ads

Mamno Muhabbat - Episode 1

ممنوع محبت

 از عثمان خان

قسط نمبر 1




شام کے ساتھ بج رہے تھے یہ سردیوں کی ایک سرد شام تھی ہلکی بارش اس شام کو اور زیادہ سرد بنا رہی تھی 16 سالہ حسن ٹویشن سے چھٹی کر کے واپس اپنے گھر کی طرف بھاگا جا رہا تھا گھر پہ اس کی بوڑھی ماں نام شکیلہ اس کے انتظار میں نظریں دروازے پہ جمائی بیٹھی تھی اور بار بار حسن کہ ابو کو کہہ رہی تھی کہ وہ جا کہ اسے لے آئے اتنی سردی میں پتا نہیں کہاں ہو گا لیٹ کیوں ہو گیا حسن کا باپ جو کہ ایک مل میں مزدور تھا تھوڑی دیر پہلے ہی کام سے تھکا ہارا واپس آیا تھا اور حسن کی ماں کو سمجھاۓ جا رہا تھا کہ اس کا بیٹا ابھی آنے والا ہو گا دوسری طرف حسن کی بڑی بہن زینب عمر 21 سال کمرے کے دروازے سے لگی اپنے چھوٹے بھائی کی خیریت سے گھر پہنچنے کی دعا کر رہی تھی حسن اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ماں کو سکون ملتا ہے اس کے آنے پہ بہن اسے کمبل لا کے دیتی ہے اور ماں چوم کہ دعائیں. 

 یہ ایک غریب گھرانا تھا جس میں رہنے والے حسن اس کی بیمار ماں بوڑھا باپ اور اس کی ایک بڑی بہن یہی لوگ تھے گھر کے نام پہ دو کمرے تھے اور ایک چھوٹا سا صحن کمروں میں ایک کمرا اس کی ماں باپ اور اس کی بہن کا تھا اور دوسرا کمرا حسن کو چھوٹا اور پڑھائی کرنے والا ہونے کہ وجہ سے حسن کو ایک علیحدہ کمرا دیا گیا تھا تاکہ اس کی پڑھائی میں کوئی کمی نہ آۓاور اس امید پہ کہ وہ پڑھ لکھ کہ اپنے ماں باپ اور اپنی آنے والی زندگی کو بہتر بنا سکے گا اور اس بات میں بھی کوئی شک نا تھا کہ وہ پڑھنے میں اچھا لڑکا تھا

 گھر میں کچن کے نام پہ ایک چھوٹا سا ڈربا تھا 

 زینب جوکہ حسن کی بڑی بہن اور اس کی ایک اچھی دوست بھی تھی پڑھائی کہ اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ مشکل سے 5 جماعتیں ہی پڑھ پائی اور اس کے بعد اسے گھر بیٹھا دیا گیا زینب ایک سمجھدار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی پڑھائی زیادہ نہ ہونے کہ باوجود بھی اس میں ایک سمجھداری تھی گھر کو سمبھالنا اب اسی کہ ذمہ تھا زینب سارا دن گھر کہ کاموں اور ماں کی خدمت میں لگی رہتی ہے اور پھر شام کو ماں کے ساتھ ساتھ بھائی اور باپ کی بھی اس کی زندگی بس اسی چار دیواری میں گزر رہی تھی وہ ایک سادہ سی مگر خوبصورت لڑکی تھی 21 سال کی ہو جانے کی وجہ سے اس کے جسمانی خدوخال بھی اچھے تھے بھرا ہوا سینا پتلی کمر اور پھری ہوئی بیک سائیڈ مگر دیکھنے میں سب پرفیکٹ تھا بس کمی تھی تو اس کے پاس کپڑوں کی اس کے پاس گن چن کہ کوئی 4 جوڑے ہی تھے جو سادے اور پرانے تھے اس کی کوئی زیادہ خواہشات بھی نہ تھی کہتے ہیں نا کہ انساں کہ بس میں جو چیز نہ ہو وہ اسے پھر دوسروں میں ڈھونڈتا ہے اور زینب بھی ایسی ہی تھی وہ خود تو پڑھ نہ پائی اور نہ اپنی زندگی کو سنوارنے کہ لیے کچھ کر سکی مگر اس کو اپنے بھائی سے بہت امیدیں تھی اور وہ اسی کو ہی واحد سہارا سمجھتی تھی کہ جو اسے یا پھر کم از کم خود کو اس غریبی سے نکالے گا

 حسن اپنے کمرے میں جاتا ہے اور بستہ رکھ کہ کپڑے چینج کرنے لگتا ہے اور اس کی بہن زینب اس کے لیے کھانا لانے چل پڑتی ہے زینب ہمیشہ کھانا اپنے بھائی کہ ساتھ ہی کھاتی ہے حسن کپڑے چینج کر کے بیٹھا زینب کا انتظار کر رہا ہوتا کہ کہ زینب کھانا لاتی ہے اور وہ دونو کھانے لگتے ہیں اور روز کہ جیسے زینب اس سے دن کہ حالات پوچھنے لگتی ہے

 زینب: بھائی کیسا رہا تمھارا دن آج تو بہت سردی لگ گئی ہو گی

 حسن:باجی اچھا رہا مگر شام کو ٹویشن سے آتے ہوۓ بہت سردی لگی 

 زینب اور اس کے بھائی کہ بیچ معمول کی گفتگو جاری ہو جاتی ہے گھر میں دونو ہم عمر ہو نے کی وجہ سے زیادہ ایک دوسرے کہ قریب تھے اور دونو ایک دوسرے سے باتیں کر کہ ہی اپنا ٹائم گزارتے کیوں کہ زینب گھر اکیلے رہ کر بہت اداس ہو جاتی تو حسن سے باتیں کر کہ اس کا دل بہل جاتا 

 اب تک سب کچھ نارمل چل رہا تھا مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کی اس دکھوں سے بھری زندگی میں اور زیادہ دکھ آنے والے ہیں 

 حسن اور زینب کھانا کھا کے فارغ ہوتے ہیں اور وہیں بیٹھ کہ کئی گھنٹے باتیں کرتے رہتے ہیں زینب کہ لیے یہ وقت بہت اچھا ہوتا ہے جب وہ دن بھر اکیلی کام کاج کرنے سے تھک ہار کر شام کو حسن کے ساتھ باتیں کر کے اپنے اکیلے پن کو دور کرتی تھی ماں بیمار اور باپ مزدور شام ہوتے ہی سو جاتے تو زینب کہ لیے اکلوتا اس کا بھائی حسن ہی تھا جسسے وہ اپنے دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی تھی رات اب زیادہ ہونے لگی تھی زینب کا بس چلتا تو وہ ساری رات بھائی کے سکول کی باتیں اور اسے اپنی باتیں سناتی بیٹھی رہتی مگر وہ جانتی تھی کہ صبح حسن نے سکول جانا ہے اور اسے بھی صبح جلدی اٹھ کے باپ کو کام پہ بھی بھیجنا ہے اور یہی سوچ کہ وہ حسن کو سونے کا کہہ کہ کھانے کے برتن اٹھاتی ہے جو کب کہ وہیں پڑے تھے اور کمرے سے نکل جاتی ہے حسن بھی اپنے بستر پر سو جاتا ہے 

 صبح ہمیشہ کہ جیسے زینب سب سے پہلے اٹھتی ہے اور ناشتا بنانے لگتی ہے اس کا باپ بھی ابھی اٹھنے والا تھا کہ وہ صبح جلد کام پہ جاتا اور شام کو آتا تھا زینب اپنے باپ کو ناشتا کرواتی ہے اور وہ اپنے کام پہ نکل جاتا ہے اور اب وہ اپنے بھائی کہ کمرے کی طرف چل پڑتی ہے تاکہ اسے جگاۓ یہ اس کی نارمل روٹین تھی حسن جو ابھی سو رہا ہوتا ہے اپنی بڑی بہن زینب کے ہلانے بھی آنکھیں کھولتا ہے تو اس کے سامنے اس کی بہن چھک کے اس کا بازو ہلا رہی ہوتی ہے اور اسے اٹھنے کا بول رہی ہوتی ہے حسن اٹھتا ہے روز کہ جیسے ناشتہ کرتا ہے اور سکول کے لیے نکل جاتا ہے دوسری طرف اب زینب نے اپنی بیمار ماں کو ناشتہ کروانا تھا اور پھر گھر کے دوسرے کاموں میں لگ جانا تھا 

 آج کا دن نارمل لگ رہا تھا سب اپنے نارمل کاموں میں تھے مگر حسن اس بات سے ناواقف تھا کہ اس کی زندگی کا ایک نیا سبق اسے سیکھنے کو ملے گا 

 حسن پڑھائی میں اچھا ہونے کہ وجہ سے ہمیشہ اپنے استادوں کا پسندیدہ رہا وہ ایک گورنمنٹ سکول میں پڑھتا تھا تو آوارہ بچوں کی بھرمار ہونے کہ باوجود بھی وہ ان سے دور رہتا 

 سیکس نام کی چیز سے حسن واقف تو تھا مگر ایک بہت ہی قلیل حد تک یا جسے نہ ہونے کہ برابر کہنا غلط نہ ہو گا 

 اس دن بریک ٹائم وہ اپنی گلاس میں بیٹھا تھا اوراپنے گھر سے کے کہ آۓ کھانا کھانے میں مصروف ہوتا ہےجو کہ وہ اکثر کرتا تھا کہ اسے اپنے پیچھے سے کسی کی باتیں کرتے ہوۓ آوازیں آئی اس نے جب مڑ کے دیکھا تو اس کی کلاس کے کچھ آوارہ لڑکے آپس میں کچھ باتیں کرنے میں مصروف تھے وہ باتیں بھی کرتے اور ہنستے بھی حسن کو ان کا یہ انداز بہت عجیب لگا اور سوچنے لگا آخر ایسی کون سی باتیں یہ کر رہے جو اتنا ہنس رہے ہیں وہ اٹھا اور ان کے پاس جا کہ ان کی محفل میں بیٹھنے لگا کہ وہ سب اسے دیکھ کہ ایک دم چپ ہو گۓ وہ بیٹھتے ہی ان کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا کہ آخر کو لوگ چپ کیوں ہو گے اتنے میں ایک لڑکا مزاکیا انداز میں بولا اوۓ حسن ادھر کدھر یہ سن کہ حسن نہ کہا یار تم لوگ باتیں کر رہے تھے اور اتنا ہنس رہے تھے تو مینے سوچا تم لوگوں کہ پاس آ کر بیٹھو اور میں بھی یہ باتیں سنو اتنے میں ایک لڑکا روز سے ہنستے ہوئے بولا "بچے یہ تمھارے سننے کی باتیں نہیں ہیں اور حسن کو وہاں سے جانے کا کہا" حسن بہت شرمندہ ہو رہا تھا مگر اس سے زیادہ وہ اس سوچ میں گم تھا کہ آخر وہ ایسی کیا باتیں کر رہے تھے جو اس کے بس کی نہیں تھی 

 تھوڑی دیر بعد بریک ٹائم ختم ہوتا ہے اور سب پھر پڑھنے لگتے ہیں حسن اس بات کو اپنے دل و دماغ سے نکال چکا ہوتا ہے چھٹی ہوتی ہے اور حسن اپنے سکول سے پیدل ٹیوشن سنٹر کی جانب چل پڑھتا ہے کہ اسے اپنے پیچھے سے آواز آتی ہے کوئی اس کا نام لے کہ پکار رہا ہوتا ہے وہ رک کہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اسے کاشف نظر آتا ہے جو دوڑتا ہوا اس کی طرف پڑھ رہا ہوتا ہے اور اسے آوازیں بھی دے رہا ہوتا ہے کاشف حسن کا کلاس فیلو تھا اور ان لڑکوں کہ گروپ میں بھی شامل تھا جو آپ کچھ باتیں کر رہے تھے جسے حسن کو سنے سے منع کیا تھا 

 کاشف حسن کہ پاس پونچتا ہے اور اسے اکھٹے ٹیوشن سنٹر جانے کا کہتا ہے اور وہ دونو اکھٹے چل پڑھتے ہیں ابھی حسن کچھ بولتا اس سے پہلے کاشف بولا سوری حسن بھائی آج لڑکوں نے تمھیں اپنے ساتھ بیٹھنے نہ دیا حسن جو کہ اس بات کو بھول چکا تھا اسے اچانک یاد آگئی اور اب اسے جستجو ہونے لگی کہ آخر وہ ایسی کیا باتیں کر رہے تھے حسن کاشف سے یہی سوال پوچتا ہے جس کے جواب میں کاشف اسے اتنا ہی بولتا ہے کہ حسن بھائی آپ ان سب میں نہ پڑھو مگر اب حسن کی جستجو اور پڑھنے لگی اور وہ بار بار کاشف سے ایک ہی سوال پوچھنے لگا کاشف ایک نالائق لڑکا تھا اور وہ ایک پورے پلین کہ ساتھ حسن کہ پاس آیا تھا کہ وہ حسن کو سب بات بتاۓ گا اور اس کہ بدلے وہ اس سے اپنے ٹیسٹ میں کبھی کبھی زیادہ نمبر لگوا لیا کرے گا حسن چونکہ لائق تھا تو کبھی کبھی ٹیچر اس کو بچوں کا ہوم ورک یا ٹیسٹ چیک کرنے کا کہ دیتے تھے 

 کاشف نے اپنے دل کی بات حسن کو بتا دی کہ اگر کبھی وہ اس کا ٹیسٹ یا ہوم ورک چیک کرے گا تو وہ اسے مار کھانے سے بچا لیا کرے گا حسن نے کبھی ایسا نا کیا تھا اور ڈرتا بھی بہت تھا مگر اس بات کو جاننے کی جستجو میں وہ کاشف کی بات ماننے کے لیے رازی ہو گیا 

 اب کاشف نے اپنی بات شروع کی اور حسن سے سوال کر ڈالا کہ کیا وہ سیکس کے بارے جانتا ہے حسن اس کے ایسے سوال سے تھوڑا حیران ہوا کہ یہ کیسا سوال ہے کہ اتنے میں کاشف نے دوبارہ اپنا سوال دھراتے ہوئے کہا کہ بتاؤ اگر تمہیں وہ باتیں جاننی ہیں تو حسن جو کہ ہمیشہ ان چیزوں اور لڑکوں سے دور رہتا تھا آج اسے یہ سب جاننے کی جستجو تھی تو وہ بولنے لگا کہ لڑکے اور لڑکی کہ بیچ کندے کام۔۔۔۔۔ اتنا بول کہ وہ چپ ہو گیا حسن کی سیکس کے بارے معلومات بہت کم تھی وہ بس اتنا ہی جانتا تھا کاشف اس کی اس بات کو سن کے بولا کے کبھی دیکھا بھی ہے کاشف کہ ایسے سوال حسن کو حیران کر رہے تھے.


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments