عشق آوارہ
قسط 13
لو آپ یہاں گپیں مار رہے ہیں اور میں اکیلا کام میں پھنسا ہوا اتنے میں ناصر کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔۔میرے ساتھ آئیں وہ مجھے لیتا باہر نکل گیا۔۔۔ایسے ہی بھاگم بھاگ کب دن گزرا شام ہوئی ۔۔۔ شام کو سب تیار بارات کا انتظار کر رہے تھے جب میں نے دن بھر میں پہلی بار عمبرین کو دیکھا۔۔۔ چوڑی دار پاجامے اور لانگ کرتے میں وہ غضب ڈھا رہی تھیں۔۔میں نے انہیں دیکھا تو جیسے آنکھوں میں ٹھنڈک اتر گئی۔تمام تر آوارگی کے باوجود جیسے ہی میں انہیں دیکھتا جانے کیوں مجھے شیطانی نہیں سوجھتی تھی۔۔ ہاں مجھے وہ حسین لگتی تھیں انکے نشیب و فراز میرا دل دھڑکاتے تھے اور انکا وہ سرخ تل۔۔۔لیکن ان فیلنگز میں نرمگیں ہوتی تھی الفت چاہت۔۔۔ باقی سب تو بس پانی نکالنا مقصد ہوتا تھا۔۔میں نے انہیں آنکھوں سے سراہا۔۔ اور وہ ہلکی شرما کے کھسک گئیں ۔۔۔
رخصتی سے کچھ دیر پہلے کومل بھابھی نے مجھے اشارے سے پاس بلایا اور کہا تم بہت ہی تیز ہو۔۔ میں نے حیرت سے کہا لو میں کیا تیزی کی اب۔۔۔ کہتی سہاگ رات کے ساتھ سیکس کرنے کا آئیڈیا کسکا تھا۔۔ سوچو کتنا تھرلنگ ہے نا۔۔۔ یہ سوچ سوچ کر دل کروا دیا میرا وی۔۔ میرا لن اچھلنے لگا۔۔ لگتا بات بن گئی۔۔میں نے کہا لیکن کیسے۔۔۔ کہتیں ایک منصوبہ سوچا تو ہے اگر تم ہمت سے کام لو تو۔۔ میں نےکہا کیا۔۔۔ کہتیں میرا جانا ضرروی ہے۔۔ ہمارے ہاں ساتھ کوئی عورت ضرور جاتی ہے۔۔ اور یہ منصوبہ بھی ابھی میرے ذہن میں آیا ہے۔۔۔اب بولیں بھی میں نے بے صبری سے بات کاٹی ۔۔۔وہ بولیں یہ رشتہ میری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔جدھر نائلہ کی شادی ہوئی اسی گلی میں میری ایک سہیلی رہتی ہے ۔۔سمجھو بلکل ساتھ ساتھ گھر ہیں۔۔بےچاری بیوہ ہے اور اپنے ساس سسر کے ساتھ رہتی ہے ۔۔ مسکین بندے ہیں عام سا گھر ہے۔۔ اسکے خاوند کی دو سال پہلے پہلی برسی تھی۔۔ادھر ہی نائلہ اور اماں میرے ساتھ گئی تھیں اور وہاں نائلہ کے سسرال سے ملاقات ہوئی۔ تم بس کسی طریقے ادھر آ جاو تو۔۔ میں سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔ لیکن اس سوچ کے ساتھ کہ ساتھ ہی نئی دلہن چد رہی کسی کو چودنا بہت ہی دلکش خیال تھا۔۔ شائد میں رسک نا لیتا اگر اسی وقت میرے لن نے دہائی نا دینی شروع کر دی ہوتی۔۔ میں نے حامی بھر تو لی لیکن کیسے یہ سوچ باقی تھی۔۔۔ شائد شیطان ان دنوں مجھ پر نظر کرم کر رہا تھا یا حسن اتفاق تھا یا کیا تھا ۔۔ کچھ دیر بعدرخصتی ہو گئی۔۔ رخصتی کے موقع پر وہ ہی ماحول تھا جو عمومی ہوتا۔۔بارات کی روانگی کے بعد ہم بھی ایکدوسرے کو دلاسہ دےرہے تھے۔۔ اچانک آنٹی شازیہ نے نے حیرت سے چیخ ماری اورکہا لو۔۔ نائلہ کا پرسنل سوٹ کیس تو یہیں رہ گیا ۔۔ کہاں بھی تھا یاد سے رکھوا دینا۔۔ اب نیا موضوع مل گیا اب کیا کریں عمبرین بھابھی بولیں ۔۔ اسکی تو اسے فوری ضرورت ہوگی۔۔ ناصر سے کہیں اسے دے آئے۔۔ نہیں۔۔ دلہن بنی لڑکی کے پیچھے سگا جوان بھائی جائے مناسب نہیں ۔۔ لیکن سوٹ کیس بھی تو بھیجنا۔۔۔ یہ بحث جاری تھی کہ میرا ذہن کام کر گیا۔۔ میں نے فورا کہا اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں دے آتا ہوں
ہاں یہ ٹھیک ہے سب سے پہلے عمبرین بھابھی نے ہی توثیق کی۔۔ لیکن تم جاو گے کیسے تمہیں راستہ بھی نہیں آتا۔۔۔ چھوڑیں سب مجھے سوٹ کیس دیں ۔۔ کچھ کرلیتے ہیں اس سے پہلے کہ کوئی اور سوال اٹھتا میں نے جلدی کی ۔اتنے میں تھکا ہارا ناصر جان چھڑاتے ہوئے بولا باجی کا سسرال جانا کونسا مشکل۔۔ سیدھا سیدھا ایڈریس۔۔ شیدے رکشےوالے کو سمجھادوں گا میں ۔۔۔وہ لیجائے گا چھوڑ بھی جائیگا ناصر نے جاننے والے رکشہ والے کا بتاا۔۔میں جو ناامید ہو چلا تھا منٹوں میں بہانہ بھی ملا اور تیاری بھی۔۔۔کچھ دیر بعد میں رکشے میں بیٹھا سفر کر رہا تھا۔۔۔سردیوں کی رات۔۔۔ نائلہ کا سسرال مغلپورہ سے بی آر بی نہر کی طرف جائیں تو مضافات میں آتا تھا۔۔جب رکشہ نہر و نہر چلا تو شیدے نے مجھ سے پوچھا باو جی موسم بڑا سوپر ہے دھند اور نہر اگر تسی اجازت دو تو میں سگریٹ پی لوں پکا۔۔۔ اس نے پنجابی اردو مکس بولتے مجھے کہا۔۔۔ میں نے کہا ہاں پیو یار۔۔ اور خود آگے کا سوچنے لگا جانے کومل نے سیٹنگ کی ہو گی یا نہیں۔۔۔ شیدہ سگریٹ پیتے ہوئے ٹھنڈی ہوا میں مست رکشہ دوڑائے جا رہا تھا۔ اچانک اس نے پوچھا باو جی آپ بھی سوٹا مارتے ہو ۔۔ میں نے کہا نہیں بھئی سموکنگ سے اسٹیمنا خراب ہو جاتا ہے۔۔ اور مجھے سپورٹس میں نام بنانا۔۔۔ جانے اس نے آدھی بات سنی یا کتنی ۔۔ اسے بس سٹیمنا کی سمجھ آئی اور بولا سہی ہے جی ویسے سٹیمنے کے لیے بھی ہے ایک میرے پاس چیز ۔۔ میں پوچھا وہ کیا ۔۔ کہتا تھوڑی سی افیم ہے۔۔۔رکشے کے اندر لگتی ہوا مجھے ٹھار رہی تھیں اور میں دبکا سوچ رہا تھا جانے اب یہ ذلت ہی ملنی یا کچھ ہونا بھی۔۔وہاں پہنچ تک میں سہی سے ککڑ بن گیا تھا۔۔۔۔۔ جب ہم وہاں پہنچے بارات پہنچ کر ویل کم وغیرہ ہو چکا تھا مضافات ہونے کی وجہ سےادھر دیہی ماحول غالب تھا ہر طرف سکون اندرون لہور والا شور شرابا نا تھا۔۔۔ میں ابھی سوچ رہا تھا کہ اندر کیسے جاوں ۔کہ آواز آئی نعیم میں نے جھٹ اوپر دیکھا تو اوپر گیلری میں کومل کھڑی تھیں انہوں نے مجھے کہا کہ آندر ہی آ جاو سیدھا سامنے سیڑھیاں چڑھتے اوپری پورشن۔۔ میں اندر داخل ہوا۔۔ سردی اور شائد تھکن کی وجہ سے باہر دو چار بچوں اور ایک آدھ بزرگ کے علاوہ سب کمروں میں تھے یا کہاں تھے میں سیدھا اوپر چڑھتا گیا۔۔۔سامنے ہی کومل کھڑی تھیں مجھ دیکھتے ہی کہنے لگیں بھئی بہت لکی ہو دیکھوکیسے بہانہ ملا تمہیں۔۔ میں نے حیرت سے کہا آپکو کیسے پتہ چلا میرے آنے کا۔۔ وہ بولیں جیسے ہی تم نکلے تو وہاں سے پی ٹی سی ایل پر کال آ گئی تھی تب ابھی موبائل کم کم ہی تھے ۔۔ اور باہر رکشے کی آواز سے پتہ چلا ۔۔میں نے انہیں سوٹ کیس دیا اور وہ مجھے رکنے کا کہ کر تیزی سے واپس پلٹیں۔۔ انہوں نے گرین ویلوٹ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور لچکیلے چمکدار لباس میں جاتے ہوئے انکی ہلتی ہوئی موٹی گانڈ نے میرا دل فل بے ایمان کر ڈالا۔۔ آج پورا لن ڈالنا تھا پورے سکون سے۔۔کل تو بس آدھا ادھورا کیا تھا۔۔میں وہیں سیڑھیوں پر کھڑا تھا ۔۔ سردی نے مجھے سکیڑ رکر رکھ دیا تھا۔۔ جب تھوڑی دیر بعد کومل بھابھی واپس پلٹیں اور کہا ۔۔۔ اسی گلی کی نکڑ میں خالی پلاٹ ہے تم اس پلاٹ کے آس پاس ذرا رکو میں آئی پانچ منٹ میں ۔۔ میں نے کہا جلدی آنا باہر بہت سردی یے۔۔ وہ ہنس کر بولیں چندا بے فکر رہو ساری سردی اتار دونگی اور لشم پشم گانڈ مٹکاتے لوٹ گئیں۔۔ میں نیچے اترا تورکشے والا شیدا منتظر تھا۔۔میری سردی سے ٹھٹرتی حالت دیکھی تو کہنے لگا باو۔۔۔ گرم ہونا ہے تو دال چنا کے برابر افیم کھا لو۔۔ ساری سردی اتر جاے گی۔۔۔ میں نے افیم کا پہلے بھی ذکر سن رکھا تھا میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا اچھا دے دو یار اور تم چلے جاو واپس۔۔۔ ادھر میرا ایک واقف نکل آیا ہے وہ کچھ دیر بعد مجھے گاڑی پر چھوڑ آئے گا۔۔ اسے میں نے ناصر کے دیے کرایہ کے بعد مزید دو سو روپیہ دی کہ زبان زیادہ نا کھولے۔۔۔ اس نے خوش ہو کر مجھے دعا دی اور کہا باو جی یاد سے افیم نگل لینا۔۔ رکھنا نہیں بہت کڑوی ہوتی ہے لیکن ساری سردی اتار دے گی۔مجھے نئی نئی شہر کی ہوا لگی تھی نئے نئے تجربے ۔۔اس بات سے لاپرواہ کہ یہ تجربے آگے جا کر کیا کریں گے۔۔ اور جب تک رکشہ نکل نا گیا میں وہیں کھڑ رہا۔۔۔ جیسے ہی رکشہ نظروں سے اوجھل ہوا اور اسکی پھٹ پھٹ کم ہوئی ہر طرف سکوت پھیل گیا۔۔میں چلتا ہوا موڑ کی طرف بڑھا۔۔۔ تھوڑا آگے جاکر خالی پلاٹ نظر آیا۔۔۔ ہر طرف سناٹا تھا۔۔ پلاٹ کے گرد چھوٹی دیوار ہوئی ہوئی تھی میں وہیں اسی دیوار پر ٹک گیا۔میں سردی سے اکڑنے ہی والا تھا کہ کومل گلی مڑتی نظر آئیں۔۔ انکے ساتھ ساتھ کوئی اور خاتون بھی تھیں انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور میں چپ چاپ انکے پیچھے چلنےلگا۔۔وہ پلاٹ سے آگے گھومیں اور ایک گھر کے سامنے رکنے کا کہہ کر دونوں اندر چلی گئیں۔۔۔ درمیان میں خالی جگہ چھوڑ دیں تو یہ نائلہ کے سسرال کے عقب میں ہی تھا۔۔۔
کچھ دیربعد دروازہ پھر کھلا اور کومل نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا اور میرے آگے چلتے ہوئے مجھے گھر کی پچھلی طرف ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئیں۔۔ یہ سادہ سا کمرہ تھا ۔۔سٹور ٹائپ۔۔ دو پیٹیوں کے ساتھ ایک بڑی دیسی چارپائی پڑی ہوئی تھی ایک طرف پرانا سا ڈریسنگ ٹیبل جسکے شیشے میں لمبی خراش تھی مجموعی طور پر نظر آ رہا تھا کہ ہماری طرح انکا بھی گزارہ ہی ہے اور رہن سہن بھی سادہ ہے۔۔ آنٹی شازیہ لوگوں اور کومل لوگوں کے گھر شہری اور۔۔ اندر کمرے کے پرسکون ماحول میں مجھے کچھ ہوش آیا۔۔ اوہو ۔۔ تم بھی نرے بدھو ہو۔۔ کم از کم اوپر چادر تو لے لیتے اب دیکھو سردی سے کانپ رہے ہو۔۔ اتنی دیر میں کسی کے قدموں کی آواز ابھری اور ایک ستائیس اٹھائس سالہ لڑکی اندر داخل ہوئی۔اسکے چہرے پر اداکارہ سویرہ ندیم کی طرح ہلکے سے دانے تھے۔۔ بلکل جیسے ساتھ تصویر میں ہے ویسے لگ رہیں تھیں وہ بس عمر تھوڑی کم تھی۔۔اس نے شہنیل کی رضائی اٹھا رکھی تھی وہ چارپائی پر رکھ کر واپس لوٹ گئیں۔۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے کومل کی طرف دیکھا کہتیں تم بیٹھو رضائی میں آ کر بتاتی۔۔ میں فورا رضائی میں جا کر لیٹ گیا۔۔ تھوڑی دیر تک بھاری دیسی رووں والی رضائی نے گرمائش دینی شروع کر دی تھی ۔۔تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئیں اور تھوڑا فاصلے پر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔ جیسا تمہیں بتایا تھا یہ میری سہیلی رابعہ کا گھر ہے یہ بھی میری طرح گجرات سے ہے۔۔ہم دونوں کی شادیاں لاہور ہوئیں۔۔ وچاری کا بندہ تین سال پہلے ایکسیڈنٹ میں مر گیا۔۔۔شادی سے پہلے اس نے نرسنگ کا کورس کیا تھا اسی کا سہارا ہو گیا۔۔ساس سسر کے ساتھ رہتی ہے باقی نندیں اپنے اپنے گھر۔۔۔ یہیں آگے اسپتال میں نرس ہے۔۔ساس سسر سو چکے ہیں ۔۔ اگر جاگے بھی تو میں بتا لوں گی انکو۔۔ فی الحال اسے بتایا ہے کہ تم نائلہ کے کزن ہو بات ختم۔اور میرے ساتھ آئے ہو ادھر جگہ نہیں تھی ہم دونوں ادھر آ گئے۔اسے ہمارا کچھ نہیں پتہ۔۔اس نےتمہارا بستر یہ ساتھ والے کمرے میں انکل کے ساتھ لگایا ہے۔۔ یہاں میں نے سونا ہے اور اسنے ساس کے ساتھ اسے رات کو کبھی کبھی سردیوں میں کھانسی لگ جاتی بہت۔۔ابھی تمہیں یہاں کچھ دیر کے لیے بٹھایا ہے بس۔۔ اتنی دیرمیں پھر کسی کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔۔اور رابعہ ایک ٹرے میں چائے اور ساتھ بوائل انڈے رکھے ہوئے تھے۔۔وہ ٹرے سامنے پلاسٹک کے ٹیبل پر رکھی اور پھر باہر نکل کر واپس آئیں تو کوئلوں والی انگیٹھی اٹھاے کمرے میں رکھ دی۔۔انگیٹھی نے چھوٹے سے سٹور کا ماحول گرم کر دیا میں بھی اب کچھ بہتر تھا میں رضائی ذرا سی سائیڈ کر کے انڈے اور چائے سے انصاف کرنے لگے ۔جب مجھے افیم یاد آئی ۔۔ اب جب تقریبا سب فائنل ہو چکا تھا۔۔ اسی کمرے میں اسی شہنیل والے بستر پر کومل اور میرا میچ پڑنا تھا تو سنی سنائی پڑھی پڑھائی باتوں کا علم مجھے افیم کو بھی آزمانے پہ اکسانے لگا۔۔ میں نے انکی طرف دیکھا وہ دونوں اپنے دھیان باتوں میں مصروف تھیں۔۔ میں نے جیب سے دال چنے کے دانے کے برابر افیم کو نکالا اور دوسرے ہاتھ سے انڈے کاہاف پیس پکڑا اسکی زردی کےساتھ جلدی سے افیم منہ میں ڈالی اور فورا چائے کے سپ کے ساتھ شاہ کا نام لیکر نگل گیا۔۔کچھ دیر بعد رابعہ امی کی طبیعت کا بتاتے نکل گئیں۔۔کومل بھی تم لیٹو میں آتی کہہ کر انکے پیچھے نکل گئیں۔۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے ۔۔اب شائد ہلکا ہلکا انڈے والی افیم کا اثر ہونا شروع ہو گیا تھا۔۔۔دماغ اور زبان عجیب بوجھل سی ہونے لگی اور ہلکی سی نشیلی دھند ۔۔ میں نے رضائی کو سینے تک لیا اور کومل کی متوقع چدائی کا سوچنے لگا۔۔اتنے میں کومل بھابھی کمرے میں داخل ہوئیں۔۔انکے ہاتھ میں ایک سوٹ تھا۔۔ انہوں نے اندر آ کر دروازہ بند کیا اور چٹخنی لگانے لگیں تو پتہ چلا چٹخنی کا اوپری کنڈا ہی ٹوٹا ہوا۔۔ اب کیا کرنا ہے انہوں نے مجھ سے پوچھا اور پھر خود ہی بولیں کونسا کسی نےآنا ہے رابعہ بھی سارے دن کی تھکی ہاری لیٹ گئی۔۔میں نے کہاکدھر رہ گئیں تھیں۔۔ انہوں نے ایک بار سہاگ رات منا بھی لی ہونی ۔۔۔ وہ بےساختہ ہنسی اور کہا صحیح کہتی ہے تم بہت شوخے ہو۔۔توکیا ہوا ہم بھی توکل ایک بار منا ہی چکے نا وہ آنکھیں مٹکا کر بولیں۔۔یہ ویلوٹ کا سوٹ رات کو تنگ کرے گا تو رابعہ سےسوٹ لینے اور پھر باتوں میں دیر ہو گئی۔۔۔ میں نےکہا لو اس کی کیا ضرورت تھی ویسے ہی اتار لینا تھا ۔۔وہ ہلکا شرما کر بولیں چل بے شرم ۔۔۔اب آنکھیں بند کرو میں کپڑے بدل لوں۔۔ جی نہیں۔۔ ایسے ہی بدل لیں سب کچھ دیکھا ہوا میں۔۔ وہ شرما کر بولیں نہیں نا۔۔ ادھر فل روشنی ہے نا ۔۔۔ادھر اندھیرا تھا۔۔۔میں مستی سے بولا دیکھیں آپکی نند نےبھی لازمی جلوہ کرایا ہوگا اپنے جسم کا۔۔اب آپ بھی کرائیں نا۔۔وہ شرما کر بولیں بہہیت بدتمیز ہو تم ۔۔۔۔انہوں نے چادر اتاری۔۔ انگھیٹی ابھی تک آتشیں تھی اسکی حدت میں کمرہ اب اس قابل ہو چکا تھا کہ کاروائی شروع کی جائے۔۔پھر میری طرف کمر کر کے انہوں نے بازو اوپر کر کے شرٹ اتارنی شروع کی ۔۔ انکا سفیدپیٹ کمر کا جلوہ شروع ہوا شرٹ اوپر برا تک گئی۔۔۔ سیاہ برا میں قید گورے چٹے مومے میرا دل سب کچھ دھڑکا گئے لن نے انگڑائی لی ۔۔ بلکل اسی دن جیسا واقعہ تھا۔۔ ایسے ہی انہیں دیکھا تھا ۔۔ انہوں نے شرٹ اتاری اور ذرا سا چہرہ گھما کر دیکھا انکی آنکھیں چمک رہیں تھیں۔۔ اب وہ صرف برا میں کمر کیے میرےسامنے تھیں میں اٹھا اور انکے بلکل سامنے کھڑا ہوگیا۔۔۔سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے ٹوٹے شیشے میں ہمارا عکس نظر آ رہا تھا۔۔انکا چہرہ شرم سے لال شیشے میں۔۔ انکے بلکل پیچھے جا کر میں نے انکی کمر پر برا کےاوپر اپنی انگلی رکھی اور اسے گھمانا شروع کیا اور کہا آپ کا جسم بہہہت پیاراہے کومل جی ۔سمجھیں آج ہماری دوستی کی سہاگ رات ہے۔۔ میری انگلی کے اچانک لمس سے وہ کانپ سی گئیں ۔۔ میں نے شرٹ کے بٹن اوپن کے اور اپنے سینے کو انکی کمر سے لگا کر ہلکا سا رگڑا۔۔ اور کہا وہ دیکھیں نا شیشے میں ۔۔ انہوں نے شرماتی نظر سے دیکھا ۔۔ سامنے انکا قیامت خیز جسم ۔۔ گورے بوبز بلیک برا میں اور پیچھے میں انہوں نے شرما کرآنکھیں جھکا لیں
میں نے انکی کمر کو بے تابی سے چومنا شروع کیا اور کہا ۔۔سب سب سب اتار دیں نا۔۔۔ وہ مستی سے بولیں تو اتار دو نا۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا انکے شانوں سے برا کی سٹیپ سرکائی۔۔۔ اور نیچے کو کھسکا دی سامنے شیشے میں آہستہ آہستہ انکا جلوہ جھلکنا شروع ہوا اففففف انکے بوبز کیا ہی مزیدار تھے۔۔۔موٹےنپلز جو متواتر فیڈ سے کافی پھول چکے تھے۔۔ میں نیچےبیٹھا اور انکے ٹراوزر کو سرکانا شروع کیا۔۔۔ افففف سب سے پہلے انکی آدھی کنواری گانڈ نظر آئی ۔۔۔ گوری گداز گانڈ میں نے بے ساختگی سے وہاں گرم سا بوسہ دیا اففففف وہ لرز گئیں۔۔۔ میں انکی شلوار کو سرکاتا ساتھ ہاتھوں سے رانوں اور ٹانگوں کو سہلاتا انہیں فل ننگا کر دیا۔۔۔ میرا لن اب فل اکڑ چکا تھا۔۔۔ایک عجیب قسم کی سنسنی اور نشیلی دھند نے مجھے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔۔ میں کھڑا ہوا اور اپنا نالہ کھول دیا۔۔ شلوار سرکتی ہوئی قدموں میں جا گری۔۔اب ہم دونوں فل ننگے تھے میں نے ایسے ہی انہیں پیچھے سے گلے لگایا اففففف انکی گانڈ اور جسم کا لمسسس۔میرےاندر کو آگ لگا گیا۔۔۔ لن گویا ایک شرلی تھا جسے اس لمس نے آگ لگا دی اور وہ شووووں سے اوپر کو اٹھتا گیا۔۔ میں نے لن کو انکی رانوں کے درمیان رکھا اور فل پیچھے سے جڑ کر گلے لگ گیا ۔۔ میرے دونوں ہاتھ برا کیپ کی طرح انکے دونوں بوبز پر تھے میں ساتھ ساتھ ہتھیلیوں کامساج کرنے لگا ۔۔ وہ مستی میں ہلکا ہلکا اپنی گانڈ کو میرے جسم سے رگڑنے لگیں اففففف یہ لمس یہ رگڑ مجھے وحشی سی کر گئیں۔۔میں نے بھی ہلکا ہلکا آگے پیچھے ہونا شروع کیا۔۔ لن انکی ٹانگوں میں رگڑ کھاتا آگے پیچھے ہو رہا تھا اور لن کی اوپری سطح اوپر پھدی لپس سے رگڑ کھا رہا تھا۔۔۔ کومل مست میرے ساتھ لگی ۔۔ میں نے انکے شانے سے لبوں کو پھیرتے ہوئے کان کی لو تک لایا اور کان کی لو کو چوسنا شروع کیا۔۔۔ آاااہ انکی مست آہیں ۔۔ سامنے شیشے میں بند ہوتے کھلتے ہونٹ عجب نظارہ تھا۔۔بلکل بلیو فلمز کی طرح۔۔اس متواتر رگڑ نے اوپر پھدی کو رلانا شروع کر دیا تھا ۔۔ہلکی ہلکی گیلاہٹ اب بڑھ رہی تھی۔۔وہ مخمور لہجے میں بولیں ۔۔میری جان جلدی کر پرایا گھر ہے۔۔میں انہیں ایسے ہی اٹھائے بستر پر لایا ۔۔ شہنیل کی رضائی پر انکا جسم پھسلتا گیا اور میں انکے اوپر۔۔ لبوں مین لب لیے اور پورے جسم کو ان پر رگڑنا شروع کیا۔۔۔وہ مدہوش ہوکر عجیب بہکی سسکیاں لے رہیں تھیں۔۔میں فرش پر کھڑا ہوا ۔۔۔ انکی ٹانگیں کھینچ کر اوپر کھسکایا۔۔ اور دیسی سٹائل میں انکی ٹانگیں ایک دوسرے کے اوپر چڑھا کر اپنے سینے سے لگائیں۔۔۔ ایسے انکی پھدی اور جڑی میں نے لن کی طرف نظر کی ۔۔۔ افففف وہ فل تنا بس منتظر تھا ۔میں نے ٹوپے کوہلکا سا پھدی میں پھیرنا شروع کیا۔۔۔وہ اٹھی ٹانگوں کو لاڈ سے میرے جسم سے رگڑنے لگیں انکے پاوں میرے سینے پر رگڑکھا رہے تھے۔۔ میں نے ایسے ہی آگے کو ہلکا سا پش کیا۔۔ ٹوپہ ہلکا پھسلتا ہوا پھدی کے اندر جا کر پھنسا۔۔ انہوں نے نشیلی سسکی بھری۔۔ اور لن کو ہاتھ سے پکڑ کر پھدی کے اوپر رگڑنے لگیں۔۔ انکی پکڑ اور ایسے رگڑ نےمیرے لن کو بے حال کر دیا تھا۔۔ عجیب مستی رگ و پےمیں۔۔ وہ خماری سے بولیں جب میں نے لن کو آگے کی طرف کھینچا تم یکدم آگے کر دینا۔۔ تیری ٹوپی بڑی کمال کی ہے۔۔۔ میرا بندہ جب بھی آتا ہے سہی سے چودتا ہے لیکن تیرا پہلا جھٹکا اس سے اچھا ہوتا ہے۔۔۔ لن کی موٹی ٹوپی دیواروں کو سہی رگڑ دیتی۔۔ وہ سہی سے شادی شدہ تھیں۔۔۔ میں نے ایسے ہی کیا جیسے ہی انہوں نے اشارہ کیامیں تیزی سے جھولا اور ٹوپہ تباہی مچاتا اندر تک گھس گیا۔۔۔انہوں نے ہاتھوں سے منہ دبا رکھا تھا لیکن پھر بھی انکی ہاااااے کافی گونجی ۔۔۔ میں نے واپس کھینچا۔۔ اور دوبارہ سے پورے کچیچ سے دھکا مارا۔۔ وہ شہنیل کی رضائی پر پھسلتی آگے تک گئیں ۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر رضائی اکھٹی کی اور انکی کمر کے نیچے اکھٹی کر کے رکھ دی۔۔۔ اب انکا سر سرہانےپر اور کمر رضائی کے ابھار پر تھی ۔۔انکی پھدی اٹھ کر بلکل سامنے آ چکی تھی۔۔ میرا دماغ سن اور لن راڈ ہو چکا تھا۔۔میں نے انکی ٹانگوں کو کھولا اور اپنی کمر کے گرد قینچی مار لی ۔۔ اففف انکی موٹی رانوں میں میرا جسم ۔۔۔ رانوں کا لمس ۔۔ پھدی کی گرمی ۔۔ اور ہاتھوں میں نپلز۔۔میں نے اوپرسے نیچےکو دھکا مارا۔۔ لن غڑاپ سے آدھا گھسا۔۔ میں اوپر سے جھکتے ہوئے انکے شولڈر اور گالوں کو چاٹتے ہوئے اور پششش کیا انکی نششیلی آہ نے اکسایا اور میں ایسے ہی اندر تک لیجاتا گیا۔۔۔اسکے بعد جیسے مشین چل پڑتی ہے میں نے تیز چدائی شروع کی۔۔ وہ شہنیل کی رضائی پر آگے پیچھے کھسک رہیں تھیں انکے مومے اوپر نیچے تھرک رہے تھے اور انکی تیز سسکیاں۔۔۔ ہااااے آااااہ۔۔۔ افففف ہاااااں ایسے ہی تھوڑا اووور اندر۔۔ آااااہ اندر تک جاتا ہےنااااا اففففف۔۔۔ انکی سسکیاں اور میرے بازووں پر ناخنوں سے کھرچن بڑھتی جا رہی تھی۔۔ میں ایسے ہی اندر ڈالے انکے اوپر آیا اور کندھوں پر ٹانگیں رکھ کر دیسی کشتی شروع کر دی۔۔ انکی مدہوش سسکیاں ۔۔ سناٹا اور تھپ تھپ۔۔ چارپائی کی چوں چوں ۔۔ ہمیں کچھ ہوش نا تھا۔۔۔وہ مدہوش مست سسک رہیں تھیں ۔۔اپنے ہاتھ سے دانےکو رگڑ رہی تھیں۔۔شائدعام حالت میں ۔۔ابتک میں چھوٹ جاتا لیکن افیم مجھے قائم رکھے تھی وہ فل۔مدہوشی سے چدوا رہی تھیں ساتھ سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ دیکھو نائلہ بھی ایسے ہی چد رہی ہوگی اورپھرایک تیزسسکی کے ساتھ انکے جسم نے جھٹکے لینے شروع کیے اور پھدی گویا آتش فشان بن گئی انہوں نے جو چھوٹنا شروع کیا تو منٹ تک جھٹکے کھاتیں رہیں۔۔۔ میں کچھ دیر کا رہا اور پھر آہستہ سے لن کو باہر نکالا۔۔۔میرا لن ابھی تک اسی طرح تھا لیکن اب محسوس ہو رہا تھا کہ تھوڑی دیر تک ہو جانا فارغ۔۔ وقت کم تھا۔۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا جب میری نظر ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ سرسوں کے تیل کی شیشی دیکھی۔۔مجھے شیطانی سوجھی۔۔ میں انہیں بازو سے پکڑے ڈریسنگ ٹیبل تک لایا وہ مدہوش میرےساتھ لگیں آئیں۔۔ میں نے انکے ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے۔۔ وہ بولیں میں پر ہو گئی یار۔۔ لیکن میں رہتا ہوں نا۔۔ کہتیں اچھا نا ۔۔۔ لیکن اندر نا چھوٹنا۔۔۔ اور پیچھے نا کرنا ۔۔
چھوٹتے وقت باہر نکال لینا ۔۔۔میں نے انہیں جھکایا اور انکی کمر کو چومتے ہوئے انکا ذہن بدلا۔۔ اور لن کو دو تین بار ایسے ہی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گھوڑی بنا کر اندر اندر باہر کرنے لگا۔۔ اور ہاتھ بڑھا کر تیل کی شیشی سے تیل ہاتھ پر اچھا خاصا لگا لیا۔ اور انکی گانڈ کو کھولا۔۔۔ افففف انکی گانڈ کا سرخ سوراخ ۔۔ ہلکا ہلکا سوجا ہوا۔۔۔ میں نے انگلی سے تیل لگا کر جب سوراخ کو مسلنا شروع کیاتو وہ تڑپ کر سیدھیں ہوئیں اور بولیں نہیں نعیم پیچھے بہت درد ہوتی۔۔ میں نے انکی کمر کو چومتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا آہستہ آہستہ وہ سرور میں آئیں ۔۔ اور میں نےسرگوشی کی تیل لگایا ہے بس تھوڑا سا ۔۔ کل جتنا زیادہ نہیں۔۔۔ پلیز ایسے باہر مزہ نہیں آتا نا۔۔ میری منت نے انہیں پگھلا سا دیا کہتیں اچھا لیکن بہت سا تیل لگا کر آرام سے تھوڑا سا کرنا ۔۔اور جلدی کر لو جو کرنا۔۔۔ مجھے انکی خود غرضی پر دکھ ہوا لیکن بولا نہیں۔۔۔میں نے کافی تیل انکی گاڈ کی لکیر میں ڈالا اور لن کی ٹوپی کو لکیر میں پھیرنے لگا سوراخ پر مساج کرنے لگا۔۔ ساتھ دوسرے ہاتھ سے انکی پھدی کو سہلاتے ہوئے انگلی انکی پھدی میں ڈالی اففف وہ مزے سے سسکیں۔۔ جب انکا دھیان سارا اس مزے میں ہوا ۔۔ ادھر گانڈ کا سوراخ نرم ہو چکا تھا۔۔ میں نے لن کو ہلکا دبایا۔۔ ٹوپہ پچک کی آواز کے ساتھ اندر گھسا ۔۔ کومل اوووئی کرتی سیدھی ہوئیں لیکن میں ہشیارتھا۔۔ میں نے کمر کو دبایا اور جھٹکا مارا۔۔۔ تیل سے لتھڑا لن گانڈ کو کھولتا آدھے تک اندر چلا گیا۔۔ کومل کی ایک تیز ہاے نکلی۔۔ میں نے جلدی سے انکےمنہ پر ہاتھ رکھا۔۔ دروازہ ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ ای تھا ۔۔ آواز باہر جا سکتی تھی۔۔۔ میرا لن انکی گرم گانڈ میں پھنس چکا تھا۔۔ افففف انکا چھوٹا سا سوراخ اور میرا لن اس میں فل پھنسا ہوا تھا۔۔ میں ہلکا ہلکا وہیں ہلانے لگا۔۔ جب لگا کہ کومل کچھ نارمل ہوئی میں نے انکے لبوں پر ہتھیلی جماتے ہوے فل سٹروک مارا۔۔۔ ایک تیز سسکی اور ہاےےےے مر گئی انکے منہ سے نکلا اور وہ سیدھا ڈریسنگ ٹیبل سے جا لگیں۔۔ دماغ کی دھند اور لن کی گرمی نے مجھے مست کررکھا تھا۔۔ لن انکی گانڈ کو چیرتا ہوا اندر تک گھس چکا تھا۔۔ میں نے ہلکا سا کھینچا اور پھر جھٹکا مارا۔۔ وہ تیز ہاے سے سسکیں۔۔۔ انکی اٹھی گانڈ۔۔ پتلی کمر ۔۔اورگانڈ کی گرمی ۔۔۔ میرا حال برا تھا میں نے انکے کندھوں پر ہاتھ جما کر ہلکا ہلکا جھولنا شروع کیا۔۔ شیشے میں انکا چہرہ نظر آ رہا تھا۔۔ بند آنکھیں۔۔ ہونٹ سختی سے بند وہ دوستی کی سہاگ رات کا درد سہہ رہی تھیں۔۔۔ میں آدھا کھینچتا اور اندر کرتا۔۔ انکی گانڈکا سؤراخ چر چکا تھا۔۔ ہلکا ہلکا سا خون ۔۔ لن پوری موٹائی سے اندر باہر اور اب وہ بھی مست ہو چکیں تھیں۔۔۔ میرا ٹوکن ٹائم شروع ہونے والا تھا۔۔ میں نے فل باہر نکال کر جھٹکا مارا۔۔ کومل کی تیز چیخ گونجی ۔۔یہ آواز باہر تک لازمی گئی ہونی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔۔ ایک تیز مستی میرے جسم سے لن تک جا رہی تھی۔۔ میرا دماغ سن ہو چکا تھا۔۔ اور میں انکی گانڈ کو سہلاتا اندر باہر کر رہا تھا اور انکی آہیں ۔سسکیاں۔۔ تیز مستی والی دھار ٹانگوں سے لن تک ائی ۔۔ میرے دھکے اور آہ آہ آہ کی آوازیں۔۔ اسی وقت دو باتیں ہوئیں۔۔ ادھر میرے لن سے پہلی پچکاری نکلی ادھر کمرےکا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔۔ میں نے گھبرا کر لن کھینچا۔۔۔بھابھی ایک جھٹکے سے آگے گئیں۔۔میرا لن فل کھڑ تنا تھا اور اس سے منی کی پچکاریاں نکل رہیں تھیں اور سامنے کھلے دروازے پر حیرت سے آنکھیں پھاڑے رابعہ کھڑی تھی۔۔
جاری ہے