Kuti shay - Episode 3

کُتی شئے

قسط 3



رسوئی میں اپنے آپ سے جو عہد کیاتھا اسے بھول جانے کی ترغیب دینے میں میرا دل جسم اور سامنے بیٹھے پیجےکی شخصیت سب ہی شامل ہوگئے میں پیالی میں بقیہ چاہے کو ایک ہی گھونٹ میں

ختم کرکے پیالی أٹھائے اس کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔

بقیہ حصہ آئندہ ۔ون نائٹ سٹینڈ میں ہولے ہولے جا کر پیجے کے سامنے ٹیبل پر پیالی رکھی اس نے مجھے دیکھ کر سر جھکا لیا ، پرویز تو نے گجریلہ تو لیا ہی نہیں یا تمہیں اچھا نہیں لگا میں نے شکات بھرے لحجہ میں اس سے پوچھا نہیں باجی میں نے تو لیا ہے گجریلہ اور مجھے پسند ہے روز گجریلہ کھاتا ہوں جو آپ نے گھر بھجوایا تھا ، امی صبح روز ناشتہ میں دیتی ہیں پیجا جلدی جلدی بولا پرویز کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم مجھے باجی نہ کہو میں نے معنی خیز پیرائے میں أس کو کہا تو وہ بولا عادت پڑی ہوئی ہے باجی ۔ میں مسکرا دی پھر باجی ،، وہ کھسیانی ھنسی ھنس کے

بولا ’جی باجی ‘ اور میں قہقہہ لگا کر ہنس دی ۔ پیجا شرمندہ سا ہوگیا ۔

میں کولہے مٹکاتی واپس چارپائی پر آکر بیٹھ گئی ۔ اور پیجے کو دیکھنے لگی

باجی میں چلتا ہوں پیجا أٹھتے ہوئے بولا تو میں نے کہا تھوڑی دیر اور بیٹھو میں بھی اکیلی

ہوں رات کافی ہوگئی ہے مگر نیند نہیں آرہی ،۔ جی باجی کہتے ہوئے پیجا پھر کرسی پر بیٹھ گیااور سر جُھکا لیا وہ میری طرف دیکھنے سے اجتناب برت رہاتھا شرمندگی سے یا احترام سے کون جانے ۔ میں نے سردی کے باجود اپنی شال ایک طرف رکھ دی تھی سر پر چنی ایسے

ڈالے کہ دونوں پلو نیچے لٹک کےمیرے جوبن دکھنے میں حائل نہ ہوں ۔

پرویز، وہ چونکا ، میں جب بھی پرویز کہتی وہ حیران سا ہوتا کیونکہ سب اسے پیجا کہہ کر بلاتے تھے حتی کہ اس کی امی بھی ۔ اس نے چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا جی باجی تم کو میرانام معلوم ہے میں نے پوچھا ، جی سیما باجی ، وہ بولا ، نہیں جناب میرانام سیما باجی نہیں سیماب نازیہ ہے ۔ تم مجھے سیما کہہ سکتے ہو میری مسکراہٹ میں ترغیبانہ عنصر بھی ظاھر تھا ۔ جی باج کہہ کر وہ اٹک گیا اور پھر سر جھکا لیا۔تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر میں بولی

پرویز اتنی لمبی رات ہے کوئی بات کرو ۔جی آپ کریں باتیں اس نے میری طرف دیکھا تو میں

نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور بولی کہ مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے تم اگر وعہدہ کرو کہ سچ سچ بولوگے تو پھر سوال کرتی ہوں ورنہ رہنے دیتے ہیں میں نے اس کی نظروں کو

اپنے جوبن پر ٹکا دیکھ کر کہا ، جی آپ پوچھیں وہ بولا ، جو بھی مرضی ہو پوچھ لوں سچ سچ بولوگے ، میں نے تاکیدا کہا تو پیجا بولا جی پرامز ،

دیکھ پرویز کل تک ہم ایک دوسرے کےبارے کچھ بھی نہیں جانتے تھے ، معلوم نہیں ایسا کیوں

ہوا کہ عجیب واقعہ پیش آگیا کہ کچھ ایسی باتیں بھی ہوگئیں کہ جو نہیں ہونی چاہئیں تھیں ، مگر ہونی تو ہو کر رہتی ہے کہ ،پپی کا قط آنا ، تمہارے کتے کا أس کامددگار ہونا ۔۔۔ اتفاق سےمیرا اکیلی اورتنہا ہونا ، اور پھر تمہارا شام کے بعد ہمارے صحن میں ۔۔۔۔۔۔۔

میرا مطلب کہ ہم ایک دوسرے کی کچھ کمزوریوں سے آگاہ ہو چکے ہیں اور جو ایک پردہ

شام تک ہمارے درمیان تھا وہ تم نے اورتمہارے کتے نے گرادیا ہے ۔ میں نے لمبی تمہید

باندھتے ہوئے بات شروع کی ، پیجا شرمندگی اور بیچارگی سےصرف سوری باجی کہہ سکا

نہیں سوری کی ضرورت نہیں میرے خیال میں ایک طرح سے اچھا ہی ہوا اتنا کہہ کر

میں نے پیجےکی طرف دیکھا جو میری بات بڑے تجسس سے سن رہا تھا مگر وہ خاموش رہا

میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ،کہ ہم ہمسائے ہوتے ہوئے اجنبی تھے مگر اب

جو پردہ پڑا ہوا تھا وہ نہیں رہا، کیوں کیا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔ میں نے استفشارا پوچھا

جی ایسا تو ہے آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں پیجے نے تصدیق کی ۔

تمہارا کیا خیال ہےکہ ہم کھل کے بات کرسکتے ہیں پرویز؟

جی ہاں ، وہ بولا ، پرویز یوں سمجھو ہم دوست ہیں اور ایک دوسرےکو سمجھے بنا

اچھی دوستی نہیں ہوسکتی کیوں تم کیا کہو گے اس بارے، میں نے اسکی آنکھوں میں

دیکھتے ہوئے کہا ، جی درست خیال ہے آپ کا أس نے کہتے ہوئے پھر سر ُجھکا لیا

چاہے پیئو گے، بنالاؤں میں نے پوچھا تو پرویز نے منع کردیا ۔چلو ٹھیک ہے میرے 

کچھ سوالات ہیں ان کا جواب دینا ہوگا میرے دوست میں نےمُسکراتے ہوئے کہا

جی ، پیجا بولا تو میں نے پوچھا

کیاتم روز رات کو ہمارے صحن میں آتے ہو ، نہیں آج پہلی بار ہی غلطی ہوئی وہ خجالت

سے بولا ۔ پھر آج کس لئے مگر کیوں تم نے دیوار پھلانگی ، میں نے پوچھا

پیجےنےکُرسی پر پہلو بدلا اور بولا جی وہ کتی اور کتا پھنسے ہوئے تھے ان کو دیکھنے

کو آگیا سوری کہتے ہوئے اس نے پھر سرجھکا لیا اور پھربولا دیوار ٹوٹی ہوئی تھی

جب اپنا دروازہ بند کرنے آیا تو وہاں سے یہ دونوں نظر آرہے تھے ،

مگر یہ توکافی دیر سے مگن تھے اور تم اس وقت آئے جب یہ فارغ بھی ہوگئے میں نے

بات ٹوکتے ہوئےکہا ، جی میں ان کو شروع ہی سے دیکھ رہا تھا دروازے کے پاس کھڑے

ہوکر ۔ اس نے کہا، اوہ تو تم ان کے تمام کھیل کے گواہ ہو میں نے معنی خیز ہنسی ہنستے

ہوئے کہا اور وہ نیچے دیکھنے لگا ۔ پیجے تم نے کیا دیکھا مجھے بھی بتاؤ میں نے پوچھا

تو وہ خاموش رہا ، دیکھو پرویز تم نے وعہدہ کیا تھا یہ تو بتانا ہوگا اور اس نے بیچارگی سے میری طرف دیکھا ، جی اور پھر چُپ ، پرویز ایک بات بتاؤں میں خود سب کچھ دیکھ رہی تھی

مگر تم سے بھی سننا چاہونگی ، وہ بولا جب کتا۔ ٹائیگر کو کھولا تو وہ سیدھاآپ کے گھر

آگیا مگر پپی شاید اندر تھی ٹائیگر کچھ مایوس ہوا مگر دروازہ کھلا اور پپی باھر آگئی

پھر یہ ملنے لگے اور میں کھڑا دیکھتا رہا وہ اتنا کہہ کر مجھے دیکھنے لگا ، تو تم نےجب

ان کو ملتے ملاتے دیکھا تو کیا محسوس کیا میں نے سوال کیا ، جی بس کہہ کر وہ خاموش

ہوگیا مگر میں نے دوبارہ پوچھا وہ کچھ نہ بولا تو میں نے بولا دیکھ پرویز میں تمہیں دوست

سمجھتی ہوں اور اپنی حالت بتارہی ہوں امید ہے یہ بات تم کسی سے بھی نہ کہو گے خود سے بھی نہیں

، جب میں نےجھریوں سے دیکھا ان کو اکٹھے تو میں گیلی ہوگئی تھی

اور اب شرماؤ نہیں بتاؤ تمیں کیا محسوس ہوا ،

جی مجھے گرمی لگنے لگی تھی اور ہوشیاری بھی آگئی تھی وہ کچھ گھبراتے ہوئے بولا

یہ ہوشیاری کیا ہوتی ہے ؟، میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا تو أس نے سر جھکا لیا

پیجے میں نے کچھ پوچھا ہےمیں نے مخمور لہحجے میں کہا ۔ جی یہ مردانہ بات ہے

آپ کو سمجھ نہیں آئیگی وہ سرجھکائے بولا ، ارے پرویز تم جانتے ہو دس سال سے میں

شادی شدہ ہوں وہ کونسا مردانہ راز ہے جو مجھ کو نہ سمجھ آئے تم شاید شرما رہےہو

دیکھو جب ان کو پیار محبت کرتےدیکھ کے میں گیلی ہوئی تو میں نے اک ہاتھ ٹانگوں

کے درمیان میں رکھ لیا تھا ، دیکھو میں عورت ذات ہو کر نہیں شرما رہی تو تم مرد ہوکر

سج بولتے کیوں ہچکچا رہے ہو میں نے کہا ، جی جب مرد کا کھڑا ہوجائے تو أسے

ہوشیاری بولتے ہیں وہ سر جھکائے بولا ، میں نے کا مرد کا کھڑاہوجائے مجھے سمجھ

نہیں میں نے چسکا لیتے ہوئے کہا ، جی مرد کا ٹانگوں کے بیچ لٹکتا ہوا لٹوہوشیار ہو کر

کھڑا ہوجانا ہوشیاری کہلاتا ہے ۔ أس نے تشریح کی تو مجھے ہنسی آگئی ۔ اوہ اب سمجھی

 تم مردانہ اوزار کی بات کر رہے ہو میں بولی تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا اور پھر پوچھا

تو تم نےلٹو کو ہوشیار دیکھ کر کیا کیا ، میں پُر اشتیاق لحجے میں بولی ، کچھ نہیں وہ بولا

میں نے کہا تم نے سچ کا وعہدہ کیا تھا سچ بولا کیا تم نے چھوا نہیں تھا ، جی چھوا تھا

وہ چھوئ موئی ہوتے ہوئے بولا ۔ تم نے اس کو باھر بھی تو نکالا ہوگا اور کیا کیا میں

نے پوچھا تو تو وہ بولا ٹھیک ہے میں بتاتا ہوں میں نےکہا یہ ہوئی ناں بات مردوں والی اور ہنس دی وہ اب راستے پر آرہا تھا، جی ان کو دیکھ کر مجھے ہوشیاری آگئی اور میں اس کوہاتھ

میں دبانے لگا جب ٹائیگر اند رکرنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں برداشت نہ کرسکا

اور اسے باھر نکال لیا اور ہاتھ میں مُٹھانے لگا پھر جب دونوں پھنس گئے تو میں فارغ ہوگیا

میں نے بات ٹوکتے ہوئے پوچھا، فارغ ہونے کا مطلب؟ تو وہ بولا جی میں نے اپنی طاقت

پیشاب کے راستے نکال دی ۔ اور نلکے سے ہاتھ دھو کر پھر دروازے کے پاس آیا تو وہ دونوں

ایک دوسرے کو چاٹ رہے تھے میں پھر ان کو دیکھنے لگا، میں نے پھر لقمہ دیا کیا اب بھی

تمیں ہوشیاری آئی ہوئی ہے تو اس نے کچھ کہے بنا سر جھکا لیا ، میں سمجھ گئی اس کا کھڑا

ہے ، اچھا تو پھر فارغ ہونےکے بعد تم ہمارے صحن میں کیاکرنے آئے ،میں نے استفشار کیا

تو وہ خجالت سے بولا شیطان نے ورغلا لیا تھا اور غلطی کرنے لگا تھا اس کے ساتھ ہی

اس کی آواز بھرا گئی تھی ۔ مجھے اس پر ترس آگیا اور میں نے کہا پرویز ادھر آؤ میرے پاس

وہ بیٹھا رہا ، میں نے پھر اواز دی پرویز تم نے سُنا نہیں تماری دوست تمہیں بلا رہی ہے

وہ أٹھا اور میری چارپائی کی طرف چلا میری نظر اس کی ہوشیاری پر تھی شلوار

قیص کو ٹینٹ کی صورت میں أٹھائے ہوئے تھی وہ میرے قریب آیا تو اس کا ہاتھ پکڑ کراسے اپنے قریب بٹھا لیااس کے بیٹھتے ہی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور آستہ آیستہ دبانے لگی

پپی پر تم پیار سے ہاتھ پھیر رہے تھے وہ تو ٹھیک ہے مگر اس کی دم کے نیچے

اس کی گُڈو کو بھی تم چھو رہے تھے ، کیوں سج ہے ناں ، جی مجھے نرم اور گرم

اچھی لگی تھی اس نے بتایا، اجھا یہ کہتے ہوئے میں نے اس کا ہاتھ اپنی شلوار

میں لے گئی ، اس نے ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر میں نے اس کو اپنی گُڈو

پر رکھ کر دبائے رکھا ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مدتوں بعد گُڈو کو راحت

کا احساس ہوا ہو۔ میری ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی اور میں بولی ، پپی کو جیسے کیا

تھا ایسے ہی میری گُڈو پر نوازش کردو ، اور خود اس کا ہاتھ اوپر سے نیچے اور نیچے

سے اوپر کریک پر پھیرا اور اپنا ہاتھ باھ نکال کر آنکھیں بند کرلیں ۔ وہ گُڈو کے دانےسے

لےکر کریک کے آخر تک مساج کرنے لگا اور پھر اس نے درمیانی انگلی کریک کےاندر کردی میں شدت جذبات میں أف کہتے ہوئےاس سے لپٹ گئی ۔ ہم دونوں کی ٹانگیں چارپائی سے نیچے تھیں اور ہم پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے شلوار کے اوپر سے أسکے مُنے

پر ہاتھ رکھا تووہ لوہے کا راڈ بنا ہوا تھا اور گرم اور سخت منے کو ہاتھ میں لے کرمجھے چین آگیاجیسے کوئی گم شدہ خزانہ مل گیا ہو ۔ پیجے کیسی لگ رہی ہے میری گُڈو نرم اور

گرم ہے کہ نہیں میں نشے کی سی حالت میں منے کو دباتے بولی ، اس کا انگھوٹھا دانے

پر اور انگلی کریک میں تھی اور وہ بڑے رومان سے بولا آج پہلی بار ایسی نرم و گداز

غار نصیب ہوئی جس میں بسیرا کرلینے کا من چاہتا ہے میں نے کہا یہ غار تمہاری ہے جس

وقت من چاہے سستانے کے لئے آجانا کوئی منع نہ کرے گا میرے پیجو کو یہ کہتے ہوئے

میں نے ہونٹ اس کی طرف کئے تو اس نے آگے ہو کر انہیں چوم لیا میں نے اس کی گردن

میں ہاتھ ڈال کے نیچے جھکایا اور اس کا نچلا ہونٹ ہونٹوں میں لے کر چوسنےلگی اوردوسرے ہاتھ سے اس کا ازار بند کھول کر اس کا مُنا باھر نکال لیا ( منا پیار سےبولا ہے چھوٹا نہیں تھا وہ) اچھا خاصا تگڑا ٹول تھا جو مجھے بائی چانس ہی نصیب ہوگیا تھا ۔ اس کا ٹوپا حیران کن

شیپ کا تھا موٹا بھی لمبا بھی ۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو منہ سے نکال کے کہا پیجے

پپی نے کوئی کپڑا پنا ہوا تھا کیا ؟ نہیں تو پیجا بولا ۔ تو میری شلوار اتار کیوں نہیں دیتے تم

میں نے شاکی ہوکے کہا یہ سنتے ہی میری شلوار نیچے کھسکا کر اس نے اتار دی اور

میں نے شلوار سے آذاد ہوتے ہی ٹانگیں کھول دیں اور منا کو چومنے لگی اس کے ٹوپے

کو زبان سے رگڑتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میرے پیجے کی گود میں جھکنےکی بدولت میری گُڈو پیجا کی ہاتھ سےمحروم ہو گئی ہے ۔ میں نے سر أٹھاتے ہوئے پیجے سے کہا مجھے

لیٹنا ہے میں چارپائی پر لیٹ گئی اور پیجے سے اپنےساتھ لیٹنےکا اشارہ کیا ۔ وہ لیٹنے لگا

تو میں نے أٹھ کر اس کی شلوار کھیچ کر اتار دی اور اپنی قمیض بھی اتار دی میں نیچے

کچھ نہیں پہنتی میں بالکل برھنہ حالت میں پیٹھ کے بل چارپائی پر لیٹی اور رضائی اوپر لےلی

پیجا کو میں نے لیٹنے کا شارہ کیا اور اسکے لیٹنے سے پہلے اوپر أٹھ کر اس کی شلوار

نیچے کردی ۔ اس کا مُنا بڑی شان سے سر أٹھائے جھوم رہا تھا میں اس کی أٹھان اس کے ٹوپے کا بانکپن دیکھ کر رہ نہ سکی میں نے اسے ہاتھ میں بھر لیا اور أس کو دائیں بائیں اوپر نیچے کرکے محظوظ ہونے لگی اسکے ٹوپے کو بے اختیار پیار کرتے ہوئے میں نے اوپر سے اسکی جڑ تک جڑ سے اسکی نچلی رگ کو چاٹ کرخراج عقیدت پیش کیا میری گڈوی پیجا کے ہاتھ اور انگلی سے پہلے ہی پانی پانی ہو رہی تھی ۔ أسے دکھ کر بہنے لگی تھی اور اس کے لب اسے کے استقبال کے لئے تھرکنےلگے تھے ۔ گڈوی کے اندر اتنی گرمی تھی سب کچھ گرم ہوچکا تھا میں نے بڑھ کر پیجے کو اپنے اوپر کھینچ لیا اور اسکی بالوں بھری چھاتی سے لگ گئی پیجا کی ججھک دور ہوتی جارہی تھی ۔اور اس نے لیٹ کر مجھے بھینچ لیا ۔ میں نےاس کےچہرے گردن پر بوسوں کی یلغار کردی اس کا منا اب میری رانوں سے ٹکرانے لگا میں نے اسےٹانگوں میں لینے کے لئے ٹانگیں کھول دیں اوروہ اپنی مستی میں ٹانگوں میں سر پٹخنے لگا ۔ پیجے نے پیش قدمی کرتے ہوئے میرےلبوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور میں زبان کی نوک سےاس کےہونٹوں کو چھیڑنے لگی پیجے نے میری زبان کو اپنی سےزبان سے ٹچ کیا میں اس کی زبان چوسنے لگی۔ بعد مدت کے ایک رات ملی تھی اور میں اسے یاد رکھنے والی راتوں میں سے ایک رات بنا دینا چاہتی تھی ۔ نیچے منا ادھر ادھر سر مار رہا تھا میں نے اسے ایک ہاتھ میں لے لیا اور دبانے لگی اس کا ٹوپے سے رس ٹپک رہا تھا اسے انگلی سے صاف کرکے انگی اپنی زبان پر رکھ دی اف کیا ترش ذائقہ تھا اس نےپیاس مزید بڑھادی میں نے پیجے کا ایک ہاتھ پکڑکر اپنی گڈوی پر رکھ دیا اور دوسرا ہاتھ اپنی گولائیوں پر ۔ پیجے کو بھری بھری گولائیاں شاید اچھی لگیں اس نے مجھے چت لٹاکر اپنے ہونٹ گولائیوں کے ڈوڈوں پررکھ دئیے کبھی ایک ڈوڈے کو وہ چومتا تو کبھی دوسرے ڈوڈے کو چوستا ۔ میں شاید مزے کے جزیرے میں آگئی تھی سواد کا دیوتا شاید بعد ایک مدت مہربان ہو چکا تھا ۔ میں غنودگی کے عالم میں اپنا سب کچھ پرویزپر لٹا دینا چاہتی تھی ۔ میں نے پیجے کے سر کے بالوں کو پکڑ کر پیجا کے منہ گڈوی کے پاس جا رکھا ۔ پیجا سمجھ گیا اس نے اپنے ہونٹ گڈوی کے منہ سے لگا دئیے میرے منہ سے أف ظالم نکلا اور میرے سانسوں کی رفتار دگنی ہوگئی میں اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز سننے

لگی ۔ میں نے اٹھ کر پیجے کا سر اٹھا کر اس کے ہونٹ پر لگا اپنا ہی رس چوسنے لگی میں

میں أٹھ کر بیٹھ گئی اور پیجے سے کہا پیجا جانتے ہو یہ موقع ہمیں کیسے ملا ، وہ چپ رہا

شاید میری بات نہ سمجھ سکا تھا۔ میں نے اس کے منے سے کھیلتے ہوئے کہا جیسے تم اب

تک کسی لڑکی سےواقف تک نہ تھے اسی طرح میں بھی مرد کے لئے ترس گئی تھی اور ہم جو اس وقت ایک ہی چارپائی پر مادر زاد برہنہ ہیں تو یہ کتے اور کتیا کی وجہ سے ، ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہئیے ، جی باجی صحیح کہا آپ نے ، پھر باجی میں نے پیجا کی چٹکی لیتے ہوئے اب بھی باجی کہا ۔ پیجےکہہ سیما ۔ سیما پیجا جھجک کے بولا چل کہہ سیمو ، اس نے کہا سیمو میں نے جواب دیا جی کراں پیجو ۔ میں نے مسکرا کر جواب د یا ۔ اور اسے بولا کہ آئندہ اکیلے میں تم سیمو بولنا اور میں تمہیں پیجو بولاؤں گی ، اس نے سیمو کہہ کر سر ہاں میں ہلادیا

اچھا تو ہم کیابات کررہے تھے پیجو ، وہ کہ ہمیں کتے کتی کا ممنون ہونا چاہئیے ، ہاں ان کو

خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہمیں کم از کم ایک بار تو ان جیسا ہی کرنا چاہئیے ،

ٹھیک ہے سیمو پیجو بولا تو میں کتیا بن گئی تو پیجو پیجھے سے میری ٹانگوں میں آگیا ۔ اب اس کا خیال تھا کہ سٹارٹ ہوجائے مگر میں بولی پیجو پہلےسونگھو تو سہی ، اوہ صیح ہےباجی ، پھر باجی ارے تم سیمو کیوں نہیں کہتے ، اوہ سوری سیمو اور جھک کر میری گڈوی کو سونگھنے لگ گیا ، میں نے کہا اب اسے تھوڑا سا زبان سے چاٹو ، اس نے کا کیا یہ ضروری ہے تو میں نے کہا کتا ایسا کرتا ہے ۔ میں کتیا ہوں اور تو کتا ۔ ٹھیک ہے سمجھے میں نے تصحیح کی ، جی سمجھ گیا سیمو اور اپنی زبان میری گڈوی سے لگا دی ، اف میری گڈوی پہلے ہی بہہ رہی تھی اب اس کی زبان نے اک طوفاں أٹھا دیا میں نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں لے لیا اور مزے کے خمار میں اوول فوول بکنے لگی پیجو کو شاید ذائقہ اچھا لگا وہ بڑے شوق سےچسکاریاں لینے لگا اس کی زبان کو مزید برداشت کرنے کی مجھ میں ہمت نہ رہی تھی ۔ میں نے ہاتھ پیچھے کر کےاسے بالوں سے پکڑکرکھینچا تو میری ٹانگوں میں وہ گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا جبکہ میں تو کتیا بنی ہوئی تھی ۔ میں نےسرگھما کر پوچھا پیجو تجھے گھٹنے پر درد تو نہیں ہورہا ایسے کھڑے ہوئے ، اوہ نہیں جی وہ تھوڑا اوپر ہے زخم ۔ وہ بولا ۔ چلو ٹھیک ہے میں نےکہا چل اب کتیائی شروع کریں ، جی کہہ کر اس نے اپنا لٹو میری گڈوی پر رکھ دیا ۔ میری گڈوی نہ جانے کب سے اس ٹچ کو ترس رہی تھی میں نے سکوں کا سانس لیا اور پیجو سے بولی ، تمہیں پتا تو ہے کتا کتیا کیسے کرتے ہیں ، پہلے دس پندرہ بارہ اوپر سے تھوڑا دبانا اور سکن سے سکن کو ٹکرانا ہے اندر نہیں کرنا جیسے کتا اپنا باھر نکالنے کےلئے باربار کتیا کو ٹچ کرتا ہے ،

جی سمجھ گیا ، وہ اوپر رکھ کے دباتا اور ھٹالیتا میں نے اسے روکا ، اور کہا کہ پیجو تم دونوں ہاتھ میری کمر میں ڈال لو اوراپنے راڈکو خود سر پیٹنے دو دس بار کی کوشش سے وہ پھسل کے رسوئی میں ہوگا ۔ اس نے ایسے ہی کیا جب بھی اسکا راڈ میری گڈوی کو لگتا تو گڈوی اسے لینےکے لئے بےتابی سےاپنے لب کھول دیتی مگرمسافر گبھی ایک طرف جا نکلتا

اور کبھی دوسری جانب کبھی ادھر پھسل جاتا کبھی ادھر۔ آخر گڈوی کی سُنی گئیی اور منا پھسل کر گڈوی میں جا اٹکا ، پیجا شاید اب صبر کھو بیٹھا تھا اس نے زور سے جو پسٹم دبایا تو منا آخرجا ٹکرایا دوسرے کونے پر۔ میرے انگ انگ میں مزہ کی لہر دوڑ گئی اور میں نہال ہوگئی منا ٹارگٹ کو کھجا رہا تھا مجھے مزا اور سواد کے ساتھ ساتھ ایسے خوشی ہو رہی تھی جیسے اچانک کوئی پردیسی گھر آگیا ہ جس کی رات دن انتظار رہتی ہو پیجو کا لٹونے میری گُڈوی بھردی تھی محسوس ہونے لگا جیسے مکمل ہونے جا رہی ہوں ۔ میں نے پیجو سے کہا لمبے سٹرک نہیں لگائے بلکہ کتے کی طرح اندر ہی چوٹ مارے یعنی پیچھے زیادہ نہ کھینچے ، میں جانتی تھی یہ پیجو کے لئے مشکل ہوگا اور مجھے بھی دو چار کرارے سے دھکوں کی اشد ضرورت تھی ہم نے ایسے کرنا جیسے کتا کتی کرتے ہیں پیجو مجھے کمر سے پکڑے جلدی جلدی چھوٹے سٹروک مارنے لگا اور میں مزے کی جانب جانےلگی مجھے لگا کہ میری جان نکل رہی ہےاور پیجو کا کھجاتا لٹو سیدھا صحیح ٹارگٹ سے ٹکرا رہا تھا میں نہال بے حال ہوتے آخر منزل ہوگئی میں نے آج شاید منزل سر کرلی تھی میں نے اب پیچھےکی طرف زور لگانا شروع کردیا اور پیجو نےبھی ڈکراتے ہوئے اپنا مواد سواد سمیت میری گڈوی میں ڈال کرہانپتے ہوئےمجھ پرہی گر گیا ۔ میں ٹانگیں سیدھی کرکے پیٹ کے بل ہی لیٹ گئی اور پیجو بھی مجھ پر لیٹ گیا ۔ ابھی تک اس کا لٹو میری گڈوی کے اندر ہی تھا اور مجھے اس کے آہستہ آہستہ سکڑنےکا احساس ہو رہاتھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں میری گڈوی سے وہ بچھڑ کرباھر نکل گیا

کچھ دیر کےلئے میں مدھوش ہوگئی پیجوکے اوپر لیٹے ہونے کی وجہ سے مجھے بہت اچھا

محسوس ہو رہا تھا ۔ میرا جسم میٹھی میٹھی تھکن سے چُور ہو رہاتھا شام سے اب تک

ایک ٹینشن کشمکش اور اخرکار کُتیائی عمل سے گذرنے کے بعد یہ حال تو ہونا تھا ۔ مگر

اس میٹھی سی تھکن کی نہ جانے کب سے ترسی ہوئی تھی اور اب اچانک ایسی خوشی

ملی کہ سب کمیاں پوری ہو گئیں اور آئند مستقبل میں ایسی خوشیوں کاسوچ کر میں نہال

ہوتی رہی ۔ میں آہستہ آہستہ پیجے کے نیچے سے نکلی وہ بھی شاید غنودگی میں تھا۔

اور آہستہ سے کروٹ لےکر پیٹھ کے بل لیٹ گیا اس کو دیکھ کر بے ساختہ مجھے پیار

آگیا ۔ میں اسے چومنے لگی اس کی پیشانی سے لے کر اس کے نپل تک اوروہ أٹھ گیا

اور نشیلی نظروں سے مجھے گھورنے لگا اچانک اس نے مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا



جاری ہے

*

Post a Comment (0)