ads

Kali aur Kantay - Episode 6

کلی اور کانٹے 

قسط نمبر 6



بلال نے روہانسی آواز میں چیختے ہوئے کہا اسد تم کیسے دوست ہو ؟؟ میں نے تم پر اعتماد کیا ۔۔۔ اسد بولا چھوڑو گانڈو تیری میری دوستی بھی ایسی تھی تم میرے پاس بھی مروانے آتے تھے ۔۔۔ بلال رونے لگا تھا ۔۔ میرے سر میں دھماکہ ہوا کیا بلال اتنا گندا لڑکا ہے ؟؟؟ لوہے جیسے سخت راڈ نے مجھے مزہ دینا شروع کر دیا وہ پورا میرے اندر بھرا ہوا تھا میں بلال کے سامنے اس حال میں بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھی اس کے دل پر کیا بیت رہی اس کے رونے سے اندازہ ہو رہا تھا وہ ایک بڑی سفید چادر سے بندھا ہوا تھا جو شفیق تقریباً ہر وقت اپنے کندھے پر لٹکائے ہوتا تھا اگر بلال بندھا ہوا بھی نہ ہوتا تو بھی ان کے آگے کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ ان کے سامنے ایک بچہ تھا شفیق نے میرے پیچھے اپنا ببلو ڈالتے ھوئے بلال سے کہا دیکھو ایسی کرتی ہے یہ روز ہمارے ساتھ ۔۔۔ ئم اس کو کیسے جانیں دیں گے ڈبل کی اس پوزیشن میں میں بہت جلدی پانی چھوڑ دیتی تھی آج بھی پورے پورے مزے کے ساتھ میں جلدی پانی چھوڑ گئی تھی دو ہاتھیوں کے بیچ دبی میں نے سانس لینے کے لئے اپنے چہرے کو دائیں طرف سے باہر نکالا ۔۔ بلال نیم کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر مایوسی چھائی تھی اور اس کا ببلو کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔۔ وہ دونوں ہانپتے ہوئے مجھے مسل رہے تھے میں وائی وائی کے ساتھ پھر سے رونے لگی تھی ۔۔ اسد نے شفیق کو اشارہ کیا اور شفیق نے اپنا ببلو نکال کر سائیڈ پر ہو گیا اسد نے مجھے چارپائی پر لٹایا اور میری ٹانگیں اٹھا کر اپنا ببلو میری ببلی میں ڈالا اور مجھ پر لیٹ کر زور کے جھٹکے مارنے لگا۔۔ اور کچھ دیر میں ہی رک گیا اور اپنا لاوا میرے اندر چھوڑ دیا ۔۔۔ چند سیکنڈ بعد وہ اٹھتے ہوئے شفیق سے بولا آگے ڈالو۔۔۔ وہ دونوں جنگلیوں کی طرح مجھے کھینچ کھیچ کے دشمنی نکالتے ہوئے اپنی حوس پوری کر رہے تھے شفیق نے اپنے ببلو کو ایک جھٹکے میں میری ببلی میں اتارا اور اپنے بڑے پیٹ کے نیچے مجھے دباتا ہوا میرے اوپر لیٹ گیا وہ گھوٹ گھوٹ کر جھٹکے مارتا اپنا پانی میرے اندر بھر گیا میرے کانوں میں بلال کی ہلکی وائی کی آواز آئی میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کا پانچ انچ کا ببلو اس کے پیٹ کی طرف پانی گرا رہا تھا ۔۔۔ اسد اور شفیق نے ایک دوسرے کے ہاتھ سے تالی بجائی اور قہقہے لگانے لگے ۔۔۔۔ وہ بہت بے شرمی سے بلال پر طنز کر رہے تھے اس کا کپڑا کھول کر اسے آزاد کر دیا تھا یہ دونوں چارپائی کے بازو پر بیٹھ گئے اور مجھے دونوں نے اپنی ٹانگوں پر لٹا لیا تھا جیسے کسی بچے کو گود میں بھرا جاتا ہے اس کچے چھوٹے کمرے میں ہم سب ننگے تھے بلال ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر اور رو رو کر ان کی منتیں کر رہا تھا شفیق نے بھی وہی بات کی کہ آپ جا سکتے ہو ہم آپ کو جانے دیتے لیکن نازی کو نہیں جانے دیں گے یہ ہمارے پاس رہے گی ۔۔۔ اسد بولا نہیں بلال بھی یہیں رہے گا ۔۔ یہ جا۔کر کوئی مسئلہ بنا دے گا ہمارے لئے ۔۔۔ بس کام نہیں کرو ادھر گھر میں رہو۔۔۔ اپنی لیلیٰ کو پورا مزہ لیتے دیکھو۔۔۔ دن ایک بجے وہ دوبارہ سے شروع ہو گئے اس وقت بلال کو نہیں باندھا تھا بلال بے بس ہو کر بیٹھا تھا یہ دونوں میرے جسم کو نوچ رہے تھے ۔۔۔ دوسری باری میں بھی بلال کا پانی نکلتے دیکھا میں نے تو مجھے اس کے حال لر بہت رحم آیا ۔۔۔ اسد اور شفیق نے ایک روٹین بنا لی ۔۔ رات کو ایک شفیق ہمارے ساتھ ہوتا اور صبح اسد کے آنے پر وہ چلا جاتا بلال اور میں آپس میں کوئی بات نہیں کر سکتے تھے دس دنوں میں بلال کا پانی جب بھی نکلا صرف مجھے ان کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے نکلتا تھا اذیت بھرے ان دس دنوں میں ہم ہر طرح سے جائزہ لے رہے تھے اور ہمیں یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا میں جب بھی بلال سے نظر ملانے کی کوشش کرتی ہم دونوں کی نظریں جھک جاتی اسد نے صاف کہہ دیا تھا کہ پیسے زیور ختم ہو گئے ہیں اور اسی روز سے بس ہم یہاں سے بھاگنے کا رستہ ڈھونڈ رہے تھے رات کو جب میری آنکھ کھلتی یا تو بلال نیند میں ہوتا یا پھر شفیق جاگ جاتا اس رات اسد دس بجے چلا گیا تھا شفیق نے مجھے اپنے ساتھ سلا لیا آج سردی بہت زیادہ تھی باتھ روم گئی تھی تو دھند اتنی زیادہ تھی کہ وہاں سے کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا بارہ بجے شفیق میری ببلی میں پانی چھوڑ کر لیٹ گیا اور پھر اس کے خراٹے بلند ہونے لگے بلال جاگ رہا تھا اس نے مجھے اشارہ کیا کہ بھاگتے ہیں میں نے اسے ابھی سونے کا اشارہ کیا اور آرام سے شفیق کے پاس سے اٹھ گئی میں نے اپنے کپڑے پہنے ہمارے پاس سردی سے بچاؤ کے کوئی گرم کپڑے یا کوٹ نہیں تھے بس گزارا کر لیتے دن کو بھی سردی سے بچاؤ کا واحد سہارا رضائی ہی ہوتا تھا شفیق آج مجھے کچھ گہرے نشے میں لگ رہا تھا اس کے خراٹے تواتر سے چل رہے تھے میں نے اپنا دوپٹہ لپیٹا اور آہستہ قدموں سے چلتی دروازے کے پاس جا کر کنڈی کھولی میں شفیق اور بلال کو دیکھتی باہر آنے لگی اور بلال بھی اپنی چارپائی سے آہستہ سے اٹھنے لگا تھا کمرے سے باہر آ کر میں دروازے سے تھوڑا آگے بلال کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔ وہ پانچ منٹ بعد شفیق کا موبائل اٹھائے آہستہ سے باھر آیا اور اس نے دروازے کی باہر سے کنڈی لگا دی ۔۔۔ وہ جلدی سے میرا بازو پکڑ کر مین دروازے کی طرف بڑھا دروازہ کھول کر ہم باہر آ گئے میں جہاں پر آنے کے کئی ماہ بعد اس حویلی سے باہر آئی تھی ۔۔ بلال نے ادھر ادھر سر گھما کر دیکھا اس نے شفیق کے موبائل کو آف کیا اور اپنی جیب میں ڈال کر دائیں طرف مجھے پکڑ کر چلنے لگا ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا بس ہم گھاس میں چل رہے تھے اور ہماری شلواریں گھٹنوں تک پانی پانی ہو چکیں تھی سردی ہمیں بے حال کر رہی تھی لیکن ہم دونوں ہانپتے ہوئے چل رہے تھے ہر طرف خاموشی تھی ہم اگر ایک فٹ دور ہوتے تو ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے ہم کس طرف جا رہے تھے ہمیں علم نہیں تھا بلال دکان کی طرف آتا جاتا رہتا تھا لیکن ہم اس وقت اس سے مخالف سمیت میں چل رہے تھے میرے پاؤں سردی سے پتھر بن گئے تھے ہم میں کوئی بات چیت نہیں ہو رہی تھی ہم اپنی سانسوں کی آواز سن رہے تھے اور گھاس پر گھسیٹتے پاؤں سے کچھ آواز پیدا ہو رہی تھی اچانک ہمارے سامنے اونچی اونچی لکڑیوں جیسے کچھ آ گیا بلال نے پہلی بار سرگوشی کی ۔۔ گنے کی فصل ہے ۔۔ اس کے اندر سیدھا جانا ممکن نہیں تھا کچھ لمحے بعد بلال میرے بازو کو پکڑ کر لفٹ سائیڈ پر چلنے لگا میری ٹانگیں جواب دے چکی تھیں اور میں اس گھٹن وقت میں اپنے حوصلے بلند رکھنے کی کوشش کر رہی تھی ہم ایک چھوٹی پگڈنڈی پر چل رہے تھے کبھی کبھی خشک کچی مٹی پر پاؤں سلپ ہو جاتا تھا اور بلال مجھے سنبھال لیتا اور کبھی بلال لڑکھڑا جاتا تو میں اسے پکڑنے کی کوشش کرتی میں درد بھری مدھم آواز کہ ساتھ جھکنے لگی تھی بلال نے مجھے اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے سنبھالا اور پوچھا کیا ہوا ۔۔۔ میرا بائیں پاؤں میں شدید درد تھا میں بیٹھنے لگی تھی بلال نے شاید جیب سے شفیق والا موبائل نکالا اور اس کی بیٹری نکال کے شاید سم نکال پھینکی تھی اور اس کے بعد موبائل کو آن کر دیا بلال نے اس کی ٹارچ روشن کی اور میرے پاؤں پر جھک گیا چپل کے اندر سے کانٹے نے میرے پاؤں کو بری طرح کاٹ دیا تھا پاؤں گھاس میں چلتے ہو گیلے اور سردی سے پتھر بنے ہوئے تھے اور اب کانٹے کے درد نے مجھے بےحال کر دیا تھا بلال نے کانٹا نکال پھینکا تھا اور سیدھا ہوتے ہوئے موبائل ٹارچ کو بند کر دیا تھا میری ہمت جواب دے چکی تھی ہم بہت دیر سے چل رہے تھے اور مذید کتنا چلنا تھا ہمیں معلوم نہیں تھا سردی نے میرے جسم کو کاڑ ڈالا تھا اور بلال کی حالت بھی کچھ اس طرح تھی ۔۔ میں نے بلال کو کچھ دیر رکنے کا کہا تو بولا رکنا ٹھیک نہیں ہو گا نازیہ ہمت کرو تھی ۔۔ شفیق کے موبائل پر ٹائم صحیح نہیں آ رہا تھا شاید اس کے بیٹری نکالنے کے بعد ٹائم کی سیٹنگ خراب ہو گئی تھی بلال کا اپنا موبائل ہمارے یہاں آنے کے تین دن بعد ہی اس فرنیچر دکان سے چوری ہو گیا تھا اور ان دنوں مجھے یقین ہو چلا تھا کہ وہ بھی اسد نے چرا لیا تھا تاکہ ہمارا کسی سے کوئی رابطہ نہ رہے میں اپنے پاؤں گھسیٹ کر لنگڑاتی بلال کے ساتھ چلنے لگی تھی چند قدم چلنے کے بعد ہمیں اپنے دائیں طرف سے ایک ہارن سنائی دیا آواز سے انداز ہو گیا کہ مین روڈ ہم سے ہماری دائیں طرف اب بھی کافی فاصلے پر ہے بھاری ہارن کی مدھم سی آواز ہم تک پہنچی تھی بہرحال ہم میں ایک امید کی کرن پیدا ہو گئی تھی دائیں طرف اب بھی گنے کی فصل تھی سو ہم سیدھے آگے چل رہے تھے پانی کے نالے میں بلال داخل ہو چکا تھا اور مجھے ہاتھ سے ادھر ہی روک دیا اس نے آہستہ سے دو مذید قدم اٹھائے اور پھر ایک قدم پیچھے آ کر اس نے دوبارہ سے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے آگے کھینچا پانی میرے گھٹنوں تک آ گیا اور ہم پانچ سات قدم اٹھانے کے بعد نالے سے باہر آ گیا یہ راستہ کچہ لیکن ہموار تھا اور دائیں طرف ہی جانے لگا تھا بلال نے مجھے تیز چلنے کا بولا ہم بری طرح سے ہانپتے آگے بڑھ رہے تھے تقریباً بیس منٹ بعد ہمیں ہارن کے ساتھ ایک بڑی گاڑی کی ہلکی آواز سنائی دی اور دھند میں بہت آگے یہ سائید کچھ روشن نظر آئی بلال نے سرگوشی کی کہ ہم روڈ کے قریب ہو رہے شاید یہ کچہ رستہ اسی روڈ کی طرف ہی جا رہا تھا پیچھے سے کچھ روشنی اور موٹرسائیکل کی آواز آنے لگی بلال مجھے کھینچتا ہوا پھر سے دائیں جانب بڑھ گیا شاید ہم دوبارہ اسی نالے کو عبور کر کے گنے کی فصل میں بیٹھ گئے تھے موٹرسائیکل آہستہ سے گزرتا ہوا آگے چلا گیا تھا ماسوائے اس کی لائٹ کے ہم اور کچھ نہیں دیکھ سکے ایک منٹ بعد ہی ہم اٹھ گئے اور نالے کے کنارے پر ہی چلنے لگے ۔۔۔اب ہماری رفتار اس غیر ہموار نالے کے کنارے پر تھی بہت آہستہ ہو گئی تھی کیا یہ اسد کا موٹرسائیکل تھا ؟؟ میں نے بلال سے سرگوشی کی ۔۔۔ تیز لمبی سانسوں کہ بیچ بولا لگتا ایسا ہی ہے ۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا شفیق روم سے باہر آ گیا تھا ؟؟ مگر کیسے ہمیں وہاں سے نکلے شاید دو گھنٹے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا ۔۔۔کچھ ہی دیر بعد موٹرسائیکل واپس آنے لگا تھا ہم ایک بار پھر گنے کی فصل میں بیٹھ گئے تھے اس بار اس کی سپیڈ کچھ زیادہ تھی موٹرسائیکل ایک بار پھر سے پیچھے ا گیا تھا بلال بولا یہ اسد ہی ہے بس اٹھو جلدی چلیں ۔۔۔۔ ہم نالے کے کنارے چلتے آگے بڑھ گئے نالہ بائیں جانب مڑا اور ایک پل میں سے ہوتا ہوا آگے جا رہا تھا پل پر چڑھنے کے بعد بلال نے یہ جگہ پہچان لی تھی وہ روز اس پل پر سے گزر کر دوسری طرف دکان پر جایا کرتا تھا روڈ یہاں سے نزدیک ہے بلال نے سرگوشی کی اور قدرے تیز قدم اٹھانے لگا۔۔۔۔ میں کیسے چل رہی تھی مجھے معلوم نہیں تھا حالانکہ ان چند مہینوں میں میرے ہپس بہت بھاری ہو گئے تھے اور میرا اندر مجھے خالی لگتا تھا جیسے ساری انرجیاں ختم ہو چکی ہوں روشنی اس گاڑی کی آواز نے ہماری ہمت بڑھا دی تھی اور ہم تقریباً بھاگتے ہوئے اس طرف بڑھنے لگے ہم پانچ منٹ میں روڈ پر پہنچ چکے تھے کہیں دور سے روشنی کا آلاؤ محسوس ہونے لگے ہمارا دھیان پیچھے کی طرف بھی تھا یہ اہم اس خطرناک پوائنٹ تھا ہم روشنی کی طرف روڈ کنارے بڑھنے لگے تھے اور اپنی رفتار بڑھا دی تھی روشنی شاید ہماری ہی طرف بڑھ رہی تھی اور ہم اسی طرف بھاگ رہے تھے گیلے کپڑوں کےباوجود بھی ہمارا سردی کا احساس کم ہو گیا تھا ہمیں یہاں سے نکلنا تھا مجھے اس جگہ کے ہوا اور مٹی سے بھی نفرت ہو گئی تھی جس پر میری زندگی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟ ہم کیا کریں گے کچھ معلوم نہیں تھا ھمارے پاس ایک روپے کی نقدی موجود نہیں تھی ہم کیسے جائیں گے ہمارے ذہن میں اس پر کوئی سوال نہیں تھا بس ایک ہی جستجو تھی کہ ہمیں یہاں سے نکلنا ہے اور بس۔۔۔ دھند میں لائٹس قریب آ رہی تھی اور گاڑی کا آواز بھی بڑھ رہا تھا سپیڈ اتنی نہیں تھی گاڑی کے قریب آنے پر ہم تقریباً روڈ کے درمیان کھڑے ہو گئے بلال نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دئیے گاڑی کی رفتار ایک دم کم ہو گئی اور اگلے لمحے ہی وہ تھوڑا کٹ کر کے ہمارے پاس سے ایک ٹرک گزر گیا اور ہم مایوس ہو گئے لیکن بلال نے ایک بار پھر میرا ہاتھ پکڑا اور ہم اسی سمت بھگنے لگے میرے پاؤں بہت درد کر رہے تھے چپل بار بار پھسل رہے تھے گیلے ہونے کے ساتھ ان میں مٹی بھر آئی تھی جس سے کیچڑ سا بن گیا تھا ۔۔۔ ایک روشنی کے ساتھ ہم میں امید بھر آئی اس بار بھی ہم نے اسے روکنے کی کوشش کی وہ آہستہ ہونے کے ساتھ ہم سے گزر گیا اور پھر تھوڑا آگے جا کر رک گیا یہ بھی ٹرک تھا اور اس کی بریک کی آواز سن کر ہم نے اس کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments