کُتی شئے
قسط 12
پانچ دن بعد پروین کی امی میری ساس سے بازار میں ملی
تو اس نے بتا یا کہ رشید اس کا بیٹا پرویز کے رشتہ پر
مُعترض نہیں ہوآ . اس لئے پرویز کی امی سے کہہ دیں کہ
کسی دن باضابطہ اطلاح کر کے پروین کا ہاتھ مانگنے کے
لیے آ جایئں جب مری ساس گھر آئیں تو انہوں نے مجھے
بتا کر کہا کہ میں کسی کام سے ریشماں کے ہاں جا رہی ہوں
تو اگر پیجے کی امی کو دیکھے تو اسے بتا دینا ,
تو میں دوڑی دوڑی پیجے کے گھر گئی تاکہ اسکی امی
کو خوشخبری سناؤں . پیجے کی امی تو گھر میں نہ تھی مگر
بھیجا گھر موجود تھا . وہ کرسی پر بیٹھا بڑے انہماک سے کوئی
کتاب پڑھ رہا تھا وہ پڑھنے میں اتنا گم تھا کہ میری آمد بھی اسے
متوجہ نہ کر پائی . وہ سفید کرتا اور شلوار میں بہت جچ رہا تھا
میں کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور سوچنے لگی یہ آج بھی میرا تو نہیں
پرایا ہے مگر چند دنوں کے بعد تو میری سہیلی پینو کا ہو جائیگا .
میں اسکی پشت کی طرف سے دھیرے دھیرے اسکی طرف بڑھی اور
پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکہ دئے وہ چونک سے گیا
مگر اس نے میرے ہاتھ آنکھوں سے ہٹانے کی کوشش نہ کی
بلکہ میرے ہاتھوں پر اپنے پھیرنے لگا وہ میری ایک ایک
انگلی کو چھوتا ہاتھ کی پشت پر ہاتھ گھماتے ہویے میرے بازوؤں
کی کہنیوں تک چھوتا چلے جاتا میں نے آدھی آستیں والی
قمیض پہن رکھی تھی . اس کے اس طرح چھونے سے میرے
میرے جسم کی لوئیں بھی کھڑی ہو گئیں میں نے اپنے ہونٹ اس
کے کان کے پاس رکھ کر سرگوشی میں اسے بتایا کہ پیجے پینو کا
بھائی مان گیا ہے اور ہاتھ اسکی آنکھوں سے ہٹا کر ایک طرف ہو گئی .
پیجا : ٹیب تو تم خوش ہوگی مجھ سے زیادہ یہ تمہاری خواہش تھی ,
میں : جی ہاں میں یہی چاہتی تھی اور اب جب تم کسی
کسی اور کے ہونے جارہے ہو اس لئے ہمیں اب اپنی
راہیں الگ الگ کر لینی ہونگی . میں اسے مبارک بول کر
پلٹنے لگی تو اس نے اٹھ کر مجھے بازو سے پکڑ کر
اپنی طرف کھینچا تو میرا پاؤں سلپ ہوا جس کی وجہ
سے میں گرنے لگی پیجے نے آگے بڑھ کر مجھے سنبھال لیا
اس کا گھٹنا آگے کر بڑھا ہوا اور میری کمر اس کے ران
پر جا ٹکی . پیجا مجھ پر جھکا ہوا . میں اٹھنے لگی تو اس نے
میری مدد کی اور مجھے اپنی طرف کھینچا تو میں اس کے سینہ
سے جا لگی اور اس نے مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا , میں خود
کو چھڑانے لگی تو اسنے مرے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر
میرے لبوں پر اپنے گرم ہونٹ رکھ دئے . میں نے اس کے ہونٹوں
کو چوما اور اسے بولا : دیکھ پیجے اب تو کسی اور کا ہونے جا
رہا ہے اور وہ میری سہیلی ہے . اب ہم کو یہ سلسلہ ختم کرنا ہوگا .
سیمو جب اسکا ہو گیا تو پھر میں تمہاری بات کی لاج ضرور رکھوں گا . ابھی تو
بات چل رہی ہے . بات پکی ہو گئی تو پھر دیکھیں گے . آج امی گھر نہیں اور
پھر کب موقع ملے یا نہ ملے تم بھی ہو تنہائی بھی ہے آؤ اس ملاقات کو جو
ہو سکتا ہے آخری ہو سے فائدہ اٹھائیں. مجھے بھی کسی ایسے ہی جواز
کا سہارا چاہیے تھا . پیجے نے مجھے سینے سے لگایا تو میں نے
اس کے سینہ پر سر رکھ کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا .
پیجے ماسی رشیداں کدھر نکلی ہوئی ہے تو اس نے بتایا امی جان خالہ ریشماں
کے گھر گئی ہے اور جلدی انے کا کوئی امکان تو نہیں . اچھا میری ساس بھی
ادھر ہی گئی ہوئی ہے اب جب بھی آئینگی تو اکٹھا ہی آئینگی .
مجھے پیجے نے اپنے ساتھ لپٹایا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میری
پیٹھ سے ہوتے ہوئے میرے چوتڑوں کو دباتے مسلتے مجھے بہت
ہی اچھے لگ رہے تھے . دھیرے دھیرے میری آنکھیں بند ہونے
لگیں تھیں میں پیجے کے چھاتی پر سر ٹکاۓ یونہی اسکے بازؤں
کے مسلز دبانے لگی . پیجے کا کھڑا ہو کر میری دُھنی ناف سے
لگ کر اپنی بیچینی اور بیقراری کا پتا دے رہا تھا . پیجا نے اپنی
بانہوں میں اٹھا لیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا مری
باہیں اس کے گلے میں حائل تھیں . مجھے اس نے چارپائی پر لٹا دیا
اور خود چارپائی پر بیٹھ گیا . مجھے دیکھتے ہوئے میرے ہونٹوں
کو اپنی انگلیوں میں مسلنے لگا . میں تڑپ اٹھی اور میں نے
ہاتھ اسکی گود میں رکھا اور اسکی اٹھان کا جایئزا لینے
لگی . اسکی سختی اور گرمی محسوس کر کے میری بھی گیلی
ہو اٹھی اور اس سے ملنے کے لئے پُھدکنے لگی . مجھے
کھجلی ہونے لگی , میں نے آنکھ بچا کر دوسرے ہاتھ سے اسے
کھجانے لگی . پیجا میرے ہونٹوں کو چوم اور چوس رہا تھا .
میں نے ہولے ہولے اسکی شلوار کا نارا ( آزار بند ) کھولا اور
اسکا لن ہاتھ میں لے لیا . افففف کتنا گرم اور لوہے کے راڈ
کی طرح سخت ہاتھ میں لیتے ہی میرے منہ میں پانی آگیا .
میں نے ہولے سے ہاتھ اپنی شلوار میں ڈالا اور چوت کو
مساج کرنے لگی . چوت میں پہلے سے ہی پھسلن بنی ہوئی
تھی پُھدی کے دانے کو چُھوا تو ایک کرنٹ سا لگا
اور میں تڑپ اُٹھی . پیجے نے میرا ہاتھ شلوار میں شرارت
کرتے ہوئے دیکھا تو میرا ہاتھ ہٹا کر اپنے ہاتھ کو اسی کام پر لگا دیا .
میں اسکا لن دبا اور مسل رہی تھی . کافی دنوں کے بعد ہم دونوں
کو چانس ملا تھا . چوت اور لن دونوں ہی ترسے ہوئے لگ رہے
تھے . اسکے لن کی گرمی کے ساتھ ساتھ لن کی پھڑکتی ہوئی
رگیں ہاتھ میں محسوس ہو رہی تھیں . پیجے نے اپنی انگلی لکیر
پر پھیری تو وہ اندر دھنس گئی پیجے نے وہیں انگلی کو مسلنا
شروع کر دیا اور ہاتھ کے انگھوٹھے سے چوت کے دانے کو
مسلنے لگا . میں بے قابو ہو کر مچلنے لگی اور پیجے کے
لن کو زور زور سے دبانے لگی . پیجے نے اٹھ کر اپنی شلوار
اتاری تو میں نے اسے کہا پلیز اپنی قمیض بھی اتار
دو میں تمھیں آور تمہارے جسم کو پوری طرح نہارنا چاہتی ہوں ؛
میں چاہتی ہوں جب چاہوں تمہاری باڈی اور لن کو اپنے
تصور میں لا سکوں . وہ اپنا سب کچھ اتار کر برہنہ ہو گیا
میں اسے محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی . سچی بہت
خوبصورت باڈی تھی پیجے کی اگر ایسے برہنہ بھر نکل جاۓ
تو عورتیں راستہ بھول جائیں . کئی گھر برباد ہو جایئں . میرے
یار پیجے کی بات ہی نرالی تھی مگر یہ ہماری آخری ملاقات تھی
کیونکہ پیجے کی منگنی پینو کے ساتھ ہونے جا رہی تھی اور پینو
میری سہیلی ہے . میں نے یہی سوچا کہ پینو سے منگنی سے پہلے
میں پیجے سے آخری بار چدوا کر مزہ لے لوں . پیجے نے
بھی وعدہ اور ارادہ تو یہی کیا تھا مگر اس کے دل میں کیا
ہے کون جانے . ہو سکتا ہے منگنی یا شادی کے بعد پھر مجھے
چودنے کے لئے اس کا من چاہنے لگے . مگر میں نے تو پکا
خود سے اقرار لے لیا ہے کہ پیجو کے ساتھ میری بس .
" پیجے " میں نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے پکارا
" جی سیمو " وہ بڑے پیار سے بولا
" مر جاۓ تیری سیمو پیجیا ؛ میرے کپڑے وی لا ہ دے تے
مینو وی ننگی کر دے . میں چاہتی ہوں تم مجھے آخری بار
رج کے ( جی بھر کے) دیکھ لو . اور مجھے وہ مزہ دو جسے
میں کبھی بھلا نہ پاؤں . پیجے نے ہولے ہولے مجھے کپڑوں
سے آزاد کرا لیا اور چارپائی پر بیٹھ کر میرے مموں سے کھیلنے
لگا . میرا ہاتھ ابھی تک اس کے لن سے کھیل تھا . میں اسکی
ٹوپی کے سر پر انگلی سے ٹچ کرتی اور اسکی مذی صاف
کرتی مگر مذی پھر آ جاتی . پیجا میرے ممے ہاتھ سے دباتا انہیں
چومتا اور نپلز کو چوستا . میں اسے بالوں سے پکڑ کر
اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انہیں چومنے لگی
پیجے نے اپنی زبان مرے منہ میں دی تو میں اس سے اپنی زبان
لڑانے لگی . اور اس نے میری زبان قابو میں کر لی اور چوسنے لگا
جیسے جیسے وہ میری زبان چوستا مجھے لگتا جیسے میری جان
بھی نکلتی جا رہی ہے . پیجے اب دیر نہ کرو پلیز اب
چودنے کا سوچو . ایسا نہ ہو کوئی آجاۓ . پیجا میری ٹانگوں کے
بیچ آ بیٹھا اور میرے چوتروں کے نیچے ہاتھ رکھ کر انہیں تھوڑا
اٹھایا اور اپنی جیبھ میری پُھدی پر رکھ کر اسے چاٹنے لگا .
میں نے اسکے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر کیا اور اسکی
آنکھوں میں دیکھتے بولی کہ مجھے کُتیا بننے دو اور میں اٹھ کر
کُتیا بن گئی اور وہ کُتا بن کر میری پُھدی کو سونگھنے
لگا . جیسے جیسے سانس کی گرم ہوا میری پُھدی سے
ٹکراتی میرے منہ سے لذت بھری سسکاری نکلتی . پھر وہ
اپنی زبان سے چوت کو چاٹنے لگا اور میں مزے سے اپنا
سر پٹخنے لگی . تھوڑی دیر بعد ہی چوت نے اپنا رس
پیجے کے منہ میں اُگل دیا . . مگر میرے گھٹنوں طاقت
ہی نہ رہی اور میں چارپائی پر سیدھی ہو کر لیٹ گئی
پیجا میری ٹانگوں کے بیچ ہی رہا پیجے نے پھر گڑوی
پر لگا دیا اور چسکیاں لے کر جوس چاٹتا رہا میں مزے
میں شرشار اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی جب
برداشت سے باہر ہوا تو اس کو بالوں سے پکڑ کر
اپنے اوپر کھینچ لیا اور اسکے ہونٹوں پر لگا اپنا رس
چکھنے لگی وہ مجھے یمی لگا تو میں اسکی زبان چوسنے
لگی .اس کا اکڑا ہوا لن میری رانوں میں چوت سے ٹکرا
رہا تھا اور کافی بپھرا ہوا لگتا تھا اب شاید وہ صبر کرنے
کے موڈ میں نہ تھا . میں لیٹے لیٹے اسے ہاتھ میں لے کر
اسے اپنی چوت پر مسلنے لگی . پیجا دو زانو ہو گیا اور
میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھے اور اپنے لن کو چوت
کے دھانے پر رکھا اور ایک ہی جھٹکے سے اندر جا چوٹ لگائی
افففففففف ظالم کہتے ہوئے میں نے اس کو باہوں میں لے کر بھینچ لیا
اور اسکو چومنے لگی جیسے جیسے اسکی سپیڈ بڑھتی گئی میری
میں اضافہ ہوتا گیا میرے منہ سے لطف آمیز آوازیں نکلتیں . میں نے
پیجے کی کمر کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ لیا جس سے میرے چوتڑ
تھوڑا اوپر اٹھ گئے جس سے پیجا کو ہٹ ہٹ کر دھکے لگانا
آسان ہو گیا اب میری چوت اس کے لن کے سامنے ایک ڈش کی
تھی اور اپنی مرضی سے اسے کھود رہا تھا میں اس پر قربان
ہوتی جا رہی . میرے منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکلتیں اور
بے خودی میں نہ جانے کیا کیا بولتی جا رہی تھی .
پیجا دھکے پر دھکے مارتا خود بھی منزل ہونے کے قریب
آ پہنچا اسکی سانسوں کی رفتار بہت تیز ہو گئی اور اسکے دھکے
کی چوٹ سخت اور گہرائی میں جا لگتی جس کی وجہ سے مجھ
میں لذت کی لہر پھر سے اٹھنے لگی اور میں بھی اسکے دھکوں
کا جواب دینے لگی . آخر پیجا بولنے لگا وہ سیمو میں گیا
سیمو مزہ ہی مزا سواد ہی سواد اور پھر اس نے اپنا سب
کچھ میرے اندر ہی ڈالدیا اور اینٹھتا ہوا میرے اوپر ہی
گر گیا . اس کا گرم گرم لاوے نے میری گرمی کو ٹھنڈا کر
دیا تھا اس کے ساتھ میں پھر سے فارغ ہو گئی . اور میں
اسے پیار کرنے لگی اور اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگی
تھوڑی دیر بعد اس کا لن میری چوت سے ہولے ہولے باہر
پھسل آیا اور پیجا میرے اوپر سے میرے پہلو میں لیٹ گیا ابھی
تک اسکی سانسیں ہموار نہ ہوئیں تھیں . میں اٹھ کر بیٹھی اور
اسکے کو آخری بار ہاتھ میں لے کر صاف کیا اور پھر اسے
منہ لے کر چوپا لگا کر اس سے الوداع ہونے لگی .
ہم دونو نے پھر کپڑے پہنے . ابھی تک کوئی نہ آیا تھا . میں
پیجے کے گلے مل کر اپنے گھر چلی ائی . تھوڑی دیر بعد میری
ساس بھی آ گیں اور کھانا کھا کر جلد ہی سو گیں . پیجے نے چدائی
جم کر کی تھی جس کی بدولت میں بڑی اسودہ اور مطمین
تھی ؛ اور ایک مدّت کے بعد مجھے گہری نیند آئی اور میں میٹھی
نیند سوئی . صبح اٹھنے کے بعد حسب معمول ناشتہ وغیرہ کیا .
ابھی ٩ نہیں بجے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی دروازہ کھولا تو حیران و ششدر رہ گئی
جاری ہے