کلی اور کانٹے
قسط نمبر 7
بلال اور میں بھاگتے ہوئے ٹرک کے پاس پہنچے تو ایک بندہ اس سے پہلے اتر چکا تھا اندھیرے میں اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا ہم دونوں سردی اور خوف سے تھرتھرا رہے تھے وہ پٹھان تھا پشتو لہجے میں بولا کون ہو آپ اور کدھر جانا ہے ۔۔ میں نے بلال سے پہلے بولا انکل پلیز ہمیں یہاں سے لے جائیں ہماری جان کو خطرہ ہے ہم آپ کو سب سچ بتا دیں گے اس آدمی نے ٹرک کے اندر بیٹھے کسی شخص سے پشتو میں بات کی اور کچھ دیر اس سے باتیں کرتا رہا پھر اس نے کھڑکی کھولی اور ہمیں اندر جانے کا بولا بلال کو میں نے آگے جانے کا اشارہ کیا وہ لرزتے جسم کے ساتھ اوپر چڑھنے لگا وہ اندر چلا گیا تھا اور میں اس کھڑکی کے ہینڈل کو پکڑ کر اوپر چڑھنے لگی لیکن میرے ہاتھ اور ٹانگیں میرا وزن اٹھانے سے بے بس ہو چکے تھے دو بار کی کوشش کے بعد بھی میں اپنے کولہے اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو پیچھے کھڑے اس پٹھان نے میرے ہپس کو پکڑ کر مجھے اوپر اٹھایا اس کے سخت بڑے ہاتھ میرے ہپس میں پیوست ہو کر کرنٹ چھوڑ گیا ۔۔۔ پٹھان نے وخ خ خ خ خ کی آواز کے ساتھ گہری سانس لی میں اندر آ چکی تھی اور اس پٹھان کے کھڑکی میں آنے کے ساتھ ہی ٹرک چل پڑا تھا ہمارے کپڑے گیلے تھا اور یہ دیکھتے ہوئے ڈرائیور اور دوسرا بندہ پشتو میں کوئی بات کرتے ہوئے اس بڑی سیٹ کے پیچھے لیٹے کسی تیسرے بندے کو جگانے لگے وہ آنکھیں ملتا حیرت سے ہمیں دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کوئی بات کرنے لگا تھا اور پھر ہماری طرف آنے لگا اندر جلتی لائٹ میں ان سب کی سرخ آنکھیں اور ڈرونے چہرے دیکھ کر ہم کچھ زیادہ پریشان ہو گئے تھے لیکن تقریر اب ہمارے ساتھ کیا کرنے جا رہی ہے ہمیں معلوم نہیں تھا اور ہم بےبسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا ۔۔ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اور ان گیلے کپڑوں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے ۔۔۔ ان لوگوں نے ہم دونوں سے بولا کہ آپ پیچھے چلے جاؤ۔۔۔ میرے بعد بلال بھی اس تنگ گلی نما جگہ میں آ گیا تھا اس آدمی نے ہمیں کمبل لپیٹنے کا بولا اور ہم فوراً کمبل لپیٹ کر بیٹھ گئے ٹرک کے اندر اتنی ہیٹ تھی کہ ہمیں رفتہ رفتہ سکون ملنے لگا ۔۔۔۔ وہ بہت دیر تک ہمیں دیکھ کر آپس میں باتیں کرتے رہے پھر اسی پٹھان نے جس نے ہمیں ریسیو کیا تھا ہم سے بات کرتے ہوئے بولا کہ آپ ہمیں سچ سچ بتاؤ گے تو ہم آپ کی مدد کریں گے ورنہ آگے ہم آپ کو پولیس کے حوالے کر دیں گے ۔۔۔۔ میرے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی اور میں نے آہستہ سے بلال کو کہنی مار کر اسے بولنے کا اشارہ کیا بلال نے ان کو اتنا بتا دیا کہ ہم پیار کرتے ہیں اور شادی کے لئے کراچی سے نکل آئے تھے اور جہاں دوست کے پاس آئے تو اس نے ہمارا چھ لاکھ اور دس تولے سونا لوٹ لیا اب ہمیں مارنا چاہتا تھا تو ہم بھاگ آئے ۔۔۔ پٹھان نے پوچھا اب آپ کہاں جاؤ گے ؟؟ بلال نے بولا ہم کراچی واپس جانا چاہتے ۔۔۔۔ وہ بہت دیر تک آپس میں لڑنے جیسے انداز میں باتیں کرتے رہے پھر ہمیں بولا کہ ہم باجوڑ جا رہے دو دن بعد واپس کراچی جائیں گے تو آپ کو وہاں چھوڑ دیں گے اگر آپ کہیں اترنا چاہو تو اتر سکتے لیکن آپ پولیس یا کسی اور کے ہتھے چڑھ گئے تو پھر خود ذمے دار ہوں گے ۔۔۔ پٹھان کے اس آپشن پر ہم دونوں مطمئن ہو گئے کہ ہم کہیں اترنا چاہیں تو اتر سکتے ۔۔۔ بلال بولا اگر آپ ن، واپس کراچی جانا ہے تو دو دن کی کوئی بات نہیں ہے ہم آپ کے ساتھ چلیں گے پٹھان نے ہمیں سونے کا بولا دیا کہ آپ کمبل لپیٹو اور سو جاؤ ہمارے کپڑے گیلے تھے لیکن کمبل لپیٹ کر ہم لیٹ گئے اور ہمیں نیند آ گئی۔۔۔۔۔ جب میری آنکھ کھلی تو بلال بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا باہر ہلکی سی دھند اب بھی موجود تھی لیکن صاف معلوم ہو رہا تھا کہ دن کافی چڑھ چکا ہے میرے اٹھ بیٹھنے پر سب میری طرف متوجہ ہو گئے بلال نے مسکرا کر میری طرف دیکھا حالات نارمل لگ رہے تھے ہم اس مصیبت زدہ علاقے سے کافی دور آ چکے تھے مجھے ان تینوں پٹھانوں کی نگاہوں میں حوس صاف نظر آ رہا تھا لیکن میں پریشان نہیں ہو رہی تھی یہ سب کچھ میں گزار چکی تھی اور میرے دل میں تھا کہ یہ دو تین دن بعد اگر ہمیں کراچی پہنچا دیں تو بھی ان تین کے ساتھ سودا مہنگا نہیں تھا میں بہت عرصے بعد اس قید سے باہر آ چکی تھی اور میں اپنی آنکھوں سے ہر لمحے بدلتے سین دیکھ کر دل میں بہت خوش ہو رہی تھی چھوٹے شہروں اور بستیوں سے گزرتے یہ ٹرک جانے کہاں جا رہا تھا ہمیں معلوم نہیں تھا ہم نے یہ علاقے کبھی خوابوں میں بھی نہیں دیکھے تھے بلال اور میں اس خوش فہمی میں خوش تھے کہ ہم ایک قید سے نکل کر آزاد ہو گئے ہیں اور بس دو چار روز میں کراچی پہنچ جائیں گے ۔۔ کراچی پہنچ کر ہم نے کیا کرنا ہے کہاں جانا ہے ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا ٹرک روڈ کنارے ایک جنگل میں رک چکا تھا آسمان پر سورج اب بھی کچھ دھند کی لہروں میں نظر آ رہا تھا سب اس جنگل میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے بلال مجھے بھی اتار کر لے گیا تھا کچھ دیر میں واپس آئی اور بلال اور میں ان لوگوں کا انتظار کرنے لگے باری باری یہ تینوں بھی آ گئے تھے۔۔ مجھے ڈرائیور سمیت ان تینوں کی نظریں اپنے ہپس پر چبھتی محسوس ہو رہی تھی اور وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے ٹرک ہمارے سمیت منزل کی جانب چل پڑا تھا ہم دونوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ جب پولیس ناکہ آ جائے تو ہم کمبل لپیٹ کر سو جائیں کوئی اےک گھنٹے بعد ٹرک ایک ہوٹل پر رک چکا تھا ڈرائیور نے اسے باقی گاڑیوں سے الگ تھلگ کھڑا کیا تھا ہمیں اندر رہنے کا بول کر وہ تینوں چلے گئے تھے کچھ دیر بعد ان میں ایک بندہ ہمیں کھانا دے کر واپس چلاگیا تھا ہمیں بھوک لگی ہوئی تھی اور کھانا بھی اچھا تھا سو ہم نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور آپس میں باتیں کرنے لگے میں نے بلال سے پوچھا کہ کراچی جا کر کیا کریں گے بولا بس اپنے گھروں کو جائیں گے باقی دیکھا جا گا یا ہمیں مار دیں گے یا ہم دونوں کی۔شادی کر دیں گے اگر مر بھی گئے تو اس ستم بھری دنیا میں ذلت سے روز روز کے مرنے سے بہتر ہے ۔۔۔ میں بھی یہی چاہتی تھی سو خاموش رہی شام سے کچھ پہلے پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا تھا نہ تو ہم کسی علاقے خو جانتے تھے اور نہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے بس خاموشی سے دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے رات دیر سے انہوں نے ٹرک ایک ہوٹل پر روک دیا اور ہمیں بھی اتار کر اس ہوٹل کے ایک کمرے میں لے گئے اس کا اٹےچ باتھ روم بھی تھا ہم فریش ہونے کے بعد یہی بیٹھے رہے اور ایک لڑکا ہمیں کھانا دے گیا ٹرک کا عملہ کہاں تھا ہمیں معلوم نہیں تھا ۔۔۔ کھانے کے کچھ دیر بعد ہم ایک بار پھر سے اپنے انجان سفر کی جانب روانہ ہو گئے رات دیر سے بلال نے مجھے سونے کا کہا اور مجھ پر کمبل ڈال دیا وہ ٹرک کے عملے سے باتیں کر رہا تھا ہمیں اسد کی اس قید سے نکلے تقریباً چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے کمبل میں جسم کے گرم ہونے کے ساتھ مجھے نیند آ گئی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو میں ایک چھوٹے کمرے میں نیچے سوئی ہوئی تھی مجھے چکر آ رہے تھے اور میں نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کر گئی جب میں نیند سے پوری طرح بیدار ہوئی تو رات ہی تھی وہی راٹ جس میں میں سوئی تھی یا اس کے بعد والی رات ؟؟ مجھے معلوم نہیں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا میں قالین پر رضائی میں سوئی ہوئی تھی جبکہ میرے آس پاس تین اور لوگ بھی سو رہے تھے جنہوں نے رضائیاں لپیٹ رکھی تھی ۔ان میں بلال کونسا تھا میں رضائی اٹھا کر کسی کو دیکھ نہیں سکتی تھی میں لیٹ گئی مجھے اب بھی چکر آتے محسوس ہو رہے تھے بہت دیر بعد دور کہیں سے آذان کی آواز آ رہی تھی ۔۔ میں اس چھوٹی کوٹھڑی کے کونے میں لگے ایک سنگل دروازے کی طرف بڑھ گئی یہ باتھ روم تھا میں اس سے واپس آنے کے بعد کچھ پریشان سی ہو گئی تھی آس پاس لیٹے ان تینوں کے جسم بلال سے بہت بڑے لگ رہے تھے اگر بلال ان میں نہیں تھا تو پھر کہاں تھا راستے میں ان لوگوں نے بولا تھا کہ ہم کل دوپہر کو اپنی منزل پر پہنچیں گے میں سو گئی تھی کیا میں میں تھوڑی دیر بعد یعنی فجر سے پہلے اٹھ گئی تھی ؟؟ کیا دوپہر کے پہنچنے کے بجائے ہم ایک گھنٹے میں اسی رات پہنچ گئے تھے ؟؟ یا یہ اس سے اگلی رات ہے کیا میں چوبیس گھنٹے سوتی رہی تھی ؟؟ تو میں ٹرک کے اندر سے یہاں کیسے پہنچی تھی ؟۔ بلال کہاں تھا ۔۔ کیا میں پہلے سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنس گئے تھی ؟؟؟ کیا میں ان وحشی شکل والے پٹھانوں میں اکیلی رہ گئی تھی ؟؟؟ افففففف سب کچھ غلط ہو گیا تھا بلال ان میں نہیں تھا تو بلال کہاں رہ گیا میں بیٹھتے ہوئے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی پردہ ہٹایا تو بھاری تالے نے میرے منہ پر جیسے طمانچہ مارا ۔۔ میں اس کوٹھڑی ک، دھندلے مناظر میں اپنی جگہ پر واپس آنے لگی تھی میں نے اپنے اوپر رضائی تان لی اور بغیر آواز کے اپنی قسمت پر رونے لگی تھی ۔۔۔ بہت دیر بعد کمرے میں کچھ موومنٹ محسوس ہوئی میں نے اپنی آنکھیں صاف کر لیں اور رضائی سے اپنا چہرہ نکال کر باہر کے مناظر دیکھنے چاہیے سرخ آنکھوں اور بکھرے بالوں والا ڈرائیور رضائی سے اپنا چہرہ نکال کر میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ میں نے باقی دو کی طرف دیکھا تو وہ ابھی سو رہے تھے اس نے مجھے اشارہ کر کے اپنے پاس بلایا میری آنکھوں میں نمی آ گئی اس نے میری رضائی کھینچ کر غصے سے دیکھتے ہوئے کہا اےےےےےے ادھر آ ۔۔۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی اور میں کانپتی اس کے پاس چلی گئی اس نے مجھے اپنی رضائی کے اندر کھینچ لیا اس بندے سے کچھ عجیب سی بو آ رہی تھی میں نے پوچھا بلال کدھر ہے وہ میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھے کسنگ کرنے لگا میں نے لرزتے جسم اور کانپتی آواز میں پھر وہی سوال دھرایا ۔۔۔ بولا آ جائے گا ادھر دوسرے کمرے میں ہے وہ وحشیوں کی طرح میرے نرم بھرے ہپس کھینچ کر ہلکی آواز میں وخ خ خ خ خ وخخخخججج کرنے لگا اس نے ایک دم میں قمیض اوپر کر دی اور میرے بوبز سے اپنے منہ کو بھرنے لگا وہ مسلسل میرے ہپس سے اپنے بہت سخت ہاتھوں سے مٹھیاں بھرے جا رہا تھا پھر اس نے میری پیٹھ اپنی طرف پھیر لی اور میری شلوار کو گھٹنوں تک نیچے کیا اور اپنے آپ کو سیٹ کرتا ہوا کوئی بہت موٹی گرم اور سخت چیز لوہے کی طرح میرے ہپس کے درمیان دبانے لگا افففففففف یہ کیا ہے کیا یہ اس کا ببلو ہی میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرکے اس کو پکڑنا چاہا لیکن اس گندے پٹھان نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا اور میرے ہلس کو پکڑتے ہوئے لوہے کا موٹا راڈ میرے ہول کے اندر دبانے لگا ۔۔ اممممھھھھ اونہہ آئی آئی آئی کی میری آوازیں اس چھوٹی کوٹھڑی میں گونج رہی تھی وہ خود آگے آنے کے بجائے مجھے کھینچ رہا تھا ساتھ میں وخخخخخ آہاہا ووووی وووی وووی کرتا جا رہا تھا اس کا ببلو اسد سے بھی کہیں زیادہ بڑا موٹا اور سخت تھا اور آگے آنے پر میری آوازیں گلے میں پھنس گئیں میری زبان اور آنکھیں باہر آنے لگی لیکن وہ پورا اندر کرنے کے بعد جھٹکوں کی صورت مجھے ہلانے لگا تھا میرا جسم لٹ رہا تھا اور بے حال اس کے ہاتھ کی سخت پکڑ کے ساتھ اچھل کر اس کے ببلو کو اپنی برداشت سے بےقابو ہوتے اندر باہر کر رہی تھی بہت وقت گزر چکا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں پانی چھوڑ چکی تھی یا۔نہیں لیکن ستم کا شکار بنے اس کا کھلونا بنی ہوئی تھی اتنی دیر میں تو اسد بھی اپنا لاوا نکال فیتا تھا لیکن یہ انسان تھا یا کچھ اور ابھی تک ویسی ہی سپیڈ میں مجھے کاٹتا جا رہا تھا پھر وہ رک گیا اور اپنی لفٹ ٹانگ میرے اوپر پھیرتا ہوا مجھے الٹا کر گیا اور میرے اوپر لیٹ کر زور کے جھٹکے مارنے لگا مجھے لگ رہا تھا کہ میری ہڈیاں سرمہ بن جائیں گی میں کچھ بول نہیں سکتی تھی میری آنکھیں مسلسل دکھوں کی وجہ سے اب خشک ہونے لگیں تھی جو چند آنسو بہانے کے بعد خشک ہو جاتی تھیں ۔۔۔ بہت دیر بعد اوی اوی اوی کی آواز کے ساتھ اس نے بہت گرم اور عجیب سی چیز میرے اندر گرا دی تھی اور ساکت ہو گیا تھا اس کا جسم بھٹی کی طرح گرم تھا اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا ساتھ والی رضائی کے اندر سے آنے والی آواز پر وہ پشتو میں الفاظ کو لمبا کر کے مزے سے اسے کچھ بتا رہا تھا میں کیا کروں مجھے کیا کرنا ہے میں نے کروٹ لے کر اپنے ٹوٹے بدن کو سیدھا کیا اور روتے ہوئے ان سے ایک بار پھر پوچھا بلال کہاں ہے ۔۔۔ وہ ہنسنے لگے ۔۔ ہائے او لیلیٰ مجنوں کو بلا لاؤ۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے پھر میرے قریب والی رضائی سے بھاری آواز میں کسی نے اووووممممم کیا وہ دونوں اس سے ہنس کر ماما او ماما ۔۔ کہہ کر کوئی بات کرتا اور ماما پھر اوووووھھھھم کہہ دیتا اور یہ دونوں پھر سے ہنسنے لگتے ۔۔ جس وحشی نے مجھے اپنی درندگی کا بہت ظلم سے نشانہ بنایا تھا اس نے مجھے تھپڑ مارا اور بولا جاؤ ماما کے پاس جاؤ ۔۔ ماما اس کو مجنوں کا بتاؤ۔۔۔ماما نے پھر سے زیادہ بھاری آواز میں اووووھھھھھمممم کہہ دیا میں رونے لگی اور اسی وحشی نے مجھے اٹھا کر ماما کی رضائی میں بھر دیا تھا ۔۔۔
جاری ہے
0 Comments