ads

Kamran ki dastan - Episode 4

کامران کی داستان 


 قسط 4


 بعَْد میں ایڈجسٹ کر گیا اور پھر وہ بھی میری للی چُوسنے لگا اور مجھے بھی مزہ آنے لگا اور میں اب محسوس کر سکتا تھاکہ جب میں قاسم کی للی چوس رہا تھا تو وہ کن ہواؤں میں اڑ رہا تھا جس کی وجہ سے بے اختیار اس کے منہ سے سیکسی آوازیں آہ ہم مم اوہ آہ نکل رہی تھیں اور اب میرا بھی یہی حال تھا اور میں بھی بےخودی میں اپنے منہ سے آوازیں نکالنے لگا اور مزے میں جنت کی سیر کرنے لگا.

واہ کیا مزہ تھا یار اور وہ بھی بڑی مہارت سے میری للی چوس رہا تھا اور ساتھ اس نے اپنا ایک ہاتھ میری گانڈ کے نیچے دے دیا اور وہاں بھی مزے کرنے لگا اور میرا مزہ تو دوبال ہو گیا اور میری برداشت جواب دینے لگی اور میں اپنے اوپر کنٹرول کھونے لگا اور میرے منہ سے بھی تیز سیکسی آوازیں خارج ہونے لگی آہ آہ آہ اوہ مم مم آہ جب میں جذبات میں زیادہ ہی قابو سے باہر ہونے لگا تو قاسم نے اپنا منہ میری للی سے ہٹایا اور مجھے کہاکہ کنٹرول کرو کامی پلیز آوازیں بہت اونچی ہو رہی ہیں تو میں ہوش میں آیا اور اپنے جذبات کو کنٹرول کیا اور قاسم کا سر پکڑ کے اپنی للی پہ دوبارہ رکھا اور اسے چُوسنے کا کہا اور وہ پھر چُوسنے لگا تو مجھے پھر مزہ آنے لگا اور اب بھی میرے منہ سے سیکسی آوازیں خارج ہو رہی تھیں۔۔


مگر اب وہ زیادہ بلند نہیں تھیں اور میرے کنٹرول میں بھی تھیں. تقریبا 10، 15 منٹ قاسم میری للی چوستا رہا اور میں مزے لیتا رہا، ہاں یہ بتا دوں کہ تب ہمَ چھوٹے تھے ہماری منی نہیں نکلتی تھی اس لیے بے فکر ہو کے لگئے رہتے تھے کیوں کہ ابھی چھوٹنے کی فکر نہیں تھی. اس کے بعَْد قاسم نے کہاکہ چلو کمی اب میں تمہاری گانڈ مارتا ہوں. میں نے کہا او کے ٹھیک ہے اور الُٹا ہو کے لیٹ گیا اور قاسم میری گانڈ پہ ہاتھ پھیرنے لگا تو ابھی وہ ہاتھ ہی پھیر رہا تھاکہ ہمیں کسی کی آواز سنائی دی اور ہمَ نے فٹا فٹ اپنی شلواریں ٹھیک کی اور سیدھے ہو کے بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر بعَْد دیکھاکہ ماموں اوُپر آ رہے ہیں. تو ہمَ چُپ کر کے بیٹھے رہے اور ماموں نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو تو ہمَ نے کہا کچھ نہیں ویسے ہی بیٹھے ہیں تو ماموں بھی بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر ہمَ بھی گپ شپ لگاتے رہے اور پھر اٹھ کے نیچے آ گئے اور افسوس کرتے رہے کہ یار اتنا مزہ آ رہا تھا اگر تھوڑی دیر ماموں اور نہ آتے تو کیا تھا. پھر ہمَ نے اگلے دن کا پروگرام بنایا کہ کھیتوں میں انجوائے کریں گئے موقع دیکھ کے اور الگ ہو گئے. 


نیکسٹ ڈے میرا بڑا بھائی اور قاسم کا بڑا بھائی انکے علاقے کے شہر جا رہے تھے کسی کام سے اور ہمَ دونوں یعنی میں اور قاسم بھی ان کے پیچھے پڑ گئے کہ ہمیں بھی لے کے جاؤ مگر وہ ہمیں لے کے نہیں جا رہے تھے تو ہمَ نے بھی ضد کی مگر قاسم کا بڑا بھائی عاصم سموکر بھی تھا یعنی سگریٹ بھی پیتا تھا اور تھوڑا بہت شوق ہمیں بھی تھا انکی طرف دیکھ کے تو اس نے ہمیں لالچ دیا کہ چلو ایک ایک سگریٹ لے لو اور ہمیں جانے دو تو ہمَ مان گئے اور اس نے ہمیں 2 سگریٹیں دی ہمَ نے لی اور واپس آ گئے. اب مسئلہ تھاکہ ان کو کیسے پیا جائے تو ہمَ نے گھروں کے ساتھ ہی موجود کھیتوں میں جانے کا پروگرام بنایا وہیں سے ہمَ چپکے سے چھُپ کے کھیتوں میں چلے گئے. یہ گنے کے کھیت تھے یعنی کماد تھا. لائٹر عاصم کے پاس ہی تھا تو کھیتوں میں جاتے ہی ہمَ نے پہلے ایک سگریٹ سلگایا اور باری باری اس کے کاش لینے لے اور ابھی ہمَ اسکو پی ہی رہے تھے اور ہمارا پروگرام تھاکہ دونوں سگریٹ ختم کرنے کے بعَْد سیکس کریں گے مگر ہمارے پروگرام کا سارا بیڑا ہی تب غرق ہو گیاجب ابھی ہمَ نے پہلی سگریٹ ہی ختم نہیں کی تھی کہ ہمَ دونوں کی ایک سگی خالہ جس کا نام روبینہ تھا اندر آئی اور جہاں ہمَ تھے اس سے کچھ ہی فاصلے بھی آ کے کھڑی ہوئی اسکا منہ دوسری طرف تھا اور کمر ہماری طرف تھی اور ہمَ سن ہو گئے ہماری ٹانگیں کانپ رہی تھیں کہ پتا نہیں کیا ہوگا کہیں خالہ کو پتا نا چل جائے. بلکہ کہیں پتا چل تو نہیں گیا ورنہ یہ یہاں کیا کر رہی ہے.


ہمَ انہی سوچوں میں کھوئے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور سگریٹ بھی بجھا دیا تھا کہ اسی دوران ہمیں ایک اور حیرت کا سامنہ کرنا پڑا اور وہ یہ کہ خالہ روبینہ نے اپنی شلوار کھولی اور چونکہ اسکی پتر ہماری طرف تھی تو جب اس نے شلوار نیچے کی تو ایک دم ہمیں خالہ کی گانڈ نظر آئی کیا مست گانڈ تھی کم ازَ کم اسکا سائز 36 تو ہو گا اور بوبز بھی میرا خیال ہے اسی سائز کے تھے تو جناب ایک لمحے کے لیے ہمیں خالہ کی گانڈ نظر آئی اور وہ فورا نیچے بیٹھ گئی اور ہمَ سمجھ گئے کہ وہ پیشاب کرنے آئی ہے اور ہماری ہنسی چونٹ گئی کہ ہمَ خامخواہ ڈر رہے تھے مگر چونکہ بے ساختہ ہنسی ہمارے منہ سے اونچی آواز میں نکل گئی تھی تو یقینا اسکی آواز بھی خالہ تک ضرور گئی ہو گی اس لیے پھر ہمَ نے خالہ کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا کیوں کہ ہمَ پیچھے کو بھاگے تھے اور پھر ہمَ نے مڑ کے نہیں دیکھا۔

اب ہی بہتر جانتا ہے کہ خالہ نے ہمیں دیکھا تھا یا نہیں بہر حال ہمَ ڈر پھر بھی رہے تھے اور پریشان تھے کہ کہیں خالہ نے ہمیں پہچان نہ لیا ہو. اگر پہچان لیا تو خیر نہیں کیوں کہ اگر سگریٹ کا نہ بھی پتا چلا تو وہ سوچے گی تو سہی کہ ہمَ دونوں وہاں کیا کر رہے تھے اگر پیشاب وغیرہ کرنا تھا تو اکیلے اکیلے جاتے، دونوں تو بالکل نہ جاتے. بہرحال ہمَ نے سوچاکہ جو ھونا تھا اب تو ہو چکا ہے اور جو ہو گا دیکھا جائے گا. مگر پھر بھی ہمَ نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ساتھ ہی دربار تھا ہمَ وہاں گئے وہاں نلکے سے کلی وغیرہ کی اور کچھ جڑی بوٹیاں جوکہ خوشبو دار تھیں ان کو ہاتھوں وغیرہ اور منہ پہ بھی ملاتا کہ سگریٹکی بدبو ختم ہو سکے اور ہمَ پکڑے نہ جائیں. اور پھر ہمَ تقریبا 1 گھنٹے تک ادھر ادُھر گھومتے رہے اور پھر گھر گئے اور خالہ روبینہ سے بھی آمنا سامنا ہوا مگر اس نے کچھ نہیں کہا اور ہماری جان میں جان آئی کہ خالہ کو پتا نہیں چلاکہ کون تھے۔

اسطرح ہماری جان چواٹی مگر ہمیں اس سنہری چانس کے مس ہونے کا افسوس بھی بہت تھا۔ اس کے بعَْد ہمَ واپس اپنے گاؤں آ گئے اور اب میں کچھ بڑا بھی ہو گیا تھا اور نیکسٹ ایئر ہمَ اپنے گاؤں کے ساتھ والے سٹی یعنی شہر میں شفٹ ہو گئے اور میرا زیادہ تر تعلق گاؤں سے ختم ہی ہو گیا جو تھوڑا بہت رہا وہ ساتھ ساتھ بتاتا جاؤں گا.

تو جناب شہر میں فلی طور پہ شفٹ ہونے کے بعَْد پہلے پہل تو میرا دل ہی نہیں لگا کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ میری دلچسپی کا سارا سامان تو گاؤں میں تھا تو مجھے شروع میں بہت مشکل پیش آئی کہ اب کیا کروں۔ جب ہمَ شہر میں شفٹ ہوئے تو میری عمر تب تقریبا 10 یا 11 سال ہو گی اور چونکہ گاؤں کی کھلی فضاؤں میں میری پرورش ہوئی تھی اس لیے میرا جسم صحت مند تھا اور میں اپنی عمر سے کچھ بڑا ہی نظر آتا تھا. جناب جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ شروع میں مجھے بہت پروبلم آئی کہ اب کیا کروں نہ ہی یہاں کوئی لڑکا میرا ساتھی تھا اور نہ ہی کوئی لڑکی اور جیساکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں تھوڑا شرمیلا بھی تھا تو اس لیے میرا مسئلہ بہت سنجیدہ تھا۔ مجھے سمجھ نہیں تھی کہ کیا کروں اس لیے زیادہ تر خود ہی انجوائے کرتا تھا جب بھی واش روم میں جاتا تو خود ہی اپنی للی جوکہ اب لن بنتا جا رہا تھا۔ کو پکڑ کے ہلاتا اور اپنی گانڈ میں بھی انگلی یا کوئی اور چیز جو بھی مل جاتی ڈال کے انجوائے کرنے کی کوشش کرتا مگر میری تسکین نہیں ہو رہی تھی. مجھے سیکس کا کوئی ساتھی چاہئے تھا خواہ کوئی لڑکا ہو یا لڑکی. پھر میرے محلے بلکہ گلی کی 2 جڑواں بہنیں تھی جن کے نام حنا اور ثناء تھے جوکہ میری عمر سے کم کی تھیں ان سے ہیلو ہاۓ ہوئی۔ تب وہ وہ بھی چھوٹی تھی اور میں بھی تو ہمَ اور کچھ ایک 2 محلے کے لڑکے مل کے کھیلنے لگے بچوں والی کھیلیں جیسے کہ اونچ نیچ، ریڈی گو اور آنکھ مچولی. تو جناب ان کے ساتھ جب آنکھ مچولی کھیلتے تو میں اس موقع کا فائدہ اٹھانے لگا اور جان بوجھ کے میں ان بہنوں کو ہی ڈھونڈتا اور کوئی بھی ان میں سے ملتی تو زور سے پکڑ لیتا اور اپنے ساتھ لگاتا تھوڑی دیر اور ایسا ہی ظاہر کرتا جیسے کھیلتے ہوئے کر رہا ہوں. 


یوں یہ سلسلہ چلنے لگا مگر میری تسکین اتنی سی بات سے نہیں ہو رہی تھی تو میں سوچنے لگاکہ کیا کروں تو میری نظر اپنی بڑی بہن پہ یعنی ہما پہ گئی 

 

یعنی میری بہن ہما پہ جو کہ دونوں بہنوں میں سے بڑی تھی اگرچہ مجھ سے پھر بھی چھوٹی تھی تب میری عمر تقریبا 10 یا 11 سال کی ہو گی اور اسکی عمر تقریبا 5 یا 6 سال تھی اور چھوٹی بہن شمائلہ تب بہت چھوٹی تھی تقریبا 2 یا 3 سال کی ہوگی اس وجہ سے مجھے تب اپنی بہن ہما ہی مناسب لگی اور اپنی جنسی خواہش اس کے ساتھ ہی تھوڑی بہت پوری کرنے کے بارے میں سوچا، تو ڈیئر فرینڈز جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں بھی چھوٹا ہی تھا اور میری بہن بھی بلکہ میری بہن تو بہت ہی چھوٹی تھی اسکو تو لن کاموں کا کچھ پتا بھی نہیں ہو گا جو کہ اس کے کمینے بھائی نے اس کے بارے میں سوچا مگر میرا بھی کیا قصور تھا میرے اندر آگ جل رہی تھی، جو کہ کسی طرح بھی بھجنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی.

اس لیے دوستو میں نے سوچا کہ اپنی بہن ہما پہ ہی ہاتھ صاف کیا جائے تو اس کے لیے میں نے کام شروع کر دیا اور اس سے زیادہ پیار کرنا شروع کر دیا جب بھی ہمَ اکیلے ہوتے میں اسکو پکڑ کے خوب پیار کرتا اور جپھی بھی ڈال لیتا اور گال پہ کس بھی کرتا اور وہ یہی سمجھتی کہ اسکا بھائی اس سے پیار کر رہا ہے مگر میرے اندر تو شیطلن چھپا ہوا تھا جو کسی کروٹ چین ہی نہیں لینے دے رہا تھا. اس کے علاوہ میں اب کوشش۔کرنے لگا کہ رات کو بھی میری بہن میرے ساتھ ہی سوئے تا کہ رات کو بھی موقعہ سے پوُرا پوُرا فائدہ اٹھایا جا سکے اور میں اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہتا. رات کو جب ہما سو جاتی میرے ساتھ ہی چارپائی پہ تو اسکی شلوار کے اندر ہاتھ ڈالتا اور اسکی پھدی کو رگڑتا. حالنکہ تب اسکی پھدی بہت چھوٹی تھی مگر میرے اندر کی ہوس کے لیے بہت تھی اور میں اس سے پوُرا مزہ لیتا اور خوب پھدی کو رگڑتا اور وہ چُپ کر کے لیٹی رہتی اور پھر بعض دفعہ وہ اپنی سائڈ چینج کرتی تو اسکی گانڈ بھی میری طرف ہو جاتی اور میں گانڈ کے ساتھ بھی پوُرا پوُرا انصاف کرنے کی کوشش کرتا. کیوں کہ گانڈ کا تو میں دیوانہ تھا اور فل مزے لیتا. جب میں ہاتھ وغیرہ پھیرنے سے تنگ آ جاتا تو اپنی شلوار نیچے کرتا اور اپنی للی جو اب کافی جاندار ہو گئی تھی نکال کے اسکی گانڈ پہ رگڑ تا اور بہت مزے کرتا اور ہما آرام سے لیٹی رہتی اور یہ سلسلہ چلتا رہتا کبھی وہ سائڈ چینج کرتی تو اسکی پھدی پہ رگڑائی شروع ہو جاتی اور خوب مزہ آتا مگر وہ منع نہیں کرتی اور چُپ کر کے لیٹی رہتی اور میرا خیال تو یہی ہے کہ سوئی رہتی کیوں کہ وہ ابھی بہت چھوٹی تھی اور اسکو ان کاموں کا ذرا بھی پتا نہیں تھا۔ 

یہ سلسلہ میری بہن ہما کے ساتھ چل رہا تھا اور باہر گلی کی لڑکیوں حنا اور ثناء کے ساتھ کے ساتھ بھی جب موقع ملتا تھوڑا بہت انجوائے کرتا ان کے ساتھ جپھی ڈالتا اور اب ان کو بھی پتا چل چکا تھا میری واردات کا۔اور وہ بھی چُپ کر کے انجوائے کرتی اور جیسے میں کرتا وہ کرنے دیتی اور اب۔میری جھجھک ختم ہو گئی تھی اب تو میں جڑواں بہنوں میں سے جس کے ساتھ بھی موقع ملتا اگر کبھی ملتا تو اسکی شلوار نیچے کر کے۔اسکی پھدی کو بھی رگڑ تا اور انگلی پھیرتا اور گانڈ پہ۔بھی ہاتھ پھیرتا اور اب اس بات کو تقریبا 2 یا تین سال بیت چکے تھے اور وہ بھی کچھ بڑی ہو گئی تھیں اور میں بھی اور اب میں اپنی للی کو لن کہہ سکتا ہوں کیوں کہ اب یہ بڑا ہو گیا تھا اور میری عمر بھی تقریبا 14 سال ہو چکی تھی اور مجھے اب پہلے سے زیادہ لطف آتا تھا اور میں حنا اور ثناء سے بھرپور لطف لیتا تھا اور اگر زیادہ موقع ملتا تو کبھی شلوار اتُار کے جپھی بھی ڈال لیتے تھے اور یہ سلسلہ دونوں بہنوں کے ساتھ چلتا تھا تقریبا ایک جیسے ہی اور دونوں منع نہیں کرتی تھی اور شاید اب انہیں بھی لطف آنا شروع ہو گیا تھا مگر اب ایک اور مسئلہ بن گیا تھا کہ اب ہمیں گھر والے میرے بھی اور انکے گھر والے بھی منع کرنے لگئے تھے کہ آپ لوگ اب بڑے ہو گئے ہو اور اکٹھے مل کے بوائز اور۔گرلز نہ کھیلا کرو یعنی ظالم سماج نے اپنا کام کرنا شروع کر دیا تھا اور مجھے بہت غصہ آنے لگا اور میرا غصہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔

آخرکار 2 یا 4 مہینے اور گزرے ہوں گے کہ ہمَ پہ مکمل پابندی لگ گئی اور اب صرف ہمَ لڑکے ہی کھیلتے تھے اور حنا اور ثناء کو ان کے گھر والوں نے بالکل ہمارے ساتھ۔کھیلنے سے منع کر دیا تھا اور یہ بات انہی نے بتائی تھی جب ہمَ نے 1 یا 2 دفعہ ان سے اپنے ساتھ کھیلنے کا کہا بھی تو انہوں نے یہ بتا کے کہان کے گھر والے اجازَت نہیں دیتے منع کر دیا تھا. ادُھر میری بہن ہما کے ساتھ میری ذلیل حارکتیں بڑھتی جا رہی تھی اب اسکو بھی پتا چل گیا تھا کہ میں کیا کرتا ہوں تو وہ بھی منع نہیں کرتی تھی اور کرنے دیتی تھی مثلا جب ہمَ سردیوں میں



جاری ہے




Post a Comment

0 Comments