ads

Kali aur Kantay - Episode 11

کلی اور کانٹے 

قسط نمبر 11



اس آنے والے بندے کے۔سامنے عزیز نوکروں کی طرح بھاگ رہا تھا اور حد سے زیادہ خوشامد کر رہا تھا عزیز نے اس کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے تھانے کے ایس ایچ او ہیں ایس ایچ او نے میری طرف ہاتھ بڑھایا میں نے اس کی طرف دیکھا اور لب کھولتے ہوئے رک کر اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ایس ایچ او نے میرے ہاتھ کو دباتے ہوئے عزیز سے کہا چیز تو مست ڈھونڈ لائے ھو عزیز اس کی جسم کی نرمی بندے کو پاگل کرنے کے لئے کافی ہے عزیز بولا سر بہت مست چیز ہے نرمی کیوں نہ ھو ابھی سترہ سال کی ہے ۔۔۔ ایس ایچ او میرے ساتھ بیٹھ گیا اور عزیز سے بولا ہاں اچھی لڑکی ہے ویسے بھی پٹھان لڑکیاں سیکس میں دوسری سے زیادہ مزہ دیتی ہیں ۔۔۔۔ عزیز بس آپ کے سارے کام سمجھو ہو گئے میں آپ کو علاقے کا وڈیرہ بنا کے جاؤں گا ۔۔۔آپ کھل کے کھیلا کرو۔۔۔ عزیز مسکراتے ہوئے بولا شکریہ سر آپ کو ہردم خوش کروں گا ۔۔۔۔۔ ایس ایچ او میرے ساتھ باتیں کرنے لگ گیا اور آگے بڑھتا گیا عزیز ایک کرسی اٹھا کر باہر چلا گیا تو اس نے مجھے کپڑے اتارنے کا بولا میں اس کے احکامات پر عمل کرنے لگی وہ میرے ساتھ کھڑا ہو کر مجھے باہوں میں بھرتا اور میرے جسم کو کسنگ کرتا جا رہا تھا پھر اس نے اپنا لباس اتار دیا اس کا ببلو نارمل سا تھا چھ ساڑھے چھ اچ کا میرے لبوں پر رکھتے ہوئے مجھے چوسنے کا بولا میں اپنی مٹھی میں لے کر اس کی ٹوپی کو جوسنے لگی وہ جلدی تیار ہو گیا اور مجھے بیڈ پر لیٹنے کا بولا میں بیڈ پر آ گئی اور صاحب نے آہستگی سے ببلو میرے اندر داخل کرکے مجھ پر لیٹ گیا اور نارمل سے جھٹکے لگانے لگا وہ پانچ سات منٹ میں اپنا پانی میرے اندر چھوڑ کر میرے ساتھ لیٹ کر باتیں کرنے لگا آدھے گھنٹے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے ببلو چوسنے کا بولا میں نے اس کی بات پر عمل کیا گو کہ یہ بھی گوشت کا بڑا خریدار تھا لیکن سارے کام پیار سے کر رہا تھا گزشتہ رات عزیز کی ظلم سے بہت بہتر تھا صاحب نے دوسری باری لی اور پھر کچھ دیر میں لباس پہن کر عزیز کو بلانے لگا میں نے بھی اپنے کپڑے پہن لئے عزیز آ گیا تھا ۔۔۔ صاحب نے اپنے پرس سے پانچ ہزار والے کچھ نوٹ نکال کر عزیز کو دئیے اور بولا گڈ عزیز مست چیز لائے ہو یہ اس کا خرچہ ہے آپ اس کے لئے پینٹ شرٹ لے لیں اور ماڈرن بنا کے رکھیں میں آتی رہوں گا اور آپ کے باقی جو بھی کام ہوں مجھے بتائیے گا عزیز نے پیسے لے کر مسکراتے ہوئے کہاں تھینک یو سر بس آپ کو ہر وقت یہ دستیاب ہو گی آپ جب چاہیں آ جایا کریں ۔۔۔ صاحب سے باتیں کرتا عزیز باہر چلا گیا تھا اور واپسی گیٹ بند کرتا ہوا کمرے میں آتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے لگا اس کا ببلو بہت سخت ہو چکا تھا اور کھڑی کے سامنے برآمدے میں رک کر مجھے صاحب سے کاروائی کرتے دیکھتا رہا تھا بولا جلدی اتارو کپڑے میں نے اس ظالم کی بات پر فوراً عمل کیا اور اس نے میرے اوپر لیٹتے ہوئے ببلو کو ایک دم سے میری ببلی میں بھرا اور جھٹکوں سے میرے جسم پر تالی بجانے لگا اور جلد ہی میرے نکلتے پانی میں اپنا پانی مکس کر دیا اور چادر لپیٹ کر میرے بوبز پیتا میرے ساتھ سو گیا ۔۔۔۔ اگلے روز عزیز میری کمر کی ناپ کرکے گیا تھا اور واپسی پر تین عدد پینٹس اور شرٹس کے ساتھ تیز پرفیوم اور کچھ دیگر سامان بھی لایا تھا کوٹھے کی رنڈی کیا ہوتی ہے شکیلہ کیسے جانتی تھی وہ مجھے بہت پہلے بتا چکی تھی کہ وہاں ہر روز نیا بندہ آتا ہے اور لڑکی کو ہر روز نئے ببلو کا مزہ ملتا ہے کیا میں آج بھی کسی کی خوراک بنوں گے ؟؟۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ عزیز کو کوئی کال آ گئی ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے خوشامدی انداز میں بولنے لگا ڈی ایس پی صاحب بہت پیارا گفت لایا ہوں آپ کے لئے بنوں سے ۔۔۔ کمال چیز ہے سر آپ کو پچھلا سب کچھ بھلا دے گی ۔۔۔ اوکے سر میں کیسے انکار کر سکتا ہوں ۔۔۔ ویلکم ویلکم ۔۔۔ اور کال منقطع کر دی ۔۔۔ شام کے فوراً بعد عزیز نے کھانے لگوایا اور اس کے بعد مجھے پینٹ شرٹ پہنا کر تیار کر لیا ۔۔۔۔ رات گیارہ بجے اسے کال آئی اور یہ باہر چلا گیا کچھ دیر بعد وہ بہت موٹے کالے۔شخص کے ساتھ اس کی خوشامد کرتا گھر میں داخل ہوا۔۔ ۔ کمرے میں آنے کے بعد اس بھدے شخص نے مجھے دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کر کہا او عزیز یہ تو چھوٹی ہے میرا للا نہیں لے سکے گی ۔۔۔۔ عزیز نے ہنستے ہوئے کہا او نہیں ڈی ایس پی صاحب اس لئیے تو آپ کو بولا تھا کہ کمال چیز ہے ۔۔۔ڈی ایس پی مجھے اپنے بازؤ میں بھرتے ہوئے بیڈ کی طرف جاتے ہوئے بولا اوکے ٹری کرتے ہیں مر گئی تو تیری اور بچ گئی تو بس پکی میری ۔۔۔۔عزیز بولا یہ پکی تیری ہو جائے گی جی بھر کے کھیلو سر۔۔۔۔ اس موٹے نے مجھے اپنی گود میں بٹھایا اور انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے جسم کو نوچنے کے ساتھ بےشرمی کی باتیں کرنے لگا۔۔۔اس نے مجھے لباس اتارنے کا کہا اور پھر مجھے اپنی گود میں الٹا لٹا کر میرے ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا بنوں کی لڑکیاں تو پیچھے بھی لیتی ہیں ۔۔۔ آپ نے لیا کبھی ؟؟؟ میں خاموش رہی .,., وہ اٹھ گیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا قمیض کے بعد جیسے اس نے اپنی شلوار اتاری میں ٹھٹک گئی واقعی وہ جس کو للا کہہ رہا تھا بہت بڑا تھا اس کا ببلو اس وحشی سے بھی لمبا اور بہت موٹا تھا میں نے ایک نظر اس کو دیکھا اور اپریل چہرہ دوسری طرف پھیر لیا وہ بولنے لگے ہاں چھوکری لے سکو گی میرا لوڑا ؟؟۔ میں خاموش رہی وہ بیڈ پر اپنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور مجھے لٹاتے ہوئے میری ٹانگوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا اس نے برآمدے میں موجود عزیز کو آواز دی اووے کوئی تیل شیل رکھیا اے ۔۔۔۔ عزیز کمرے میں آ گیا اور کالے ڈھکن والی پلاسٹک کی بوتل اٹھا لایا اس بھدے سے کالے موٹے شخص نے عزیز کے ہاتھ سے بوتل لی اور بولا باہر کدھر چلے گئے تھے ؟؟ ادھر بیٹھ خر شغل دیکھو۔۔۔ اس نے اپنے لوڑے پر تیل انڈیلا اور اس پر ہاتھ سے پھلا کر میرے ہپس کو نیچے سے پکڑ کر میری پوزیشن درست کی میرا جسم تھوڑا لرزا ضرور لیکن میں نارمل سی ہو گئی پتا نہیں کن حالات میں میں کیسے کیسے لوگوں کا نشانہ بن چکی تھی اس ڈی ایس پی نے تیل سے چکنی انگلی میری ببلی کے ہونٹوں میں پھیرتا ہوا اپنے لوڑے کا ٹوپا ببلی پر رکھ کر اپنی کمر کو جھٹکا دیا اور درد کی لہر کے ساتھ اس کے موٹے بڑے ببلو کا کافی سارا حصہ میرے اندر بھر گیا تھا مجھے درد ہو رہا تھا لیکن میں اب آوازیں نہیں نکال رہی تھی ۔۔۔۔ وہ صاحب ادھر ہی رک کر عزیز سے بولے اوے ویکھو اس کی دھرکنیں چل رہی ۔۔۔ عزیز بولا صاحب کچھ نہیں ہوتا آپ تسلی سے ڈال دو اور بغیر ٹیشن اپنا دل خوش کرو۔۔۔۔ وہ بولا پھر 1122 کا نمبر بھی نکال کر رکھو۔۔۔ اس نے اپنے بھاری پیٹ میرے اوپر رکھا اور لیٹ گیا جیسے میری ہڈیاں ٹوٹنے لگی ہوں میری لمبی اونہہ کی آواز نکلی اور یہ جھٹکے مارتا آہاہا کرتے میرے اندر پورا بھر رہا تھا اس میں میں بغیر کوئی لذت محسوس کئے بغیر پانی چھوڑ گئی مجھے مزے سے زیادہ الجھن ہو رہی تھی میری ببلی میں پورا ہتھیار بھرنے کے بعد وہ جھٹکے لگاتا بولا ۔۔ واقعی عزیز تو کمال کی چیز ڈھونڈ لایا ہے وہ رگڑ رگڑ کر مجھے جھٹکے مارتے رونڈ رہا تھا بہت دیر تک وہ ایسا کرتا اٹھ گیا اور بولا عزیز چھوکری کو گھوڑی بناؤ ذرا ۔۔۔ عزیز نے جلدی سے اٹھ کر مجھے بیڈ پر گھوڑی بنا دیا اور سائیڈ پر ہٹ گیا وہ آگے آ گیا اور پھر عجلت میں میری ببلی کو بھر کر جھٹکے مارتا ہوا میرے اندر بہت آگے اپنا لاوا گرانے لگا ۔۔۔۔ اس وقت اس نے اونچی آواز میں وشششش وششششش کیا اور زور سے دو بار زور سے میرے ہپس پر تھپڑ مارے اور پھر میری کمر کو پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا کچھ دیر رکا رہا اور پھر بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا اور بولا اوو عزیز خوش کر دیا تم نے اس چھوکری کا سارا خرچہ مجھ سے لے لیا کرو اور علاقے میں اپنی فل بدمعاشی کرتے رہو کوئی تمھارا بال بھیگا نہیں کرے گا میں نے بیڈ کر لیٹ کر چادر تان لی اور بغیر کسی سوچ کے ساکت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ عزیز بولا صاحب آپ کو دیکھ کر میں فارغ ہو گیا ہوں وہ ہنس رہا تھا ڈی ایس پی بولا اووے تم سارے فارغ لوگ ہو بس یہ میرے لئے سنبھال کر رکھو میں آتا رہوں گا ۔۔۔۔ وہ عزیز سے باتیں کرتا کرتا چلا گیا تھا عزیز میرے پاس سو گیا تھا یہ روٹین آگے چلتی رہی اب عزیز دن کو کچھ وقت میرے پاس آتا اور شام کے بعد بھی کچھ دیر آ جاتا وہ خود ہفتے میں دو تین بار سیکس کرتا اور ہفتے کی پانچ یا چار راتوں میں نئے نئے لوگ آتے ان میں زیادہ تر لوگ پولیس کے ہوتے اور مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ عزیز کا کاروبار بھی دو نمبر ہے جس کے لئے وہ مجھے پولیس افسران کو پیش کرکے نہ صرف بہت سے پیسے ہتھیا لیتا بلکہ اپنے دو نمبر کاموں کو بھی تحفظ دیتا تھا اس حال میں تقریباً پانچ ماہ گزر چکے تھے بس اب بجھا رہنا میری عادت بن گیا تھا۔۔۔۔ اپنی زندگی کے اچھے وقتوں کو میں بھول چکی تھی اس سے پہلے کیا ہوتا رہا یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا اور بس صرف گزری رات کو کبھی یاد کر لیتی ان پانچ ماہ میں میں تین بار عزیز کے ساتھ باہر گئی تھی جب میں بیمار ہوئی تو وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا اب میں آنے والے ان گندے لوگوں کی ان کی فرمائش پر انکی تیل سے مالش کرنا بھی سیکھ گئی تھی میرا جسم ایک بار پھر پھولنے لگا تھا جلد خراب ہو گئی تھی کبھی خود سے الٹیاں کرنے لگ جاتی اس روز جانے کن سوچوں میں میں اس مکان کے چھوٹے صحن میں اونچی عمارتوں کے درمیان جانے کن سوچوں میں بار بار نیلے آسمان کو دیکھ رہی تھی ہر طرف خاموشی تھی سامنے والی دیوار کچھ بوسیدہ تھی اور یہ دیوار زیادہ اونچی بھی نہیں تھی اور کبھی کبھی ہفتے دو بعد اس گھر سے کسی خاتون کی۔مدھم سے آواز آتی تھی لیکن بات کو میں سمجھ نہیں سکتی تھی اس دیوار کے دیکھ کر کبھی کبھی میں سوچتی پتا نہیں جہاں کون رہتا ہے کیا جہاں بھی کوئی مجبور پھنسی کوئی خاتون یا لڑکی ہے۔یا یہ کوئی خوشیوں بھرا گھر آباد تھا ۔۔۔ اس روز اس دیوار کو دیکھتے ہوئے مجھے اس کے ایک سوراخ سے ایک کاغذ باہر آتا دیکھائی دیا کاغذ خود سے نہیں چلتا ہے ۔۔ میرے ذہن میں آنے والے اس خیال نے مجھے اس طرف متوجہ کر دیا کاغذ نیچے گر گیا تھا اور ایک تیلی نما لکڑی سوراخ سے باہر آ کر اندر چلی گئی تھی میں نے گیٹ کی طرف دیکھا اور فوراً اس کاغذ کی طرف لپکی موم بتی کی طرح لپٹے اس کاغذ کو کانپتے ہاتھوں سے آہستگی سے کھولا اور اس کو پڑھنے لگی ۔۔۔۔ اس بوسیدہ دیوار کے اس پار کوئی ارم نامی لڑکی رہتی تھی جو مجھے جہاں بہت عرصے سے دیکھ رہی تھی ارم کے علاوہ علاقے کے سب لوگ عزیز کو بدمعاش کے روپ جانتے تھے اور سب اس سے ڈرتے تھے ارم نے مجھے کہا تھا کہ اگر میں کچھ بتانا پسند نہ کروں تو پلیز اس پرچی کو کہیں نالے میں بہا دینا پھاڑ کر اور عزیز سے ذکر نہ کرنا میں آپ کی مدد کرنا چاہتی اور مجھے مروا نہ دینا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ارم نے اپنے گھر میں کسی سے اونچی آواز میں بول کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ۔۔ مجھے ان سالوں کے گھٹن حالات میں پہلی لڑکی ملی تھی اور میں اسبپر اعتمادغکر سکتی تھی اس سے قبل اس بزرگ خاتون نے مجھے زندگی دی تھی جسے میں اماں بولتی تھی گو کہ میں ان دنوں اس ملنے والی نئی زندگی پر پچتا رہی تھی لیکن اماں مجھے اب بھی بہت یاد آ گئی تھی میں نے ارم کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر کیسے میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اس سوراخ سے ایک بار پھر کاغذ باہر آنے لگا میں اس کی طرف بڑھ گئی اور کاغذ کو کھولا تو یہ سادہ تھا اور اس میں بال پین کی نلی تھی میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کاغذ پر صرف جہاں کی مختصر داستان لکھی اور اس کو دوبارہ لپیٹ کر اس سوراخ کے طرف بڑھ گئی ۔۔ سوراخ اس طرف سے میری قد سے بہت اوپر تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا فریج کے نیچے رکھی جانے والی لکڑی کی ٹوٹی چوکی پڑی تھی میں نے اس کو اٹھا کر اس سوراخ کے نیچے دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور کاغذ کو جھاڑو کی تیلی سے آگے کرنے لگے کاغذ تھوڑا آگے جانے کے بعد غائب ہو گیا جیسے ادھر سے اس نے کھینچ لیا ہو تقریباً ایک ماہ تک روزانہ کی بنیاد پر تین چار پرچیوں کے تبادلے کے بعد میں تقریباً ان بھیانک حالات کی پوری داستان سنا چکی تھی میں نے عزیز کو بالکل محسوس نہیں ہونے دیا ایک دن ارم نے مجھے بتایا کہ ایک بہت اچھی فیملی میری ہلپ کرنا چاہتی ہے میں کچھ گھبرا گئی ارم نے بتایا کہ وہ سارے انتظامات خود کر رہے اور تمھیں یہاں اچانک نکال کر لے جائیں گے اس آدمی کی دو بیویاں ہیں اور وہ اس کے ساتھ آئیں گی اور تمھیں واپس کراچی پہچانے کے انتظامات کریں گے ۔۔۔ میں نے پرچی پر سوچنے کا وقت مانگا ارم نے بتایا تھا کہ وہ لوگ اپنی جانوں کو تمھارے لئے خطرے میں ڈال رہے آپ صرف ایک بار اس جہنم سے نکلنے کی کوشش کر لو۔۔۔۔ میں نے اگلے دن اسے اوکے کہہ دیا اور ترتیب پوچھی ارم نے اگلے کچھ روز میں پلان بتانے کا کہہ دیا ۔۔۔





جاری ہے

Post a Comment

0 Comments