کُتی شئے
قسط 1
میری ممانی جو کہ میری ساس بھی ہیں اپنی بھانجی کی شادی میں شمولیت کیی خاطر
آج صبح کی پہلی بس سے شیخوپورہ گئی تھیں اور میں گھر میں اکیلی رہ گئی ایسا اتفاق
پہلے بھی دو چار بار ہوا تھا جب میں گھر میں اکیلی رہی اس لئے ممانی کو نہ مجھے کوئی
فکر ہوئی ، میرے ماموں جوکہ میرے سُسربھی ہیں ایک سیمنٹ فیکٹری میں سیکورٹی گارڈ ہیں وہ ہفتہ ایتوار کو گھر آتے ہیں اور میرے خاوند بسلسلہ روزگار دبئی میں ہوتے ہیں ۔ ہماری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں میں ماں نہیں بن سکی اس وقت میری عمر بتیس سال ہے ۔ میں اور ممانی جان گھر میں رہتی ہیں ۔ ہم فیصل اباد کے ایک مضافاتی گاؤں میں
رہتے ہیں ۔ ۔ تھوڑی سی زمین ہے جو مزارعے کاشت کرتے ہیں دو گائے چندایک بکری کچھ مرغیاں ایک کتیا ہے جس کو ہم پپی کہہ کر بلاتے ہیں ۔ ایک کتا بھی تھا اور ان کی جوڑی تھی مگر ایک رات چوری کی نیت سے کوئی چور ڈاکوآئے مگر ٹائیگر نے ان کو گھر کے قریب نہ پھٹکنے دیا اور وہ جاتے جاتے اس کو گولی مار گئے اور پپی اکیلی رہ گئی ۔ اس ہفتہ جب ماموں آئے تھے تو ممانی جان سے کہہ رہے تھے پپی گرم ( قط آنے) ہونے والی ہے اس کا خیال رکھنا کہیں کسی اوارہ کتے کو نہ مل بیٹھے ۔ ان مویشیوں کی وجہ سے مجھے گھر رہنا پڑا تھا اور ممانی جان کی جمعہ کو واپسی ہے ۔ یہ دو چار دن اکیلا ہی گذارنا ہیں پپی واقعی گرم تھی رہ رہ کر اسے پیشاب آرہا تھا اس کی خاص جگہ بھی لال ہورہی تھی اور گاہے بگاہے بیٹھ کر وہ اسے چاٹنے بھی لگتی تھی ۔ میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور گھر کے کام کاج کے ساتھ جانوروں کو چارہ وغیرہ ڈالا ۔ ہمسائی ماسی رشیدہ آگئی کچھ دیر وہ رہیں اور گپ شپ میں وقت پاس ہوگیا ۔ ماسی رشیدہ کا گھر ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہے اور دوسرا دروازہ ان کا پڑتا ہے ہمارے گھر کے صحن کی دیوار چھ فٹ اونچی ہے کچھ کہنا سننا ہو تو اونچا بول کر ایک دوسرے سے بول لیتے ہیں ۔ دیوار کے آخر میں بیرونی دروازوں کے قریب دیوار گری ہوئی ہے جس کی وجہ ہم اندر اندر ایک دوسرے کے ہاں آسکتے ہیں ممانی جان اور ماسی رشیدہ دونوں بہنیں بنی ہوئی اور بہت دوستی ہے ان دونوں
میں ۔ ماسی رشیدہ کا خاوند آرمی میں ہے اور ایک جوان بیٹا ہے جو کہ ان کے ساتھ رہتا ہے
بیٹےکا نام تو پرویز ہے مگر سب اسے پیجا کہہ کر ہی بلاتے ہیں یعنی اس کا نک نیم پیجا ہے
ماں باپ بہت اچھے ملنسار اور شریف لوگ ہیں مگر پیجا بدنام ہے کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا ۔ مگر ہم لوگوں کو تو اس نے عزت ہی دی جب بھی ملتا مجھے باجی اور ممانی جان کو
خالہ کہہ کر بلاتا کئی بار تو خیال آیا کہ بیچارہ بدنام ہے ورنہ یہ تو شریف ہے ۔ مگر جب کوئی بدنام ہوجائے تو وہ زندگی بھر بدنام ہی رہتا ہے چاہے لاکھ صفائی دیتے رہیں ۔ خیر سردیوں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں دیہات میں تو ویسے ہی جلد سُناٹا ہوجاتا ہے ۔ میں سات بجے ہی کھانا وغیرہ کرکے مویشیوں کو اندر باندھ کر اپنے کمرے میں آگئ اور پپی( کتیا )
بھی کمرے لے آئی ۔ مبادہ کوئی آاوارہ کُتا اس کی عزت افزائی نہ کردے ۔ ابھی آٹھ نہ ہوئے
تھے کہ پپی کبھی دروازے کو جاتی اور کبھی میری طرف لپکتی ۔ وہ بے کل سی ہو رہی تھی
میں أٹھ کر بیٹھی کہ دیکھوں کیاتکلیف ہے اس کو لالٹین جلائی تو باھر کسی کتے کے غرانے
کی آوز آئی میں سمجھ گئی کہ کتی نے کتے کی آواز سنی ہوگی اسی لئے ملنےکو تڑپ ری ہے
سوچا کہ دروازہ کھول کے دیکھوں کتا کدھر سے آیا ہے ابھی دروازہ پورا نہ کُھلا تھا کہ پپی
میری ٹانگوں کے درمیاں سے نکل کر باھر کو لپکی ۔ اور سامنے کھڑے کتے کے ساتھ جاملی
میں نے کتے کو پہچان لیا وہ ماسی رشیدہ کا ہی کتا تھا اوررات کو اکثر ہمارے ہاں آکے پپی سے کھیلت رہتا تھا یعنی دونوں فرینڈز ہی تھے ۔ مجھے تسلی ہوگئی کہ کسی آوارہ کی بجائے اچھی نسل کےکتے سے پپی کا ملاپ اچھے نسلی کتوں کی پیدائش بنے گا۔ پیجا کا کتا بھی بھگاڑی تھا پپی کی طرح یعنی دونوں ایک ہی نسل کے تھے ۔ سردی تھی اس لئے کمرے کے اندر آکےدروازہ بند کردیااور دروازے کی جُھری سے باھر دیکھنے لگی کہ دیکھیں کرتے کیا ہیں ۔ کتی اور کتا ایک دوسرے کوسُونگھ رہے اور اٹکھیلیاں کر رہے تھے کتا اس کی جائے مخصوصہ سونگھنے کی کوشش کرتا تو پپی اپنی دُم دبا لیتی جیسے شرما رہی ہو یا اسے ٹیز کر رہی ہو آخر تھوڑی دیر بعد کُتی کو پیشاب آیا تو کتے کو موقع مل گیا کہ وہ وہاں سونگھ سکے اور اسی دوران کتےنے ایک آدھ بار چاٹ بھی لیا اب پپی کی جھجھک ختم ہوتی جا رہی تھی اور کبھی کھڑی ہو کر کتے کو سونگھنے اور چاٹنے بھی دیتی یہ سب دیکھتے ہوئے میں بھی کچھ محسوس کر رہی تھی ارادے کےبغیر میرا ہاتھ شلوار کے اندر جا کے کھجانے لگا اور میں آنکھیں بند کرکے سواد لینے لگی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کتی کتے کو بھی دیکھ لیتی ۔ کتا کتی کےاوپر اپنے
سٹائل میں لگانے کی کوشش میں تھا اور پپی کبھی کھڑی رہتی کبھی آگے یا دائیں بائیں کھسک
کر کتے کےوار پچا رہی تھی ۔ کتے نے اپنی اگلی دونوں ٹانگوں سے پپی کی کمر جکڑ رکھی تھی اور کتیائی میں مصروف تھا ادھر میری کتی شے کو آگ لگی ہوئی تھی میں نے ایک ہاتھ سے اپنے دونوں گیندوں کو باری باری دبانا شروع کردیا اور دوسرے ہاتھ سے اسے کھجانے اور مسلنے میں لگی ہوئی تھی اور بھر دیکھا تو کتا پپی کے اندر داخل کرچکا تھا اور پپی
بڑے مزے سے کھڑی سواد لے رہی تھی میری حالت پتلی ہوتی جا رہی تھی میں اپنے ہی ہونٹ کاٹ رہی تھی سردی میں بھی میری پیشانی پسینہ سے بھیگی ہوئی تھی اتنے میں پپی کی ہلکی غراہٹ سُنی آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ دونوں ٹانگہ بن چکے تھے دونوں متضاد رخ اختیار کر چکے تھے اب مجھ سےمزید برداشت نہ ہوسکااور میں چارپائی پر آکر لیٹ گئی اور
مکمل برہنہ ہوکر اپنے آپ سے کھیلنے لگی آٹھ ماہ پہلے میرے خاوند دبئی گئے تھے
اور تین ماہ کے بعد انہوں نے ایک ماہ کے لئے آنا ہے جب بھی موقع ملے خودسے کھیلنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں مگر آج کی بات الگ کہ اکیلی اور جتنا مرضی چاہوں خود سے کھیل سکتی ہوں ۔ میں مساج کرتے کرتے انگلیوں کا استعمال کرنے لگی اور جلد ہی
پانی چھوڑ بیٹھی ۔ میں غنودگی میں چلی گئی مگر میرا ہاتھ اب بھی وہاں مساج کرتا رہا
اچانک محسوس ہوا باھر کوئی بولا ہے میں نے جلدی سے انگلی باھر نکالی اور شلوار قمیض پہن کر دوپٹہ لیا اور دروازے کی جُھری سے باھر دیکھا ۔ تو حیران رہ گئی وہ ماسی رشیدہ کا بیٹا پرویز عرف پیجا پپی کو پکڑے کھڑا تھا
جاری ہے