کلی اور کانٹے
قسط نمبر 10
جیپ اس شہر سے نکل کر ایک شاہراہ پر گامزن ہو گئی مونچھوں والا بندہ میرا ساتھ بیٹھا تھا ڈرائیونگ کرتے شخص کو جلدی چلنے کی ہدایات دیکر وہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگا اس کا نام عزیز تھا جس نے مجھے ساڑھے تین لاکھ میں خریدا تھا اب مجھے اپنی اہمیت ایک بکری سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی عزیز نے مجھے اپنی گود میں لٹاتے ہوئے کہا تھوڑا آرام کر لو تھکی ہوئی لگتی ہو اسے کیا معلوم تھا کہ تھکے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے انسان میں کیا فرق ہوتا ہے مجھے یہ شخص بالکل اچھا نہیں لگا تھا یہ دونوں اکھڑے لہجے میں بات کرتے تھے شاید ان کی روایات میں شامل تھا یس کچھ اور بولا اس مولوی کے ساتھ کیسے پھنس گئی تھی ۔۔۔ میں خاموش رہی تھی لوگ کتنی آسانی سے مر جاتے ہیں میں کیوں نہیں مرتی تھی نظام نے خود میرے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا لیکن ایک وقت میں وہ اپنے گھر والوں سے ہار گیا تھا سب سے اچھا سودا نظام کو پڑا تھا جس نے جائز طریقے سے مجھے چھ ماہ استعمال بھی کیا تھا اور منافع بھی کما لیا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ یہ دنیا گوشت کے بھوکے اور بیوپاریوں سے بھری ہوئی ہے عزیز میرے ساتھ کیوں سلوک کرتا ہے کیا وہ شادی کرے گا ؟؟ کیا اس کے گھر والے مجھے برداشت کر کرلیں گے کیا وہ مجھے نظام کی طرح استعمال کرکے منافع پر بیچ دے گا ۔۔ کیا وہ ان پٹھانوں کی طرح مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھائے گا میں برائلر مرغی کی طرح ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے تک برائے فروخت بن گئی تھی عزیز میری گالوں کو تھپتھپا رہا تھا لیکن مجھے اس کے ہاتھ زہر لگ رہے تھے جیپ تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی مجھے معلوم نہیں تھا مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے یہ دونوں آپس میں پنجابی کی طرح جیسی کسی زبان میں بات کر رہے تھے جس کے الفاظ اور ان کے لہجے کچھ کھدرے سے محسوس ہو رہے تھے مجھے میرے نئے شہر کا نام میانوالی بتایا گیا تھا یہ کیسا شہر ہو گا مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی میں اس سے غرض تھی کہ وہاں میرے ساتھ کیا ہو گا میں تقریباً چھ ماہ نظام کے پاس رہی تھی لیکن میں پریگنٹ نہیں ہوئی تھی لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا تھا میں ان باتوں کو سمجھنے سے پہلے میں سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی اور کیوں آئی تھی مجھے کیا ہو گیا تھا کاش ۔۔۔ کاش ۔۔۔ میں اپنے گھر میں ہوتی امی کے پاس ہوتی اپنے ابو سے ویڈیو کال پر بات کرتی لیکن افسوس کے وقت بہت پہلے گزر چکے تھے میرے امی ابو زندہ بھی تھے یا مر گئے تھے مجھے کون بتاتا مجھے اپنے محلے کی گلیاں بہت یاد آتی تھی جہاں میں کھیلتی تھی مجھے کھیلنے کے علاوہ خواتین کی باتوں کا علم نہیں تھا کیونکہ میں عورت بننے سے پہلے کسی آگ کے دریا میں خود ہی کود پڑی تھی ۔۔۔ کسی شہر کے مختلف روڈز سے ہوتے ہوئے جیپ ایک گلی میں داخل ہو گئی تھی مجھے علم ہو چکا تھا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں جیپ ڈرائیور سے باتیں کرتے ہوئے عزیز نے شاید اسے یہی روکنے کا بولا تھا جیپ رک چکی تھی عزیز میرا شاپر اٹھاتے ہوئے جیپ سے اترتے ہوئے مجھے بھی اترنے کا اشارہ کیا میں اتر چکی تھی جیپ اگے چلی گئی تھی اور میں عزیز کے پیچھے چلتی ایک کوچے میں داخل ہو گئی تھی شاےد یہ اس کوچے کا سب سے آخری مکان تھا جسکی بلند دیواریں سفیدی سے ڈھکی ہوئی تھیں گلی کے شروع کے ایک مکان کے آگے لائٹ جل رہی تھی جبکہ باقی کوچے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا مکان کا تالہ کھول کر عزیز اندر داخل ھو گیا تھا اور میں خود ہی اس کے پیچھے اس اندھیرے مکان میں داخل ھو گئی تھی یہ ایک چھوٹا مکان تھا جو آس پاس کی بلند عمارتوں کے بیچ جیسے چھپا ہوا تھا موبائل ٹارچ کی روشنی میں عزیز نے مین گیٹ کو لاک کر دیا اور ایک روم کا دروازہ کھولنے لگا موبائل ٹارچ کی روشنی میں مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ اس روم کے ساتھ ایک چھوٹی کچن تھی شاید یعنی میں ایک بار پھر اسد یا ان پٹھانوں کے درمیان گزری زندگی کی طرف لوٹ آئی تھی مجھے یقین ہو چکا تھا کہ عزیز اس انداز میں مجھے چھپتے چھپاتے اس اکیلے مکان میں لانے کا مطلب یہی تھا کہ وہ مجھے بطور کھلونا استعمال کرنا چاہتا تھا اور یہاں بھی عزت کی زندگی گزارنا میرے نصیب میں نہیں تھا عزیز نے کمرے کا دروازہ کھول کر لائٹس آن کر دی تھیں برآمدے کے اس کونے میں ایک چھوٹا فریج موجود تھا کمرے کے اندر سے سگریٹ اور چرس جیسی بدبو نے میرا استقبال کیا روم میں ایک ڈبل بیڈ موجود تھا ایک ٹیبل اور چند کرسیاں فرش پر بوسیدہ سا کارپٹ بچھا تھا جسبپر تاش کے پتے بکھرے پڑے تھے درمیان میں ایک بڑا ٹین کا ڈبہ اور سگریٹ کے خالی پیکٹ اس باٹ کا اشارہ دے رہے تھے کہ یہاں بھی پٹھانوں کے اس بدبخت مکان جیسا ماحول تھا میری طرح شاید آپ نے بھی کسی ڈرامے کا وہ سین دیکھا ہو جس میں دہشتگرد کچھ آدمیوں کو ذبح کرتے ہیں اور آدمی اپنی باری پر سرجھکائے آگے آ جاتے بس میں بھی انہی بےبسوں کی طرح اب حالات کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی عزیز نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود باہر چلا گیا داخلی گیٹ کے ساتھ باتھ روم تھا وہ وہاں سے ہوتا ہوا شاید کچن میں چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد آ کر بولا منہ دھو لو میں کھانا لانے لگا ہوں میں اٹھ کر باتھ روم چلی گئی تھی اور واپس آئی تو ایک پلیٹ میں چاول گرم کئے بیٹھا تھا شاید پہلے سے فریج میں رکھے ہوئے تھے میں اس کے کہنے سے پہلے چاول کھانے لگی تھی وہ باتیں کرتے ہوئے پوچھنے لگا تھے کہ کھانا پکا لیتی ہو میں نے اسے دیکھے بنا اثبات میں سر ہلا دیا میں نے بلا جھجک اس سے پوچھا آپ میری شادی کس سے کریں گے ؟؟۔ وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میری تھوڑی کو انگلی سے اٹھاتے ہوئے مسکرا کر بولا شادی آپ کی میرے ساتھ ہو چکی ہے ۔۔۔ میں خاموش رہی اور کچھ دیر بعد پھر سے بولی آپکی پہلی شادی سے بچے ہیں ۔۔۔ بولا ہاں چار بچے ہیں ۔۔ میں نے پھر پوچھا بیٹیاں کتنی ہیں وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا دو ہیں لیکن تم نے صرف اپنے کام سے کام رکھنا ہے ۔۔۔ میں نے ہاتھ صاف کئے اور کسی زخمی چیل کی طرح اس کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی ۔۔۔۔ عزیز نے چاول کی پلیٹ ٹیبل پر رکھی اور باتیں کرنے لگا تھا کہ میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی کوئی کام ہے یا میں سو جاؤں ۔۔۔ وہ کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا دیکھو لڑکی میں نے پیسہ لگایا ہے تم پر اور جس مقصد کے لئے لگایا وہ پورا کرونگا تم یہاں سے ہل بھی نہیں سکتی میری مرضی کے بغیر میرا نام سن کر پولیس بھی بھاگ جاتی بہتر ہو گا کہ پیار اور محبت سے رہو۔۔۔۔ میں نے کہا مقصد آپ کا شادی ہے یا۔کچھ اور بولا ۔ بہت سے مقاصد ہیں میں نے کہا آپ اپنے مقاصد پورے کر لینا مقاصد پر استعمال کرنے سے میرا دل میں آپ کی محبت نہیں آ سکتی چاہے مجھے مار ڈالو۔۔ ہاں شادی سے محبت کی توقع رکھی جا سکتی ہے عزت دو گے عزت کا جواب بھی عزت سے دونگی ورنہ معذرت کہ آپ میرے جسم کو کسی اور کے آگے پیش کرو گے تو میں عزت نہیں دے سکوں گی ویسے بھی مجھے اب کسی کی دھمکی پر خوف نہیں آتا کیونکہ میں خود مرنا چاہتی ہوں اور جو موت سے خوف نہ کھائے وہ کسی کی دھمکیوں پر کیا خوف کھائے گی ۔۔۔۔ میں سر اٹھا کر بہت سا بول گئی تھی عزیز کی آنکھوں میں جیسے آگ بھر آئی ہو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا مرنے کون دے گا تمھیں پورے ساڑھے تین لاکھ لگائے ہیں اس سے ڈبل نکال کر پھر سوچوں گا تمھیں مار دینے کا۔۔۔ اس نے ایک زوردار تھپڑ میرے گال پر رسید کیا اور سگریٹ میں چرس بھرنے لگا ۔۔۔ میں گال پر ہات رکھے نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی میں نے اپنا رویہ بدل لیا تھا اور دل میں فیصلہ کر چکی تھی کہ میں لفظوں سے اذیت دیتی رہوں گی اسے اور سکون سے رہنے نہیں دونگی ۔۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا اور سگریٹ سلگا کر لمبے کش لینے لگا میرا ہاتھ گال سے نیچے ہوا تو تو اس نے ایک اور تھپڑ میرے اسی گال پر رسید کر دیا وہ کچھ بول نہیں رہا تھا عزیز نے میری ٹانگ کھینچی اور مجھے لٹا گیا میں درد کی تصویر بنی اسے دیکھ رہی تھی اس نے ایک ہی جھٹکے میں میری شلوار کھینچی اور گھٹنوں تک لے آیا وہ کچھ بول نہیں رہا تھا پھر اس نے میری شلوار کو اتار کر دور پھینک دیا اور اچانک میں نے جھٹکا لیا اس نے سلگتا سگریٹ میرے ہپس پر۔لگا دیا تھا میری سینے میں دبتی آئی کی آواز کے ساتھ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی میں جل چکے تھی عزیز نے میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے اٹھایا اور میری قمیض اتارنے لگا وہ مجھے ننگا کر کے دیکھ کر سگریٹ پیتا رہا میرا ہاتھ جلے ہوئے اس ہپس کی طرف اٹھ رہا تھا لیکن یہاں انگلی لگانے سے مجھے مذید تکلیف ہوتی تھی ۔۔ اس نے سگریٹ ختم کی اور اپنی انگلی میری ببلی میں ڈالنے لگا پھر فوراً اٹھ کر اپنے کپڑے اتار گیا کہ میرے سے اڑھائی فٹ بڑا تھا اور سخت ہڈیوں سے بھرا جسم اور لمبا سخت ببلو یہ اسد سے زیادہ بڑا اور سخت لگ رہا تھا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور اپنے ببلو کو ڈنڈے کی طرح ببلی سے آگے میرے پیٹ پر مارنے لگا مجھے بہت غصہ آ رہا تھا لیکن میں بے بس تھی پھر اس نے میری ٹانگوں کو اٹھایا اور ببلو کو سختی بھرے انداز میں تین جھٹکوں میں ہی پورا اتار دیا مجھے بہت درد ہؤا ایک تو اس کا بہت بڑا اور سخت تھا دوسرا اس نے خشک ببلو ہی ظالمانہ انداز میں میرے اندر اتارا تھا وہ میرے ہپس پر زوردار تھپڑ مار کر جھٹکے مارنے لگا تھا میری وائی وائی کی آواز پر اپنی مونچھیں پھیلا کر بولا لوڑا تو تیرے اندر جائے گا میں جب چاہوں گا اور جس کا چاہوں گا ڈالوا دونگا لیکن پیار سے لو گی تو تکلیف نہیں ہو گی تم کو ۔۔۔۔ میں بےبسی کی تصویر بنی خاموش پڑی تھی وہ جھٹکے لگاتا رہا پھر اس نے مجھے گھوڑی بنا کر ببلی میں اتارتے ہوئے ایک بار پھر زور کا تھپڑ میرے ہلس پر مارا اور میرے ہپس کو پکڑ کر جھٹکوں کے ساتھ مجھے بھی ہلانے لگا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اس کے جھٹکوں میں شدت آنے لگی اور انہی تیز جھٹکوں میں میری ببلی بھی پانی چھوڑ گئی ۔۔ عزیز نے اکڑتے جسم کے ساتھ اپنا ببلو میری ببلی سے نکالا اور اپنا گرم لاوا میری کمر پر ڈالنے لگا۔۔۔ مجھے بہت خار آئی لیکن بےبس تھی سو خاموش رہی کچھ دیر بعد عزیز نے خود کپڑے سے میری کمر کو صاف کیا اور میں اپنے کپڑے پہن کر سو گئی عزیز بھی ساتھ سو گیا صبح وہ مجھ سے پہلے جاگ چکا تھا پہلی بار روشنی میں اس مکان کا نظارہ کرتی میں باتھ روم چلے گئی تھی واپس آتے ہوئے میں اپنے گیلے بالوں کو نچوڑ کر کمرے کی طرف آ رہی تھی تو عزیز نے مجھے کچن کی طرف بلا لیا ملک پیک تھماتے ہوئے بولا چائے بناؤ اور بسکٹ لے جا کر بیڈ پر بیٹھ جانا میں نہا کر آ رہا ۔۔ میں چائے بنانے لگ گئی چکن میں استعمال کے برتنوں کے علاوہ دیگر سامان بھی موجود تھا میں نے ابھی چائے نہیں بنائی تھی کہ وہ باتھ روم سے نکل کر کمرے میں چلا گیا میں نی گیس کی سپیڈ بڑھا دی اور جلدی سے چائے بسکٹ لیکر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ ناشتے کے بعد عزیز اٹھ گیا میں کام سے جا رہا ہوں اگر گھر میں کھڑی ھو کر چیخیں بھی مارو گی تو کوئی تمھاری مدد کو نہیں آئے گا یہاں میرا سکہ چلتا ہے پولیس یہاں نہیں آئے گی کیونکہ میں نے تمھیں پیسوں سے ۔خریدا ہے اور اس کاغذ پر گواہوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں میں دن کا کھانا لے آؤں گا اور شام کو کچھ بنا لیں گے ۔۔۔ وہ چلا گیا تھا دور کہیں سے ٹریفک چلنے اور ہارنوں کی آواز آ رہی تھی اس مکان کے آس پاس سارے مکان بہت بلند تھے گیٹ کے علاوہ باقی کوئی رستہ موجود نہیں تھا جہاں سے میں نکل کر بھاگ جاؤں دوسری طرف یہ کہ میں بھاگ کر کہاں جاؤں گی کہیں پہلے کیطرح کسی آدھے درجن پٹھانوں کے ہاتھوں پھر کھلونا نہ بن جاؤں ۔۔۔۔ میں صحن میں ٹہل کر کچھ سوچ رہی تھی لیکن میں اب رو نہیں رہی تھی کیونکہ انہی حالات کا مقابلہ کرتےشاید تین برس سے بھی زیادہ کا وقت گزر چکا تھا ۔۔۔ دوپہر کے بعد عزیز لوٹ آیا تھا میں نے کھانا کھایا اور اس کے سامنے ست جھکائے خاموش بیٹھی تھی عزیز بولا شام کے لئے سودا لایا ہوں اور آج ذرا بہتر طریقے سے تیار رہنا شام کو آپ کے ایک مہمان نے آنا ہی ادھر ۔۔ میں خاموش بیٹھی رہی میں نے شام سے پہلے کھانا تیار کر لیا تھا اور عزیز کے کہنے پر میں نہا کر ایک قدرے بہتر سوٹ زیبِ تن کر گئی ۔۔۔ شام کا۔کھانا کھانے کے بعد عزیز ایک بار پھر مجھ سے باتیں کرنے لگا میں ضروری حد تک اس کی باتوں کا جواب دے رہی تھی رات دس بجے عزیز کسی کی کال سنتا گھر سے باہر چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد پینٹ سوٹ میں ملبوس ایک صحتمند شخص اس کے ساتھ آ گیا تھا ۔۔
جاری ہے
0 Comments