Kuti shay - last Episode

کُتی شئے

آخری قسط 


میرے سامنے پروین کا بھائی عبدا لرشید کھڑا تھا . اسے دیکھ کر میں کچھ نروس سی ہو گئی میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا ؛ جی فرمائیں  

عبدا لرشید : جی میں پروین کا بھائی عبدا لرشید ہوں .  

میں: جی میں نے پہچان لیا ہے آپکو . آپ اندر آجائیں یہ کہتے  

ہوئے میں نے اسے اندر آنے کے لئے راستہ دیا اور خود  

اس کے آگے اگے چلتے ہوئے برآمدے میں اسے کرسی پر  

بیٹھنے کے لئے کہا اور خود میں نے اندر کمرے میں جا کر  

اپنی ساس کو عبدا لرشید کی آمد کا بتایا اور وہ باہر آ کے  

عبدا لرشید کی آؤ بھگت کرنے لگیں . میں نے انکو ایک  

موڑھا بیٹھنے کے لئے دیا اور ان کے ساتھ ہی ایک چوکڑی

بیٹھ گئی . میری ساس جی اس سے حال احوال پوچھنے لگی  

اسکی امی اور بہن اور پھر روزمرہ معمولات کے متعلق    

  گپ شپ شروع ہو گئی . میں بظاہر ان کی باتوں میں

دلچسپی لے رہی تھی . مگر حقیقت میں عبدا لرشید کو

   جانچنے میں لگی ہوئی تھی . کئی بار اسے دیکھ چکی تھی  

راستے میں بازار میں ایک ٢ بار اسکی بہن کو ملنے جب  

ان کے گھر گئی تھی وہاں بھی . مگر آج پہلی بار اسے  

اتنے نزدیک سے دیکھ رہی تھی ؛ ٦ فیٹ سے نکلتا ہوا قد

 گورا چٹا چوڑے چکلے سینہ اور مضبوط شانوں کے  

ساتھ کشادہ پیشانی اور ذرا سنجیدہ چہرہ . وہ واقعی پیاری  

شخصیت کا مالک ہے . وہ کسی بھی لڑکی عورت کا

 خواب بننے کے قابل ہے . وہ میری ساس سے باتیں کرتے

 ہوئے مجھ پر بھی اچٹتی ہوئی نظر ڈال لیتا تھا . ایک دو  

بار مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے اس نے دیکھ بھی لیا اور

انجان بنتے ہوئے باتوں میں مشغول رہا .

سیمو اٹھ اپنے بھائی کے لئے چاہے بنا لا میری ساس نے  

   مجھ سے کہا اور میں اٹھ کھڑی ہوئی .

"جی اس کی ضرورت نہیں میں ابھی ناشتہ کر کے ہی آ رہا ہوں "

اس نے کہا ، تو میں نے براہ راست پوچھ لیا " آپ کیسی چاہے

پسند کرتے ہیں چینی الگ یا مکس ؛ تو اس نے کہا اگر  

بنانا ضروری ہی ہے تو چینی مکس ہی بنائیں . تو میں نے  

   چیزہ لیتے ہوئے پوچھ لیا . چینی زیادہ ہو یا کم تو مجھے

   معنی خیز نظروں سے دیکھ کر مسکرا کر اس نے کہا  

نہ کم نہ زیادہ . . اچھا جی ، یہ کہتے ہوئے میں 

 رسوئی ( کچن) میں آ کر چاہے بنانے لگی . اور مجھے پیجے  

کی کہی ہوئی ایک ایک بات یاد انے لگی . عبدا لرشید کے  

میرے لئے خیالات اور جذبات اور لغو اور بیہودہ ریمارکس

  میرے حافظہ میں محفوظ تھے . مگر اسے دیکھ کر اعتبار

  نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کچھ چوک میں بیٹھ کر کہہ سکتا

 ہے . اسکی شخصیت پرسنالٹی سے اس قسم کی باتوں کی

  توقع نہیں جا سکتی ؛ خیالات پر تو کسی کا زور نہیں چلتا

 اس لئے ممکن ہے وہ میرے بارے ایسا ہی سوچتا بھی ہو  

 جیسا کہ پیجے نے بتایا تھا . اور سچی بات یہ ہے کہ

  مجھے اس کی سوچ اگرچہ میرے بارے غلط تھی مگر

 مجھے برا محسوس نہیں ہوا تھا اور اسی لئے میں پیجے سے  

بار بار کرید کرید کر اسکی باتیں سنتی تھی . اور اب چاہے    

  بناتے ہوئے اسکی باتیں یاد کیا آئیں کہ میرے سارے بدن میں

سنسناہٹ سی دوڑ گئی . میرے لئے یہ احساس ہی کافی تھا    

کہ کوئی مجھ پر مر مٹا ہے اور دیوانوں کی طرح ہر جگه  

میری باتیں کرتا ہے . اپنے متعلق اسکے جذبات کا سن کر

 میں خود اسکے لئے اپنے دل کے کسی کونے میں جگه دے  

بیٹھی تھی جس سے میں خود بھی پوری طرح آشنا نہ تھی

  براہ راست اس نے کبھی اظہار کیا نہ ہی اسے کوئی موقع  

ملا تھا مگر اسکے جذبات مجھ تک پہنچے تھے . جنہیں میں

 پذیرائی دے کر اپنے دل میں چھپا بیٹھی تھی .  

چاہے بن چکی تو میں نے ایک پلیٹ میں انگلش بسکٹ .  

 ٢ پیالیاں ایک گلاس پانی اور چاہے کی کیتلی ایک ٹرے  

میں رکھ کر میں نے عبدا لرشید کے سامنے میز پر رکھ کر  

ایک چاہے کی پیالی اپنی ساس کو دی اور ایک بسکٹ    

لے کر چوکڑی پر بیٹھ گئی .

خالہ جی اپکا بیٹا کب تک آرہا ہے اسے تو گئے ہوئے کافی

عرصہ ہو گیا ہے اس نے چاہے پیتے ہوے میری ساس سے  

پوچھا . تو میری ساس نے اسے بتایا . جی وہ پہلے دبئی  

گیا تھا وہاں سے وہ لندن چلا گیا تھا . اب وہاں کوئی  

کاغذات بنوا رہا ہے ، کیوں سیمو جاوید نے کیا لکھا تھا  

خط میں میری ساس نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ،

جی انہوں نے لکھا تھا وہ امیگریشن لینے کی کوشش کر رہا  

ہے تاکہ وہ وہاں سٹے لے سکے اور لیگلی کوئی جاب کر  

سکے . میں نے خط کا مفہوم بتاتے ہوئے کہا تو عبدا لرشید

نے کہا وہ تو ایک لمبا پروسیجر ہے . ویسے ہمت والا ہے  

جو اتنا دور نکل گیا ہے . میری ساس کے اپنے بیٹے کے

  لئے آنسو نکل گئے . ماحول اداس سا ہو گیا . اور چپ  

 ہو کر چاہے پینے لگے . عبدا لرشید کہنے لگا چاہے تو بڑی

مزیدار بنی ہے تو میں نے اسے سناتے ہوئے منہ میں

بڑبڑائ ؛ چاہے چاہ سے بنائی جاۓ تو چاہے مزیدار ہی

 بنتی ہے . عبدا لرشید نے کہا کیا کہا آپ نے ، میں نے بات  

ٹالنے کے لئے یونہی کہا آپ نے بسکٹ تو لئے ہی نہیں ؛

نہیں نہیں میں نے ۲ء٣ لئے ہیں بسکٹ وہ بولا تو میں  

نے کہا ؛ لئے تو خیر آپ نے پورے ٦ بسکٹ ہیں مگر

 یہاں گن کون رہا ہے . ایک قہقہہ لگا اور ماحول پھر  

سے خوشگوار سا ہوگیا . میری ساس نے کہا بیٹا سیمو کی

عادت ہے مزاق کرتی رہتی ہے اس لئے برا نہ منانا .

نہیں خالہ جی اس میں برا منانے کی کونسی بات ہے سیمو  

 بہن نے اچھا کیا مجھے بتا دیا اور اس نے ایک بسکٹ اٹھا  

کر کہا لیں میں سات بسکٹ پورے کر دیتا ہوں . میری ساس  

بھی ہنس پڑی ، عبدا لرشید نے ایک بسکٹ اور اٹھا کر میری

بڑھایا اور بولا آپ نے تو صرف ایک ہی بسکٹ لیا تھا یہ لیں

ایک اور ایک سے بھلے دو ہوتے ہیں . تو میں نے اٹھ کر  

بسکٹ پکڑا اور چوکڑی پر آ کر بیٹھ گئی .  

پھر عبدا لرشید نے کہا میں چلتا ہوں ؛ میں اس لئے آیا تھا  

پروین نے بتایا تھا کُتی نے سات بچے دئیے ہیں تو سوچا  

دیکھ لوں . بیٹا تمہارا اپنا گھر ہے سو بار آؤ ، سیمو جاؤ  

 اپنے بھائی کو کُتی کے بچے دکھا . اور ہاں عبدا لرشید پسند  

آئیں تو لے جانا . میری ساس نے اٹھتے ہوئے کہا تو  

عبدا لرشید بھی اٹھا اچھا خالہ جان میں جاتا ہوں اور سلام  

کر کے صحن میں آگیا میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے  

اسے کُتی کی کھڈی کے پاس لے آئ . پلے ماں کا دودھ  

پی رہے تھے . واہ بڑے کیوٹ ہیں یہ سب تو .

جی ہیں تو لیکن ابھی چھوٹے ہیں کچھ دنوں کے بعد  

جب اپس میں کھیلیں گے تو بہت ہی مزہ ائیگا .  

 سیمو جی مجھے بھی چاہیے اگر آپ برا نہ مانو تو؛

تو میں اسے بتایا کہ پروین نے بتایا کہ بھائی کو شوق    

ہے تو میں نے اسے کہا تھا جتنے مرضی لے جاۓ

 تمہارا بھائی . رییلی کیا میں ایک جوڑا لے سکتا ہوں  

تو میں نے اسے کہا ضرور لے سکتے ہو .

     عبدا لرشید : کیا میں ابھی لے سکتا ہوں  

میں : ہاں لے سکتے ہو کیوں نہیں . پہلے چن لو کون سے  

پسند ہے . پھر اس نے دو پلوں کی طرف اشارہ کیا تو

میں نے دونوں پلوں کو کھڈی سے باہر نکال لیا . اس نے

 دونوں کو پکڑ کر دیکھا . اور ان پر ہاتھ پھیرنے لگا .

میں : عبدا لرشید بھائی یہ دونوں آپکے ہو گئے مگر میں تو  

کہونگی کہ ابھی آپ ان کو یہیں چھوڑ جایئں ،. ابھی ان کو  

ماں کے دودھ کی بھی ضرورت ہے . ایک ٢ ماہ کے بعد جب  

خوب سیانے ہو جایئں تو آپ اپنی امانت لے جایئں .

عبدا لرشید نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولے کہ یہ ٹھیک  

ہے جب یہ سیانے ہو گئے تو لے جاؤنگا . وہ بہت پرجوش لگ

رہا تھا . تو میں نے اسے کہا ؛ جب بھی انکو دیکھنا چاہئیں  

آپ یہاں آکر دیکھ لیا کریں اب تو آپ نے گھر بھی

  دیکھ لیا ہے میں نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا ، "سچی میں

ان کو آ کر دیکھ سکتا ہوں ، "    

مچی ساس امی نے بولا تو تھا آپ کا اپنا گھر ہے جب چاہو  

آ جایا کرو .  

 عبدا لرشید : ٹھیک ہے میں ہر روز تو نہیں دوسرے تیرے دن  

آ کر ان کو دیکھ جایا کرونگا . کیا ہر بار چاہے اتنی ہی

چاہ سے بنائیں گی گی آپ .

میں : چاہ سے چاہ ہوتی ہے جس چاہے میں چاہ نہ ہو  

اس چاہے کا کیا سواد . آپکو چاہ ہوگی چاہے کی تو آپ کو  

چاہے بھی چاہ سے بنی ملے گی ہمیشہ .

جی مجھے معلوم ہے آپ نے چاہ سے بنائی تھی چاہے اسی  

لئے بہت مزیدار تھی . وہ بولا تو میں نے مسکرا کر    

کہا ؛ حالانکہ آپکو چاہے کی کوئی چاہ نہ تھی پھر بھی ہم نے  

تو بڑی چاہ سے بنائی تھی چاہے آپ کے لئے . پھر بھی آپکو

  پیتے ہوئے مزہ آیا اس سے ثابت ہوا کہ ہماری چاہ میں کمال   

کی چاہ تھی جو اتنی مزیدار چاۓ بن گئی . 

وہ مسکراتے ہوئے بولا . تھی چاہ کی چاہ ہمیں بھی شدت سے 

مگر موقع محل دیکھ کر ہی چاہت کا اظہار کیا جاتا ہے . 

  کسی کسی کی چاہ میں اتنی شدید چاہ ہوتی ہے کہ چاہ  

ان کو خود چاہ بن کے ملتی ہے . کسی کو چاہنے  

  کی تمنا اور چاہے جانے کا ارمان تو سب ہی کرتے ہیں .   

 مگر کسی خوش نصیب ہی کو اسکی چاہت نصیب ہوتی ہے .

  یہ کہہ کر عبدا لرشید دروازے کی طرف بڑھا تو میں اسے  

چھوڑنے دروازے تک گئی اور اس سے کہا کہ اب بھول نہ 

جانا آپ اپنی امانت یہیں چھوڑے جا رہے ہیں . میرا اشارہ   

پلوں کی طرف تھا . جی ہماری امانت آپ کے پاس ہے . ہمیں 

اعتماد ہے کہ وقت آنے پر جب بھی چاہ ہوی امانت ہمارے  

حوالے کردی جائے گی اس نے سنجیدگی سے کہا 

بسرو چشم جناب آپ چاہ کر کے تو دیکھیں آپ کی امانت     

آپکو پیش کر دی جایئگی . 

اس نے خدا حافظ کہا اور دروازے سے نکل گیا ؛ میں نے  

رب راکھا کہا اور گلی کے موڑ تک اسے جاتے دیکھتی رہی . 

عبدالرشید جب تک نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا اسے جاتے دیکھتی رہی  

میں بڑی پرجوش اور خوش تھی مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے 

منزل میرے قریب اتی جا رہی ہے اب عبدالرشید سے روانہ ملنے کے   

امکانات پیدا ہو گئے تھے اور میں آنے والے وقت سے فائدہ اٹھانے 

کا پروگرام بنانے لگی . مگر دن ڈھلنے سے پہلے ہی میرے پروگرام 

دھرے کے دھرے رہ گئے .. میں خوش خوش عصر کے بعد 

چاہے بنانے لگی تو میری ساس جو کہ میری ممانی بھی ہیں وہ 

باہر سے آئیں وہ بڑے رنجیدہ اور سنجیدہ دکھائی دے رہی تھیں . 

وہ میرے پاس ہی پیڑھی ( چوکڑی ) پر بیٹھ گئیں . اور رونے   

لگ گئیں . میں پریشان ہو گئی اور ان سے پوچھا کیا ہوا

  کیوں رو رہی ہیں آپ . انہوں نے ہچکیوں کے درمیان ایک 

لفافہ میری طرف بڑھایا اور پھر رونے لگیں . میں نے جلدی سے  

لفافہ کھولا وہ لندن سے میرے خود جاوید کا خط تھا . خط کیا تھا  

 مجھے یوں لگا قیامت ٹوٹ پڑی ہو . میں ہکا بکا ہو گئی یوں سمجھیں کہ  

میں کچھ در کے لئے کومہ میں چلی گئی . کچھ دیر کے لئے میں ہر 

احساس سے عاری ہو گئی . مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی   

کہ میں روؤں کہ ہنسوں . مجھے تب احساس ہوا جب ماسی رشیداں

 ( پیجے کی امی ) اور ممانی جان نے مجھے وہاں سے اٹھا کر چارپائی

  پر بٹھایا . اور پانی پلایا . کافی دیر بعد خاموش رہنے کے بعد  

ماسی رشیداں نے جب ممانی سے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے 

جاوید کو کوسنے دیتے ہوئے کہا اس نے طلاق دے دی ہے . 

"ہیں مگر کیوں . کس لئے ؛ کوئی وجہ " ماسی رشیداں نے پوچھا 

جس ترہ خط میں لکھا ہے اس ناہنجار نے ؛ کہ لندن میں اسے لیگل 

ہونے کے لئے شادی کرنے کے لئے میرا غیر شادی شدہ , مطلقہ  

 یا رنڈوا ہونا ضروری ہے اگر میں وہاں شادی نہ کروں تو میں 

یہاں نہ کام کر سکتا ہوں نہ ہی لیگلی رہ سکتا ہوں . لہذا میں مجبورا 

اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں . میں نے طلاق یونین کونسل میں بھی   

بھجوا دی ہے . براۓ مہربانی تصدیق کر کے ان سے جلد کاغذات واپس 

 بھجوائیں . 

یہ تھی وجہ . جس کی بنا پر مجھ پر طلاق یافتہ ہونے کا 

کلنک لگا دیا گیا . خیر جو ہونا تھا ہو گیا . مجھے عدّت پوری  

ہونے تک اسی گھر میں رہنا تھا . ایک ایک دن مشکل تھا اور پورے 

چار مہینے اور ١٠ دن تک مجھے ایک حد کے اندر ہی رہنا تھا   

اسی دوران پروین اور پیجے کی شادی ہوگی . پروین پڑوسن   

بن گئی تھی , اس کے گاہے بگاہے آنے سے میرا یہ مشکل وقت  

کچھ آسان ہو گیا . اس وقت کے دوران پروین کے بھائی   

عبدالرشید نے اپنے ننھیالی قصبہ میں جو کہ میرا آبائی قصبہ  

بھی تھا . میں بہت بڑے ایریا پر ایک تعلیمی ادارہ بنانے کی 

بنیاد رکھ دی تھی اور وہ تعمیر اور کنسٹرکشن کی نگرانی   

کے لئے وہیں رہنے لگا . وقت رکتا نہیں آخر یہ ٤ ماہ اور 

١٠ دن بھی گزر گئے اور میں عدت کا وقت پورا کر کے اپنے 

 میکے آگئی . ٢ ماہ بعد ایک دن پروین پرویز 

پروین کے والدین اور کچھ ملنے والے ہمارے گھر آئے . 

میرے والدین کو کو معلوم تھا مگر میں لا علم تھی . 

پروین نے میرے رشتے کی بات چھیڑی اور اس کے 

والدین نے تایید کی . وہ میرے لئے عبدالرشید کا رشتہ کے 

لئے آئے تھے . درپردہ میرے والدین سے انکی بات چل رہی 

تھی . مگر انہوں نے فیصلہ مجھ پر رکھ چوڑا تھا . میں آزاد تھی 

میں نے اپنی آمادگی کے ساتھ ان کے سامنے اپنے تحفظات بھی 

رکھے . میں عبدالرشید سے ١٠ سال عمر میں بڑی ہوں .  

میں مطلقہ ہوں , عبدالرشید کو مجھ سے کہیں بہتر رشتے مل سکتے  ہیں . پروین نے بتایا کہ میرے بھائی نے صاف صاف بول دیا 

ہے شادی ہو گی تو سیما سے ورنہ وہ ساری عمر غیر شدہ رہے 

گا . میں نے بھی ہاں کر دی اور میں مسز عبدالرشید بن گئی 

ایک سال بعد میرے میاں نے دن رات ایک کر کے تعلیمی ادارہ کی تعمیر مکمل کر لی اور ہمیں قدرت نے ایک چاند سا بیٹا عطا فرما یا اور مجھ پر جو بانجھ ہونے کا الزام تھا وہ بھی دور ہو گیا  پروین اور اس کا خاوند پرویز ہمارے تعلیمی انسٹیٹوٹ میں ہی لگ گئ میں عبدالرشید کو پا کر بہت خوش  اور شاد باد ہوں   


اسی کے ساتھ کہانی ختم کرتی ہوں خوش رہیں آباد رہیں .



*

Post a Comment (0)