Ishq Aawara - Episode 15

عشق آوارہ 


قسط 15


انہوں نےمیری طرف مسکراتی نظروں سے دیکھا اور انکی اگلی حرکت نے جیسے میرے اندر ابھی سےآگ لگا دی۔۔انہوں نے اپنی شلوار کو تھوڑا سا اوپر سرکایا۔۔ اففف انکی گوری چٹی ٹانگ جیسے چمک رہی انہوں نے اپنے ہاتھ کو اپنی ٹانگ پر پھیرتے ہوئے کہا دیکھو کیسے چکنی ہو رہی نا۔۔۔ تمہارے لیے سپیشل باڈی لوشن لگایا ہے میں نے۔۔۔ بلکل صابن کی طرح پھسلتے جاو گے جب آو گے ۔۔۔ اور میرا موڈ تو ابھی ہی بن چکا تھا۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹانگ کو چھونا چاہا تو انہوں نے جلدی سے شلوار کو نیچے کیا اور ٹانگوں کو سمیٹ لیا اور بولیں نو نو۔۔۔کلاس کل ہی لگنی ویری سپیشل کلاس۔۔سمجھو امتحان سے پہلے کی سوپر کلاس۔۔ اکھاڑے میں اتارنے سےپہلے کےآخری داو سکھانے تمہیں۔۔اور میرا دل جیسے ابھی سے فل وحشی ہو رہا تھا۔۔۔اس سے پہلے کہ معاملات اور خراب ہوتے آنٹی کے موبائل کی بیل بجی اور وہ ادھر بزی ہوئیں۔۔ میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔۔ انکی ہنسی اور باتوں سے لگتا تھا کہ دوسری طرف کوئی انکی گہری دوست۔میں وہاں سے اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں آگیا۔۔ لیکن جسم میں ہلکا سرور ابھی سے لہریں لینے لگا۔

اس شام میرے اندر عجیب سی ترنگ تھی۔۔ جیسے اس ایج کے لڑکوں میں ممکنہ سیکس کا سوچ کر ہوتی ہے۔۔میں گنگناتا ہوا نیچے اترا۔۔ سامنے عمبرین خلاف توقع کتابوں کی بجاے کوئی کھانا پکانے والا میگزین دیکھ رہیں تھیں اور آنٹی سے کچھ ذکر کر رہیں تھیں۔۔ میں نے مصنوعی گھرک سے کہا۔۔ یہ سٹڈی کا وقت ہے اور آپ کیا کر رہی۔۔ انہوں نے شرارتی انداز میں جواب دیا تو پڑھ ہی رہی ہوں آپ بے شک سبق سن لینا استاد جی ۔۔ میں کھکلا کر ہنسا اور کہا مجھے بدھو کہتی ہو اور خود جواب بدھ والا دیا۔۔ کچن کا سبق سنا نہیں چکھا جاتا۔۔۔ ہوم اکنامکس کا ٹسٹ لیا جاتا ہے۔۔

وہ منہ بنا کر بولیں جی نہیں۔۔ آنٹی شازیہ نےلقمہ دیا کہ بات تو نعیم صحیح کر رہا ہے ۔۔ میں نے کہا یس۔۔ اور کل آپ مچھلی یا پائے بنا کر کھلائیں بہت سردی

یہ کہتے ہوئے کچھ دیر میں باہر مٹر گشت کرتا رہا۔۔ واپسی پر مونگ پھلی لی آج موڈ تھوڑا مستانہ سا تھا۔۔ رات کے کھانے کے بعد۔۔ ہم تینوں آنٹی کے روم میں ہی بیٹھے مونگ پھلیاں کھاتے رہے۔۔ اگلی صبح ۔۔ جب میں کالج گیا تو ویک اینڈ تھا۔۔ویک اینڈ اور ویک اینڈ نائٹ ۔۔ جسکا مجھے انتظار تھا۔۔ بریک ٹائم میں بیلا نے مجھے بلایا اور کہا سنو تم آج سیکنڈ ٹائم کچھ وقت نکال سکو تو آج میڈم رفعت کو چائے پر بلایا ہے میں نے۔۔ تم بھی چاہو تو آ سکتے ہو۔۔ مری دوست تھی چاہو کا مطلب سمجھ سکتا تھا کہ تمہیں لازمی آنا ہے ۔۔ سمجھا کرو ایڈمن انچارج ہیں۔۔سو کام پڑ سکتے ساتھ ہی انہوں نے وجہ بتائی۔۔ اسی بہانے تمہیں میں اپنا سپورٹس ایریا بھی دکھاونگی۔۔ جہاں ٹینس کورٹ بھی ہے ایکسرسائز ہال بھی۔اسی سےپتہ چلا کہ وہ اور میں میڈم رفعت کےساتھ ہی انکے گھر جائیں گے میں نے کہا نا بھئی بہت بے مروت خاتون ہیں مجھ سے ایسے نہیں جایا جاتا ۔۔ تم جاو میں باہر کھڑا ہوں گا پلیز۔۔ اوکے اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔میڈم کا گھر کالج کی بیک سائیڈ پر کالج ایریامیں ہی تھا۔۔۔جیسے عموما کالج کے اندر سٹاف کی کالونی ہوتی ویسے۔۔وہ مخصوص ماحول درختوں میں گھرا ایک چھوٹا سا کاٹیج جسکے باہر بیل کی باڑ تھی ۔۔ میں اس باڑ کے پاس نکڑ پر کھڑا ہو گیا اور بیلا چیونگم چباتی آگے بڑھ گئی۔۔ سامنے کالج کی عمارت نظر آ رہی تھی۔۔ ایک طرف ہاسٹل ایریا تھا وہ ہاسٹل جہاں مجھے رہنے کی اجازت اماں کی وجہ سے نا ملی ۔۔ اور مجھے بہت شدت سے اماں یاد آنے لگ گئیں۔۔۔ کتنا آوارہ اور فضول ہوگیا تھا میں ۔۔ جب سے اماں گئیں میں نے فون تک نہیں کیا۔۔ بس کل چھٹی ہے آرام سے بات کرونگا میں انہیں خیالوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے آواز آئی مسٹر غنے ۔۔ آج ن کے ساتھ آئے نہیں ۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو جیسے جم کر رہ گیا ۔۔ سامنے ہی میڈم مونگیا کلرکے سادہ لیکن معیاری سوٹ پہنے اس حال میں باہر نکلیں کہ وہ بال بناتے ہوئے نکلیں ہو جیسے ۔۔بےساختگی میں آ گئیں ہوں۔۔ میں چپ کر کے اندر گیا تو بیلا سامنے صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی پاپ کارن کھا رہی تھی۔۔ میں ابھی تک گم صم تھا۔۔ کہیں پڑھا تھا ساحرہ ہوتیں بنگال کی عورتیں۔۔ سانولے چہرے سیاہ بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی ۔۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ انکی شکل اداکارہ و گلوکارہ سلمی آغا سے بہت ملتی تھی۔اور عمر چاہے انکی جو بھی تھی وہ سلمی آغا کی طرح ہر ایج میں طرحدار تھیں ۔۔۔۔ اف وہ کچھ سینکڈز۔۔ کمال گریس تھی انکی۔۔چھوٹا سا کاٹیج ۔۔ دروازے کے فورا بعد ایک ہال سا جہاں ایک سادہ صوفہ سیٹ۔ ایک سائیڈ پر بکس ریک۔ آگے دو کمرے ایک طرف کچن وغیرہ۔۔ تھوڑی دیر بعد میڈم باہر نکلیں اور کہا سوری میں تھوڑا چینج کرنے میں وقت لگا دیا۔۔اور نعیم آپ ۔۔ آپکو شائد برا لگا۔۔ آپ میرے شاگردہیں ۔۔ استادوں کے ایسے الفاظ کو دل پر نہیں لیتے ۔۔ ویسے تمہیں میں غنہ بولا برا تو نہیں لگا وہ انتہائی مہذب انداز میں بات کر رہی تھیں۔۔ میں کچھ بولنے ای لگا تھا کہ بیلہ بیچ میں بولی ارے نہیں میڈم یہ تو نرا بدھو ہے ویسے آپ نے اسے سہی نام سے بلایا غنہ ۔۔ نعیم غنہ واہ کی نام بن گیا بیلا نے مجھے چڑاتے ہوئے کہا۔۔۔پھروہاں سے ہم میڈم کے ساتھ نکل پڑے ۔۔ کار میں بیلا اور میڈم اگلی سیٹوں پر بیٹھ گئیں اور میں پچھلی سیٹ پر ۔۔ وہ دونوں آپسی باتیں کرتی اور میں باہر لہور کی رونق دیکھتا رہا۔۔بیلا کا گھر گلبرگ میں تھا ۔۔ گلبرگ تھری فردوس مارکیٹ کے ساتھ گر میں بیلا اسکی ماما پاپا چھوٹے بھائی سب سے ملاقات ہوئی۔۔ وہیں مجھے پتہ چلا کہ میڈم رفعت کاتعلق چکوال سے تھا۔۔اچھی فیملی سے تعلق تھا زمیندار گھرانہ تھا۔۔ انکی شادی فیملی میں ہی کزن سے ہوئی ۔۔ انکی شروع سے ہی اتنی بنی نہیں آپس میں ۔۔ وہ زیادہ تر کالج میں ہی رہتیں ۔۔ دو چارمہینوں بعد کبھی آبائی گاوں کا چکر لگا لیتیں۔ بیلا کی بڑی بہن سے فون پر بات ہوئی۔۔ چائے کافی پرتکلف تھی۔۔ چائے کیا تھی پوری پارٹی تھی۔۔۔ سچی بات میں تو بس چپ ہی رہا۔۔ اندر سے پینڈو تھا نا۔۔سادہ ۔۔ اتنے پڑھے لکھے لوگوں اور ماحول میں مجھ سے بات ہی نا ہوئی۔۔ آنٹی شازیہ کومل عمبرین لوگ ہمارے جیسے تھے جنکی بنیاد گاوں سے تھی میرے ہاں تو یہ بھی عجیب تھا کہ بیلا کے والدین میری اور اسکی دوستی کو نارمل انداز میں لیے۔۔بے شک ہم صرف دوست ہی تھے لیکن پھر بھی۔۔ سب ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔۔چائے کے بعد بیلا نے ہمیں اپنا گھر دکھایا۔سارا گھر ہی شہری انداز میں بہترین انداز سے بنا اور سجا تھا۔۔ لیکن گھر کی بیسمنٹ میں سپورٹس روم دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ بیسمنٹ پورے گھر کے نیچے تھی۔۔ایک طرف بیڈ منٹن کورٹ بنا تھا۔۔سامنے بڑی الماری میں مختلف شیلڈز اور ٹرافیاں پڑی تھیں۔۔ایک کارنر میں چھوٹا سا ایکسرسائز کارنر تھا۔۔ جہاں کچھ ایکسرسائز مشینز اور رننگ مشین پڑی تھی۔۔بیڈ منٹن کورٹ کو دیکھ کر میڈم بولیں میری اور شکیلہ کی دوستی اسی کریز کی وجہ سے ہی ہوئی مجھے بھی بہت شوق تھا کبھی بیڈمنٹن کھیلنے کا۔۔ یہ سن کر بیلا بولی ہو جائے پھر ایک گیم ۔۔ ارے نہیں اس وقت نہیں پھر سہی ابھی میں کافی دیر سے نہیں کھیلی ۔۔ لیکن بیلا اور اسکی ماما کے پر زور اصرار پر میڈم مان گئیں ۔۔ اب ان سب سپورٹس کی کریزی لوگوں میں ۔۔ واحد میں تھا جو بس وقت گزاری کے لیے کھیلتے تھے لیکن یہ سب پروفیشنل اور فکری لحاظ سے سپورٹس والے تھے۔۔ تھوڑی دیر بعد میدان سج گیا۔۔ بیلا تو خیر ہر وقت رہتی ہی عجیب حلیہ میں تھی اس نے وہیں سے پی کیپ کے نیچے شولڈر کٹ بالوں کو سمیٹا اور ریکٹ گھماتی کورٹ میں۔۔ وہیں بیلا کے پاپا اپنی بیٹی کے اور ماما میڈم کی سپورٹر بن کر انہیں جوش دلانے لگے۔۔ میں ہونق کھڑا۔۔ میں نے سادگی سے کہامیں کیا کروں ۔۔ بیلا نے زبان نکالتے ہوے کہا تم شٹل کے ساتھ گردن گھماتے اسے آتے جاتے دیکھو ۔۔ سب ہنس پڑے ۔میرا دل کیا جا کر اک لگاوں اسے لیکن یہ اسوقت ناممکن تھا۔۔۔میڈم تو عام ڈریس میں تھیں دوپٹہ لیے ہلکے بال کھولے ۔۔ انہیں ادھر ادھر موومنٹ کے لیے مسلہ تھا۔۔

میں شٹل کی طرف کیا دیکھتا ۔۔ مجھے دو چیزوں نے متوجہ کیا۔۔گیم کھیلتے بیلا کے اچھلنے سے کہ اسکے چھوٹے سہی لیکن بوبز ہیں سہی ورنہ پہلے بوائے ڈریسنگ اور سردیوں میں جرسی جیکٹ سے خاک پتہ چلا آج تک۔۔۔ چھوٹے سنگترے جتنے ۔۔ کچھ بتیس کے آس پاس شائد۔۔ ادھر سے نظر گھما کر جو میں میڈم کی طرف دیکھا تو مجھے زور سے لگا جھٹکا۔۔ بھاگ دوڑ سے انکے بال کھل چکے تھے اوردوپٹہ عذاب بنا ہوا تھا۔۔ میچ جوبن پر پہنچ چکا تھا۔۔ بیلا بہت آگے کجا رہی تھی اور میڈم چادر کپڑے سبھالتی بہت پیچھے جیسے آپ نے اکثر باراتوں میں لہنگا سنبھالتی عورتیں ہمیشہ اینڈ میں دیکھی ہونگی۔۔پہلا ہاف بیلا جیت گئی۔۔دوسرے ہاف میں میڈم مکمل انتقامی کاروائی کے ارادے میں نظر آئیں۔۔ انہوں نے باقی سب کے لیے عام طریقہ لیکن میرے لیے قاتلانہ انداز اپنا لیا۔۔ انہوں نے اسبار دوپٹے کو کمر کے گرد باندھ لیا تھا اور بالوں کو گھما کر سر پر اور اسے سارف سے کور کر لیا تھا۔۔ باقی سب تو انکی گیم میں گم تھے اورمیں جیسے میڈم رفعت کے بدن کے لوچ میں ۔۔ کیا کمال ہی فگر تھا انکا۔ ایج بھی پینتیس سے اوپر تھی اور میریڈ بھی انکا سینہ کمال تھا ۔۔اور اس پر انکی اچھل کود۔۔ انکی ہر ہر اچھل پر میرے لن نے سر اٹھایا اور میں اسے ٹانگوں میں دبائے منتیں کرتا رہا۔۔ کون کیساکھیلا پتہ نہیں لیکن ہوش شور سے آیا جس سے پتہ چلا سیکنڈ ہاف میذم اچھا کھیلیں لیکن پہلے ہاف کی لاپرواہی سے بیا جیت گئی۔۔ ہم سب واپس آئے تو شام کاپھیلتا اندھیرا میرا منہ چڑھا رہا تھا۔۔ بیسمنٹ میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔ اوہ بہت دیر ہو گئی۔مجھے جانا بھی کافی دور ہے ۔۔ میں نے اجازت چاہی تو بیلا بولی ہاں واقعی یہ غلطی ہو گئی۔۔ ٹھیک ہے تم جاو ۔۔ کیسے جاو گے میں بولا ظاہر ہے رکشہ سے۔۔ یہ سن کر میڈم بولیں میں بھی نکلتی ہوں میرے ساتھ چلو تمہیں سٹاپ تک آسانی ہوگی ۔۔ بیلا اور اسکے والدین نے بہت کہاکہ ڈنر کر لیں لیکن میڈم بولیں نہیں ۔۔ شام کے بعد فی میل سٹاف کو واپس کالونی لازمی جانا ہوتا ہے ۔۔ اور ہم باہر نکل آئے ۔۔میڈم نےگاڑی سٹارٹ کی اور میں اس سوچ میں کہ کہاں بیٹھوں۔آگے انکے ساتھ بیٹھنا مناسب نہیں تھا۔۔میں پچھلی سیٹ پر جاکر انکی سیٹ کے بلکل عقب میں بیٹھ گیا۔۔ وہاں سے تھوڑا آگے نکل کر میڈم بولیں تم نے س طرف جانا ہے اور جب میں نے بتایا تو وہ بولیں تو ایسا کرتے ہیں تم میرے ساتھ کالج تک چلو ۔ کالج چوک تک راستہ ایک ہی وہاں سے آگے چلے جانا۔۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔۔ مین سڑک پر میڈم بولیں تم لاہور کے تو نہیں لگتے میں نے کہا جی میں لاہورسے باہر سےہوں اور انہیں بتایا کہ میرا کونسا گاوں۔۔وہ بولے تبھی اتنے سادہ ہو پینڈو ہو نا۔۔ مجھے تھوڑا برا لگا اور بولا پینڈو ہونا گناہ تو نہیں نا میڈم بس سادہ ہوتے ہیں۔۔ میڈم فورا بولیں ارے نہیں نعیم تم برا مان گئے ۔ تمہاری سادگی ہی تمہارا کمال ہے۔۔ تم بولتے بہت کم ہو شرمیلے بھی ہو۔۔اب جب باتیں شروع ہوئیں تو میں تھوڑا آگے ہو گیا اور آہستہ آہستہ فرنٹ کی دو سیٹوں کے دمیانی گیپ کے سامنے پچھلی سیٹ کے درمیان میں ۔۔ سردیوں کا مہینہ تھا کار کے شیشے مکمل بند تھے ۔۔ اور میڈم بیڈمنٹن گیم لگا کر فورا واپسی نکل آئیں۔۔ انکے لگائے پرفیوم اور انکے پسینے کی اور اس بالوں کی مہک افففف میں جو ان سے فٹ بھر کے فاصلے پر تھا پاگل ہو رہا تھا۔۔ باہر شام کے اندھیرے پھیل چکے تھے اندر رات کی رانی ۔۔ بنگالی ساحرہ کی خوشبو کار میں پھیل چکی تھی ۔۔ وہ جانے کیا پوچھتی کیا بولتی رہیں میں تو بس اس خوشبو اس باہر سے آتی جھلمل روشنیوں سے آتی ہلکی روشنی ہلکے اندھیرے میں مکمل مدہوش سا تھا۔۔۔مانا کہ میرا اس سے پہلے دو لیڈیز سے سیکس ریلیشن رہا تھا لیکن ایسی خوشبو میں ادھر محسوس نہیں کی ۔۔مجھے ہوش تب آئی جب میڈم نے اچانک بریک لگائی اور میں جو جانے کہاں مست تھا ایک جھونک میں درمیانی گیپ سے آگے کو انکے شولڈر تک گیا۔۔ جیسے ہی میرا چہرہ انکے شولڈر سے ٹکرایا اور انکے بالوں کا لمس اور خوشبو میرے چہرے سے ٹکرائی مجھے ہزار واٹ کا جھٹکا لگا۔۔ اوہو کدھر گم تھے بیوقوف شکر کرو بچ گئے اس موسم میں سیٹ سے ناک ٹکراتا تو لگ سمجھ جاتی۔۔ انہیں کیا خبر تھی ادھر کیا سوچ تھی۔۔ کالج چوک آ چکا تھا میں کھویا کھویا اترا اور وہ باے کرتی آگے نکل گئیں۔۔۔وہاں سے رکشہ میں گھر جانےتک میں اسی خوشبو اسی ہلکے اندھیرے میں گم رہا۔۔اسی گم حالت میں جب میں گھر پہنچا توآگے آنٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔ انہوں نے سہی سے مجھے لتاڑا کہ وقت دیکھو لفنٹر ۔۔ میں نے فوری بہانہ گھڑا کہ سپورٹس کی ٹرائی تھی لیٹ ہوگیا۔۔ میرے اندر جو مستی چھائی ہوئی تھی آنٹی کو دیکھ کر اور بھڑک اٹھی ۔۔۔ میں اوپر جانے لگا تو آنٹی نے مجھے کہا اب کدھر جا رہے ۔۔ عمبرین کا نہیں پوچھا ۔۔ میں نے کہا ہوںگی یہیں کیوں کیا ہوا۔۔تب وہ تپ کر بولیں واہ بھئی واہ۔۔ کل مچھلی کا بولا تھا وہ بےچاری شام کے چائے کے ساتھ بنا کر اتنا انتظار کیا ۔۔ تب مجھے یاد آیا اور میں شرمندگی سے بولا تو اب۔۔ وہ بولیں کمرے میں ہے جا کر منا لو اسے جلدی سے۔۔اور وقت سے ہی آ جانا کلاس کےلیے۔۔ مجھے پیریڈز کے بعد خوب گرمی چڑھی ہوئی۔۔ میں ان کی بات پہ انہیں آنکھ مارتا عمبرین کے کمرے کےدروازے پر گیا اور ناک کر کے اندر گیا۔۔وہ سامنے ہی منہ سجائے بیٹھی تھیں۔۔انکا حق بنتا تھا۔۔ اور اس حلیے میں وہ بہت سادہ اور بہت معصوم سی لگ رہیں تھیں۔۔ انہیں دیکھ کر ایسے لگتا جیسے کوئی تیز دھوپ سے گھنے شجر تلے آ گیا ہو۔۔کافی منت سماجت کے بعد وہ راضی ہوئیں۔۔ واقعی مچھلی بہت کمال کی تھی۔۔ میری بہت ساری تعریفوں پر وہ بہت بلش اور بہت خوش ہوئیں۔۔ آپستہ آہستہ ہمارے درمیان ایک خاموش سا تعلق پروان چڑھ رہا تھا جسکا اس وقت تک کوئی نام نا تھا۔۔۔ جیسے لگاو سا۔۔۔مچھلی کھانےکے بعد آنٹی شازیہ جب باہر گئیں تو عمبرین بولی کہ تعریف تو ہوئی مچھلی کی اور جو دیر کی اسکی سزا۔۔میں نے بولاہر سزا منظور ۔۔ وہ بولیں آج نائلہ آئی ہوئی ہے میرا جانےکو بہت دل ہے لیکن خالہ کا مسلہ ۔۔

پھر جانے وہ کب آئے تم بھی خالہ کو کہنا۔۔ میں نے وعدہ کر لیا اور پھر آنٹی کو الگ بلا کر ان سے اس طرح کہا کہ آج کمال موسم موڈ اور ڈھیر ساری مچھلی کا اثر۔۔۔ عمبرین کو اجازت دیں ۔۔ اکیلے گھر میں مزہ کرتے۔۔ اور یوں آنٹی نے ناصرف اسے جانے کی اجازت بلکہ رات رکنے کی اجازت بھی دے دی۔۔کچھ دیر بعد میں عمبرین کو چھوڑنے جا رہا تھا۔۔گھر سے نکلتے ہی انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔اعر میں نے کہا جناب آپ کا جب جو دل ہو دوست کو آزما لینا۔۔نائلہ گھر میں دو منٹ رکا بس اور آنٹی اکیلی ہیں کا بہانہ بنا کر واپسی کو نکل آیا۔۔ دروازے کے پاس کومل کھڑی تھی۔۔ اس نے جلدی سے مجھے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا اور تیزی سے پلٹ گئی۔۔۔ میں نےفورا جیب میں ڈالا اور سپیڈو سپیڈ گھر پہنچا۔۔ سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف آنٹی کےکمرے میں روشنی تھی میں آرام سے گنگناتا اندر داخل ہوا۔۔سامنے آنٹی گاون لپیٹے بیڈ پر لیٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں گاون میں کھ کچھ جھلکتا انکا جلوہ۔۔۔انکی شکل کی ایک تصویر اینڈ پر میں لگا رہا ہوں۔۔انکا انگ انگ اور سارا چہرہ بتا رہا تھا وہ فل گرم۔۔۔میں اندرآیا اور دروازے کو لاک کرتاہوا۔۔ بیڈ کے پاس کھڑا ہوا۔۔ اور کہا ۔۔ اب اجازت ہے دیکھ لوں ٹانگوں کو کل جو روکا تھا وہ تڑپ کر اٹھیں اور بولیں ہاے چندہ ناراض ہو۔۔ میں نے کہا نا ۔۔ بس بے صبرا ہوں۔۔ وہ زور سے ہنسیں اور کہا ہاے بےصبرے تو آو نا آج دیکھ لو سارا بدن یہ۔۔ فل لوشن کے ساتھ۔اور ایک اکساتی انگڑائی لی۔۔ انکے بازو ابھی اوپر تھے کہ میں ان پر جھپٹا۔۔۔کل کے انکے جلوے کا اثر۔۔ میڈم رفعت کی مہک کا اثر اور شام کو مچھلی ۔۔۔ میں ڈبل نہیں ٹرپل موج میں تھا۔۔ میں انکے اوپرگرتا لیٹتا چلاگیا۔۔ بے تابی سے اور وہ مجھے خود میں چھپاتی سنبھالتی ساتھ اور ساتھ لگتی گئیں۔۔ یوں ہی گلے لگے ایک دوسرے کے اوپر نیچے پورے بیڈ پر ادھر ادھر رول ہو رہے تھے۔۔حدت بڑھ رہی تھی وہ پندرہ دنوں سے پیاسی تھیں ۔۔ میرے ہونٹ انکی پیاس کو اور بڑھا رہے تھے۔۔ میں نے لبوں سے گاون کی فرنٹ گانٹھ کو کھولا اور سامنے سے سارا حجاب چاک کر دیا۔۔۔ افففف سامنے انکا چمکتا بدن ۔۔بڑے نپلز والے بوبز گداز موٹی ٹانگیں۔۔ میں نے انہیں ایسےہی بیڈ پرگرایا اور انکے پیٹ سے گردن تک چاٹنے لگا۔۔ میری زبان کی نوک انہیں تڑپا رہی تھی۔۔ انہوں نے بے تابی سے میرے لن کو خود ہی پکڑا۔۔۔اففففف لن ٹرپل نشےسے فل ٹن تھا۔۔۔ جھٹکے کھاتا۔۔آنہوں نے ایسے ہی لیٹے آنکھیں موندے میرے ٹراوزر کے اندر ہاتھ کر کے لن کو سہلانا شروع کیا۔۔ میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور جانے کیوں یکدم مجھے اسی خوشبو اسی اندھیرے کی یاد آ گئیی افففف میڈم رفعت کی یاد آنی تھی کہ لن اور اکڑا اور جسم اور گرم ہوا۔۔۔میں نےانہیں بیڈکےکارنرپر کھینچا اور کھڑےہو کر انکےننگے گورے شفاف جسم پر لنکو پھیرنےلگا۔۔ لن سے پورے جسم پر گرم جذبوں کو لکھنے لگا۔۔ اور جیسے جیسے میرے لن کی حرکت ہو رہی تھی وہ سسک رہیں تھیں۔۔ میں لن کو رول کرتے ٹانگوں رانوں پیٹ سینے سے گردن تک لایا ۔۔ اور واپس گھمانے ہی لگا تھا کہ انہوں نے اوپر لاو نا اسکو جیسی بہکتی سرگوشی کی اور میں لن کو انکی گردن سے ٹھوڑی سے چہرےپر پھیرتا ماتھے تک گیا انہوں نے بے ساختگی سے میرے لن کو پکڑا ۔۔ اپنےدونوں لپس کو ہلکا سا کھولا اور لن کو لپس پر رکھ کر نیچے سے نچلی رگ پر زبان کو پھیرنے لگیں۔۔ افففف میں تو مرنےوالا ہو گیا۔۔ میر سانسیں جیسے تیز طوفان۔۔ میں اب ہلکا ہلکا آگے پیچھے ہو رہا تھا اور میرا لن انکے لپس پر سرمہ سلائی کی طرح آگے پیچھے پھر رہا تھا اور انکی زبان انکی گہری سانسوں کا احساس۔۔

پھر جانے وہ کب آئے تم بھی خالہ کو کہنا۔۔ میں نے وعدہ کر لیا اور پھر آنٹی کو الگ بلا کر ان سے اس طرح کہا کہ آج کمال موسم موڈ اور ڈھیر ساری مچھلی کا اثر۔۔۔ عمبرین کو اجازت دیں ۔۔ اکیلے گھر میں مزہ کرتے۔۔ اور یوں آنٹی نے ناصرف اسے جانے کی اجازت بلکہ رات رکنے کی اجازت بھی دے دی۔۔کچھ دیر بعد میں عمبرین کو چھوڑنے جا رہا تھا۔۔گھر سے نکلتے ہی انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔اعر میں نے کہا جناب آپ کا جب جو دل ہو دوست کو آزما لینا۔۔نائلہ گھر میں دو منٹ رکا بس اور آنٹی اکیلی ہیں کا بہانہ بنا کر واپسی کو نکل آیا۔۔ دروازے کے پاس کومل کھڑی تھی۔۔ اس نے جلدی سے مجھے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا اور تیزی سے پلٹ گئی۔۔۔ میں نےفورا جیب میں ڈالا اور سپیڈو سپیڈ گھر پہنچا۔۔ سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف آنٹی کےکمرے میں روشنی تھی میں آرام سے گنگناتا اندر داخل ہوا۔۔سامنے آنٹی گاون لپیٹے بیڈ پر لیٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں گاون میں کھ کچھ جھلکتا انکا جلوہ۔۔۔انکی شکل کی ایک تصویر اینڈ پر میں لگا رہا ہوں۔۔انکا انگ انگ اور سارا چہرہ بتا رہا تھا وہ فل گرم۔۔۔میں اندرآیا اور دروازے کو لاک کرتاہوا۔۔ بیڈ کے پاس کھڑا ہوا۔۔ اور کہا ۔۔ اب اجازت ہے دیکھ لوں ٹانگوں کو کل جو روکا تھا وہ تڑپ کر اٹھیں اور بولیں ہاے چندہ ناراض ہو۔۔ میں نے کہا نا ۔۔ بس بے صبرا ہوں۔۔ وہ زور سے ہنسیں اور کہا ہاے بےصبرے تو آو نا آج دیکھ لو سارا بدن یہ۔۔ فل لوشن کے ساتھ۔اور ایک اکساتی انگڑائی لی۔۔ انکے بازو ابھی اوپر تھے کہ میں ان پر جھپٹا۔۔۔کل کے انکے جلوے کا اثر۔۔ میڈم رفعت کی مہک کا اثر اور شام کو مچھلی ۔۔۔ میں ڈبل نہیں ٹرپل موج میں تھا۔۔ میں انکے اوپرگرتا لیٹتا چلاگیا۔۔ بے تابی سے اور وہ مجھے خود میں چھپاتی سنبھالتی ساتھ اور ساتھ لگتی گئیں۔۔ یوں ہی گلے لگے ایک دوسرے کے اوپر نیچے پورے بیڈ پر ادھر ادھر رول ہو رہے تھے۔۔حدت بڑھ رہی تھی وہ پندرہ دنوں سے پیاسی تھیں ۔۔ میرے ہونٹ انکی پیاس کو اور بڑھا رہے تھے۔۔ میں نے لبوں سے گاون کی فرنٹ گانٹھ کو کھولا اور سامنے سے سارا حجاب چاک کر دیا۔۔۔ افففف سامنے انکا چمکتا بدن ۔۔بڑے نپلز والے بوبز گداز موٹی ٹانگیں۔۔ میں نے انہیں ایسےہی بیڈ پرگرایا اور انکے پیٹ سے گردن تک چاٹنے لگا۔۔ میری زبان کی نوک انہیں تڑپا رہی تھی۔۔ انہوں نے بے تابی سے میرے لن کو خود ہی پکڑا۔۔۔اففففف لن ٹرپل نشےسے فل ٹن تھا۔۔۔ جھٹکے کھاتا۔۔آنہوں نے ایسے ہی لیٹے آنکھیں موندے میرے ٹراوزر کے اندر ہاتھ کر کے لن کو سہلانا شروع کیا۔۔ میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور جانے کیوں یکدم مجھے اسی خوشبو اسی اندھیرے کی یاد آ گئیی افففف میڈم رفعت کی یاد آنی تھی کہ لن اور اکڑا اور جسم اور گرم ہوا۔۔۔میں نےانہیں بیڈکےکارنرپر کھینچا اور کھڑےہو کر انکےننگے گورے شفاف جسم پر لنکو پھیرنےلگا۔۔ لن سے پورے جسم پر گرم جذبوں کو لکھنے لگا۔۔ اور جیسے جیسے میرے لن کی حرکت ہو رہی تھی وہ سسک رہیں تھیں۔۔ میں لن کو رول کرتے ٹانگوں رانوں پیٹ سینے سے گردن تک لایا ۔۔ اور واپس گھمانے ہی لگا تھا کہ انہوں نے اوپر لاو نا اسکو جیسی بہکتی سرگوشی کی اور میں لن کو انکی گردن سے ٹھوڑی سے چہرےپر پھیرتا ماتھے تک گیا انہوں نے بے ساختگی سے میرے لن کو پکڑا ۔۔ اپنےدونوں لپس کو ہلکا سا کھولا اور لن کو لپس پر رکھ کر نیچے سے نچلی رگ پر زبان کو پھیرنے لگیں۔۔ افففف میں تو مرنےوالا ہو گیا۔۔ میر سانسیں جیسے تیز طوفان۔۔ میں اب ہلکا ہلکا آگے پیچھے ہو رہا تھا اور میرا لن انکے لپس پر سرمہ سلائی کی طرح آگے پیچھے پھر رہا تھا اور انکی زبان انکی گہری سانسوں کا احساس۔۔

میرا لن پھٹنے والا ہو چکا تھا۔۔ میں پیچھےہٹا۔ انہوں نے لال آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا ۔۔ اچھے ہو لیکن ابھی بھی کچےہو۔۔اور مجھے کہا سب اتاردو۔۔ میں نے آدھا اترا ٹراوزر فل اتارا اورشرٹ بھی وہ پھینک۔۔ انہوں نےکہا آج تمہیں ماسٹر ڈگری سکھاتی ۔۔انہوں نے سرہانہ بیڈ کے درمیان رکھا اور اس پر ایسے لیٹیں کہ انکی ٹانگیں زمین پر ۔۔ گانڈ اورکمر بیڈ پر۔ وہ بولیں ایسے اوپر لیٹو میرے ۔۔ میں انکے اوپر لیٹا۔۔ انہوں نے ہاتھ سے لن کو پھدی پر رکھا اور کہا اب آہستہ آہستہ نیچےآو۔۔سخت اکڑا لن اوپر سے نیچے کو پھدی کےدانےکو رگڑتے اندر جا رہا تھا آہستہ آہستہ آدھے تک۔انہوں نے گہرا سانس لیا اورکہا اب آرام سے اندرکرو۔۔ میں بلکل آرام سے ٹیکے کی طرح اندر کرتا گیا۔۔ جب فل اندر گیا تو انہوں نے عجیب کام کیا۔۔ گاون کو میرے اوپر سے لاتے ہوے ڈوری باندھ دی۔۔ اب انکے لانگ گاون میں میرے جیسا سمارٹ بندہ فل پھنس گیا۔۔ ہم اس ڈوری اورگاون میں بلکل ساتھ جڑ چکےتھے انکے بوبز میرے سینے کے نیچے مکمل پچکےہوے

انہوں نےکہا اب ایسے ہی اس گاون کی تنگی میں ہلکا ہلکا موو کرو۔۔ جیسے چٹنی بناتے ہوئے کونڈی میں ڈنڈاگھماتے۔۔۔اففففف جب میں نے ایسے کیا ۔۔ فل جسم کی رگڑ اور لن جیسے اندر فل جم کے گھوما۔۔ انکی سسکیاں ۔۔ آہستہ سے گھومتا تھوڑا سا زور لگا کر گاون کی لچک جتنا اوپر جاتا اور واپس آتا۔ لن آدھے سے زیادہ اندر ۔ تھوڑا سا باہر جاتا اور فل زور سے اندر جیسے میخ ٹھونکتے اب انہوں نے گاون کے بازوں سے اپنے ہاتھوں کو نکال کر میری ہپ کو زور سے جکڑ لیا اور مجھے اوپر کھینچتیں ۔۔ جب وہ مجھے اوپر کھینچتیزں لن تھوڑا سا موڑا جاتا اور ایسے لگتا جیسے کچومر نکل جانا۔۔ ہم دونوں مکمل پاگل ہو چکے تھے۔۔اوپرنیچےآدھا اندر آدھا باہر۔۔گھماتے گھماتے ۔۔ ہااااے میری پھدی سہی کھل گئی اااففففف اور زور سے گھما نا چندا۔۔ انکی بہکتی سسکیاں۔۔ دونوں کا وقت قریب تھا۔۔ میں نے انہیں کہا اب تھوڑی گاون کی ڈوری ڈھیلی کریں اور تھوڑا اوپر جا کر آدھا لن نکال کر جو جھٹکے مارنے شروع کیے وہ مست چیخنے لگیں۔۔ میری سسکیاں بھی اب تیز تھیں۔۔ اور ایک تیز چیخ کےساتھ انہوں نے ڈسچارج ہونا شروع کیا۔۔ انکا گرم پانی میرے لن سے ٹکرا رہا تھا۔۔ پھدی کی دیواریں کھل بند ہو رہیں تھیں۔۔ میری ٹانگوں سے تیز نشہ لن تک آیا اور ایک طوفانی جھٹکے سےمیں ڈسچارج ہوتا انکے اوپر جا گرا



جاری ہے

*

Post a Comment (0)