان کہے دکھ نے ۔۔ رات دس کا وقت ہوگا جب انٹرکام کی بیل ہوئی۔۔ میں نے ریسو کیا۔۔ اور چپ رہا۔۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد میں بولا جی بولیں ۔۔ تب کہتیں تمہاری طبیعت پوچھنی تھی۔۔ میں نے کہا جی ٹھیک ہوں بس بخار ہے سر درد ہے اور جی کر رہا میں رووں بہت سا۔۔ جانے کیوں میں روہانسا ہو گیا۔۔ وہ چپ رہیں ۔۔ اور میں نے انٹرکام رکھ دیا۔۔۔میری آنکھیں بھر چکی تھیں ایک نمی سی ۔۔ جو پھیل رہی تھی ۔۔ بخار تھا یا غبار ۔۔ میں ایسے ہی نمناک چپ لیٹا تھا ۔۔دل کی اداسی رات ۔۔ اور بخار و سر درد ۔۔ میں نیم مدہوش سا تھا۔۔ جب مجھے لگا کوئی سایہ سا میرے چہرے پر لہرایا۔۔ابھی میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک سرگوشی ابھری۔۔ بخار اترا ؟ دوائی لی۔۔ بہت غلط بات ہے۔ میں چپ رہا ۔۔ وہ سایہ آگے بڑھا میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔ اففففف انکا وہ لمس میرے ماتھے پر۔۔ دنیا جیسے رک گئی سکون پھیل گیا جیسے کسی نے اچانک دم سے ساکت کر دی ہر شئے ۔۔ اور انکی سرگوشی بلند ہوئی ہاے میں صدقے ۔۔ تمہیں تو سخت بخار ہے۔۔ سائے کا ہاتھ ماتھے اور چہرے پر پھرا۔۔ ہاتھ نے جب میرے گالوں پر کچھ دیر پہلے کی نمی کو محسوس کیا تو انکی آہ نکلی اورکہا کیوں کررہےہو ایسا۔۔اپنے ساتھ میرے ساتھ
جاری ہے