Ishq Aawara - Episode 14

عشق آوارہ 


قسط 14


ایک لمحے کے لیے جیسے ہر طرف سناٹا چھا گیا۔۔۔کھلے دروازے میں رابعہ کھڑی تھی۔۔ انکی حیرت سے پھٹی آنکھیں مجھ پر جمی تھیں۔۔ میرا اکڑا جھاگ اڑاتا لن ۔۔ پچکاریاں مار رہا تھا اور انکی عزیز سہیلی بلکل ننگی گھوڑی بنی ساکت۔۔ دو چار سیکنڈ تک جیسے سناٹا رہا اور پھر تینوں کو ہوش آیا۔۔۔ سب سے پہلے رابعہ کے منہ سے نکلا ہاے اللہ توبہ اور وہ واپس بھاگیں۔۔ انکے جانے کے بعد میری اور کومل کی نظریں ملیں۔۔ کومل کا رنگ سفید پڑ چکا تھا وہ جلدی سے الٹے سیدھے کپڑے پہنتی باہر کو بھاگیں۔۔

ساری سہاگ رات کی ایسی کی تیسی پھر چکی تھی۔۔ پتہ تو چل چکا تھا اب دوسرےروم میں جانے کا فائدہ نہیں تھا۔۔ میں وہیں رضائی میں گھس گیا۔۔ میں ہلی غنودگی میں تھا جب کچھ آدھ پونے گھنٹے کےبعد کومل واپس آئی۔۔۔ اب اسکا چہرہ نارمل تھا۔۔ انہوں نے مجھے کہا تم دوسرے کمرے جاکر سو جاو۔۔فکر نہیں کرو میں نے سیٹنگ کر لی ہے۔۔ اور میں قسمت کو کوستا ہوا ایک جوان عورت کے کمرے سے بوڑھے خراٹے لیتے انکل کے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔۔۔ اگلی صبح میری آنکھ جب کھلی تو ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔۔ میں نے ادھ کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔سامنے ہی وہ ظالم صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی۔۔انکا متناسب جسم ہلکورے لےرہا تھا۔۔ میں نے دن کی روشنی میں انکا جائزہ لیا۔۔۔ انکی رنگت ہلکی سانولی تھی بلکل ماریہ واسطی کی طرح۔۔۔ لیکن عمر کم تھی۔۔۔میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر کھڑکی کو بجایا۔۔ وہ جھاڑو دیتے اچانک بدکیں ۔۔ اور پھر جھاڑو رکھ کر اندر کی طرف آکر باہر سے ہی پوچھا۔۔۔ جاگ گئے ہو۔۔میں نے کہا جی جاگ گیا ہوں اور ان سے کومل کا پوچھا۔۔ وہ کہنے لگیں وہ نائلہ کو ملنے گئ ہیں۔۔۔اور کہہ گئی جب تم اٹھو تو ادھر آ جانا۔۔وہ باہر سے ہی سب جواب دے رہیں تھیں جیسے اندر آئی تو میں انہیں چود نا دوں۔۔۔ میں نے کہا جی بہتر۔۔ اور کہا مجھے منہ ہاتھ دھونا ہے ۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولی باہر آ کر سامنے نل پہ دھو لو۔۔ میں چپل گھسیٹتا باہر نکلا۔۔ وہ دروازے سے تھوڑا ہٹ گئیں۔۔انکا انداز ایسے تھا جیسے وہ سہمی ہرنی اور میں ظالم شکاری۔۔ جانے کومل نے اسے کیا بتایا تھا۔۔۔ منہ ہاتھ دھو کر میں نے اجازت چاہی وہ گویا شکر ادا کیا ۔۔ شادی والے گھر آنا جانا لگا ہوا تھا۔۔ میں نے ایک بچی کے ہاتھ کومل کو پیغام دیا۔۔کچھ دیر بعد جب کومل آئی تو اب اسکا چہرہ نارمل تھا۔۔ وہ مجھے ایکطرف لیجاتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے آنٹی شازیہ کو بتا دیا کہ رات ادھر محلے میں روک لیا تمہیں بہت سردی تھی اسلیے۔۔۔ اب تم رکو پھر اکھٹے چلتے ہیں واپس۔۔

کچھ دیر بعد ہم واپسی کو نکل پڑے۔۔ راستے میں کومل نے مجھے بتایا کہ تم بس چپ بے فکر رہو۔۔ میری رابعہ سے بات ہو گئی ہے پہلے تو بہت غصہ تھی لیکن پھر میری بات کو سمجھ گئی۔۔ ظاہر ہے وہ خود تین سال سے اکیلی تو میرا دکھ سمجھ گئی۔۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ میں نے انکی بات سن کر دکھی نظروں سے انکی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولیں۔۔ بدھو ۔۔اسےکہا ہے تم بے فکر رہو۔۔ گھر پہنچ کر میں انہیں چھوڑ کر واپس آنٹی گھر آیا اور سلام دعا کے بعد سو گیا۔۔ شام کو ولیمہ تھا۔۔سب لوگ بھاگم بھاگ تیاریاں کر رہے تھے۔۔ ولیمہ میرج ہال میں تھا۔۔۔ہر طرف خوشبو کے لپیٹے اٹھ رہے تھے۔۔۔کھانا وغیرہ کھانے کے بعد جب باہر کے مہمان نکل گئے اور گھریلو یا قریبی احباب بیٹھے تصویریں کھینچ رہے تھے۔ ولیمے کے دوران دو چار بار میری نظر رابعہ سے ٹکرائی۔۔ اس نے آج بھی سفید لباس ہی پہن رکھا تھا۔۔جب جب میری نظر ٹکرائی قدرتی طور وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہیں تھیں۔۔میں ایسے جانے کب تک تاکا جھانکی کرتا رہتا جب مجھے ناصر نے ابرو کے اشارے سے پاس بلایا۔۔ اور ایک طرف لیجاتے ہوئے کہا ۔۔ یار آپ سے ایک کام ہے پلیز مدد کریں نا بھائی کی۔۔ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔اور میری رضامندی پر بولا آپ تھوڑی دیر اوپر والے واش روم تک آئیں بتاتا ہوں آپکو لیکن آنا خاموشی سے ہے۔۔اسکےجانے کےبعد میں سسپنس سے مجبور سائیڈ سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر گیا۔۔اوپر بلکل سناٹا تھا۔۔ ایک طرف واش روم کا راستہ بتایا گیا تھا۔۔ میں ادھر کو گھوما جب مجھے ناصر دکھائی دیا۔۔اور منت بھرےلہجے میں بولا ویرے ایک مدد کرو گے۔۔ وہ لڑکی دکھائی تھی نا میں نے تمہیں ۔۔ جس سےمیرا چکر چل رہاتھا۔۔میں نے کہا ہاں کیا ہوا۔۔ کہتا ویسےتو ہر طرف سکون ماحول ہے لیکن۔۔۔پھر بھی مسلہ ہو سکتا۔۔ بہن کے سسرال سے ہے۔۔ میں نے اسے اوپر بلایا ہے۔۔ ادھر دلہن ریسٹ روم میں۔۔ دو چار منٹ ۔۔۔ یار پلیز تم ایک طرف چھپ کر پہرا دو گے۔۔دو سال سے ذلیل ہو رہا آج وہ پہلی بار دو منٹ الگ ملنے کو مانی۔۔ میرا کیا جاتا تھا ویسے بھی ناصر سے بنا کر رکھنی ضروری تھی۔۔۔ میرے مان جانے پر اس نے خوشی سے میرا ماتھا چوما اور کہا آپ ایک طرف واش روم میں چھپ جاو۔۔ جب میں اسے اوپر لایا اور اندر گیاتو سیٹی ماروں گا آپ باہر نکل کر پہرا دینا بس دو منٹ۔۔۔میں واش روم چلا گیا۔۔ کچھ دیر بعد ہیل کی ٹھک ٹھک کے ساتھ انکی آپسی کھسر پھسر سنائی دی۔۔۔ اور پھر ناصر نے سیٹی ماری۔۔۔

میں واش روم سے باہر نکلا۔۔۔ ہر طرف سناٹا تھا۔۔ اچانک ایک ہلکی سی سسکی کی آواز آئی اور بس نا کی مدہم سرگوشی۔۔۔ بھلا مجھ سے بہتر سسکیوں کو کون جانتا ۔۔ میرے اندر تجسس جاگا۔۔ میں دبے قدموں دلہن ریسٹ روم کے پاس گیا اور کی ہول سے آنکھ لگائی۔۔۔ افففف مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ سامنے صوفے پر وہ دونوں کسنگ کر رہے تھے۔۔ ناصر کے ہونٹ اسکے لبوں کو چوس رہے تھے۔ ناصر کا ہاتھ اسکے گریبان پر پھر رہا تھا اور وہ اسے روک بھی رہی تھی اور شہہ بھی دےرہی تھی ۔۔ اب ناصر نے ہاتھ اسکے گریبان میں گھسا کر اسکے بوبز کو مسل رہاتھا جب اچانک میرج ہال میں اناونسمنٹ ہوئی کہ وقت کافی ہو گیا براہ مہربانی ہال خالی کریں۔۔ یہ اناونسمنٹ انہیں ہوش میں لےآئی۔۔ میں فورا پیچھے ہٹا۔ اور دوبارہ واش روم میں جاکر چھپ گیا۔۔ تھوڑی دیر بعد باہر کسی کے جانے کی آواز آئی اور تھوڑی دیر تک میں بھی باہر نکل آیا۔۔۔ میں ابھی نکلنے لگا تھا کہ دلہن روم کا دروازہ پھر کھلا اور وہ فیشنی حسینہ باہر نکلی ۔۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹھکی اور پھر سمائل دیتی نیچے اترنے لگی۔۔ میں سدا کا بدھو ۔۔ اس سے تھوڑا پیچھے چلنے لگا۔۔ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دو اکھٹے واقعےہوئے ۔۔ اس نے اپنی شرٹ کو تھوڑا ایڈجسٹ کیا۔۔ اسکے پیچھے دو سیڑھیاں اوپر میں کھڑا تھا۔۔ جب اچانک سامنے رابعہ خاتون برآمد ہوئیں۔۔ اس نے ہم دونوں کو اور اس فیشنی کو شرٹ ایڈجسٹ کرتے دیکھ لیا تھا۔۔ اسکی چہرے پر ایکبار پھر حیرت آمیز غصہ طاری ہوا۔۔ دیکھنے والا یہی سمجھا ہوگا کہ اوپر ہم دونوں تھے ۔۔ وہ تو ٹھک ٹھک کرتی نکل گئی لیکن جیسے ہی میں رابعہ کے پاس سے گزرنے لگا وہ بولی شکل سےتو معصوم لگتے ہو پر کام سارے آوارہ والے ۔۔۔ حد ہے بھئی۔۔۔ میں کھسیا کر چپ آگے بڑھ گیا

اگلےدن سے پھر وہی روٹین شروع ہو گئی۔۔۔ کالج جانا ۔۔ واپسی پر عمبرین کے ساتھ پڑھنا۔۔ آہستہ آہستہ عمبرین کے ساتھ میرا دوستانہ بڑھ رہاتھا۔۔ آنٹی شازیہ اور کومل کو چودنے کے باوجود بھی جانے کیوں عمبرین کے لیے میرے دل میں ہوس کی جگہ الفت ہی جاگتی تھی۔۔۔ ہاں میں انکو چھونا بھی چاہتا تھا لیکن ایسے نہیں۔۔ بلکہ محبت سے ضرورت سے نہیں۔۔۔ایک دن میں کالج گیا تو سامنے ہی بیلا گروپ کھڑا تھا ان سے دو اہم خبروں کا پتہ چلا پہلی کہ کالج میں جشن بہاراں مناے جانے کا شیڈول اناونس ہوا ہے۔۔۔سب طلبا بہت خوش نظر آ رہے تھے۔۔میرے اندر اس وقت دو طرح کی کیفیات ہوا کرتیں تھیں۔۔۔پہلا اپنی ایج کے مطابق پڑھائی کھیل کود مستی۔۔ دوسرا آنٹی شازیہ کی مہربانی سے جسمانی نشہ۔۔۔۔ اور دوسری خبر کے مرحوم ایڈمن کی جگہ نئی ایڈمن آفیسر ٹرانسفر ہوکر آئیں ہیں ۔۔رفعت میڈم ۔۔

بیلا نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس گیم میں حصہ لو گے۔۔میں نے اس سےپوچھا کون کون سی گیمز ہو رہی ہیں۔۔اس نے بتایا چاٹی ریس لڑکیوں کی۔۔ دو سو میٹر ریس لڑکوں کی ۔۔ لانگ جمپ ۔۔سوئمنگ وغیرہ۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا تم کون سی گیم میں حصہ لے رہی ہو۔۔ وہ بولی ٹینس میں اور تم میں نےکہا میں پینڈو بندہ۔۔نہروں میں کودتا پگڈنڈیوں پر دوڑتا میں کس میں حصہ لوں گا۔۔ وہ مسکرا کر بولیں۔۔ واقعی پینڈو ہو تم سوئمنگ میں حصہ لے سکتے ہو۔۔ رننگ کر سکتے ہو ۔۔ بلکہ دونوں میں حصہ لو

میں نے ایکبار تو بات آئی گئی کر دی لیکن میری اس آئی گئی کا ستیاناس سینڈ پیریڈ میں ہوا۔۔ سیکنڈ پیریڈ میں باہر گیلری میں ہلچل مچی ۔ پہلے پرنسپل صاحب داخل ہوئے ساری کلاس کھڑی ہوئی۔۔ انکے پیچھے ہمارے بلاک کے انچارج اور انکے پیچھے ایک چالیس کے آس پاس کی گریس فل آنٹی داخل ہوئیں۔۔۔انہیں دیکھتے ہی مجھے جھٹکا لگا۔۔ ابے یہ انڈسٹری سے ہمارےکالج کب آئی۔۔ اس خاتون کی شکل پرانی اداکارہ سلمی آغا سے کافی ملتی تھی۔۔ بلکل اسی کی طرح ٹھوڑی میں تل میری آنکھیں جم ہی گئیں لیکن سب کے السلام و علیکم سر کی آواز سے میں چونکا اور جلدی سے نظر بدلی اور سیریس ہوا۔۔سر نے سلام کے جواب کے بعد پہلے مرحوم ایڈمن کا اچھے الفاظ میں ذکر کرنے کے بعد میڈم رفعت کا تعارف کروایا ۔۔ ساتھ ہی اناونس کیا کہ کمنگ سپورٹس کمپیٹیشن کو یہی لیڈ

 کریں گی۔۔اسکے بعد میڈم رفعت نے اپنا تعارف کروایا ۔۔

اور سیکنڈ ہاف میں سپورٹس والے سٹوڈنٹس کو ایڈمن آفس طلب کر لیا۔۔۔ پیریڈ کے بعد اسبار میں نے ازخود بیلا کو بلایا اور کہا یار تم سہی کہ رہی تھی۔۔جتنے غوطے میں نے نہروں میں کھائے ہیں کیا بتاوں ۔۔ اور رننگ تو میں سوپر ہوں۔۔ پورا پنڈ جانتا کہ گاوں کی پگڈنڈیوں پر میں کیسے اندھا دھند بھاگا کرتا تھا۔۔ یوں ہم نے ڈن کیا۔۔اور سیکنڈ ہاف انکے دفتر چلے گئے۔۔ ہمارے علاوہ بھی۔مختلف شعبوں کے طلبا و طالبات موجود تھے۔۔ وہاں جا کر مجھے احساس ہوا کہ بیلا عجیب چیونگم سی لڑکی ہے۔۔ ہر ایک کے ساتھ چپک چپک کر اور جب یہی بات میں نے اسے کہی تو وہ بولی اسے مینرز کہتے ہیں ۔۔ تعلقات بڑھانا کہتے ہیں باری باری ہر کلاس کے طلبا جاتے۔ کچھ دیربعد ہماری کلاس یعنی میں اور بیلا کو بھی میڈم رفعت کا بلاوا آ گیا۔۔ جب ہم اندر گئے تو میڈم سامنے کرسی پر بیٹھی کوئی فولڈر دیکھ رہیں تھیں۔۔ ہمیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنےکا بولا اور بیلا سے مخاطب ہوئیں میں تمہارا فولڈر دیکھ رہی تھی۔۔ کافی اچھا ٹینس کھیل لیتی ہو تم۔۔صوبائی سطح تک مقابلے کھیلے تم نے۔ جی میری ماما کو شوق تھا تو انکی وجہ سے۔۔ پھرمیری بڑی بہن بھی کھیلتی رہیں ہیں کافی مشہور تھیں۔۔ شکیلہ حمید شائد آپ نے نام سنا ہو۔۔ اوہ تو تم نبیلہ حمید ۔۔شکیلہ حمید کی بہن ہو انہوں نے چونک کر کہا۔۔میں چپ انکی باتیں سن رہاتھا۔۔آپ جانتی ہیں نبیلہ حمید عرف بیلا نے مسرت سےکہا۔۔ ہاں پہلے ایک دو مقابلوں میں ملاقات ہوئی۔۔ پھر ایک سپورٹس ٹرپ پر کافی دن اکھٹے رہے کافی دوستانہ ہو گیا پھر ایجوکیشن کے بعدوہ گم ہی ہو گئی۔۔ اب کیسی ہے وہ کہاں ہوتی ہے۔۔آپی کی شادی ہو گئی سٹڈی کے فورا بعد ہی وہ یو کے ہوتی ہیں۔۔ میں ان سے ذکر کرونگی۔۔۔ اسکےبعد بیلا چیونگم تو جیسے ان سے چپک ہی گئی آپی کی باتاں اور قصے بہت دیر بعد میں نے بیلا کو ہلکے سے کہنی ماری ۔۔ اور اسے یاد آیا کہ ہم کالج ہیں۔۔بیلا نے ہی میرا فارم بھرا اور ہم باہر نکل آئے ۔۔ باہر نکلتے ساتھ ہی میں نے اسے کہا واہ یار تم تو پوری فیملی سپورٹس والے ہو۔۔ وہ اترا کر بولی ہاں تو۔۔۔

گھر آ کر میں نے آنٹی اور عمبرین کو بتایا تو دونوں کا ری ایکشن مختلف تھا۔۔آنٹی نے بولا لو عجیب کالج ہے ۔ چار دن پڑھایا اور اب کھیل شروع ہو گیا۔۔ تم دفع کرو بس پڑھو بکروں کی طرح کیا بھاگو گے۔۔ عمبرین اس وقت تو کچھ نا بولیں لیکن جب شام کو ہم الگ بیٹھے تو وہ بولیں۔۔ پتہ نعیم تم دو جماعتیں مجھ سے زیادہ پڑھے سہی لیکن میں نے زندگی کو زیادہ پڑھا تم سے۔۔پڑھائی ضروری ہے لیکن ساتھ تفریح بھی ضروری ہے۔۔بعد میں زندگی کے ہزار جھمیلے۔۔ انکے چہرے پر بلا اداسی طاری تھی۔۔۔پتہ جب میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی نا وہ زندگی تھی ۔۔ مستی کی خوشی کی۔۔ اب وہ بات کہاں۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے انکے اندر کوئی بڑا راز چھپا ہے ۔۔ اک اداسی جو انکی آنکھوں میں ٹھہر چکی تھی۔۔ میں نے کہا گھر سے یاد آیا۔۔ آپکے اس گھر میں اب کون ہوتا ہے۔۔وہ بولیں کوئی نہیں بند ہے۔۔ کبھی دکھاوں گی تمہیں۔۔۔ میں نے کہاناں بابا ۔۔ بند گھروں میں بھوت ہوتے ہیں وہ چمٹ جاتے۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور بولیں اصلی بدھو ہو تم۔۔۔ جب وہ ہنستیں تو انکے ماتھے پر ایک رگ ابھر آتی افففف انکا ہرہر انداز جدا اور نرالا تھا۔۔انکی ہنسی کی آواز سن کر آنٹی بولیں شکر ہے تم ہنسی ہو ۔۔ کان ترس گئے تھے تیری ہنسی کو سنے۔۔ عمبرین تھوڑا جھجک کر بولیں وہ یہ نعیم ایک لطیفہ سنایا تو بے ساختہ ہنس پڑی۔۔ ہاے میں قربان جاو تو بچےہنسا کر نا۔۔ شکر ہے کچھ رونق لگی۔۔۔ اسوقت خالہ کے اندر بھانجی کا پیار فل زوروں پر تھا

جیسے دریااپنا رخ بدلتا ہے ایسے ہی دو لوگ میری زندگی میں شامل ہورہے تھے۔۔ عمبرین ۔۔ جن کو سمجھیں میں دن بھر کی رپورٹ دیتا تھا۔۔ ان کو ہنساتا سنتا اور بس دل کرتا وہ یونہی مسکراتی رہیں۔۔ دوسری بیلا۔۔۔ بیلا میری صرف دوست تھی ۔۔ ایک ایسی دوست جو آپکا ہر کام منٹوں میں کروا سکتی تھی۔۔ اسکی سلام دعا تقریبا سب ٹیچرز سے تھی ۔ہم کلاس میٹ بھی تھے آہستہ آہستہ ہماری اچھی بے تکلفی ہوتی گئی۔۔اکثر وہ مجھے پینڈو پروڈکشن دیسی ککڑ کہتی اورمیں اسے کڑی منڈا۔۔ اسکا حلیہ ہی ایسا ہوتا تھا جیسا پہلے بتا چکا انڈین مووی کچھ کچھ ہوتا ہے کی کاجول جیسا۔۔۔ لڑکوں والا سٹائل ۔۔

اسکا تعلق ایک انتہائی ایک پڑھی لکھی سپورٹس فیملی سےتھا۔اسکے والد سپورٹس میں صوبائی سطح کے مینجر تھے۔۔ سکولز کالجز کی ساری ٹیمیں صوبائی سطح پر وہی دیکھتے تھے۔۔ اقبال ٹاون میں انکا گھر تھا۔۔ یہ جمعے کی بات ہے کالج میں ہاف ڈے تھا۔۔۔ میں اور بیلا کلاس سے نکل کر گھروں کو جانے کی تیاریوں میں تھے۔۔ جب سامنے سے میڈم رفعت آتی نظر آئیں۔۔ اور ہمارےپاس رک گئیں۔۔ اور بیلا سے مخاطب ہو کر بولیں تم جاتے وقت مجھ سے ملتے جانا۔۔۔ہم تو بس جا رہے تھے میں کھسکنے لگا جب بیلا نے مجھے گھسیٹا اور کہا ساتھ مرو میرے۔۔ اور میں مجبورا اسکےساتھ ایڈمن بلاک کی طرف چل دیا۔۔۔میڈم نے جب مجھے بھی اسکے ساتھ دیکھا تو سوالیہ نظروں سے بیلا کی طرف دیکھا۔۔ بیلا کے بولنے سے پہلے ہی میں بےساختگی اور سادگی سے بولا جی میں نبیلہ کی نون کے ساتھ نون غنہ ہوں۔۔ جدھر بیلا ادھر ہم ۔۔ وہ میری مثال اور سادگی سے کھلکھلا کر ہنسیں اور میرے بارے پوچھنے لگیں اور بیلا انہیں بتانے لگی کہ یہ نعیم ہے میرا کلاس میٹ اور بیسٹ دوست۔۔۔ بھی۔۔ گاوں سے ہے سادہ ہے لیکن مخلص ہے ۔۔ میڈم نے مجھے سمائل دی۔۔ اور کہا واہ ۔۔ اور پھر سپورٹس شیڈول سے آگاہ کرنے لگیں۔۔۔ کالج سے جب میں واپس آیا تو آنٹی شائد ابھی ابھی نہا کر نکلیں تھیں۔۔ اور سردی سے کانپ رہی تھیں ۔۔ میں نے ہنس کر کہا اتنی سردی لگتی تو نہائی کیوں ۔۔ وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولیں ۔۔ آج ساتواں دن تھا نا پیریڈز کا اور کل کلاس بھی لینی تو صاف نہائی میں بلکل چکنی ۔۔ اور میرا دل جیسے دھڑک اٹھا۔۔



جاری ہے

*

Post a Comment (0)