ads

Kali aur Kantay - Episode 12

کلی اور کانٹے 

قسط نمبر 12




میں نے ابھی تک ارم کو نہیں دیکھا تھا جبکہ ارم مجھے اس سوراخ سے دیکھتی رہتی تھی ارم کی تحریروں نے میرے اندر حوصلہ بھر دیا تھا اور کبھی کبھی ارم کی بتائی اس فیملی کے بارے میں سوچنے لگتی کہ اسے کیا غرض پڑی ہے اس خطرناک شخص سے ٹکرانے کی جو پولیس کے افسران کو اپنا بنا چکا ہے اور شہر میں سرعام بدمعاشی کرتا ہے لیکن میں صرف ارم کے کہنے پر ایک بار قسمت کو آزمانہ چاہتی تھی ارم نے مجھے اس فیملی کی طرف سے دیا گیا شیڈول بتایا کہ وہ صبح سویرے ہی آپ کے مکان کا تالا توڑ کر آپ کو خاموشی سے لے جائیں گے نماز سے پہلے جب اندھیرا ہو گا یہ ایسا ٹائم تھا کہ اس وقت عزیز نہیں ہوتا تھا وہ صبح نو بجے کے بعد یہاں آتا تھا اور رات کو ایک بجے یہاں سے چلا جاتا تھا کئی بار ہمارے گھر میں کوئی چیز دستیاب نہ ہوتی تو وہ ارم کے گھر کا گےٹ بجا کے وہاں سے لے آتا تھا مجھے اس بات کا پہلے علم نہیں تھا بس یہی معلوم تھا کہ وہ شاپ پر جانے کے بجائے کہیں نزدیک سے لیکر آتا تھا کئی بار نمک چائے کی پتی یا اس طرح کی کوئی چیز وہ فوراً لیکر آ جاتا ارم نے بتایا تھا کہ ہمارے رشتے داروں کی شادی ہے اور جب ہم چار روز کے لئے وہاں جائیں گے تو تیسرے دن وہ لوگ آپ کو یہاں سے لیکر جائیں گے آپ بلاخوف ان کے ساتھ خاموشی سے چلی جانا پہلے دو دن آپ کسی بھی چیز کی کمی کا بول کر عزیز کو بھیجیں گی تاکہ عزیز ہمارے گھر کا تالہ دیکھ لے اور آپ کے جانے کے بعد اس کا شک ہمارے گھر پر نہ آئے میں نے اوکے کر دیا ۔۔ میرے ذہن میں مسلسل اس فیملی کا خیال آتا تھا پھر میں نے اپنے ارادے کو پختہ کر لیا کہ کم سے کم اس سے برا نہیں ہو گا جو اب تک میں گزار چکی ہوں ارم مسلسل اس فیملی سے رابطے میں تھی اور ڈیلی کی بنیپر مجھے بھی انفارم کرتی تھی ارم نے بتایا کہ وہ بدھ کے روز شادی پر چلے جائیں گے اور سوموار کو واپس آئیں گے ہفتے کی صبح منہ اندھیرے اذان کے وقت آپ کے گیٹ کا تالاب توڑ دیا جائے گا میں نے اوکے کر دیا ارم نے آج بھی مجھے بتایا کہ وہ صبح نو بجے کے بعد چلے جائیں گے ارم نے اپنی امی کو اعتماد میں لے رکھا تھا ارم نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ گھر سے اس وقت نکلیں جب عزیز ان کو گلی میں دیکھ سکے وہ صبح نو بجے کے قریب یہاں آتا تھا ۔۔۔ صبح میں دیر سے اٹھی تھی رات کو عزیز دو بندے لیکر آیا تھا اور دوبجے ان دونوں کے ساتھ اس گھر سے نکلا تھا اور میں اس کے بعد سوئی تھی میری آنکھ کھلی تو عزیز روم میں آ چکا تھا اور موبائل پر اپنا انگوٹھا سویپ کر رہا تھا میں بڑی عمر کی کسی خاتون کی طرح اپنی کمر کو پکڑ کر اٹھی اور باتھ روم چلی گئی میں اس عمر میں اندر سے خالی ہو چکی تھی میں باتھ روم سے واپس آئی تو عزیز نے چائے کی فرمائش کر دی میں خاموشی سے چکن چلی گئی اور چائے بنانے لگ گئی میں نے پتی کے پیکٹ کو چھپا دیا اور دودھ میں چینی ڈال کر کمرے میں آئی اور عزیز سے بولی کہ چائے کی پتی نہیں مل رہی جلدی سے لا دوگے ۔۔ وہ فوراً اٹھ گیا باہر جانے کے ایک منٹ بعد عزیز نے گیٹ کو لاک کیا اور چلا گیا میں سمجھ چکی تھی کہ وہ پہلے ارم کے گیٹ کی طرف گیا اور تالہ دیکھ کر دوبارہ گیٹ کی طرف آیا اور اس لاک کرکے پھر کہیں گیا ہے عزیز دس منٹ بعد پتی لیکر آیا تھا میں نے اس سے تاخیر کی کوئی وجہ نہیں پوچھی اور چائے بنا کر لے آئی ۔۔۔۔ دوسرے دن بھی میں نے شام کے وقت عزیز کو نمک لانے کا بولا تو وہ پھر دس منٹ بعد آیا اور جمعہ کے روز بھی میں نے چائے کی پتی کے پیکٹ کو جان بوجھ کر گرا دیا اور عین موقع پر اسے پتی لانے کا بولا رات کو عزیز کچھ تاخیر سے آیا اور اس کے ساتھ وہی بھدا ڈی ایس پی ساتھ تھا میرے کپڑوں کا شاپر بیڈ کے نیچے پڑا تھا اس گینڈے جیسے موٹے ڈی ایس پی نے اس رات مجھے بہت بےحال کیا تھا وہ بہکی بہکی باتیں کرتا رہا اور اس کے منہ سے کچھ عجیب سی بدبو آ رہی تھی جیسے وہ شراب پی کر آیا ہو ۔۔۔ رات کو تقریباً تین بجے اس نے اپنا لباس پہنا اور کسی کو کال کر کے کہا کہ مجھے لے جاؤ۔۔ عزیز نے اسے کہا صاحب آج ادھر ہی سوتے ہیں میں بھی اپنے گھر جانے سے لیٹ ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ میرا دل دھڑام سے ٹخنوں میں جا گرا ۔۔۔۔۔ اس سرد موسم میں بھی میرے جسم پر پسینہ سا آ گیا تھا ۔۔۔ مجھے لینے کے لئے آنے والے لوگ چند گھنٹوں میں یہاں آنے والے ہیں تو کیا وہ بھی میری وجہ سے کسی مصیبت میں پھنسنے والے ہیں کیا راز آؤٹ ہونے کے بعد اس درندہ ارم لوگوں کو جینے دے گا ؟؟۔۔ ایک ہی لمحے میں کئی خیالات میرے ذہن میں گردش کر گئے ۔۔۔ ڈی ایس پی نے ایک لمحے بعد بولا نہیں میں اپنے فام ہاؤس جا کر سونا چاہتا آپ ادھر ہی سو جائیں ۔۔۔ عزیز نے اوکے بول دیا ۔۔ میں کتنی بدقسمت تھی کہ خود تو عذاب بھگت رہی تھی اور آج میرے ساتھ ہمدردی کرنے والی فیملی بھی کسی عذاب میں پھنسنے لگی تھی ۔۔ بیس منٹ بعد ڈی ایس پی کا فون بج اٹھا اس نے فون پر صرف اوکے بولا اور اٹھنے لگا تھا ۔۔۔ عزیز بھی شاید اسے گیٹ تک چھوڑنے کے لئے اٹھ گیا ۔۔۔ ڈی ایس پی نے اپنے قدم روکے اور بولا عزیز میرے ساتھ چلو تم بھی آج آپ کو سپیشل چیز پلاتا ہوں ۔۔۔ عزیز نے سوالیہ انداز میں پوچھا برانڈڈ ؟؟؟ بھدا گینڈا بولا ہممممم آ جاؤ عزیز نے ٹیبل پر رکھا اپنا سامان اٹھا کر جیب میں ڈالا اور جاتے ہوئے مجھ سے بولا تم سو جاؤ میں صبح جلدی آؤں گا کام ہے کچھ ۔۔۔۔۔ شاید عزیز نے میری دن کی بکنگ بھی کر رکھی تھی میں نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور کمبل میں لیٹنے لگی ٹائم شاید کم تھا اور میں ان کے جانے کے بعد اٹھ بیٹھی تھی کہ کہیں مجھے نیند نہ آ جائے کیا میں آزاد ہونے جا رہی کیا میں کراچی پہنچ پاؤں گی کیا میرے ابو امی زندہ ہونگے کیا وہ مجھے قبول کریں ؟؟؟ چلو اللّٰہ کرے وہ زندہ ہوں مجھے قبول نہ کریں اور اگر میں ان کو صرف اپک بار دیکھ بھی لوں تو بھی میری خوش قسمتی ہو گی پہلی آذان کی آواز کے ساتھ گیٹ پر ہلکی سے ٹک کی آواز آئی اور گیٹ کی کھڑکی کھل گئی میں برآمدے تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ نے بولا زاہد اتنا بڑا خطرہ مول لینے سے بہتر ہو گا آپ اقرار الحسن کو کال کر لیں اس کا نمبر تھا ناں آپ کے پاس۔۔۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور قہوے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا میرے خیال میں ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ہم آسانی سے نازیہ کو لینے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔۔۔ اگر خطرہ بھی ہوا تو خیر ہے موت نے ویسے بھی آنا ہے اور ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہم ایک بیٹی کو آزاد کرنے کی کوشش میں مارے جائیں ۔۔۔ اقرار کو بتانا اور نازیہ کی ٹی وی پر تہشیر کرنا درست نہیں ہو گا جو کام ہم آسانی سے کر سکیں تو اس کے لئے کسی اور کو تکلیف دینا ٹھیک نہیں ۔۔۔ ویسے بھی اقرار الحسن کا ٹھیکہ نہیں ہے ہر ٹینشن میں پڑنا ۔۔ ہر ایک کا فرض ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرے ارم نے مجھے ایک ایک پل اور ایک ایک خطرے سے آگاہ کر دیا تھا اقبال اور دانش میری زمینوں پر کام کرنے والے بہت دلیر لڑکے ہیں ہردم چوکس اور مجھے جب بھی جس کام کے لئے ان کی ضرورت پڑی تھی انہوں نے ایک ہیرو کا کردار ادا کیا تھا سمجھو یہ حلال کمانے اور کھانے کے ساتھ پیدائشی طور پر خطروں کے کھلاڑی تھے وہ آج صبح دس بجے میانوالی پہنچ چکے تھے دن دو بجے میں نے دانش اور ارم کو کانفرنس کال پر لے لیا ارم دانش کو راستوں سے آگاہ کرتی جا رہی تھی میں صرف پر ہی ان سے بات کر رہا تھا اقبال بھی دانش کے ساتھ تھا بیس منٹ بعد وہ ارم لوگوں کے کوچے میں پہنچ چکے تھے دانش ارم کو کوچے کے بارے میں بتا رہا تھا ارم کے گھر کے سبز گیٹ کو تالہ لگا ہوا تھا اس سے اگلہ بلیو کلر کا گیٹ تھا اس کو بھی باہر سے تالا لگا تھا اقبال اپنے موبائل پر غیر محسوس انداز میں تصاویر بنا رہا تھا نازیہ کے گیٹ کے آگے لگا تالہ کافی بھاری اور مضبوط تھا اتنے تک جانے کے بعد ارم نے انہیں فوری طور پر وہاں سے نکلنے کا بولا وہ عجلت میں اس کوچے سے نکل آئے تھے ۔۔۔ اور لاری اڈے کی طرف چلے گئے تھے اقبال اور دانش نے مجھے تصاویر سنڈ کر دیں اور میں نے ارم کو واٹس ایپ کر دیں انہوں نےصحیح مقام دیکھ۔لیا تھا اب وہ اس تالے کو کھولنے کی ترکیب سوچ رہے تھے اور ضروری سامان وہاں بازار سے لے لیا تھا میں دانش اقبال اور ارم مسلسل رابطے میں تھے شام کے بعد بھی اقبال اور دانش ایک چنگ چی پر بیٹھ کر اس کوچے تک گئے تھے تاکہ اندھیرے میں ان کے لئے کوئی مسئلہ باقی نہ رہے۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے ان دونوں کو کسی ہوٹل میں آرام کرنے کا بولا اور میں سائقہ اور شاکرہ اس وقت بیٹھے صرف اس موضوع پر بات کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ شاکرہ سائقہ اور میں وقفے وقفے سے ارم اور اسکی امی سے بات کر رہے تھے رات بارہ بجے ہم نے ضروری سامان گاڑی میں رکھ دیا تھا شاکرہ نے پسٹل اپنے پرس میں رکھا تھا رات سوا ایک بجے ہم گھر سے نکل پڑے تھے ہمیں میانوالی پہنچنے کے لئے تین گھنٹے کا وقت درکار تھا یعنی ہم چار بجے وہا پہنچ سکتے تھے ارم ساری رات جاگتی رہی تھی اور ہمارے ساتھ رابطے میں تھی میانوالی بپس کلومیٹر ہم سے دور تھا ساڑھے تین بج چکے تھے میں نے اقبال کا نمبر ملایا اس نے فوراً کال ریسیو کر لی وہ دونوں جاگ چکے تھے انہوں نے گائیڈ کرنا شروع کر دیا ہم شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے ایک پولیس ناکے پر ہم نے ضروری دستاویزات دیکھائی اور آگے چل پڑے اقبال اور دانش نے ہمیں ایک چوراہے پر رکنے کا بولا ہم روڈ کنارے ٹھہر گئے سائقہ دانتوں سے بادام توڑ کر مجھے اور شاکرہ کو دینے لگی دس منٹ بعد اقبال اور دانش ہمارے پاس آ گئے تھے کچھ ضروری معلومات کے بعد میں نے انہیں فوری پلان پر عمل کرنے کا کہا اور ایک کاغذ انہیں تھما دیا جس پر میں نے گھر سے نکلنے سے پہلے لکھ لیا تھا کاغذ پر میں نے اتنا لکھا تھا ۔۔۔۔ ہم نے نظام سے بچی کی شادی کی تھی اسے بیچنے کا اختیار نہیں دیا تھا ۔۔ نظام اپنے انجام تک پہنچ گیا ہے ہم بچی کو لے کر جا رہے اب تم اپنے انجام کے لئے تیار رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

میں نے دانش کو یہ پرچہ تھمایا اور اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا شاکرہ آگے بیٹھی تھی سائقہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی جبکہ یہ دونوں میرے آس پاس بیٹھ گئے میں نے دانش کو بولا کہ یہ پرچہ بیڈ پر رکھ دینا اور جلد سے جلد نازیہ کو گاڑی تک پہنچانے کی کوشش کرنا کوچے کے قریب جانے پر میں نے سیٹ کے ڈرائیونگ سیٹ۔کے ساتھ چھپا پسٹل اقبال کے حوالے کر دیا اور اسے بتایا کہ خطرے کے وقت استعمال کر دینا جب دیکھو کہ تمہاری یا نازیہ کی جان کو خطرہ ہے ۔۔۔ 4:50 بجے یہ دونوں گاڑی سے اتر گئے اور گلی میں چلتے تقریباً دو سو فٹ جانے کے بعد لفٹ سائیڈ پر مڑ گئے میں نے سقی کو گاڑی ٹرن لے کر کھڑی کرنے کا بولا اور شاکرہ سے پسٹل لے کر بیک سیٹ پر پیچھے کو منہ کرکے چوکس بیٹھا رہا سائقہ نے گاڑی کا سوئچ بند کر دیا اور یہ دونوں بھی محتاط انداز میں آس پاس کا جائزہ لینے لگی سائقہ پر اب بھی کسی خوف کا قبضہ نہیں تھا جبکہ شاکرہ اس معاملے پر روز اول سے ہی میرا پلان سن کر خوفزدہ تھی ۔۔۔ کوئی بیس منٹ بعد اسی کوچے سے چادر لپیٹے اقبال تیزی سے نکلا جس کے پیچھے شاید نازیہ تھی جو ڈگمگا کر تیز چلنے کی کوشش کر رہی تھی میں سائقہ سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا بولا اور ساتھ اسے کہا لائٹس آف رکھو شاکرہ کانپتی ہو،پیچھے دیکھنے لگی اقبال اور نازیہ کے گاڑی تک پہنچنے سے پہلے دانش بھی کوچے سے نکل کر گلی میں آگے پیچھے دیکھتا ہوا محتاط انداز میں آگے آ رہا تھا میں نے لفٹ سائیڈ والی کھڑکی کھول دی نازیہ کانپتی دھڑام سے سیٹ پر گر گئی وہ بری طرح ہانپ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کا بدن لرز رہا تھا شاکرہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی ہماری بیٹی ہو تم ۔۔۔ اب تم آزاد ہو ۔۔۔ بےفکر ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے مجھے پسٹل تھمایا اور بولا صاحب آپ جلدی نکل جاؤ۔۔۔ میں نے دانش اور اقبال سے ہاتھ ملایا اور انہیں یہاں سے فوری نکلنے کا کہہ کر سائقہ سے چلنے کا بولا اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا دی وہ گلی بھول چکی تھی بہرحال میں نے اسے ایک جگہ پر اندازے سے رائٹ سائیڈ پر گاڑی موڑنے کا بولا ہم دس منٹ میں مین روڈ پر آ گئے ہم میں نے ارم کا نمبر ملانا چاہا موبائل کی سکرین پر دیکھا تو اس کی بیس کالز آ چکی تھی مین روڈ پرہم کس طرف جا رہے تھے ہمیں معلوم نہیں تھا لیکن سائقہ بہت تیزی سے گاڑی آگے بڑھا رہی ۔۔۔ ارم نے فوراً کال پک کر لی تھی میں نے آس پاس دیکھتے ہوئے اپنی لوکیشن بتائی اس سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں آگے چوک پر جہاز دیکھ کر میں نے اسے بتایا تو اس نے اس سے ایک روڈ مڑنے کا بتا دیا ہم دوبارہ اسی روڈ پر آ گئے تھے اور اب سائقہ نے گاڑی کی سپیڈ مذید بڑھا دی تھی ہم آدھے گھنٹے میں ارم کے ماموں کے گھر کے آگے رک چکے تھے اقبال اور دانش لاری اڈہ پہنچ کر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ ہم ارم سے گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہی ملے اور نازیہ نے نیچے اتر کر ارم کو گلے لگا لیا تھا اور آواز سے رونا شروع کر دیا تھا شاکرہ نے بہت مشکل سے ان کو جدا کیا اور نازیہ کو گاڑی میں بٹھایا ۔۔۔ ہم نے ارم سے پھر ملنے کا وعدہ کیا اور ارم کی بتائی ایک گلی سے مین روڈ کی طرف نکلنے لگے ۔۔۔ میں نے نازیہ سے پہلی بار بولا ۔۔۔ نازیہ ہماری بیٹی ہو تم یہ رونے کا وقت نہیں ہے نازیہ دعا کرو تمھارے ساتھ ہم بھی خیریت سے پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔ اس وقت سورج ابھی نہیں نکلا تھا شاید یا بادل تھے بہرحال روشنی اچھی خاصی ہو گئی تھی ہم جیسے ہی مین روڈ پر آئے پولیس کی تین گاڑیاں سائرن بجاتی اسی طرف گامزن تھیں جدھر سے ہم آئے تھے ۔۔۔




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments