تی شئے
قسط 2
اچانک محسوس ہوا باھر کوئی بولا ہے میں نے جلدی سے انگلی باھر نکالی اور شلوارقمیض پہن کر دوپٹہ لیا اور دروازے کی جُھری سے باھر دیکھا ۔ تو حیران رہ گئی وہ ماسی رشیدہ کا بیٹا پرویز عرف پیجا پپی کو پکڑے کھڑا تھا
آگے
..میں دروازہ کی جھریوں سے دیکھنے لگی کہ پیجا کیا کرنے آیا ہےکیونکہ اس کا کتا تو روز رات کو پپی کے ساتھ رہتا تھا۔ اچانک پیجا پپی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بیٹھ گیا اور پیپی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا وہ پپی کو اپنی طرف کھینچ لیتا اور بھینچ لیتا اس کا کتا قریب ہی بیٹھا گرم بھٹی سے نکلے ہوئے راڈ کو چاٹنے میں مصروف تھا پیجا کا ہاتھ اب پپی کی دم کی طرف بڑھتا اور گردن تک آجاتا پپی کی کتے
سے ملاپ کی وجہ دم کچھ أٹھی ہوئی تھی اور پیجا کا ہاتھ اس خاص جگہ کو چھونے لگا
اور ساتھ ساتھ پیجا پپی کو پیار بھی کرنے لگا اسے بوسہ بھی دیتا اور سینہ سے بھی لگاتا ۔ میں نے دیکھا کہ پپی نے نے اپنی دم اور اوپر کرلی ہے اور ٹانگیں چوڑی کرلی ہیں تب مجھے احساس ہوا کہ پیجا اس کو انگلی کر رہا ہے
مجھے حیرت کے ساتھ غصہ بھی آیا مگر میرا اپنا ہاتھ پھر شلوار کے اندر جا کر مساج کرنے
لگا میں نے اپنی ٹانگیں زرا کھول لیں اور انگلی اندر کرلی ۔ باھر دیکھا تو پیجا برابر مشغول تھا پھر اچانک پیجا اٹھا اور اپنی شلوار کھول لی جو کہ گھٹنے تک گر گئی اور پھر ییٹھ گیا
اب وہ پپی کو دم کی طرف سے اپنی طرف کھینچنے لگا مجھے بہت غصہ آیا اابھی اس نے اپنا پپی کی دم کےنیچے رکھا ہی ہوگا کہ میں نے حیل کی نہ دلیل دروازہ کھول کر باھر آگئی اور غصہ سے بولی ’’ پیجے یہ کیا کر رہے ہو تم ‘‘ ٹہرو میں ماسی رشیدہ کو آواز دیتی ہوں ۔ پیجا میری آواز سن کر گھبرا کر دوڑا تو شلوار ٹانگوں میں پھنس گئی اور وہ منہ کے بل گر پڑا ۔ میں نزدیک جاپہنچی تھی اور اسے ڈانٹنے لگی کہ کمینے یہ کیا حرکت کر رہاتھا تو اگر ابھی ماسی کو بلا لوں تو وہ سر جھکائے خاموش اپنے ہاتھں سے اپنا مال چھپانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں نے اپنی دھمکی دھرائی
نہیں باجی پلیز ایسا مت کرنا وہ گڑگڑا کر بولا ،
خبردار جو مجھے باجی کہا ، میں غصہ سے بولی ۔ أٹھو اپنی شلوار ٹھیک کرو بے شرم
جی باجی وہ اٹھتے ہوئے شرمندگی سے بولا ، جب وہ أٹھ رہا تھا تو اس کی کوشش تھی کہ
وہ ننگا نہ ہو مگر األجھی شلوار کو پہننے کے لئے اسے کھڑا ہونا پڑا اور میری ترسی ہوئی نظریں اس ڈنڈے کی جھلک ہی دیکھ سکیں جس کو دیکھے اور برتے آٹھ ماہ ہونے کو تھے ۔ پیجے کی حالت دیکھ کر میرا دل پسیج گیا کیونکہ شرمندگی سے وہ سر جھکائے کھڑا تھا ۔ میرا موڈ تو نارمل ہوگیا تھا مگر اس سے بناؤٹی غصہ سے بولی بولو ماسی کو بلاؤں یا صبح ا س سے بات کروں ۔، پلیز باجی امی کو نہ بتائیں وہ لجاجت سے بولا میں نے پھر غصہ سے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ مجھے باجی مت کہنا ،تم جیسے کو اپنا بھائی بنانے سے مرجانا پسند کرونگی میں نے غصہ سے کہا ، اب اندر چلو میں آتی ہوں میں رعب جھاڑتی ہوئی بولی ۔ جی باجی کہتے ہوئے میرے کمرے کی طرف بڑھا ۔ اسے شاید احساس نہیں تھا مگر گرنے کی وجہ سے اس کا گُھٹنا زخمی ہوا تھا کیونکہ جب وہ أٹھ رہاا تھا میں نے خون أس کے گھٹنے سے رستا دیکھا تھا ۔ میں دوسرے کمرے جسے ہم رسوئی کہتے ہیں میں گئی اور لالٹین جلا کر پانی گرم کیا اور ساتھ ہی چاہے کے لئے پانی رکھ دیا اور آگ دھیمی کردی ۔ وہیں بینڈیج اور پٹی وغیرہ تھی لے کر میں اپنے کمرے میں آئی تو دیکھا پیجا ابھی کھڑا تھا بیٹھا نہیں تھا ، اب بیٹھ جاؤ جناب تشریف رکھیں میں طنزا بولی جی باجی کہتے ہوئے وہ قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے بائیں گھٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پائینچہ اوپر کرلو جب اس نے شلوار خون سے بھیگی دیکھی تب اسے احساس ہوا کہ وہ گرتے ہوئے گھٹنا زخمی کر بیٹھا ہے ۔ أس نے جلدی سے پائینچہ اوپر کھینچا مگر وہ گھٹنے پرجا کر پھنس گیا ۔ باجی آپ رہنے دیں میں گھر جا کر اسے دھو لوں گا وہ
شرمندہ ہوتے ہوئے بولا ، گھر جاکر امی کو کیا بتاؤگے کیوں اور کیسے گرے تھے میں نے چبھتے ہوئےلحجہ میں کہا او پیجے نے سر جُھکا لیا ، اب دو ہی طریقے تھے کہ یا تو پائیچہ کو اس طرح پھاڑا جاتا کہ وہ أدھر(أدھیرا) جاتا یا پھر شلوار نیچے کی جاتی تاکہ گھٹنے کو گرم پانی سے دھونے کے بعد ینڈیج وغیرہ کیا جاتا ۔ اب اس نے مایوسی سے میری طرف دیکھا اور میں انجان بنی کھڑی رہی آخر اس نےکہا کیا کروں باجی ۔ میں زرا غصہ کرتے ہوئے بولی کہ تم کو پہلے بھی کہاا کہ مت کہو مجھے باجی ، ہاں شلوار اتارنی پڑے گی میں نے کہا ۔ وہ بولا یہ نہیں ہو سکتا کیوں نہ میں غسل خانہ میں جاکر خود اس کو بینڈییج کر لوں ۔ میں بولی دیکھ پیجے یہ گھٹنے کا معاملہ ہے ۔ یہ مشکل ہوگی اچانک اس کی سمجھ میں دوسری ترکیب آگئی اور پائنچہ تھوڑا سا
پھاڑ کر کھلا کرلیا اورر اسانی سے پائنچہ اوپر کرلیا اب میں گرم پانی کو لے کر اس کیی ااسکی ٹانگوں کے بیچ ممیں بیٹھ گئی اور روئی سے اس کے گھٹنے پر لگےخون کو صاف کیا جوکہ رسنا بند ہوچکا تھا اس نے ہلکی سے سی کی میں نے کچھ روئی گرم پانی میں ڈبو کر اس کا زخم صاف کیا زخم اتنا زیادہ نہیں تھا اس کے گھٹنے پر ہاتھ لگاتے ہوئے میرے جذبات برانگیختہ ہونے لگے مجھے ااسسے چھو کر کچھ کچھ ہوونے لگا نوجوانن کی ٹانگوں میں بیٹھ کر میں اسے گھٹے اور رانوں کو چھو رہی تھی ، میرا من مچلنے لگا ۔ دل چاہ کہ نوجوان کی ٹانگوں میں رات نکل جائے پھر خیالات کو جھٹک کر جلدی سے تھوڑی سی ہلدی أس پر لگائی اور بینڈیج کردیا ۔میری سوچ پھر مجھ بہکانے لگی میری طلب جاگ أٹھی تھی میرا ذھن شیطانی خیالات بُن رہا تھا اور میں آج کے موقع سے فائدہ أٹھانے کی ترکیب سوچنے لگی ۔ اتنےمیں ، میں جاتا ہوں باجی ، پیجا یہ کہتے ہوئے أٹھ کھڑا ہوا ، میں نے رعب سے کہا بیٹھو چاہے رکھی ہوئی ہے اور اس کا جواب سُنے بنا رسوئی میں چلی گئی ۔ پانی میں گُڑ اور چاہے کی پتی ڈالی اور ایک دو ابال آنے پر دودھ ڈالا اور آگ بالکل دھیمی کردی اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی کہ سیمو اتنا بڑا رسک نہیں لو گناہ کے ساتھ ساتھ بدنام بھی ہو سکتی ہو مگر بدن کی طلب کچھ اور تھی میاں کے ساتھ سوئے اورجسم کو شانت کئے ایک زمانہ بیت گیا تھا ۔ جس طرح کا آج موقع
ملا ہے ایسا موقع کبھی نہ مل سکے گا ۔ دماغ کچھ کہتا دل اور بدن کچھ اور ترغیب دیتے کہ آج نہیں تو کبھی نہیں ممیری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ٹانگوں کا سنگم بھٹی کی طرح سُلگ رہا تھا اس کیمدتوں ی طلب پوری کرنے کا آج سنہری موقع ملا تھا ۔ ایک نوجوان جو عمر میں مجھ سے کافی چھوٹا تھا کی صحبت کے لئےمیری گڑیا ضد کرنے پر أتر آئی
پھر بدنامی کا ڈر اور خوف سامنے آ کھڑے ہوتے کہ اگرکچھ ہو گیا تو کس کس کو جواب دوگی کہنےکو تو ماں بننے کے قابل نہ تھی مگر یقین سےکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ گاؤں میں دوچار ایسی مثالیں بھی ہیں کہ عورتوں کو بانجھ قرار دے کر طلاقیں بھی ہوگئیں مگر جب ان کی کسی اور جگہ شادی ہوئی ان سب کی گود ھری ہوگئی ۔ میرے میاں دکھنے اور کرنے میں پورےتھےمجھے ان سے کوئی شکایت نہ تھی جب بھی موقع ملا انہوں نے پوری طرح پیار اور محبت کے ساتھ آسودہ کیا مگر انکاچیک اپ کبھی نہیں ہوا ہوسکتا ہے جراثیم کمزور ہوں ان کے ۔ انہوں نے یا میرے سسرال میں سے کسی نے مجھے طعنہ مارا تھا نہ ہی کبھی ایسا
سوال أٹھا کہ مجھے سبکی ہوئی ہو ۔ مگر مجھے میری اپنی ماں بننے کی خواہش بے چین رکھتی مگر کیا کیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوچ اور اسی ڈر کی وجہ سے میں نے فیصلہ کرلیا جب اتنا صبر کرلیا تو تین ماہ اور سہی مگر بدنامی اور رسوائی مول نہیں لوں گی ۔ ۔ ددودھ اببلنے لگا اس سے پہلے کہ چاہے باھر گرتی میں نے برتن کو اتار لیا چاہے تیار ہوچکی تھی مں نے تھوڑا سا گجریلہ جو کہ ہم سردیوں میں ضرور بناتے ہیں گرم کیا دوپیالیوں میں
چاہے ڈال کے میں کمرے میں داخل ہوئی اور پیجے کے سامنے ٹیبل پرپیالی اور گجریلہ رکھا
اور اپنی پیالی لے کر اپنی چارپائی پر آ بیٹھی میں نے پیالی سے ایک گھونٹ چاہے کا لیا اور پیجے کی طرف دیکھا جو سر جھکائے نیچے دیکھ رہا تھا مجھے محسوس ہوا جیسے وہ رو رہا ہو ، میں نے کہا، پیجے چاہے ٹھنڈی ہوجائیگی پی لو ، اس نے جی باجی کہہ کر پیالی منہ سے لگا لی مجھے ٹھنڈک محسوس ہوئی تو میں نے أٹھ کر درازہ بھیڑ دیا اور پھر چارپائی پر بیٹھ کر چاہے پینے لگی پیجے تم گجریلا کیوں نہیں لے رہے میں نے اس سے پوچھا ، جی باجی کہہ کر اس نے چمچ میں گجریلہ لیا تو مجھے حیرت سی ہوئی کہ کیا یہی وہ پیجا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ بُری سوسائٹی کی بدولت ماسی رشیدہ کابیٹا بھی بُری عادتوں میں مبتلا ہے چوری ڈاکے ریپ نہ جانے کیسے کیسے کاموں میں اس کانام لیا جاتا ہے ۔ مگر مجھے تو بھلے مانس ہی نظرآیا سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیا سمجھوں جیسے اس کی شہرت ہے یا جو سامنے بیٹھا ہوا ہے اگرچہ أسے غلط حرکت کرتے میں نے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا مگر وہ ایک وقتی بھول بھی ہوسکتی ہے اگر وہ ریپ جیسے کاموں میں مبتلا ہوتا تو ا تو ایک کتیا کے ساتھ کچھ کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ بُرا ہوتا تو مجھ اکیلی پر بھی وار کرتا رات کا وقت ایک تنہا عورت ذات اگر وہ کچھ زبردستی کر بھی لیتا تو بھی بدنامی کے ڈر سے زبان نہ کھولتی ۔ مگر یہ بھیگی بلی بن کے میرے سامنے بیٹھا تھا ۔ میں پیجے کو سجھنا چاہتی تھی اور اس کے بارے س جاننا چاہتی تھی اور اب میں اس کو غور سے دیکھنے لگی چھ فٹ کا انیس سالہ گبھرو چوڑی پیشانی گھنے ابرو بادامی آنکھیں لمبا اور
خوبصورت ناک پتلے ہونٹ سانولہ رنگ لئے ہوئے پیجا مجھے کوئی دوسرا نظر آنے لگا
پہلے والا پیجا جس سے آگاہ تھی کہیں کھوگیا اور نئے پیجے نے میرے لئے نیا جنم لیا
پرویز میں نے رسانیت سے اسے بلایا ، اس نے حیرانگی سے مجھے دیکھا اور بولا جی باجی
میں نے پوچھا ، کجھ پوچھوں تو سچ سچ بتاؤگے ،
جی باجی ، اس نے حسب توقع ’’جی باجی ‘‘ کہہ کرجواب دیا
تویہ بتاؤ کہ تم نے یہ گری ہوئی حرکت کیوں کی میں نے پوچھا
اس نے اپنا سر اور جھکا لیا اور تھوڑی دییر بعد بولا ،
بس باجی شیطان سرپر سوار ہو گیا تھا وہ شرمندگی سے خجالت بھرے لحجہ سے یہی کہہ سکا
دیکھو پرویز میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں مگر میں جاننا چاہونگی کہ لوگ تو کہتے ہیں
کہ تم ہر بُرے کام میں شامل ہوتے ہو گاؤں میں چوری ڈاکہ زنا بالجبر کے الزامات ہیں
تم پر اور تمہیں ابیسی حرکت کی کیا حاجت تھی کہ کتی کو بھی ۔۔۔۔
باجی پیجے نے سرجھکائے ہی کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے میرے ساتھی ایسے کام کرتے
ہیں جن کی وجہ سے میں بھی بدنام ہوگیا ۔ میری صرف یہ کمزوری ہے کہ چرس پیتا ہوں
جس کی وجہ سے ان کا ساتھی سجھا جاتا ہوں ورنہ ان کے دوسرےکسی کام میں میں نے
کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا ،
تو تم نے آج تک کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ، میں نے اس سے پوچھا
نہیں باجی میں نے تو آج تک کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں ، پیجا بیچارگی سے بولا
تو کیا کسی لڑکی سے تمہاری دوستی بھی نہیں اب یہ نہ کہنا کہ نہیں کیونکہ مجھے اعتبار
نہیں آئے گا میں مسکرا کر بولی ، پیجا نیچے دیکھ رہا تھا میری مسکراہٹ دیکھے بنا
تڑپ کربولا کہ باجی سچ یہی کہ میری کسی سے بھی دوستی نہیں
اوہ اسی لئے تم ہماری پپی کو ورغلا رہے تھے میں نے چبھتا ہوا سوال کیا مگر پیجے
نے جواب دینے کی بجائے سر جھکا لیا ۔ پرویز میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بتاؤ
کہ تم آج تک کسی لڑکی کے ساتھ نہیں سوئے ، اس نے میری طرف دیکھتےہوئے کہا کہ باجی
میں نے آج تک کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں مجھے اس کے لہجے سےاندازہ ہوا ہ وہ سچ بول رہا ہے مجھے نہ جانے کیوں خوشی ہوئی اس کی زبانی یہ سب جان کر ۔مجھے وہ اچھا لگنے
لگا اور میرے جذبات پھر ایک بار بہکنے لگے شیطانی خیالات نے یلغار کردی اتنا خوبصورت
جوان جو کہ کم ازکم مجھ سے بارہ تیرا سال عمر میں چھو ٹا ہوگا ۔ اس کے ساتھ کچھ موج مستی کرنے کے لئے اور اسے کچھ سکھانے کے لئے میرا انگ انگ پکارنےلگا ۔ رسوئی میں
اپنے آپ سے جو عہد کیاتھا اسے بھول جانے کی ترغیب دینے میں میرا دل جسم اور سامنے بیٹھے پیجےکی شخصیت سب ہی شامل ہوگئے میں پیالی میں بقیہ چاہے کو ایک ہی گھونٹ میں ختم کرکے پیالی أٹھائے اس کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔
جاری ہے