Ishq Aawara - Episode 16

عشق آوارہ 


قسط 16


ایسےہی انکے اوپر انکے شانےپرسر رکھ کر میں مدہوش گر گیا۔۔ ہم دونوں کی گہری سانسیں جیسے سی گہرے طوفان سے ساحل تک پہنچ کر تیراک لے۔۔ ہم بھی جذبوں کے گہرے طوفان میں سے نکلے تھے۔۔ اس سارے طوفان کے درمیان ۔۔ مجھے میڈم رفعت کا چہرہ انکی خوشبو ہی محسوس ہوتی رہی۔۔ جیسے میں چود شازیہ آنٹی کو رہا ہوں اور ذہن میں وہ ہوں۔۔ انکا لچکیلا بدن انکے بالوں کا وہ لمس ابتک گالوں پر تھا۔۔ آنٹی نے گاون کی ڈوری کھولی اور میں ہلکا سا اوپرسے کھسکا ۔ ۔۔لن ابھی تک پھدی میں ہی تھا میرے ہٹنے سے وہ جیسے ہی باہرنکلا جیسے سیلاب آ گیا ہو۔۔ آنٹی کی پھدی میں ہم دونوں کا پانی جو لن کی رکاوٹ سے رکا تھا وہ باہر آنے لگا۔۔ افففف بہت مزےکا ڈسچارج ہوئے تھے ہم۔۔۔ آنٹی بیڈ سے اٹھیں ۔۔۔اور رہا سہا گاون بھی اتار کر بیڈ کے نیچے لڑھکا دیا۔۔اور ایسے ہی ننگے چلتے ہوئے سامنے فریج سے خود بھی پانی پیا اور میرے لیے بوتل پانی کی بوتل پکڑے واپس آئیں ۔۔ انکا گورا بدن چمک رہا تھا۔۔ جاتے ہوئے انکی موٹی گانڈ مٹک رہی تھی اور آتے ہوئے بڑے بڑےبوبز اتھل پتھل ہو رہے تھے ۔۔میرے پاس آ کر مجھے ہلکا اٹھا کر ۔۔ انہوں نے بوتل سے ہی پانی دیا اور کہا یہ جو آج کیا نا ۔۔ اسے ناٹ سیکس کہتے۔۔ بلکل جڑ جاتا بندہ ۔تم نےاچھی کارکردگی دکھائی وہ مجھ سے لگتے ہوئے بولیں۔۔ کچھ دیر ایسےہی ہم لیٹے ایکدوسرے کو سہلاتے رہے ۔ پھر وہ اٹھیں اور ایک بڑی سی چادر لیکر باہر نکل گئیں۔ انکے آنے تک میں بھی فریش ہوا۔۔ واپسی پر انکے ہاتھ میں دیسی گھی کی پنجیری تھی ۔۔۔کچھ دیر پنجیری کھاتے ساتھ ساتھ ہم ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔۔

ہمیں ڈسچارج ہوتے ہوئے گھنٹہ بھر ہو چکا تھا۔۔ ہم کمبل کے اندر ایک دوسرے کےساتھ ننگے جڑے۔بلکل فریش سے۔۔۔ دن بھر کی بھاگ دوڑسے میں بھی تھک چکاتھا۔۔ اب سیکس کے بعد ہلکی مستی نما غنودگی گھیر رہی تھی۔۔۔ ایسے ہی ساتھ لپٹے ہم سو گئے ۔۔سوتے سوتے مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے لن کو سہلا رہا ہے۔۔میں دیکھا تو صبح ہو چکی تھی۔۔ آنٹی میرے پاس۔۔ سب کی طرح صبح کے وقت میرا بھی کھڑاتھا تو آنٹی نےسہلا کر جگا دیا۔۔ میں تھوڑی بہت مستی کی۔۔ آج اتوار تھا آف تھا۔۔گیارہ بج چکے تھے آنٹی نے کہا جبتک میں ناشتہ بناتی تم جا کر عمبرین کو لے آو۔۔میں اسی خماری میں باہر کو نکلا۔۔ دروازہ بجایا تو کومل نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی بولے شکر ہے تم نظر آئے ۔۔ بھول ہی گئے۔۔ میں نے گڑبڑا کر کہا ارے نہیں جانم ۔۔ آپکو کون کافر بھول سکتا۔۔بس بزی رہا۔۔ میں اندر گیاتو ہر طرف سناٹا تھا۔۔پوچھنے پر پتہ چلا ناصر ابھی تک سو رہا ہے نائلہ اور عمبرین تھوڑا اتوار بازار تک گئیں ہیں۔۔ باقی ساس سسر اندر کمرے میں بیٹھے۔۔یہ سنتے ہی میں جو صبح جاگتے ہی خماری میں تھا انکے ساتھ لگ کر کہا۔۔ موقع بھی ہے تو ایک بارگلے ہی مل لیں۔۔ وہ پہلے تو تھوڑا سا گڑبڑائیں اور پھر کہنے لگیں تم ایسا کرو اوپر چھت پر چلے جاو۔۔ میں ساس سسر کو دیکھ کر آتی۔۔ خوشی سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔ سامنے وہی سٹور تھا جہاں پہلی بار کومل کا جلوہ دیکھا تھا۔۔ جنوری کی ٹھنڈی ہوا چھت پر تیز تھی ویسےبھی دن چڑھا تھا اوپن چھت سے چھت ملی ہوئی تھی۔۔ میں سٹورکا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔۔۔ اندر ایک طرف وہی پرانا بیڈ تھا اور کچھ دیگر سامان۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کومل بھی اندر آئیں اور آتے ساتھ ہی کہا سب سکون ہے ۔۔اوربولیں جلدی سے گلے مل لو ۔۔ میں انکے پاس گیا انہیں بازو سے تھام کر بیڈ پر لا بٹھایا۔۔ پاس بیٹھ کر انکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔آپ جیسی باکمال حسن کی لڑکی کےساتھ جلدی کرنا اچھا نہیں کفران نعمت ہے آپکو آرام سے انگ انگ سے چھو کر چاہنا حق ہے۔۔ وہ میری بات پر بلش ہوئیں اور بولیں باتیں بہت کرتے ہو تم۔۔ میں ہنستے ہوئے ان پر گرا اور کہا صرف باتیں ہی ۔۔اور پیار یہ کہتے میں انکوبازووں میں لیااور ہلکا سا دبا کر کہا۔۔۔ اس رات بہہہت مزہ آیا۔۔۔ کاش وہ نا ہوا ہوتا تو میں آپکو بتاتا مجھے باتوں کےعلاوہ اور کیا کیا آتا

وہ میری ٹھوڑی کو چومتے ہوئے بولیں۔۔ مجھے دانہ چکھ کر ہی پوری دیگ کا اندازہ لگا لیاتھا۔۔ آخر ہر وقت کچن ہوتی ہوں۔۔تو پھر کیا اندازہ لگایا۔۔تم بہت سوادی ہو انہوں نے سرگوشی کی۔۔ میں جو صبح سے خمار میں تھا کومل کےقرب نے اسے دو آتشہ کیا۔۔ نہار منہ ایسی عورت پاس ہو اور کیا چاہیے۔۔وقت کم تھا اور میرا موڈ بہکنےکو ہو رہا تھا۔۔ میں اپنے رخساروں کو انکے رخساروں سے سہلایا تو وہ سسک اٹھیں اور بولیں نا کر نا۔۔۔ وہ ہلکا ساڈریں تھیں۔۔ میں نے کہا بس تھوڑا سا نا۔۔اور انکے گالوں پر لبوں کو پھیرا وہ تھوڑا سسکیں اور کہا پھر صبر نہیں ہوتا نا۔۔۔پورا چکھنے کو دل کرتا میں نے انکی گردن سے ناک رگڑتے ہوے کہا اور ساتھ ہاتھوں کو انکی کمر پر پھیرنے لگا۔۔اب تھوڑا سا ماحول ادھر بھی گرم ہو رہا تھا۔۔ میں نے انکے دوپٹہ کو ایک سائیڈ کیا۔۔ اور لبؤں کو انکے سینےپر پھیرا۔۔ وہ جیسے مدہوش ہونےلگیں لیکن اندر سے ڈر بھی تھا۔۔ میں اٹھا اور اس سے پہلے انہیں سمجھ آتی سیڑھیوں کے گیٹ کی چھت والی طرف سے کنڈی اٹکا دی اور بھاگم بھاگ واپس آیا۔۔وہ اتنی دیر تک تھوڑا اٹھ کر بیٹھ چکیں تھیں۔۔ میں انکے سامنے کھڑا ہوا۔۔ انکے شانوں پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کی کومل۔۔ انہوں نے سر اٹھایا اور بولا جی کراں۔۔میں نے انکے ماتھے کو چوما اور کہا سارا پیار کرنے کو دل کر پڑا بہہت اداس ۔۔۔وہ بولیں اداس تو میں بھی ہوں لیکن یہاں کیسے کوئی آ سکتا وہ شائد اس دن کی وجہ سے ڈری ہوئی تھیں۔۔ اور یہاں تو تھا بھی سسرال۔۔میں نے انکے گالوں کو چومتے ہوئے کہا کہ بس دو منٹ میں ۔۔ کبھی کبھی جلدی والی ڈیٹ مزہ دیتی نا۔۔ وہ مسکرائیں اور بولیں تم جلدی نہیں کرتے نا ۔۔ میں نے انکے بوبز کو سافٹ سے مسلتے ہوے کہا آپ جلدی کروا دینا نا۔۔۔ انکے بوبز ک ہاتھ لگانا تھا کہ وہ جیسے تڑپ اٹھیں۔۔اور میرےساتھ لگیں ۔۔ انکا سینہ میرے لن کے ساتھ رگڑ کھائی اور میں کھڑا ایسے ہی اوپرسے انکے لبوں ماتھے کو چوما۔۔ انکے گداز سینے کے لمس نے لن کو ٹنا ٹن کر دیا۔۔ اور میں انکو نیچے لٹاتا اوپر گر گیا۔۔ انکی شرٹ کو تھوڑا اوپرکرنے لگا تو وہ گھبرا کر بولیں نہیں نا ۔۔۔ اتارنا کچھ نہیں بس اوپر کرلو۔۔ میں نے ضد کی بجاےاس بار بات مان لی اور انکی شرٹ کو کندھوں تک کرکے ۔۔اپنی قمیض کو اوپر کر کے انکے اوپر لیٹ گیا۔۔ افففف ننگے پیٹ اور سینے پر میرا ننگا پیٹ اور سینہ ۔۔ ہلکی سی رگڑائی۔۔۔ لن فل راڈ ہو چکا تھا۔۔ انکی ٹانگوں میں پھنسا اوپر نیچے ہو رہا تھا۔۔ ایسے ایک تو لن فل راڈ ہو گیا دوسرا وہ بھی کافی گرم ۔۔ دیرکرنا مناسب نا تھا وقت کم تھا۔۔ میں نے ہاتھ کو پیٹ سے نیچے کو کیا اور انکی شلوار کے اندر پھدی کے اوپر۔۔۔ پھدی ہلکی ہلکی ویٹ ہو چکی تھی ۔۔ میں نے اپنی ہتھیلی کو انکی پھدی پر ہلکا ہلکا آگے پیچھےکرنا شروع کیا۔۔۔ ہتھیلی کو پھدی کےلبوں اور دانے پر گھمانا شروع کیا ۔۔ اس رگڑائی کا اثر نکلنا شروع ہوگیا تھا۔۔ اب کومل جوپہلے ٹانگیں جوڑ رہی تھیںاس نے ٹانگیں کھول دیں تھیں۔۔ میرا ہاتھ پھدی سے رانوں تک مالش کر رہا تھا۔۔ میں نے بڑی انگلی کو انکی پھدی کے اوپر ہلکا دبایا ۔۔ انگلی اندر گھستی گئی وہ سسیکیں ہاااائے مر گئی۔۔ اب پھدی تیار تھی اس سے پہلے کہ کوئی بلنڈر ہوتا کام ڈالنا چاہیے تھا۔۔ میں اوپر ہوا اپنی شلوار کا نالا کھولا۔شلوار سرک کرپاوں تک گئی۔۔ لن فل کھڑا سلامی دے رہا تھا۔۔ میں نے کومل کی ٹانگیں اوپر کیں اور انکی شلوار کو گھٹنوں تک اتار کر لن کو پھدی کے۔لپس کے اوپر پھیرنے لگا۔۔ افففف جیسے ہی میں نے ایسا کیا۔۔ کومل سسک کر بولی۔جلدی کر نا چندا۔۔ میں نے ٹوپی کو جمایا اور انکی ادھ ننگی ٹانگوں کو اورمولڈ کیا اب پھدی بلکل اوپر کو میرے لن کی رینج میں تھی۔۔ میں نے ٹوپے کو ہلکا سا جمایا اور دھکا مارا۔۔۔ لن سیدھا آدھا اندر گھسا وہ ہااااے کر کے سسکیں ۔۔ میں رکا اور تھوڑا باہر نکال کر پھر دھکا مارا۔۔ اس بار لن آدھے سے تھوڑا زیادہ اندر گیا۔۔ وہ نیچے سےہلیں۔۔ اور میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔۔ میں جھکا اور لبوں کو لبوں میں لیکر آخری چھکا مارا۔۔ لن فل اندر۔۔ انہوں نے ایک مزے والی ہاے کی۔۔میں نے باہر نکالا اور پھر سے جھٹکا مارا ۔۔کچھ دن کا وقت اوپر سے ڈر۔۔ چار پانچ جھٹکوں کے بعد وہ کراہنے لگیں ۔۔ میں باہر نکال کر پھر سے اندر کیا اور انکے اوپر لیٹ کر رات کا ہی سیکھا انداز آزمانے لگا۔۔ گاون کی ناٹ نہ سہی سٹائل وہی تھا۔۔ لن فل اندر اور میں ہلکا سا ڈرل کیا۔۔ دو چار بار گھما کر جو مارا تو وہ تیز جھٹکوں کے ساتھ فارغ ہوتی گئیں ۔۔ انکے یہ جھٹکے مجھے بھی پاگل کر گئے اور میں دو چار جھٹکوں کے ساتھ انکے اندر ہی چھوٹتا گیا۔۔وہ مست نیچے پڑی۔۔ میں جلدی سے اٹھا اور شلوار کو اوپر کرکے سٹور سے باہر کا جائزہ لیا یہ سب دس بارہ منٹ میں ہوا تھا۔۔ باہر ویسا ہی سکون تھا۔۔ اب کومل بھی اٹھیں اور زمین پر اکڑو بیٹھ کر سارا پانی نکالنےلگیں اور غصے سے بولی ۔۔ اندر چھوٹ گئے تم ۔۔ اب کچھ ہو گیا تو۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا ۔۔ ہوا تو آپکی سہیلی نرس رابعہ ہے نا۔۔ وہ گھوریں اور مجھے کمر پر مکہ مار کر بولی بہت تیز ہو تم اووور۔۔ میں نے کہا اوور۔۔۔ کہتی بہت سوادی۔۔ کم وقت تھا لیکن فریش کر دیا تم نے۔۔۔ کسی دن تمہارے ساتھ سکون سے اپنے کمرے میں رات گزارنی وہ مجھے آنکھ مار کر بولیں اور کہتیں میں جا کر نیچےکا ماحول دیکھ لوں اور یہ جا وہ جا۔۔

تھوڑی دیر بعد میں نیچےآیا اور اسبارناصر کے کمرے میں گیا وہ گھوڑے بیچےسو رہاتھا۔۔ اسےجگا کر میں اس سے باتیں کرنے لگا۔۔ اتنی دیرمیں عمبرین بھی آ گئیں۔۔ نائلہ سے ہیلو ہاے ہوئی انکے آنے کے بعد ناصر فریش ہونے واش روم چلا گیا۔۔۔ اور ہم تینوں اکیلے رہ گئے ۔تھوڑی دیر بعد نائلہ نے مجھے کہا ۔۔و دیکھو اب میں جا چکی ہوں یہا سے۔۔ رات عمبرین سے باتوں میں پتہ چلا تم دونوں اچھے دوست بن چکے ہو۔۔ میں نے گھور کر عمبرین کو دیکھا کہ سٹوڈنٹ سیکرٹ کیوں آوٹ کیا۔۔ عمبرین نے شوخی سے سہم کر کانوں کو ہاتھ لگائے نائلہ ہنس کر بولی ہم دونوں ایک روح دو جسم ہیں ہماری ایک ہی بات اور پھر کہنے لگیں تمہارے ذمہ ہے عمبرین کا خیال رکھنا اب یاد رکھنا۔۔ میں نے کہا جی وعدہ۔۔ وہ بولیں پکا وعدہ۔۔ یہ بولتی کچھ نہیں بس سہتی رہتی ہے بہت حساس ہے یہ مجھے اسکی ہر بات کا پتہ۔۔ تم خود پوچھ لینا اس سے کہ کیوں منہ سوجایا ہوا ۔۔ اور تینوں ہنس پڑے۔۔ نائلہ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا اب چونکہ عمبرین تمہاری دوست ہے تو سمجھو میں بھی تمہاری دوست ہوں۔۔ ڈیل ڈن تینوں کی۔۔ اور ہم تینوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ کچھ دیر بعد ہم واپس آگئے ۔۔ آنٹی ٹھنڈا ناشتہ لیے فل غصے میں تھیں انہیں کیا خبر تھی میں جو خوراک لیکر آیا مجھے ناشتےکی کیا ضرورت

ناشتے کے بعد کچھ دیر بات ہوئی اور پھر آنٹی کمرے میں جا کر لیٹ گئیں۔۔ اوپر جا کر میں کافی بور ہونے لگا ۔۔ آجکا دن جیسا سہانا تھا اب اتنا ہی بور ہو رہا تھا۔۔ میں نے انٹرکام اٹھایا اور کال کی ۔۔ دوسری طرف عمبرین تھی۔۔ شوخی سے بولیں جی اب کیا ہے۔۔ میں نے معصومیت سے کہا جی آپ نے کہاتھا کہ کچھ چاہیے ہوتو انٹرکام کرنا۔۔ وہ اسی انداز سے کہنے لگیں وہ مہمان سے کہا تھا ۔۔۔دوست سے نہیں۔۔ میں تنک کر بولا واہ ۔۔ جی ۔۔ مجھے نہیں پتہ نا۔۔ آپ اوپر آو یا میں آپکے کمرے آتا۔۔ وہ گھبرا کر بولیں نا تم وہیں رہو۔۔ آنٹی سو رہیں ایسے اچھا نہیں لگتا نا۔۔ انکے اندر مشرقی لڑکی کا خوف تھا۔۔ میں نے شکوہ کیا۔۔ لو دوست بھی کہا اور اعتماد بھی نہیں۔۔ وہ تھوڑا چپ ہوئیں اور بولیں۔۔۔بات اعتماد کی نہیں ۔۔بس اچھا نہیں لگتا نا۔۔ میں مایوس سا ہو کر بولا۔۔ میں بہت خوش تھا ۔۔ آج آپکی ذمہ داری ملی مجھے۔اور آپ نو لفٹ۔۔ وہ حیرت سے بولیں ہیں میری ذمہ داری کون دیا تمہیں۔۔اور روانی سے بول دیا کہ جسکی ذمہ داری ہوں اسکے لیے تو بوجھ ہوں ۔۔ اور یکدم احساس ہونے پر چپ ہو گئیں۔۔ میں نے کہا مجھے یہ ذمہ داری نائلہ نے دی تھی۔۔وہ ہنسیں اور کہا وہ تو چوول ہے۔۔ میں سنجیدگی سے بولا۔۔ بات سنیں۔۔میری۔۔۔ ہماری ڈیل ہو چکی اور دنیا کا مجھے نہیں پتہ مرے لیے آپ بوجھ نہیں بہتتت ہی پیارا فرض ہیں۔۔دوستی کا فرض۔۔ لیکن دوستی نباہنا بہت مشکل ۔۔انہوں نے نکتہ اٹھایا۔۔

انکی بات مجھے کاٹ گئ۔۔ میں تڑپ کر بولا ۔۔ بس عمبرین ۔۔ آپ نا کریں معاہدہ لیکن ایسے نا کہیں۔ میں پورے دل ایمان سے آپکو دوست مانا۔۔ میرے الفاظ میرے جذبوں کی تصویر تھے دل سے نکلی بات کا اپنا اثر ہوتا۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ آپ میرےلیے بہت محترم۔۔ مری سچی دوست سچی سہیلی۔۔ہیں نا۔۔ اور وعدہ رہا دوستی نباہوں گا۔۔ آزما لینا ۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں میں کیا آزمانا۔۔ ہمیشہ عورت ہی آزمائی جاتی ہے دشمنی میں نفرت میں۔۔ دوستی اور محبت میں تقاضوں کی شکل میں۔۔ میں نے انکی بات کاٹی اور کہا میرا کوئی تقاضا نہیں سوائے اسکے کہ۔۔ اپنے غم مجھے دے دو اپنے دکھ درد۔۔ بسسسس اسکے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا۔۔ میرا لہجہ بھیگ چکا تھا۔۔ ان پر میرے سچے لفظوں کا اثر ہوا اور وہ بولیں۔۔ دیکھ لینا۔۔ میں نے کہا آپ دیکھ لینا۔۔ تب وہ بولیں ٹھیک ہے۔۔ میں نائلہ کے بعد تم پر بھروسہ کر رہی ہوں۔۔۔نائلہ لڑکی تھی ۔۔تم لڑکے اور تم ہی میرے پہلے اور آخری دوست ہو گے۔۔ ہم دونوں مسکرا دیے ۔۔ اور جانے کتنی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔۔ زندگی کی رنگوں کی خوابوں کی عام دوستانہ باتیں

اس شام جب میں نیچے آیا تو جیسے ہی ہماری نظریں ملی ۔۔ پہلی بار انکی آنکھوں میں ہلکی امید کی روشنی تھی۔۔انکی چمکتی آنکھیں مجھے نہال کر گئیں میری روح تک تازہ ہو گئی ۔۔ دل ترنگ سے جھوما اور ہم دونوں مسکرا دیے



جاری ہے

*

Post a Comment (0)