ads

Kali aur Kantay - Episode 13

کلی اور کانٹے 

قسط نمبر 13



پولیس وینوں کو دیکھ کر شاید سائقہ بھی ڈر گئی تھی وہ ایک دم سے سپیڈ بڑھا گئی تھی میں نے اسے گاڑی سائیڈ پر روکنے کا بول دیا وہ اپنے سر کے اوپر لگے اس آئینے میں مجھے دیکھ اور گاڑی روڈ کنارے روک دی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی اور میں نیا پلان ترتیب دینا چاہتا تھا پہلے حالات نارمل تھے اور ارم لوگوں کی گلیوں سے نکل کر ہم الٹی سائیڈ پر چلے گئے تھے اور ہمارا بہت سا وقت ضائع ہو گیا تھا اگر ہم صحیح راستے پر آتے تو ارم سے مل کر کب کے شہر سے نکل چکے ہوتے ۔۔۔ میں نے نازیہ سے نارمل ہونے کا بولا اور اس سے پوچھا کہ کیا عزیز اس ٹائم مکان پر آ سکتا ہے ؟؟ بولی کبھی آیا تو نہیں ۔۔۔ لیکن ایک بات میرے ذہن میں آنے لگی ہے کبھی عزیز رات کو میرے ساتھ ہوتا تو نماز کے کے بعد جب تھوڑی روشنی ہوتی تو اسے اکثر ایک کال آتی تھی اور عزیز اسے کہتا کہ میں خود مکان میں موجود ہوں ۔۔۔۔ میں نے لمبی سے ھھھممم کی اور گاڑی سے اترے ہوئے شاکرہ کو پیچھے آنے کا بولا میں نے اپنے پاؤں کے نیچے سے سٹک نکالی اور اس کا سہارا لیتے ہوئے باہر آ گیا میں اس وقت بھی ایک اسٹک کے سہارے چلتا تھا ۔۔۔ میں آس پاس کا جائزہ لیتے اور دکانوں کے سائن بورڈ اور شٹر بکس پڑھتا دوسری طرف سے گھوم کر فرنٹ سیٹ پر آنے لگا تھا اب ہم تقریباً 95 فیصد خطرات میں تھے پولیس افسران کے لئے نازیہ کو پکڑنا نہیں مارنا لازمی تھا اور کیونکہ وہ ان کے سیاہ کرتوتوں کی گواہ تھی ۔۔۔۔ میں نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ایک دکانیں کا شٹر بکس پڑھا عباس ڈیکوریشن سنٹر ۔۔ (سیج کار سجاوٹ ۔۔وغیرہ ) میرے ذہن میں کوئی خیال آیا اور میں نے اس کا نمبر ڈائل کر دیا آخری لمحات میں کال ریسیو کر لی گئی تھی میں نے دکان کا پوچھا تو بولے 9 بجے کھولیں گے میں نے التجا کی کہ اگر جلدی آ جائیں تو ہم نے کار سجانی ہے اور بہت دور جانا ہے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اور میری التجا پر صاحب بولے دکان کے ساتھ رستہ ہے اس میں جاکر دکان کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دیں میں بیس منٹ میں آتا ہوں میں نے شکریہ ادا کیا اور سائقہ کو گاڑی ادھر لے جانے کا بولا دکان کے پیچھے دو دکانوں جتنا پلانٹ پڑا تھا اور اس پر ہماری گاڑی محفوظ ہو گئی تھی اور روڈ سے نظر نہیں آ رہی تھی میں نے ارم کو کال ملا دی اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا بولی واپس ادھر آ جاؤ ۔۔۔ ہم ابھی اس شادی والے گھر سے دو گلیوں کے فاصلے پر ہی تھی میں نے اس سے کہا کہ کوئی دلہن ٹائپ کا لباس بھیج سکتی ؟؟؟ ارم نے پانچ منٹ میں دوبارہ کال کرنے کا بولا میں اس سے پوچھا کہ آپ کے کوچے میں کسی کے سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ؟؟؟ بولی کوچے کے بالکل سامنے والے مکان کے لگے ہوئے ہیں مین گلی میں ۔۔۔ میں نے ارم کی کال بند کر دی اور فوراً دانش کا نمبر ڈائل کر دیا ۔۔۔ دانش نے بتایا کہ۔انھوں نے ٹکٹ خرید لی ہے اور گاڑی کے انتظار میں مسافر خانے میں بیٹھے ہیں میں نے انہیں آہستہ سے نکلنے کا بولا وہاں سے اور کہا کہ اپنی چادریں یہیں چھوڑ دو اور الگ الگ ہو کر جہاں سے نکل جاؤ اور کوئی اور ترتیب سوچو ۔۔۔ دانش نے اوکے کہہ دیا اور کال بند کر دی گاڑی میں سکوت تھا اور سب کے چہرے اترے ہوئے تھے سائرن کی آوازیں ایک بار پھر سے گونجنے لگیں اور گاڑیاں روڈ پر آگے چلی گئیں دکان والا بیس منٹ سے پہلے آ گیا تھا میں اتر کر اس کی طرف چلا گیا اس سے ہاتھ ملایا اور اسے جلدی سے گاڑی سجانے کی اپیل کر دی اس نے پوچھا کہ فل سجانی یا میں نے کہا ہاں فل سجا دو بھر دو گاڑی کو ایک ہی بھائی ہے میرا اور آج تو خرچے کا دن ہے وہ خوش ہوتے ہوئے بولا سر میں نے پہلے اس جیسی صرف ایک کار سجائی سے اگر کہیں تو ۔؟؟؟ خرچہ تھوڑا زیادہ ہے ۔۔۔ میں نے اس کی بات کاٹ دی کہ خرچے کی فکر چھوڑو بس آپ جلدی کر دو سائقہ اور شاکرہ کو دیکھ کر وہ کچھ زیادہ اکڑ دکھاتے ہوئے ہیرو بننے کی کوشش میں جلدی سے ہاتھ چلا رہا تھا ارم اپنے کسی عزیز کے ساتھ موٹرسائیکل پر ادھر آ گئی تھی اور روڈ پر کھڑی ہو کر کال کر کے پوچھنے لگی میں نے اسے دکان کا پتا دیا کہ ہم اس کے پیچھے ٹھہرے ہیں وہ دو منٹ میں ہی آ گئی اور شاپر اٹھائے گاڑی کے اندر چلی گئی ۔۔ ارم کے ساتھ آنے والا شخص میرے ساتھ باتیں کرنے لگا اور میں اسے گاڑی سے تھوڑا فاصلے پر لے گیا کوئی بھی بات کار سجانے میں مصروف اس شخص کو مشکوک بنا سکتی تھی ۔۔۔ اقبال نے کال کر کے بتایا کہ وہ ٹرکوں والے اڈے میں ہیں اور اپنے ایک جاننے والے ٹرک ڈرائیور کے ساتھ کچھ دیر میں نکلنے والے ہیں ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا اور مسلسل رابطے میں رہنے کا بولا ۔۔۔۔ گاڑی سج چکی تھی اپنے ساتھ ٹھہرے اس بندے کے آگے میں فرضی کہانی گھڑ چکا تھا جو ارم کے ساتھ آیا ۔۔۔ گاڑی کو اس بندے نے پھولوں میں ایسا بھر دیا تھا کہ اس کا اوریجنل رنگ بھی کہیں نہیں دکھ رہا تھا میں نے شاکرہ کو کال کرکے کہا کہ ہم دکان میں بیٹھ رہے نازیہ کا لباس بدل دیں۔۔ شاکرہ نے بتایا کہ وہ اپنا کام شروع کر چکے ہیں ۔۔۔ شاکرہ ہمیشہ سے ہی میرے بتانے سے پہلے کام کر دیا کرتی تھی میں نے عباس نامی اس شخص کو چائے کی فرمائش کر دی حالانکہ کہ میں چائے نہیں پیتا لیکن کچھ وقت گزارنے کا یہ اچھا بہانہ تھا ہم ابھی چائے پی رہے تھے کہ شاکرہ نے اوکے کا مسیج کیا روڈ پر پولیس کی گاڑیوں کی نقل وحمل ضرورت سے زیادہ تھی شاید ضلع بھر کی پولیس جاگ چکی تھی ۔۔۔ میں نے کار سجاوٹ کا بل پوچھا تو عباس نے اتنا بتایا کہ اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو اب تک دکان میں لڑائی شروع ہو چکی ہوتی ۔۔ بہرحال میں نے اس کی بتائی رقم اسے تھما دی اور اٹھ گیا ۔۔۔ میں گاڑی سے تھوڑے فاصلے پر تھا کہ ارم گاڑی سے نکل کر میری طرف آ گئی اور مجھے سائیڈ پر لے جا کر کہنے لگی کہ زاہد میں آپ سے گلے ملنا چاہتی ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے کہا کہ آپ پاگل ہو چکی حالانکہ یہ مجھے ہونا تھا ۔۔۔ بولی سچ میں پاگل ہو گئی ہوں۔۔۔ آپ کی کہانی پڑھنے اور اب آپ سے رائل ملنے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا جیسے میں بہت بڑے لوگوں سے مل رہی ہوں اور اتنے ۔۔۔۔ میں نے ارم کی بات کاٹ دی اور اس سے وعدہ کیا کہ میں شاکرہ اور سائقہ کے ساتھ آپ سے ملنے ضرور آؤں گا ۔کیونکہ تم بہت عظیم لڑکی ہو اور تمھارے احساس اور نیک دلی نے وہ کام کر دیا جو شاید آج تک کسی لڑکی نے اتنا بڑا رسک لینے کا سوچا بھی نہ ہو جیسے ہم آج خطرہ لینے آ گئے ہیں ویسے آپ کی محبت لینے بھی آ جائیں گے ۔۔۔ وہ راضی ہو گئی اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے دو قدم پیچھے ہٹ کر گہری سانس لے گئی میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا مجھے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی تھی اور میں بیک سیٹ پر ٹانگیں پھیلا کے بیٹھتا تھا بہرحال میں نے اس پر گزارا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان سب کو کچھ پڑھنے کا بول کر سائقہ سے گاڑی نکالنے کا بولا ۔۔۔ مین روڈ پر ہماری سجی گاڑی سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی میں نے سائقہ سے نارمل سپیڈ میں گاڑی بڑھانے کا کہا ۔۔ نازیہ دلہن بن چکی تھی ہماری گاڑی نے لفٹ سائیڈ پر موڑ۔کاٹا سامنے پولیس ناکہ لگا ہوا تھا سائقہ کانپ گئی میں نے سب کو ریلکیس کا آپشن دیا اور سائقہ سے گاڑی نارمل انداز میں بڑھانے کا بولا ۔۔۔۔ ہم سے آگے ٹھہری گاڑی کی مکمل تلاشی لی جا رہی تھی شاکرہ اور سائقہ کچھ پڑھ رہی تھی میں نے اپنا بٹوہ نکال لیا اور اس سے ایک ہزار کا نوٹ نکال لیا ۔۔ جیسے ہی سائقہ نے گاڑی چند قدم آگے بڑھا کر اگلی گاڑی والی جگہ پر روکی میں نے گاڑی کی کھڑکی کھول کر اس بزرگ حوالدار کو مسکراتے ہوئے سلام کیا اور ہزار کا نوٹ آگے چھپانے والے انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے کہا بارات اور دولہے والی گاڑیاں پیچھے ہیں ان سے مٹھائی نہیں لینی اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولا صاحب پانچ نوٹ نکالیں خوشی کے دن کنجوسی اچھی نہیں ہوتی ۔۔۔ میں نے بھی مسکرا کر کہا لالے بہت سے پیچھے بھی دے کے آ رہے اور آپ کے دوست آگے بھی ہوں گے ۔چلو دوہزار لے لو۔۔۔۔ ایک اور اہلکار بھی آ گیا تھا حوالدار بولا نہیں صاحب پورے پانچ نوٹ۔۔ میں نے کہا او بزرگوں آگے بھی آپ کے دوست ہونگے انکا بھی منہ میٹھا کرنا ہے بولا ہاں آگے بھی ناکہ لگا ہے چلو تین کر دو ہم بندے زیادہ ہیں ۔۔۔ میں نے تین نوٹ اسے تھمائے حوالدار نے مسکرا کر سیلوٹ جیسا مجھے سلام کیا اور میں نے سائقہ کو گاڑی آگے بڑھانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ ایک کلومیٹر سے پہلے ایک اور ناکہ لگا تھا ۔۔۔ پولیس کے دو اہلکار مسکراتے ہوئے ہماری طرف لپکے ۔۔۔ میں نے پہلے سے ہاتھ میں پکڑا نوٹ اس کی طرف بڑھایا اور اس کے بولنے سے پہلے ہی خیر مبارک بھائی خیر مبارک ۔۔۔ ایک بولا پیچھے تین نوٹ اور ہمیں ایک ۔۔۔ میں نے لمبی سی اوووو کی اور بولا بھائی اب تو جیب بھی خالی ہو گئی ۔۔ بولے خوشی والے دن سوٹ کیس کھولے جاتے صاحب جیبیں کام نہیں آتی میں نے مسکرا کر تین نوٹ ان کو تھما دئیے ۔۔۔ ہم نے دوسرا ناکہ بھی کراس کر لیا تھا ۔۔۔۔ ہم نارمل رفتار سے چلتے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے تھے پیچھے سے ایک پولیس موبائل سائرن بجاتی آن دھمکی ۔۔۔۔ ہم بوکھلا گئے ۔۔۔۔ ہمارے آگے رکتی پولیس وین میں موجود اہلکاروں کے مسکراتے چہرے دیکھ کر میں نے ہلکی آواز کہا ۔۔ پیسے لینے آئے ہیں ۔۔۔ سائقہ نے گاڑی روک دی ۔۔۔ بھاگ کر آنے والا پولیس اہلکار بولا صاحب کی مٹھائی ۔۔۔ میں نے پیچھے بیٹھی شاکرہ سے اپنی اسٹک لی اور اس پولیس اہلکار سے باتیں کرتا میں پولیس وین کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے صاحب کو میں نے مسکرا کر سلام کیا بولے ہماری مٹھائی بغیر جا رہے میں نے کہا صاحب آپ کے سب چہیتوں کو دے۔کر آئے ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں بکرا بھی دیں گے اور مٹھائی کے ٹوکرے بھی ۔۔۔۔ بولے بس ادھر دے دو ۔۔۔ آج ایمرجنسی لگی ہے ۔۔ میں نے بٹوے سے پانچ ہزار کا آخری نوٹ نکالتے ہوئے پوچھا خیریت سر کیسی ایمرجنسی ؟؟؟ بولے ہاں ایک لڑکی اغواء ہوئی ہے ۔۔۔ میں نے اوہو کہا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا سر پلیز آپ دوہزار مجھے دے دیں میری جیب خالی ہو گئی ۔۔۔اس نے اکھڑے لہجے میں کہا دس ہزار نکالو دس۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا سر آپ مجھے دوہزار دے دین بارات اور دولہا پیچھے آ رہے آپ ان سے پورا دس ہزار لے لینا میرا پرس خالی ہو گیا اس نے میرے ہاتھ سے پانچ ہزار کا نوٹ کھینچا اور اپنے ڈرائیور سے بولا چلو یار ۔۔۔ یہ کوئی سب انسپکٹر تھا ۔۔۔ وین تھوڑا آگے جاکر پیچھے کو ٹرن لے رہی تھی میں نے سائقہ کو گاڑی لانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ شاکرہ نے میرے ہاتھ سے اسٹک لیتے ہوئے پوچھا ۔کیا کہہ رہے تھے ۔۔۔ میں مسکرایا اور بولا پتا نہیں کوئی لڑکی اغواء ہو گئی ہے ۔۔۔ سائقہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور بولی اللّٰہ اس لڑکی کے حال پر رحم کرے دن کے بارہ بج چکے تھے اور ہم اس ضلع کی حدود کراس کر آئے تھے اب میں نے سائقہ سے گاڑی روکنے کا کہا اور نازیہ کو فرنٹ سیٹ پر آنے کا بولا اور میں بیک سیٹ پر شاکرہ کی گود میں اپنا سر شاکرہ کی گود میں رکھ کر قدرے لمبا ہو گیا سائقہ گاڑی کی سپیڈ بہت بڑھا چکی تھی اس دوران گاڑی تھوڑی لہرائی لیکن سائقہ نے اسے کنٹرول کر لیا اور سپیڈ ایک دم کم کردی ۔۔ شاید سائقہ کو نیند کا جھٹکا لگا تھا ہم گزشتہ تقریباً 36 گھنٹوں سے جاگ رہے تھے میں نے آواز دی میں آ جاؤں سائقہ ؟؟۔ آپ پیچھے سو جاؤ ۔۔۔۔ سائقہ بولی حکومت نے آپ کی ڈرائیونگ پر پابندی لگائی ہے سائقہ نے شاکرہ سے پانی کی بوتل مانگی اور گاڑی روک کر اپنا ماسک اتارا اور چہرے کو گاڑی سے باہر نکال کر دھونے لگی آس پاس ویرانی تھی میں نے شاکرہ سے کہا گاڑی پر سے پھول کلیاں اتار پھینکو۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ نے دو منٹ میں ان پھولوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ۔۔۔ سائقہ نے فل والیم میں میوزک لگایا اور اس پر اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتی ڈرائیونگ کرنے لگی ہمیں بھوک لگ رہی تھی کیونکہ رات سے اب تک ہم نے پانی پر گزارا کیا تھا اور کچھ دانے بادام کھائے تھے .,. لیکن رستہ کوئی بھی اچھا ہوٹل نہیں مل رہا تھا سو ہم نےشہر جا کر وہیں کھانے کا فیصلہ کیا سائقہ اور شاکرہ وقفے وقفے سے نازیہ سے گفتگو کرتے اس کو زندگی کی طرف لٹانے کی کوشش کر رہے تھے میں نے نازیہ کو بولا کہ وہ بڑی چادر اتار دے سائقہ سے بولا کہ نازیہ کو ماسک دے دو۔۔۔ نازیہ حیرت سے ہمیں اور آس پاس دیکھ رہی تھی ہم شہر میں پہنچے تو سائقہ نے گاڑی بریانی ہاؤس کی طرف موڑ دی ۔۔۔




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments